مختصر تفسیر ِعتیق : سورۃ الانبیاء


سورہ الانبیاء سے اس پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے۔ یہ مکی سورت ہے۔ ایک سو بارہ آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ دوسری مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید و رسالت اور قیامت کے عقیدہ پر گفتگو کی گئی ہے مگر  ’’رسالت‘‘ کا موضوع خاص طور پر اجاگر کیا گیا ہے اور مختلف انبیاء و رسل کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔

 قیامت اور اس کی تیاری کی طرف متوجہ کرنے کے لئے سورت کی ابتداء میں فرمایا: لوگوں کے حساب و کتاب کا وقت قریب آ رہا ہے، لیکن وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور جب بھی اللہ کی طرف سے ان کی ہدایت کے لئے کوئی قرآنی آیت اترتی ہے تو یہ اسے مذاق میں ٹالتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہیں قرآن سنانے والا تمہارے جیسا بشر ہے۔ جادو کر دیتا ہے یا بد خوابی کی باتیں کرتا ہے۔ قرآن اس نے خود ہی گھڑ لیا ہے بلکہ یہ شاعرانہ کلام ہے۔ اگر سچا ہوتا تو کوئی معجزہ دکھاتا جیسے پہلے انبیاء معجزات دکھاتے رہے۔ پہلے انبیاء کے معجزات سے ان کی قوموں نے کوئی فیض حاصل نہیں کیا، جس کی بناء پر وہ ہلاک ہو کر رہے، اب کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے؟ پہلے انبیاء بھی بشر ہی تھے ان پر وحی اتاری گئی تھی، ہم نے انہیں کوئی ایسے ڈھانچے میں تو نہیں بنایا تھا جنہیں کھانے پینے کی حاجت ہی نہ ہو۔ ہم نے ان کی ہدایت کے لئے ایسی کتاب اتاری ہے، جس میں ان کا تذکرہ موجود ہے کہ یہ کتاب جس قدر لوگوں تک پہنچے گی اس کے ساتھ ان کا ذکر بھی پہنچے گا اور پھر اس میں ہر شعبہ زندگی کے اچھے برے لوگوں کے واقعات موجود ہیں، ان کے ضمن میں یہ اپنا تذکرہ بھی اس کتاب میں تلاش کر سکتے ہیں۔

 اس کے بعد قوموں پر عذاب الٰہی کے نزول اور ان کی عبرتناک ہلاکت کا تذکرہ اور پھر معرکۂ حق و باطل اور اس کا نتیجہ بتایا ہے کہ حق و باطل باہم ٹکراتے ہیں تو باطل پاش پاش ہو کر رہ جاتا ہے۔ باطل ہے ہی زائل ہونے والی چیز۔ آسمان و زمین کے نظام کا نہایت نظم و نسق سے چلتے رہنا اس بات کا غماز ہے کہ اس نظام کا خالق و مالک ایک وحدہ لاشریک ہے۔ اگر ایک سے زیادہ با اختیار شخصیات اس نظام کو چلا رہی ہوتیں تو ان کے اختیارات کی جنگ میں کائنات میں فساد برپا ہو چکا ہوتا اور سارا نظام منتشر ہو کر رہ جاتا۔ فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھنے والے غلطی پر ہیں، وہ تو اللہ کے بندے اور اس کے فرماں بردار ہیں۔ وہ اللہ کے سامنے نہ بول سکتے ہیں نہ سفارش کر سکتے ہیں۔ وہ تو اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی دعویٰ کرے کہ اللہ کے مقابلہ میں بھی الٰہ ہوں تو ہم اسے ظالموں کے انجام سے دوچار کر کے جہنم کا ایندھن بنا دیں گے۔ یہ لوگ غور کیوں نہیں کرتے؟

 آسمان و زمین کا خام مادہ ایک ہی تھا ہم نے الگ الگ کر کے اوپر آسمان اور نیچے زمین کو بنا دیا، پھر آسمان و زمین بالکل بند تھے کہ نہ بارش برسے اور نہ ہی نباتات پیدا ہوں۔ ہم نے آسمان سے بارش برسائی اور زمین سے پودے اور درخت اگائے، کیا ان کی عقلیں کام نہیں کرتیں؟ پھر دن رات کا نظام، سورج اور چاند کا اپنے مدار میں چکر لگاتے رہنا، پہاڑ اور ان کے بیچ انسانی نقل و حمل کے لئے راستے، یہ سب قدرت خداوندی کے مظاہر ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمدﷺ  کی موت پر ان کا پیغام ختم ہو کر رہ جائے گا اور بعد میں ان کا دین نہیں چل سکے گا۔ کیا یہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آپﷺ کے انتقال کی صورت میں یہ لوگ نہیں مریں گے؟ کیا انہوں نے دنیا میں بقاء دائمی کا کوئی معاہدہ کر رکھا ہے؟ ہر انسان نے موت کے مرحلہ سے گزرنا ہے اور اس کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ اسے مل کر رہے گا۔ اگر آپ کا استہزاء اور تمسخر کیا جا رہا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہے پہلے انبیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور ان مذاق اڑانے والوں کو ان کا مذاق ہی تباہی کا شکار کر دیا کرتا تھا۔ اللہ کا عذاب اگر رات دن میں کسی وقت اچانک آ جائے تو انہیں کون بچائے گا؟ ہمارا عذاب ایسا زبردست ہوتا ہے کہ اس کی ذرا سی جھلک دیکھ کر ہی یہ چلانے لگیں گے۔ قیامت کے دن اعمال کے وزن کے لئے انصاف کے ترازو قائم ہو جائیں گے کسی پر کوئی زیادتی اور ظلم نہیں ہو گا۔ اگر انہوں نے رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی عمل کیا ہو گا تو اس پر بھی جزاء یا سزا کے نظام کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا۔

 اس کے بعد ابراہیمؑ اور ان کی بت پرست قوم کا تذکرہ کہ عید کے موقع پر وہ پکنک منانے اور کھیل کود کرنے شہر سے باہر چلے گئے اور اپنے بتوں کے آگے نذرو نیاز کے چڑھاوے چڑھا گئے۔ ابراہیمؑ نے ان بتوں کو کلہاڑے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور جب مشرک قوم لوٹ کر آئی اور اپنے خداؤں کی حالت زار دیکھی تو ابراہیمؑ کو بلا کر باز پرس کرنے لگی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم سمجھتے ہو کہ بت کچھ کر سکتے ہیں اور بولتے بھی ہیں تو انہی سے پوچھ لو۔ بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سب کو کاٹ پیٹ کر برابر کر دیا ہے۔ وہ بے اختیار پکار اٹھے کہ یہ پتھر کے بت تو بول ہی نہیں سکتے۔ یہ حقیقت حال کیسے بیان کریں گے؟ ابراہیمؑ کہنے لگے افسوس کا مقام ہے کہ ایسے بے اختیار معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو؟ وہ لوگ لاجواب ہو کر انتہائی نادم اور شرمندہ ہوئے اور ابراہیمؑ کے لئے آگ کا الاؤ جلا کر اس میں پھینک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کی حفاظت فرمائی اور ان کی مشرک قوم کو ناکام و نامراد کیا۔ ابراہیمؑ کو اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی نامور پوتا عطاء فرمایا اور ان کے بھائی لوط کو بدکار قوم سے نجات دلا کر اس قوم کی خباثت کے نتیجہ میں ہلاک کر دیا۔ نوحؑ کو مشکلات سے نجات دی اور ان کے منکرین کو بدترین عذاب میں مبتلا کر کے نشان عبرت بنا دیا۔

 داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کی نبوت و حکمرانی کے ساتھ ان کی فیصلہ کرنے کی بہترین صلاحیتوں کا ذکر اور جنگ سے بچاؤ کے لئے داؤدؑ کی زرہ سازی کو بیان کر کے بتایا کہ دستکاری اور مزدوری کر کے کمانا کوئی عیب نہیں ہے اور اپنا دفاع کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ پھر ایوبؑ کی بیماری اور ان کے صبر و شکر کے ساتھ اسے برداشت کرنے اور اللہ سے دعائیں مانگنے کا تذکرہ ہے، جس کے نتیجہ میں اللہ نے انہیں صحت عطا فرمائی اور بیماری کے زمانہ میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ فرمایا۔ پھر اسماعیل و ادریس اور ذوالکفل کا مختصر تذکرہ اور ان کی ثابت قدمی کا بیان ہے۔ اس کے بعد مچھلی والے نبی یونسؑ کا ایمان افروز ذکر کہ قوم پر عذاب کے آثار دیکھ کر وہ یہ سمجھ کر اپنے مقام سے ہٹ گئے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر میری کسی قسم کی گرفت نہیں کریں گے مگر جب انہیں کشتی سے سمندر میں پھینکا گیا اور مچھلی نے نگل کر اپنے پیٹ میں انہیں اتار لیا تو وہ اپنے رب کو پکارنے لگے، جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات عطا فرمائی اور ساحل پر پہنچا دیا۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی اپنے ایمان والے بندوں کی مدد فرمایا کرتے ہیں۔

 پھر حضرت مریم کے عظیم کردار اور ان کی عفت و عصمت کی حفاظت اور ان کے ہاں بیٹے کی کراماتی ولادت کی طرف اشارہ کر کے انبیاءؑ کی صالح جماعت کا تذکرہ ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سب ایک ہی جماعت کے افراد ہیں اور تم لوگوں کے لئے ہم نے ایک ہی دین  ’’اسلام‘‘ تجویز کیا ہے، لہٰذا مجھے اپنا رب تسلیم کرو اور میری ہی عبادت کرو۔ پھر علامات قیامت میں بڑی علامت یاجوج و ماجوج کے ظہور کا تذکرہ فرما کر قیامت اور اس کے ہولناک منظر کا بیان شروع کر دیا اور بتایا کہ  ’’رسالت محمدیہ‘‘ تمام کائنات کے لئے باعث رحمت ہے اور تلقین فرمائی کہ حق و باطل کا فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے، لہٰذا اسی سے دین اسلام کی حقانیت کا فیصلہ طلب کرنا چاہئے۔ 
٭٭٭

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی