یہ مکی سورت ہے، ستتر آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم حق و باطل میں امتیاز کی تعلیم دیتا ہے اور دنیا کو اللہ کی طاقت سے ڈرانے کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ اللہ کی نہ بیوی ہے نہ اولاد وہ تمام کائنات کا بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ معبودان باطل نہ زندگی اور موت کا اختیار رکھتے ہیں نہ ہی نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی عبادت بے سود ہے۔ پھر کافروں کے قرآن کریم پر بے جا اعتراضات اور نبی سے بے جا مطالبات کا تذکرہ کر کے بتایا گیا ہے کہ ان کے مطالبے پورے کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے لیکن یہ ہٹ دھرم ماننے والے نہیں ہیں اس لئے ان کی مطلوبہ باتیں پوری کر دینا ان کے کفر میں اضافہ کا باعث بنے گا اور اس سے ان پر ہلاکت اور عذاب اترنے کی راہ ہموار ہو گی اس لئے انہیں اپنے حال پر رہنے دیں۔ قیامت کے دن ان کے معبود ان سے برأت کا اظہار کرنے لگیں گے اور یہ اپنے معبودوں سے برأت کا اظہار کریں گے۔ قیامت کے دن انہیں نجات کا کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ نہ مالی رشوت سے کام چلے گا اور نہ ہی کوئی معاون و مددگار وہاں پر ہو گا۔ وہاں پر ہم ظالموں کو دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ آپ سے پہلے انبیاء و رسل بھی بازاروں میں جاتے اور کھانا کھاتے تھے ان کی قوم ان پر بھی اعتراضات کرتی تھی۔ ہم نے لوگوں کو ایک دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے ان سے کہئے۔ کچھ صبر کریں اور ہمارے عذاب کا انتظار کریں آپ کا رب سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
مشرکین کے دو مطالبوں کا جواب ہے، ایک تو یہ کہ فرشتہ صرف محمدﷺ پر ہی کیوں اترتا ہے ہم پر کیوں نہیں اترتا اور اللہ تعالیٰ ہم سے کیوں ملاقات نہیں کرتے؟ قرآن کریم نے اس کا جواب دیا کہ اس مطالبہ کی وجہ تکبر و سرکشی ہے اور قیامت کا انکار ہے۔ عام انسانوں پر فرشتوں کے اترنے کا مطلب ہوتا ہے کہ ان کا یوم احتساب آ گیا، جس دن بادل پھٹیں گے اور فرشتے اتریں گے اس دن مجرمین کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہو گی، ان کے اعمال فضاء میں تحلیل ہو کر رہ جائیں گے۔ کافروں پر وہ دن بہت بھاری ہو گا۔ ظالم افسوس اور ندامت سے اپنا ہاتھ چبا رہے ہوں گے، اس دن ایک اللہ کے علاوہ کسی کا حکم نہیں چلے گا۔ رسولؑ شکوہ کریں گے کہ میری قوم نے اس قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے کیوں نازل ہو رہا ہے؟ ایک دم سارا کیوں نازل نہیں ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے حاکمانہ انداز میں فرمایا: ہم قادر مطلق ہیں، ہم اسی طرح نازل کریں گے پھر حکیمانہ توجیہ بیان کر دی، آپ کے قلبی اطمینان کے لئے اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنے اور ہر موقع کی بہترین تشریح و توضیح کے لئے ہم نے ایسا کیا ہے۔
پھر موسیٰ و ہارون کا تذکرہ کر کے بتایا کہ ہم نے منکرین توحید و رسالت فرعونیوں کو ہلاک کر کے رکھ دیا، پھر نوحؑ اور ان کی جھٹلانے والی قوم کے سیلاب میں غرق ہونے کا تذکرہ پھر قوم عاد و ثمود اور ان کے علاوہ بہت سی اقوام کی ہلاکت کا تذکرہ پھر یہ بتایا کہ یہ لوگ ہمارے نبی کا انکار کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس قسم کی حرکتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو خواہشات کو اپنا معبود بنا لیں اور عقل و شعور سے کام لینا چھوڑ دیں، یہ لوگ جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں۔ یہ لوگ کائناتی شواہد اور واقعاتی دلائل میں غور کر کے دیکھیں کہ سورج کی نقل و حرکت سائے کو کس طرح بڑا چھوٹا کرتی ہے۔ رات انسانوں کو ڈھانپ لیتی ہے اور نیند تھکن کو ختم کر کے سکون کا باعث بنتی ہے اور دن چلنے پھرنے اور روزی کمانے کا ذریعہ ہے۔
بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں پانی برسنے کا پیغام لے کر آتی ہیں اور آسمان سے صاف ستھرا پانی برستا ہے جو مردہ زمین کی زندگی کا باعث بنتا ہے اور بیشمار انسانوں اور جانوروں کو سیراب کر دیتا ہے۔ ہم اسی طرح مختلف انداز اور اسالیب سے بات کرتے ہیں تاکہ وہ لوگ سمجھ کر نصیحت حاصل کر سکیں۔ لیکن پھر بھی اکثر لوگ انکار پر اتر آتے ہیں۔ آپ ان کی اطاعت نہ کریں بلکہ قرآن کریم کی روشنی میں ان کے ساتھ جہاد کرتے رہیں۔ یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ ہے کہ میٹھے اور کھارے پانی کی لہریں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ اسی اللہ نے پانی سے انسانی زندگی کو تخلیق فرما کر اس کے نسبی اور سسرالی رشتہ بنا دیئے اور تیرا رب ہر چیز پر قادر ہے۔
اس کے بعد بے اختیار معبودوں کو قابل عبادت سمجھنے کی مذمت اور رسول کے فرض منصبی ’’نذیر و بشیر‘‘ ہونے کا بیان، کسی بھی قسم کے مفادات سے بالاتر ہو کر قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کا حکم اور دائمی حی و قیوم ذات کی تسبیح و تحمید اور اسی پر توکل کی تلقین ہے اور آیت نمبر ۶۴ سے سورت کے اختتام تک ’’عباد الرحمن‘‘ کی خوبیاں اور صفات بیان کی ہیں کہ وہ تواضع اور انکساری کے خوگر اور جاہلوں سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ ان کی راتیں تہجد میں گزرتی ہیں اس کے باوجود جہنم سے پناہ مانگتے ہیں۔ فضول خرچی اور بخل سے دور رہتے ہیں۔ توحید کے علمبردار، شرک سے بالاتر اور بے گناہ معصوموں کے قتل سے باز رہنے والے، اپنے گناہوں پر توبہ کر کے اپنے قصور کا اعتراف کرنے والے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر ان کے گناہوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ بے مقصد زندگی نہیں گزارتے۔ ناجائز کاموں اور جھوٹی گواہی دینے سے بچتے ہیں۔ اپنے رب کی باتوں پر سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں سمیت ایسی زندگی اختیار کرنے کے لئے دعا گو رہتے ہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور متقیوں میں سر فہرست رہنے کے متمنی رہتے ہیں۔ انہی لوگوں کو جنت میں سلامیاں دی جائیں گی اور جنت کے بالا خانے ان کا مقدر ہوں گے۔ سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی شان استغناء کا بیان ہے کہ اگر تم مشکلات و مصائب میں اللہ کے سامنے رونے دھونے اور گِڑ گڑانے میں مشغول نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ تمہاری قطعاً کوئی پرواہ نہ کرتے اور دنیا میں ہی تمہیں ہلاک کر کے رکھ دیتے۔
٭٭٭