مکی سورت ہے۔ اس میں ننانوے آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ اس سورت کی دوسری آیت سے چودھواں پارہ شروع ہو رہا ہے۔
اس مختصر سورت میں عقیدۂ اسلام کے تینوں بنیادی مضامین توحید و رسالت اور قیامت پر منفرد انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ پہلی آیت میں قرآن کریم کے عظیم اور واضح کتاب ہونے کا بیان ہے۔ چودھویں پارے کی ابتداء میں کہا گیا ہے کہ کافر اگرچہ آج مسلمان ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں مگر ایک وقت آنے والا ہے جب یہ تمنا کریں گے کہ کاش! یہ لوگ مسلمان ہوتے۔ لہٰذا آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں یہ کھاتے پیتے رہیں اور دنیا کے عارضی مفادات میں مگن رہیں اور امیدوں اور آرزوؤں کے دھوکے میں پڑے رہیں عنقریب انہیں دنیا کی بے ثباتی کا پتہ چل جائے گا۔
یہ لوگ حضورﷺ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس شخص پر قرآن اتارا گیا ہے وہ تو مجنون اور دیوانہ ہے۔ اگر یہ سچا رسول ہوتا تو ہر وقت فرشتوں کو اپنے ساتھ رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم فرشتوں کو بھیجیں گے تو عذاب دے کر بھیجیں گے پھر ان لوگوں کو کسی قسم کی مہلت بھی نہیں مل سکے گی۔ اس قرآن کریم کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ حضورﷺ کی تسلی کے لئے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ کافروں کی طرف سے مذاق اڑانے اور نشانیوں کا مطالبہ کرنے پر آپ دل گرفتہ نہ ہوں۔ رسالت کی ’’وادی پر خار‘‘ ایسی ہی ہے کہ پہلے بھی جتنے انبیاء آتے رہے ان کے ساتھ بھی استہزاء و تمسخر کیا گیا۔ مجرمین کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ یہ ہٹ دھرم ہیں نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر ہم آسمان کا دروازہ کھول کر انہیں اوپر چڑھنے کا موقع فراہم کر دیں اور یہ لوگ ہماری نشانیوں اور مظاہر قدرت کا بچشم خود مشاہدہ بھی کر لیں تو یہ کہنے لگیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم پر محمدﷺ کا جادو چل گیا ہے۔
پھر قدرت خداوندی اور توحید باری تعالیٰ کے کائناتی شواہد پیش کرنے شروع کر دیئے۔ ہم نے آسمان کو دیکھنے والوں کے لئے خوبصورت بنایا ہے اور اس میں چوکیاں قائم کر کے شیطانوں سے محفوظ بنا دیا ہے اور اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ’’شہاب مبین‘‘ اس کا پیچھا کرتا ہے، زمین کو ہم نے پھیلا کر اس میں پہاڑ گاڑ دیئے ہیں تاکہ یہ ڈانواں ڈول ہونے سے بچی رہے اور اس میں مناسب چیزیں ہم نے اگا دی ہیں۔ تمہاری معیشت کا سامان ہم نے اس زمین کے اندر ہی رکھا ہے۔ ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں دنیا میں ہم ایک مقر رہ اندازہ کے مطابق ہی اتارتے ہیں۔ بار آور کرنے والی ہوائیں ہم ہی چلاتے ہیں جس کے نتیجہ میں آسمان سے پانی برسا کر تمہیں سیراب کرتے ہیں۔ ہم نے تمہارے لئے پانی ذخیرہ کر رکھا ہے تم اسے محفوظ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہو۔ زندگی اور موت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم پہلوں اور پچھلوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور قیامت میں ان سب کو جمع کر لیں گے۔
پھر تخلیق جن و انس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: انسان کو بدبو دار چکنی مٹی سے پیدا کیا جو خشک ہونے کے بعد ٹھن ٹھن بجنے لگتی ہے اور جنات کو تپتی ہوئی آگ سے تخلیق کیا۔ انسان کو پیدا کر کے مسجود ملائک بنایا۔ شیطان نے سجدہ سے انکار کیا تو اسے راندۂ درگاہ کر دیا اور قیامت تک کے لئے لعنت کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا۔ شیطان نے قیامت تک کے لئے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم کھا لی مگر ہم نے بتا دیا کہ مفاد پرست ہی تمہاری گمراہی کا شکار بنیں گے۔ مخلصین پر تمہارا زور نہیں چلے گا۔ وہ لوگ ہماری عالی شان صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں گے۔
پھر جنت و جہنم اور رحمت خداوندی کے تذکرہ کے بعد حضرت لوطؑ اور ان کی بدکردار قوم اور اس کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا اور اس کے بعد قوم ثمود اور ان کی تباہ شدہ بستی ’’حجِر‘‘ کو درس عبرت کے لئے ذکر فرمایا۔ پھر عظمت قرآن اور خاص طور پر بار بار دہرائی جانے والی سورة فاتحہ کی سات آیتوں کا ذکر کیا۔ کافروں کے سامانِ تعیش کو للچائی ہوئی نظروں کے ساتھ نہ دیکھنے کی تلقین اور اپنے پیروکار مؤمنین کے لئے نرم رویہ اختیار کرنے کا حکم دے کر فرمایا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر ڈٹے رہئے اور کافروں کے استہزاء کی پرواہ نہ کیجئے ان کے لئے ہم ہی کافی ہیں انہیں عنقریب پتہ چل جائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کی دل آزاری ہوتی ہے مگر آپ صبر سے کام لیتے ہوئے تسبیح و تحمید میں مشغول رہیں اور مرتے دم تک سجدہ ریز ہو کر اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیں۔
٭٭٭