اس سورت کے مضامین میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید اور قیامت کے اثبات کے ساتھ اخلاق فاضلہ کی تعلیم بھی ہے مگر مرکزی مضمون اثبات رسالت اور خاص طور پر ’’رسالت محمدیہ‘‘ کا اثبات ہے۔
جس ذات نے اپنے بندہ کو رات کے تھوڑے سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر کرا دیا وہ ہر قسم کی کمزوری اور نقص سے پاک ہے۔ مسجد اقصیٰ جس کے چاروں طرف مادی اور روحانی برکتیں پھیلی ہوئی ہیں کہ پھل پھول اور باغات کی سرزمین ہونے کے علاوہ نبیوں اور فرشتوں کی بعثت و نزول کی جگہ ہے۔ ’’عبد‘‘ چونکہ جسم و روح کے مجموعہ کو کہتے ہیں اس لئے معراج نبی عالم بیداری میں بہ نفس نفیس پیش آیا تھا۔ آیت نمبر ۶۰ میں معراج کے سفر کو مؤمن اور کافر میں امتیاز اور فرق کا ذریعہ قرار دیا ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب جاگتے ہوئے جسمانی سفر کی شکل میں ہو۔ ورنہ خواب تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔
ہم نے موسیٰؑ کو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے کتاب عطا فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ تم اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی بجائے زمین میں سرکشی اور بغاوت پھیلاؤ گے اور دو مرتبہ بڑا فساد کرو گے۔ پہلی مرتبہ حضرت زکریاؑ کو قتل کر کے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے بغاوت میں حد کر دی تو شاہ بابل بخت نصر کی شکل میں تم پر عذاب مسلط کیا جس نے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا۔ پھر جب تم نے توبہ کی تو ہم نے دوبارہ تمہیں اقتدار اور مال و دولت سے نواز دیا۔ اس کے بعد ضابطۂ خداوندی کو بیان کیا کہ اگر کوئی قوم اپنا رویہ درست رکھے تو اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے اور اگر بغاوت و سرکشی کرے تو اس میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔
پھر تم نے اللہ کے نبی یحییٰؑ کے قتل کی صورت میں قتل و بربریت اور فساد کی آگ بھڑکائی، مجوسیوں کے اقتدار کی شکل میں تم پر عذاب اتارا جنہوں نے قتل و غارت گری کے ذریعہ تمہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ پھر اللہ نے اپنے رحم و کرم سے تمہیں بچایا لیکن اگر تم نے اپنی حرکتیں نہ چھوڑیں تو ہمارے عذاب کی شکل پھر لوٹ سکتی ہے۔ جب کسی آبادی کے مقتدر لوگ سرکشی و نافرمانی پر اتر آئیں تو ہم انہیں عذاب اتار کر ملیا میٹ کر دیا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اخلاق فاضلہ کی تعلیم دیتے ہوئے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور فضول خرچی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ پھر روزی کی کمی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تمہاری روزی بھی اللہ کے ذمہ ہے اور تمہاری اولاد کی روزی بھی اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ زنا کاری سے بچو ناحق قتل نہ کرو، یتیم کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ، عہد شکنی نہ کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، بغیر تحقیق کے کسی بات کو نقل نہ کرو، زمین پر متکبرانہ انداز میں نہ چلو۔ یہ سب برائی کے ناپسندیدہ کام ہیں۔
تمہارے رب کی طرف سے حکمت سے بھرپور وحی بھیجی جا رہی ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ورنہ جہنم میں قابل ملامت اور ملعون بن کر پڑے رہو گے۔ قرآن کریم میں ہر بات کو مختلف انداز میں ہم بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کر لیں مگر یہ لوگ حق سے اور بھی دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و تحمید کرتی ہے۔ تم اسے سمجھنے سے قاصر ہو۔ جب آپ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے ہیں تو آپ کے اور بے ایمانوں کے درمیان میں ایک حد فاصل قائم ہو جاتی ہے ان کے دلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے ان کے کانوں میں ڈاٹ لگ جاتے ہیں اور اکیلے وحدہ لاشریک رب کا تذکرہ سن کر یہ لوگ دور بھاگنے لگتے ہیں اور قرآن سنتے ہوئے یہ ظالم باہمی سرگوشیوں میں کہنے لگتے ہیں کہ یہ مسلمان تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہڈیوں کو بوسیدہ اور پرانا دیکھ کر کہتے ہیں کہ انہیں کس طرح زندہ کیا جائے گا۔ یہ لوگ اگر سخت ترین چیز لوہے اور پتھر میں بھی تبدیل ہو جائیں تو جس ذات نے انہیں پہلے پیدا کیا تھا وہ دوبارہ بھی پیدا کر لے گا۔
تمہارا رب تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہے وہ جانتا ہے کہ کس کو عذاب دینا ہے کس پر رحم کرنا ہے۔ تیرے رب کے عذاب سے ڈرنا ہی چاہئے، جس بستی کی ہلاکت یا عذاب قیامت سے پہلے مقدر ہے وہ ہمارے پاس لکھی ہوئی ہے۔ ہم اپنی نشانیاں اس لئے ظاہر نہیں کرتے کہ لوگ انہیں دیکھ کر ماننے کی بجائے انکار پر اتر آتے ہیں اور اس طرح وہ عذاب کے مستحق قرار پا جاتے ہیں۔ ہم نے قوم ثمود کی مطلوبہ نشانی اونٹنی کی شکل میں بھیج دی تھی انہوں نے اس پر ظلم کر کے اپنی ہلاکت کو خود ہی دعوت دی۔ ہم تو ڈرانے اور راہ راست پر لانے کے لئے نشانیاں اتارا کرتے ہیں۔ اس کے بعد خیر و شر کے ازلی معرکہ کا آئینہ دار قصۂ آدم و ابلیس ذکر کر کے انسان کو شیطان کے گمراہ کن داؤ پیچ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ بحر و بر میں انسانی مشکلات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں حل کر سکتا۔
پھر بتایا کہ تمام مخلوقات میں انسان کو خصوصی فضیلت اور اعزاز کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ قیامت کے دن انسان کے نامۂ اعمال کے مطابق اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جو شخص دنیا میں اپنی آنکھوں سے دلائل قدرت کا مشاہدہ کر کے بھی کفر کے اندھے پن سے نجات حاصل نہ کر سکا وہ ان دیکھی آخرت کے بارے میں زیادہ اندھے پن کا مظاہرہ کرے گا۔ یہ لوگ دوستی کا دم بھر کر آپ کو وحی الٰہی کے مقابلہ میں خود ساختہ باتیں بیان کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری دی ہوئی توفیق سے آپ حق پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر آپ ان کافروں کی طرف میلان کا اظہار کرتے تو ہم دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں آپ کو عذاب میں مبتلا کر دیتے۔ جس طرح پہلے لوگوں نے اپنے رسولوں کو اپنے وطن سے نکال کر عذاب کو دعوت دی تھی مکہ والے بھی ایسا ہی کرنا چاہتے تھے مگر ہم نے آپ کے اعزاز میں آپ کی قوم کو عذاب سے بچانے کے لئے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔
آپ صبح و شام نما زپڑھیں اور قرآن کریم کی تلاوت کریں۔ فجر کے وقت قرآن سننے کے لئے دن رات کے فرشتوں کا خصوصی اجتماع ہوتا ہے۔ رات کو تہجد کا اہتمام جاری رکھیں۔ آپ کو ’’مقام محمود‘‘ عطا کرنے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ حق آنے پر باطل زائل ہو جایا کرتا ہے۔ قرآن کریم مؤمنین کے لئے شفاء و رحمت ہے اور ظالموں کے لئے خسارہ اور نقصان کا باعث ہے۔ روح اللہ کا ایک امر ہے، اس کی حقیقت کو جاننے کی علمی صلاحیت تمہارے اندر مفقود ہے۔ ساری دنیا کے جنات و انسان مل کر بھی قرآن کریم جیسا کلام بنانے پر قادر نہیں ہو سکتے۔ پھر حضرت موسیٰؑ کا فرعون کے ساتھ مباحثہ اور انہیں عطا کی جانے والی نو نشانیوں کا اجمالی تذکرہ کیا اور فرعون نے جب موسیٰؑ اور ان کے ساتھیوں کو ملک بدر کرنا چاہا تو ہم نے فرعونیوں کو غرق کر کے ان کا قصہ ہی تمام کر دیا۔ قرآن کریم حق کے ساتھ اترا ہے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے اتارنے کی حکمت یہ ہے کہ آپ انہیں ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناتے رہیں اور ان کی دل جمعی کا باعث بنتا رہے۔ اپنی دعا میں نہ زیادہ چلاؤ اور نہ ہی بالکل خفیہ آواز رکھو بلکہ میانہ روی اختیار کرو۔ سورت کے آخر میں فرمایا آپ اعلان کر دیں کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں، جس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کے ملک میں کوئی شریک ہے۔
٭٭٭