مکی سورت ہے۔ باون آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔
اس سورت کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ ہے جبکہ جنت اور جہنم کا تذکرہ اور ظالموں کی عبرتناک گرفت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ انبیاء کے اختصار کے ساتھ تذکرہ ہے مگر ابو الانبیاء ابراہیمؑ کی اپنے معصوم بچے اور بیوی کو لق و دق صحراء میں چھوڑنے کا خصوصیت کے ساتھ تفصیل سے تذکرہ ہے۔ ابتداء سورت میں نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان اس سے کفر کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں آ جاتا ہے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ ہر قوم میں اس کی زبان میں سمجھانے والے نبی ہم نے مبعوث کئے۔
پھر موسیٰؑ اور ان کی قوم کا تذکرہ ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل پر نعمتیں اتاریں فرعون کے بدترین تعذیب کے طریقوں سے نجات دی۔ شکر کرنے سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ناشکری سے نعمت چھن جاتی ہے۔ قوم نوح، عاد، ثمود کا مختصر تذکرہ اور نبیوں کے خلاف ان کے گھسے پٹے اعتراض کا بیان ہے کہ تم ہمارے جیسے انسان ہو نبی کیسے ہو سکتے ہو؟ ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے طریقہ سے ہٹانا چاہتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے جواب میں فرمایا کہ ظالم اور معاند و متکبر ہلاک ہوں گے اور ان کی جگہ انبیاء کے متبعین زمین کے اقتدار کے وارث بنا دئے جائیں گے۔
کافروں کے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے جب تیز ہوا چلتی ہے تو اسے اڑا کر لے جاتی ہے۔ قیامت کے دن جب مجرمین کو آپس میں بات چیت کا موقع ملے گا تو وہ ایک دوسرے پر اعتراضات کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے ہم سے گناہ کروائے اب عذاب کو بھی ہم سے ہٹواؤ۔ تو وہ کہیں گے کہ ہم تو خود عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں تمہیں کس طرح بچا سکتے ہیں۔ پھر جہنمی شیطان کی طرف متوجہ ہو کر اسے ملامت کریں گے، وہ کہے گا کہ مجھے کیوں ملامت کرتے ہو میں نے تو ذرا سا اشارہ کیا تھا تم خود ہی اس پر چل کر گناہوں کے مرتکب بنے ہو لہٰذا نہ تو میں اپنے آپ سے عذاب کو ہٹا سکتا ہوں اور نہ ہی تم سے ہٹا سکتا ہوں۔
پھر ایمان اور کفر کی مثال دی کہ کلمۂ طیبہ کی بدولت ایمان کا مضبوط اور تناور درخت بن جاتا ہے جسے آندھی اور طوفان بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے جبکہ کلمۂ خبیثہ کے نتیجہ میں کفر کی کمزور جھاڑیاں اگتی ہیں جو معمولی اشارہ سے زمین سے اکھڑ جاتی ہیں۔
پھر ابراہیمؑ کی عظیم الشان قربانی اور دعاء کا تذکرہ ہے کہ معصوم بچے اور بیوی کو اللہ کے حکم سے جنگل بیابان میں سکونت پذیر کر دیا اور اللہ سے دعاء مانگی، لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما۔ پھلوں اور سبزیوں اور ہر قسم کی ضروریات زندگی میں برکت عطاء فرما۔ مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا اور ہمارے ساتھ تمام اہل ایمان کی مغفرت فرما۔ اس کے بعد ظالموں کی گرفت کے آسمانی نظام کا تذکرہ ہے کہ ظالموں کو آزادی کے ساتھ دندناتے ہوئے پھرتا دیکھ کر دھوکا میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اور جب اچانک ان کی گرفت کے لئے نظام الٰہی متحرک ہو گا تو انہیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔
٭٭٭