علی بابا اور چالیس چور‎



کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایران میں دو بھائی رہتے تھے۔ ایک کا نام تھا قاسم اور دوسرے کا علی بابا —  یہ دونوں بہت غریب تھے، بہت غریب —  لیکن اچانک قاسم کی قسمت پلٹ گئی۔ اس کی شادی ایک دولت مند کی لڑکی سے ہو گئی اور وہ بڑے عیش و آرام سے رہنے لگا۔ اس نے ایک بڑی سی دوکان کھولی اور تھوڑے دنوں کے اندر اس کی گنتی بڑے تاجروں میں ہونے لگی۔ 

علی بابا کی شادی ایک غریب گھرانے میں ہوئی۔ وہ روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا، ان کو بازار میں بیچتا اور کسی نہ کسی طرح ان تھوڑے پیسوں میں گزر بسر کرتا۔  ایک دن علی بابا لکڑی کاٹنے کے لیے جنگل میں گیا۔ 

وہ لکڑی کاٹ کر اپنے گدھوں پر لادنے ہی والا تھا کہ اسے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ اُس نے غور سے دیکھا تو یہ سوار اسی کی طرف آ رہے تھے۔ اسے اک دم سے شک ہوا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ چور ہوں۔ اس نے مارے ڈر کے گدھوں کو تو پیڑوں کے پیچھے چھپا دیا اور خود ایک پیڑ کے اوپر چڑھ گیا۔ اور شاخوں میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ یہاں پر اسے کوئی نہ دیکھ سکتا تھا، لیکن وہ سب کو دیکھ سکتا تھا۔ یہ سوار اسی پیڑ کے نیچے سے گزرے۔ یہ کل ملا کر چالیس سوار تھے۔ علی بابا ان کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ یہ لوگ ذرا آگے بڑھے، اپنے گھوڑوں پر سے اترے۔ انھوں نے بڑے بھاری بھاری بورے اتارے اور اپنے اپنے کندھوں پر لیے ہوئے آگے بڑھے۔ وہیں سامنے ایک بڑا سا پھاٹک تھا۔ ان کے سردار نے آگے بڑھ کر بڑی زور دار آواز میں کہا —  ’’کھُل جا صَم صَم‘‘ —  اس کا کہنا تھا کہ پھاٹک کا دروازہ اپنے آپ کھل گیا۔ یہ چالیسوں اندر داخل ہوئے۔ ان کے اندر جاتے ہی دروازہ اپنے آپ بند ہو گیا۔ علی بابا چپ چاپ اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ آخر ذرا سی دیر کے بعد دروازہ کھلا۔ وہ چالیسوں اس میں سے نکلے۔ پھر ان کے سردار نے کہا —  ’’بند ہو جا صَم صَم‘‘ —  اس کے کہتے ہی دروازہ اپنے آپ بند ہو گیا —  یہ چالیسوں اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور ذرا سی دیر میں یہ جا وہ جا۔ کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔ 


جب چالیسوں سوار چلے گئے تو علی بابا چپکے سے پیڑ پر سے اترا۔ وہاں سے سیدھا پھاٹک کے پاس پہنچا اور بولا۔  ’’کھُل جا صَم صَم‘‘—  اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ پھاٹک کھل گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ جسے وہ ایک اندھیرا سا غار سمجھ رہا تھا، بڑی مزے کی جگہ نکلی۔ بڑی اونچی اونچی چھتیں  —  ادھر ادھر لاکھوں روپیہ کا سامان بکھرا پڑا ہے۔ چاندی اور سونے سے بھری ہوئی بوریاں ہیں۔ 

علی با با پہلے تو ڈرا، پھر ہمت کر کے اندر داخل ہوا۔ جیسے ہی اس نے دروازے کی چوکھٹ کے اندر قدم رکھا۔ دروازہ بند ہو گیا۔ اس نے جلدی جلدی وہ بورے اٹھائے اور بولا ’’کھُل جا صم صم‘‘ —  اس کا یہ کہنا تھا کہ پھاٹک کے دونوں پٹ کھل گئے۔ علی بابا نے یہ بورے باہر نکالے، اپنے گدھوں کو لے کر آیا، اور یہ بورے اُن پر لادے۔ پھر ان بوروں پر لکڑی کے ٹکڑے بڑی صفائی سے رکھ دیے کہ بورے چھپ جائیں اور نظر نہ آئیں۔ اس کے بعد علی بابا بڑے زور سے بولا۔ ’’بند ہو جا صَم صَم‘‘—  اس کے کہتے ہی پھاٹک بند ہو گیا اور علی بابا گدھوں کو لے کر اپنے گھر آ گیا۔ یہاں پہنچ کر اس نے چپ چاپ وہ بورے اتارے اور انھیں ایک طرف ڈال دیا۔ پھر وہ گھر میں ایک گڈھا کھودنے لگا تاکہ اس میں سارا لایا ہوا سونا چھپا دے۔ اس کی بیوی نے کہا ’’تم اتنے میں گڈھا کھودو میں بھابی کے یہاں سے ترازو لے آؤں تاکہ ان سب کو تول کر رکھ دوں۔‘‘

علی بابا کی بیوی دوڑی دوڑی قاسم کے گھر گئی۔ اس وقت قاسم گھر میں نہیں تھا۔ اس نے قاسم کی بیوی سے ترازو مانگا۔ قاسم کی بیوی نے کہا۔ ’’بی بی ذرا دیر ٹھہرو، میں ابھی لاتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر گئی۔ پھر سوچنے لگی کہ علی بابا کے گھر میں ٹھیک سے کھانے کو تو ہے نہیں، اتنا غلہ کہاں سے آیا، جو اسے تولنے جا رہی ہے۔ اس نے ترازو کے پلڑے کے نیچے اس طرح چربی لگا دی کہ کسی کو پتہ نہ چلے اور پھر وہ ترازو علی بابا کی بیوی کو دے دیا۔ 

علی بابا اور اس کی بیوی نے سارا سونا تولا اور ذرا سی دیر کے بعد ترازو واپس کر دیا۔ قاسم کی بیوی کی چال کامیاب ہو گئی۔ کیونکہ پلڑے کے نیچے چربی لگی تھی، اس میں ایک اشرفی چپک کر رہ گئی۔ علی بابا اور اس کی بیوی اتنی جلدی میں تھے کہ اُن کی نظر نہ پڑی اور انھوں نے اسی طرح وہ ترازو واپس کر دیا۔ 

قاسم کی بیوی یہ دیکھ کر جل ہی تو گئی۔ شام کو جب قاسم اپنی دکان سے واپس آیا تو اس نے کہا  —  ’’تم سمجھتے ہو کہ تمھارا بھائی بہت غریب ہے۔ ارے، اس کے پاس اتنا سونا ہے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ جانتے ہو وہ اشرفیاں گننے کے بجائے تولتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اشرفی سامنے لا کر رکھ دی۔ قاسم بھی یہ سن کر جل گیا کہ آخر علی با با کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ وہ تمام رات اسی الجھن میں رہا۔ لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ 

اگلے دن صبح صبح قاسم سیدھا علی بابا کے پاس گیا اور بولا —  ’’تم مجھ سے ہر بات چھپاتے ہو، سچ سچ بتاؤ کہ تمھارے پاس اتنی دولت کہاں سے آ گئی کہ گننے کے بجائے تولنے کی ضرورت پیش آئی۔‘‘
علی بابا نے انجان بن کر کہا۔ ’’میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ ذرا صاف صاف کہو کہ تمھارا کیا مطلب ہے۔‘‘
قاسم نے کہا ’’تم میری بات خوب سمجھ رہے ہو۔ جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش مت کرو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے اشرفی نکال کر علی بابا کو دکھائی اور بولا —  ’’یہ اشرفی اس ترازو کے نیچے چپکی ہوئی تھی جو میری بیوی نے دیا تھا۔ بتاؤ تمھارے پاس ایسی کتنی اشرفیاں ہیں اور کہاں سے لائے ؟۔‘‘
اب تو علی بابا سمجھ گیا کہ اس بات کو چھپانا مشکل ہے۔ مجبوراً اس نے قاسم کو سچی بات بتا دی۔ 
قاسم نے کہا —  ’’مجھے وہ جگہ بتاؤ، جہاں چالیس چوروں کا خزانہ ہے اور یہ بتاؤ کہ دروازہ کھلوانے کے لیے کیا پڑھنا پڑتا ہے۔ اگر تم نہیں بتاؤ گے تو میں ساری باتیں پولیس کے آدمیوں کو بتا دوں گا، اور پولیس والے تم کو گرفتار کر کے لے جائیں گے۔‘‘
علی بابا یہ سن کر ڈر گیا اور اس نے قاسم کو وہ جگہ بتا دی اور وہ منتر بھی بتا دیا جس کو پڑھ کر دروازہ کھلوایا جاتا ہے۔ قاسم گھر واپس آیا اور اس نے سوچا کہ میں اپنے تمام خچر لے جاؤں گا اور غار میں سے سارا خزانہ اک دم سے نکال لاؤں گا۔ 

اگلے دن وہ دس خچر لے کر جنگل کی طرف چل پڑا، اور دوپہر تک وہاں پہنچ گیا۔ وہاں پھاٹک بند تھا۔ قاسم نے پہنچتے ہی کہا —  ’’کھل جا صَم صَم‘‘ —  غار کا پھاٹک کھل گیا۔ وہ سب کچھ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ علی بابا نے جو کچھ بتایا تھا، یہاں تو اس سے بھی زیادہ دولت تھی۔ وہ تھوڑی دیر تو ٹکٹکی باندھے حیرت سے دیکھتا رہا، پھر جلدی جلدی اس نے اشرفیوں کے بوروں کو بھرنا شروع کر دیا، اور گھسیٹ کر دروازے کے پاس تمام بورے لے آیا۔ لیکن دروازہ بند ہو چکا تھا، اور وہ دروازہ کھلنے کا منتر بھول گیا۔ اس نے بہت یاد کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کسی طرح یاد نہ آیا۔ کبھی وہ کہتا ’’کھل جا دَم دَم‘‘ —  کبھی کہتا ’’کھل جا بم بم‘‘ —  مگر وہ صحیح الفاظ بھول گیا۔ سونے کے لالچ میں اسے کچھ بھی یاد نہ رہا۔ 

اتنے میں شام ہو گئی۔ شام کو جب وہ چالیس چور واپس آئے تو پھاٹک کے پاس انھیں دس خچر نظر آئے۔ ان خچروں کو دیکھ کر ہی انھیں شک ہو گیا کہ ضرور کوئی نہ کوئی یہاں آیا ہے۔ انھوں نے خچروں کو تو ایک طرف بھگا دیا اور تلواروں کو نیام سے نکال کر تیار ہو گئے۔ ان کے سردار نے کہا ’’کھُل جا صَم صَم‘‘   دروازہ کھل گیا۔ جیسے ہی دروازہ کھلا۔ قاسم بڑی تیزی سے نکل کر بھاگا۔ لیکن چالیس آدمیوں سے بچ کر کیسے نکلتا۔ انھوں نے اسے پکڑ لیا اور تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ چوروں نے تمام بوروں کو دروازے سے ہٹا کر پھر وہیں رکھ دیا، اور مطمئن ہو گئے۔ لیکن وہ یہ سوچ کر پریشان ہو گئے کہ یہ آدمی غار کے اندر کیسے داخل ہوا انھوں نے قاسم کی لاش کے ٹکڑوں کو اندر ڈال دیا اور پھر چوری کرنے چلے گئے۔ 

قاسم کی بیوی نے تمام رات اپنے شوہر کا انتظار کیا مگر وہ نہ آیا۔ وہ بے چاری پریشان ہو گئی۔ آخر وہ علی بابا کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ ’’بھیا تم کو معلوم ہے کہ تمھارے بھائی صبح صبح جنگل کو گئے تھے لیکن ابھی تک واپس نہیں آئے۔ مجھے ڈر ہے کہیں کسی مصیبت میں تو نہیں پھنس گئے۔‘‘
یہ سن کر علی بابا بھی پریشان ہو گیا۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات آئے۔ حالانکہ قاسم نے کبھی اس کی مدد نہیں کی تھی، چاہے علی بابا کتنی ہی مصیبت میں ہوتا۔ لیکن علی بابا بہت اچھا آدمی تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ قاسم کیسا بھی ہو، آخر ہے تو اس کا بھائی۔ اس نے اپنی بھابی کو تسلی دی اور کہا ’’تم پریشان مت ہو، میں صبح تڑکے خود جاؤں گا اور دیکھوں گا کہ آخر کیا بات ہے وہ کیوں واپس نہیں آیا۔‘‘

جب صبح ہوئی تو علی بابا اپنے گدھے لے کر وہاں پہنچا۔ غار کے دروازے کے سامنے خون کی چھینٹیں دیکھ کر ہی اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے کہا ’’کھل جا صَم صَم‘‘—  جیسے ہی اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے، غار کا دروازہ کھل گیا اور وہاں قاسم کی لاش کے چار ٹکڑے دکھائی دیے۔ علی بابا چکرا گیا لیکن یہاں رونے دھونے کا موقع نہیں تھا۔ اس نے جلدی جلدی قاسم کی لاش کو گدھے پر رکھا اور اس پر کچھ اشرفیوں کے بورے اس طرح رکھ دیے کہ لاش کا کوئی حصہ دکھائی نہ دے۔ اس کے بعد ان گدھوں کو لے کر وہ گھر کو چلا اس نے لوٹنے سے پہلے غار کا دروازہ بند کر دیا —  وہاں سے علی بابا بچتا بچاتا اپنے گھر پہنچا۔ اس نے اشرفیوں کے بورے تو اپنے گھر اتارے اور اُس گدھے کو لے کر قاسم کے گھر پہنچا، جس پر قاسم کی لاش تھی۔ دروازے پر اس کی کنیز مرجینا آئی۔ قاسم نے اس کو سارا حال سنایا، اور قاسم کی بیوی کو بلا کر کہا —  ’’بھابی! جو کچھ ہونا تھا، ہو گیا، اب کوئی کیا کر سکتا ہے۔ لیکن بہتر ہے کہ ہم اس لاش کو چپ چاپ دفنا دیں۔ کسی کو پتہ نہ چلے۔ ورنہ ہم سب مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ مرجینا کنیز بڑی چالاک اور ہوشیار تھی۔ اس نے علی بابا سے کہا —  ’’آپ فکر نہ کریں۔ میں سارا انتظام کر دوں گی۔‘‘
ذرا سی دیر میں کنیز عطار کی دکان پر گئی اور بولی ’’میرے آقا کی حالت بہت خراب ہے، بچنے کی کوئی امید نہیں ہے، کوئی دوا دے دو۔‘‘ عطار نے دوا دے دی۔ 
شام کو مرجینا پھر عطار کی دکان پر گئی اور بولی۔ ’’اس دوا سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میرے آقا کی حالت اور خراب ہو گئی ہے۔‘‘
عطار نے ایک اور دوا دے کر کہا —  ’’خدا کا نام لے کر یہ دوا اور کھلا دو، شاید اس سے کچھ فائدہ ہو جائے۔‘‘

پڑوس میں ہر ایک کو یہ بات معلوم ہو گئی کہ قاسم بہت بیمار ہے۔ چنانچہ رات کو اُن کے گھر سے جب رونے پیٹنے کی آواز سنائی دی تو سب کو یقین ہو گیا کہ قاسم کا انتقال ہو گیا۔ اسی وقت مرجینا بازار گئی۔ وہاں ایک درزی کی دکان تھی۔ اس کا نام تھا مصطفیٰ درزی۔ یہ درزی اپنے کام میں بہت ہوشیار تھا۔ مرجینا نے ایک اشرفی اس کے ہاتھ پر رکھی اور کہا —  ’’میاں جی ذرا میرے گھر تک چلو۔ ذرا سی دیر کا کام ہے۔‘‘
مصطفیٰ درزی تیار ہو گیا۔ مرجینا نے کہا ’’میری ایک شرط ہے کہ تم کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر چلنا ہو گا‘‘ درزی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ مرجینا نے اس کے ہاتھ پر ایک اشرفی اور رکھ دی اور کہا —  ’’جب تم میرا کام کر دو گے تو تم کو اور انعام دوں گی‘‘
مصطفیٰ درزی دوسری اشرفی پا کر اور خوش ہو گیا اور اپنی آنکھوں پر پٹی بندھوا کر مرجینا کے پیچھے چل پڑا۔ مرجینا نے اس کو اپنے گھر میں لا کر پٹی کھولی، اور کہا ’’اس لاش کے ٹکڑوں کو اچھی طرح سی دو۔‘‘ اس سے پہلے کہ مصطفیٰ درزی کچھ کہے، مرجینا نے اس کے ہاتھ پر ایک اور اشرفی رکھ دی۔ 
مصطفی درزی نے اپنا سامان نکالا اور بڑی تیزی کے ساتھ اپنا کام شروع کیا۔ جب لاش خوب اچھی طرح سِل گئی تو مرجینا نے اس کو ایک اور اشرفی دی اور پہلے کی طرح آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کی دکان پر چھوڑ آئی، اور اس سے کہا ’’دیکھو یہ بات کسی سے نہ کہنا۔‘‘
اس کے بعد علی بابا نے جلدی جلدی قاسم کی لاش کو نہلانے کا انتظام کیا، اور کفن میں لپیٹ کر اسے قبرستان میں لے جا کر دفن کر دیا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور سب یہی سمجھے کہ بے چارا قاسم بیمار ہو کر مر گیا۔ 
علی بابا کے ایک بیٹا تھا جو ایک اور دکان دار کے یہاں کام سیکھ رہا تھا۔ علی بابا نے قاسم کی دکان اس کے سپرد کر دی۔ اور قاسم کی بیوی کے کہنے پر علی بابا اور اس کی بیوی قاسم کے گھر آ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ قاسم کا گھر بہت بڑا تھا۔ اس لیے ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ 

ادھر چالیس چور جب اپنے غار میں داخل ہوئے تو وہ حیرت میں رہ گئے کہ لاش کے چاروں ٹکڑے غائب تھے انھوں نے سوچا کہ اب تو ضرور کسی کو ہمارے خزانے کا پتا لگ گیا۔ ان کے سردار نے کہا —  ’’اگر ہم نے اس آدمی کا پتا نہ لگایا تو ہماری خیریت نہیں ہے۔ اس لیے اب ہم کو چاہیے کہ اس آدمی کا پتا لگائیں جو یہاں سے لاش لے گیا ہے۔‘‘
سب چوروں نے کہا ’’ہم کسی نہ کسی طرح سے اس کا پتا لگائیں گے۔‘‘
ان کے سردار نے کہا۔ ’’تم میں سے جو سب سے بہادر ہو، وہ یہ کام کرے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مسافر کی طرح شہر میں جا کر یہ پتا چلائے کہ کسی ایسے آدمی کی موت کی کوئی خبر ہے، جسے کسی نے قتل کر دیا ہے، لیکن جو بھی اس کام کو اپنے ذمے لے، اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر وہ یہ کام نہ کر سکا تو جان سے مار دوں گا۔‘‘
ایک چور نے کہا ’’میں یہ کام کر سکتا ہوں۔ اگر میں نہ کر سکا تو سردار کو حق ہے کہ مجھے جو چاہے سزا دے۔‘‘
سردار نے اسے اجازت دے دی۔ یہ چور ایک سوداگر کا بھیس بدل کر شہر میں پہنچا۔ وہاں اتفاق سے مصطفیٰ درزی کی دکان کھلی ہوئی تھی۔ چور نے اس سے جا کر کہا۔ ’’بڑے میاں تم اتنی رات گئے موم بتی جلا کر کام کر رہے ہو۔ تم کو کچھ دکھائی بھی دے رہا ہے یا یوں ہی کام کر رہے ہو۔‘‘
مصطفیٰ نے کہا —  ’’تم پردیسی معلوم ہوتے ہو، اسی لیے مصطفیٰ درزی کو نہیں جانتے۔ میں بوڑھا ہوں تو اس سے کیا ہوتا ہے۔ تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے ایک دن پہلے ایک لاش کے چار حصے اس سے بھی کم روشنی میں سیے ہیں۔‘‘
چور سمجھ گیا کہ یہ تو وہی لاش تھی۔ اس نے کہا ’’ایک لاش کو! نہیں نہیں  —  تم نے خالی کفن سیا ہو گا۔‘‘
 ’’خیر چھوڑو، اس بات کو —  تم کو اس سے کیا مطلب۔ مجھے کسی سے کوئی واسطہ نہیں۔ اور نہ میں تم سے ایسی بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
چور نے چپکے سے ایک اشرفی نکال کر مصطفیٰ درزی کے ہاتھ پر رکھ دی اور اس سے کہا —  ’’میں نہیں چاہتا کہ تم مجھ سے کوئی بات چھپاؤ۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کا ذکر کسی سے نہ کروں گا۔ اور اگر تم مجھے وہ گھر بتا دو تو میں تم کو اور انعام دوں گا۔‘‘
مصطفیٰ درزی نے کہا ’’میں تم کو اگر بتانا بھی چاہوں تو نہیں بتا سکتا کیونکہ جب میں وہاں گیا تھا تو میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی۔‘‘
چور نے کہا ’’تم کو کچھ تو اس کا اندازہ ہو گا کہ کس کس راستے سے ہوتے ہوئے گزرے تھے۔ میں بھی تمھاری آنکھوں پر پٹی باندھے دیتا ہوں۔ تم اسی طرح اندازے سے چلو۔‘‘ یہ کہہ کر چور نے مصطفیٰ درزی کے ہاتھ پر ایک اشرفی اور رکھ دی۔ 
مصطفیٰ درزی تیار ہو گیا اور پٹی بندھوا کر چور کے ساتھ ہو لیا۔ آخر چلتے چلتے وہ قاسم کے مکان کے سامنے آ گیا۔ اک دم سے مصطفی نے کہا —  ’’یہی وہ جگہ ہے۔‘‘ چور نے اس کی پٹی کھول دی اور جس دروازے پر وہ رکا تھا، وہاں اس نے چاک سے ایک نشان بنا دیا، تاکہ اگلے دن صبح کو اسے پتا لگ جائے کہ اصل مکان کون سا ہے۔ اس کے بعد اس نے مصطفی درزی کی پٹی کھول دی اور اسے رخصت کر دیا اور خوشی خوشی اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا تاکہ انھیں بتا دے کہ اسے مکان کا پتا لگ گیا ہے۔ 

اس وقت مرجینا کنیز کسی کام سے باہر گئی ہوئی تھی۔ وہ جب واپس آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ دروازے پر چاک کا ایک نشان ہے۔ مرجینا تھی بڑی چالاک۔ سمجھ گئی کہ ضرور کوئی نہ کوئی خاص بات ہے۔ وہ بھی چپکے سے ایک چاک لے آئی اور اس نے آس پاس کے تمام مکانوں کے دروازوں پر اسی طرح کا نشان بنا دیا۔ 
ادھر چوروں کا سردار اس چور کو لے کر وہ مکان دیکھنے کے لیے آیا۔ مگر جب وہاں پہنچا تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کون سا مکان ہے، کیونکہ وہاں تو ہر مکان کے دروازے پر ویسا ہی نشان بنا ہوا تھا۔ اب وہ کرتا تو کیا۔ چپ چاپ واپس آ گیا۔ جب اور چوروں نے سنا تو انھیں اتنا غصہ آیا کہ انھوں نے اس چور کو جان سے مار دیا، جو پتا لگانے کے لیے گیا تھا۔ 

اب ایک اور چور کی باری آئی، جو بڑا جاسوس بنتا تھا۔ وہ بھی مصطفیٰ درزی کے پاس پہنچا۔ مصطفیٰ درزی کو اس نے بھی اسی طرح اشرفیاں دیں اور پٹی باندھ کر مکان کا پتا لگانے کے لیے لے گیا۔ جب قاسم کے مکان پر پہنچا تو اس چور نے لال چاک سے نشان لگا دیا اور سردار کو لینے کے لیے واپس آ گیا۔ 
اتفاق سے مرجینا جو باہر نکلی تو اسے لال نشان دیکھ کر شک ہوا کہ ضرور پھر کوئی دال میں کالا ہے۔ اس نے فوراً لال چاک لا کر ہر مکان پر ویسا ہی نشان لگا دیا۔ 
چور نے واپس آ کر سردار سے سارا حال کہہ سنایا اور کہا۔ ’’میں نے اصل مکان پر لال نشان لگا دیا ہے۔ اس بار ہمارا دشمن بچ کر نہیں نکل سکتا۔‘‘ سردار فوراً اس کے ساتھ ہو لیا۔ اس بار بھی وہی ہوا اور چور کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 

اب کُل ملا کر اڑتیس چور باقی رہ گئے تھے۔ چوروں کے سردار نے سوچا کہ اب یہ کام میں خود کروں گا۔ اس نے مصطفیٰ درزی سے قاسم کے گھر کا پتا لگا لیا اور نشان لگانے کے بجائے خوب اچھی طرح سمجھ لیا کہ کون سا مکان ہے۔ یہ پتا لگا کر وہ واپس آیا اور بولا۔ ’’ساتھیو! اب ہم کو معلوم ہو گیا کہ ہمارا مجرم کون ہے۔ اب ہم اس سے بدلہ لیں گے۔‘‘
اس نے واپس آ کر اُنیس خچروں کا انتظام کیا اور بازار سے تیل کے اڑتیس خالی پیپے منگوائے۔ ان میں صرف ایک پیپے میں تیل بھر دیا۔ 
چوروں کے سردار نے ہر پیپے میں ایک ایک چور چھپا دیا۔ ہر چور کے پاس ہتھیار تھا۔ اس نے پیپوں پر تھوڑا تھوڑا تیل مل دیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ سچ مچ پیپوں میں تیل بھرا ہوا ہے۔ یہ تمام پیپے خچروں پر لاد کر سردار شہر میں داخل ہوا۔ جو کوئی دیکھتا یہی سمجھتا کہ تیل کا سوداگر ہے۔ یہاں سے وہ سیدھا علی بابا کے گھر پہنچا۔ اتفاق سے اس وقت علی بابا اپنے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ سردار نے خچروں کو وہیں روکا اور علی بابا سے بولا —  ’’میرے بھائی! میں یہاں تیل بیچنے کے لیے آیا ہوں۔ اب بہت دیر ہو گئی۔ یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اتنی رات گئے کہاں جاؤں۔ اگر تم کو تکلیف نہ ہو تو بس یہیں کہیں رات بھر ٹھہرنے کا انتظام کر دو۔ صبح ہوتے ہی چلا جاؤں گا۔‘‘
حالانکہ علی بابا نے چوروں کے سردار کو جنگل میں دیکھا تھا لیکن وہ پہچان نہ سکا اور بڑی محبت سے بولا۔ ’’تم بڑے شوق سے یہاں رات بھر رہو۔ علی بابا نے تمام خچروں کو ایک کمرے میں بند کر دیا اور سردار کے لیے ایک دوسرا کمرہ خالی کر دیا۔ اس کے بعد وہ مرجینا کے پاس گیا اور اس سے بولا۔ ’’مرجینا! ہمارے یہاں ایک مہمان آیا ہے۔ اس کے لیے کھانا پکا دو۔ جب کھانا تیار ہو چکا تو علی بابا نے سردار کو کھانا کھلایا۔ علی بابا نے کہا ’’تم کو جس چیز کی ضرورت ہو، کنیز سے کہہ دینا، یہ انتظام کر دے گی۔‘‘ اس کے بعد علی بابا نے کنیز سے کہا ’’میں ایک ضروری کام سے صبح کو جاؤں گا۔ تم میرے لیے ناشتہ تیار کر دینا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں سونے چلا گیا۔ 

سردار چپکے سے اس کمرے میں گیا، جہاں خچر تھے۔ اس نے ہر چور سے کہہ دیا کہ جب میں کنکر پھینکوں تو تم اک دم سے پیپے سے نکل آنا اور پھر ہم سب لوگ ایک ساتھ حملہ کریں گے۔‘‘
اس کے بعد سردار اپنے کمرے میں چلا گیا۔ مرجینا نے سوچا کہ سونے سے پہلے مالک کے واسطے صبح کے لیے ناشتہ تیار کر دوں۔ وہ باورچی خانے میں جا کر کام کرنے لگی۔ لیکن ذرا سی دیر میں چراغ کا تیل ختم ہو گیا اور وہ بجھنے لگا۔ 
اس نے سوچا کیوں نہ سوداگر کے پیپوں میں سے ذرا سا تیل نکال لے۔ وہ کمرے میں گئی۔ جیسے ہی ایک پیپے کے پاس گئی، اندر سے آواز آئی ’’اب نکل آؤں کیا‘‘—  وہ دوسرے پیپے کے پاس گئی، اس میں سے بھی یہی آواز آئی۔ وہ جس پیپے کے پاس جاتی، اس میں سے یہی آواز آتی۔ مرجینا سمجھ گئی کہ ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔ اس نے مردانہ آواز بنا کر کہا ’’ابھی نہیں‘‘—  ہر پیپے کے پاس جا کر اسے معلوم ہو گیا کہ سوائے ایک کے ان میں سے ہر ایک میں ایک ایک آدمی چھپا ہوا ہے۔ 
اس نے تیل والے پیپے میں سے تیل نکالا اور اسے چولھے پر رکھ کر خوب گرم کیا اس کے بعد اس نے وہ جلتا ہوا تیل، ہر پیپے میں انڈیل کر اس کا منہ خوب اچھی طرح بند کر دیا۔ سینتیس کے سینتیس چور ان کے اندر جل کر مر گئے۔ جب آدھی رات ہو گئی تو سردار اٹھا۔ اس نے ایک کنکر اٹھا کر دروازے پر مارا۔ لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس طرح جب کئی کنکر مارنے پر بھی کوئی آہٹ نہ ہوئی تو اس نے سوچا کہ خود نکل کر دیکھوں کہ آخر کیا معاملہ ہے۔ جب وہ اس کمرے میں گیا جہاں پیپے تھے تو وہاں پیپوں میں سے بڑی سخت بدبو آ رہی تھی۔ اس نے غور سے ایک پیپے کو دیکھا تو اس کو معلوم ہوا کہ اس کے تمام ساتھی مر چکے ہیں۔ وہ سمجھ گیا کہ علی بابا نے ان کا کام تمام کر دیا ہے۔ اس نے سوچا کہ اس وقت بدلہ لینا تو بہت مشکل ہے۔ اپنی ہی جان بچ جائے تو بڑی بات ہے۔ یہ سوچ کر وہ چپ چاپ باغ کی دیوار پھاند کر نکل گیا۔ 
مرجینا غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ سردار بچ کر نکل گیا۔ اس نے جلدی سے نکل کر کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر دیا اور اپنے کمرے میں سونے چلی گئی۔ 

جب صبح ہوئی اور علی بابا اٹھا تو مرجینا اسے کمرے میں لے گئی، جس میں پیپے تھے  —  مرجینا نے کہا ’’میرے آقا! ذرا پیپوں کو تو دیکھیے۔ 
علی بابا نے جو ایک پیپے کو کھول کر دیکھا تو اس میں ایک لاش تھی۔ وہ مارے ڈر کے چیخ اٹھا۔ مرجینا نے اسے سینتیس کے سینتیس پیپے دکھائے اور بتایا کہ یہی وہ چور تھے جو اس کو مارنے آئے تھے۔ جب اُن لاشوں کو باہر نکالا گیا تو ہر ایک کے پاس سے ہتھیار نکلے۔ مرجینا نے علی بابا کو رائے دی کہ اِن لاشوں کو چپ چاپ باغ میں دفن کر دینا چاہیے کہ کسی کو پتا نہ چلے۔ علی بابا کو یہ رائے بہت پسند آئی۔ اس نے ایک بڑا سا گڈھا کھودا اور بڑی احتیاط کے ساتھ تمام لاشوں کو اس میں دفن کر دیا۔ اس کے بعد اس نے دو تین روز کے اندر دو دو چار چار کر کے تمام خچروں کو بازار میں بیچ دیا۔ 

چوروں کا سردار اپنے جنگل میں واپس آ گیا تھا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری تھی بلکہ اب تو اس کا غصہ اور بڑھ گیا تھا کہ اس کے تمام ساتھی ایک ایک کر کے مارے گئے تھے اور وہ اکیلا رہ گیا تھا۔ دو ایک دن بعد اس نے سوچا کہ چل کر شہر میں دیکھا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ان سینتیس لاشوں کی وجہ سے علی بابا خود پکڑا گیا ہو اور خلیفہ نے اسے گرفتار کر لیا ہو۔ یہ سوچ کر ایک دن وہ شہر آیا اور اس نے شہر کا حال پوچھا۔ لیکن کسی نے علی بابا اور ان لاشوں کا ذکر نہیں کیا۔ اب تو اسے یقین ہو گیا کہ ضرور علی بابا نے چوری چھپے ان لاشوں کو دفنا دیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ چوروں کا سردار اس لیے بھی گھبرایا ہوا تھا کہ علی بابا کو اس کے خزانے کا حال معلوم ہے۔ اس لیے اس نے ایک اور ترکیب کی۔ اس نے شہر میں ایک بہت بڑی دکان کرائے پر لی اور سامان بیچنے لگا اس نے سوچا کہ غار سے سارا سامان نکال لے تاکہ علی بابا کو کچھ نہ مل سکے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جس جگہ علی بابا کے بیٹے کی دکان تھی، اس کے بالکل سامنے چوروں کے سردار نے دکان لی۔ سردار نے اپنا نام خواجہ حسن مشہور کر دیا اور علی بابا کے بیٹے سے خوب دوستی کر لی۔ ایک دن اس نے خواجہ حسن کی اپنے یہاں دعوت کی، لیکن خواجہ حسن نے کہا ’’مجھے کھانے میں کوئی تکلف نہیں ہے۔ لیکن میں بیمار ہوں اور حکیم نے مجھے نمک کھانے کے لیے منع کر دیا ہے۔ اس لیے آپ کھانا کھلانے کی تکلیف نہ اٹھائیں۔‘‘
علی بابا نے کہا ’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کے لیے بغیر نمک کا کھانا پکا دیا جائے گا۔‘‘
لیکن یہ بات سن کر مرجینا کنیز کو حیرت ہوئی۔ اس نے کہا ’’مالک! یہ کیسا مہمان ہے، جو نمک نہیں کھاتا۔‘‘
علی بابا نے کہا ’’تم فکر مت کرو۔ جیسا میں کہوں، ویسا کرو‘‘-
مرجینا نے علی بابا کے کہنے کے مطابق کھانا پکایا، لیکن جیسے ہی وہ کھانا لے کر گئی، اس نے خواجہ حسن کو دیکھا اور پہچان گئی کہ یہ تو وہی چوروں کا سردار ہے۔ اس نے غور سے دیکھا تو اس کو ایک چھرا بھی لٹکتا ہوا نظر آیا۔ اب تو مرجینا کو یقین آ گیا۔ اس نے سوچا کہ آج سردار کو ختم کرنے کے لیے کوئی ترکیب کرنی چاہیے۔ 
یہ سوچ کر اس نے جلدی جلدی کپڑے بدلے اور علی بابا کو بلا کر کہا ’’اگر اجازت ہو تو میں آپ کے مہمان کے سامنے ناچوں۔‘‘
علی بابا نے کہا ’’ضرور —  یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ خواجہ حسن بہت خوش ہو گا۔‘‘
ذرا سی دیر کے بعد مرجینا نے اپنا ناچ شروع کیا۔ وہ خوب ناچتی رہی۔ اس نے چھرا نکالا اور اس طرح ناچنے لگی کہ لوگ یہی سمجھے کہ یہ بھی ناچ کا کوئی طریقہ ہے۔ اس طرح وہ ناچتے ناچتے علی بابا کے پاس پہنچی اور دوسرا ہاتھ اس طرح پھیلایا جیسے کوئی انعام مانگ رہی ہو۔ علی بابا نے ایک اشرفی نکال کر دی۔ اب وہ علی بابا کے بیٹے کے پاس گئی۔ اس نے اسے بھی اسی طرح انعام دیا۔ اب وہ خواجہ حسن کے سامنے گئی۔ خواجہ حسن جیسے ہی جیب سے اشرفی نکالنے کے لیے جھکا، مرجینا نے چھرا اس کے سینے پر مار دیا۔ اسی لمحے خواجہ حسن مر گیا۔ 
علی بابا اور اس کا بیٹا گھبرا گئے ’’ارے مرجینا! یہ تم نے کیا کیا۔ تم پاگل تو نہیں ہو گئیں۔ ہمارے مہمان کے ساتھ تم نے یہ سلوک کیا۔ اب تو ہم سب تباہ و برباد ہو جائیں گے۔‘‘
مرجینا نے کہا ’’میرے آقا! میں نے آپ کو تباہی اور بربادی سے بچایا۔ ذرا دیکھیے تو‘‘ یہ کہہ کر اس نے جو خواجہ حسن کا دامن اٹھایا تو اس میں ایک چھرا رکھا ہوا ملا۔ اس نے کہا ذرا اب غور سے دیکھیے یہ تیل والا سوداگر ہے۔ وہی چالیس چوروں کا سردار —  آپ کو معلوم ہے، اس نے ہمارے یہاں کا نمک کھانے سے انکار کیا تھا۔ مجھے اسی وقت شک ہو گیا تھا کہ یہ شخص ضرور ہمارا دشمن ہے۔ اور یہاں کسی بری نیت سے آیا ہے۔‘‘
علی بابا مارے خوشی کے اچھل پڑا۔ اس نے کہا ’’مرجینا! تم نے میری جان بچائی۔ میں اس کے بدلے میں اپنے بیٹے سے تمھاری شادی کروں گا۔‘‘ اس کے بیٹے نے بھی بڑی خوشی سے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ 
اگلے دن علی بابا نے سردار کی لاش کو چپ چاپ باغ میں دفن کر دیا۔ 

اب باپ بیٹے بڑے مزے میں رہنے لگے۔ اس نے مرجینا کی شادی اپنے بیٹے سے کر دی۔ بہت دنوں تک تو علی بابا نے غار کی طرف جانے کا خیال بھی نہ کیا۔ کیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ دو چور زندہ ہوں گے۔ جب کئی مہینے گزر گئے تو ایک دن علی بابا گھوڑے پر بیٹھ کر جنگل کی طرف گیا۔ وہاں غار کا دروازہ بند تھا، اس نے کہا ’’کھل جا صم صم‘‘—  دروازہ کھل گیا۔ جب اندر گیا تو سارا خزانہ ایسے رکھا تھا، جیسے کسی نے مہینوں سے اس کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اب تو اس کو اطمینان ہو گیا کہ ضرور وہ دونوں چور بھی مر گئے ہیں۔ اب تو گویا اس خزانے پر اس کا قبضہ ہو گیا۔ علی بابا نے اپنے بیٹے کو بھی خزانے کا بھید بتا دیا۔ 
علی بابا اور اس کا بیٹا ساری عمر عیش و آرام سے رہے اور ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد بھی اس خزانے سے فائدہ اٹھاتی رہی اور ان کو کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی