⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴اکتیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
لیکن جس مکان میں اس نے پناہ لی وہ مکان انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں تھا۔
کیوں؟،،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا۔۔۔ کیا یہ مکان گرنے والا تھا ۔
نہیں !،،،،،،بوڑھے پنڈت نے جواب دیا۔۔۔ اس مکان میں بدروحوں کا بسیرا ہے، اس میں جتنے بھی لوگ رہے ہیں وہ دو تین دن رہ کر بھاگ نکلے، اس میں جو لوگ رہے ہیں ان سب نے خوفزدگی کی حالت میں بتایا کہ رات کو مکان کے اندر دو تین عورتوں کی بڑی پیاری پیاری باتیں سنائی دیتی ہیں، جی چاہتا ہے کہ ان عورتوں کو ڈھونڈ کر اور ان کے پاس بیٹھ کر باتیں سنی جائیں، کہتے ہیں کہ جو کوئی ان آوازوں کے پیچھے چل پڑے وہ تھوڑی سی دیر بعد پاگل سا ہونے لگتا ہے، پھر وہ اپنی جان لینے کے طریقے سوچنے لگتا ہے۔
کیا یہ سب جھوٹ نہیں؟،،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا۔۔۔ تمہارے مذہب میں یہی خرابی ہے کہ اپنے اوپر پر اسرار اور خوفناک سا وہم طاری کر لیتے ہو اور پھر اس کی عبادت کرنے لگتے ہو۔
نہیں اے عربی!،،،،، پنڈت نے کہا۔۔۔ میں مذہب کی بات نہیں کرتا ،میں نے وہ بیان کیا ہے جو دیکھا ہے، مائیں رانی نے ہمیں وہاں بلایا تھا اور ہم تین آدمی وہاں گئے تھے۔ مائیں رانی نے انھیں کہا کہ یہ آوازیں سنو، آواز میں نے بھی سنی جو دو نوجوان لڑکیوں کی معلوم ہوتی تھیں، وہ ہنس رہی تھیں ان کی ہنسی میں سُریلاپن تھا، آوازیں اور باتیں ایسی تھیں جیسے یہ لڑکیاں ہنس کھیل اور ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہی ہوں، میں نے اس مکان کی یہ باتیں پہلے سنی تھیں اس لئے میں جانتا تھا کہ یہ بد روحوں کی باتیں ہیں، مائیں رانی کہنے لگی کہ میں ان لڑکیوں کے پاس جا رہی ہوں، میں نے اسے روکا اور کہا کہ یہ لڑکیاں اسے نہیں ملیں گی اور اگر وہ ان کے پیچھے گئی تو وہیں پہنچ جائے گی جہاں پر یہ لڑکیاں پہنچی ہوئی ہیں،،،،،،،،،
خود میرا دل بھی یہی چاہتا تھا کہ ان لڑکیوں کو دیکھو لیکن میں اور میرا یہ ساتھی وہاں سے بھاگ آئے، اگلی صبح میں وہاں گیا تو وہاں یہ منظر دیکھا کہ لکڑیاں جمع کی ہوئی تھیں مائیں رانی اپنا وہ سارا سامان جو اس نے قلعے سے فرار ہونے کے لیے رکھا تھا ساتھ لائی تھی، اس سامان میں ہیرے جواہرات کے علاوہ بہت سے قیمتی کپڑے تھے اور جو کچھ بھی اس کے پاس تھا وہ اس نے لکڑیوں پر رکھا ،خود بھی کھڑی ہوگئی پنڈت اور نوکرانی بھی مائیں رانی کے پاس جا کھڑی ہوئی، مجھے دیکھ کر اس نے کہا کہ ہمارے پاس آ جاؤ ہم تمہیں ایسی جگہ لے جارہے ہیں جو اس دنیا سے بہت زیادہ خوبصورت ہے، میں نے انہیں روکا لیکن وہ مجھے بلاتی رہیں، اس کے ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعل تھی جو اس نے جھک کر لکڑیوں کے ڈھیر کے پہلوؤں کے ساتھ رکھی وہاں سے لکڑیاں جلنے لگیں تو اس مشعل کا شعلہ دوسری طرف سے اس ڈھیر کے ساتھ لگایا ،میں وہاں سے بھاگ آیا۔
آپ پھر وہاں جائیں اس راکھ کے ڈھیر میں آپکو ہیرے اور جواہرات ملیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بعض تاریخوں میں غلط بیانی کی گئی ہے کہ رانی لاڈی کو محمد بن قاسم کے سامنے لایا گیا تو اسلام کی عسکری تاریخ کا یہ نوجوان سپہ سالار رانی لاڈی کے حسن سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کے ساتھ شادی کر لی، یہ ایک بے بنیاد روایت ہے جو محمد بن قاسم کی شخصیت اور اس کے کردار کو مجروح کرنے کے لئے کسی نے گڑھی اور تاریخ کے دامن میں ڈال دی ہے۔
برہمن آباد کو محمد بن قاسم ایک مضبوط فوجی اڈا بنانا چاہتا تھا اس نے جتنے بھی شہر اور قصبے فتح کیے تھے ان کا انتظام نہایت اچھا کیا تھا اور محصولات ایسے لگائے تھے جو کسی بھی شہری کے لئے بوجھ نہیں تھے، لیکن برہمن آباد کے انتظامات کو محمد بن قاسم نے بہت ہی زیادہ احتیاط اور توجہ سے ترتیب دیا، ایک تو اسلام کی تعلیمات ہی ایسی تھی کہ مقتول لوگوں پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا تھا، اور دوسرے یہ کہ برہمن آباد کے لوگوں کو زیادہ مطمئن رکھنا تھا، کیونکہ برہمن آباد کو عسکری مستقر بنانا تھا۔ محمد بن قاسم نے جو احکامات جاری کئے وہ مختصراً اس طرح تھے، جن ہندوؤں نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کر لیا تھا انہیں وہی حقوق دیے گئے جو عرب کے مسلمانوں کو حاصل تھے، یعنی عربی مسلمان اور ہندوستانی نو مسلم کو مساوی حقوق دیے گئے۔
اعلان کیا گیا کہ جو ہندو اور جو بدھ اسلام قبول نہیں کریں گے ان پر زبردستی اسلام مسلط نہیں کیا جائے گا ،لیکن انہیں جزیہ دینا پڑے گا، جزئیے کی شرح یہ مقرر کی گئی، دولت مند اڑتالیس درہم سالانہ یعنی تیرہ روپے، متوسط طبقے کے لوگ چوبیس درہم فیکس یعنی ساڑھے چھ روپے سالانہ اور متوسط درجے سے نیچے کے ہر فرد پر بارہ درہم یعنی سوا تین روپے سالانہ جزیہ عائد کیا گیا۔
پنڈتوں کو خصوصی مراعات دی گئی، جن کے پاس سرکار کی دی ہوئی عاراضی یا دیگر جائیداد تھی اس کی ملکیت انہی لوگوں کے پاس برقرار رکھی گئی ،شہر کے جن لوگوں کے مکانوں کو نقصان پہنچا تھا یا ان کی اپنی فوج نے جن تاجروں اور کسانوں سے پیسہ اور گلہ جبراً لے لیا تھا انہیں نقد معاوضہ دیا گیا، جس کی مجموعی رقم ایک لاکھ بیس ہزار درہم تھی۔
شہری انتظامیہ کے تمام بڑے عہدوں پر برہمن فائز تھے انہیں انہیں عہدوں پر رہنے دیا گیا۔ قلعے کے دروازوں پر فوج کے جو افسر مقرر تھے انہیں اپنے عہدوں پر رہنے دیا گیا ،اس وقت کے دروازوں کے ذمہ دار افسروں کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں سونے کا ایک کڑا پڑا ہوا ہوتا تھا جسے بہت بڑا اعجاز سمجھا جاتا تھا، قلعے کے بعض افسر بھاگ گئے تھے ان کی جگہ محمد بن قاسم نے ہندو افسر مقرر کیے اور انہیں ان کے رواج کے مطابق ہاتھوں اور پاؤں میں سونے کے کڑے پہنائے ،عہدے دار مقرر کرکے محمد بن قاسم نے انتظامیہ کے تمام افسروں اور دیگر عمالوں کو بلایا۔
ہم فاتح ہوتے ہوئے بھی تمہاری حیثیت برقرار رکھی ہیں۔۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کیا ہم تمہیں غلاموں کا درجہ نہیں دے سکتے تھے، تم نے ہمارے ہاتھوں ایسی شکست کھائی ہے کہ تم اٹھنے کے قابل نہیں رہے، لیکن ہم نے تمہیں غلام نہیں بننے دیا، میں تم سے یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کے شہر کے لوگوں کو رعایا اور غلام نہ سمجھنا، ان سے وہ محصولات وصول کرو جو میں نے عائد کی ہے، اگر کوئی شخص کوئی محصول ادا کرنے میں دشواری محسوس کرے تو اس پر جبر اور ظلم نہیں کرنا، اس کی اطلاع مجھ تک پہنچے کہ میں متعلقہ افسر سے بات کرکے اس شخص کے لیے سہولت پیدا کر سکوں،،،،،،،
تمہارا دوسرا فرض یہ ہے کہ حکومت اور رعایا کے مابین ایسے تعلقات قائم رکھنے ہیں کہ رعایا میں بداعتمادی پیدا نہ ہو،
اسے لازمی سمجھو کہ لوگ دلی طور پر محسوس کریں کہ حکومت ان کی اپنی ہے، اگر کوئی آدمی یا فسادیوں کا کوئی گروہ خفیہ طور پر لوگوں میں بداعتمادی اور بدامنی پھیلا رہا ہو تو فوراً اوپر اطلاع دیں کہ فسادیوں کا قلع قمع کیا جاسکے، اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ کی بے حرمتی کرے یا نقصان پہنچائے تو یہ مت سوچو کہ وہ فاتح اور حاکم قوم کا فرد ہے، اس کے خلاف ویسے ہی کاروائی کرو جیسے کسی اور مذہب کے شہری کے ساتھ ہوگی۔
یہ مرعات معمولی درجے کی نہیں تھی اس کے علاوہ ہندوؤں کے لئے یہ مرعات غیر متوقع تھی، انہیں تو توقع یہ تھی کہ مسلمان معاشی لحاظ سے ان کی کھال بھی اتار لیں گے ،اور معاشرتی لحاظ سے انھیں اچھوتوں کا درجہ دیں گے، انہوں نے محمد بن قاسم کی اس فیاضی کا اثر قبول کیا، مندر کے بڑے پنڈت نے تمام پنڈتوں اور سرکردہ برہمنوں کو بلا کر لوگوں کے لیے ایک پیغام دیا، جو تاریخ میں محفوظ ہے اس نے کہا کہ یہ پیغام برہمن آباد کے گرد و نواح کے لوگوں تک پہنچایا جائے پیغام کے الفاظ یہ تھے۔
اے لوگو!،،،،،، یقین کرو کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے اور اس کی خاندانی حکومت ختم ہوگئی ہے، اب سندھ پر عربوں کی حکمرانی ہے، عربوں کے متعلق یہ سن لو کہ ان کی نگاہ میں امیر اور غریب بڑا اور چھوٹا شہری اور دیہاتی برابر ہیں، یہ ان کے مذہب کا حکم ہے اور ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ یہ پیغام تم سب تک پہنچایا جائے، عرب کے ان مسلمانوں نے ہمارے ساتھ اور بھی وعدے کیے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم ان کے وفادار رہیں اور غداری نہ کریں، اگر ہم نے وفاداری کی بجائے غداری کی تو ہم سب کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا ،اس سے بڑی نوازش اور کیا ہو سکتی ہے کہ برہمن جاتی کو جو رتبہ اور ان کو جو حیثیت پہلے حاصل تھی وہ برقرار رکھی گئی ہے، اور مسلمانوں کی حکومت کا کاروبار ان کے ہاتھ میں دیا گیا ہے، ہم پر محصولات اتنے تھوڑے عائد کئے گئے ہیں جو ہر فرد آسانی سے ادا کرسکتا ہے، اگر کوئی شخص ان کی ادائیگی سے گریز کرے تو اس کے لئے اچھا یہ ہوگا کہ وہ سندھ سے نکل کر ہندوستان کے کسی اور علاقے میں چلا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
راجہ داہر کا وزیر سیاکر خاص طور پر محمد بن قاسم کا وفادار ثابت ہوا اس نے اپنی خدمات محمد بن قاسم کو پیش کردی اور اسے مشورے دینے لگا۔
محمد بن قاسم نے اپنے جو افسر مقرر کیے ان میں ایک وداع بن حمیدالبحری کو عدلیہ کا سربراہ تعینات کیا، نوبہ بن وارس کو راوڑ کا قلعے دار بنایا اور اسے کہا کہ وہ جس قدر کشتیاں فراہم کرسکتا ہے کرے، اور کوئی اجنبی کشتی گزرتی دیکھے جس میں جنگی سامان ہو تو اسے روک لے ،کشتیاں اکٹھی کرنے کے لئے حکم ابن زیاد عبدی کو بھی مقرر کیا گیا، اس سے پہلے جو شہر اور قصبے فتح کیے جاچکے تھے ان سب کے لئے حاکم مقرر کئے یہ سب مسلمان تھے، طیح نام کا ایک سابق غلام تھا جس نے ہر محاصرے اور راوڑ کے میدان میں ایسی جاں بازی کا مظاہرہ کیا تھا جس میں جسم اور عقل کے استعمال کی مساوی ضرورت تھی ،محمد بن قاسم اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے طیح کو مکران کے ایک علاقے کا حاکم مقرر کردیا ،اور اس کے ماتحت علوان بکری اور قیس بن ثعلبہ کو مقرر کیا، انہیں تین سو نفری کا ایک دستہ بھی دیا ،چچ نامہ فارسی میں لکھا ہے کہ یہ تینوں مکران میں ہی آباد ہوگئے انہوں نے مقامی عورتوں کے ساتھ شادیاں کیں اور آج بھی ان کی نسلیں مکران میں آباد ہیں۔
محمد بن قاسم کی اگلی منزل اروڑ تھی راستے میں کچھہ اور بھی قلعے آتے تھے اور راستے میں ہندوؤں کی دو ایسی قومیں آباد تھیں جو راجہ داہر اور اس کے خاندان کے لیے مستقل خطرہ بنی رہتی تھیں، دراصل یہ جاٹ قوم تھی جس کے دو قبیلے تھے ایک سمہ اور دوسرا لاکھا، محمد بن قاسم کو مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ جاٹوں کے یہ دونوں قبیلے آزاد اور خودمختار رہتے ہیں اور وہ قانون کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے، یہ وہی جاٹ قوم تھی جسے ایرانیوں کے خلاف لڑایا گیا تھا، ایرانیوں نے سندھ پر حملہ کیا تھا ،اس وقت جاٹ سندھ کی فوج میں تھے ،ایرانیوں نے مکران کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور ہزاروں جاٹوں کو جنگی قیدی بنا کر ایران پہنچا دیا تھا، ان جاٹوں کو غلاموں جیسی حیثیت دی گئی تھی، لیکن جاٹوں کی قسمت اس طرح جاگ اٹھی کے خالد بن ولید نے ایرانیوں کو پے بہ پے شکستیں دیں تو ایرانیوں کی وہ ہیبت ناک جنگیں قوت جس کی دہشت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے لگی، اور ایران کی سلطنت جو وسیع وعریض تھی سکڑنے لگی، اس دگرگوں صورتحال میں ایرانیوں نے سندھ کے ہندو جاٹوں کو غلامی کی حیثیت سے نکال کر فوج میں بھرتی کر لیا اور انہیں وہی حقوق اور وہی مرعات دی جو ایران کے فوجیوں کو حاصل تھیں۔
جاٹوں نے ایران کی فوج میں شامل ہو کر ایک ایسی مثال قائم کی جو کوئی اور قوم نہیں کرسکی ،وہ یہ تھی کہ پندرہ بیس جاٹ اپنے آپ کو ایک لمبی زنجیر میں باندھ لیتے تھے اور پھر دشمن کے مقابلے میں آتے تھے، اس طرح وہ اپنے کسی ساتھی کے بھاگنے کا امکان ختم کردیتے تھے، یہ تھی جنگ سلاسل، جنگ سلاسل کا لفظی معنی زنجیروں کی جنگ ہے اسے جاٹوں کی زنجیروں کی وجہ سے ہی زنجیروں کی جنگ یعنی جنگ سلاسل کہا جاتا تھا۔
دو تین تاریخ نویسوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سندھ کے اس وقت کے راجہ نے ایرانیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انہیں مسلمانوں یعنی خالد بن ولید کے خلاف لڑانے کے لیے کئی ہزار جاٹ بھیجے تھے، یہ تحریر غیر مستند ہے، بیشتر مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ جاٹ جنگی قیدی تھے، البتہ یہ صحیح ہے کہ سندھ کے راجہ نے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایرانیوں کو ہاتھی دیے تھے، جنگ قادسیہ میں ایرانیوں نے جو ہاتھی میدان جنگ میں لڑائیے تھے وہ سندھ کے اس وقت کے راجہ کے بھیجے ہوئے ہاتھی تھے۔
محمد بن قاسم کو جب ان جاٹوں کے متعلق تفصیلات معلوم ہوئی تو اس نے سیاکر کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ یہ جاٹ کیسی قوم ہے؟
یہ لوگ جنگلی اوروحشی ہیں۔۔۔ سیاکر نے کہا۔۔۔۔ ان کے دو قبیلے ہیں ایک کو سمہ اور دوسرے کو لاکھا کہتے ہیں، دونوں قبیلوں میں اتحاد اور اتفاق ہے اور یہ لوگ کسی کی حکمرانی کو قبول نہیں کرتے۔
تم لوگ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے؟،،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ کیا راجہ داہر یا اس کے باپ دادا نے ان دونوں قبیلوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کررکھا تھا، یا ان کی طرف سے ان پر کوئی جبر ہوتا تھا۔
جبر ہوتا تھا معاہدہ کوئی نہیں تھا ۔۔۔سیاکر نے جواب دیا۔۔۔ انہیں ریشم یا مخمل یا کوئی اور قیمتی کپڑے پہننے کی اجازت نہیں تھی، ان کے لئے حکم تھا کہ ننگے سر اور ننگے پاؤں رہا کریں ،یہ ایک موٹی چادر یا کمبل اپنے جسم کے ساتھ لپیٹ کر رکھتے تھے، یہی ان کا لباس تھا ان کے سرداروں کو بھی گھوڑے پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی، اگر سرکاری طور پر ان میں سے کسی کو گھوڑے کی سواری کی اجازت مل جائے تو گھوڑے پر زین ڈالنے کی اجازت نہیں تھی وہ گھوڑے کی پیٹھ پر کمبل ڈال کر سوار ہو سکتا تھا ،ان کے لئے حکم یہ بھی تھا کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے علاقے سے باہر نکلے اور کسی بھی شہر میں جائے تو اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا ایک کتا ہونا چاہیے، کتا ایک نشانی ہوتی تھی کہ یہ شخص جاٹ ہے۔
کبھی تم نے اپنے راجہ کو یہ مشورہ نہیں دیا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ پیار اور محبت والا حربہ استعمال کریں؟ ۔۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ یہ لوگ اگر ایرانیوں کے لیے جان کی بازی لگا کر لڑے تھے تو یہ تمہارے راجہ کے لیے بھی ایسی ہی وفاداری سے لڑ سکتے تھے۔
لیکن یہ لوگ انسانیت کے حدود سے بہت دور نکل گئے ہیں۔۔۔ سیاکر نے کہا۔۔۔ ان لوگوں کا پیشہ لوٹ مار بن چکا ہے، دیبل کے باشندوں کو انھوں نے بہت لوٹا ہے، ان کے علاقے کے قریب سے کوئی قافلہ خیریت سے نہیں گزر سکتا، راجہ چچ کے وقتوں سے ان لوگوں کے لئے یہ سزا مقرر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی رہزنی یا ڈاکے میں یا کسی اور سنگین جرم میں پکڑا جاتا تو نہ صرف اسے بلکہ اس کے گھر کے تمام افراد کو زندہ جلا دیا جاتا تھا ،انہیں لگام ڈال کر رکھنا بہت ہی مشکل کام ہے۔
محمد بن قاسم نے یہ روئیداد سنی تو خاموش رہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر محمد بن قاسم برہمن آباد سے اروڑ کی طرف کوچ کی تیاریاں کررہا تھا ،ادھر اروڈ میں اس کے مقابلے کی تیاریاں ہو رہی تھیں،اروڑ میں عجیب چیز یہ تھی کہ وہاں کی فوج اور وہاں کے لوگوں کو یہ یقین تھا کہ راجہ داہر زندہ ہے ،راجہ داہر کا بیٹا گوپی یہ الفاظ سننا ہی نہیں چاہتا تھا کہ راجہ داہر مارا جاچکا ہے، مندروں میں پوجا پاٹ کے دوران راجہ داہر کا نام یوں لیا جاتا تھا جیسے وہ زندہ ہو۔
راوڑ کے میدان جنگ میں سے راجہ داہر کے بہت تھوڑے فوجی زندہ نکل سکے تھے اور جو زندہ نکل گئے تھے انہوں نے راجہ داہر کو مرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، عجیب بات یہ ہے کہ رانی لاڈی نے برہمن آباد کی فوج سے کہا تھا کہ راجہ داہر کا سر کاٹ دیا گیا ہے، اور اس کا انتقام لینا ہے لیکن اروڑ کو اس نے یہ اطلاع بھیجی تھی کہ راجہ داہر زندہ ہے، اور میں یہ مشہور کیا گیا تھا کہ راجہ داہر ہندوستان کے راجوں مہاراجوں سے فوج لانے کے لئے چلا گیا ہے۔
مورخوں کی تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دھوکہ نہیں تھا شاہی خاندان کے افراد بھی مانتے تھے کہ راجہ داہر زندہ ہے اور وہ بہت بڑی فوج لے کر آرہا ہے، اروڑ والوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ رانی لاڈی محمد بن قاسم کی قیدی بن چکی ہے، اور مائیں رانی نے خود کشی کر لی ہے۔
محمد بن قاسم 3 محرم 94 ہجری بروزجمعرات برہمن آباد سے کوچ کرگیا، راستے میں ایک جھیل آئی جس کا نام ڈہڈا تھا ،اس کے اردگرد بڑا سر سبز علاقہ تھا جو دندہ کربھا کہلاتا تھا، محمد بن قاسم کو یہ علاقہ اتنا اچھا لگا کہ اس نے یہی پڑاؤ کرلیا اور اردگرد کی بستیوں میں اپنے آدمی اس حکم کے ساتھ بھیج دیے کے وہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لیں، اور سب لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ راجہ داہر مارا جا چکا ہے اور اب سندھ کے حکمران مسلمان ہیں۔
اس علاقے میں بدھ مت کے لوگ اکثریت میں تھے جن میں زیادہ تر تجارت پیشہ تھے، انہیں جب اطلاع ملی تو ان کے سردار فوراً محمد بن قاسم کے پاس آگئے، اور نہ صرف یہ کہ اطاعت قبول کی بلکہ اپنی وفاداری کا پورا یقین دلایا ،ان میں دو سردار زیادہ معزز اور اثر رسوخ والے تھے، ایک کا نام بواد اور دوسرے کا نام بدیہی بمن دھول تھا، ان دونوں کو محمد بن قاسم نے انتظامی امور اور محصولات کی فراہمی کے لئے سرکاری طور پر عمال مقرر کردیا۔
تمہارے ساتھ اور اردگرد جاٹ قوم آباد ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہارے ساتھ ان لوگوں کا کیا سلوک ہے؟
یہ قوم قابل اعتماد نہیں۔۔۔ ایک سردار نے جواب دیا ۔۔۔ہم نے ان کے وظیفے مقرر کر رکھے ہیں اور انہیں ہم بلاقیمت اناج وغیرہ بھی دیتے رہتے ہیں ،جس سے یہ لوگ ہمیں پریشان نہیں کرتے ،اگر ان لوگوں کو انسانیت کا درجہ دیا جائے تو یہ سدھر سکتے ہیں۔
ہم امن پسند قوم ہیں ۔۔۔دوسرے بدھ سردار نے کہا ۔۔۔ہمارے پاس پیار اور محبت کی جو دولت ہے یہ ہماری بہت مدد کرتی ہے، ہم نے جاٹوں پر یہ حربہ بھی استعمال کیا یہ لوگ ہماری محبت کو قبول کرتے ہیں۔
تاریخ یعقوبی میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ جاٹوں کے دو سردار اسے ملنا چاہتے ہیں، محمد بن قاسم نے انہیں اسی وقت بلا لیا ،دونوں سردار جب آئے تو وہ کسی پہلو سردار نہیں لگتے تھے، وہ سر اور پاؤں سے ننگے تھے اور انہوں نے کندھوں سے ٹخنوں تک کمبل سے اپنے جسم ڈھانپیں ہوئے تھے۔
تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟،،،،، محمد بن قاسم نے ان سے پوچھا۔
ہم آپ کی اطاعت قبول کرنے آئے ہیں۔۔۔ ان میں ایک نے کہا ۔۔۔لیکن ہماری اطاعت ابھی عارضی ہو گی ،ہمارے اور قبیلے بھی ہیں ان کے سرداروں کے ساتھ بات کر کے ہم آپ کو اپنا آخری فیصلہ دیں گے، پھر ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ آپ کا ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔
اور میں نے یہ دیکھنا ہے کہ تمہارا سلوک اور برتاؤ کیا ہوگا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ تم نے ہماری اطاعت قبول کی ہے یا نہیں، اگر تم نے اپنے طور طریقے نہ بدلے تو تمہارے لیے بہت ہی بھیانک سزا موجود ہے۔
ہم نے سنا ہے کہ آپ جو شہر اور جو علاقے فتح کرتے ہیں وہاں کے لوگوں کو اپنا غلام نہیں بناتے ،اور انہیں پورے حقوق اور ان کے جان و مال کا تحفظ دیتے ہیں، اسی لئے ہم آپ کے پاس آ گئے ہیں ،اگر آپ نے ہمارے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جو پہلے راجہ نے رکھا تھا تو ہم پھر اپنے راستے پر چل پڑیں گے۔
کیا تم اس فوج کا مقابلہ کر سکو گے جس نے اتنے زیادہ قلعے سر کر لیے ہیں، اور راجہ داہر جیسے بہادر جنگجو کو مار ڈالا ہے؟،،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
اے عرب کے سالار!،،،،،،،، جاٹوں کے ایک سردار نے کہا۔۔۔ ہم تمہارے آمنے سامنے آکر نہیں لڑیں گے ،ہماری لڑائی کچھ اور طرح کی ہوتی ہے ،ہماری ضرب آپ پر پڑتی رہیں گی لیکن ہم آپ کو نظر نہیں آئیں گے، ہم نے آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے ہماری دوستی قبول کرلیں۔
محمد بن قاسم نے ان کی دوستی قبول کرلی، لیکن ان دو سرداروں کے لباس اور حلیے اور بات کرنے کے انداز کو دیکھا تو اسے شک ہوا کہ یہ لوگ زیادہ عرصے تک دوست اور وفادار نہیں رہیں گے، اس نے ان کی وفاداری کو قبول تو کر لیا لیکن اپنے مشیروں سے مشورہ کرکے حجاج بن یوسف کو خط لکھا ،جس میں اس نے جاٹ قوم کی خصلتوں کی تفصیل لکھی، اور اس سے پوچھا کہ اس قوم کے ساتھ رویہ کیا ہونا چاہیے، وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا، ایک خطرہ تو یہ بھی تھا کہ یہ جاٹ راجہ داہر کے بیٹوں کے ساتھ مل کر اس کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے تھے، یوں بھی ہو سکتا تھا جاٹوں کو ایرانیوں کی طرح باعزت ہے اور زیادہ مراعات دے کر اپنے ساتھ ملا لیں یہ خطرہ تو تھا ہی کہ جاٹ ایک جنگجو قوم تھی، محمد بن قاسم نے یہ خط تیزرفتار قاصد کو دے کر اسی وقت روانہ کردیا۔
چند دنوں میں حجاج بن یوسف کا جواب آ گیا، اس نے لکھا تھا۔
عزیز فرزند !،،،،،،،تم پر اللہ کی سلامتی ہو، تم نے جاٹ قوم کے متعلق مجھ سے پوچھا ہے، میرا یہ حکم بالکل واضح ہے کہ جو قوم تمہارے خلاف لڑتی ہے، یا جس قوم سے بھی تمہیں خطرہ ہے اور وہ مسلسل نافرمانی کرتی آ رہی ہے، تو اس کے تمام چیدہ چیدہ افراد اور سالاروں کو قتل کردیا جائے، جاٹ قوم کو تم کوئی کمزور قوم نہ سمجھنا، تمہیں معلوم ہوچکا ہوگا کہ اس قوم کے آدمی خالد بن ولید کے مقابلے میں آ چکے ہیں، اور بہت دلیری سے لڑے تھے ،ان کے کچھ خصائل تم نے لکھے ہیں اور کچھ مجھے پہلے معلوم تھے، یہ جاٹ اگر تمہارے خلاف میدان جنگ میں نہیں آئیں گے تو بھی تمہارے لیے خطرناک ہونگے، امن و امان نہیں رہنے دیں گے، قافلوں کو لوٹیں گے کہ یہی ان کا پیشہ ہے جو نسلوں سے چلا آ رہا ہے،،،،،،،،،،،
ان پر بہت زیادہ سختی کرنی پڑے گی ،یہ تمہیں معلوم کرنا ہوگا کہ ان میں جنگجو کون ہیں جو سرکش اور باغی بھی ہیں، ان سب کو قتل کردو یا ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو یرغمال کے طور پر اپنے پاس رکھ لو، اور انہیں اپنے ان آدمیوں اور عورتوں کی تحویل میں رکھو جو ان بچوں کے حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھیں ،پھر یہ دیکھو کہ اس قوم میں جو فرما بردار اور امن و امان میں رہنے والے ہیں ،اور ان میں جو تاجر کاریگر اور کاشتکار ہیں ،اور جو پر امن زندگی بسر کر رہے ہیں، ان پر معمولی سا جزیہ عائد کر دو اور جو کوئی خود ہی اسلام قبول کرلے اس سے جزیہ کی بجائے صرف عشر لو، ان میں سے ان لوگوں کو جو جرم و شرکسی کے عادی ہیں انھیں اسلامی اصولوں سے بھی روشناس کراتے رہو، تم وہاں ہو اور تم قریب سے دیکھ رہے ہو حالات کے مطابق اپنے فیصلے خود کر سکتے ہو، لیکن احتیاط بہت ضروری ہے۔
محمد بن قاسم نے اس مقام پر جاٹوں پر ایسی سختی نہ کی کیونکہ اصل سرکش اور جرائم پیشہ جاٹوں کا علاقہ آگے آرہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کچھ دنوں بعد محمد بن قاسم نے یہاں سے بھی کوچ کیا اور سمہ قوم کے علاقے میں جا پڑاؤ کیا ،یہ وہ علاقہ تھا جہاں صرف جاٹ قوم رہتی تھی، اور جو سخت سزاؤں کے باوجود قابو میں نہیں آتی تھی۔
محمد بن قاسم کا خیمہ گاڑا جا رہا تھا کہ دور سے بہت سی ڈھول بجنے کی آواز آنے لگی، ڈھولوں کے ساتھ لوگوں کا شور بھی تھا، ڈھولوں اور انسانوں کا یہ شوروغوغا آگے ہی آگے بڑھتا آیا۔
محمد بن قاسم نے کہا کہ معلوم کیا جائے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ڈھول بجاتے چلے آ رہے ہیں۔
یہ جاٹ ہیں سالار اعلی!،،،،،،، وزیر سیاکرنے کہا ۔۔۔۔یہ ان کا رواج ہے کہ کسی کا استقبال کرنے نکلتے ہیں تو ڈھول بجاتے اور ناچتے ہوئے اس کا استقبال کرتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپ کے استقبال کو آ رہے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ اتنے احمق نہیں ہونگے کہ ہم پر حملہ کرنے آئے ہونگے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اور گھوڑے پر سوار ہو کر اس طرف گھوڑا دوڑا دیا جس طرف سے جاٹ آ رہے تھے۔
محمد بن قاسم کا محافظ دستہ اس کے پیچھے گیا، جاٹ ننگے سر اور ننگے پاؤں ناچتے چلے آ رہے تھے، وہ اپنا کوئی گیت بھی گا رہے تھے ،محمد بن قاسم نے اس بے پناہ ہجوم کے سامنے جا گھوڑا روکا اور گھوڑے سے کود کر اترا ،جاٹوں کا شور اور زیادہ بلند ہو گیا اور وہ پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے ڈھول پیٹنے لگے ،پھر ان کے تین چار آدمی جو سردار معلوم ہوتے تھے آگے آئے اور انہوں نے محمد بن قاسم کے ساتھ مصافحہ کیا، محمد بن قاسم کے ساتھ ترجمان بھی تھا اس کی معرفت جاٹوں کے سردار کے ساتھ باتیں ہوئیں، انہوں نے اپنے ایک سردار کو آگے کر دیا کہ وہ ان کی نمائندگی کرے۔
ہم آپ کے استقبال کے لئے آئے ہیں۔۔۔ جاٹوں کے سردار نے کہا۔۔۔ معلوم نہیں آپ ہمارے استقبال کو قبول کریں گے یا نہیں۔
اگر تم لوگ اس راستے سے ہٹ آؤ جس پر تم چلے جا رہے ہو تو میں تمھارا صرف استقبال ہی قبول نہیں کروں گا بلکہ تمہیں اپنا دوست بنا کے رکھو گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اگر وہی طور طریقے رکھو گے تو تمہیں اس سے زیادہ سزائیں ملیں گی جو یہاں کے راجوں سے ملتی رہی ہیں,,,,,,,,, کیا تم اپنے کسی ایسے سردار کو میرے پاس بھیجو گے جس کے ساتھ میں ہر قسم کی بات کرسکوں۔
ہاں !،،،،جاٹوں کے اس سردار نے کہا ۔۔۔ہم اسے بھیجیں گے۔
یہ لوگ ناچ کود اور گا بجا کر چلے گئے، محمد بن قاسم نے ان کے آگے تشکر اور اطمینان کا اظہار کیا ۔
کچھ دیر بعد ایک بوڑھا جاٹ جس کا نام بہوریا تھا محمد بن قاسم کے پاس آیا، اس کے ساتھ تین چار آدمی اور تھے، محمد بن قاسم نے اسے عزت و احترام سے اپنے خیمے میں بٹھایا، شعبان ثقفی اوردو اور سالار محمد بن قاسم کے ساتھ موجود تھے
اے بزرگ سردار !،،،،محمد بن قاسم نے ترجمان کی معرفت سے اس سے پوچھا۔۔۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ یہاں کیوں آئے ہو؟
اے عربی فوج کے حاکم!،،،، بوڑھے بہوریا نے جواب دیا ۔۔۔میرے قبیلے نے جس طرح تمہارا استقبال کیا ہے اسے تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا مقصد کیا ہے، یہ ہمارا رواج ہے کہ جسے ہم دل سے چاہتے ہیں اس کا استقبال اسی طرح کیا کرتے ہیں جس طرح تمہارا کیا ہے، تم ہمارے علاقے میں آئے ہو اور ہم خوش ہوئے ہیں۔
یہ علاقہ تمہارا نہیں میرے بزرگ!،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔یہ علاقہ اس وقت تمہارا ہوگا جب تم مجھ پر ثابت کرو گے کہ تم اس قابل ہو کہ میں تمہیں اس علاقے کا سردار بنا دوں،،،،،،،،تم تو جنگجو تھے پھر تم ڈاکو اور رہزن کیوں بن گئے؟
اس لئے کے راجہ چچ نے ہمیں انسان سمجھنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ بوڑھے بہوریا نے کہا۔۔۔ جب ان پر ایران والوں نے حملہ کیا تو ہمیں لڑایا گیا ،اگر ہم لوگ جانیں نہ لڑاتے تو ایرانی پورے کا پورا سندھ لے لیتے، چچ اور اس کے بیٹے داہر کا نام و نشان نہ ہوتا، یہ ہم جاٹ ہی تھے جنھوں نے ایرانیوں کو مکران سے آگے نہ آنے دیا ،لیکن ہمیں مدد نہ ملی اور لڑنے والے جاٹ ایرانیوں کے قیدی ہوگئے، ایرانیوں نے انہیں مویشیوں کی طرح رکھا ،اور جب تم جیسے مسلمانوں نے ایرانیوں کی کمر توڑ ڈالی اور ان کی طاقت کا سورج غروب ہونے لگا تو انہوں نے جاٹوں کو سپاہی بناکر عزت دی اور مسلمانوں کے خلاف عرب میں لڑایا، پھر وہ مسلمانوں کے قیدی ہوئے، ادھر ہم جو ان کی اولاد تھے اس وجہ سے سزا بھگتنے لگے کہ ہمارے باپ اور ہمارے بھائی میدان جنگ میں قید ہوگئے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم لوگ قافلوں کو لوٹنے لگے۔
بوڑھے بہوریا کا انداز ایسا پر اثر تھا کہ محمد بن قاسم انہماک سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
تم نہیں جانتے اے سالارِ عرب!،،،،، بہوریا نے کہا ۔۔۔ہمارے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ تم نہیں جانتے، ایک موٹی چادر یا کمبل کے سوا ہم جسم پر کوئی اور کپڑا نہیں ڈال سکتے، ہم پاؤں میں جوتے نہیں پہن سکتے، سر پر پگڑی نہیں لپیٹ سکتے، ہم شہسوار کی اولاد ہیں لیکن ہمیں گھوڑے کی سواری کی اجازت نہیں، اگر ہم میں سے کوئی سردار حاکم کی منظوری سے گھوڑے پر بیٹھے تو وہ گھوڑے پر زین نہیں ڈال سکتا، ہمارے کئی خاندانوں کے بچے، بوڑھے، جوان، مرد، اور عورتیں زندہ جلا دیے گئے ہیں، ہم نے راجہ کے خلاف یہ جنگ شروع کررکھی ہے کہ جہاں ہمارا ہاتھ پڑ جاتا ہے وہاں ہم لوٹ مار کرتے ہیں، کیا تم بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کرو گے؟
اس سوال کا جواب تم خود دے سکتے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اگر تم اپنے آپ کو اسی سلوک کے قابل سمجھو گے تو میری طرف سے تمہارے ساتھ اس سے زیادہ برا سلوک ہوگا ،مجھے عرب سے حکم آیا ہے کہ جو سرکشی بغاوت اور بدامنی پھیلاتی ہیں انہیں قتل کر دیا جائے، اور جو پرامن طریقے سے زندگی بسر کرنے والے ہیں انہیں پوری عزت دی جائے، اور ان سے اتنا ہی جزیہ لیا جائے جو وہ آسانی سے ادا کرسکیں، پھر مجھے حکم ملا ہے کہ تم میں سے جو کوئی اپنی خوشی سے اسلام قبول کرلے اس سے جزیہ بھی نہ لیا جائے اس کے بجائے معمولی سا عشر لیا جائے،،،،،، اور یہ میرے مذہب کا حکم ہے کہ تمام انسان مساوی ہیں مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں، اگر فرق ہے تو صرف فرائض کا ہے تمہاری ذمہ داریاں میری ذمہ داریوں سے مختلف ہیں،،،،،، کیا تم میری ان باتوں کو سمجھ سکتے ہو؟
میں تم سے زیادہ سمجھتا ہوں بیٹے!،،،،، بہوریا نے کہا۔۔۔ تم نے ابھی دنیا نہیں دیکھی تمہاری عمر گھوڑے کی پیٹھ پر اور خیموں میں گزر رہی ہے، میں جہاندیدہ ہو کمسن لڑکے!،،، ہمیں انسانوں کا درجہ دو گے تو ہم تمہیں ایسے ہی انسان بن کر دکھائیں گے جیسے تمہاری فوج کے یہ آدمی ہیں،،،، اور یہ بھی نہ سمجھنا کہ میں یہ باتیں تمہارے یا تمہاری فوج کے خوف سے کہہ رہا ہوں میں جانتا ہوں کہ تمہارے مذہب کے اصول اور حکم کیا ہیں، میں تمہارے مذہب کو قبول کروں یا نہ کروں یہ بعد کی بات ہے لیکن میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمہارا مذہب راجہ داہر کے مذہب سے جو میرا بھی مذہب ہے بہت اچھا ہے، میں نے سنا ہے کہ تم نے جو جگہیں فتح کی ہے وہاں کسی پر ظلم نہیں کیا۔
کیا تمہارے سب قبیلے تمہارا حکم مانتے ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
حکم ہی نہیں مانتے بلکہ مجھے بھگوان کا درجہ دیتے ہیں۔۔۔ بہوریا نے کہا۔۔۔ مجھے بتاؤ تم کیا منوانا چاہتے ہو؟
میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم انسانوں کی طرح رہو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور انسانوں جیسی عزت ہم سے لو، ہمارے مذہب کو دیکھو، اگر میرا کوئی حاکم یا سپاہی کسی کے ساتھ زیادتی کرے تو اس کی شکایت کرو، اسے وہی سزا ملے گی جو راجہ داہر تمہیں دیتا رہا ہے۔
پھر سن لے اے عربی!،،،،، بہوریا نے کہا۔۔۔آج سے ہم ویسے ہی انسان بن گئے ہیں جیسے تم کہہ رہے ہو،،،،،،،، اور ہم نے تمہاری اطاعت قبول کی، ہم پر جو بھی محصول عائد کرو گے ہم خوشی سے ادا کریں گے۔
اور آج سے تمہیں اجازت ہے کہ جیسا کپڑا پہننا چاہتے ہو پہنو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کوئی آدمی ننگے سر ننگے پاؤں نہ رہے ، تم سب گھوڑوں پر زین ڈال کر سواری کر سکتے ہو ،کچھ عرصے بعد جب میں دیکھوں گا کہ تم نے اپنی عزت اور میرا اعتماد بحال کرلیا ہے تو میں تمہیں فوج میں بھرتی ہونے کا حق بھی دے دوں گا۔
اس طرح وہی جاٹ قوم جو سرکش، وحشی، اور باغی، رہزن، اور ڈاکو مشہور تھی ایک باعزت قوم کی طرح محمد بن قاسم کی اطاعت میں آگئی، محمد بن قاسم نے بہوریا کو اپنی برابری میں بٹھا کر کچھ تحفے دیے اس کے سر پر پگڑی لپیٹی اور اس کے پاؤں میں جوتے ڈالے۔
ابن قاسم!،،،،، ایک سالار خریم بن عمرو نے عربی زبان میں کہا ۔۔۔ہم پر سجدہ شکر واجب ہو گیا ہے کہ یہ وحشی قوم ہماری مطیع اور فرماں بردار ہو گئی ہے۔
چاچ نامہ فارسی میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم ہنس پڑا اور بولا ۔۔۔اے ابن عمرو!،،،، اگر تو سجدہ شکر کو واجب سمجھتا ہے تو میں تجھ ہی کو اس علاقے کا حاکم مقرر کرتا ہوں.
بہوریا کو رخصت کرنے کے لیے جب سب خیمے سے نکلے تو جو جاٹ باہر کھڑے تھے وہ ڈھول بجا کر اپنا ایک مخصوص ناچ ناچنے لگے، جب وہ ناچ چکے تو خریم بن عمرو نے اپنی جیب سے انہیں بیس دینار بطور انعام دیے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کے ذہن سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا اور اس نے وہاں سے کوچ کیا ،آگے والا علاقہ بھی جاٹوں کا تھا یہ جاٹوں کے دو قبیلے تھے ایک لاکھا اور ایک سمہ کے علاوہ ایک چھوٹا سا قبیلہ سہتہ بھی تھا، انہیں شاید بہوریا کے طرف سے اطلاع مل چکی تھی کہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی گئی ہے، یہ لوگ بھی ننگے پاؤں اور ننگے سر دوڑے آئے اور انہوں نے بھی اطاعت قبول کرلی اور محمد بن قاسم نے ان کے سرداروں کو بلا کر اعلان کیا کہ وہ اچھے کپڑے پہن سکتے ہیں اور وہ تمام مراعات جو اس نے بہوریا کو بتائی تھی ان کو بھی حاصل ہوگی۔
عرب کے ان مجاہدین کی ایک کٹھن منزل قریب آ گئی تھی، یہ تھا اروڑ جو راجہ داہر کی راجدھانی تھی، محمد بن قاسم نے اپنے جو جاسوس اور دیکھ بھال کے لیے دیگر آدمی آگے بھیج رکھے تھے ،ان سب کو بلایا اور ان کی معلومات کے مطابق نقشہ تیار کیا، بتایا گیا کہ راجہ داہر کے ایک بیٹے گوپی نے اروڑ کو اپنا دارالحکومت بنا رکھا ہے، یہ بھی بتایا گیا کہ گوپی کے سامنے کسی کو یہ کہنے کی جرات نہیں ہوتی کہ راجہ داہر مارا جاچکا ہے ،محمد بن قاسم نے اروڑ کا رخ کیا غروب آفتاب کے وقت ایک مقام پر جا رُکا جو اروڑ سے تقریبا ایک میل کے فاصلے پر تھا، اور وہیں خیمے گاڑ دیئے، اروڑ کو محاصرے میں لینے سے پہلے محمد بن قاسم نے خیمہ گاہ میں بڑی عجلت سے ایک مسجد تعمیر کروائی اور جو پہلا جمعہ آیا اس نے جمعہ کا خطبہ دیا اس کے فوراً بعد قلعے کا محاصرہ کر لیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شہر کے اندر افراتفری پیدا ہوگی مسلمانوں کی دہشت پہلے ہی اس شہر میں پہنچی ہوئی تھی ،مورخ لکھتے ہیں کہ فوج کے حوصلے بھی مضبوط نہیں تھے کیونکہ اس فوج تک ایسی کوئی خبر نہیں پہنچی تھی کہ مسلمانوں کو فلاں جگہ سے پسپا کردیا گیا ہے، یہاں مسلمانوں کی صرف فتوحات اور پیش قدمی کی خبریں پہنچتی رہی تھیں،
اروڑ کے بڑے مندرمیں گھنٹیاں اور گھڑیال بجنے لگے، لوگ مندر کی طرف دوڑے گئے ایک ہجوم تھا جو اتنے بڑے مندر میں سما نہ سکا، لوگ باہر کھڑے ہو گئے۔
اے لوگو !،،،،،،بڑے پنڈت نے اعلان کیا ۔۔۔مت ڈرو !،،،مہاراج داہر بہت بڑی فوج لے کر آرہے ہیں، تم نے دیکھا ہو گا کہ مہاراج کے راجکمار گوپی جو شہر سے باہر تھے یہاں پہنچ گئے ہیں ،اسی طرح مہاراج داہر بھی آ جائیں گے، ایسی باتوں پر یقین نہ کرنا کے مہاراج راوڑ میں مارے گئے تھے، مسلمانوں کو موت یہاں لے آئی ہے۔
اس طرح پنڈتوں نے اپنا معمول بنا لیا کہ صبح و شام یہی اعلان کرتے رہتے کہ راجہ داہر بہت بڑی فوج لے کر آرہا ہے، اور وہ مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کرے گا، اور مسلمان راجہ داہر کی فوج اور قلعے کی فوج کے درمیان پیس دیے جائیں گے۔
محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے مخصوص انداز جنگ سے قلعے کو سر کرنے کی سر توڑ کوشش شروع کردی،
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>