یہ مکی سورة ہے۔ چونکہ اس سورة میں انعام (چوپائے) اور ان سے متعلقہ انسانی منافع کا تذکرہ ہے۔ نیز جانوروں سے متعلق مشرکانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی تردید کی گئی ہے۔ اس لئے اس سورة کا نام ’’الانعام‘‘ رکھا گیا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک ہی رات میں بیک وقت اس شان سے اس سورة کا نزول ہوا کہ اس کے جلوس میں ستر ہزار فرشتے تسبیح و تحمید میں مشغول تھے۔ اس کا مرکزی مضمون توحید کے اصول و دلائل کا بیان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رسالت و آخرت کے موضوع پر بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو دلائل و براہین کے تیز دھار اسلحہ سے مسلح کیا گیا ہے۔ دلائل کا انداز کہیں الزامی ہے تو کہیں مطمئن کرنے کے لئے عقل و خرد کے استعمال کی دعوت دی گئی ہے۔
سورہ کی ابتداء سے ہی دو خداؤں (یزدان و اہرمن) کے عقیدے کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین کا خالق اور ظلمت و نور کا خالق ایک ہی ہے اور وہ قابل تعریف ’’اللہ‘‘ ہے۔ پھر رسالت محمدی کے منکرین کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی حقانیت کا اثبات کیا اور دھمکی دیتے ہوئے فرمایا کہ کتنی ہی قومیں ہیں جنہیں ہم نے اقتدار سے نوازا اور پھر بارشیں برسا کر ان کے باغات کو سرسبز و شاداب بنایا اور انہیں معاشی خوشحالی عطا کی مگر وہ ہماری نافرمانی اور بغاوت سے باز نہ آئے تو ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کر کے تباہ و برباد کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لے آئے لہٰذا تمہیں ہلاک کر کے دوسروں کو تمہاری جگہ دے دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ یا تو فرشتہ ہم سے آ کر آپ کو نبی تسلیم کرنے کے لئے کہے یا ہمارے نام پر اللہ تعالیٰ خط بھیج دیں تو آپ کی نبوت کو تسلیم کر لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر ہم نے خط بھیج بھی دیا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے چھوکر اسے دیکھ بھی لیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور اگر ہم فرشتے کو بھیجیں تو وہ بھی انسانی شکل میں ہی آئے گا اور ان کا اعتراض پھر بھی برقرار رہے گا۔ حضورﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا اگر آپ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو آپ سے پہلے انبیاء کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے۔ دنیا میں نکل کر دیکھیں وہ لوگ کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔
پھر توحید باری تعالیٰ پر دلائل جاری رکھتے ہوئے فرمایا اگر آپ پر کوئی مصیبت آ جائے تو اسے اللہ ہی ٹالتے ہیں اور اگر وہ آپ کو فائدہ پہنچائیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر قیامت کا تذکرہ شروع کر دیا کہ ہم جب انہیں قیامت میں جمع کر کے پوچھیں گے تو یہ صاف انکار کر دیں گے کہ ہم شرک نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ آپ کی بات سنتے ہیں مگر ان کی بد عملی کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردہ چڑھا ہوا ہے اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں اس لئے قرآن کی باتوں کا یہ اثر قبول نہیں کرتے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس زندگی دنیا ہی کی ہے۔ قیامت کے دن ہم انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر کے پوچھیں گے اب بتاؤ یہ سچ ہے یا نہیں؟ پھر انہیں اپنے کفر کی سزا برداشت کرنی پڑے گی۔ حضورﷺ کافروں کی ہدایت کے لئے اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں ظاہر کر دی جائیں تو شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں، لیکن اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ یہ ہٹ دھرم ایمان نہیں لائیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر آپ ان کا اعراض برداشت نہیں کر سکتے تو زمین کے اندر کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر ان کی مطلوبہ نشانی کہیں سے ڈھونڈ کر لے آئیے۔ یہ لوگ ہدایت پر نہیں آئیں گے اور ہم زبردستی کسی کو ہدایت نہیں دیتے۔ آپ ان سے کہئے! اگر اللہ کا عذاب تم پر آ جائے یا قیامت برپا ہو جائے تو کیا پھر بھی تم غیر اللہ کو پکارو گے؟ ظاہر ہے کہ ایسے مشکل وقت میں اپنی مصیبتیں دور کرنے کے لئے تم اللہ ہی کو پکارتے ہو اور اپنے شرکاء کو بھول جاتے ہو۔ پہلی اقوام پر ہم نے تنگدستی اور بیماری ڈالی مگر وہ راہ راست پر نہیں آئے پھر ہم نے انہیں آرام و راحت دی اس پر بھی وہ اپنی شرارتوں سے باز آنے کی بجائے سرکشی و ضلالت میں مزید ترقی کر گئے تو ہم نے اچانک انہیں ایسا پکڑا کہ وہ مبہوت ہو کر رہ گئے۔ ان کا نام و نشان مٹ گیا اور ظالموں کی جڑیں کٹ کر رہ گئیں۔
آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ کے خزانے میرے اختیار میں نہیں ہیں اور نہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں فرشتہ ہونے کا دعویدار ہوں، میں تو اپنے رب کی وحی کا پابند ہوں۔ جن لوگوں کو اللہ کا خوف ہے اور اپنے رب کے سامنے جمع ہونے سے ڈرتے ہیں آپ انہیں قرآن کریم کے ذریعہ ڈراتے رہئے۔ اللہ کے علاوہ اس دن کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں بن سکے گا۔ مشرکین مکہ کے متکبر اور ہٹ دھرم سرداروں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے اور ہدایت کے راستہ پر لانے کی امید میں آپ ایسے مخلص اور غریب اہل ایمان کو اپنی مجلس سے نہ دھتکاریں جو اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے صبح و شام اس کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بھی امتحان کا ایک حصہ ہے کہ کافر و متکبر لوگ غریب مسلمانوں کو دیکھ کر حقارت سے ایسے جملے کسیں کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہم پر ترجیح دی ہے؟ اللہ شکر گزاروں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، ایمان والے جب آپ کے پاس آئیں تو ان کے لئے سلامتی کی دعاء کریں اور انہیں اپنے رب کی رحمتوں کی خوشخبری سنائیں اور اگر نادانی کے ساتھ کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے توبہ اور اپنی اصلاح کی تلقین کر کے امید دلائیں کہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں۔ ہم اسی طرح وضاحت سے اپنی آیات بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا طریقہ کار واضح ہو جائے۔ پھر نظام کفر سے دو ٹوک برأت کے اظہار کی تلقین ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مطلوبہ نشانیاں نبی کے اختیار میں نہیں ہیں۔ یہ اللہ کا اختیار ہے۔ غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں بحر و بر کی ہر چیز کا علم اسی کے پاس ہے۔ درختوں سے گرنے والا ایک پتہ یا زمین کی پنہائیوں میں کوئی دانہ اور کوئی بھی خشک و تر اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔ اللہ کی قدرت اور اس کے حفاظتی نظام کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور یہ بتایا کہ اللہ کے عذاب کی مختلف صورتیں ہیں۔ آسمان سے بھی نازل ہو سکتا ہے۔ زمین سے بھی نکل سکتا ہے اور فرقہ واریت میں شدت کی بناء پر باہمی جنگ و جدل کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے اپنی ستارہ پرست قوم کے ساتھ مناظرہ کا بیان ہے کہ ستارے، چاند، سورج ڈوب جاتے ہیں اور ڈوبنے والا محتاج اور کمزور ہے رب نہیں ہو سکتا۔ پھر ابراہیمؑ کی امتیازی خوبی کا بیان ہے اور وہ ان کا یہ اعلان ہے ’’میں نے اپنا رخ ہر طرف سے موڑ کر یکسوئی کے ساتھ آسمان و زمین کے خالق کی طرف کر لیا اور میں مشرکین میں سے نہیں‘‘ پھر کمال اختصار کے ساتھ تین سطروں میں اٹھارہ انبیاء و رسل کا تذکرہ اور تعریف بیان کی گئی ہے اور ان کی طرز زندگی کو اپنانے کی تلقین ہے۔
پھر قرآن کریم کے عموم و شمول اور اس کی حقانیت کا بیان ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کو روز قیامت ذلت و رسوائی اٹھانی پڑے گی۔ پھر قدرت خداوندی کی کائناتی حقائق میں مشاہدہ کرنے کی دعوت ہے۔ اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر درخت اور پودے پیدا کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکالتا ہے۔ (مادی طور پر جیسے مرغی سے انڈہ اور انڈے سے مرغی اور روحانی طور پر جیسے کافر کے گھر میں مسلمان اور مسلمان کے گھر میں کافر پیدا کرنا) دن وہی نکالتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کے لئے رات کو لے آتا ہے۔ سورج چاند کو حساب کے لئے مقرر کیا ہے۔ خشکی و تری میں راستہ متعین کرنے کے لئے ستارے اسی نے بنائے ہیں۔ اسی نے ایک جان (آدم علیہ السلام) سے تمام انسان پیدا کر کے ان کی عارضی رہائش گاہ (دنیا) اور ان کی مستقل رہائش گاہ آخرت کو بنایا۔ آسمان سے پانی برسا کر کھیتیاں اور باغات پیدا کئے جن کے اندر سبزیاں، پھل، کھجوریں اور انگور بنائے جو گچھے والے بھی ہیں اور بغیر گچھے کے پیدا ہونے والے پھل بھی ہیں۔ پھلوں کے موسم میں دیکھو کیسے خوشنما اور بھلے لگتے ہیں۔ علم، سمجھ بوجھ اور ایمان رکھنے والوں کے لئے قدرت الٰہی اور وحدانیت کے واضح دلائل ہیں۔ مشرکین مکہ کی تردید کی جن کا عقیدہ تھا کہ جنات کے سرداروں کی بیٹیاں اللہ کی بیویاں ہیں اور فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور عیسائیوں کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کی بیوی ہی نہیں ہے۔ اس کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وحی کی اتباع کی تلقین کی اور مشرکین کے معبودوں کی برائی کرنے سے روکا کیونکہ وہ ضد اور مقابلہ میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔ یہ لوگ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ہماری مطلوبہ نشانی دکھا دی جائے تو ضرور ایمان لے آئیں گے۔ نشانیاں دکھانا تو اللہ کیلئے کوئی مشکل نہیں مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ لوگ نشانی دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے۔
قریش مکہ کا کہنا تھا کہ آپﷺ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اس کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لئے عرب کے بڑے دادا قُصَی (جو کہ نیک اور محترم شخصیت تھے) کو زندہ کر کے دکھا دیں، وہ اگر آپ کی تصدیق کر دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر ہم ان پر فرشتے نازل کر دیں جو ان سے باتیں کرنے لگیں اور آج تک مرنے والی ہر چیز کو زندہ کر کے ان کے سامنے اکٹھا کر دیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ پھر حضورﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ صرف آپ ہی کی مخالفت نہیں ہو رہی ہے بلکہ آپ سے پہلے انبیاءؑ کو بھی ایسی ہی صورتحال سے سابقہ پڑتا رہا ہے۔ شیطان کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہر نبی کے مخالفین ایسے ہی بنا سنوار کر دھوکہ دینے کے لئے ہر دور میں اعتراضات کرتے رہے ہیں مگر ایسی باتوں سے بے ایمان، منکرین آخرت ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اللہ اگر چاہتے تو یہ ایسی نازیبا حرکتیں نہ کرتے۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر اپنے کام میں لگے رہئے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جب اللہ نے واضح کتاب نازل فرما دی تو میں فیصلہ کرنے کے لئے کسی اور کو کیوں تلاش کروں؟ تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف کی آئینہ دار ہیں انہیں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ لوگوں کی بے دلیل باتوں کو مان کر انسان گمراہ ہو سکتا ہے، اللہ ہدایت یافتہ اور گمراہوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ مردار اور ذبیحہ میں فرق کرنے پر مشرکین کہتے تھے کہ اللہ کا مارا ہوا کھاتے نہیں ہو اور اپنا مارا ہوا کھا لیتے ہو۔ قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ شیطان کے ایجنٹ کٹ حجتی کے لئے اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے، لہٰذا مردار جانور کا کھانا گناہ ہے جبکہ اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر ان کی باتوں سے متاثر ہو گئے تو تم بھی مشرکین کے زمرے میں شمار کئے جاؤ گے۔ جس طرح مردہ اور زندہ برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے والے اور ایمان کی روشنی میں چلنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ جب انہیں کوئی آیت سنائی جائے تو اسے ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ان آیتوں کی وحی اللہ ہم پر کیوں نہیں اتارتا؟ اللہ بہتر جانتے ہیں کہ کس پر وحی اتارنی ہے کس پر نہیں۔ مجرموں کو ان کے جرائم کی وجہ سے ذلت ورسوائی اور عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسے اللہ ہدایت دینا چاہیں اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں اور جس کی گمراہی کا فیصلہ کریں اس کا سینہ تنگ کر دیتے ہیں جیسے کوئی شخص بلندی پر چڑھ رہا ہو۔
بلندی پر چڑھتے ہوئے سینہ تنگ ہونے کی مثال اعجازِ قرآنی کی معرکۃ الآراء مثال شمار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ طب جدید کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دَم گھٹنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آج سے سوا چودہ سو سال پہلے اس سائنسی حقیقت کی طرف اشارہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تمام جنات و انسانوں سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی اور ہر ایک کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہو گا جبکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کی طرح جنات بھی قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کے پابند ہیں، پھر یہ بتایا کہ مجرموں کی گرفت کے لئے اللہ کا ضابطہ ہے کہ ظالم کی بیخبری میں گرفت نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے مستغنی اور رحیم ذات ہے۔ وہ اگر انسانوں کو ختم کر کے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر کھیتیوں اور جانوروں میں مشرکانہ رسوم و رواج کی مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ قدرت خداوندی کا بیان ہے کہ اللہ زمین سے کیسے کیسے باغات پیدا کرتا ہے، جن میں سہارے کی محتاج بیلیں اور بغیر سہارے کے پروان چڑھنے والے پودے ہوتے ہیں۔ کھجوریں، مختلف ذائقہ والے ملتے جلتے اور غیر متشابہ پھل ہوتے ہیں۔ یہ سب انسانی خوراک اور صدقہ و خیرات کے لئے اللہ نے پیدا کئے ہیں۔ ان میں اسراف نہ کیا جائے۔ چھوٹے بڑے جانور بھی کھانے کے لئے اللہ نے پیدا کئے۔ ان کے بارے میں شیطانی تعلیمات کی پیروی نہ کریں۔ نر اور مادہ کو شمار کر کے عام طور پر آٹھ قسم کے پالتو جانور ہیں۔ بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ۔ اللہ نے ان میں سے کسی کو حرام قرار نہیں دیا تو تم لوگ ان کے نر یا مادہ یا ان کے حمل کو حرام کیوں کرتے ہو؟ مشرک کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی اجازت سے شرک کرتے ہیں۔ کیا یہ اپنے دعوی پر کوئی دلیل یا دست آویز پیش کر سکتے ہیں؟ اس کے بعد تمام انبیاءؑ کا دس نکاتی مشترکہ پروگرام پیش کیا جو حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ اللہ کی عبادت، والدین کے ساتھ حسن سلوک، تنگی کے خوف سے اولاد کے قتل سے گریز، برائی کے کاموں سے پرہیز، بے گناہ کے قتل سے بچنا، یتیم کے مال کو ناجائز استعمال نہ کرنا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، قول و فعل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنا، اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرنا اور صراط مستقیم کی پیروی کرنا پھر موسیٰؑ کی نبوت اور ان کی کتاب کا تذکرہ پھر نزول قرآن کی بشارت کہ اس میں برکت بھی ہے، رحمت بھی اور ہدایت بھی۔ پھر دین میں تفرقہ اور دھڑے بندی کرنے والوں کی مذمت، پھر امت محمدیہ کی فضیلت کہ نیکی پر دس گنا اجر اور گناہ پر ایک سے زیادہ کی سزا نہیں ملے گی۔ محمدی تعلیمات کے ملت ابراہیمی کے عین مطابق ہونے کا اعلان۔ ابراہیمی طرز زندگی کی وضاحت کہ تمام بدنی و مالی عبادت اور جینا اور مرنا بھی اللہ ہی کے لئے ہے۔ ’’جو کرے گا وہی بھرے گا‘‘ کا ضابطہ اور سورة کے آخر میں امتحان کے نقطہ نظر سے انسانوں میں فرقِ مراتب اور زمین کی خلافت کا استحقاق اور اللہ کے سریع العقاب ہونے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ غفور رحیم ہونے کی خوشخبری بھی شامل ہے۔
٭٭٭