سورت کے شروع میں قرآن کریم کے کلام رب العالمین ہونے اور تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہونے کا بیان ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد اور تخلیق انسانی کے مختلف مراحل سے استدلال کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان بوسیدہ ہو کر زمین کی وسعتوں میں گم ہو جائے گا تب بھی اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ کر لیں گے۔ پھر مجرمین کی مذمت اور قیامت کے دن ان کی بے کسی اور بے بسی کو ذکر کرتے ہوئے انہیں جہنم کی ذلت و رسوائی کا مستحق قرار دیا ہے جبکہ ایمان والے جن کی زندگیاں عجز و انکساری کا پیکر بن کر رکوع، سجدے اور تسبیح و تحمید میں گزرتی ہیں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور جنت کے باغات میں بہترین مہمانی اور عمدہ ترین جزا کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰؑ اور ان کی کتاب ہدایت بنی اسرائیل کے لئے نظام حیات کے طور پر عطاء کی گئی، اس سلسلہ میں کسی قسم کے شکوک و شبہات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ حق کی فتح کا دن کون سا ہو گا؟ آپ بتا دیجئے کہ فتح کا دن جب آئے گا تو تمہارا ایمان کام نہیں آ سکے گا۔ لہٰذا ان سے چشم پوشی کرتے ہوئے اللہ کے فیصلہ کا آپ بھی انتظار کیجئے۔ وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔
٭٭٭