مختصر تفسیر ِعتیق : سورۃ الرعد


مدنی سورت ہے۔ چھیالیس آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔ مدنی سورت ہونے کے باوجود اس میں قانون سازی کی بجائے عقیدۂ توحید و آخرت پر بحث کی گئی ہے۔

 پہلی آیت میں حقانیت قرآن کو بیان کیا اور توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد پیش فرمائے۔ منکرین کو قیامت کے دن طوق اور بیڑیاں ڈال کر جہنم رسید کر دیا جائے گا۔ نشانیوں کا مطالبہ کرنے والوں کو بتا دو کہ میں تو ڈرانے اور انسانیت کو پیغامِ ہدایت سنانے والا ہوں، پھر اللہ کے علم و قدرت کا مزید بیان ہے۔ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ اسے اللہ ہی جانتے ہیں۔ جدید طب زیادہ سے زیادہ بچہ کی جنس (Sex) اور صحت کے بارے میں الٹراساؤنڈ کی مدد سے اندازہ لگا سکتی ہے، لیکن نیکی بدی، غربت و امارت، علم و جہالت اور زندگی کے ماہ و سال ان تمام باتوں کا علم بچہ کے بارے میں اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ انسانی حفاظت کے لئے فرشتوں کے ذریعہ اللہ نے سیکیورٹی نظام بنایا ہوا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ کہ جب تک کسی قوم کی عملی زندگی نہیں بدلتی اللہ اس کی حالت کو نہیں بدلتے۔ بارش سے بھرے ہوئے بادل، بجلی کی چمک اور کڑک اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں۔ فرشتے بھی خوف اور ڈر کے ساتھ اللہ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ 

صحیح معنی میں دعا تو اللہ ہی سے مانگی جا سکتی ہے۔ غیر اللہ سے مانگنے والوں کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی پیاسا دور سے ہاتھ پھیلا کر پانی اپنے منہ تک پہچانے کی ناکام کوشش کرے۔ پھر حق و باطل کی دو مثالیں: آسمان سے بارش برسی جس نے سیلاب کی شکل اختیار کر لی، غیر مفید جھاگ اور کوڑا کباڑ اوپر ہوتا ہے اور مفید پانی نیچے ہوتا ہے۔ آگ میں زیور پگھلایا تو غیر مفید کھوٹ اوپر آ جاتی ہے اور مفید سونا چاندی نیچے رہ جاتا ہے، ایسے ہی حق و باطل کے مقابلہ میں باطل کے اوپر آ جانے سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ حق کے ماننے والے اور منکرین کی مثال ایسی ہے جیسے آنکھوں والا اور اندھا۔ عقل والے ہی درس عبرت حاصل کیا کرتے ہیں پھر مالی اور جسمانی نیکی اور برائی کرنے والوں کا تذکرہ کر کے جنت و جہنم میں ان کے ٹھکانے کو بیان کیا۔ رزق میں کمی زیادتی اللہ ہی کرتے ہیں۔

 دنیاوی نعمتیں تو عارضی فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ کے تذکرہ سے ہی سکون ملتا ہے۔ ان کے لئے مبارک اور بہترین ٹھکانہ ہے۔ لوگوں کی ہدایت کو کرامات اور معجزات کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا بلکہ ہر قوم کی ہدایت کے لئے انبیاء و رسل نے مستقل محنت کی ہے۔ اگر کسی کلام کی تاثیر سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا کر چلایا جا سکے، زمین کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکے یا مردوں کو زندہ کر کے ان سے گفتگو کی جا سکے تو وہ کلام یہ قرآن ہی ہو سکتا ہے۔ نشانیاں طلب کرنے والوں کے لئے اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پہلے انبیاء و رسل کا مذاق اڑانے والوں کو مہلت دے کر عبرتناک طریقہ سے پکڑا گیا لہٰذا آپ کا مذاق اڑانے والے بھی بچ نہیں سکیں گے۔ نبی کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں ہوتی وہ تو عام انسانی زندگی گزارنے والے افراد ہوتے ہیں۔ بیوی بچے اور بشری تقاضے ان کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی دکھانے کا انہیں اختیار نہیں ہوتا۔ انہیں غور کرنا چاہئے کہ جب سے نزول قرآن شروع ہوا ہے اہل ایمان پھیلتے جا رہے ہیں اور کفر کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے اور یہ تنگ جزیرہ میں محصور ہوتے جا رہے ہیں۔ اللہ کے فیصلہ کے بعد کسی دوسرے کا فیصلہ نہیں چل سکتا۔ اے میرے نبی! ان کافروں کی طرف سے آپ کی رسالت کا انکار کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اور اہل علم بھی آپ کی رسالت کی گواہی دینے کے لئے کافی ہیں۔ 
٭٭٭

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی