⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴تیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پہلے معرکے کے بعد شام کے دھندلکے میں ہندو اپنی لاشیں اور زخمی اٹھانے آئے تھے لیکن مسلمان تیر اندازوں نے انہیں تیروں کا نشانہ بنا ڈالا تھا، اس کے بعد انھوں نے ایسی جرات نہیں کی تھی ،پہلے دنوں کی لاشیں گلنے سڑنے لگیں تھیں اور تعفن اتنا بڑھ گیا تھا کہ دور دور تک کھڑا نہیں رہا جاسکتا تھا، رات کو اس علاقے کے بھیڑئے لومڑی اور گیدڑ وغیرہ کچھ لاشوں کو کھا جاتے تھے۔
ذوالحجہ 944 ہجری کے ایک روز مسلمانوں کے لئے کمک اور رسد متوقع تھی لیکن یہ قافلہ نہ پہنچا، دو دن مزید انتظار کیا گیا لیکن بے سود ،لیکن ایک رات ان دستوں میں سے ایک پر شب خون مارا گیا جو محاصرے کے ہوئے تھے، ان سے مجاہدین کو کچھ نقصان پہنچا محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ شب خون مارنے والے قلعے میں سے نہیں نکلے تھے بلکہ باہر سے آئے تھے یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ کون تھے ۔
اس سے اگلی رات پھر ایسا ہی شب خون پڑا اور اپنے ایک اور دستے کا کچھ نقصان ہو گیا،
مسلمانوں کی فوج کا جانی نقصان پہلے ہی خاصا ہوچکا تھا اب ان شبخونوں نے کچھ نقصان کیا ،ادھر سے رسد اور کمک بھی نہیں آ رہی تھی ،محمد بن قاسم کے حکم سے دو آدمیوں کو دہلیلہ اور بہرور بھیجا گیا کہ وہ معلوم کر کے آئیں گے کمک اور رسد کیوں نہیں آئی، یہ دونوں قلعے دور نہیں تھے ایک ہی دن میں جا کر واپس آیا جا سکتا تھا، لیکن تین دن تک دونوں واپس نہ آئے۔
دو اور آدمی بھیجے گئے شام سے ذرا پہلے ایک آدمی اس حالت میں واپس آیا کہ اس کے کپڑے خون سے لال تھے اور وہ گھوڑے کی پیٹھ پر جھکا ہوا بیٹھا تھا، اس نے بتایا کہ دہلیلہ سے ابھی وہ دور ہی تھے کہ چار آدمیوں نے ان پر حملہ کر دیا اس کا ایک ساتھی مارا گیا اور یہ زخمی حالت میں واپس آ سکا ،اس سے کچھ شک ہوا، شک یہی ہو سکتا تھا کہ رسد کو بھی راستے میں روکا جا رہا ہے۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے کہا کہ جو دستے محاصرے میں لگے ہوئے ہیں وہ رات کو تیار رہیں اور شب خون مارنے والوں میں سے کسی ایک دو کو پکڑنے کی کوشش کریں۔
شب خون ہر رات کا معمول بن گیا تھا آخر ایک روز شب خون مارنے والوں میں سے دو کو گرا لیا گیا، انہیں محمد بن قاسم کے پاس لائے، وہ کچھ بتاتے نہیں تھے، محمد بن قاسم نے حکم دیا کے دونوں کو ایک گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھوڑا دوڑا دو، وہ جانتے تھے کہ وہ کتنی بری موت مریں گے انہوں نے راز کی بات اگل دی ،انہوں نے بتایا کہ یہ جے سینا کی فوج ہے جو وہ ایک مقام بھاٹیہ سے تیار کر کے لایا ہے، اس علاقے کا حاکم رمل تھا جو رومل بادشاہ کے نام سے مشہور تھا، ان آدمیوں نے بتایا کہ جے سینا فوج کو برہمن آباد لا رہا تھا لیکن اسے پتا چلا کہ برہمن آباد تو محاصرے میں ہے تو اس نے برہمن آباد سے دور ہی پڑاؤ کر لیا ،اور وہاں سے وہ اپنے دستے شب خون مارنے کے لیے بھیج رہا تھا۔
ان قیدیوں نے یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں کے لئے برہمن آباد کی طرف جو کمک اور رسد آئی تھی وہ جے سینا کے دستے راستہ روک کر لوٹ لیتے تھے، پہلے جو دو آدمی بھیجے گئے تھے انہی جے سینا کے آدمیوں نے پکڑ کر مار ڈالا تھا ،جے سینا نے اپنے آدمی اس طرح پھیلا دئیے تھے کہ بہرور اور دہلیلہ کی طرف سے کوئی مسلمان برہمن آباد کی طرف جارہا ہوتا تو اسے قتل کر دیتے تھے۔
محمد بن قاسم نے سالاروں کو بلا کر اس صورتحال سے آگاہ کیا اور انہیں کہا کہ ہر سالار اپنے اپنے دستوں میں سے چن کر کچھ آدمی دے تاکہ جے سینا کا تعاقب کیا جائے۔ سالاروں نے فوراً چن کر آدمی نکالے، محمد بن قاسم نے ان کا الگ دستہ بنا دیا ،کسی بھی تاریخ میں اس دستے کی نفری نہیں لکھی گئی کہ کتنی تھی ،یہ واضح ہے کہ اس دستے کے ساتھ اس نے موکو، نباۃ بن حنظلہ کلابی، عطیہ تغلبی، صارم بن صارم ہمدانی، اور عبد الملک مدنی کو عہدے دار مقرر کیا، اس دستے کی کمان دو آدمیوں کو دی گئی ایک موکو تھا اور دوسرا خریم بن عمر المدنی، موکو ابھی تک ہندو ہی تھا ،لیکن وہ اپنی وفاداری ثابت کرچکا تھا ،اور اس میں دوسری خوبی یہ تھی کہ مقامی آدمی ہونے کی وجہ سے وہ ان علاقوں سے واقف تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس دوران ایک شب خون اور پڑا اس میں سے بھی تین آدمیوں کو پکڑ لیا گیا، انہوں نے بتایا کہ جے سینا کس جگہ اپنا اڈا بنا رکھا ہے، اسی روز یہ دستہ جو خاص طور پر اس مہم کے لیے تیار کیا گیا تھا موکو اور خریم بن عمر المدنی کی قیادت میں اس علاقے کی طرف چل پڑا ،تینوں قیدیوں کو بھی ساتھ لے لیا گیا تھا کہ ان کی اطلاع غلط ہوئی تو انہیں قتل کر دیا جائے، انہیں رہنما بنانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ موکو ساتھ تھا اور وہ ان تمام علاقوں سے واقف تھا۔
یہ دستہ سورج غروب ہوتے ہی چل پڑا ،برہمن آباد سے کئی میل دور پہنچے تو اچانک دو گھوڑے جو کہیں رکے کھڑے تھے سرپٹ دوڑ پڑے ان کے پیچھے چار سواروں کو دوڑا دیا لیکن یہ ان دونوں سواروں تک نہ پہنچ سکے، ان چاروں کو کہا گیا تھا کہ تعاقب میں بہت دور نہ جائیں اور انہیں یہ شک پیدا ہو گیا تھا کہ یہ سوار جے سینا کے ہی ہونگے چاروں مسلمان سوار واپس آ گئے۔
اس خصوصی دستے کی پیشقدمی کی رفتار تیز کردی گئی، جے سینا کے اڈے کا علاقہ ابھی خاصا دور تھا صبح تک پہنچ جانے کی توقع تھی، اس دستے کے گھوڑوں کی رفتار تیز تو تھی لیکن گھوڑے سرپٹ نہیں دوڑ رہے تھے، نہ ہی اتنی دور تک انہیں دوڑایا جاسکتا تھا۔
رات بھر چلتے رہے اور صبح وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں ہر طرف ایسے نشان تھے جیسے یہاں کسی فوج کا پڑاؤ رہا ہو خیمیں لگا کر اکھاڑے گئے تھے، گھوڑے اپنے نشان چھوڑ گئے تھے، اس سمت کو معلوم کرنا مشکل نہ تھا جس سمت یہ گھوڑے گئے تھے، مسلمان دستہ کچھ دور تک گیا راستے میں کچھ آدمی ملے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک فوج آدھی رات کے کچھ بعد یہاں سے گزری ہے، ان مقامی آدمیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ راجہ داہر کے بیٹے جے سینا کی فوج تھی، وقت اور فاصلے سے حساب لگایا گیا تو تعاقب بیکار نظر آیا۔
اس مسلمان دستے کے عہدے داروں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ وہاں سے بہرور اور دہلیلہ کی طرف کوچ کیا جائے تاکہ اس علاقے میں جے سینا کا کوئی آدمی نہ رہے، ایک جگہ سواروں اور گھوڑوں کو آرام دینے اور کچھ کھانے پینے کے لیے کچھ دیر کے لیے پڑاؤ کیا گیا پھر یہ دستہ چل پڑا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ دو شترسوار دکھائی دئیے، مسلمانوں کے دستے کو دیکھ کر وہ راستہ بدل لیے ان کے پیچھے پانچ چھے سواروں کو دوڑایا گیا ،اگر وہ مشکوک آدمی نہ ہوتے تو راستہ نہ بدلتے انہوں نے اپنے خلاف یوں شک پکا کر دیا کہ اونٹوں کو تیز دوڑا دیے، گھوڑے ان تک پہنچ گئے اور ان دونوں کو پکڑ لائے، پہلے تو ان دونوں نے خوفزدگی اور سادگی کا اظہار کیا لیکن ان کے پہلوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی برچھیوں کی انیاں رکھی گئیں تو انہوں نے بتادیا کہ وہ جے سینا کے سپاہی ہیں، ان سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ جے سینا چترور کے علاقے میں چلا گیا ہے اور اس نے برہمن آباد کے اردگرد اور برہمن آباد اور بہرور کے درمیانی علاقے میں جو فوجی پھیلا رکھے تھے انہیں پیغام بھیج دیے تھے کہ وہ اس علاقے کو چھوڑ دیں اور اگر وہ اس کے ساتھ رہنا چاہیں تو چترور آ جائیں یا اپنے گھروں کو چلے جائیں ۔
دو تین دن محمد بن قاسم کا ترتیب دیا ہوا دستہ اس سارے علاقے میں گھوم پھر کر واپس آیا اور اس کے فورا بعد کمک اور رسد بھی پہنچ گئی۔
برہمن آباد کے محاصرے کو چھ مہینے گزر چکے تھے ڈیڑھ دو مہینوں سے اندر کی فوج نے باہر آکر حملے کرنے چھوڑ دیے تھے، محمد بن قاسم نے اپنی پوری فوج کو خیمے سے نکال کر قلعے کو پوری طرح محاصرے میں لے لیا تھا اور اس نے دیوار میں نقب یا سرنگ لگانے کا ارادہ کرلیا تھا، اس سے پہلے قلعے کے اندر سنگ باری اور آتش بازی ضروری تھی لیکن محمد بن قاسم شہری آبادی کو کوئی بھی نقصان پہنچانے سے گریز کر رہا تھا۔
ایک روز محمد بن قاسم نے سندھی زبان میں تین چار چھوٹے چھوٹے پیغام لکھوائے، انہیں تیروں کے ساتھ باندھا، رات کے وقت دیوار کے قریب جاکر یہ تیر اس طرح چھوڑے گئے کہ شہری آبادی میں گرے، یہ تو معلوم ہی تھا کہ شہری آبادی کس طرف ہے ،یہ پیغام کی ایک ہی تحریر تھی، جو کچھ اس طرح تھی کہ غیر فوجی لوگ اپنی فوج کو مجبور کریں کہ قلعے کے دروازے کھول دیں ورنہ ہم شہر پر پتھر اور آگ برسائیں گے، اگر شہری ہمارے ساتھ تعاون کریں تو قلعہ فتح ہونے کی صورت میں کسی شہری کو پریشان نہیں کیا جائے گا ان کی عزت جان اور مال کی پوری حفاظت کی جائے گی۔
تین چار دن گزرے تو دو آدمی مسلمانوں کے لشکر میں آئے، انہوں نے بتایا کہ وہ رات کو قلعے کے اندر سے نکلے تھے، بند قلعے میں سے کسی کا باہر آنا یا اندر جانا ممکن نہیں ہوتا تھا ،لیکن ان دونوں نے بتایا کہ شہر کے پانچ ،سات صاحب حیثیت ہندو جن میں مندر کا بڑا پنڈت بھی شامل تھا ایک دروازے کے پہرے پر کھڑے فوجیوں کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ وہ مسلمانوں تک پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ قلعہ لے لو لیکن ہماری جان بخشی کی ضمانت دو ،ان چھے مہینوں کے محاصرے میں شہر کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ لوگوں نے ایک وقت کھانا شروع کردیا تھا اور پانی کی بھی قلت پیدا ہوگئی تھی ،تجارت پیشہ لوگوں کو تو بہت ہی نقصان ہو رہا تھا ،فوج بھی تنگ آ چکی تھی، ان دو آدمیوں کے بیان کے مطابق آدھی فوج جو باہر آکر لڑتی رہی تھی ماری جا چکی ہے، مسلمانوں کے پھینکے ہوئے پیغامات جو تیرا کے ذریعے اندر پہنچائے گئے تھے شہریوں کے ہاتھ لگ گئے تھے، ان سے انہیں یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ مسلمان انہیں پورے حقوق دیں گے۔
شہر کے جو معزز افراد فوجیوں سے ملے تھے انھیں فوجیوں نے بتایا کہ وہ خود ہتھیار ڈالنا مناسب نہیں سمجھتے، انھوں نے اس وفد کو رازداری سے یہ طریقہ بتایا کہ وہ ایک دو دنوں میں جربطری دروازے سے باہر نکلیں گے اور مسلمان پر حملہ کریں گے، ہم بھاگ کر اندر آ جائیں گے اور یہ دروازہ کھلا چھوڑ دیں گے۔
محمد بن قاسم نے شہریوں کے ان نمائندوں کو یقین دلایا کہ ان کی شرائط پوری کی جائیں گی، وہ دونوں رات کے اندھیرے میں گئے اور فوجیوں نے ان کے لئے دروازہ کھول دیا، دو تین دنوں بعد جربطری دروازہ کھلا محمد بن قاسم اسی کا منتظر تھا اندر سے کچھ نفری نکلی، مسلمانوں کا ایک دستہ تیار تھا محمد بن قاسم کے اشارے پر اس دستے نے ہندو فوجیوں پر حملہ کیا وہ بھاگ کر اندر چلے گئے اور دروازہ کھلا رہنے دیا ،محمد بن قاسم کا یہ دستہ قلعے میں داخل ہو گیا اور اس کے پیچھے مجاہدین کا تمام تر لشکر اس دروازے میں داخل ہو گیا، قلعے میں جو فوج تھی وہ دوسرے دروازے سے نکل بھاگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
برہمن آباد محمد بن قاسم کی فتوحات کا ایک اور سنگ میل تھا، مجاہدین نے قلعے پر اسلامی پرچم چڑھاکر برہمن آباد کو اسلام کا ایک اور روشنی کا مینار بنا دیا۔
برہمن آباد کا قلعہ جو ایک قلعہ بند شہر تھا تکبیر اور رسالت کے نعروں سے لرز رہا تھا، شہر میں بھگدڑ بپا ہوگئی تھی، شہر کے لوگ اس ڈر سے بھاگنے اور چھپنے کی کوشش کر رہے تھے کہ فاتح فوج ان کے گھروں پر ٹوٹ پڑے گی اور کچھ بھی نہیں چھوڑے گی، لوگ اپنی جوان لڑکیوں اور بچوں کو چھپاتے پھر رہے تھے ،بعض نے اپنی لڑکیوں کو مردانہ لباس پہنا دیے تھے، بہت سے لوگ بڑے مندر میں جا چھپے تھے۔
اے لوگو !،،،،،مندر میں پناہ لینے والے ہجوم سے بڑے پنڈت نے کہا۔۔۔ مت ڈرو،،، مت بھاگو ،،،ہم نے تمہارے لئے امن و امان کی ضمانت لے لی ہے، مسلمانوں کے لیے شہر کے دروازے ہم نے خود کھلوائے ہیں، تم پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا، جاؤ گھروں کے دروازے کھلے رکھو، تمہاری دہلیزوں پر کسی مسلمان فوجی کا قدم نہیں پڑے گا۔
ادھر شہر میں محمد بن قاسم کا یہ حکم بلند آواز سے مجاہدین تک پہنچایا جا رہا تھا کہ سوائے ان افراد کے جو ابھی تک لڑنے پر آمادہ ہوں، کسی شہری، فوجی، مرد، عورت اور بچے پہ ہاتھ نہ اٹھایا جائے، کسی کے گھر میں جھانکنے سے گریز کیا جائے۔
یہ اعلان عربی اور سندھی زبانوں میں دہرائے جارہے تھے، سندھی زبان میں اس لئے کے موکو اپنی فوج کے ساتھ محمد بن قاسم کے ساتھ تھا ،اور محمد بن قاسم کی فوج میں نومسلم سندھی بھی تھے جو ابھی عربی زبان نہیں سمجھتے تھے۔
محمد بن قاسم نے دوسرا حکم یہ دیا کہ کسی فوجی کو نہ بھاگنے دیا جائے، اس نے اپنے سالاروں سے کہا تھا کہ ایک جگہ سے بھاگی ہوئی فوج دوسری جگہ جاکر وہاں کی فوج کے ساتھ جا ملتی ہے۔
ابن قاسم !،،،،شعبان ثقفی نے مسکرا کر کہا۔۔۔ میں نے کچھ اور دیکھا ہے اور جو میں دیکھتا ہوں وہ کوئی اور نہیں دے سکتا، ایک جگہ سے بھاگی ہوئی فوج دوسری جگہ کی فوج کو اتنا ڈراتی ہے کہ اس کا لڑنے کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے ،بھاگنے والوں کو بھاگ جانے دیں اور جنہیں بھاگنے سے روکنا ہے وہ میری نظروں میں ہیں بلکہ میرے جال میں ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایسی ہی بھگدڑ اور افراتفری اس محل میں بھی بپا ہو گئی تھی جس میں راجہ داہر آ کر ٹھہرا کرتا تھا، اس کے بیٹے یہاں ٹھہرتے تھے اور کبھی کبھی اس کی کوئی رانی کچھ دنوں کے لئے یہاں آیا کرتی تھی، محل میں اطلاع پہنچی کے عرب کی فوج قلعے میں داخل ہو گئی ہے تو کسی نے یقین نہ کیا۔
ہو نہیں سکتا ۔۔۔داہر کے ایک وزیر نے غصے سے کہا ۔۔۔چھے چاند ڈوب چکے ہیں مسلمانوں کو شہر کی دیوار کے قریب آنے کی جرات نہیں ہوئی، تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔
یہ راجہ داہر کا وہی وزیر تھا جس کا نام سیاکرتھا ،اور جو برہمن آباد کے محاصرے سے قبل محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کرچکا تھا ،محمد بن قاسم نے پہلے تو اسے اپنے ساتھ رکھا پھر سیاکر کی درخواست پر اسے برہمن آباد بھیجوادیا ،وہ برہمن آباد کی فتح کے بعد علی الاعلان اطاعت قبول کرنا چاہتا تھا۔
مہاراج !،،،،،ایک اور آدمی نے آ کر اطلاع دی۔۔۔ مسلمان قلعے میں آگئے ہیں، رانی کو یہاں سے نکال دیں۔
رانی سو رہی ہے ،،،،سیاکرنے کہا۔۔۔ جب تک میں مسلمانوں کو نہ دیکھ لوں رانی کو نہ جگانا۔
یہ راجہ داہر کی رانی لاڈلی تھی، مورخوں نے اس کا نام صرف لاڈی لکھا ہے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ لاڈی جو ابھی جوانی کی عمر میں بھی تھی راجہ داہر کی چہیتی رانی تھی، وہ راجہ کے امور اور مسائل میں عملی طور پر دلچسپی لیتی تھی، اس کی زیادہ تر دلچسپی فوج کے ساتھ تھی ،سندھ کی فوج کو ہرقلعے اور ہر میدان میں شکست ہوئی اور یہاں کے قلعہ بند شہر اور قصبے پکے ہوئے پھل کی طرح ایک ایک کر کر محمد بن قاسم کی جھولی میں گرگئے، تو رانی لاڈلی ایک روز راجہ داہر کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔
کیوں لاڈی !،،،،،راجہ داہر نے اسے پوچھا تھا۔۔۔ آج تمہارے چہرے پر ہلکے ہلکے بادلوں کے سائے سے کیوں نظر آ رہے ہیں ۔
میرے چہرے پر نہیں مہاراج!،،،، لاڈی نے جواب دیا تھا ۔۔۔سارے سندھ پر بڑے گہرے بادلوں کے سائے پھیلتے جارہے ہیں، یہ عرب سے اٹھی ہوئی سیاہ گھٹائیں ہیں جن کے سائے مہران کی لہروں سے ادھر آ گئے ہیں، اور مہاراج کی غیرت کو للکار رہے ہیں۔
کیا ہم مر گئے ہیں رانی!،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہم نے انہیں خود ادھر آنے دیا ہے،،،، راجہ داہر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
مہاراج !،،،،،رانی لاڈی نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔۔۔ آج سے نہ میں آپ کی رانی ہوں نہ آپ میرے راجہ ہیں، اگر آپ کے دل میں میرا پیار ہے تو یہ پیار سندھ کی دھرتی کو دے دیں، اگر آپ کو اس دھرتی کی بجائے میرے ساتھ پیار ہے تو محمد بن قاسم کا سر لے آئیں یا اپنا سر کٹوا دیں، میں اب محمد بن قاسم کا یا آپ کا کٹا ہوا سر دیکھنا چاہتی ہوں، مسلمانوں کے قدم راوڑ سے آگے نہ بڑھیں، ان عربوں نے مہران کے پانی کو ناپاک کر دیا ہے،،،،،، آپ کا ہاتھ صرف اس روز میرے جسم کو چھو سکے گا جس روز محمد بن قاسم کا سر میرے سامنے زمین پر پڑا ہو گا، اور اس کی فوج جھاڑو کے بکھرے ہوئے تنکوں کی طرح مہران میں سمندر کی طرف بہی جا رہی ہو گی۔
داہر کوئی بزدل راجہ نہیں تھا کہ اسے بھڑکانے اور مشتعل کرنے کی ضرورت پڑتی، وہ اپنی رانی کے جذبے کو سمجھتا تھا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
ایسے ہی ہو گا اس نے کہا،،،، ایسے ہی ہوگا،،، ہمارے جسم پر پہلا حق سندھ کا ہے تمہارا نہیں، تم ٹھیک کہتی ہو میں تمہارے پاس محمد بن قاسم کا سر لے آؤنگا، یا ہماری لاش آئے گی، جس کے ساتھ سر نہیں ہوگا۔
پھر ایسے ہی ہوا رانی لاڈلی نے بڑے جوش اور جذبے اور بڑے پیار سے داہر کو میدان جنگ کی طرف رخصت کیا تھا، داہر کے ہاتھی کی سونڈ کو اسنے چوما تھا ،وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنے مہاراج اور مہاراج کے دیوہیکل ہاتھی کو جو سفید ہاتھی کے نام سے مشہور تھا آخری بار زندہ دیکھ رہی ہے، لاڈی کو محمد بن قاسم کا سر تو نہ ملا اپنے مہاراج کی لاش ملی جس کے ساتھ مہاراج کا سر نہیں تھا ،اس وقت رانی لاڈی برہمن آباد میں تھی۔
راوڑ کے میدان سے بھاگے ہوئے فوجی جن کی تعداد بہت تھوڑی تھی برہمن آباد پہنچ رہے تھے، لاڈی نے ان سب کو اپنے سامنے کھڑا کرایا پھر حکم دیا کہ برہمن آباد کی تمام فوج اس کے سامنے لائی جائے۔
کیا تم زندہ رہنے کے قابل رہ گئے ہو؟،،،، رانی لاڈی نے اپنی فوج سے کہا گھوڑے پر سوار تھی۔۔۔ کیا تم اپنی بیویوں کا سامنا کر سکو گے، تم سے زیادہ ناپاک اور کون ہوگا جن کی دھرتی پر دوسرے ملک سے آئی ہوئی تھوڑی سی فوج دندناتی پھر رہی ہے، تمہارے مہاراجہ نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کا سر لائیں گے یا اپنا سر کٹوا دیں گے، مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ مہاراج کی لاش مل گئی ہے لیکن سر کے بغیر ہے، تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تمہارے جسموں کے ساتھ تمہارے سر موجود ہیں،،،،،،، تم گھروں میں بیٹھ جاؤ اب ہم لڑیں گی ،میں عورتوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑاؤنگی، اگر ہم ہار گئے تو مسلمان ہمیں اپنے ساتھ لے جائیں گے، ہم خوش ہونگے کہ ایک بہادر قوم کی لونڈیاں بن گئی ہیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ لاڈی کی تقریر اس قدر اشتعال انگیز تھی کہ اس کی فوج نے جوش و خروش سے نعرے لگانے شروع کر دیے، گھوڑے بھی جیسے بے چینی سے کھر مارنے لگے تھے ،لاڈی نے اس فوج میں سے کچھ عہدیدار ،ٹھاکر اور سپاہی چنے، کسی بھی تاریخ میں ان منتخب افراد کی صحیح تعداد نہیں ملتی ایک اشارہ ملتا ہے کہ یہ تعداد کم از کم ڈیڑھ ہزار اور زیادہ سے زیادہ دو ہزار تھی۔ اور یہ اس فوج کی کریم تھی یا جیسے دودھ سے بالائی اتاری گئی ہو، لاڈی نے اس دستے کو اپنی کمان میں لے لیا اور اس کی ٹریننگ شروع کردی۔
ٹریننگ کے دو پہلو تھے ایک جسمانی دوسرا جذباتی ،جسمانی طور پر تو یہ سپاہی وغیرہ تربیت یافتہ ہی تھے، اور انہیں لڑائی کا تجربہ بھی تھا ،لیکن جذباتی لحاظ سے انہیں وہ اس قدر مشتعل کرتی تھی کہ وہ راوڑ جاکر مسلمانوں پر حملہ کر دینے کو بے تاب ہونے لگے تھے ،ان کی تنخواہیں دوسری فوج کی نسبت سہ گنا تھیں، اور انہیں ایسی مراعات دی گئی تھی جو دوسری فوج کو کبھی نہیں دی گئی تھی، پھر اس دستے کے لیے نقد انعام مقرر کیا گیا جو انہیں مسلمانوں کو شکست دینے کے بعد ملنا تھا، نقد انعام کے علاوہ وہ ایک انعام یہ بھی مقرر کیا گیا تھا کہ فتح پر ہر فرد کو ایک ایک جوان لڑکی دی جائے گی۔
محمد بن قاسم نے جب برہمن آباد کو محاصرے میں لیا تھا تو قلعے کے اندر سے فوج کے دو تین دستے باہر آ کر مسلمانوں پر حملے کرتے اور واپس قلعے میں چلے جاتے تھے یہ حملے زیادہ تر لاڈی کا یہ دستہ کرتا تھا ،محاصرے کے آخری دو مہینوں میں رانی لاڈی نے اس دستے کو اپنے پاس رکھ لیا تھا، اسے امید تھی کہ مسلمان محاصرہ اٹھا کر چلے جائیں گے اور اس وقت ان پر یہ دستہ حملہ کرے گا، رانی لاڈی نے اس دستے کو باؤلا اور خونخوار بنا دیا تھا۔
یہ دستہ محل کے قریب ہی کہیں رکھا گیا تھا۔ محمد بن قاسم کی فوج اس طرح شہر میں داخل ہوگئی کہ اس دستے کو خبر ہی نہ ہوئی، لیکن محمد بن قاسم کے جاسوس کے سربراہ شعبان ثقفی کو قلعے میں داخل ہوتے ہی پتہ چل گیا تھا کہ یہاں جانبازوں کا ایک دستہ بھی ہے، برہمن آباد میں شعبان ثقفی کے جاسوس بھی موجود تھے جو سندھ کے باشندے تھے، جب مسلمان قلعے میں داخل ہوئے تو ان جاسوسوں نے شعبان ثقفی کو قلعے کے اندر کی تمام رپورٹ دی تھی ،ان میں چند ایک بڑے قیمتی راز تھے اور اس دستے کے متعلق بھی جاسوسوں نے تفصیلی رپورٹ دی تھی، شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو بتا کر ایک دستہ ساتھ لیا اور اس دستے کو گھیرے میں لے لیا، اتنی محنت سے تیار کیا ہوا جانبازوں کا دستہ لڑنے کے لیے تیار بھی نہیں ہوا تھا کہ پکڑا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس دستے کے پکڑے جانے سے محل والوں کو یقین ہوا کہ محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ شہر میں داخل ہو گیا ہے، اس وقت وزیر سیاکر نے رانی لاڈی کو جگایا دن کا وقت تھا اور وہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔
رانی !،،،،،سیاکرنے اسے کہا ۔۔۔عرب کی فوج شہر میں آ گئی ہے۔
تم مسلمانوں سے اتنے خوفزدہ ہو کہ وہ محاصرے سے تھکے ہارے بیٹھے ہیں ،اور تمہیں شہر کے اندر نظر آ رہے ہیں ۔۔۔رانی لاڈی نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔کیا میں تم جیسے دانشمند سے یہ توقع رکھوں؟
رانی !،،،،،،سیاکر نے رعب دار لہجے میں کہا۔۔۔ اٹھو اور یہاں سے نکلو، تمہارا حکم مجھ پر چل سکتا ہے مسلمانوں پر نہیں۔
میرے شیر کہاں ہیں؟،،،،، رانی لاڈی بڑی تیزی سے اٹھی اور بولی۔۔۔ انہیں کہو وہ وقت آ گیا ہے جس کے لیے میں نے،،،،،
تمہارے شیر اب مسلمانوں کے قیدی ہیں۔۔۔سیاکر نے کہا ۔۔۔ کیا تم فرار ہونا چاہتی ہو یا اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کروں گی۔
مجھے یہاں سے نکالو ۔۔۔رانی لاڈی نے کہا۔۔۔ میں مردانہ لباس پہن لیتی ہوں۔
اس نے اپنی کنیزوں کو بلا کر کہا ۔۔۔مہاراج داہر کے کپڑے اور تلوار نکال لو اور مجھے پہناؤ۔
تھوڑے سے وقت میں وہ راجہ داہر کے لباس میں ملبوس ہو گئی اور باہر کو چل پڑی، لیکن محل کے احاطے سے نکلی بھی نہیں تھی کہ پندرہ سولہ مسلمان سوار محل کے احاطے میں داخل ہوئے، ان کے آگے آگے شعبان ثقفی تھا اس نے لاڈی کو روک لیا۔
میں تمہاری اطاعت قبول کرچکا ہوں۔۔۔ رانی لاڈی نے اپنی آواز میں مردوں جیسا بھاری پن پیدا کرتے ہوئے کہا۔۔۔ میں لڑنے والوں میں سے نہیں۔
اے خاتون !،،،،،شعبان ثقفی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اگر بھیڑ شیر بن سکتی ہے تو تم یقیناً آدمی ہو، لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ سندھ اور ہند نے ابھی تک ایسا خوبصورت آدمی پیدا نہیں کیا جس کا چہرہ عورتوں جیسا ہو ،اپنے ہاتھ سے پگڑی اتار دو اور بتاؤ تم کون ہو ،اس نے اپنے سواروں سے کہا محل میں جا کر ہر اس مرد اور عورت، آقا اور غلام کو پکڑ لو جو وہاں موجود ہے۔
سواروں کے جانے کے بعد شعبان ثقفی نے گھوڑا لاڈی کے گھوڑے کے قریب کیا اور ہاتھ لمبا کرکے لاڈی کے سر سے پگڑی اتار دی، اس کے لمبے بال اس کے کندھوں اور پیٹھ پر بکھر گئے۔
کیا تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ ہم عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے؟،،،،، شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ تم کوئی معمولی عورت نہیں ہو راجہ داہر کے ساتھ تمہارا کیا رشتہ ہے؟
میں مہاراج داہر کی بیوی ہوں۔۔۔ لارڈی نے کہا ۔۔۔رانی لاڈی۔
وہ دستہ کہاں ہے جسے تم نے ہمارے مقابلے کے لیے تیار کیا تھا ؟،،،،،شعبان ثقفی نے پوچھا ۔
میں نے سنا ہے کہ اسے تمہارے مقابلے میں آنے کی مہلت ہی نہیں ملی۔۔۔ رانی لاڈی نے کہا ۔۔۔اگر اسے مہلت مل جاتی تو مجھے مردانہ بہروپ نہ دھارنا پڑتا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کچھ دیر بعد رانی لاڈی محمد بن قاسم کے سامنے کھڑی تھی۔
اسے محل میں لے جاؤ۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اسے اپنے کپڑے پہننے دو اور اسے عزت اور احترام سے وہیں رکھو۔
اسے اس کے محل میں پہنچا دیا گیا اور راجہ داہر کے وزیر سیاکر کو محمد بن قاسم کے سامنے لے جایا گیا اور اسے بتایا گیا کہ سیاکر راجہ داہر کا منظور نظر ہے اور دانشمند وزیر ہے، محمد بن قاسم نے اسے پہچان لیا کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی مل چکا تھا۔
میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارے شہر کے لوگوں کے ساتھ آپ کی فوج کیا سلوک کر رہی ہے؟،،،،،، سیاکرنے محمد بن قاسم سے پوچھا ۔
وہی سلوک جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔کسی کو جنگی قیدی یا غلام نہیں بنایا جائے گا، تمہاری یہ حیثیت برقرار رہے گی، تمہاری رانی کو میں نے اس کے محل میں بھیج دیا ہے ۔
تیسرے یا چوتھے دن محمد بن قاسم کو اطلاع ملی کہ کم و بیش ایک ہزار آدمی جن کے سر بھی منڈے ہو ئے ہیں آبرو اور مونچھیں بھی استرے سے صاف کی ہوئی ہیں ،ملنے آئے ہیں۔
محمد بن قاسم باہر نکلا ان ایک ہزار آدمیوں کو دیکھا وہ ہجوم کی صورت میں نہیں بلکہ ایک ترتیب میں کھڑے تھے، اور سب کا حلیہ اور لباس ایک جیسا تھا ۔
یہ کون لوگ ہیں ؟،،،،،،محمد بن قاسم نے سندھی ترجمان سے کہا۔۔۔ ان سے پوچھو یہ یہاں کی فوج کے کوئی خاص دستے معلوم ہوتے ہیں۔
ترجمان نے ان سے پوچھا۔
ہمارا تعلق کسی فوج کے ساتھ نہیں۔۔۔ ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر کہا ۔۔۔ہم برہمن ہیں، ہمارے بہت سے ساتھیوں نے خودکشی کرلی ہے ،ہم آپ کو ان کی لاشیں دکھا سکتے ہیں۔
تم لوگوں نے خودکشی کیوں کی؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔۔کیا تمہارا مذہب خودکشی کی اجازت دیتا ہے۔
نہیں!،،،،، ان برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ جنہوں نے خود کشی کی ہے انہوں نے راجہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کیا ہے، لیکن ہم اس کے وفادار ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں اونچی ذات دی، اور ہم ان لوگوں کے وفادار ہیں جو ہمیں اونچی ذات کا سمجھ کر ہمیں بڑا اونچا درجہ دیتے ہیں۔
کیا تم لوگ مجھ سے اپنا اونچا درجہ تسلیم کروانے آئے ہو؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
ہم یہ پوچھنے آئے ہیں کہ ہمارے متعلق یعنی برہمن ذات کے متعلق آپ کا فیصلہ کیا ہوگا؟۔۔۔ ان کے نمائندے نے پوچھا۔
اگر تم لڑنے والوں میں سے نہیں اور لڑنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے تو ہم تمہیں امن و امان میں رکھیں گے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ لیکن ہم تمھیں دوسرے انسانوں سے برتر تسلیم نہیں کریں گے ،ہمارا مذہب امیر کو غریب پر کبیر کو صغیر پر بالادستی کی اجازت نہیں دیتا ،میں اس فوج کا سپہ سالار ہو اور تمہارے ملک کا امیر مقرر کیا گیا ہوں، لیکن میں اپنے اللہ کا ویسا ہی سپاہی ہوں جیسے میری فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہے، مجھے امامت کے فرائض بھی سونپے گئے ہیں یہ فرائض ایسے ہی ہیں جیسے تمہارے سب سے بڑے پنڈت یا پروہت کے ہوتے ہیں، لیکن اللہ کی نگاہ میں میرا درجہ اور میرا ثواب اتنا ہی ہے جتنا میرے پیچھے نماز پڑھنے والوں کا ہے، مجھے کسی بھی مقتدی پر ذرا سی بھی برتری حاصل نہیں،،،،،، ہم تمہیں یہاں کے لوگوں کے برابر رکھیں گے اور انہیں جیسے حقوق دیں گے، اور اگر تم کسی اور طریقے سے لوگوں پر اپنی برتری جتاؤگے تو یہ ایسا جرم ہوگا جسے ہمارے دین کا ضابطہ معاف نہیں کرے گا۔
ہم آپ کے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔۔۔ برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ اے سالارِ اسلام!،،، ہمیں یہ بتا دیں کہ ہمیں اپنے مندر میں عبادت کی آزادی حاصل ہوگی یا نہیں ،یا آپ تلوار کی نوک پر ہمیں اپنا مذہب قبول کرنے پر آمادہ کریں گے۔
میں یہ حکم جاری کرچکا ہوں کہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے، نہ کسی طریقے سے بے حرمتی کی جائے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم کسی غیر مسلم کو قبول اسلام پر مجبور نہیں کریں گے، میں تمہیں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے مذہب کی تعلیمات کو غور سے دیکھنا اور یہ بھی دیکھنا کہ ہم لوگ ان تعلیمات کے مطابق عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
ہمارا راجہ مارا گیا ہے ۔۔۔برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ ہم اس کے وفادار تھے، اس کے ماتم میں ہم نے اپنے سر منڈوادیئے ہیں، یہ ہمارے یہاں کا رواج ہے کہ باپ مر جاتا ہے تو سب سے بڑا بیٹا استرے سے سر منڈوا دیتا ہے، اب آپ ہمارے راجہ ہیں ہم آپ کے ساتھ ویسے ہی وفادار رہیں گے جیسے اپنے راجہ کے ساتھ تھے۔
مورخوں نے محمد بن قاسم اور ان پنڈتوں کی اس گفتگو کے بعد لکھا ہے کہ محمد بن قاسم راجہ داہر کے خاندان کے افراد کے متعلق صحیح معلومات لینا چاہتا تھا ،اس نے ان برہمنوں سے کہا کہ وہ اس کے وفادار ہیں تو یہ بتائیں کہ راجہ داہر کے خاندان کے وہ افراد کہاں کہاں ہیں جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
یہاں صرف رانی لاڈی ہے۔۔۔ بڑے برہمن نے کہا ۔۔۔اسے آپ اپنے پاس لے آئے ہیں ،اس نے فوج میں سے بہت سے آدمیوں کو نکال کر اپنے ساتھ رکھ لیا تھا ،یہ بڑے وحشی اور خونخوار سپاہی تھے، آپ نے انھیں بھی پکڑ لیا ہے، رانی لاڈی آپ کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی تھی ،اسے آپ زہر سے بھری ہوئی ایک ناگن سمجھیں، آپ نے اس کا زہر مار ڈالا ہے۔
ہم اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے ایک اور بات آپ کو بتا دیتے ہیں ۔۔۔ایک اور برہمن نے کہا۔۔۔ رانی لاڈی جوان عورت ہے، آپ نے اس کا حسن دیکھ لیا ہے ، کی آواز میں میوسیقی کا ترنم ہے، اس کے جسم میں طلسماتی سی کشش ہے، اور آپ نوجوان ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ طلسم آپ کی جوانی کو اندھا کر دے۔ محمد بن قاسم نے کچھ بھی نہ کہا اس کے چہرے پر جو تاثر پہلے تھا وہی رہا۔
دوسری عورت جو آپ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی تھی وہ مائیں رانی ہے۔۔۔ برہمنوں کے نمائندے نے کہا۔۔۔ آپ کو شاید معلوم ہوگا کہ مہاراج داہر کے ساتھ اس عورت کے دو رشتے تھے، وہ مہاراج کی سگی بہن تھی اور اس کی بیوی بھی تھی، ہم پہلے ہی ڈرتے تھے کہ ہم پر بھگوان کا قہر ٹوٹے گا، یہ کلجگ کی نشانی ہے کہ بھائی نے اپنی بہن کو بیوی بنا لیا ۔
مائیں رانی کہاں ہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
ہم کوئی پکی بات نہیں بتا سکیں گے۔۔۔ برہمن نے کہا۔۔۔ سنا ہے اس نے اپنے آپ کو ستی کر لیا ہے ۔
کہاں ؟
یہیں !،،،،،برہمن نے جواب دیا ۔۔۔اسی شہر میں آپ کو وہ جگہ تلاش کرنی پڑے گی، ہم نے سنا ہے کہ مائیں رانی نے ایک غیر آباد مقام پر لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ لگائیں اور خاموشی سے ان لکڑیوں پر بیٹھ گئی ۔
محمد بن قاسم نے ان برہمنوں کو رخصت کر دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ان کے جانے کے بعد محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کو بلایا اور اسے مائیں ایرانی کے متعلق برہمنوں کی بات سنا کر کہا کہ دیکھا جائے کہ برہمنوں کی یہ بات کہاں تک صحیح ہے۔
برہمن وہاں سے چل پڑے تھے ،وہ خوش تھے کہ ایک تو ان کی جان بخشی ہوئی اور دوسرے یہ کہ انہیں مذہبی آزادی مل گئی ہے۔
شعبان ثقفی نے انہیں روک لیا اور ان سے پوچھا کہ انہوں نے کس سے سنا ہے کہ مائیں رانی نے خودسوزی کی ہے ۔
برہمنوں نے اسے بتایا ،اور اس غیر آباد مکان کی نشاندہی بھی کی جس میں مائیں رانی نے اپنے آپ کو نذر آتش کیا تھا۔
شعبان ثقفی اپنے دو تین آدمیوں کے ساتھ اس طرف چلا گیا، ویران مکان کے علاقے میں جو آباد مکان تھے ان کے مکینوں سے پوچھا تو اسے تین آدمیوں سے پتہ چلا کہ انہوں نے ایک رات مندر کے تین پنڈتوں کو فلاں طرف جاتے دیکھا تھا ،ان میں سے ایک نے بتایا کہ بہت دیر بعد اس نے تین پنڈتوں میں سے صرف دو کو واپس جاتے دیکھا تھا، شعبان ثقفی نے اس آدمی کو ساتھ لیا اور یہ آدمی اسے ایک مکان تک لے گیا جو آبادی سے الگ تھلگ تھا، اس کے اردگرد گھنے درخت تھے اور ایک طرف بلند ٹیلہ تھا ،اس کے دو دروازے تھے دونوں بند تھے ،دونوں کے کواڑوں کو ڈھکیلا تو یہ اندر سے بند تھے، دستک دی تو اندر سے کوئی جواب نہ ملا۔
تم اندر والوں کو پکارو!،،،،،، شعبان ثقفی نے اس آدمی سے کہا۔۔۔ جو اسے مکان دکھانے آیا تھا ۔۔۔انہیں کہو کہ تم پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور کسی قسم کی سختی نہیں کی جائے گی۔
یہاں کوئی نہیں رہتا ۔۔۔۔اس آدمی نے کہا۔۔۔ اگر کوئی اندر ہے تو وہ اس مکان کا مکین نہیں ہوسکتا، ہو سکتا ہے کوئی یہاں آکر چھپ گیا ہو آپ دروازہ توڑ دیں۔
شعبان ثقفی نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا تو انہوں نے ایک دروازے کے کواڑ توڑ دیے، پھر شعبان ثقفی اور اس کے آدمی تلوار نکال کر بڑی تیزی سے اندر گئے، مکان بڑا ہی ہیبت ناک تھا ،اس کا صحن نہیں تھا کمرے ہی کمرے تھے، یا تنگ سی راہداریاں تھیں، جلتے ہوئے یا جلے ہوئے گوشت کی اس قدر زیادہ بدبو تھی کہ سب نے منہ اور ناک پر کپڑے رکھ لئے، سب کی آنکھوں میں بھی چبھن ہونے لگی، جیسے دھوئیں سے ہوا کرتی ہے۔ راہداریوں میں اندھیرا بھی تھا سرنگ جیسی ایک راہداری کے اگلے سرے سے دن کی روشنی آرہی تھی، وہاں تک پہنچے تو چھوٹا سا ایک صحن آ گیا، جو اردگرد دیواروں کی وجہ سے چوکور کنواں لگتا تھا۔
وہاں جلی ہوئی لکڑیوں کا انبار تھا ،ان کی راکھ پر تین جلی ہوئی لاشیں پڑی تھیں، جو جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو گئی تھی، چہرے نہیں پہچانے جاتے تھے لاشیں پھولی ہوئی تھیں چہرے بھی اس طرح کھلے ہوئے تھے کی آنکھیں ، ناک اور ہونٹ غائب ہوگئے تھے۔
کسی کمرے یا رہداری میں دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی، ان کے پیچھے آدمی دوڑتے گئے تو دو آدمی باہر کے دروازے میں پکڑے گئے، وہ اندر سے بھاگ کر جارہے تھے ان کی تلاشی لی گئی تو ان سے پگھلے ہوئے سونے کے کچھ ٹکڑے برآمد ہوئے ،انہوں نے خوف کے مارے بتا دیا کہ وہ مائیں رانی کے ملازم تھے، انہیں معلوم تھا کہ مائیں رانی، ایک پنڈت اور ایک نوکرانی کے ساتھ ستی ہو رہی ہے، یہ دونوں جانتے تھے کی مائیں رانی نے زیورات پہن رکھے تھے، چنانچہ وہ سونا اٹھانے آئے تھے۔
شعبان ثقفی اور محمد بن قاسم کو ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ کون زندہ جل گیا اور اسے کس نے جلایا ،شعبان ثقفی صرف یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ مائیں رانی زندہ جل گئی ہے ،وہ مندر میں چلا گیا اور اسے پتا چل گیا کہ اس رات کون سے دو پنڈت اس مکان سے واپس آئے تھے، ان دونوں کو شعبان ثقفی نے الگ کر کے پوچھا ان میں سے ایک خاصا بوڑھا تھا۔
وہ مائیں رانی ہی تھی۔۔۔ بوڑھے پنڈت نے کہا۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو ایک پنڈت اور اپنی ایک نوکرانی کے ساتھ جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتی تھی زندہ جلا لیا۔
ہم جانتے ہیں کہ ستی تمہاری رسم ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ لیکن رانی لاڈی نے اپنے آپ کو کیوں نہیں جلایا؟
مائیں رانی بھی اپنی جان لینے والی عورت نہیں تھی۔۔۔ پنڈت نے جواب دیا۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اس مکان میں اپنی نوکرانی کے ساتھ چھپنے کے لئے آئی تھی، اسے بھاگ نکلنے کا موقع نہیں ملا تھا ،اس نے سوچا تھا کہ جب شہر میں امن و امان ہو جائے گا تو وہ بھیس بدل کر نکل جائے گی اور اروڑ پہنچ کر فوج کو آپ کے مقابلے کے لئے تیار کرے گی، اس نے کہا تھا کہ وہ خود میدان جنگ میں اترے گی اور اپنے بھائی کے خون کا انتقام لے گی، لیکن جس مکان میں اس نے پناہ لی وہ مکان انسانوں کے رہنے کے قابل نہ تھا۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>