⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴سینتیسویں اور آخری قسط 🕌


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴سینتیسویں اور آخری قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں پر نظر دوڑائی اور نظر ایک سالار پر ٹھہر گئی۔
ابو حکیم شیبانی!،،،،، محمد بن قاسم نے اس سالار سے مسکرا کر کہا ۔۔۔خدا کی قسم اس مہم کے لیے مجھے تم ہی موزوں نظر آتے ہو۔
بہتر ہوں یا نہیں ابن قاسم!،،،،، ابو حکیم شیبانی نے کہا ۔۔۔بہتر بن کے دکھاؤں گا ،یہ سعادت مجھ کو ہی دو۔
دو دس ہزار سوار اپنے ساتھ لو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ رسد اور دیگر سامان اکٹھا کر لو، قنوج تک کا فاصلہ بھی دیکھ لو ،رہنمائی کے لئے تمہارے ساتھ مقامی آدمی ہوں گے۔
یہ انتظام میرا ہے ابن قاسم!،،،، ابو حکیم شیبانی نے کہا ۔۔۔راجہ قنوج سے کیا کہنا ہے؟
اسے کہنا کہ اسلام قبول کرلو۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم جانتے ہو کہ قبول اسلام کی دعوت کن الفاظ میں اور کس طرح دینی ہے، اگر وہ اس سے انکار کرے تو اسے کہنا کہ اطاعت قبول کرے اور جزیہ ادا کردے، یہ بھی کہنا کہ سمندر سے لیکر کشمیر تک کے کی راجوں نے اسلام قبول کر لیا ہے، اور جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا انھوں نے جزیہ ادا کرنے کا اقرار کیا ہے۔
اگر وہ ہماری شرائط ماننے کی بجائے ہمیں میدان جنگ میں آنے کے لئے للکارے تو میرے لئے کیا حکم ہے؟،،،، ابو حکیم شیبانی نے پوچھا ۔۔۔کیا میں ان دس ہزار سواروں سے اس کے مقابلے میں،،،،،،
نہیں ابو حکیم!،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم اودھے پور تک جاؤ گے ،وہاں سے تمہارے ساتھ ایک ایلچی جائے گا ،اپنے دستوں کو تم راستے میں چھوڑ جاؤ گے، یہاں ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے، بعض مورخوں نے یا بعد کے تاریخ نویسوں نے اودھے پور کو دیپالپور لکھا ہے جو صحیح نہیں، محمد بن قاسم خود دیپالپور تک نہیں آیا تھا۔
ابو حکیم شیبانی دس ہزار سواروں کے ساتھ روانہ ہو گیا نہ جانے کتنے دنوں بعد اودھے پور پہنچا ،اس نے اپنی سوار فوج وہیں چھوڑی اور اودھےپور سے ایک ایلچی کو ساتھ لے کر قنوج گیا ،اس کے ساتھ چند سو سواروں کا دستہ گیا۔


*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قنوج کا راجہ رائے ہر چند تھا ،اسے اطلاع ملی کہ عرب کا ایک سالار آیا ہے اور اس کے ساتھ اودھے پور کا ایک عہدے دار ہے ،رائے ہر چند نے انہیں اسی وقت بلایا ،وہ بلند تخت پر شاہانہ انداز سے بیٹھا ہوا تھا ،اس کے پیچھے بڑی حسین لڑکیاں نیم برہنہ کھڑیں مور کے پروں کا مورچل ہلا رہی تھیں، ایک چوبدار دائیں اور ایک بائیں کھڑا تھا، اودھے پور کے ایلچی کے علاوہ ایک ترجمان بھی ابو حکیم کے ساتھ تھا ۔
ائے عربی !،،،،رائے ہر چند نے ایسے لہجے میں کہا جس میں رعونت کی جھلک تھی۔۔۔ میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو ،لیکن میں تمہاری زبان سے سنوں گا ،کہوں کیا کہنے آئے ہو؟
ابو حکیم شیبانی نے اپنا پیغام دیا۔
کسی غلط فہمی میں یہاں تک آ گئے ہو ۔۔۔قنوج کے راجہ نے کہا ۔۔۔اس ملک پر ڈیڑھ ہزار سال سے میرے خاندان کی حکمرانی ہے، آج تک اس زمین پر کسی بیرونی حملہ آور کو قدم رکھنے کی جرات نہیں ہوئی ،اور تم یہ جرات کر رہے ہو کہ ہمیں اپنا مذہب قبول کرنے کو کہہ رہے ہو، اور ہم تمہارا مذہب قبول نہیں کریں گے تو تم ہم سے جرمانہ وصول کرو گے۔
اے راجہ!،،،، ابو حکیم نے کہا ۔۔۔سندھ کے راجہ داہر نے بھی یہی کہا تھا وہ بھی تمہاری طرح ویسے ہی تخت پر بیٹھ کر ایسی ہی باتیں کیا کرتا تھا، کہاں ہے راجہ داہر، اس کا تخت کہاں ہے؟
ایسی گستاخی کرنے والوں کو ہم معاف نہیں کیا کرتے۔۔۔ رائے ہر چند نے کہا ۔۔۔اسے ایسی سزا دیا کرتے ہیں کہ سننے والے اور دیکھنے والے کانپنے لگتے ہیں، لیکن تم ایک ایلچی کو ساتھ لائے اور سفیر بن کر آئے ہو، اپنے سپہ سالار محمد بن قاسم سے کہنا کہ فوج ساتھ لے کر خود آئے ،ہم اس کے پیغام کا جواب تلوار سے دیں گے ۔
ابو حکیم شیبانی واپس ملتان آیا اور محمد بن قاسم کو راجہ قنوج کا جواب سنایا، اور یہ بھی بتایا کہ اس راجہ نے کیسی رعونت سے جواب دیا تھا، محمد بن قاسم نے اسی وقت قنوج کی طرف کوچ کی تیاری کا حکم دیا۔
،،،،لیکن،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تیاری اتنی مکمل ہوکہ وہاں جاکر رسد کی یہ صورت پیدا نہ ہوجائے جو ملتان کے محاصرے میں پیدا ہو گئی تھی، یہ بھی سوچ لو کہ قنوج کی فوج تازہ دم ہو گی، ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس کی ذات باری نے ہر میدان اور ہرمشکل میں ہماری مدد فرمائی ہے، اور ہمیں اللہ ہی کی مدد پر بھروسہ کرنا چاہیے، لیکن تم سب جانتے ہو کہ اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو جہاد کے لئے اپنی تیاریاں مکمل رکھتے ہیں، یہ ہندوستان کے حکمرانوں کو اپنی فوجوں کی افراط پر اور ہاتھیوں پر ناز ہے ،راجہ ہرچند تک یہ خبر پہنچ گئی ہوگی کہ داہر نے ہمیں ہاتھیوں سے ہی ڈرایا تھا، مگر اس کے ہاتھیوں پر جب مجاہدین کا ڈر طاری ہوا تو ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کو کچل کچل کر بھاگنا شروع کردیا ،قنوج کے راجہ کا بھی غرور اس کے اپنے ہاتھی ہی کچلیں گے۔
قنوج کی طرف کوچ کی تیاریاں شروع ہوگئیں، مجاہدین کو آرام کرنے کے لیے ابھی کچھ اور بھی دن دینے تھے، اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے بھی کچھ دن درکار تھے۔
دو تین دنوں بعد بصرہ سے حجاج بن یوسف کا قاصد آیا، محمد بن قاسم نے کہہ رکھا تھا کہ حجاج کا قاصد جب بھی آئے اسے کوئی نہ روکے، یہ ایک دستور بن گیا تھا کہ حجاج کے قاصد سیدھے محمد بن قاسم کے پاس جایا کرتے تھے، یہ قاصد بھی اس کے خیمے کے سامنے آکر گھوڑے سے اترا اور آواز دے کر خیمے کے اندر چلا گیا ،محمد بن قاسم جوش مسرت سے اٹھا اور اس نے پیغام لینے کے لیے ہاتھ آگے کیا ،محمد بن قاسم کو توقع ہو گی کہ اس نے جو سونا بھیجا تھا وہ حجاج تک پہنچ گیا ہوگا، اور حجاج نے اسے خراج تحسین کا خط لکھا ہوگا، مگر قاصد کھڑا رہا اس کے پاس کوئی تحریری پیغام نہیں تھا، اس کے چہرے پر تھکن تو تھی لیکن اداسی زیادہ تھی۔
خدا کی قسم!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کوئی ایسی بات ہوگئی ہے جو تم اپنی زبان پر لانے سے ڈرتے ہو۔
ہاں امیر سندھ !،،،،،قاصد نے کہا ۔۔۔اور اس کی آواز رقت میں دب گئی ،اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، بولو،،،، محمد بن قاسم نے گرج کر کہا ۔۔۔مجھے فتح کی خوشیوں میں صدمہ دو،،، اور بولو 
امیر بصرہ حجاج بن یوسف کا انتقال ہو گیا ہے،،،،،،، قاصد نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
اوہ !،،،،،محمد بن قاسم نے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ لئے اس کے منہ سے آہیں نکلنے لگیں، پھر وہ بچوں کی طرح رو پڑا۔
اس نے دربان کو بلا کر کہا کہ سب کو فوراً بلاؤ ۔
دربان سمجھتا تھا کہ سب میں کون کون آتا ہے، ذرا سی دیر میں تمام سالار اور شہری انتظامیہ کے حاکم اور مشیر وغیرہ آگئے۔
ہمارے سروں سے ایک سایہ اٹھ گیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ حجاج بن یوسف دنیا سے اٹھ گیا ہے۔
سناٹا طاری ہو گیا محمد بن قاسم کے دہکتے ہوئے چہرے کا یہ حال ہو گیا تھا جیسے رات کے آخری پہر کے چمکتے ہوئے ستارے کی چمک ماند پڑ گئی ہو، اس ستارے کا زوال شروع ہو چکا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ گزر چکا ہے کہ حجاج بن یوسف کتنا سخت اور جابر تھا اپنا حکم منوانے کیلئے وہ ظلم کی انتہا کر دیا کرتا تھا، اسکے ظلم کے شکار کئی تابعی بزرگ بھی ہوئے، ان میں حضرت سعید بن جبیر جو کے ایک تابعی بزرگ تھے، ایک دن ممبر پر بیٹھے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے کہ "حجاج ایک ظالم شخص ہے"
ادھر جب حجاج کو پتہ چلا کہ آپ میرے بارے میں ایسا گمان کرتے ہیں تو آپکو دربار میں بلا لیا اور پوچھا۔
کیا تم نے میرے بارے میں ایسی باتیں بولی ہیں؟؟
تو آپ نے فرمایا۔۔۔۔ ہاں،،،،،بالکل تو ایک ظالم شخص ہے۔
یہ سن کر حجاج کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا اور آپ کے قتل کے احکامات جاری کر دیے۔
جب آپ کو قتل کیلیے دربار سے باہر لے کر جانے لگے تو آپ مسکرا دیے۔
حجاج کو ناگوار گزرا اسنے پوچھا کیوں مسکراتے ہو۔
تو آپ نے جواب دیا۔۔۔ تیری بےوقوفی پر ،اور جو اللہ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اس پر مسکراتا ہوں۔
حجاج نے پھر حکم دیا کہ اسے میرے سامنے زبح کر دو، جب خنجر گلے پر رکھا گیا تو آپ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور یہ جملہ فرمایا۔
اے اللہ میرے چہرہ تیری طرف ہے، تیری رضا پر راضی ہوں ،یہ حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا۔
جب حجاج نے یہ سنا تو بولا اسکا رخ قبلہ کی طرف سے پھیر دو۔
جب قبلہ سے رخ پھیرا۔
تو آپ نے فرمایا،،،،، یااللہ رخ جدھر بھی ہوتو ہر جگہ موجود ہے،،،، مشرق مغرب ہر طرف تیری حکمرانی ہے،،،،میری دعا ہے کہ میرا قتل اسکا آخری ظلم ہو،،،،،، میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا۔
جب آپکی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا اسکے ساتھ ہی آپکو قتل کر دیا گیا اور اتنا خون نکلا کہ دربار تر ہو گیا۔
ایک سمجھدار بندہ بولا کہ اتنا خون تب نکلتا ہے جب کوی خوشی خوشی مسکراتا ہوا اللہ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے۔
یہ پہلے گزر چکا ہے کہ حجاج بن یوسف کو عبد الملک نے مکہ، مدینہ طائف اور یمن کا نائب مقرر کیا تھا ،اور اپنے بھائی بشر کی موت کے بعد اسے عراق بھیج دیا جہاں سے وہ کوفہ میں داخل ہوا، ان علاقوں میں بیس سال تک حجاج کا عمل دخل رہا اس نے کوفے میں بیٹھ کر زبردست فتوحات حاصل کیں۔
اس کے دور میں مسلمان مجاہدین، چین تک پہنچ گئے تھے، حجاج بن یوسف نے ہی قران پاک پر اعراب لگوائے، الله تعالی نے اسے بڑی فصاحت و بلاغت اور شجاعت سے نوازا تھا۔ حجاج حافظ قران تھا، شراب نوشی اور بدکاری سے بچتا تھا، وہ جہاد کا دھنی اور فتوحات کا حریص تھا، مگر اسکی تمام اچھائیوں پر اسکی ایک برائی نے پردہ ڈال دیا تھا اور وہ برائی کیا تھی ؟
*ظلم*
حجاج بہت ظالم تھا، اسنے اپنی زندگی میں ایک خوں خوار درندے کا روپ دھار رکھا تھا،،،،،ایک طرف موسیٰ بن نصیر اور محمد بن قاسم کفار کی گردنیں اڑا رہے تھے ،اور دوسری طرف وہ خود الله کے بندوں،اولیاؤں اور علماء کے خوں سے ہولی کھیل رہا تھا۔ حجاج نے ایک لاکھ بیس ہزار انسانوں کو قتل کیا ہے ،اس کے جیل خانوں میں ایک ایک دن میں اسی اسی ہزار قیدی ایک وقت میں ہوتے جن میں سے تیس ہزار عورتیں تھیں، اس نے جو آخری قتل کیا وہ عظیم تابعی اور زاہد و پارسا انسان حضرت سعید بن جبیر رضی الله عنہ کا قتل تھا۔
انہیں قتل کرنے کے بعد حجاج پر وحشت سوار ہو گئی تھی، وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا، حجاج جب بھی سوتا، حضرت سعید بن جبیر اس کے خواب میں ا کر اسکا دامن پکڑ کر کہتے،،،،، کہ اے دشمن خدا تو نے مجھے کیوں قتل کیا، میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟ جواب میں حجاج کہتا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا ہے۔۔؟
اس کے ساتھ حجاج کو وہ بیماری لگ گئی جسے زمہریری کہا جاتا ہے ،اس میں سخت سردی کلیجے سے اٹھ کر سارے جسم پر چھا جاتی تھی ،وہ کانپتا تھا ،آگ سے بھری انگیٹھیاں اس کے پاس لائی جاتی تھیں اور اس قدر قریب رکھ دی جاتی تھیں کہ اسکی کھال جل جاتی تھی، مگر اسے احساس نہیں ہوتا تھا، حکیموں کو دکھانے پر انہوں نے بتایا کہ پیٹ میں سرطان ہے ،ایک طبیب نے گوشت کا ٹکڑا لیا اور اسے دھاگے کے ساتھ باندھ کر حجاج کے حلق میں اتار دیا۔
تھوڑی دیر بعد دھاگے کو کھینچا تو اس گوشت کے ٹکڑے کے ساتھ بہت عجیب نسل کے کیڑے چمٹے ہوئے تھے اور اتنی بدبو تھی جو پورے ایک مربع میل کے فاصلے پر پھیل گئی۔ درباری اٹھ کر بھاگ گئے، حکیم بھی بھاگنے لگا، حجاج بولا تو کدھر جاتا ہے علاج تو کر۔۔۔۔۔حکیم بولا تیری بیماری زمینی نہیں آسمانی ہے،،،،،،اللہ سے پناہ مانگ۔
حجاج جب مادی تدبیروں سے مایوس ہو گیا تو اس نے حضرت حسن بصری رحمتہ الله علیہ کو بلوایا اور انسے دعا کی درخواست کی۔
وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے اور فرمانے لگے میں نے تجھے منع کیا تھا کہ نیک بندوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا، ان پر ظلم نہ کرنا ،مگر تو باز نہ آیا،،،،،،آج حجاج عبرت کا سبب بنا ہوا تھا،،،،، وہ اندر ،باہر سے جل رہا تھا ،،،،،وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا،،،،حضرت بن جبیر رضی الله تعالی عنہ کی وفات کے چالیس دن بعد ہی حجاج کی بھی موت ہو گئی تھی۔
جب دیکھا کہ بچنے کا امکان نہیں تو قریبی عزیزوں کو بلایا جو بڑی کراہت کے ساتھ حجاج کے پاس آئے۔
وہ بولا ،،،،،،،میں مر جاؤں تو جنازہ رات کو پڑھانا اور صبح ہو تو میری قبر کا نشان بھی مٹا دینا ۔کیوں کہ لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہی چھوڑیں گے۔ اگلے دن حجاج کا پیٹ پھٹ گیا اور اسکی موت واقع ہوئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہم ابھی قنوج کی طرف کوچ نہیں کریں گے۔۔۔ محمد بن قاسم نے بوجھل آواز میں کہا۔۔۔ مجھے امید ہے کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بنے گا، ہم نے اسکا قرض چکا دیا ہے، اس نے ہم پر جو خرچ کیا تھا اس سے دوگنا ہم نے قومی خزانے کو دیا ہے، اور پورے ایک ملک کا سلطنت اسلامیہ میں اضافہ کیا ہے ،وہ ہمارے عزم کے آگے دیوار کھڑی نہیں کرے گا، پھر بھی ہمیں محتاط ہو جانا چاہیے، کوئی دوسرا حجاج پیدا نہیں ہوگا جو خلیفہ پر غالب آکر اسے شہنشاہی سے روکے رکھے گا، اور اس کی طرف سے ہمیں حوصلہ افزا پیغام آتے رہیں گے، اب ایسا نہیں ہو گا ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دشمن میں الجھے ہوئے ہوں اور عراق سے حکم آجائے کہ رک جاؤ نیا امیر آرہا ہے، ہمارے لئے خاموش بیٹھنا بھی ٹھیک نہیں۔۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔۔۔ورنہ دشمن ہمارے سر پر چڑھ آئے گا وہ سمجھے گا کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں، یا تھک گئے ہیں، یا کوئی اور وجہ ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے قابل نہیں رہے۔
اور اگر ہم نے اپنے اوپر ماتمی کیفیت طاری کرلی تو سارے لشکر میں لڑنے کا جذبہ سرد پڑ جائے گا ۔۔۔۔ایک اور سالار نے کہا ۔۔۔ہمیں کسی نہ کسی طرف فوج کشی کرنی چاہیے۔ یہ بڑے اچھے مشورے تھے محمد بن قاسم نے صرف قنوج کی طرف پیش قدمی روک دی، باقی مہمات کو جاری رکھا آج ان قصبوں اور شہروں کے نام و نشان مٹ چکے ہیں جہاں کے ہندو حاکموں نے بغیر لڑے اطاعت قبول کر لی تھی۔
جو مقامات سلطنت اسلامیہ میں شامل ہوئے ان میں ایک شہر کیرج نام کا بھی تھا، اس کے متعلق اتنا ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر آج کے بھارت میں تھا ،لیکن کسی مورخ نے اس کا محل وقوع نہیں لکھا نہ ہی نشان دہی کی ہے کہ آج بھی یہ شہر فلاح جگہ موجود ہے۔ تاریخوں میں یہ تفصیلات ملتی ہے کہ کیرج پر محمد بن قاسم نے اپنی قیادت میں حملہ کیا تھا ،کیرج کے راجہ کا نام دوہر تھا، دوہر اپنی فوج قلعے سے باہر لے آیا اور بڑی ہی خونریز لڑائی ہوئی، راجہ دوہر خود فوج کے ساتھ تھا
تاریخوں میں آیا ہے کہ راجہ دوہر کے غیض و غضب کا یہ عالم تھا کہ وہ گھوڑے پر سوار مسلمانوں کی صفوں میں گھس آیا ،وہ محمد بن قاسم کو للکار رہا تھا، اس کے سامنے جو آتا تھا وہ گھائل ہو کر گرتا ،محمد بن قاسم اسکی للکار پر اس کی طرف گیا ،لیکن اپنے جواں سپہ سالار کی جان کو زیادہ قیمتی سمجھتے ہوئے چار محافظوں نے آگے بڑھ کر راجہ دوہر کو گھیرے میں لے لیا ،دوہر کے ساتھ بھی محافظ تھے، محمد بن قاسم اور دوہر کے محافظوں میں بڑی ہی غضبناک لڑائی ہوئی، محمد بن قاسم کے محافظوں کا لڑنے کا انداز ایسا تھا کہ وہ دوہر کو بھی گھیرے میں رکھنا چاہتے تھے، چار میں سے تین محافظ شہید ہوگئے اور چوتھے نے راجہ دوہر پر ایسے وار کیے جو دوہر بچا نہ سکا اور گھوڑے سے گر پڑا، وہ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے اپنے ہی ایک محافظ کا گھوڑا اس پر چڑھ گیا، گھوڑے کا ایک پاؤں دوہر کے سینے پر پڑا وہ تلوار کے گہرے زخموں سے ہی مر رہا تھا گھوڑے نے اس کا کام جلدی تمام کردیا۔
اپنے راجہ کی موت نے کیرج کی فوج کا حوصلہ توڑ دیا ،مجاہدین نے ایسا ہلہ بولا کہ کچھ فوج قلعے میں چلی گئی اور کچھ نفری ادھر ادھر بھاگ گئی، مجاہدین قلعے میں داخل ہوگئے، اس سے بہت سارا علاقہ مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا۔
جمادی الثانی 966 ہجری کا مہینہ تھا ،ایک روز خلیفہ کا ایک قاصد محمد بن قاسم کے پاس یہ حکم لے کر آیا کہ فوج جہاں ہے وہیں رک جائے اور کسی طرح بھی پیش قدمی نہ کی جائے
کیا تم بتا سکتے ہو وہاں کے حالات کیا ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے قاصد سے پوچھا۔۔۔ یہ حکم کیوں بھیجا گیا ہے۔
قاصد بڑے ذہین ہوا کرتے تھے جن قاصد کو دوسرے ملکوں میں بھیجا جاتا تھا وہ عموماً فوج کے عہدے دار اور فہم و فراست والے ہوتے تھے۔
امیر سندھ !،،،،،قاصد نے محمد بن قاسم کو بتایا ۔۔۔اب وہاں کے وہ حالات نہیں ہیں جو حجاج بن یوسف کی زندگی میں تھے، خلیفہ ولید بن عبدالملک بیمار ہیں اس بیماری سے شاید وہ جانبر نہ ہو سکے، خلافت کی جانشینی پر کھینچا تانی شروع ہوگئی ہے، معلوم ہوتا ہے بنو امیہ کا یہ خاندان خلافت کے جھگڑے میں آپس کے خون خرابے میں ختم ہوجائے گا ،مرحوم خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنی جگہ اپنے اس بیٹے ولید بن عبدالملک کو خلافت کے لئے اپنا جانشین نامزد کیا تھا، اور ولید کے بعد ولید کے چھوٹے بھائی سلیمان کو جانشین بنایا تھا ،مگر ہمارے خلیفہ ولید اپنے بیٹے عبدالعزیز کو اپنا جانشین مقرر کر چکے ہیں،،،،،
امیر سندھ آپ کیلئے مجھے ایک خطرہ نظر آرہا ہے ،،،،،آپ کے چچا مرحوم حجاج بن یوسف خلیفہ ولید کے ساتھ تھے، بنو امیہ کے بڑے بڑے سرداروں کو حجاج نے اپنے زیراثر رکھا ہوا تھا، اور انہیں کہہ رکھا تھا کہ عبدالعزیز کو ہی خلیفہ تسلیم کریں اور سلیمان کی مخالفت کریں ،اس وجہ سے سلیمان اور حجاج کی بول چال بند ہوگئی تھی، لیکن سلیمان کی کوئی حیثیت نہیں ،وہ حجاج جیسے جابر آدمی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا تھا، وہ حجاج کو اپنا دشمن سمجھتا تھا، حجاج انتقال کرگیا سلیمان کو سر اٹھانے کا موقع مل گیا ہے ،اس کے ارادے خطرناک معلوم ہوتے ہیں،،،،،
خلیفہ ولید بن عبدالملک دور اندیش ہے وہ تو اب بستر سے بڑی مشکل سے اٹھتے ہیں، انہوں نے مشرقی ملکوں کے ہر حاکم اور سالار کو حکم بھیجا ہے کہ جہاں ہو وہی رہو ورنہ خطرے میں پڑ جاؤ گے، انہیں غالبا اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکیں گے، انہوں نے اس خطرے کو دیکھتے ہوئے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اور دوسرے ملکوں میں گئے ہوئے سالار لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہوں اور سلیمان یہ حکم بھیج دیں کہ لڑائی بند کردو ،اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پسپا ہوکر واپس آ جاؤ ،اس ادھیڑ عمر با شعور قاصد نے کہا،،،،،، افق سے اندھیرا سا اٹھتا نظر آرہا ہے یہ زوال کا اندھیرا ہے۔
محمد بن قاسم جو پہلے ہی حجاج بن یوسف کی وفات کے صدمے سے نہیں سنبھلا تھا، خلیفہ ولید بن عبدالملک کی بیماری سے اور زیادہ پریشان ہو گیا ،پریشانی میں اضافہ ان حالات نے کیا جو خلافت کی جانشینی پر پیدا ہو رہے تھے، سلیمان بن عبدالملک سے محمد بن قاسم کوئی اچھی توقع نہیں رکھ سکتا تھا، سلیمان کے دل میں محمد بن قاسم کے خلاف لڑکپن سے ہی کدورت بھری ہوئی تھی ۔
تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے آہ بھر کر قاصد سے کہا۔۔۔ افق سے اندھیرا اٹھ رہا ہے اللہ ہم سب پر رحم کرے۔
قاصد کے جانے کے چند دنوں بعد دوسرا قاصد یہ خبر لے کر آ گیا کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک فوت ہوگیا ہے، اور سلیمان بن عبدالملک نے خلافت سنبھال لی ہے۔
،،،،،،اور آپ کے لئے حکم ہے کہ نئے خلیفہ کی بیعت کریں۔۔۔۔قاصد نے کہا ۔۔۔۔اطاعت اور وفاداری کا حلف نامہ دیں۔
محمد بن قاسم نے نئے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کردی، اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے دل پر پتھر رکھ کر سلیمان کی وفاداری قبول کرنی پڑی ہوگی، اس نے سالار وغیرہ کو بلایا اور یہ خبر انہیں سنائی، ولید بن عبدالملک کی وفات سے زیادہ افسوسناک خبر یہ تھی کہ اب مسند خلافت پر سلیمان بن عبدالملک بیٹھ گیا تھا ،کہاں ان سالاروں کا وہ جوش و خروش کہ آگے ہی آگے بڑھنے کے لیے ہر دم تیار نظر آتے تھے، اور کہاں یہ افسردگی اور مایوسی جیسے یہ سستانے کے لئے یہاں آ گرا ہو۔
ان سالاروں میں سے بعض محمد بن قاسم سے دگنی عمر کے اور کچھ سہ گنا عمر کے تھے، انہوں نے اپنے معاشرے کو جتنا سمجھا تھا اتنا محمد بن قاسم نہیں سمجھتا تھا ،محمد بن قاسم مرد میدان تھا، فن حرب و ضرب اور عسکری قیادت کی صلاحیت خداداد تھی، مگر وہ ذاتی مفاد پرستی اور سیاست سے ناواقف تھا ،وہ نہیں سمجھتا تھا کہ لوگ ذاتی سیاست بازی میں کیوں پڑ جاتے ہیں، اور ذاتی دوستی اور دشمنی کی خاطر کس طرح پوری قوم کے وقار کو تباہ کر دیتے ہیں، وہ انسانی فطرت کے اس پہلو کو نہیں سمجھتا تھا ،یہ تو اس کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی تھی کہ اقتدار کی ہوس کار اور ان کی ذاتی سیاست اسے کس چکی میں پیسے گی۔
کچھ دن اور گزر گئے ایک روز دمشق سے ایک آدمی بلال بن ہشام آیا، اتنے لمبے سفر کی تھکن کے علاوہ وہ گھبراہٹ کے عالم میں تھا، اس وقت محمد بن قاسم کیرج میں تھا وہ، شعبان ثقفی کے ساتھ کہیں باہر کھڑا تھا، بلال بن ہشام ان کے قریب جاکر گھوڑے سے اترا، پہلے وہ محمد بن قاسم پھر شعبان ثقفی سے بغلگیر ہو کر ملا ،وہ رو رہا تھا ،اسے محمد بن قاسم کے خیمے میں لے گئے۔
ابن قاسم!،،،،، بلال نے کہا۔۔۔ اگر تو زندہ رہنا چاہتا ہے تو خودمختاری کا اعلان کر دے ،یہ اتنا بڑا ملک جو تو نے فتح کیا ہے اس کا مختار کل بن جا، اور اسے خلافت سے آزاد کردے، اپنی سلطنت بنا لے۔
ہوا کیا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ وہاں کے حالات کیسے ہیں۔
یہ پوچھو کہ وہاں کیا نہیں ہوا ۔۔۔بلال بن ہشام نے کہا ۔۔۔وہاں سلیمان بن عبدالملک کی تلوار چل رہی ہے ،مرحوم خلیفہ اور مرحوم حجاج کے جتنے بھی حامی اور ساتھی تھے ان میں سے زیادہ تر کو سلیمان نے قتل کروا دیا ہے، اور باقیوں کو عہدوں سے معزول کرکے ان پر ایسے جھوٹے الزام لگائے ہیں کہ وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں، جس کی طرف اشارہ کر کے کہہ دو کہ یہ حجاج کا ساتھی تھا ،اسے سلیمان قتل کروادیتا ہے،،،،،،، اور ابن قاسم!،،،، سلیمان ایسا باؤلا ہو گیا ہے کہ اس نے چین کی فاتح قتیبہ بن مسلم، اور اندلس کے فاتح موسی بن نصیر، کو گرفتار کرکے بیڑیاں ڈال دی ہیں، ان کے خاندان کو اس نے بھکاری بنا دیا ہے، میں نے سنا ہے کہ ان دونوں فاتحین کو وہ ذلیل و خوار کرکے مارے گا، بعد میں ایسے ہی ہوا تھا، سلیمان نے موسی بن نصیر کو مکہ بھیج دیا اور اسے مجبور کیا تھا کہ وہ عمرہ اور حج کے لیے آنے والوں سے بھیک مانگے۔
یہ الگ داستان ہے ، ان شاءاللہ یہ داستان جو کسی دوسرے سلسلے میں سنائی جائے گی۔
سلیمان نے تمام امیر تبدیل کر دیے ہیں ۔۔۔بلال بن ہشام نے کہا ۔۔۔مشرقی ملکوں کا امیر یزید بن مہلب کو بنا دیا ہے، تو شاید جانتا ہوگا کہ یزید بن مہلب کی تیرے خاندان کے ساتھ کتنی پرانی دشمنی ہے، حجاج کا تو وہ جانی دشمن تھا، یزید بن مہلب نے ایک خارجی صالح بن عبدالرحمن کو خراج کے محکمے کا حاکم مقرر کردیا ہے، یہ تمہارے خاندان کا دوسرا دشمن ہے، ان دونوں نے میری موجودگی میں اعلانیہ کہا ہے کہ ہم بنو ثقیف کو خاک میں ملا دیں گے،،،،،،،،،،، ابن قاسم!،،، اب کوئی ثقفی زندہ نہیں رہے گا، تو بھی ثقفی ہے، تیری معزولی کے احکام آرہے ہیں، تجھے معلوم ہوگا کہ حجاج نے صالح بن عبد الرحمن کے بھائی کو مروا دیا تھا ،کیونکہ وہ فتنہ پرور خارجی تھا ،اب صالح کہتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لے گا ،تو اس کا پہلا شکار ہوگا ابن قاسم !،،،معزولی سے پہلے خودمختاری کا اعلان کر دے۔
ہاں ابن قاسم!،،،، شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔سمندر سے سورت تک اپنا جو لشکر پھیلا ہوا ہے وہ سب تیرے ساتھ ہے، اس ملک کے ہندو بھی تیرے ساتھ ہیں، سب تیرے وفادار ہیں ،ہم سب تیرے ساتھ ہیں ،خود مختار ہو جاؤ۔
نہیں !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں خودمختاری کی طرح ڈال دی تو بہت سے ایسے ملک ہیں جہاں مجھ جیسے سالار امیر ہیں وہ بھی خود مختار ہو جائیں گے، پھر سلطنت اسلامیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی ۔
دوسرے سالار بھی آگئے ،انہوں نے بھی محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ خودمختاری کا اعلان کر دے اور جب تک سلیمان خلیفہ ہے خلافت سے تعلق توڑے رکھے، لیکن محمد بن قاسم نہیں مانا، وہ کہتا تھا کہ خلافت کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی نہیں کرے گا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
دمشق میں سلیمان کے حکم سے اس کے مخالفین کا خون بہتا رہا ، حجاج کے خاندان کے افراد کو پہلے عہدوں اور رتبوں سے معزول کیا گیا ،پھر انہیں قتل کرایا جانے لگا، اس خاندان کی مستورات کو بھی نہ بخشا گیا ،پھر محمد بن قاسم کی معزولی کا حکم آ گیا ،اور اس کی جگہ یزید بن کبشہ کو سندھ کا امیر مقرر کیا گیا۔
تاریخوں میں یہ واضح نہیں کہ محمد بن قاسم کے خلاف الزام کیا تھا، الزام عائد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یہ خاندانی ،ذاتی اور سیاسی عداوت اور انتقام کا معاملہ تھا ،کیونکہ الزام واضح نہیں اس لئے اسلام دشمن عناصر نے نہایت بہبود الزامات گڑھ کر محمد بن قاسم پر تھوپے ہیں، جن میں وہ بڑی خوبصورت ہندو لڑکیوں کا نمایاں ذکر کیا گیا ہے، اگر محمد بن قاسم پر الزام ہوتا یا اس نے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہوتا تو اسے گرفتار کرکے قاضی کی عدالت میں پیش کیا جاتا،
ہم ان مفروضوں کا ذکر نہیں کریں گے جو تاریخ کے دامن میں ڈال دیئے گئے ہیں، سندھ کا نیا امیر یزید بن کبشہ سندھ آیا تو مشرقی ممالک کے امیر یزید بن مہلب کا بھائی معاویہ بن مہلب بھی اس کے ساتھ تھا۔
ابن قاسم !،،،،نئے امیر نے آتے ہی حکم دیا۔۔۔ معاویہ بن مہلب تمہیں گرفتار کرکے دمشق لے جائے گا، خلیفہ نے اسے اسی مقصد کے لیے میرے ساتھ بھیجا ہے۔
محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا ۔
فاتح سندھ ،ہندوستان میں اسلام لانے والے کمسن مجاہد، اور بے شمار مسجدیں تعمیر کرنے والے کے کپڑے اتروا کر ٹاٹ کے کپڑے پہنائے گئے، جو اخلاقی قیدیوں کو پہنائے جاتے تھے، اس کے پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں۔
خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے محسوس نہ کیا کہ اس نے اسلام کو ہتھکڑیاں ڈال دی ہیں، اور اب اسلام اس سے آگے نہیں بڑھ سکے گا جہاں تک اسے محمد بن قاسم نے پہنچایا ہے۔ محمد بن قاسم کے سالار اور سپاہی حاکم اور محکوم دیکھ رہے تھے، اور ان کے آنسو بہہ رہے تھے،،،،محمد بن قاسم نے سب پر نگاہ ڈالی اور بلند آواز سے عربی کا ایک شعر کہا۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
انہوں نے مجھے ضائع کردیا ہے، اور کیسے جوان کو ضائع کیا ہے جو مرد میدان تھا، سرحدوں کا محافظ تھا۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
محمد بن قاسم کو اعراق لے گئے، خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اس کے سامنے نہ آیا، خراج کے حاکم صالح بن عبدالرحمن نے حکم دیا کہ اسے واسطہ کے قید خانے میں قید کر دو، جہاں اس کے اور حجاج کے خاندان اور قبیلے کے آدمی قید ہیں۔
قید خانے کے دروازے میں کھڑے ہو کر محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم نے مجھے واسطہ میں قید کردیا اور زنجیر ڈال کر مجھے بیکار کر دیا تو کیا ہوا، مجھ سے یہ اعجاز تو نہیں چھین سکو گے کہ وہ میں ہی ہوں جس نے شہسواروں کے دلوں پر دہشت طاری کی اور دشمنوں کو قتل کیا ہے۔
محمد بن قاسم کے آخری الفاظ یہ تھے۔
اے زمانے تجھ پر افسوس ہے تو شریفوں کے لئے خائن ہے۔
قید خانے میں محمد بن قاسم کو اذیتیں دی جانے لگیں، اور وہ برداشت کرتا رہا، قبیلہ عکسہ کے ایک آدمی کو محمد بن قاسم پر نگرانی کے لئے مقرر کیا گیا تھا ،جو اسے ہر وقت کسی نہ کسی اذیت میں مبتلا رکھتا تھا، سلیمان ہر روز اس کے مرنے کی خبر کا انتظار کرتا تھا ،آخر اس نے آخری اشارہ دے دیا۔
صالح بن عبدالرحمن نے محمد بن قاسم کو قید خانے میں ہی آل عقیل کے حوالے کردیا ،ان لوگوں نے محمد بن قاسم کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا ،وہ تو اب زندہ لاش بن چکا تھا۔
ایک روز ال عقیل نے اسے اس قدر زود و کوب کیا کہ سندھ کے نامی گرامی جنگجو پر ہیبت طاری کر دینے والا عظیم فاتح انتقال کر گیا۔
*اناللہ و انا الیہ راجعون*
اس وقت اس کی عمر بائس سال تھی، دین کے دشمنوں سے ہتھیار ڈلوا نے والا اپنوں کے ہاتھوں ختم ہوگیا ،محمد بن قاسم کی لاش دیکھ کر ایک شاعر حمزہ بن بیض حنفی نے شعر کہے۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
یہ تو مروّت،دل کی مضبوطی اور فیاضی کا پیکر تھا ،جس نے سترہ سال کی عمر میں لشکروں کی قیادت کی، یہ تو تو پیدائشی قائد تھا۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
ایک اور شاعر نے کہا ۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
اس نے سترہ سال کی عمر میں مردان کارزار کی سرداری کی ۔
اسکی عمر کے لڑکے ابھی گلیوں میں کھیل رہے تھے۔
🌹🌹🌹🌹🌹۔
وہ چمکتا ہوا ستارہ تھا جو جلد ہی ٹوٹ گیا ،
یہاں سے اقتدار کی سیاست چلی، اقتدار جس کے ہاتھ میں آیا اس نے مخالفین کو قتل، گرفتار اور ذلیل و خوار کیا،،،،،، یہ سیاست آج تک چل رہی ہے اور اسلام کا ستارہ مصنوعی ستارہ بن کر خلا میں بھٹک رہا ہے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::ختم شُد:::::::::::::::>


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی