قرآن کریم کی طویل ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ مدنی ہے دو سو آیتوں اور بیس رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورة میں عقائد پر گفتگو کرتے ہوئے زیادہ تر روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے۔ عیسائیت کے مذہبی تقدس کے حامل خاندان کا تذکرہ اس میں موجود ہے۔ عمران حضرت عیسیٰؑ کے نانا تھے۔ عیسائیوں کے دلوں میں قرآن کریم کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی خاطر پوری سورة کو ’’آل عمران‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا۔ یہ سورة ایک واقعہ کے پس منظر میں نازل ہونا شروع ہوئی۔ نجران کے عیسائیوں کا ساٹھ افراد پر مشتمل ایک بڑا وفد مدینہ منورہ میں حضورﷺ سے ملاقات کے لئے آیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کو ان کے مرتبہ سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کبھی کہتے کہ وہ ’’اللہ‘‘ ہیں کبھی کہتے کہ وہ ’’ابن اللہ‘‘ ہیں اور کبھی کہتے کہ الوہیت کے مثلث (باپ، ماں اور بیٹا) کا ایک حصہ ہیں۔ حضورﷺ نے انہیں مسکت جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ زندہ جاوید ہیں ان پر موت طاری نہیں ہو سکتی جبکہ عیسیٰؑ پر موت طاری ہو کر رہے گی۔ بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے جبکہ عیسیٰؑ میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت نہیں، اللہ تعالیٰ کھاتے پیتے نہیں جبکہ عیسیٰؑ کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پنہائیوں میں کوئی چیز مخفی نہیں جبکہ عیسیٰؑ سے بیشمار چیزیں مخفی ہیں۔ اس پر وہ لاجواب ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں یہ سورة نازل فرمائی۔ ابتداء میں اللہ کی وحدانیت اور قرآن کریم، تورات اور انجیل کی حقانیت کو بیان کیا اور اللہ کی آیات کے منکروں کو عذاب شدید سے ڈرایا۔ علم الٰہی کی وسعتوں کو بیان کیا۔ قدرت کے تخلیقی شاہکار انسان کے رحم مادر میں تیاری کے مرحلہ کو بیان کیا اور بتایا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ ہی نے نازل فرمایا ہے، جس میں محکم اور واضح معنی و مفہوم رکھنے والی آیات بھی ہیں اور متشابہات بھی ہیں، جن کے معنی و مفہوم ہر شخص پر واضح نہیں ہوتے، لیکن اگر متشابہ آیات پر حضورﷺ کے بیان کردہ ضوابط کی روشنی میں غور کریں تو ان کے معنی واضح ہو سکتے ہیں، مگر جو لوگ ضلالت و گمراہی کے مریض ہیں وہ ان آیات کو من مانے معنی پہنا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی آیات کو اللہ کی طرف سے یقین کر کے ان پر مکمل ایمان رکھنا چاہئے۔
اللہ سے ہدایت کی دعا مانگنی چاہئے اور روز جزاء کے تصور کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ کافروں کا مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آ سکے گا۔ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ فرعون اور اس سے پہلے اقوام کے واقعات سے یہ بات ظاہر ہے۔ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا، ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کر کے انہیں عبرت کا نشانہ بنا دیا۔ بدر کے واقعہ میں غور کرو جب دو جماعتیں مقابلہ پر آئیں۔ ایک جماعت اللہ کے لئے جہاد کرنے والی اور دوسری جماعت کافروں کی تھی، جن کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ نظر آ رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دے کر ایمان والوں کو اپنی مدد سے غالب کیا۔ اس سے اہل بصیرت درس عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔ انسانوں کو بیوی، بچے، مال و دولت کے خزانے، سونا چاندی، سواریاں، چوپائے، جانور اور کھیتیاں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی عارضی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پاس بہترین انجام ہے۔ متقی لوگوں کے لئے باغات، نہریں، پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی رضا ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو خوب جانتے ہیں۔ وہ بندے گناہوں پر استغفار اور جہنم سے حفاظت کے طلبگار ہیں۔ صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، فرماں برداری کرنے والے، صدقہ و خیرات کرنے والے اور تہجد کے وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اور تمام اہل علم، توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ انسانی زندگی کے لئے نظام حیات جو اللہ تعالیٰ کے یہاں مستند و مسلم ہے وہ صرف اسلام ہے اور اس سے اختلاف رکھنے والے ہٹ دھرم اور ضدی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ہی ان کافروں کا احتساب کریں گے۔ بحث بازی اور جھگڑا کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی ہدایت ہے۔
انبیاء اور عدل و انصاف کے داعی مذہبی پیشواؤں کا قتل یہودی ذہنیت کا غماز ہے۔ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب ہو گا۔ ہر قسم کی حکمرانی اللہ ہی کی ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل و رسوا کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ دن کو رات میں داخل کرتا ہے، رات کو دن میں داخل کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور جب چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ ایمان والوں کے لئے کافروں سے گہری دوستی لگانا جائز نہیں۔ اللہ کی محبت اور مغفرت کے حصول کا آسان اور کامیاب راستہ اتباعِ رسول ہے۔ انبیاء کی بعثت در حقیقت انتخاب ربانی ہوتا ہے۔ آدم و نوح اور ابراہیم و عمران کے خاندانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی منتخب فرمایا تھا۔ حضرت مریم کی ولادت ان کی کراماتی نشو و نما اور انہیں بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کرنے کی تفصیل کا بیان ہے۔ حضرت زکریاؑ کو بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ پن کے باوجود یحییٰ جیسے پاکباز اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل بیٹے کی خوشخبری کا تذکرہ ہے۔ پھر عیسیٰؑ کی معجزانہ ولادت، بچپن اور بڑھاپے میں گفتگو کے امتیاز کا تذکرہ۔ آپ کی نبوت و رسالت کے ساتھ ہی آپ کے معجزات، مردوں کو زندہ کرنا، مٹی کے پرندے بنا کر اڑا دینا، اندھوں اور کوڑھیوں کو صحت مند کر دینا وغیرہ کو ذکر کر کے بتایا ہے کہ یہ تاریخی باتیں ایک نبی امی کے ذریعہ لوگوں کے سامنے آنا، اس نبی کی حقانیت کی واضح دلیل ہیں۔ پھر عیسیٰؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے اور ان کو نبی برحق مان کر ان کی پیروی کرنے والوں کے دنیا پر غلبہ اور قیامت تک ان کی حکمرانی کو بیان کیا ہے۔
پھر عیسائیوں کے ساتھ حضورﷺ کے مباہلہ کا تذکرہ ہے، جس میں دو مقابل فریق اپنے اہل و عیال کے ساتھ میدان میں نکل کر بددعا کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں باطل فریق ہلاک ہو جاتا ہے۔ عیسائی مباہلہ کی بجائے فرار ہو گئے، جس سے ان کا بطلان واضح ہو گیا۔ قرآن کا اعلان ہے کہ ابراہیمؑ یہودی، عیسائی یا مشرک نہیں بلکہ یکسوئی کے ساتھ اللہ کی اطاعت کرنے والے مسلمان تھے۔ پھر یہودیوں کی خامیوں اور کمزوریوں کا تذکرہ ہے۔ خود راہ راست پر آنے کی بجائے دوسروں کو بھی اپنے جیسا گمراہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ حق و باطل کو خلط ملط کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ سازش کے تحت اسلام کا اظہار کر کے پھر انکار کر دیتے ہیں تاکہ دوسروں کو بھی اسلام سے برگشتہ کریں۔ مسلمانوں کا مال ناجائز طریقہ پر کھانے کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں، دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کے کلام کو بیچ ڈالتے ہیں۔ نبی و رسول کی شان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنا پرستار بنانے کی بجائے اللہ کی عبادت پر آمادہ کرتے ہیں۔ پھر محمدﷺ پر ایمان لانے کے حوالے سے انبیاء کرام سے لئے جانے والے میثاق کا ذکر ہے، جس کی رو سے تمام انبیاءؑ آپﷺ پر ایمان لانے اور آپﷺ کی نصرت کرنے کے پابند قرار دیئے گئے۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین قابل قبول نہیں۔ اللہ کے نزدیک، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کے نزدیک کافر ملعون ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اگر زمین کے بھراؤ کے برابر سونا بھی فدیہ میں دے دیں تب بھی انہیں جہنم کے عذاب سے نجات حاصل نہیں ہو گی۔
اعلیٰ ترین نیکی اپنی محبوب چیز کو اللہ کے نام پر خرچ کرنا ہے۔ اللہ کے بارے میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کام لینا بدترین ظلم ہے، اللہ سچے ہیں۔ کفر و شرک اور تمام ادیان باطلہ سے بیزار ہو کر ایک اللہ کے بن جانے والے ابراہیمؑ کا طرز زندگی اپنانے کا حکم دیتے ہیں۔ بیت اللہ تک پہنچنے کی گنجائش رکھنے والوں پر حج فرض ہونے کا حکم بیان کر کے بتایا کہ انسانیت کے لئے سب سے پہلا گھر کعبۃ اللہ تعمیر ہوا ہے جس سے زمین کو پھیلایا گیا ہے اور یہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ بہت بابرکت اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس میں اللہ کی واضح نشانیاں موجود ہیں جن میں سے مقام ابراہیم بھی ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو خود بخود اوپر نیچے ہوتا تھا۔ ابراہیمؑ نے اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کعبہ کا عمل سر انجام دیا تھا۔ اللہ کا گھر امن کی علامت ہے اس میں جو بھی داخل ہو گیا اسے امن دے دیا جاتا ہے۔
اہل کتاب کی کچھ خرابیاں ذکر کرنے کے بعد ان کی گندی ذہنیت کو بیان کیا کہ اگر مسلمان ان کی بات ماننے لگ گئے تو وہ انہیں ایمان سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیں گے! پھر تقویٰ کی تعلیم دے کر مرتے دم تک اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی۔ فرقہ واریت کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کے لئے اللہ کی رسی (قرآن کریم) کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔ ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا جو خیر کی داعی ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والی ہو۔ ایسے ہی لوگ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ قیامت کے دن کافروں کے چہرے کالے سیاہ ہوں گے جبکہ اہل ایمان کے چہرے روشن اور چمکدار ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ امت مسلمہ بہترین امت ہے کیونکہ یہ اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نفع رسانی کا کام کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں، یہود و نصاریٰ بھی اگر یہ صفات اپنے اندر پیدا کر لیں تو وہ بھی خیر کے حامل قرار دیئے جائیں گے، زبانی کلامی تمہاری دل آزاری کے علاوہ یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، ان پر ذلت و رسوائی کی چھاپ لگائی جا چکی ہے۔ اللہ کا ان پر غضب نازل ہوا ہے کیونکہ یہ لوگ انبیاءؑ کے ناجائز قتل کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ گناہوں کے عادی اور انتہا پسند ہیں۔ تمام اہل کتاب ایک جیسے نہیں ہیں بعض ان میں معتدل مزاج بھی ہیں جو راتوں میں اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے ہیں۔ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتے ہیں۔ کافروں کے مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آ سکیں گے، وہ دائمی طور پر جہنم میں رہیں گے، یہ اگر کسی نیک راہ میں مال خرچ بھی کرتے ہیں تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ظالم شخص کی لہلہاتی کھیتی کو سردی اور پالا لگ جائے اور سوکھ کر تباہ ہو جائے، در حقیقت ایمان سے انکار کر کے انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی ازلی دشمنی اور بغض بیان کر کے بتایا ہے کہ تمہیں فائدہ ہو تو انہیں تکلیف پہنچتی ہے اور تمہیں نقصان ہو تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دوستی لگانے کے قطعاً قابل نہیں ہیں، تم نے اگر صبر و تقویٰ اختیار کئے رکھا تو یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
بدر میں قلیل تعداد ہونے کے باوجود اللہ کی مدد و نصرت سے کامیابی ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، سورة آل عمران کی آیت نمبر ۱۲۱ سے ۱۸۰ تک ۵۹ آیتوں میں غزوہ احد کا تذکرہ نہایت شرح و بسط کے ساتھ کیا ہے۔ مدد تو اللہ ہی کرتے ہیں مگر فرشتوں کا نزول مؤمنین کی تسلی اور دل جمعی کے لئے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تین ہزار فرشتے بھیج رہے ہیں اگر کفار نے اچانک حملہ کر دیا تو ہم پانچ ہزار فرشتے بھیجیں گے، جب کفار کے حملہ میں آپ کے دندان مبارک شہید ہو گئے تو آپ نے کفار قریش کے لئے بددعاء کی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ آپ کا اختیار نہیں بلکہ میری مرضی پر منحصر ہے میں چاہوں تو انہیں عذاب دوں اور چاہوں تو معاف کر دوں! اللہ بہت غفور رحیم ہے۔ سود خوری سے بچنے کے حکم کے ساتھ ہی تقویٰ اختیار کرنے اور جہنم سے بچنے کی تلقین ہے اور اللہ کی رحمت سے محظوظ ہونے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تاکید ہے۔ جنت کے مستحقین متقی ہوتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کے نام پر خرچ کرتے ہوں۔ غصہ کو پینے والے، لوگوں کو معاف کرنے والے اور اپنے گناہوں پر اصرار کی بجائے ندامت کے ساتھ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اقوام عالم کے جرائم پر ان کی گرفت کا نظام جاری وساری ہے دنیا میں چل پھر کر اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ قرآن کریم انسانوں کے لئے بیان، ہدایت اور متقین کے لئے نصیحت ہے۔ میدان جہاد میں پیش آنے والی ناپسندیدہ صورتحال پر دل گرفتہ ہو کر کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ایمان کامل کے تقاضے پورے کرنا ہی اہل ایمان کے غلبہ کی ضمانت ہے۔ جہاد میں جانی و مالی نقصان اس عمل کا حصہ ہے اور ہر فریق کے ساتھ یہ صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ میدان احد میں مسلمانوں کو پیش آنے والے مصائب کے تین بڑے مقاصد تھے، مسلمانوں کی ایمانی قوت کا امتحان، مسلمانوں اور کافروں (منافقوں) میں امتیاز اور بعض خوش نصیبوں کو شہادت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنا۔ جہاد پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والے جنت کے مستحق ہیں۔
غزوہ احد میں حضورﷺ کی شہادت کی افواہ پھیلانے والوں کا مقصد اگرچہ منفی تھا اور وہ مسلمانوں میں بددلی پھیلا کر انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے مگر قرآن کریم نے اس سے مثبت مقاصد حاصل کرتے ہوئے اسے تربیت کا حصہ قرار دے کر مستقبل میں آپ کے انتقال کی صورت میں پیدا ہونے والے ممکنہ انتشار کے سد باب کے طور پر استعمال کیا اور بتایا کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، خدا نہیں ہیں۔ ان کے انتقال کی خبر سے دل برداشتہ ہو کر اسلام سے روگردانی کرنے والے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وہ اپنا ہی نقصان کریں گے۔ ایسے موقع پر کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ غلبۂ اسلام کی جد و جہد میں حصہ لینا چاہئے اور اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر مغفرت مانگتے ہوئے، اللہ سے ثابت قدمی اور کافروں کے مقابلہ میں نصرت کی دعاء مانگنی چاہئے۔ غزوہ احد میں پیش آمدہ بعض مناظر کی قلبی تصویر کشی کرتے ہوئے، کافروں پر مسلمانوں کا رعب ڈال کر اہل ایمان کو مستقبل میں کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ جن اہل ایمان سے میدان احد میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمزوری کا مظاہرہ ہوا تھا انہیں معاف کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور جن منافقین نے جہاد پر اعتراضات کر کے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ان کی سخت گرفت کی گئی ہے۔
منافقوں کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد اور اسلحہ میں کمی اور کافروں کی تعداد اور اسلحہ میں برتری کے پیش نظر میدان قتال میں اترنا کوئی دانشمندی نہیں ہے بلکہ یہ جہاد ہی نہیں ہے اگر یہ لوگ ہماری طرح گھروں میں بیٹھے رہتے تو قتل ہونے اور زخمی ہونے سے بچ جاتے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ تم پر جب گھروں میں موت کا فرشتہ مسلط ہو کر تمہیں موت کے منہ میں دھکیلے گا تو اس وقت موت سے تم کیسے بچو گے؟
حضورﷺ کو صحابہ کرام کے ساتھ نرم، برتاؤ جاری رکھنے اور تمام معاملات کو مشورہ سے طے کرتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نصرت خداوندی کا ضابطہ کہ توکل کرنے والوں کی اللہ ضرور مدد کرتے ہیں۔ بعثت نبوی اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے عظیم احسان ہے۔ نبی کا فرض منصبی کلام اللہ کی آیات کی تلاوت، مسلمانوں کی تربیت اور انہیں قرآن و حدیث کی تعلیم ہے۔ انسان پر آنے والی مشکلات و مصائب اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ شہداء مردہ نہیں بلکہ اسلام کے غلبہ اور دفاع کی جنگ میں اپنی جانیں لگا کر حیات ابدی سے ہمکنار ہو کر جنت میں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد غزوہ حمراء الاسد کا تذکرہ ہے جو غزوۂ احد کے فوراً بعد پیش آیا۔ کفار نے دوبارہ حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا تو حضورﷺ تھکے ماندے اور زخموں سے چور چور مجاہدین کو لے کر ان کے تعاقب میں نکلے تو کافروں نے فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی اور مسلمانوں کو حمراء الاسد کے مقام پر لگنے والے تجارتی بازار میں خریدو فروخت سے اتنا منافع ہوا کے احد کی پریشانی اور نقصان کا تدارک ہو گیا۔ اس نازک موقع پر نبی کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کے ایمان و ثابت قدمی کی قرآن کریم نے تعریف کی ہے اور کافروں کی طاقت اور اسلحہ سے خوفزدہ ہونے والوں کو شیطان اور اس کے حمایتی قرار دیا ہے۔ کافروں کی کامیابیوں سے متاثر ہونے والوں کو بتایا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت اور ڈھیل ہے۔ ان کے لئے ذلت آمیز عذاب تیار ہے۔
اللہ کے نام پر خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں کو جان لینا چاہئے کہ یہ ان کے لئے خیر نہیں بلکہ شر ہے۔ اللہ کے راستہ سے جو مال بچا کر رکھیں گے اسے جہنم میں تپا کر ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔
غلبۂ اسلام کی جد و جہد اور دینی مقاصد کے لئے چندہ کرنے پر یہودیوں نے اعتراض کیا کہ مسلمانوں کا خدا (نعوذ باللہ) فقیر ہو گیا ہے اور ہم مالدار ہیں تبھی تو ہم سے چندہ مانگ رہا ہے۔ حضرت ابو بکر نے اس گستاخانہ بات کہنے والے یہودی کو زد و کوب کیا اور اسے قتل کی دھمکی دی جس پر یہودی تلملا اٹھے اور حضورﷺ کے سامنے اپنی گستاخانہ گفتگو سے انکار کر کے حضرت ابو بکر کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کی تائید اور یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے ان کی گستاخانہ گفتگو سن لی ہے اور یہ عادی مجرم ہیں پہلے بھی اس قسم کی نازیبا حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگ انبیاءؑ کے قتل جیسے بدترین جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور ہم انہیں قیامت کے دن آگ میں جلانے کا عذاب دیں گے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے ایمانی غیرت و حمیت کے پیش نظر جو قدم اٹھایا تھا وہ بالکل جائز اور مبنی بر انصاف تھا۔
حضورﷺ کی نبوت کو تسلیم نہ کرنے پر یہودی یہ جواز پیش کرتے تھے کہ ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ کسی بھی نبی پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ اپنی نبوت کے ثبوت کے طور پر خاص نشانی نہ دکھا دے اور وہ نشانی یہ ہے کہ قربانی کر کے کسی پہاڑ پر رکھے اور آسمانی آگ اسے جلا دے تو ہم اس کی صداقت کو تسلیم کریں گے ورنہ نہیں۔ در حقیقت یہ ان کی بہانہ بازی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے انبیاءؑ کا بھی تم انکار کرتے رہے ہو لہٰذا تمہاری بات قابل اعتماد نہیں ہے۔ ہر انسان پر موت کا آنا برحق ہے۔ روز قیامت تمہارے اعمال کا محاسبہ ہو گا اور جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والے ہی کامیاب قرار پائیں گے! اہل کتاب سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کے مضامین کو وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان کریں گے۔ کسی بات کو نہیں چھپائیں گے، مگر انہوں نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی اور اپنے مفادات کی خاطر اللہ کی آیات میں رد و بدل کرنے کی بدترین حرکت میں مبتلا ہو گئے۔ یہ لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہو رہے ہیں اور نا کردہ اعمال کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنی تعریف کرانا چاہتے ہیں۔ یہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ ان کے لئے درد ناک عذاب تیار کر لیا گیا ہے۔ آسمان و زمین پر اللہ کی حکمرانی اور کوئی چیز اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔
اہل دانش و بینش کو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات آسمان و زمین اور دن رات میں غور و خوض کی دعوت دی گئی ہے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کی پانچ دعاؤں کا تذکرہ ہے، جنہیں شرف قبولیت حاصل ہے۔ مرد و عورت کی تخلیق اور ان کی ذمہ داریوں میں اختلاف کے باوجود انہیں اجر و ثواب میں برابری اور مساوات کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور بتایا ہے کہ ہجرت اور جہاد جیسے عظیم الشان اعمال جو بھی کرے گا اس کے لئے گناہوں کی معافی، اللہ کے ہاں بہترین اجر و ثواب اور جنت کا وعدہ ہے۔ کافروں کے پاس مالی وسائل کی فراوانی اور عیش و عشرت کو دیکھ کر دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ عارضی اور معمولی فوائد ہیں۔ آخرت میں ان کا بدترین ٹھکانہ جہنم ہے۔ متقین کے لئے نہریں اور باغات اور اللہ کے ہاں بہترین مہمانی ہے۔ اہل کتاب میں بعض انصاف پسند بھی ہیں، جو قرآن اور نبی اسلام پر ایمان لانے کی نعمت سے سرفراز ہیں۔
سورہ کی آخری آیت میں دین پر ثابت قدمی اور میدان جہاد میں مورچوں میں کفر کے مقابلہ میں ڈٹ جانے والوں کو دائمی فلاح و کامرانی کی نوید سنائی گئی ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضورﷺ تہجد کے وقت جب بیدار ہوتے تو سورة آل عمران کی آخری گیارہ آیتیں آسمان کی طرف رخ کر کے تلاوت فرمایا کرتے۔ آپﷺ نے فرمایا: ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو ان آیتوں کی تلاوت کے باوجود کائنات کے اندر اللہ کی نشانیوں میں غور و خوض نہ کرے!
٭٭٭