مکی سورت ہے، اس میں ایک سو اٹھائیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔ نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں نحل کے محیر العقول طریقہ پر چھتہ بنانے اور شہد پیدا کرنے کی صلاحیت کا تذکرہ ہے۔ اس لئے پوری سورت کو اس کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔
مشرکین کی طرف سے قیامت کے مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت آیا ہی چاہتی ہے۔ تمہیں جلدی کس بات کی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اپنا پیغام دے کر بھیج رہے ہیں کہ لوگوں کو ڈرائیں کہ میں ہی معبود ہوں میرے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش نہ کریں۔ میں نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور انسان کو نطفہ سے تخلیق کیا پھر بھی وہ جھگڑالو بن گیا۔ انسان کی خوراک، اس کے منافع خاص طور پر سردیوں میں گرمائش کے حصول کے لئے جانور پیدا کئے۔ صبح و شام جب ان کے ریوڑوں کے ریوڑ چرنے کے لئے آتے اور جاتے ہیں تو کتنے خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔ تمہارے بھاری سامان کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے میں کام آتے ہیں۔ گدھے، گھوڑے، خچر اسی نے تمہاری تمہاری سواری کے لئے پیدا کئے اور تمہارے لئے ایسی سواریاں ( مثلاً ہوائی جہاز وغیرہ) بھی مستقبل میں پیدا کرے گا جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو۔
پھر بارش اور اس کے اثرات سے انسانوں اور جانوروں کی سیرابی اور چراگاہوں کی آبادی، فصلوں، زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل پھول کے ظاہر ہونے میں عقل استعمال کر کے غور و خوض کرنے اور نصیحت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔ سمندری دنیا کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ بحری جہازوں اور کشتیوں کی مدد سے پانی میں سفر کرنے اور سامان منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جبکہ اس سے تمہیں مچھلیوں کا ترو تازہ گوشت اور زیورات بنانے کے لئے موتی اور جواہر بھی فراہم ہوتے ہیں۔ مظاہر قدرت کا مستقل تذکرہ جاری ہے اور اس سے خالق کائنات تک رسائی حاصل کرنے کی تعلیم ہے۔ انسان کی نفسیات میں احسان شناسی کا مادہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے احسانات و انعامات کا تذکرہ کر کے فرما رہے ہیں کہ ہماری نعمتیں بے حد و حساب ہیں اگر تم شمار کرنا بھی چاہو تو نہیں کر سکتے ہو۔
تمہیں چاہئے کہ خفیہ و علانیہ ہر ڈھکی چھپی کا علم رکھنے والے رب کی خالقیت و عبودیت کا اقرار کر لو۔ تم سے پہلے لوگوں نے بھی سازشیں کر کے آسمانی تعلیمات کا انکار کیا تھا۔ ان پر ایسا عذاب مسلط کیا گیا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور ان کی بستیاں چھتوں کے ساتھ تہس نہس کر کے رکھ دی گئیں۔ پھر ان لوگوں کو قیامت کی ذلت و رسوائی سے الگ واسطہ پڑے گا۔ وہاں ان کے شرکاء بھی کسی کام نہیں آئیں گے۔ ایسے ظالموں کو بدترین ٹھکانہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ جلنا پڑے گا۔ جبکہ نیکوکار اور متقی لوگوں کا بہترین ٹھکانہ جنت ہو گا، جس میں باغات اور نہریں ہوں گی اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے۔ مشرک لوگ اپنے جرائم کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اسے اللہ کی مشیت کا کرشمہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ پہلی مجرم قومیں بھی ایسا ہی کرتی رہی ہیں حالانکہ ہمارے رسول ہر امت کو یہ تعلیم دیتے رہے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ بعض لوگوں نے ہماری بات کو تسلیم کیا اور بعض نے انکار کیا تو ان پر ہمارا عذاب آ کر رہا۔ دنیا میں چل پھر کر ایسے جھوٹوں کے انجام سے تم عبرت حاصل کر سکتے ہو۔ یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم زندہ کر کے دکھائیں گے۔ مردوں کو زندہ کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے ہم ’’کن فیکون‘‘ کے ایک حکم سے تمام انسانوں کو زندہ کر دیں گے۔
اللہ کے نام پر ہجرت کرنے والوں کو بہتر ٹھکانہ فراہم کرنے کی نوید اور انہیں صبر و توکل کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین ہے۔ انبیاء و رسل انسان ہوتے ہیں اور دلائل و شواہد کی روشنی میں توحید بیان کرتے ہیں۔ گناہوں کو دنیا میں پھیلانے کی سازشیں کرنے والے اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ یہ لوگ دائیں بائیں جھکنے اور بڑھنے والے سائے میں غور کر کے اس نتیجہ پر کیوں نہیں پہنچ جاتے کہ زمین و آسمان کی ہر مخلوق حتی کہ فرشتے بھی اللہ ہی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور کسی قسم کا تکبر نہیں کرتے۔ بلندیوں کے مالک اپنے رب کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی حرف بہ حرف پابندی کرتے ہیں۔ بعض مشرکین کے تصور کی نفی کی گئی ہے کہ پوری کائنات کو دو خدا چلا رہے ہیں۔ خیر کا خدا ’’یزدان‘‘ ہے اور شر کا خدا ’’اہرمن‘‘ ہے اور اسی سے یہ نظریہ بھی باطل قرار پاتا ہے کہ آسمانوں کا خدا ’’احد‘‘ ہے اور زمین کا خدا ’’میم‘‘ کے پردہ میں ’’احمد‘‘ ہے۔ پھر اللہ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی دندان شکن انداز میں تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ مشرکین کہتے ہیں کہ فرشتے چونکہ نظر نہیں آتے، عورتوں کی طرح چھپے رہتے ہیں اس لئے وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم خود تو بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے اگر کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی جائے تو اس کے چہرہ پر مایوسی چھا جاتی ہے اور وہ منہ چھپائے پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں ذلت و رسوائی اٹھانے کے لئے بیٹی کی پرورش کروں یا اسے ’’زندہ درگور‘‘ کر دوں؟ اس کے باوجود اللہ کے لئے بیٹیوں کا عقیدہ قائم کر کے تم نے بدترین فیصلہ کیا ہے۔
انسانوں کے جرائم اور مظالم اس قدر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرنے پر آ جائیں تو کوئی جاندار زمین پر زندہ نہ بچ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جرائم پر محاسبہ کے نظام کو قیامت کے دن تک مؤخر کیا ہوا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا۔ پھر اللہ نے کائناتی شواہد سے توحید و رسالت کے مزید دلائل پیش کر کے جانوروں کی مثال شروع کر دی۔ چوپایوں میں تمہارے لئے عبرت کا سامان موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ خون اور گوبر کے بیچ میں سے خالص مزیدار دودھ تمہیں پلاتے ہیں۔ شہد کی مکھی میں مظاہر قدرت کا مطالعہ کر کے دیکھو، اسے ہم نے پہاڑوں گھروں کی چھتوں اور درختوں پر چھتہ بنانے کا سلیقہ عطاء فرمایا ہے۔ پھر ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے رس چوس کر دور دراز کا سفر طے کر کے اپنے چھتہ تک پہنچنے کی سمجھ عطاء فرمائی پھر مکھی کے پیٹ سے مختلف رنگوں اور ذائقوں کا شہد نکالا جو انسانوں کے مختلف امراض کے لئے شفاء اور صحت عطاء کرنے والا ہے۔ سوچ و بچار کرنے والوں کے لئے اس میں دلائل موجود ہیں۔ اللہ ہی تمہیں مارتے اور جِلاتے ہیں اور تم میں سے بعض کو بڑھاپے کی عمر تک پہنچا دیتے ہیں کہ اس کی یاد داشت کمزور ہو جاتی ہے اور وہ معلومات رکھنے کے باوجود کچھ سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اللہ بڑے علم و قدرت والے ہیں۔
اس کے بعد توحید کے مزید دلائل پیش کرنے کے بعد معبود حقیقی اور معبودان باطلہ کا فرق دو مثالوں سے سمجھایا ہے۔ (۱) ایک غلام ہے جو اپنے جان و مال کے معاملے میں بالکل بے اختیار ہے مالک کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ دوسرا آزاد شخص ہے جو وسیع مال و دولت رکھتا ہے اور شب و روز فقراء و مساکین کی مدد کرتا ہے۔ جس طرح ان دونوں افراد کو برابر سمجھنے والا عدل و انصاف کے تقاضوں کا خون کرنے والا ہے اسی طرح معبود حقیقی کے ساتھ بتوں کو شریک سمجھنے والا عقل و خرد سے عاری ہے۔ (۲) ایک غلام گوں گا، بہرا، کسی کام کا نہیں ہے۔ اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہے اور دوسرا معتدل طرز زندگی رکھنے والا اور معاشرہ میں خیر اور نیکی کو پھیلانے والا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ دلائل توحید اور روز قیامت کا تذکرہ جاری ہے۔ قیامت کے دن مشرکین اپنے معبودوں سے برأت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عہد وفا باندھنے کی کوشش کریں گے مگر وقت گزر چکا ہو گا اور اللہ کے دین کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے کافروں کو ان کے فساد پھیلانے کے جرم میں سزا پر سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس کے بعد قرآن کریم کے ہدایت و رحمت ہونے کا بیان ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور غریب پروری کی تعلیم دیتے ہیں اور ظلم و بے حیائی اور منکرات سے باز رہنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ اللہ کا عہد پورا کرو اور ایمان و اعمال صالحہ کی نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد اس کو چھوڑ کر کفر و ارتداد کا راستہ اختیار کرنا ایسا ہے جیسے کوئی عورت روئی کاتنے کے بعد تیار ہونے والے ’’سوت‘‘ کو الجھا کر اپنی ساری محنت کو ضائع کر دے، مساوات مرد و زن کا ضابطہ کہ جسمانی ساخت کے پیش نظر فرائض و حقوق کے اختلاف کے باوجود ایمان و اعمال صالحہ کے نتیجہ میں پاکیزہ زندگی اور اجر و ثواب کے حصول میں دونوں برابر ہیں۔ قرآن کریم کی حقانیت بیان کرتے ہوئے مشرکین کے اس لغو اعتراض کا جواب دیا کہ شام کے سفر میں عیسائی راہب سے ملاقات کے موقع پر اس سے یہ قرآن سیکھ کر محمدﷺ ہمیں سناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی باتیں یقیناً آپ کی دل آزاری کا باعث بنتی ہیں، مگر موٹی عقل رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ عجمی راہب آپ کو عربی قرآن کی تعلیم کیسے دے سکتا ہے؟
پھر ہجرت و جہاد اور استقامت کا پیکر اہل ایمان کو مغفرت و رحمت کی بشارت سنائی ہے اور بتایا ہے کہ کسی شہر یا علاقہ پر اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں سے امن وامان اور خوشحالی کا دور دورہ ہو تو اللہ اس وقت تک اس میں تبدیلی نہیں لاتے جب تک وہاں کے باشندے نافرمانی اور گناہوں پر نہ اتر آئیں۔ اس کے بعد محرمات کی مختصر فہرست کا اعادہ ہے اور اللہ کے حلال کردہ کو کھانے اور حرام کردہ سے گریز کرنے کا حکم ہے پھر ابراہیمؑ کے پسندیدہ طرز زندگی کو اپنانے کا حکم اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے والوں کے لئے زرین ضوابط کا تذکرہ ہے کہ حکمت، موعظہ حسنہ اور سنجیدہ بحث و مباحثہ کی مدد سے اللہ کی طرف لوگوں کو بلایا جائے۔ پھر انتقام اور بدلہ لینے کا قانون بتایا کہ اس میں مساوات پیش نظر رہے اور حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اللہ کی مدد اور توفیق سے دین اسلام پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کے ساتھ آخر میں خوشخبری سنادی کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ اور احسان (اعلیٰ کردار) کے حاملین کی ہر قدم پر مدد و نصرت فرمایا کرتے ہیں۔
٭٭٭