ہیروں کی بارش اور ہیروں کا فرش
ہمارے نظامِ شمسی میں ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں ہر وقت ہیروں کی برسات ہوتی رہتی ہے!
یہ بات پڑھنے میں تو کسی شاعر کی شاعرانہ باتیں لگتی ہیں یا پھر کسی تخیلاتی مصنف کی سوچ، لیکن یہ بات حقیقت ہے! نظامِ شمسی کے آخری سیارے "نیپچون" پر ہیروں کی بارش ہوتی ہے۔
یہ بات 1980ء سے پہلے سائنسدانوں کو معلوم نہ تھی لیکن 1980ء کی دہائی میں جب وائیجر 2 یورینس اور نیپچون کے پاس سے گزری اور پہلی مرتبہ زمینی سائنسدانوں کو ان سیاروں کا قریبی منظر دِکھایا تو یہ لوگ خود بھی ہکا بکا رہ گئے۔
ہیرے میں اگر ہم ایٹموں کی ترتیب اور ان کی قسم کو دیکھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ ایٹم کاربن کے ہیں۔ کاربن کے ایٹم کی ایک خاصیت اس کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے جسے کیمسٹری میں "کیٹینیشن" کہتے ہیں۔ کیٹینیشن ایک ایسا عمل ہے جس میں کاربن کا ایک ایٹم چاروں اطراف میں دوسرے کاربن کے ایٹموں کو جوڑ جوڑ کر بہت لمبی لمبی زنجیر نما ترتیب بنا لیتا ہے۔ ہیرے میں بھی کاربن نے کیٹینیشن کے ذریعے بہت زیادہ تعداد میں دوسرے کاربن کے ایٹموں کو جوڑا ہوتا ہے اور یہ جوڑنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس جوڑنے کے لیے انتہا درجے کی حرارت اور دباؤ کی ضرورت پڑتی ہے۔
نیپچون چونکہ گیسی سیارہ ہے اس لیے تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس گیسی سیارے کا مرکز سخت اور چٹانی ہے۔ اس سیارے کا باہری حصہ گیسی ہے۔ اس گیسی حصے اور ٹھوس مرکز کے درمیانی حصے میں مائع حالت میں میتھین گیس موجود ہے (میتھین ایک ایسی گیس ہے جو کاربن اور ہائیڈروجن کے ایٹموں سے مل کر بنتی ہے اور زمین پر یہ گیسی حالت میں پائی جاتی ہے۔ اس گیس کو ہم اپنے باورچی خانوں میں بھی استعمال کرتے ہیں) سائنسدانوں نے تحقیق سے یہ ثابت کی ہے کہ نیپچون کے اس مائع میتھین والے حصّے میں بہت زیادہ درجہ حرارت ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دباؤ کی شدت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جس وجہ سے میتھین میں موجود کاربن کے ایٹم علیحدہ ہو جاتے ہیں اور پھر دباؤ میں آکر یہی ایٹم یکجا ہونے لگتے ہیں۔ اس سے کاربن کے ایٹموں کے درمیان "کیٹینیشن" کا عمل شروع ہوتا ہے اور چھوٹے چھوٹے (تقریباً ایک سینٹی میٹر کے سائز کے) ہیرے وجود میں آتے ہیں جو اپنے وزن کے باعث سیارے کے مرکز کی طرف گرنے لگتے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہیروں کی بارش ہو رہی ہو۔
اس عمل کو سائنسدانوں نے لیبارٹری میں بھی آزما کر دیکھا ہے۔ یہ کام لیب میں انتہائی چوٹی سطح پر کیا گیا ہے جس میں پہلے نیپچون جیسا (شدید) دباؤ پیدا کر کے میتھین کو مائع حالت میں تبدیل کیا گیا اور پھر تیز لیزر کی شعاؤں کی مدد سے حرارت پیدا کی گئی تو دیکھا گیا کہ بہت چھوٹے چھوٹے ہیرے وجود میں آئے۔
یقیناً ہم نیپچون جتنا درجہ حرارت تو پیدا نہیں کر سکتے اور نہ ہی اتنا دباؤ پیدا کر سکتے ہیں لیکن چھوٹی سطح پر یہ تجربہ ہونا اور پھر اس میں بہت چھوٹے ہیرے بھی بننا بہت بڑا ثبوت ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نیپچون پر ہیرے بنتے ہیں اور کافی بڑے سائز میں بنتے ہیں۔
آخر میں یہ بات بھی زیرِ غور ہے کہ ہیرے بننے کا یہ عمل صرف نیپچون میں ہی نہیں دیکھا گیا بلکہ نظامِ شمسی کے تمام گیسی سیاروں میں (جس میں مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون شامل ہیں) ہوتا ہے لیکن نیپچون میں یہ عمل سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے۔ صرف گیسی سیاروں میں ہی یہ ہیروں کی بارش اس لیے ہوتی ہے کیونکہ ان میں موجود گیس کا بنا ہوا باہری کرّہ مرکز پر شدید دباؤ ڈالتا ہے۔ لہذا سیارہ عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ پر اس طرح قدرتی طور پر بارش کی شکل میں ہیروں کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ ہاں زیر زمین دباؤ اور درجہ حرارت کی وجہ سے یہ ہیرے بن سکتے ہیں۔
تو اب آپ جان چکے ہیں کہ نیپچون پر ہیروں کی بارش ہوتی رہتی ہے اور یقیناً اس کا فرش "ہیروں کا فرش" بن گیا ہوگا۔
زمرے
سائنس و ٹیکنالوجی