بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک سوال عام طور پر اٹھا یا جاتاہے کہ ناموس صحابہ کے تحفظ کے عنوان سے جو تحریک اٹھی اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوا !؟ ہمارے دینی ادارے اور ہمارے مذہبی رہنما غیر محفوظ ہوگئے ۔ مسجدوں اور مدرسوں پر حملے ہونے لگے اور اسلام کے مقدس ترین مقامات کا تقدس پامال ہوگیا ۔مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ تحفظ ناموس صحابہ کی تحریک کا کیا دھرا ہے ۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا !؟ حضور علیہ السلام پر سجدہ کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی کس مقام پر ڈالی گئی ۔ آپکے گلے میں چادر کو بل دیکر قتل کرنیکی کوشش کس مقام پر کیگئی ! حضرت ابو بکر صدیق کو تبلیغ اسلام کے جرم کی پاداش میں مارمار کر کس مقام پر بیہوش کیا گیا ۔ کیا یہ سب کچھ کائنات کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ میں نہیں کیا گیا !حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں شہید کیا گیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت راشدہ کے دارالسلطنت کوفہ کی جامع مسجد میں شہید کیا گیا ۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر دمشق کی جامع مسجد میں قاتلانہ حملہ کیاگیا ۔ آج مساجد ومدارس پر حملے اور مذہبی شخصیات کی شہادتوں کو ’’ تحفظ ناموس صحابہ ‘‘ کی تحریک سے جوڑنے والوں سے منطقی طور پر یہ سوال کیا جاسکتاہے کہ کیا یہ سب لوگ ناموس صحابہ کی تحریک چلارہے تھے کیا قرون اولی میں مسجدوں اور مدرسوں کا تقدس پامال ہونیکی یہی وجہ تھی ؟اس سوال کا جواب سمجھنے کیلئے ہمیں اسلام دشمن عناصر کی ذہنیت کو سمجھنا ہوگا ۔ باطل کا انداز ہر دور میں یہی رہا ہے کہ مال کی بنیاد پر اہل حق کو خرید لو اور اگر اسمیں کامیابی نہ ہو تو طاقت کے زور پر راستہ سے ہٹادو ۔ ہر دور میں باطل کا یہی طریقہ واردات ہاہے ۔ رافضیت جو کہ یہودیت کا اسلامی ایڈیشن ہے ۔ اس کے اصولوں میں ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ اپنے مخالفین کو ہٹادیا جائے اس کے لئے وہ اسبات میں کوئی تفریق نہیں کرتے کہ ہدف بنا یا جانیوالا شخص ’’ تحفظ ناموس صحابہ ‘‘ سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں ! ہمارے ملک میں ناموس صحابہ کے موضوع پر تنظیم اھل سنت کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھائی گئی پھر تحفظ حقوق اھل سنت کے نام سے آواز بلند کیگئی پھر سپاہ صحابہ کے نام سے آواز اٹھی اس پر پابندی لگنے کے بعد ملت اسلامیہ کے نام سے شیرازہ بندی کی گئی مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رافضیت نے جن علماء کرام کی جانیں لی ہیں وہ سب کے سب مذکورہ بالا تنظیموں سے منسلک نہیں تھے اب تک جو لوگ رافضیت کی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں ان میں ایسے حضرات بھی شامل ہیں جو سپاہ صحابہ کے انداز اور طریقہ کار سے متفق نہیں تھے ۔
حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہید حضرت مولانا ایثار القاسمی شہید حضرت مولانا ضیاء الرحمن فاروقی شہید حجرت مولانا اعظم طارق شہید رحمھم اللہ کے علاوہ بھی ناموس صحابہ کے تحفظ کیلئے جان دینے والے علماء کی ایک طویل فہرست ہے مگر ہم یہ پوچھتے ہیں کہ مرکزی مسجد اسلام آباد کے خطیب حضرت مولانا عبد اللہ شہید ، پیر طریقت حضرت مولانا محمد یوسف لدھانوی شہید ، عظیم مصنف ومحقق ڈاکتر حبیب اللہ مختار شہید ، مسند تدریس کی زینت حضرت مولانا مفتی عبد السمیع شہید رحمھم اللہ اور ان جیسے دوسرے بہت سے علماء کرام اور قائدین اسلام جو کہ رافضیت کی تیغ قاتل کا شکار ہوئے انکا کیا قصور تھا ۔اگر سپاہ صحابہ یا اس کے قائدین روافض کے خلاف تحریک چلارہے ہیں تو انکا ہدف بھی وہی لوگ بننے چاہئیں مگر علماء حق کو بلاتفریق اپنا نشانہ بنانا اور ان کے معصوم خون سے اپنے ہاتھ رنگنا اسبات کی واضح دلیل ہے کہ دشمنان اسلام کے پیش نظر سپاہ صحابہ نہیں بلکہ علماء حق اور علماء اسلام ہیں اور شہادتوں کے سنہری سلسلہ میں بلا امتیاز ہر وہ شخص شامل ہوسکتاہے جسے باطل پرست اپنے راستہ کی رکاوٹ سمجھتے ہوں !
جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باطل یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ حق کے خلاف آخری راؤنڈ کھیل رہا ہے اور ان مذہبی شخصیات کو راستہ سے ہٹا کر وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرلیگا مگر یہ اس کی بھول ہے ۔ اگر تاتاریوں کا قتل عام اسلام کی زندگی مختصر نہ کرسکا اور عیسائیت کا انددھا طوفان اسلام کا کچھ بگاڑ نہ سکا تو یہودیت کا موجود ہ سیلاب بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے گا ۔
پیرس میں یہودیت کی کوکھ سے جنم لینے اور سیکولرازم کی گود میں بیٹھ کر پرورش پانے والے ’’ خمینی انقلاب ‘‘ نے جس انداز پر پیش قدمی شروع کی تھی اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاتھا کہ پورا عالم اسلام رافضیت کیلئے ترنوالہ بن جائیگا اور بڑی بڑی دیواریں ایک ہی دھکے سے زمین بوس ہوکر رہجائیں گی مگر اس موقع پر وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے علماء حق کے قافلہ کے ایک فرد اپنی پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آگے بڑھے ۔ موقع کی نزاکت کو سمجھا ۔ وقت کی ضرورت کا ادراک کیا اور امت کی بروقت رہنمائی کیلئے رافضیت کے عربب، فارسی اور اردو میں پھیلے ہوئے لٹریچر کو کھنگال ڈالا اور اپنا حاصل مطالعہ ’’ ایران ، خمینی انقلاب اور شیعت ‘‘ کے نام سے امت کے سامنے پیش کردیا ۔ مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ علیہ کی اس کاوش کی صداے بازگشت بن کر مولانا حق نواز جھنگوی شہید تقریر کے میدان میں اتر آئے اس طرح ایک بوڑھے شیخ وقت کے تجربہ اور نوجوان عالم دین کے جوش وولولہ نے ’’ خمینی انقلاب ‘‘ کے آگے بند باندھ دیا اور عالم اسلام میں ایسی بیداری پیدا کردی کہ اس نے مسلمانوں کے بچہ بچہ کی زبان پر وہ نعرہ جاری کردیا جس سے رافضیت کا قلعہ لرزہ بر اندام ہو کر رہ گیا۔ اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا ۔ نہ ڈالروں اورثمن کا سیلاب اہم حق کو خرید سکا اور نہ دہشت گردی اور بنیا د پرستی کی دھمکیا ں اور قید وبند کی صعوبتیں جھکا سکیں ۔ طریق کو ہکن میں وہی چنگیزی حیلے آزمائے جانے گلے اور علماء حق کی لاشوں کے تحفے ملنے لگے اور شہادتوں کی کڑی سے کڑی ملنے لگے اور یہ سنہری سلسلہ جاری وساری رہا اور شہداء کے قافلے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے اور مولانا اعظم طارق بھی اس قافلہ شہداء میں شامل ہوکر اپنے خون سے دشمنان صحابہ کے کفر کو آشکار کر گئے انہیں راستہ سے ہٹانے کیلئے بہت سے حربے آزمائے گئے دودرجن سے زیادہ قاتلانہ حملے کئے گئے ۔ مگر عزم واستقلال کے پہاڑ کی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔وہ دلائل کی بنیاد پر اپنا موقف ثابت کرنے کیلئے اسمبلی میں پہنچے اور ہاں بھی نعرئہ حق بلند کیا ۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ قرآن کریم میں تحریف کا قائل کافر ہے ۔ اگر ایک قادیانی پر وحی کا قائل کافر ہے تو گیارہ اماموں پر وحی کا قائل گیارہ مرتبہ کافر ہے ۔ کسی مسلمان کو کافر کہنے والا کافر ہے تو اسلام کی عظیم ترین شخصیات اور نزول قرآن کے عینی شاھدین صحابہ کرام کو کافر کہنے والا بدرجہ اولی کافر ہے ۔ دوسری مرتبہ انکا اسمبلی میں پہنچنا ناممکن سمجھا جارہا تھا انکے دوٹ توڑنے کیلئے دو مذہبی شخصیات مد مقابل تھیں زر اور زن دونوں کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا مگر بھر بھی اللہ کا شیر پوری سج دھج کے ساتھ ایوان میں گرجنے اور برسنے کیلئے پہنچ گیا ۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ۔اس جان کی کوئی بات نہیں
اعظم طارق شہید کا اسمبلی میں پہنچنا ہی ان کے موقف کا واضح ثبوت تھا ۔ مولانا اعظم طارق شہید جب پہلی مرتبہ الیکشن میں کھڑے ہوئے تو انہیں پینتیس ہزار ووٹ ملے مگر اس کے باوجود وہ جیت نہ سکے ۔ ایک جلسہ میں کسی نے پرچی بھیجی کہ آپ ہارگئے تو مولانا نے فرمایا : میں ہارا نہیں ۔ جیتا ہوں ۔ اسلئے مجھے دوٹ دینے والوں نے ووٹ نہیں دئے رافضیت کے کفر پر دستخط کئے ہیں ۔ ابتک میں اور میرے احباب جو کچھ کہہ رہے تھے اب پینتیس ہزار مسلمانوں کا مجمع وہی بات کہکر میری آواز میں آواز ملانے لگا ہے ۔مگر اس مرتبہ شہید کا انداز دوسرا تھا وہ باطل کی صفوں میں گھس کر اپنا نعرہ لگانا چاہتے تھے ۔ باطل یہ کڑوی گولی حلق سے نیچے اتار نے کیلئے تیار نہیں تھا ۔ وہ اوچھے ہتھگنڈوں پر اتر آیا اور اپنا راستہ صاف کرنے کیلئے وہی کام کیا جو دلائل سے محروم لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اعظم طارق شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے مگر اپنے خون سے ہر مسلمان کے دل پر اپنا موقف نقش کرگئے ۔ ان کی تنظیم اور ان کے طریقہ کار سے کسی کو لاکھ مرتبہ اختلاف ہو مگر آج ہر مسلمان ان کے موقف کو بر حق اور سچا سمجھتا ہے ۔ جولوگ ان کے موقف سے اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ سارے شیعہ کافر نہیں ہیں اسکا مطلب واضح ہے کہ بعض شیعہ کو تو وہ بھی کافر مان رہے ہیں حتی کہ شیعہ خود یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ہمارے بعض فرقے کافر ہیں ہم کافر نہیں ہیں ۔
یہ بیداری ہی اس سوال کا جواب ہے کہ ہمیں شہادتوں سے کیا ملا؟
تحریر: حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب