مختصر تفسیر ِعتیق : سورۃ الاعراف


جنت اور جہنم کے درمیان واقع ایک چبوترا ہے، جس پر ان لوگوں کو عارضی طور پر ٹھہرایا جائے گا، جن کی حسنات و سیئات برابر ہوں گی۔ أعراف کا تذکرہ اس سورة میں موجود ہے اس لئے اسی نام سے پوری سورة کو موسوم کر دیا گیا۔ 

یہ سورة دو سو چھ آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ ایک طویل مکی سورة ہے جو تقریباً سوا پارہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے پہلی سورة الانعام کا مرکزی مضمون  ’’توحید‘‘ تھا اور اس سورة کا مرکزی مضمون  ’’رسالت‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنت و جہنم اور قیامت کے موضوع پر بھی گفتگو موجود ہے۔ سورة کی ابتداء میں قرآن کریم کی حقانیت کو ایک انوکھے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس میں ایک طرف حضورﷺ کی ہمت افزائی ہے تو دوسری طرف آپ کی تسلی کے لئے  ’’وحی الٰہی‘‘ کے منکرین کا انجام ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر نازل شدہ قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں تو آپ دل برداشتہ نہ ہوں۔ یہ لوگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر رہیں گے کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسی قومیں گزری ہیں جنہیں  ’’وحی الٰہی‘‘ کے انکار پر پلک جھپکتے میں نیست و نابود کر دیا گیا۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ آج کے دور کا فرقہ بندیوں، پارٹی بندیوں اور جنگ و جدل کا شکار ہونے والا انسان در حقیقت ایک ہی باپ کی صلب سے پیدا ہونے والا اور ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ہے۔ یہ سب کالے اور گورے، امیر و غریب، شاہ و گدا ایک ہی گھرانے کے افراد اور ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور انہیں باہمی افتراق و نزاع کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ خالقِ انسان کی نگاہ میں اس انسان کی قدر و منزلت کیا ہے؟ اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانیت کے جدا مجد آدمؑ کو مسجود ملائکہ بنا کر اعزازو اکرام کے ساتھ اس کے اصلی گھر جنت میں بھیج دیا اور شیطان کی ازلی دشمنی بتانے کے لئے شجر ممنوعہ کو استعمال کروا کر جد و جہد اور معرکۂ حق و باطل کے طویل اور صبر آزما امتحان کے لئے اسے زمین پر اتار دیا۔

 چار مرتبہ اس انسان کو یا بنی آدم  ’’اے آدم کی اولاد‘‘ کہہ کر پکارا۔ یہ نداء اس سورة کے ساتھ خاص ہے۔ شیطان کے شر سے بچنے کے لئے انتہائی پر حکمت خطاب کرتے ہوئے فرمایا:  ’’اے بنی آدم! جس شیطان نے تمہارے والدین کا لباس اتروا کر انہیں جنت سے نکلوا دیا تھا کہیں تمہیں بھی فتنہ میں مبتلا کر کے جنت سے محروم نہ کر دے۔‘‘ اس کے بعد قیامت کے دن کی منظر کشی کرتے ہوئے اصحاب الجنۃ، اصحاب النار اور اصحاب الأعراف کے نام سے تین گروہ ذکر کئے۔ اس گروہ کا تذکرہ صرف اسی سورة میں ہے۔ اس کے بعد وہ منظر پیش کیا گیا، جس میں جنت والے، جہنم والوں کا ویسے ہی مذاق اڑائیں گے جیسے وہ لوگ دنیا میں ان کی نیکی اور صلاح و تقویٰ پر مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ کیسا منظر ہو گا جب جنت والے انعامات اور عیش و عشرت کے مزے لے رہے ہوں گے اور جہنم والے عذاب کی اذیت و کربناکی میں مبتلا ہوں گے اور جنتیوں سے کھانے کے ایک نوالہ اور پانی کے دو گھونٹ بھیک مانگ رہے ہوں گے اور اصحاب الأعراف اپنی فصیل سے دائیں بائیں جھانک کر جنت و جہنم والوں میں اپنے جاننے والوں کو پہچانیں گے اور ان سے گفتگو کریں گے۔ اہل جنت کے چہرے روشن اور چمکدار ہوں گے جبکہ اہل جہنم بد شکل، سیاہ اور ذلت و رسوائی کے عالم میں ہوں گے۔ اسی اثناء میں اللہ کا منادی آواز لگائے گا:  ’’اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ نیکیوں کا بدلہ جنت ہے جو صلحاء کو مل گئی اور اللہ کے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے اور من مانے طریقہ پر اللہ کے احکام کو اپنی خواہشات کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے ظالم اور منکرین آخرت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب کا طوق ان کے گلے میں ڈالا گیا‘‘۔ اس کے بعد آسمان و زمین کے پیدا کرنے، دن رات کے آنے جانے، ہواؤں کے چلنے اور بارش کے برسنے اور درختوں اور پودوں کے زمین سے نکلنے میں غور و خوض کرنے کی دعوت دے کر پہلے انبیاءؑ کا طویل تذکرہ شروع کر دیا۔ 

نوحؑ نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی۔ قوم نے انہیں گمراہ قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا۔ ان کی رسالت کا انکار کیا، جس پر اللہ نے پانی کا عذاب مسلط کر کے انہیں ہلاک کر دیا اور اپنے نبی کو کشتی کے اندر بچا لیا۔ ہودؑ کا تذکرہ کہ انہوں نے قوم عاد کو دعوت توحید دی انہوں نے ہودؑ کو بیوقوف اور ناسمجھ قرار دے کر انکار کیا۔ اللہ نے ان پر آندھی اور طوفان کا عذاب مسلط کر کے ہلاک کر دیا اور اپنے نبی اور ان کے متبعین کو بچا لیا۔ پھر قوم ثمود کا تذکرہ، صالحؑ نے انہیں دعوت توحید دی۔ انہوں نے انکار کیا اور بیجا مطالبے شروع کر دیئے۔ کہنے لگے کہ پہاڑ سے اونٹنی پیدا کر کے دکھاؤ جو نکلتے ہی بچہ جنے۔ جب اونٹنی معجزانہ طریقہ پر ظاہر ہو گئی تو انہوں نے اسے قتل کر کے اپنے اوپر عذاب مسلط کر لیا۔ ان کی بستی پر ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ ان کا نام و نشان مٹ کر رہ گیا۔ 

پھر قوم لوط اور ان کی بے راہ روی کا تذکرہ۔ لوطؑ نے انہیں بد فعلی جیسے گھناؤنے جرم سے منع کیا تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے کہ تم بہت پاکباز بنتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کر کے انہیں تباہ کر دیا۔ 

پھر قوم مدین کا تذکرہ۔ حضرت شعیبؑ نے انہیں توحید کی دعوت دی اور تجارت میں بددیانتی سے منع کر کے ناپ تول پورا کرنے کی تلقین فرمائی اور انہیں راہ گیر مسافروں کو ڈرانے دھمکانے سے باز رہنے کا حکم دیا، جس پر وہ لوگ بگڑ گئے اور حضرت شعیبؑ کی مخالفت پر اتر آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ میری قوم تمہارے دو گروہ بن چکے۔ ایک ایمان والا اور دوسرا کفر والا۔ لہٰذا اپنے انجام کا انتظار کرو عنقریب ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ فیصلہ کر دیں گے۔ 

آٹھویں پارے کے آخر میں حضرت شعیبؑ کا یہ مقولہ تھا کہ آسمانی نظام کو تسلیم کرنے والی اور انکار کرنے والی مؤمن و منکر دو جماعتیں بن چکی ہیں۔ اب خدائی فیصلہ کا انتظار کرو۔ نویں پارہ کی ابتداء میں ان کی قوم کے سرداروں کی دھمکی مذکور ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی اپنے خیالات سے تائب ہو کر اگر ہمارے طریقہ پر نہ لوٹے تو ہم آپ لوگوں کو ملک بدر کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ اہل ایمان نے اس کے جواب میں کہا کہ ہمیں اللہ نے ملت کفر سے نجات دے کر ملت اسلامیہ سے وابستہ ہونے کی نعمت سے سرفراز کیا ہے تو ہم کیسے غلط راستہ کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ ہم اللہ سے دعاء گو ہیں کہ وہ ہمارے اور تمہارے درمیان دو ٹوک فیصلہ کر کے حق کو غالب کر دے۔ چنانچہ بڑی شدت کا زلزلہ آیا اور حضرت شعیبؑ کی نبوت کے منکر اس طرح تباہ ہو گئے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا اور مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ نے عافیت کے ساتھ بچا لیا جس پر حضرت شعیبؑ نے فرمایا کہ میں نے تو قوم کی خیرخواہی کرتے ہوئے اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا مگر اسے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ تباہ ہو گئے اب ان پر میں کیسے رحم کھا سکتا ہوں؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ضابطہ بیان کر دیا کہ خوشحالی اور تنگدستی کن حالات میں عذاب خداوندی کا مظہر ہوتی ہے اور کن حالات میں اللہ کی طرف سے ابتلاء و آزمائش ہوتی ہے۔ اگر اچھے یا برے حالات کی تبدیلی اعمال میں بہتری پیدا کر کے اللہ کا قرب نصیب کر دے تو یہ تبدیلی امتحان ہے اور اللہ کی رضا کا باعث ہے اور اگر اعمال صالحہ میں ترقی نہ ہو بلکہ وہی سابقہ صورتحال رہے یا نافرمانیوں میں اور اضافہ ہو جائے تو یہ تبدیلی عذاب ہے اور اللہ کی ناراضگی اور غضب کا موجب ہے۔ اللہ کے عذاب سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہونا چاہئے وہ صبح و شام کسی وقت بھی اچانک آ سکتا ہے۔ ہم ان تباہ شدہ بستیوں کے حالات اس لئے سنا رہے ہیں کہ انبیاء و رسل کی آمد کے باوجود بھی ان لوگوں نے اپنے اعمال میں بہتری پیدا نہ کر کے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کا مستحق ٹھہرا لیا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا کر ان کا نام و نشان مٹا کر رکھ دیا۔ 

اس کے بعد معرکہ خیر و شر کا مشہور واقعہ  ’’قصۂ موسیٰ و فرعون‘‘ کا بیان ہے جو آیت ۱۰۳ سے ۱۰۶ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں بعض جزئیات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ قرآن کریم میں بار بار دہرائے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے اور جتنی تفصیل اس واقعہ کی بیان کی گئی ہے، اتنی کسی دوسرے واقعہ کی تکرار کے ساتھ تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے۔ یوں تو اکثر سورتوں میں کسی نہ کسی انداز میں اس کا حوالہ مل جاتا ہے مگر سورة بقرہ، اعراف، طٰہٰ اور قصص میں مختلف پہلوؤں سے اس واقعہ کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی بھرپور نمائندگی حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کرتے ہیں جبکہ شر کی بھرپور نمائندگی فرعون، ہامان، قارون اور یہودی قوم کرتی ہے۔ یہ لوگ اقتدار اعلیٰ، نوکر شاہی، سرمایہ داری کے نمائندہ ہیں۔ سورة الاعراف میں فرعون اور قوم یہود کے ساتھ حضرت موسیٰؑ کے مقابلہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہم نے اپنی آیات دے کر موسیٰؑ کو فرعون اور اس کے حمایتیوں کی طرف بھیجا انہوں نے ان آیات کو ٹھکرا کر فساد برپا کیا۔ آپ دیکھیں ان مفسدین کو کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ موسیٰؑ جب رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس تشریف لے گئے اور انہوں نے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو اس نے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا۔ موسیٰؑ نے  ’’عصا کا اژدھا‘‘ اور  ’’ہاتھ کو چمکتا‘‘ ہوا بنا کر دکھا دیا۔ فرعون نے اسے  ’’جادو‘‘ قرار دے کر مقابلہ کے لئے  ’’جادوگر‘‘ بلوا لئے۔

 انہوں نے رسیوں اور لکڑیوں سے سانپ بنائے۔ موسیٰؑ کے عصا کا اژدھا ان سب کو نگل گیا۔ جادوگر چونکہ اپنے فن کے ماہر تھے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ نبی کا معجزہ ہے۔ وہ مسلمان ہو کر سجدہ ریز ہو گئے۔ فرعون نے یہ کہہ کر کہ موسیٰ جادوگروں کا استاد ہے۔ یہ چھوٹے شاگرد ہیں انہوں نے سازباز کر کے یہ ڈراما رچایا ہے اس نے سب جادوگروں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انہیں سولی پر چڑھا دیا وہ مرتے مر گئے مگر ایمان سے منحرف نہیں ہوئے۔ موسیٰؑ نبی تھے، فرعون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا مگر بنی اسرائیل پر اس نے عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ مظالم سے تنگ آ کر قوم نے موسیٰؑ سے کہا: آپ کی نبوت تسلیم کرنے سے پہلے بھی ہم ستائے جا رہے تھے آپ کے آنے کے بعد اس میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مظالم پہلے سے بڑھ گئے۔

 موسیٰؑ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھروں میں ہی قبلہ رو ہو کر نماز اور صبر کی مدد سے اللہ کی مدد کو اپنی طرف متوجہ کرو۔ دنیا میں آزمائش کے طور پر اللہ جسے چاہیں اقتدار پر فائز کریں، لیکن آخرت میں متقیوں کو بہتر انجام ملے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر مختلف عذاب مسلط کئے۔ قحط سالی اور سبزیوں اور پھلوں کی قلت کا عذاب آیا۔ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو وہ کہتے کہ ہماری  ’’حسن تدبیر‘‘ کا کرشمہ ہے اور جب انہیں کوئی نقصان یا تکلیف پہنچتی تو اسے موسیٰؑ اور ان کے مؤمن ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ ہم پر اپنا جادو آزمانے کے لئے تم بڑے سے بڑا معجزہ دکھا دو ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ ان پر اللہ نے طوفان، مکڑی، جوؤں، مینڈکوں اور خون کا پے در پے عذاب بھیجا مگر وہ تکبر کے ساتھ اپنے جرائم میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ جب ان پر عذاب کی کوئی شکل ظاہر ہوتی تو وہ جھوٹے عہد و پیمان کر کے موسیٰؑ سے دعاء کرا لیتے، مگر عذاب کے ختم ہوتے ہی پھر نافرمانیوں پر اتر آتے۔ ہماری آیات سے غفلت برتنے اور جھٹلانے کا ہم نے انتقام لے کر انہیں سمندر میں غرق کر دیا۔ ہم نے دنیا میں کمزور اور ضعیف سمجھی جانے والی قوم کو ان کے محلات، باغات اور اقتدار کا وارث بنا دیا اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی خاطر کتاب دینے کے لئے حضرت ہارون کو جانشین قرار دے کر حضرت موسیٰؑ  ’’کوہِ طور‘‘ پر ریاضت کرنے کے لئے بلائے گئے، جہاں وہ چالیس روز تک مقیم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شرف ہمکلامی بخشا اور تورات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا ایسا مزہ تھا کہ موسیٰؑ نے اللہ کی زیارت کی درخواست کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تجلی کی جس کی تاب نہ لا کر پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا، جس سے ثابت ہوا کہ انسان اپنے دنیاوی قویٰ کے ساتھ اللہ کی زیارت نہیں کر سکتا۔ 

موسیٰؑ کی عدم موجودگی میں قوم شرک میں مبتلا ہو کر بچھڑے کی پوجا کرنے لگی۔ موسیٰؑ واپس آ کر قوم پر بہت ناراض ہوئے، بھائی ہارون کو بھی ڈانٹا اور پھر تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لئے، اپنے بھائی کے لئے اور پوری قوم کے لئے معافی طلب کرتے ہوئے مغفرت، رحمت اور ہدایت کی دعا مانگی۔ اللہ نے فرمایا میری رحمت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ تقویٰ اور ایمان کو اختیار کریں اور نبی امیﷺ جن کا تذکرہ ان کی کتابوں تورات اور انجیل میں ہے اور وہ انہیں امر بالمعروف، نہی عن المنکر کرتے ہیں، ان کی خودساختہ پابندیوں کو ان پر سے ختم کر کے ان کے گناہوں کے بوجھ سے انہیں آزاد کراتے ہیں، ان پر ایمان لا کر ان کی مدد و نصرت کریں تو یہ لوگ کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گے۔ پھر حضورﷺ کی رسالت کی عمومیت کو بیان کیا کہ آپ تمام انسانیت کے لئے نبی بن کر تشریف لائے ہیں۔ پھر بنی اسرائیل پر مزید احسانات کا تذکرہ فرمایا کہ بارہ قبیلوں کے لئے پتھر سے بارہ چشمے جاری کئے۔ بادل کا سائبان اور من وسلویٰ کی خوراک عطاء کی۔ بیت المقدس میں داخلہ کے لئے جہاد کا حکم دیا اور مخالفت پر آسمانی عذاب کے مستحق قرار پائے۔ پھر سمندر کے کنارے بسنے والوں کا تذکرہ جنہوں نے سنیچر کا دن عبادت کے لئے مقرر کیا، مگر اس کی پابندی کرنے کی بجائے اس دن شکار میں مشغول ہو گئے، جس کی وجہ سے ذلت آمیز عذاب میں مبتلا ہو کر بندروں کی شکل میں مسخ ہو گئے۔ پھر پہاڑ سروں پر معلق کر کے بنی اسرائیل سے میثاق لینے کا تذکرہ ہے کہ اتنے اہتمام کے باوجود بھی انہوں نے پابندی نہیں کی۔ پھر پوری انسانیت سے لئے جانے والے  ’’عہد ألست‘‘ کا تذکرہ ہے جو عالم ارواح میں آدمؑ کی پشت سے تمام روحوں کو  ’’بھوری چیونٹیوں‘‘ کی شکل میں نکال کر لیا گیا۔ تمام روحوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا، مگر دنیا میں آ کر بہت سے لوگ اس سے منحرف ہو گئے۔ پھر ایک اسرائیلی عالم کا تذکرہ جس نے اپنی بیوی کے بہکاوے میں آ کر مالی مفادات کے لئے اللہ کی آیات کی غلط تعبیر و تشریح کی، اسے کتے کی مانند بنا کر اس کی زبان سینے تک لٹکا دی گئی اور وہ کتے کی طرح ہانپتا ہوا جہنم رسید ہو گیا۔ جسے اللہ ہدایت دیں وہی ہدایت یافتہ بن سکتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دیں وہ خسارے میں ہے۔ 

جنات اور انسانوں میں جو لوگ اپنے دل و دماغ اور آنکھ اور کان کا صحیح استعمال کر کے توحید باری تعالیٰ کو نہ مانیں وہ لوگ گمراہی میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ کو اس کے اسماء حسنیٰ کے ساتھ یاد کیا جائے۔ ملحدین کے خودساختہ نام اللہ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔ پھر قیامت کا تذکرہ کہ وہ اچانک کسی بھی وقت آ جائے گی۔ اس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ پھر نبی سے اعلان کروایا گیا  ’’میں اپنے لئے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو مجھ پر کبھی کوئی تکلیف نہ آتی اور تمام بھلائیاں میں اپنے لئے جمع کر لیتا۔ میں تو اہل ایمان کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے کے لئے آیا ہوں‘‘ پھر قدرت خداوندی کے بیان کے لئے ایک جان آدمؑ سے انسانی تخلیق کا تذکرہ اور پھر ازدواجی زندگی کے فائدہ کا بیان کہ اس کا مقصد زوجین کا ایک دوسرے کے ذریعہ سکون حاصل کرنا ہے۔ پھر شرک کی مذمت کہ ایسے کمزوروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو دوسروں کو تو کیا پیدا کریں گے خود اپنی پیدائش میں اللہ کے محتاج ہیں۔ جن بتوں کو یہ اپنا معبود سمجھتے ہیں وہ چلنے پھرنے اور دیکھنے سننے سے بھی محروم ہیں۔ جو اپنی مدد نہ کر سکیں وہ دوسروں کی کیا مدد کریں گے؟ ایک داعی الی اللہ کو اخلاق فاضلہ کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا  ’’عفو و درگزر کرتے ہوئے نیکی کا حکم دیتے رہیں، اگر کبھی شیطان کے اثرات سے کوئی نازیبا حرکت سرزد ہو جائے تو اللہ کی پناہ میں آ کر تقویٰ اور نصیحت کو اختیار کر لینا چاہئے۔ اتباع اور پیروی کے لئے وحی الٰہی کا ہونا ضروری ہے۔ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنیں اور صبح و شام اللہ کو یاد کرتے رہیں۔ اللہ کے برگزیدہ بندے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ وہ اس کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے اس کے حضور سجدہ ریز رہتے ہیں۔ 
٭٭٭

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی