⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴پینتیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ ملتان کے قلعے پر چھوٹی چھوٹی منجنیقیں رکھی ہوئی ہیں جن سے چھوٹے سائز کے پتھر پھینکے جاتے ہیں، جاسوسوں نے یہ خاص طور پر دیکھا کہ ملتان کی فوج کے پاس آگ والے تیر نہیں تھے۔
سکہ کو چونکہ زمین کے ساتھ ملا دیا گیا تھا اس لئے وہاں ایسی ضرورت نہیں تھی کہ شہری انتظامیہ کے لیے حاکم اور عمال مقرر کیے جاتے، محمد بن قاسم نے رات کے وقت دریا پر کشتیوں کا پل بنوایا، جب یہ پل بنایا جارہا تھا اس وقت مجاہدین کا ایک دستہ کشتیوں کے ذریعے دریا کے پار چلا گیا تھا ،یہ ایک حفاظتی انتظام تھا ،خطرہ تھا کہ کشتیوں کا پل بنانے کے دوران دشمن حملہ کر دے گا۔
صبح طلوع ہوئی تو مجاہدین کا آدھے سے زیادہ لشکر دریا پار کر چکا تھا، منجنیقیں بڑی کشتیوں پر پار لے جائی جا رہی تھیں، محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ ملتان سے تھوڑی دور خیمہ گاہ بنا لی جائے ،محمد بن قاسم خود دریا کے کنارے کھڑا اپنے لشکر کو کشتیوں کے پل سے گزرتے دیکھ رہا تھا اور اس کا جو لشکر پار چلا گیا تھا اس نے ایک طرف خیمیں گاڑنے شروع کر دیئے تھے۔
ملتان شہر میں اس خبر نے ہڑبونگ بپا کر دی کہ مسلمانوں کی فوج آ گئی ہے، بجھرا اور کورسیہ دوڑتے نکلے اور شہر کی دیوار پر چڑھ گئے، انہوں نے دیکھا کہ مسلمان خیمے گاڑ رہے تھے۔
میں حکم دیتا ہوں کہ قلعے کے دروازے مضبوطی سے بند کر دیے جائیں۔۔۔ کورسیہ نے کہا ۔۔۔اور ہر دروازے کی حفاظت پر جو سپاہی ہوں ان کی تعداد دگنی کردی جائے۔
نہیں کورسیہ!،،،،،،، بجھرا نے کہا ۔۔۔۔ہم مسلمانوں کو اتنی مہلت نہیں دیں گے کہ وہ قلعے کا محاصرہ کر سکیں ،ہم انہیں قلعے سے دور ختم کردیں گے، ہم ان پر باہر نکل کر حملہ کریں گے ،،،،،،،،فوج کو تیاری کا حکم دے دو اور سارے شہر میں اعلان کردو کہ مسلمانوں کا لشکر آ گیا ہے اور تمام وہ آدمی جو تیر اندازی اور برچھیاں نشانے پر پھینکنے کا تجربہ رکھتے ہیں وہ شہر کی دیوار پر پہنچ جائیں ،اور وہ تمام لوگ جو گھوڑ سواری اور تیغ زنی کا تجربہ رکھتے ہیں وہ قلعے کے صدر دروازے کے قریب اکٹھے ہو جائیں۔
شہر میں نقارہ بجنے لگے اور مسلمانوں کی آمد کی اطلاع اور کورسیہ کے احکام بڑی بلند آواز سے سنائی دینے لگے، جن لوگوں کے پاس زیورات اور زیادہ رقمیں تھیں انہوں نے یہ مال و دولت اپنے مکانوں کی دیواروں میں اور فروشوں کے نیچے چھپانا شروع کر دیا ،شہر کے لوگ ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے اور فوج بڑی تیزی سے تیار ہو رہی تھی۔
ادھر مجاہدین کے لشکر نے دریا پار کر لیا تھا اور خیمے گاڑے جا رہے تھے، ملتان کے قلعے کا ایک دروازہ کھلا اور فوج کے سوار دستے باہر نکلنے لگے ان کے باہر نکلنے کی رفتار خاصی تیز تھی باہر نکل کر یہ سوار دستے لڑائی کی ترتیب میں ہورہے تھے، مسلمان ابھی خیمہ گاہ کی تنصیب میں مصروف تھے۔
ملتان کی جو فوج باہر آئی تھی اس کی کمان بجھرا کے ہاتھ میں تھی، وہ للکار کر قلعے سے باہر آیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک ہی ہلّے میں ختم کردے گا، کروسیہ نے بھی یہی بہتر سمجھا کہ بجھرا ہی حملے کی قیادت کرے، کیونکہ اسے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا تجربہ ہو چکا تھا وہ جانتا تھا کہ میدان جنگ میں مسلمانوں کے انداز اور طور طریقے کیا ہیں۔
کورسیہ اور بجھرا نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہایت اچھا دیکھا تھا مسلمان ابھی خیمہ گاڑ رہے تھے رات کو وہ دریا عبور کرتے رہے تھے اس لئے ایک پَل بھی نہیں سو سکے تھے، محمد بن قاسم نے یہ اہتمام کر رکھا تھا کہ زیادہ نفری والے ایک دستے کو خیمہ گاہ کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔
یہ دستہ تیاری کی حالت میں قلعے اور خیمہ گاہ کے درمیان موجود تھا۔
بجھرا نے اپنے سواروں کو حملے کے لیے ایڑ لگانے کا حکم دیدیا، ان سواروں کی تعداد مسلمانوں کے اس دستے سے دو گنا تھی جو خیمہ گاہ کی حفاظت کے لیے موجود تھا ،محمد بن قاسم نے دشمن کے گھوڑوں کو طوفان کی طرح آتے دیکھا تو اس نے محسوس کر لیا کہ اس کا حفاظتی دستہ جس میں سوار بھی تھے پیادے بھی اس حملے کو نہیں روک سکے گا ،اس نے حکم دیا کہ جو کوئی جس حالت میں ہے ہتھیار لے کر لڑائی کی ترتیب میں آجائے۔
حملہ آور زیادہ تیز تھے مجاہدین بھی گھوڑوں پر زین کس رہے تھے کہ ملتان کے دستے خیمہ گاہ کے حفاظتی دستے تک آن پہنچے، اور سندھ کی جنگ کا ایک اور خونریز معرکہ شروع ہو گیا، بجھرا کے دستوں کا یہ حملہ بظاہر بے ترتیب ہلّے جیسا تھا لیکن وہ چوکنا تھا، اسے احساس تھا کہ جو مسلمان خیمہ گاہ میں مصروف ہیں وہ فوراً تیار ہو کر اس پر جوابی حملہ کریں گے، اس نے اپنے کمانڈروں کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مسلمان پیچھے ہٹنے لگے تو اپنے دستوں کو ان کے تعاقب میں نہ جانے دیں ورنہ مسلمانوں کے گھیرے میں آ جائیں گے۔
محمد بن قاسم کے ایک بار تو ہوش اڑ گئے اسے معلوم تھا کہ قلعے میں خاصی زیادہ فوج ہے اگر حملہ آور اس کے مجاہدین پر غالب آگئے تو قلعے سے دشمن کے مزید دستے باہر آجائیں گے اور لڑائی میں شامل ہوکر جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیں گے، ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ عرب سے ابھی کمک نہیں پہنچی تھی۔
خیمہ گاہ والی فوج تیار ہوگئی حملہ آور خیمہ گاہ کے حفاظتی دستے پر غالب آ رہے تھے۔ محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور سالاروں سے کہا کہ وہ حملہ آوروں کے عقب میں جانے کی کوشش کریں اور دونوں پہلوؤں سے بھی دشمن پر حملہ کریں۔
سالاروں نے بڑی عجلت میں اپنے دستوں کو گھیرا ڈالنے کی ترتیب میں کیا اور حملے کے لئے آگے بڑھے، بجھرا نے دیکھا تو اس نے چلا چلا کر اپنے دستوں کو پیچھے ہٹانا شروع کردیا۔
ان کے پیچھے جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا ۔۔۔انہیں پیچھے ہٹنے کی مہلت نہ دو ،،،،،محمد بن قاسم کے احکام قاصدوں کے ذریعے سالاروں تک پہنچ رہے تھے، یہ قاصد اس کام کے ماہر تھے وہ گھمسان کی گتھم گتھا لڑائی میں بھی پیغام پہنچا دیا کرتے تھے، اور کبھی کوئی قاصد مارا بھی جاتا تھا بعض پیغام بلند آواز والے آدمیوں کے ذریعے بھی پہنچائے جاتے تھے۔
مجاہدین کے دستے دشمن کو گھیرے میں لینے کے لئے دور سے پہلوؤں کی طرف ہو رہے تھے لیکن بجھرا اپنے دستوں کو پیچھے ہٹا رہا تھا، پیچھے ہٹے ہٹتے بجھرا کے دستے قلعے کے قریب پہنچ گئے، محمد بن قاسم نے سالاروں کو پیغام بھیجے کہ وہ قلعے کے دروازے تک پہنچ جائیں اور جب بجھرا کے دستے قلعے میں داخل ہونے لگیں تو اپنے مجاہدین بھی قلعے میں داخل ہو جائیں ،لیکن کورسیہ نے یہ خطرہ بھانپ لیا تھا اس نے اپنا ایک دستہ قلعے کے باہر بھیج دیا اس کے لئے یہ حکم تھا کہ جب بجھرا کے دستے دروازوں میں داخل ہو رہے ہوں تو یہ دستہ مسلمانوں کو روک لے اور انہیں دروازوں کے قریب نہ آنے دیں، قلعے کی دیوار پر جو فوجی اور شہر کے لوگ کھڑے تھے ان کے لئے حکم تھا کہ مسلمان قلعے کے قریب آئیں تو ان پر تیروں ،برچھیوں اور پتھروں کا مینہ برسا دیں۔
پھر ایسے ہی ہوا قلعے سے آئے ہوئے دستے بڑی تیزی سے پیچھے ہٹتے گئے انہوں نے مسلمانوں کو گھیرا مکمل نہ کرنے دیا، انہوں نے جانی نقصان بہت اٹھایا لیکن مسلمانوں کے ہاتھ آئے بغیر قلعے میں چلے گئے، کچھ جاں باز مجاہدین تھے جنہوں نے ان کے پیچھے قلعے کے دروازے میں داخل ہونے کی کوشش کی یہ ایک خودکش کوشش تھی جو کامیاب نہ ہوسکی، کامیابی کا کوئی امکان تھا ہی نہیں دشمن کے گھوڑ سوار ایک ہی بار کئی کئی دروازے میں سے اندر کو جاتے تھے تو دروازے میں ہی پھنسے رہتے اور بڑی مشکل سے آگے نکلتے تھے، محمد بن قاسم کے جو جانباز اندر جانے کی کوشش میں ان کے درمیان آگئے وہ بری طرح پھنس گئے، اگر ان میں سے دو چار اندر چلے بھی جاتے تو شہادت کے سوا کچھ بھی حاصل نہ کر سکتے۔
جس جانباز نے دشمن کے پیچھے یا دشمن کے ساتھ قلعے میں داخل ہونے کی سب سے پہلے کوشش کی تھی اس کا نام تاریخوں میں آج تک محفوظ ہیں، یہ تھا زائدہ بن عمیرطائی ،اس کے سوا تاریخ میں اور کسی کا بھی نام نہیں ملتا، زائدہ کا نام بلاذری نے لکھا ہے، اس خودکش اقدام کی طرح زائدہ نے ڈالی، یہ ایک غیر معمولی اور بے مثال شجاعت تھی، زائدہ کو دیکھ کر کئی جانباز اس کے پیچھے چلے گئے لیکن ان میں سے دو تین ہی زندہ رہ سکے تھے، زائدہ بن عمیر کی لاش نہیں مل سکی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زائدہ قلعے کے اندر جا کر شہید ہو گیا تھا۔
ادھر بجھرا اپنے دستوں کے ساتھ قلعے میں داخل ہوا قلعے کا دروازہ بند ہوا اور ادھر سورج غروب ہو گیا ،مجاہدین باہر رہ گئے دیوار کے اوپر سے ان پر تیروں اور چھوٹی برچھیوں کی بوچھاڑیں آنے لگیں جن سے چند ایک مجاہدین اور چند ایک گھوڑے زخمی ہوگئے، سالاروں نے اپنے دستوں کو فوراً پیچھے ہٹا لیا۔
دستور اور معمول کے مطابق مجاہدین کی مستورات پانی کے مشکیزے اور پیالے اٹھائے دوڑی آئیں اور زخمیوں کو پانی پلانے اٹھانے اور پیچھے لانے میں مصروف ہوگئیں، ان کی مدد کے لئے کچھ آدمی پیچھے رہ گئے اور باقی خیمہ گاہ میں واپس چلے گئے۔
مجاہدین کا یہ لشکر خیمہ گاہ کو درست کرنے میں لگ گیا، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں اور ان کے ماتحت چھوٹے سے چھوٹے عہدوں کے عہدے داروں کو بلایا۔
آج کی لڑائی سے ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ دشمن کے لڑنے کا انداز کیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔پچھلے تین چار قلعے کی فوج بھی اسی انداز سے لڑی تھی، یہاں بھی دشمن نے وہی طریقہ اختیار کیا ہے، اس قلعے کے حاکم کورسیہ کو سکہ کے حاکم بجھرا نے یہ طریقہ بتایا ہوگا ،اپنے مجاہدین کو بتادوں کہ یہاں بھی ہمیں ہر روز لڑائی لڑنی پڑے گی اور دشمن ہمیں محاصرہ نہیں کرنے دے گا، محمد بن قاسم نے انہیں کچھ ضروری ہدایات دیں جن میں ایک یہ تھی کہ ایک سوار دستہ قلعے کے اردگرد تیاری کی حالت میں گشت پر رہے تاکہ قلعے کی فوج کو کہیں سے بھی کمک اور رسد نہ مل سکے اور قلعے میں سے کوئی نکل کر کہیں جا نہ سکے، اس دستے کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ لڑائی کی صورت میں اس دستے کا سالار محسوس کرے کہ لڑائی میں مدد کی ضرورت ہے تو وہ خود فیصلہ کرے اور محمد بن قاسم کے حکم کا انتظار کیے بغیر ہی آدھی نفری مدد کے طور پر بھیج دے۔
میرے عزیز رفیقوں!،،،،،، محمد بن قاسم نے جنگی نوعیت کی ہدایات اور احکام دے کر کہا۔۔۔ اپنے دستوں سے کہنا کہ یہ ہے وہ منزل جس تک ہم بخیروخوبی پہنچ گئے تو ہمارے لیے ہندوستان کا دروازہ کھل جائے گا۔۔۔۔۔ میر معصوم لکھتا ہے کہ محمد بن قاسم بولتے بولتے جذباتی سا ہو گیا اور اس کے چہرے پر ہلکی سی سرخی آگئی، اس نے کہا ملتان اسلام کی روشنی کا مینار ہوگا ،کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے والے مسافر اس مینار کی روشنی سے رہنمائی حاصل کریں گے، اور یہ روشنی قیامت تک اللہ کا نور بکھیرے کرتی رہے گی، آنے والی نسلیں اور ان نسلوں کے بعد آنے والی نسلیں ملتان کے نام کے ساتھ تمہیں بھی یاد کریں گی،،،،،،، اپنے مجاہدین سے کہہ دو کہ ہم ملتان نہ لے سکے تو اپنی جانیں دے دیں گے پیچھے نہیں جائیں گے، مجاہدین کو بتا دو کہ جنت کا دروازہ آگے ہے اور پیچھے دوزخ کا منہ کھلا ہے، ہمارے لئے یہ حکم الہی ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور اپنے لہو کے چمکتے ہوئے قطروں سے کفرستان میں اللہ کا نور بکھیریں، ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے، یہی ہمارا مقدر ہے اور یہ ایک درخشاں مقدر ہے، ہم سب خوش نصیب ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے یہ سعادت ہمیں عطا فرمائی ہے کہ یہ مقدس فریضہ ہم پائے تکمیل تک پہنچائیں،،،،،،،،، اور مجاہدین سے کہنا کہ تم خلیفہ کے لئے اور حجاج بن یوسف کے لیے نہیں لڑ رہے، ہم یہاں اپنی حکومت نہیں بلکہ اللہ کی حکمرانی قائم کرنے آئے ہیں۔
رات کو ہی سالاروں نے اپنے اپنے دستوں کو اکٹھا کرکے محمد بن قاسم کا پیغام ان تک پہنچا دیا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ مجاہدین کی جسمانی حالت وہی ہوچکی تھی جس میں راجہ داہر انہیں دیکھنا چاہتا تھا ، مجاہدین جسمانی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ چکے تھے لیکن ان کے جذبے اور جوش و خروش میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی تھی ،ان کی حرکات میں اور ان کے نعروں میں وہی جان اور وہی ولولہ تھا جو سندھ میں داخل ہوتے وقت تھا، جوں جوں ان کے جسم شل ہوتے جا رہے تھے ان کی روحانی قوت بیدار ہوتی چلی جا رہی تھی، محمد بن قاسم کے پیغام نے ان میں نئی روح پھونک دی۔
فجر کی اذان ایک مجاہد نے ایک ٹیکری پر کھڑے ہو کر دی، اس اذان میں کوئی اور ہی تاثر تھا سحری کے سناٹے میں اذان کی مقدس صدا تیرتی ہوئی ملتان کے قلعے کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھی، اللہ کا یہ پیغام قلعے کے بند دروازوں کے اندر بھی سنائی دے رہا تھا، تھکے ماندے مجاہدین نماز کے لیے تیار ہونے لگے کچھ دیربعد تمام لشکر باجماعت کھڑا ہوگیا اور محمد بن قاسم کی کی امامت میں نماز پڑھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نماز کے فوراً بعد کچھ کھا پی کر مجاہدین قلعے کو محاصرے میں لینے کے لئے تیار ہوگئے، سالاروں نے اپنے اپنے دستوں کو اس ترتیب میں کر لیا جو انھیں بتائی گئی تھی جب دستے قلعے کی طرف چلے تو مجاہدین کی مستورات اور بچوں نے ہاتھ پھیلا کر انہیں دعاوں سے رخصت کیا، سورج کی پہلی کرنیں نمودار ہوئیں۔
مجاہدین ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ قلعے کے اس طرف والے دو دروازے کھلے اور قلعے کی فوج کے کچھ دستے بڑی تیزی سے باہر آئے، باہر آتے ہی وہ لڑائی کی ترتیب میں ہوتے چلے گئے، اس روز بھی ان دستوں کا کمانڈر بجھرا تھا، قلعے کی دیوار کے اوپر انسانی دیوار کھڑی تھی، یہ تیر اندازوں اور برچھی پھیکنے والوں کا ہجوم تھا، باہر آنے والے دستوں اور دیوار کے اوپر کھڑے انسانوں کا انداز اور ان کے نعرے بتا رہے تھے کہ وہ شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں، پچھلے دنوں کی طرح اس قلعے کی دیوار کے اوپر سے بھی مسلمانوں پر طنز اور دشنام کے تیر آنے لگے، ہندو مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے تھے۔
مجاہدین کا ایک سوار دستہ دور کا چکر کاٹ کر قلعے کی پچھلی طرف جا رہا تھا۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دستوں کو لڑائی میں زیادہ نہیں الجھانا اس کی بجائے دفاعی طریقہ اختیار کرنا اور دشمن کے لیے موقع پیدا کرتے رہنا کہ وہ آگے بڑھ بڑھ کر حملے کریں، محمد بن قاسم کا مقصد یہ تھا کہ دشمن اپنی طاقت ضائع کرتا رہے، اسلام کا یہ کمسن سالار اس جنگ کو طول دینا چاہتا تھا، اس نے اپنے دستوں کو پھیلا رکھا تھا تاکہ ان کے مطابق دشمن کو بھی پھیلنا پڑے اور جہاں موقع نظر آئے پہلو سے اس پر شدید حملہ کردیا جائے۔
سورج غروب ہونے سے پہلے تک لڑائی جاری رہی مسلمانوں نے اپنا انداز دفاعی رکھا محتاط ہو ہو کر لڑتے بھی رہے یہاں بھی وہی دشواری تھی جو پہلے قلعوں میں پیش آئی تھی، وہ یہ کہ دشمن کے عقب میں نہیں جایا جاسکتا تھا کیونکہ پیچھے قلعے کی دیوار تھی اور دیوار پر تیر انداز اور برچھی انداز ہجوم کی صورت میں کھڑے تھے ،ان کی وجہ سے دشمن کا عقب محفوظ تھا۔
بجھرا کے دستے آہستہ آہستہ قلعے میں واپس جانے لگے اب کے پھر چند ایک جانبازوں نے قلعے میں داخل ہونے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ،لیکن محمد بن قاسم نے انہیں روک دیا ،قلعے کے تمام دستے واپس چلے گئے۔ محمد بن قاسم نے خود میدان جنگ میں گھوم پھر کر دشمن کے نقصان کا اندازہ لگایا اور اپنے دستوں کا نقصان بھی دیکھا، تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ اس روز قلعے کی فوج کا جانی نقصان خاصا زیادہ تھا اور زخمیوں کی تعداد تو اور ہی زیادہ تھی، اس کے مقابلے میں مجاہدین کا جانی نقصان نہایت معمولی تھا ،زخمیوں کی تعداد ذرا زیادہ تھی لیکن زخم شدید نہیں تھے۔
محمد بن قاسم نے جب دشمن کے اور اپنے نقصان کا تناصب دیکھا تو وہ بہت خوش ہوا کہ اس کی چال کامیاب رہی، اس نے اس رات سالاروں کو اکٹھا کر کے کہا کہ ہر روز لڑنے کا یہی طریقہ اختیار کریں ،دشمن کو دھوکے میں رکھیں کہ ہم تھکے ہوئے ہیں اور اسے یہ تاثر دیتے رہیں جیسے ہم شدید حملہ برداشت نہیں کریں گے اور بھاگ اٹھے گے، اس طرح دشمن تابڑ توڑ حملہ کرتے رہے گا اور اس کی طاقت زائل ہوتی رہے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کی اس چال نے ملتان کی فوج کو بہت نقصان پہنچایا، ہر روز وہ بہت سی لاشوں اور زخمیوں کو باہر چھوڑ کر قلعے میں واپس چلے جاتے تھے، مجاہدین دشمن کے زخمیوں کو پکڑ کر لاتے تھے لیکن ایسے زخمیوں کو وہ نہیں اٹھاتے تھے جن کے متعلق یقین ہوجاتا تھا کہ وہ مر جائیں گے، دشمن کی لاشیں مسلمانوں کو اٹھا کر ایک وسیع گڑھے میں دفن کرنی پڑتی تھی، اگر نہ کرتے تو یہ گل سڑ کر بہت بدبو پیدا کرتی تھی۔
یہ لڑائی مسلسل دو مہینے ہوتی رہی، پورے دو مہینے مسلمانوں کے لڑنے کا انداز وہی رہا جو پہلے روز تھا ،دو مہینوں بعد دشمن اس حالت میں آگیا جس حالت میں محمد بن قاسم اسے لانا چاہتا تھا ،محمد بن قاسم کے اندازے کے مطابق قلعے کی فوج کی تقریباً آدھی نفری ماری جا چکی تھی، پھر بھی قلعے میں بہت فوج موجود تھی اور شہری بھی لڑنے کے لیے تیار تھے ،محمد بن قاسم ملتان کو نہایت اہم مقام سمجھتا تھا تو دشمن بھی اس کی اہمیت سے واقف تھا ،کورسیہ اور بجھرا کو یہ احساس تھا کہ ملتان ہاتھ سے نکل گیا تو نہ صرف یہ کہ سندھ ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کا ملک بن جائےگا بلکہ یہ بھی ہوگا کہ مسلمان اسلام کا پرچم ہندوستان میں بہت دور تک لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس لئے قلعے کے یہ دونوں حاکم ملتان کو مسلمانوں سے بچانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار تھے، دو مہینوں بعد قلعے کی فوج نے باہر آ کر لڑنا چھوڑ دیا۔ محمد بن قاسم نے دو دن انتظار کیا دشمن باہر نہ آیا تیسری صبح محمد بن قاسم نے قلعے کو محاصرے میں لینے کا حکم دیا ،نہایت تیزی سے دستے قلعے کے اردگرد پھیل گئے، ہر دروازے کے بالمقابل اتنے فاصلے پر جہاں تک تیر نہیں پہنچ سکتے تھے دستوں نے جاکر جگہ سنبھال لی۔
محمد بن قاسم کو پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ اس قلعے میں چھوٹے سائز کی منجنیقیں ہیں جن سے سنگ باری کی جاتی ہے۔ مسلمانوں نے جب قلعے کا محاصرہ کیا تو دیواروں پر منجنیقیں نظر آنے لگیں، پھر ان منجنیقوں سے پتھر اڑنے لگے چونکہ منجنیقیں چھوٹی تھیں اس لئے ان سے چھوٹے پتھر پھینکے جاتے تھے، مسلمان پتھروں کی زد سے پیچھے ہو گئے اس سنگ باری کے جواب میں محمد بن قاسم نے اپنی بڑی منجنیقوں سے بڑے سائز کے پتھر پھینک کر شہر کو لرزہ براندام کر سکتا تھا ،لیکن اس نے منجنیقوں کے استعمال سے اس لیے اجتناب کیا کہ سنگ باری سے زیادہ نقصان شہریوں کو پہنچے گا اور بچے بھی مارے جائیں گے، منجنیقوں کا استعمال اس وقت کرنا تھا جب کوئی اور چارہ کار نہ رہتا۔
محمد بن قاسم قلعے کے اردگرد گھومتا پھرتا رہا وہ دیوار میں کوئی کمزور جگہ دیکھ رہا تھا لیکن کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آرہی تھی، تھوڑے تھوڑے وقفے سے تیر اندازوں کے جیش آگے جاتے اور دیوار کے اوپر کھڑے آدمیوں پر بڑی تیزی سے تیر چلاتے تھے، ان سے دشمن کے کچھ آدمی مارے تو جاتے تھے لیکن دشمن کے لیے یہ کوئی ایسا نقصان نہیں تھا جو قلعے کے دفاع کو کمزور کر دیتا۔
یہ سلسلہ کچھ دن چلا ،ایک روز محمد بن قاسم کو یہ اطلاع دی گئی کہ اپنے پاس اناج کی کمی ہو گئی ہے، اناج اور خوراک کا دیگر سامان نیرون، برہمن آباد اور اروڑ میں تھا ،لیکن وہ جگہیں اتنی دور تھیں کہ اناج وغیرہ فوری طور پر نہیں آ سکتا تھا ،فوج کا کوچ تو بہت تیز ہوا کرتا تھا لیکن رسد کی رفتار اتنی زیادہ نہیں ہوسکتی تھی، رسد اونٹوں اور گاڑیوں پر لے جائی جاتی تھیں، گاڑیوں کو بیل اور گدھے کھینچتے تھے۔
یہ صحیح ہے کہ رسد بہت دور پڑی تھی لیکن کسی بھی تاریخ میں یہ وجہ نہیں لکھی گئی کہ محمد بن قاسم نے پہلے ہی ایسا انتظام کیوں نہ کیا کہ ملتان کی جنگ کے دوران اناج وغیرہ منگوالیتا، سالاروں نے بھی دھیان نہ دیا کہ رسد ناکافی رہ گئی ہے اور ایک دو دنوں بعد ختم ہو جائے گی، وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ محمد بن قاسم اور اس کے سالار جنگ میں اتنے زیادہ الجھے رہے کہ وہ رسد کی طرف دھیان ہی نہ دے سکے۔
اناج ابھی بالکل ختم نہیں ہوا تھا محمد بن قاسم نے اس کی تقسیم پر پابندی عائد کردی ،اس سے یہ ہوا کہ ہر مجاہد کو ہر روز آدھی خوراک ملتی تھی، تین مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ باربرادری کے لئے گدھے بھی تھے، بعض مسلمانوں نے بھوک سے تنگ آکر ان گدھوں کو ذبح کر کے کھانا شروع کردیا۔
مشہور مورخ بلاذری نے لکھا ہے کہ تنگ سی ایک نالی قلعے کی دیوار کے نیچے سے گزرتی تھی اور نیچے نیچے سے ہی دوسری طرف چلی جاتی تھی، یہ نالی شہر کے اندر ہی پانی کے ذخیرے کے لیے استعمال ہوتی تھی، ایک زخمی ہندو مسلمانوں کے پاس قید تھا اس کے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے جب مسلمانوں کے ہاں خوراک کی کمی واقع ہو گئی اور ہر کسی کو جن میں سالار بھی شامل تھے آدھی خوراک ملنے لگی تو قیدیوں کو بھی اس حکم کے مطابق آدھی خوراک دی جانے لگی، قیدی یہ سمجھے کہ انہیں قیدی ہونے کی وجہ سے خوراک تھوڑی دی جا رہی ہے، اس زخمی نے بھوک سے تنگ آکر مسلمانوں کی منت سماجت شروع کردی کہ زخموں نے پہلے ہی اسے کمزور کر دیا ہے اس لیے اسے خوراک پوری دی جائے، اسے بتایا گیا کہ لشکر میں اناج کی کمی واقع ہو گئی ہے۔
اس زخمی ہندو نے زخموں اور بھوک سے تنگ آکر ایک راز بے نقاب کر دیا۔
تم لوگ فاقہ کشی کر رہے ہو۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔ میں تمہیں ایک جگہ بتاتا ہوں، وہاں سے ایک ندی کا پانی چھوٹی سی ایک نالی کے ذریعے قلعے کے اندر جاتا ہے، شہر کے لوگ وہی پانی پیتے ہیں اور یہی پانی جانوروں کو بھی پلایا جاتا ہے، چونکہ پانی اس قدرتی ذریعے سے اپنے آپ ہی مل جاتا ہے اس لیے شہر میں کنوئیں بہت ہی کم ہیں، اگر تم لوگ یہ پانی روک لو تو شہر کے لوگ پیاسے بلبلا کر باہر نکل آئیں گے، میں نے یہ راز بتا کر بہت بڑا گناہ کیا ہے، تمام فوج سے مندر کے سامنے قسم لی گئی تھی کہ دشمن کا قیدی بن جانے کی صورت میں شہر کا اور فوج کا کوئی راز اور خاص طور پر پانی کی یہ نالی دشمن کو نہیں بتائیں گے، میں نے یہ گناہ بھوک اور زخموں سے تنگ آکر کیا ہے، اس کا مجھے صرف یہ معاوضہ دے دو کہ مجھے کھانے کے لئے پوری خوراک دو، اور میرے زخموں کو جلدی ٹھیک کر دو، میں نے تمہیں جو راز دیا ہے اس کی قیمت کا اندازہ تمہیں چار پانچ دنوں بعد معلوم ہو جائے گا۔
اس زخمی نے نالی کی نشاندہی کر دی، اس سے پہلے مجاہدین نے اس نالی کو دیکھا ہوگا اور اسے نظر انداز کردیا ہوگا ،یا یہ اتنی ڈھکی چھپی ہوئی تھی کہ اسے دیکھا ہی نہ جا سکا ،اس زخمی ہندو کی نشاندہی پر یہ نالی دیکھی گئی اور اسے بند کر دیا گیا، اس طرح شہر کی پانی کی سپلائی بند ہو گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تین چار روز بعد جنگ میں اچانک شدت آ گئی جو اس نوعیت کی تھی کہ مجاہدین بہت آگے خطرناک مقام تک پہنچ کر قلعے کی دیوار کے اوپر بہت زیادہ تعداد میں اور بہت زیادہ تیزی سے تیر چلانے تھے ،اور دیوار کے اوپر جو لوگ تھے وہ اب تیروں سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ بڑی دلیری سے مسلمان تیر اندازوں پر تیر برچھیاں اور پتھر پھینکتے تھے، جنگ میں شدت کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان بھوک سے پریشان تھے اور وہ اس کوشش میں تھے کہ قلعہ جلدی سر کرلیں تاکہ کے اندر کھانے کو کچھ ملے، ملتان کے لوگ اس وجہ سے اتنے دلیر ہو گئے تھے کہ ان کا پانی بند ہو گیا تھا اور وہ پیاسے مرنے لگے تھے۔
دو تین دن اور گزر گئے ایک روز پہلے کی طرح قلعے سے بہت سے دستے نکلے اور انھوں نے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا ،مسلمانوں نے جم کر مقابلہ کیا اور ان دستوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے، دشمن کے دستے بہت سی لاشیں اور بے شمار زخمیوں کو چھوڑ کر واپس چلے گئے، دیکھا گیا کہ بعض معمولی زخمی سپاہی جو نہایت آسانی سے قلعے میں واپس جا سکتے تھے مگر واپس نہ گئے، انہوں نے اپنے آپ کو مجاہدین کے حوالے کردیا، انہوں نے سب سے پہلے پانی مانگا ،اس سے پتہ چلا کہ شہر میں فوج اور لوگوں کا پیاس کے مارے بہت برا حال ہو رہا ہے ،ان کے گھوڑے بھی پیاسے تھے، اکثر گھوڑے پیاس کی وجہ سے سست ہوجاتے یا بے لگام ہو جاتے ، اگلے دو روز شہر کی فوج کا یہی انداز رہا کے باہر آکر چند ایک دستے مسلمانوں پر حملہ کرتے اور واپس چلے جاتے تھے اور ان کے جو آدمی پیچھے رہ جاتے وہ پانی کے سوا کچھ نہیں مانگتے تھے، انہوں نے بتایا کہ شہر میں پانی نہیں مل رہا ،کنوئیں نہ ہونے کے برابر تھے۔ جو تھے وہاں سے ہر کوئی پانی نہیں لے سکتا تھا ،یہ پانی کافی بھی نہیں ہوسکتا تھا ،فوج کو اس طرح پانی دیا جا رہا تھا جیسے دوائی دی جاتی ہے، فوج کے گھوڑوں کو پانی پلانا ضروری تھا انہیں بھی پانی نہیں مل رہا تھا، شہر میں مختلف جگہوں پر کنوؤں کی کھدائی شروع ہوگئی تھی، لیکن پانی نے ایک دو دنوں میں تو نہیں نکل آنا تھا۔
محمد بن قاسم کے لیے اپنی فوج کی خوراک مسئلہ بنی ہوئی تھی، تیز رفتار قاسدوں کو برہمن آباد اور اروڑ بھیج دیا گیا تھا کہ رسد بہت جلدی روانہ کی جائے، اب دیکھنا یہ تھا کہ پہلے مسلمان بھوک سے بے حال ہوتے ہیں یا محصور فوج پیاس سے بے حال ہو کر ہتھیار ڈالتی ہے، ملتانیوں کے لئے نجات کا یہی ایک راستہ تھا کہ اس شرط پر قلعے کے دروازے کھول دیتے کہ مسلمان پانی کی نالی کھول دیں ،اس سے اگلے روز ملتان کی فوج پھر باہر نکلی اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوئی، محمد بن قاسم نے اس فوج کی یہ کمزوری بھانپ لی تھی کہ سپاہی پیاسے ہیں اس نے حکم دیا کہ اب جارحانہ انداز اختیار کیا جائے اور دشمن پر دائیں بائیں سے شدید حملے کیے جائیں، اس حکم کی تعمیل جوش و خروش سے کی گئی حالانکہ مجاہدین پوری خوراک نہ ملنے کی وجہ سے نڈھال سے ہوئے جارہے تھے، جذبہ تو اپنی جگہ قائم تھا، لیکن مجاہدین نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ وہ قلعہ سر کریں گے تو پیٹ بھر کھانا ملے گا، بہرحال وہ خوش قسمت تھے کہ انہیں پانی مل رہا تھا وہ اپنے گھوڑوں کو بھوکا نہیں رہنے دیتے تھے انہیں چرنے چگنے کے لئے چھوڑ دیتے اور عورتیں ان کے لئے گھاس کاٹ لاتیں اور درختوں کے پتے بھی توڑ لاتی تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس روز کے معرکے میں قلعے کی فوج کا ایک حاکم سالار زخمی ہوگیا، اس کی فوج قلعے میں واپس چلی گئی اور وہ زخموں کی وجہ سے پیچھے رہ گیا، مسلمانوں کے لئے وہ ایک قیمتی قیدی تھا وہ اسے پیچھے لے آئے، اس سے معلومات حاصل کرنا شعبان ثقفی کا کام تھا، اسکی مرہم پٹی ہوگئی تو شعبان ثقفی اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ اس کی فوج کی نفری کتنی رہ گئی ہے، اور وہ کس حالت میں ہے، اور وہ کتنی دن اور قلعے کے دفاع میں لڑ سکتی ہے؟
میرے عربی دوست !،،،،،اس ہندو فوجی حاکم نے کہا ۔۔۔میں سپاہی ہوتا تو تمہیں قلعے کے اندر کے حالات اور اپنی فوج کی حالات بتا دیتا، میں فوج کے حاکموں میں سے ہوں، اور میں برہمن ہوں، تم شاید نہیں جانتے کہ برہمن ہندوؤں کی سب سے اونچی ذات ہے، اور مندروں کے پنڈت صرف برہمن ہوتے ہیں، ملک اور مذہب کا جتنا پاس برہمن کو ہوتا ہے اتنا اور کسی ذات کو نہیں ہوسکتا ،مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ میں اپنی فوج اپنے مذہب اور اپنے ملک کے ساتھ غداری کروں گا ،کہ تمہیں اپنے راز اور اپنی کمزوریاں بتادوں۔
تم نہیں بتاؤ گے تو تمہارا کوئی اور آدمی بتا دے گا۔۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ پھر تم ہم سے ہمدردی اور اچھے سلوک کی توقع نہ رکھنا میں تمہیں بخشوں گا نہیں، اس قلعے کی خاطر ہماری بہت سی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
اور اس قلعے کی خاطر میں اپنی جان دینے کے لئے تیار ہوں۔۔۔ ہندو حاکم نے کہا۔۔۔ تم مجھے جو سزا دینا چاہتے ہو دو، میں ہر طرح کی اذیت برداشت کر لوں گا اور خوشی سے جان دے دوں گا ،لیکن تم نے ابھی میری پوری بات نہیں سنی، میں پہلے ہی ایک اذیت میں مبتلا ہوں، مجھے ذرا سوچنے دو۔
مجھے بتاؤ !،،،،،شعبان صفی نے کہا۔۔۔ میں تمہیں سوچنے میں مدد دوں گا۔
قلعے کے اندر لوگ پیاس سے مر رہے ہیں۔۔۔ ہندوں حاکم نے کہا۔۔۔ ابھی اتنی زیادہ موتیں نہیں ہوئی، اگر ان لوگوں کو تین دن اور پانی نہ ملا تو وہ مرنے لگے گے، کنوئیں بہت تھوڑے ہیں، ان کا پانی فوج کو اور گھوڑوں کو پلا دیا جاتا ہے، فوجیوں کو بہت تھوڑا پانی مل رہا ہے، حاکموں کے گھروں میں پورا پانی جاتا ہے ،میں بھی پیاسا نہیں رہا، لیکن جب سے میں نے پیاسے مرے ہوئے دو بچوں کو دیکھا ہے مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے میں نے انہیں پیاس سے مارا ہے۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہر میں کنوئیں کھودے جا رہے ہیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔ ان کنوؤں سے پانی نکلنے تک کئی لوگ پیاس سے مر چکے ہونگے ۔۔۔ہندو فوجی حاکم نے کہا۔۔۔ میں انہیں بچانا چاہتا ہوں، میں اپنے آپ کو بہت بڑا گنہگار سمجھتا ہوں کہ میں پانی پیتا رہوں اور لوگوں کے بچے پیاسے مر رہے ہوں، ماؤں کو پانی نہیں ملے گا تو وہ بچوں کو دودھ کہاں سے پلائیں گی ،ان کی چھاتیاں خشک ہو جائیں گی۔
پھر تمہاری فوج ہتھیار کیوں نہیں ڈالتی؟،،،،،، شعبان ثفی نے پوچھا۔
فوج ہتھیار نہیں ڈالے گی۔۔۔ ہندو فوجی حاکم نے کہا ۔۔۔اور میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں گزشتہ رات راجہ کروسیہ قلعے سے بھاگ گیا ہے، وہ اپنے خاندان کو ساتھ لے گیا ہے۔
وہ کس طرف نکلا ہے؟
پہلے دیکھ لیا گیا تھا۔۔۔ حاکم نے جواب دیا۔۔۔ اس طرف تمہارا کوئی آدمی نہیں تھا، راجہ کورسیہ ہی تو قلعے کا حاکم تھا۔
بجھرا کہاں ہے؟،،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا۔۔۔۔ وہ تو قلعے میں ہی ہوگا۔
فوج کو اسی نے اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے۔۔۔ ہندو حاکم نے کہا۔۔۔ لیکن وہ تمہیں نہیں ملے گا، تم قلعے میں داخل ہوں گے تو وہ قلعے سے نکل جائے گا ،تم میری بات سنو میں جانتا ہوں تم شہر کے لئے پانی نہیں کھولو گے ۔
تم جاؤ اور قلعے کے دروازے کھلواؤ۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ میں شہر کے لیے پانی کھلوا دوں گا۔
میں قلعے کے دروازے نہیں کھولوا سکتا۔۔۔ حاکم نے کہا۔۔۔ قلعے میں داخل ہونے کا راستہ بتا دوں گا ،اور یہ میں اس لئے بتاؤں گا کہ میری قوم کے بچے پیاسے نہ مر جائیں، تم قلعے میں داخل ہونے سے پہلے پانی کھلوا دینا ۔
ایسا ہی ہوگا۔۔۔ شعبان ثفی نے کہا۔
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ مسلمانوں کو قلعے کی دیوار کی ایک جگہ بتائی گئی جہاں دیوار کمزور تھی اندر کی طرف دیوار میں دراڑ پڑ گئی تھی ،یہ دیوار اس طرف تھی جس طرف دریا تھا۔
محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی، اس نے بڑی منجنیقیں اس طرف لے جا کر دیوار پر سنگ باری کا حکم دیا، ان منجنیقوں میں عروس بھی تھی جو سب سے بڑی اور بہت وزنی پتھر پھینکنے والی منجنیق تھی، ان تمام منجنیقوں سے دیوار کے کمزور مقام پر پتھر پھینکے جانے لگے اور دیوار ٹوٹنے لگی، سنگ باری جاری رکھی گئی اور دیوار میں بہت بڑا شگاف ہوگیا ،لیکن یہ شگاف زمین سے اتنا اونچا تھا کہ گھوڑے اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتے تھے ،منجنیقوں کو ایسی پوزیشن اور ایسے فاصلے پر رکھا گیا کہ پتھر شگاف کے نیچے لگے۔
تھوڑی ہی دیر بعد شگاف کے نیچے سے دیوار ٹوٹنے لگی اور شگاف نیچے کو لمبا ہونے لگا۔ شعبان ثقفی کے مشورے پر محمد بن قاسم نے حکم دیا کے شہر کا پانی کھول لیا جائے، پانی کی نالی کھول دی گئی پانی شہر میں داخل ہوا تو لوگ جو پانی کو ترس رہے تھے پانی پر ٹوٹ پڑے، فوجی بھی پیاسے تھے انہوں نے بھی پانی پر دھاوا بول دیا ،قلعے کے اندر افراتفری بپا ہو گئی، دیوار کا شگاف تھوڑا ہی اونچا رہ گیا تھا عربی سواروں نے گھوڑے دوڑا دیے اور گھوڑے کود کود کر شگاف کے اندر جانے لگے، اندر کی فوج نے مقابلہ کیا محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ شہر کے کسی مرد عورت اور بچے پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، اور کسی فوج کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔
چچ نامہ فارسی میں مختلف مورخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ قلعے کے اندر ملتان کے جو فوجی مجاہدین کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ان کی تعداد چھ ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔
شہر میں محمد بن قاسم کے حکم سے اعلان ہونے لگے کہ شہر کے لوگ بھاگنے کی کوشش نہ کریں اپنے گھروں کے دروازے کھلے رکھیں، کسی فوج کو پناہ نہ دیں، راجہ کے خاندان کے کسی فرد کو شہر کا کوئی باشندہ اپنے گھر میں نہ چھپائے ،ہماری فوج کا کوئی آدمی کسی گھر میں داخل نہیں ہو گا، تمہارے مال و اموال محفوظ رہیں گے۔
لوگوں میں بھگدڑ بپا تھی ادھر مجاہدین شہر میں داخل ہورہے تھے ،ادھر شہر کے لوگ دوسرے دروازوں کی طرف اٹھ بھاگے، مجاہدین نے دروازے بند کردیئے، اس وقت تک کچھ لوگ بھاگ چکے تھے، بھاگ جانے والوں میں بجھرا اور اس کا خاندان بھی تھا۔
شہر کے لوگوں کو قلعہ سر ہونے کی خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ انھیں پانی مل گیا ،لوگ حوضوں پر ٹوٹ پڑے جن میں پانی کا ذخیرہ جمع ہورہا تھا، پانی کی خاطر لوگوں نے اپنے گھروں کی بھی پرواہ نہ کی، انہیں توقع یہ تھی کہ فاتح فوج گھروں میں لوٹ مار کرے گی لیکن اعلان ہونے لگے کہ فاتح فوج کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گی ،لوگوں نے دیکھا کہ ان کے گھر اور ان کی جوان لڑکیاں محفوظ ہیں ،کوئی مسلمان فوجی ان کے کھلے ہوئے دروازے کی طرف بھی نہیں دیکھ رہا تھا ،لوگ حیرت زدہ تھے کہ وہ بالکل محفوظ تھے۔
محمد بن قاسم نے شہر کے ہندو حاکموں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ شہر کے چند ایک سرکردہ افراد کو بلائیں، کچھ دیر بعد شہر کے آٹھ دس معزز افراد آگئے، ان کے چہروں پر خوف زدگی کے آثار تھے، محمد بن قاسم نے انہیں احترام سے بٹھایا۔
تمہارے شہر میں جو انقلاب آیا ہے وہ تم نے دیکھ لیا ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہم فاتح ہیں ،لیکن یہاں کے لوگوں کو ہم مفتوح نہیں سمجھیں گے، میں تمہارا بادشاہ نہیں ہوں اور تم میری رعایا نہیں ہو۔
ہم آپ کے وفادار رعایا ہیں ۔۔۔ایک معمر ہندو نے اٹھ کر ہاتھ جوڑ کر اور جھک کر کہا۔۔۔ ہم ہمیشہ رعایا رہے ہیں ،اور آپ کی بھی رعایا بن کر رہیں گے، ہم یہی جانتے ہیں کہ ایک راجہ چلا گیا ہے اور اس کی جگہ ایک بادشاہ آ گیا ہے۔
ہم تمہیں وہ بتانے آئے ہیں جو تم نہیں جانتے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ساتھ جو باتیں کر رہا ہوں یہ باتیں میری نہیں یہ میرے مذہب کے اصول اور احکام ہیں ،جن کا میں پابند ہوں، اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں اور کوئی رعایا نہیں، حکمرانی صرف اللہ کی ہوتی ہے ہمارے ذمے یہ کام ہے کہ اللہ کے احکام کی پیروی کریں اور دوسروں سے بھی پیروی کروائیں، اپنے آپ کو آزاد سمجھو آزادی سے اپنی عبادت کرو، تمہارے مندروں کے دروازے کھلے رہیں گے، کسی مسلمان کو مندر کے اندر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>