یہ مدنی سورت ہے۔ چونسٹھ آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے، اس سورت میں پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے کے زرین اصول بیان کئے گئے ہیں اور بھرپور انداز میں قانون سازی کا عمل سر انجام دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی توحید کے موضوع پر بھی دلائل و شواہد پیش کئے گئے ہیں۔
زنا کار مردوں عورتوں کو بے رحم قانون کے شکنجہ میں کسنے کا حکم دیا ہے اور سزا کو مؤثر بنانے کے لئے عوام کے مجمع کے سامنے سزا نافذ کرنے کی تلقین ہے تاکہ زانی کو زیادہ سے زیادہ تکالیف اور ذلت و رسوائی ہو اور سزا کا مشاہدہ کرنے والوں کے لئے بھی عبرت و موعظت کی صورت پیدا ہو۔ غیر شادی شدہ مرد و عورت ارتکاب زنا کی صورت میں سو کوڑوں کے مستحق قرار دیئے گئے ہیں اور زانی اور مشرک کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا گیا ہے۔ زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی شرط عائد کی گئی ہے اور زنا کی جھوٹی تہمت لگانے پر اسی کوڑوں کی سزا کا اعلان کیا گیا ہے اور مستقبل میں ایسے شخص کو مردود الشہادۃ قرار دیا گیا ہے۔
میاں بیوی میں اگر اعتماد کا فقدان ہو جائے اور شوہر کو بیوی پر زناکاری کے حوالہ سے اعتراض ہو مگر اس کے پاس گواہ موجود نہ ہوں اور بیوی اعتراف نہ کرتی ہو تو اس بے اعتمادی کی حالت میں خاندانی زندگی مشکلات کا شکار ہو جائے گی، اس لئے ایسی شادی کو ختم کرنے کے لئے ’’لعان‘‘ کے نام سے قانون وضع کیا گیا ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر عدالت کے اندر اپنے الزام کو حلفیہ طور پر چار مرتبہ دہرائے اور اپنی صداقت کا اعتراف کرے اور پانچویں مرتبہ یوں کہے کہ میرے جھوٹا ہونے کی صورت میں مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ جبکہ بیوی چار مرتبہ حلفیہ طور پر شوہر کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹا قرار دے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر شوہر اپنی بات میں سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس کے بعد عدالت ان میں علیحدگی کا فیصلہ کر دے اور آئندہ انہیں میاں بیوی کی حیثیت سے رہنے کے حق سے محروم کر دے۔
اس کے بعد واقعہ افک اور اس کے متعلق احکام کا بیان ہے۔ جہاد کے ایک سفر میں حضرت عائشہ حضورﷺ کے ہمراہ تھیں، ایک جگہ پڑاؤ کے موقع پر وہ قضاء حاجت کے لئے گئی ہوئی تھیں کہ لشکر کو روانگی کا حکم دے دیا گیا اور وہ لشکر سے پیچھے رہ گئیں۔ پیچھے رہ جانے والے سامان کی دیکھ بھال کے لئے مقرر شخص صفوان بن معطل بعد میں حضرت عائشہ کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو منافقین نے یہودیوں کے ساتھ مل کر افواہوں اور جھوٹے الزامات کا ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی پاکبازی اور برأت کا اعلان کیا اور ایسی صورتحال کے لئے رہنما اصول بیان فرمائے۔ قرآن کریم نے فرمایا کہ زنا کے الزام کی صورت میں اگر چار گواہ پیش نہ کئے جا سکیں تو الزام لگانے والے کو جھوٹا شمار کر کے ’’حد قذف‘‘ کا مستحق قرار دے کر کوڑوں کی سرعام سزا جاری کی جائے تاکہ آئندہ کے لئے ایسی افواہوں اور الزامات کے پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور دوسروں کی کردار کشی کی ناجائز حرکتوں کا سد باب ہو سکے۔ دوسروں پر الزام لگانے کو معمولی نہ سمجھا جائے، اس سے معاشرہ میں بے حیائی کا حجاب اٹھتا ہے اور اسلامی معاشرہ کے ایک معزز شخص کی عزت کی پامالی اور کردار کشی ہوتی ہے، لہٰذا اگر بلا ثبوت ایسا کوئی الزام سامنے آئے تو یہ سوچ لو کہ ایسی کوئی بات اگر تمہارے بارے میں کہی جائے تو تمہارا رویہ کیا ہو گا اور اس جھوٹے الزام کو اپنے بارے میں تم کس حد تک تسلیم کرو گے۔ اگر اپنے بارے میں تسلیم نہیں کرتے تو دوسرے کے باروں میں اس طرح تسلیم کر لینے کا کیا جواز ہے۔ تمہیں تو اس قسم کی باتوں کا تذکرہ بھی زبان پر لانے سے گریز کرنا چاہئے۔
فحاشی اور عریانی کی باتیں پھیلانے والوں کے لئے دنیا میں کوڑوں کی شکل میں آخرت میں جہنم کی آگ کی شکل میں دردناک عذاب ہے۔ اس واقعہ میں حضرت ابو بکر کی زیر کفالت ان کا ایک رشتہ دار مسطح بن اثاثہ بھی ملوث تھا جب ان کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت عائشہ کی برأت کے لئے آیات قرآنیہ نازل ہو گئیں تو صدیق اکبر نے ان کی کفالت سے دستکشی اختیار کر لی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مالی وسعت رکھنے والوں کو زیب نہیں دیتا کہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر کسی کی روزی کو بند کرنے کی کوشش کریں۔ عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ بھی تم سے عفو و درگزر کا معاملہ فرمائیں۔ اس ارشاد قرآنی کے بعد صدیق اکبر نے فوراً ہی ان کا وظیفہ بحال کر دیا۔ اس کے بعد قرآن کریم نے بتایا کہ بے حیا اور بدکار مرد و عورتیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے لئے ہیں۔ جبکہ پاکیزہ اور صالح مرد و عورتیں باہمی طور پر ایک دوسرے کے لئے ہیں۔ لہٰذا عائشہ صدیقہ جب حضورﷺ جیسے پاکیزہ اور نیک لوگوں کے سردار کی بیوی ہیں تو ان کی پاکبازی میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔
گھروں میں داخلہ کے وقت سلام کرنے اور اجازت لے کر اندر جانے کی تلقین اور عورتوں کو اپنی زیب وزینت ظاہر کرنے سے منع کرنے اور پردہ کا اہتمام کرنے کی ترغیب اور مردوں عورتوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ پھر آسمان و زمین کی نشانیوں میں غور کر کے اللہ کی قدرت کا اعتراف کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا۔ کافروں کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دے کر بتایا ہے کہ جس طرح سخت گرمی میں صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر پانی کا گمان ہونے لگتا ہے جبکہ اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی اسی طرح کافروں کے اعمال قیامت کے دن بے حقیقت قرار پائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ کرنے والوں کو زمین میں اقتدار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ایسے مخصوص اوقات جن میں گھر کے اندر زوجین عام طور پر شب خوابی کے لباس میں ہوتے ہیں ایسے وقت میں گھر کے افراد کو بھی بغیر اجازت کے کمرے میں جانے کی ممانعت کی گئی ہے۔ گھر کی استعمال کی اشیاء اور کھانے پینے کی چیزیں دوسرے کی اجازت کے بغیر استعمال کرنے کے لئے ضابطہ بیان کر دیا کہ معذور حاجتمند ہو یا قریبی رشتہ داری اور تعلق ہو جس کے پیش نظر اس بات کا یقین ہو کہ مالک برا نہیں منائے گا تو اس کی چیز کو بلا اجازت استعمال کی اجازت ہے۔
٭٭٭