⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴اُنتیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دشمن کے ان آدمیوں نے موت کے خوف سے اپنے قلعے کے اندر کی حالات بتا دی ، سنگ باری نے ایک نقصان تو یہ کیا تھا کہ چند ایک مکانوں کی چھتیں بیٹھ گئی تھیں کچھ پتھر فوجی اصطبل پر گرے اور سات آٹھ گھوڑے مارے گئے، لیکن مسلمانوں کو جو فائدہ حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس قلعہ بند شہر کی آبادی پر خوف و ہراس طاری ہو گیا اور لوگوں نے رات گھروں سے باہر گزاری، لوگوں کا حوصلہ ٹوٹ چکا تھا۔
ایسے ہی اثرات آگ والے تیروں کے دیکھنے میں آئے، کچھ لوگوں کے گھروں کو آگ لگی اور تمام آبادی چیخنے چلانے لگی زیادہ تر لوگ اس آگ کو پراسرار کہتے تھے، بعض نے یہ کہا تھا کہ مسلمانوں نے کالے جادو سے گھروں کو آگ لگا دی ہے، فوجیوں پر بھی سنگ باری اور آگ کا خوف سوار ہو گیا۔
شعبان ثقفی نے ان سے پوچھا کہ فوج کی رسد اور سامان کہاں رکھا ہے، انہوں نے کچھ فوجی ٹھکانے بتائے اور ہر ایک کا محل وقوع بھی بتایا، دیوار سے ان کا فاصلہ بھی بتایا۔
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ آج رات سنگ باری اور نفت اندازی کہاں کی جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہو گیا پھر شام گہری ہو گئی اور نفت انداز اور منجنیقیں آگے جانے لگیں ،انہیں ہندو قیدیوں کی نشاندہی کے مطابق قلعے کے باہر موزوں جگہوں اور فاصلوں پر لے جایا گیا ،سنگ باری اور آتشبازی آدھی رات گزرنے کے کچھ بعد شروع کرنی تھی، اس وقت لوگوں پر نیند کا گہرا اور مضبوط غلبہ ہوتا ہے، لوگ جاگ اٹھے تو دماغی اور جسمانی لحاظ سے مستعد ہوتے وقت لگتا ہے، اور ایسی گھبراہٹ غالب آجاتی ہے کہ انسان کچھ سوچنے کے قابل نہیں رہتے۔
جب رات آدھی گزر گئی تو تمام منجنیقوں سے ایک ہی بار پتھر اڑے نفت اندازوں نے تیروں کو آگ لگا لی تھی، کمانوں نے چھوٹے چھوٹے شعلے اگلے جو اڑتے ہوئے دیواروں سے آگے پھر نیچے چلے گئے، منجنیقوں میں پھر پتھر ڈال دیئے گئے۔
کچھ دیر بعد منجنیقوں نے ایک بار پھر پتھر اگلے رات کے سناٹے میں قلعے کے اندر پتھر گرنے کے دھماکے سنائی دیے اور شہر کے لوگوں کا شور جو پہلے ذرا کم تھا اتنا بڑھ گیا جیسے لوگ قلعے کی دیواروں پر کھڑے چیخ چلا رہے ہوں، محمد بن قاسم اندازہ کر رہا تھا کہ قلعے کے اندر کیسی افراتفری اور بھگدڑ مچی ہوئی ہوگی، شہر سے روشنی اٹھی اور اس روشنی میں دھواں اٹھتا نظر آنے لگا۔ شعلے اتنے اوپر آ گئے کہ باہر سے بھی قلعہ روشن ہوگیا ،یہ فوجی گھوڑوں کے خشک گھاس کے انبار جلے ہونگے ،،،،دیواروں پر سپاہی کھڑے اس طرح نظر آ رہے تھے جیسے سیاہ بت ہوں، جب شعلے اونچے ہوگئے تو دیوار سے سیاہی کم ہونے لگی، شاید فوجی سامان جل رہا تھا جسے بچانے اور آگ بجھانے کے لئے تمام سپاہیوں کو نیچے بلا لیا گیا تھا۔
ابن قاسم!،،،،، ایک معمر سالار نے محمد بن قاسم کے قریب آ کر کہا۔۔۔ آگ بجھانے کے لئے یہ لوگ سارا پانی خرچ کردیں گے اور انکے پاس پینے کے لیے پانی نہیں رہے گا، کل شام تک انہیں پیاس مجبور کردے گی کہ قلعے کے دروازے کھول دیں۔
پیاس مجبور کردے گی کہ قلعے کے دروازے کھول دیں۔
اس قلعے میں عقل والے سالار موجود ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہم اتنے عرصے میں دو دو قلعے سر کیے ہیں ،لیکن یہ ایک قلعہ لینا مشکل ہو رہا ہے، دیکھ لو انہوں نے کس طرح مقابلہ کیا ہے آپ سوچ رہے ہیں کہ یہاں پانی کی قلت ہے، آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہاں ریت کی قلت نہیں، اور یہ لوگ پانی پھینکنے کی بجائے ریت پھینک کر آگ بجھا رہے ہونگے۔
پھر بھی مجھے امید ہے کہ کل شام تک ہم قلعے میں داخل ہو جائیں گے۔۔۔ سالار نے کہا۔
کیا میں کل شام تک زندہ رہوں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ نہ آپ کو معلوم ہے نہ مجھے،،،،، میں آج ہی رات اور ابھی قلعے میں داخل ہونگا۔ اس نے اپنے ایک قاصد سے کہا سرنگیں کھودنے والوں سے کہو فوراً آ جائیں۔
محمد بن قاسم نے دیکھ لیا تھا کہ شہر میں افراتفری اور بھگدڑ مچی ہوئی ہے اور دیوار کے اوپر ایک بھی سپاہی نہیں رہا، سرنگ کھودنے والا جیش آگیا ،محمد بن قاسم ان کے ساتھ خود دیوار تک گیا اور دیوار کو اچھی طرح دیکھ کر ایک جگہ ہاتھ رکھا ،اندھیرے کی وجہ سے دیکھنا مشکل تھا ہاتھ سے محسوس کیا جاسکتا تھا کہ دیوار کہاں سے توڑی جاسکتی ہے ،انہیں اوپر سے دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ یہاں سے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔ اتنا شکاف کردوں کہ پیادے جھکے بغیر گزر جائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دیوار میں نقب لگنی شروع ہوگئی محمد بن قاسم نے دیوار سے دور جاکر سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ انہیں منتخب جانبازوں کی ضرورت ہے جو دیوار کے شگاف سے سب سے پہلے اندر جائیں گے، شہر پر سنگ باری ہوتی رہے اور آگ کے تیر برستے رہیں، شہر میں جو قیامت بپا ہو گئی تھی اس سے یہ فائدہ اٹھایا گیا کہ دیوار توڑی جانے لگی دیوار توڑنے والے اس کام کے ماہر تھے ،مہارت کے علاوہ جذبہ بھی تھا وہ بڑی تیزی سے دیوار توڑ رہے تھے۔
صبح طلوع ہو رہی تھی جب دیوار میں سرنگ کی طرح کا اتنا کشادہ شگاف ڈال دیا گیا تھا کہ دراز قد آدمی سیدھے چلتا اس میں سے گزر سکتا تھا، صرف اتنا کام رہ گیا تھا کہ دیوار کا اندر والا سرا توڑنا تھا، صبح کا اجالا ابھی دھندلا تھا جب محمد بن قاسم نے منتخب مجاہدین کو جو پہلے پہنچ گئے تھے اور حکم کے منتظر تھے، قلعے میں داخل ہونے کا حکم دیا۔
سب سے پہلے جو دو مجاہدین سرنگ میں داخل ہوئے ان میں سے ایک کا نام ہارون بن جعفر تھا جو بصرہ کا رہنے والا تھا،،،،،، دوسرے کا نام ابوالقاسم تھا جس کے متعلق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا۔
ان کے پیچھے جو جاں باز اندر گئے ان میں چند ایک مقامی سپاہی بھی تھے جو موکو کے آدمی تھے ،موکو کا ذکر پہلے آچکا ہے، اس نے محمد بن قاسم کے آگے ہتھیار ہی نہیں ڈالے تھے بلکہ خلوص دل سے اس کے ساتھ ہو گیا تھا، یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ محمد بن قاسم کے لشکر کے ساتھ موکو بھی تھا اور اس کے بہت سے آدمی بھی اس لشکر میں شامل تھے، قلعے میں داخل ہونے کے لئے ان میں سے چند ایک آدمیوں کو منتخب کیا گیا تھا۔
شہر میں آگ نے لوگوں کو ادھر ادھر دیکھنے کے قابل چھوڑا ہی نہیں تھا ،فوجی ابھی تک شہریوں کے ساتھ مل کر آگ بجھانے میں مصروف تھے لوگ اپنا سامان گھسیٹ گھسیٹ کر ادھر ادھر لے جا رہے تھے، ان پر اچانک یہ آفت ٹوٹ پڑی کہ مسلمانوں نے ان پر ہلہ بول دیا ،ان میں سے کچھ مجاہدین قریبی دروازے کی طرف دوڑ پڑے وہاں دروازے کی حفاظت کے لئے دشمن کے سپاہیوں کی تعداد اتنی تھوڑی تھی جو اتنے زیادہ مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں تھی، کیونکہ ان کے لیے یہ بالکل ہی غیر متوقع تھا کہ مسلمان اندر آ جائیں گے اس لئے مجاہدین کو دیکھتے ہی ان کے اوسان خطا ہوگئے۔
ایک دروازے کا کھل جانا ہی کافی تھا، صبح کا اجالا بکھرتے ہی دن کے وقت لڑنے والے دستے آ چکے تھے، دروازے کھلتے ہی سوار قلعے میں داخل ہوگئے، محمد بن قاسم بھی ان سواروں کے ساتھ قلعے میں چلا گیا۔
اس نے اپنے محافظوں اور قاصدوں سے کہا کہ وہ اعلان کرتے رہیں کہ کسی غیر فوجی پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا ،سوائے ان کے جو ہتھیار بند ہو کر تمہارا مقابلہ کریں ،اس اعلان میں یہ بھی شامل تھا کہ عورتوں اور بچوں کو حفاظت میں لے لیا جائے اور کوئی قیمتی چیز خواہ وہ باہر ہی پڑی ہوئی ہو نہ اٹھائی جائے،
شہر میں فوجیوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی مورخوں کی تحریروں کے مطابق دشمن کے یہ سپاہی صحیح معنوں میں لڑنے والے تھے اور وہ لڑے بھی، لیکن اس قلعہ بند شہر کے تمام دروازے کھل چکے تھے،
اور مسلمانوں کی پوری فوج اندر آ گئی تھی کچھ ہی دیر بعد اس قلعے کی سولہ ہزار فوج کی کیفیت یہ تھی کہ چند سو سپاہی چلتے پھرتے نظر آتے تھے، باقی سب مارے گئے یا شدید زخمی ہو کر مر رہے تھے اور ان کی کچھ نفری قلعے سے بھاگ گئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے یہ قلعہ تو لیا تھا لیکن اس کی اپنی اور اس کے مجاہدین کے لشکر کی حالت یہ ہوگئی تھی جیسے وہ تھک کر چور ہو چکے ہوں اور چلنے کے قابل نہ رہے ہوں، یہ محاصرہ تقریباً دو مہینے جاری رہا تھا، لیکن محمد بن قاسم اس جگہ زیادہ رکنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس سے آگے دہلیلہ کا قلعہ تھا اور اس سے آگے برہمن آباد تھا اس کا خیال یہ تھا کہ جو فوجی بہرور سے بھاگے ہیں وہ دہلیلہ کی فوج کے ساتھ شامل ہو کر زیادہ سخت مزاحمت کریں گے، اور یہ ممکن ہے کہ دہلیلہ کو ہندو بالکل خالی کر دیں اور یہ تمام فوج برہمن آباد میں اکٹھی ہو جائے ،یہ سوچ کر محمد بن قاسم نے فوری طور پر دہلیلہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا تاکہ دشمن کے سنبھلنے تک وہ وہاں پہنچ جائیں۔
جلدی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اسی روز یا اگلے روز چل پڑا تھا ،بہرور کے انتظامات میں کچھ دن لگ گئے شدید زخمیوں کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور اس طرح کئی روز بعد وہاں سے کوچ ممکن ہو سکا ،محمد بن قاسم بہرور سے نکلا ہی تھا کہ وہ دو جاسوس آ گئے جنہیں پہلے ہی وہاں بھیج دیا گیا تھا۔
دہلیلہ میں آپ کو صرف فوج ملے گی ۔۔۔ایک جاسوس نے محمد بن قاسم کو اپنی رپورٹ دیتے ہوئے کہا۔۔۔ بہرور سے جو فوجی اور شہر کے لوگ بھاگ نکلے تھے وہ دہلیلہ جا پہنچے ہیں ،انہوں نے وہاں کے لوگوں کو بتایا ہے کہ یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ زندہ جل جاؤ گے، انہوں نے انہیں وہ ساری تباہی بتائی ہے جو بہرور میں منجنیقوں اور آگ والی تیروں نے بپا کی تھی، اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ دہلیلہ میں صرف فوج رہے گی ہے، تاجر ،دکاندار، اور شہر کے دوسرے بہت سے لوگ وہاں سے بھاگ گئے ہیں۔
کیا وہ فوجی بھی وہاں ہیں جو بہرور سے بھاگے تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔کیا وہ لڑیں گے؟،، کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہیں؟
وہ تو شہر کے لوگوں سے زیادہ ڈرے ہوئے ہیں ۔۔۔جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔لیکن فوجی ہونے کی وجہ سے وہ لڑنے کے لیے رک گئے ہیں، ہمارا خیال یہ ہے کہ یہاں سے بھی وہ سب سے پہلے بھاگیں گے انہوں نے دہلیلہ کے فوجیوں کو بہرور کی حالت ایسے الفاظ میں بتائی ہے کہ ان فوجیوں پر بھی کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا ہے۔
جاسوس نے دہلیلہ کی فوج کی جو نفسیاتی حالت بیان کی تھی یہ محمد بن قاسم کے حق میں جاتی تھی۔
فوج پر جب دشمن کا خوف طاری ہوجاتا ہے تو اس کا اثر لڑنے کے جذبے اور اہلیت پر پڑتا ہے ،لیکن محمد بن قاسم نے جب دہلیلہ کو محاصرے میں لیا تو اس نے محسوس کیا کہ دشمن کی فوج اتنی خوفزدہ نہیں جتنی بتائی گئی ہے۔
دہلیلہ ہمارے حوالے کر دو ۔۔۔محمد بن قاسم نے اعلان کروایا ۔۔۔بہرور والوں کی تباہی کا حال تم سن چکے ہو،۔
تباہ ہونے والے یہاں سے چلے گئے ہیں۔۔۔ قلعے کی دیوار کے اوپر سے جواب آیا ۔۔۔یہاں صرف فوج ہے، پتھر برساؤ، آگ لگاؤ، سارا شہر جلا ڈالو ،قلعے کے دروازے نہیں کھلیں گے۔
جب ہم اپنے زور سے قلعہ لے لیں گے تو کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ محمد بن قاسم نے اعلان کرایا۔
قلعہ اسی صورت میں لو گے جب ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا۔۔۔ قلعے کی دیوار کے اوپر سے للکار سنائی دی ۔
محمد بن قاسم نے قلعے کے اردگرد گھوم کر دیوار کا جائزہ لیا اور اپنے دستوں کو بھی دیکھا کہ وہ محاصرے کی ترتیب میں ٹھیک طرح آئے ہیں یا نہیں، وہ جب قلعے کے اردگرد گھوڑا دوڑا رہا تھا تو دیوار کے اوپر سے پہلا تیر آیا جو اس تک نہ پہنچ سکا ،کیونکہ فاصلہ زیادہ تھا۔
اس کے ساتھ ہی دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ شروع ہو گیا ،یہاں بھی قلعے کی فوج نے بہرور کی فوج والا انداز اختیار کیا، اندر سے کبھی پیادہ کبھی سوار ایک دو دستے نکلتے تھے ،اور مسلمانوں پر ہلہ بولتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے۔
اس قلعے پر سنگ باری اور نفت اندازی بیکار تھی، کیوں کہ اندر مکان خالی تھے انہیں آگ لگ دی جاتی تو فوج پرواہ نہ کرتی، تاریخوں میں یہ بھی آیا ہے کہ بہرور کی تباہی کی تفصیلات سن کر دہلیلہ کے فوجی افسروں نے تمام تر فوجی سامان جو عام طور پر باہر پڑا رہتا تھا مضبوط مکانوں کے اندر رکھ دیا تھا تاکہ آگ والے تیروں سے نذر آتش ہونے سے بچ جائے۔
محمد بن قاسم نے یہاں بھی وہ تمام حربے آزمائے جو وہ بہرور میں آزما چکا تھا ،اس نے آخر یہ طریقہ آزمایا کہ دشمن کے دستے جب قلعے سے باہر حملے کرنے آئیں تو انہیں بھاگنے نہ دیا جائے اور جم کے لڑایا جائے، اس طرح یہ کامیابی ہوئی کے دشمن کا جانی نقصان ہونے لگا ،نقصان تو مجاہدین کا بھی ہوتا تھا لیکن دشمن کچھ زیادہ ہی کمزور ہوتا چلا جا رہا تھا، اس کے ساتھ محمد بن قاسم نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ منجنیقوں سے قلعے کے دروازے پر پتھر پھینکنے کا حکم دیا، دروازے مضبوط تھے لیکن اندر والے فوجیوں کے دل اتنے مضبوط نہیں رہ گئے تھے۔
اس کے علاوہ محمد بن قاسم نے دشمن کے ان دستوں کے لئے جو باہر آ کر حملے کرتے تھے یہ انتظام کیا کہ تیر اندازوں کو تمام دروازوں کے سامنے تیار کھڑا کردیا اور انھیں حکم دیا کے جونہی دشمن کے دستے حملے کے لئے نکلیں ،ان پر بڑی تیزی سے تیر چلائیں ،یہ طریقہ بھی کارگر ثابت ہوا۔
ان تمام کارروائیوں کے باوجود محاصرے کو دو مہینے لگ گئے، ایک روز قلعے کا ایک دروازہ کھلا اور اندر سے ایک جلوس نکلا یہ سب فوجی تھے لیکن ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے، وہ جلوس کی صورت میں آہستہ آہستہ چلتے مسلمانوں کے درمیان سے گزر گئے، انہوں نے عطر لگا رکھا تھا ،ساری فضا معطر ہو گئی، وہ سب کچھ گنگناتے جا رہے تھے، ان کے چہروں پر اداسی تھی اور صاف پتا چلتا تھا کہ یہ ماتمی جلوس ہے۔
بعض مورخوں نے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ انہوں نے موت کے کپڑے پہن رکھے تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ماتمی لباس میں تھے ،لیکن یہ کہیں بھی واضح نہیں کہ یہ لباس کیسا تھا۔
یہ سب فوجی تھے جو دہلیلہ کے دفاع میں لڑ رہے تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ مزید مزاحمت کے قابل نہیں رہے تو وہ نہتے ہوکر اور عطر لگا کر ماتمی لباس پہن کر قلعے کو چھوڑ گئے۔ ان کا رخ اس طرف تھا جدھر دشوارگزار صحرا تھا، اور دور دور تک کوئی ہریالی اور آبادی نہیں تھی، محمد بن قاسم کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ دیکھتا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔
تاریخ معصومی میں دو تین مورخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ نہر منجھل سے گزر کر آگے چلے گئے تھے، اس کے بعد ان کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں چلے گئے ہیں، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ نہر کا مطلب چھوٹا دریا تھا اس زمانے میں آجکل کی خودساختہ نہرو ں کا تصور نہیں تھا۔
محمد بن قاسم اپنے سالاروں اور فوج کے ساتھ قلعے میں داخل ہوا ،فوجیوں کے ہتھیار اور دیگر ساز و سامان اکٹھا کیا ،شہر میں ابھی کچھ لوگ موجود تھے انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے عزیز رشتہ داروں کو واپس بلا لیں، یہاں محمد بن قاسم نے نوبہ بن ہارون کو وہاں کا حاکم مقرر کیا ،اور خود وہیں رک گیا، یہ صفر94ھجری کا مہینہ تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے وہاں سے ہندوستان کے مختلف راجوں کو خطوط لکھے کہ وہ اسلام قبول کرلیں، اس خطوط میں نے ایسی کوئی دھمکی نہ دی کہ وہ اسلام قبول نہیں کریں گے تو ان پر حملہ کیا جائے گا یا ان سے جزیہ وصول کیا جائے گا، اس نے اسلام کی بنیادی تعلیمات اور خوبیاں لکھیں اور یہ بھی لکھا کہ اس نے اس وقت تک جو شہر فتح کئے ہیں وہاں کے لوگوں سے معلوم کیا جائے کہ انہیں اسلام کی یہ خوبیاں عملی طور پر نظر آتی ہیں یا نہیں۔
محمد بن قاسم ابھی دہلیلہ میں ہی تھا کہ اسے اطلاع ملی کے چار آدمیوں کا ایک وفد اسے ملنا چاہتا ہے، یہ چاروں ہندو تھے، محمد بن قاسم سے ملنے سے پہلے انہیں شعبان ثقفی کے پاس لے جایا گیا تھا، یہ شعبان ثقفی کا حکم تھا کہ کوئی اجنبی محمد بن قاسم سے ملنا چاہے تو اسے اس کے پاس لایا جائے یہ محمد بن قاسم کی حفاظت کا انتظام تھا، ملاقات کے بہانے آنے والے اجنبی اس پر قاتلانہ حملہ بھی کر سکتے تھے۔
محمد بن قاسم کے پوچھنے پر ان چاروں آدمیوں نے اپنا تعارف یہ کرایا کہ وہ راجہ داہر کے وزیر سیاکر کی طرف سے آئے ہیں ،اور سیاکر محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کرنا چاہتا ہے اور وہ اسلام قبول کرے نہ کرے ہمیشہ محمد بن قاسم کے ساتھ رہے گا۔
سیاکر راجہ داہر کا نہایت دانااور قابل وزیر تھا، اور شعبان ثقفی اور محمد بن قاسم تک اس کی قابلیت کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی، جب ان دونوں کو معلوم ہوا کہ سیا کر ان کی اطاعت قبول کرکے مسلمان ہونا چاہتا ہے تو محمد بن قاسم کو قدرتی طور پر خوشی ہوئی، اس نے چار آدمیوں کے اس وفد کو معافی کا پروانہ دے کر رخصت کر دیا، چند ہی روز بعد سیاکر خود محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوا۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے حملے سے پہلے جن عورتوں اور بچوں کو راجہ داہر کے حکم سے قید کیا گیا تھا اور جو واقعہ اس حملے کی وجہ بنا ان میں وہ ساری کی ساری عورتیں دیبل کے قیدخانے میں نہیں تھیں ،دیبل کی فتح کے وقت وہاں پر قید عورتوں کو دیبل کے قید خانے سے رہا کرایا گیا تھا ،بعض عورتوں کو دوسرے قید خانوں میں بھی رکھا گیا تھا ،تاریخ کو ان عورتوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں لیکن تاریخوں میں لکھا ہے کہ چند قیدی عورتیں داہر کے اس وزیر سیاکر کے قبضے میں تھیں جو وہ محمد بن قاسم کی خوشنودی کے لئے اپنے ہمراہ لے کر آیا ،اور جنہیں محمد بن قاسم نے فوراً عرب بھیجوا دیا۔
سیاکر جن عورتوں کو لایا ان کی تعداد دس کے لگ بھگ تھی، یہ کوئی خوبصورت اور جوان لڑکیاں نہیں تھیں بلکہ محنت مشقت کرنے والی عورتیں تھیں یہ غالباً سراندیب سے عرب کو جانے والے تاجروں کی نوکرانیاں تھیں اور بدو قبائل سے تعلق رکھتی تھیں، محمد بن قاسم کو ان عورتوں کے متعلق پہلے علم ہی نہیں تھا اسے یہ بتایا گیا تھا کہ تمام قیدی مرد اور عورتیں دیبل کے قید خانے میں بند تھیں، جب ان عورتوں کو داہر کا وزیر سیاکر محمد بن قاسم کے پاس لایا تو محمد بن قاسم نے ان کے ساتھ عربی میں بات کی ،اس کے جواب میں عورتوں نے بھی عربی میں بات کی۔
تم سے یہ لوگ کیا کام لیتے رہتے ہیں؟،،،، محمد بن قاسم نے ان سے عربی زبان میں پوچھا۔
اروڑ کے محل میں جھاڑو اور کپڑے دھونے کا کام ہمارے سپرد تھا ۔۔۔ایک عورت نے جواب دیا ۔۔۔ہم اسی طرح کے نیچ کام کیا کرتی تھیں۔
کیا وہاں تمہیں کسی طرح تنگ یا پریشان کیا جاتا تھا؟
ہم اپنے مالکوں کے یہاں بھی یہی کام کرتی تھیں۔۔۔ ایک اور عورت بولی۔۔۔ ہندوؤں کے اس محل میں بھی ہم سے یہی کام لیا جاتا تھا، یہ اپنا بچا کچا کھانا ہمیں دے دیتے تھے۔
ان کے ساتھ باتیں ہوئیں تو معلوم ہوا کہ یہ پیدائشی غلام ہیں، جو اتنا بھی احساس نہیں رکھتیں کہ وہ کس کی نوکرانیاں ہیں، انہیں اتنا ہی یاد رہ گیا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔
سالار محترم !،،،،داہر کے وزیر سیاکر نے ترجمان کی معرفت کہا۔۔۔ اپنا اعتماد پیدا کرنے کے لئے یہی ایک تحفہ بہتر سمجھتا تھا جو لے آیا ہوں۔
تمہیں اب ہماری اطاعت قبول کرنے کا خیال کیوں آیا ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔ کیوں کہ میں اب آزادی سے سوچنے کے قابل ہوا ہوں ۔۔۔سیاکر نے جواب دیا۔۔۔ میں راجہ کا وزیر تھا، لیکن اپنے تمام خاندان سمیت راجہ کا قیدی تھا، ہم راجہ کو مشورے تو دیا کرتے تھے لیکن یہ سوچنا پڑتا تھا کہ راجہ کس قسم کے مشورے پسند کرتا ہے، جب اس نے عرب کے جہاز لوٹے اور مسافروں کو قید میں ڈالنے کا حکم دیا تھا تو میں نے اسے کہا تھا کہ عربوں کی نظر پہلے ہی سندھ پر لگی ہوئی ہے، اور عرب پہلے مکران کے ایک حصے پر قابض ہیں، اس لئے عربوں کو اشتعال نہ دلایا جائے، لیکن وہ نہ مانا اس کا دماغ تو اس طرح خراب ہوا کہ ہماری فوج نے آپ کے دو سالاروں کو یکے بعد دیگرے شکست دی، راجہ داہر پر دراصل ایک اور وزیر کا زیادہ اثر تھا جس کا نام بدہیمن تھا، اس وزیر نے ہی اسے مشورہ دیا تھا کہ اپنی سگی بہن کے ساتھ شادی کر لو۔
کیا تمہارے مذہبی پیشواؤں نے راجہ داہر کو یہ نہیں بتایا تھا کہ مذہب سگے بھائی بہن کو آپس میں میاں بیوی بننے کی اجازت نہیں دیتا؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
مذہبی پیشوا !،،،،،سیاکرنے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔مذہبی پیشوا بھی اس کی خواہشوں، اس کی پسند و ناپسند ،اور اس کی توہمات کے غلام تھے، ہمارے راجہ کو مذہب کے بجائے اپنا راج پارٹ زیادہ پیارا تھا ،اسے پنڈتوں نے بتایا تھا کہ تمہارا بہنوئی تمہارے راج پارٹ پر قبضہ کرے گا، تو بدہیمن نے راجہ کو کہا تھا کہ بہن کو اپنی بیوی بنا لو تو بہنوئی کا وجود ہی ختم ہوجائے گا، جن پنڈتوں نے یہ شادی کرائی تھی انہیں پنڈتوں نے مجھے کہا تھا کہ راجہ کا یہ پاپ معلوم نہیں راج دربار پر اور رعایا پر کیا عذاب لائے گا ،وہ عذاب آیا میں ایک پاپی راجہ کا وزیر بنا رہا لیکن دل پر یہ خوف رہا کہ مجھے کوئی نہ کوئی سزا ضرور ملے گی، میں اپنی روح کی تسکین کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں، اگر آپ مجھے قبول کریں تو میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔
عرب کا ایک آدمی محمد حارث علافی بھی راجہ داہر کے دربار میں ہوتا ہے ؟۔۔۔محمد بن قاسم نے پوچھا۔
وہ اب داہر کے بیٹے جے سینا کے ساتھ ہے۔۔۔ سیاکر نے کہا ۔
وہ کیسا آدمی ہے ؟،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ اس کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں۔
وہ دوغلا آدمی ہے۔۔۔ سیاکر نے جواب دیا۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ وہ آپ کو بڑے قیمتی راز دیتا رہا ہے، لیکن وہ اتنا ہی وفادار راجہ کا بھی تھا ،،،،،،میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ عرب کے حکمرانوں کا باغی ہے لیکن اسلام کا باغی نہیں،،، یہ اسی کی بدولت ہے کہ آپ کے باغی عرب غیرجانبدار ہیں ، راجہ داہر نے انہیں بہت لالچ دیے تھے لیکن علافی نے انھیں درپردہ کہہ دیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے، راجہ داہر نے انہیں دھمکی دی کہ وہ انہیں اپنے علاقے سے نکال دے گا، محمد حارث علافی نے میری موجودگی میں راجہ داہر سے کہا تھا کہ ان عربوں کو اس نے یہاں سے نکل جانے کو کہا تو یہ سب عرب سے آئی ہوئی فوج کے بڑے مضبوط ساتھی بن جائیں گے، اور یہ اروڑ کی راجدھانی کے لیے زبردست خطرہ پیدا کردیں گے۔
محمد بن قاسم ایسا اناڑی یا جذباتی نہیں تھا کہ دشمن کے وزیر کو اس کی باتوں میں آکر اعتماد میں لے لیتا، اس نے سیاکر کو بظاہر قبول کرلیا اور حکم جاری کردیا کہ اسے اپنے ساتھ رکھا جائے، اور اسے وہ درجہ دیا جائے جو اسے راجہ داہر کے یہاں حاصل تھا ۔
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی سے کہا کہ وہ اس شخص پر گہری نظر رکھے اور دیکھے کہ یہ کسی اور نیت سے تو نہیں آیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے دہلیلہ سے کوچ کیا ،فاصلہ زیادہ نہیں تھا آگے ایک چھوٹا دریا تھا جو جلوالی نہر کہلاتا تھا ،گزرتی صدیوں نے سندھ کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں کو خشک کرکے ان کی گذرگاہوں کا بھی نام و نشان نہیں رہنے دیا، اس زمانے میں یہ دریا موجود تھے اور آب و تاب سے بہتے تھے۔
مسلمان فوج نے جلوالی نہر کے مشرق کی طرف آخری پڑاؤ کیا، محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے بیٹے جے سینا کو ایک تحریری پیغام بھیجا ،جس میں اس نے لکھا تھا کہ تم نے اپنے باپ کا انجام دیکھ لیا ہے ،سندھ تمہارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، تم کب تک بھاگے بھاگے پھرو گے اور کہاں تک بھاگوں گے ،برہمن آباد میں تم نے پناہ لی ہے اسے بھی عارضی سمجھو، تمھارے لشکر، تمہارے ہاتھی، اور گھوڑے ہم سے کوئی قلعہ نہیں بچا سکے ،اور کسی بھی میدان میں ہمارے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکے، تمہارے لیے ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ اسلام قبول کر لو پھر تم نہ صرف زندہ رہو گے بلکہ وقار اور عزت کی زندگی گزارو گے، اگر یہ منظور نہیں تو ہماری اطاعت قبول کر لو پھر تم ہمارے قیدی نہیں رہو گے نہ ہم تمھیں غلام بنائیں گے، تمہاری عزت اور حیثیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا، اگر یہ بھی منظور نہیں تو ہم آرہے ہیں ایک ایسی لڑائی کے لئے تیار ہو جاؤ جو تم نہیں جیت سکو گے، ہمیں اپنے اللہ پر بھروسہ ہے اور وہی ہماری فتح کا ضامن ہے۔
قاصد پیغام لے کر چلا گیا اور واپس بھی آگیا اس نے بتایا کہ اسے قلعے کے دروازے پر روک کر پوچھا گیا کہ وہ کیوں آیا ہے، اس نے بتایا کہ راجکمار جے سینا کے نام سالار عرب امیر سندھ محمد بن قاسم کا پیغام لایا ہوں۔ اسے قلعے دار کے پاس لے گئے۔
کیا یہ پیغام کسی اور کو دے سکتے ہو ؟،،،،،قلعے دار نے پوچھا ۔۔۔اور اسے بتایا جے سینا نایہاں نہیں ہے۔
نہیں!،،،، قاصد نے جواب دیا ۔۔۔راجہ داہر کے بعد وہی ہے جو فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔
جے سینا یہاں نہیں آیا۔۔۔ قلعے دار نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں تم کیا پیغام لائے ہو اس کا جواب میں ہی دونگا، پڑھ کر سناؤ۔
قاصد مقامی آدمی تھا اور وہ نو مسلم تھا اس نے پیغام سنا دیا۔
قلعے دار نے قہقہ لگایا۔
میں جانتا تھا پیغام یہی ہوگا ۔۔۔قلعے دار نے کہا ۔۔۔تمہارے سالار کا دماغ چل گیا ہے، سنا ہے وہ ابھی بچہ ہے، راجہ داہر کے مرجانے سے ہم سب نہیں مر گئے، لڑنے کے لیے صرف جے سینا ہی نہیں جے سینا خود اسلام قبول کر لے تو اسے کون روک سکتا ہے، لیکن وہ کسی کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ تمہارے سالار کی اطاعت قبول کریں، جے سینا مفرور ہے، تم واپس چلے جاؤ اور اپنے سالار سے کہو کہ آجائے اور قلعہ لے لے۔ ہماراسالار تو آئے گا ہی ۔۔۔قاصد نے کہا۔۔۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اپنے فوجی کے قتل عام کے ذمہ دار تم ہو گے۔
تم چلے جاؤ ۔۔۔قلعے دار نے کہا۔۔۔ یہ پیغام جے سینا کے نام ہے ،اور وہ یہاں نہیں ہے اور اس قلعے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے، اگر اس کا کچھ تعلق ہے تو یہ بھی سن لو کہ جے سینا ہمیں حکم دے گیا ہے کہ مسلمانوں کی فوج آجائے تو اس کا مقابلہ بے جگری سے کرنا۔
قاصد جب محمد بن قاسم کو پیغام کا جواب قلعے دار کی زبانی دے چکا، تو اس سے کچھ دیر بعد برہمن آباد سے ایک جاسوس آیا جس نے یہ خبر دی کہ جے سینا چند دن برہمن آباد میں رہا تھا ،اس نے اپنی فوج کو از سر نو منظم کیا تھا، اس نے دوسرے قلعوں سے بھاگے ہوئے فوجیوں کو بھی اس فوج میں شامل کر لیا ہے ،اور اب وہ برہمن آباد میں نہیں ہے، جاسوس نے بتایا کہ جے سینا چینسر کی طرف چلا گیا ہے۔
وہ مدد اکٹھی کرتا پھر رہا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہم اس کا انتظار نہیں کریں گے ۔
برہمن آباد میں ہندوؤں کی جو فوج تھی اس کی تعداد چالیس ہزار تھی اور اس فوج کو بڑی سخت لڑائی لڑنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔
محمد بن قاسم نے برہمن آباد کی جنگ کے لیے اپنا طریقہ کار بدل لیا ،اس نے قلعے کا محاصرہ کرنے کی بجائے قلعے کے ذرا قریب ہوکر اپنی خیمہ گاہ کے ارد گرد خندق کھدوا لی اور اپنے ایک دو آدمیوں کو آگے بھیجا کہ وہ قلعے کے قریب جاکر اعلان کریں کہ قلعے کے دروازے کھول دو اگر ہم نے قلعہ لڑ کر لیا تو کسی کی بھی جان بخشی نہیں کی جائے گی۔
یہ آدمی آگئے اور انھوں نے کئی بار اعلان کیا لیکن اس کے جواب میں قلعے سے ان پر تیر آئے اور وہ واپس آگئے محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو باہر نکالا۔
دوپہر کا دن تھا اور رجب 93 ہجری کی پہلی تاریخ تھی قلعے کے دروازے کھلے روکے ہوئے سیلاب کے مانند قلعے سے ایک لشکر نکلا اس کے آگے آگے دس بارہ آدمی ڈھول بجا رہے تھے، بڑی تیزی سے یہ لشکر جو مختلف دروازوں سے نکلا تھا لڑائی کی ترتیب میں آگیا اور مسلمانوں پر حملہ کر دیا ،حملہ بڑا ہی زور دار تھا ایک بار تو محمد بن قاسم کے لشکر مجاہدین کے پاؤں اکھڑ گئے، انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ برہمن آباد کی فوج یہ دلیرانہ کارروائی کرے گی۔
محمد بن قاسم نے یہ حملہ روک تو لیا لیکن اسی میں شام ہو گئی ،لڑائی کے دوران دشمن کے ڈھول بجتے تھے اور اس کی فوج کا جوش اور لڑنے کا جذبہ ذرا سا بھی کم نہ ہوا۔
شام ہوتے ہی ہندو فوج قلعے میں واپس چلی گئی اس کی واپسی کا انداز ایسا تھا کہ آہستہ آہستہ پیچھے سے سپاہی اور سوار قلعے کے دروازے میں غائب ہو تے گئے۔ مسلمان جب ان کے تعاقب میں آگے گئے تو دیوار کے اوپر سے ان پر تیروں کا مینہ برسنے لگا مسلمان اپنی خیمہ گاہ میں واپس آگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کو محمد بن قاسم نے تمام سالاروں کو بلایا اور دشمن کے لڑنے کے اس طریقے کے متعلق تبادلہ خیالات کیا، انہیں اپنی تجویزیں بتائیں اور ان سے مشورہ لیا۔
ہندو اس کوشش میں ہے کہ ہم قلعے کو محاصرے میں نہ لے سکیں۔۔۔ آخر میں محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔وہ میدان میں لڑنا چاہتے ہیں ہم ان کی یہ خواہش پوری کر دیں گے، لیکن انہیں قلعے کی سہولت حاصل ہے ہم ان کا تعاقب نہیں کر سکتے آپ سب کی عمر اور تجربہ مجھ سے زیادہ ہے میں آپ سب کے مشوروں کا احترام کرتا ہوں،،،،،،، ایک تو یہ حقیقت سامنے رکھیں کہ ہمارے مجاہدین تھک چکے ہیں ان کے جذبے نہیں تھکے، لیکن گوشت اور ہڈیوں کا جسم ایک نہ ایک دن ٹوٹنے پھوٹنے لگتا ہے ،دوسری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ قلعے کو محاصرے میں رکھنا ضروری ہے، اگر ہم محاصرہ نہیں کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے دشمن کے لئے کمک اور رسد کے راستے کھلے رکھے ہوئے ہیں، جے سینا قلعے میں نہیں، وہ اردگرد کے حاکموں اور راجوں سے مدد لینے گیا ہوا ہے، اس کا راستہ روکنا ہے وہ اکیلا واپس نہیں آئے گا فوج لے کر آئے گا ،یہ تو آپ نے دیکھ لیا ہے کہ دشمن کی اس فوج میں کتنا جوش و خروش پایا جاتا ہے ،اس فوج میں عزم ہے۔
ابن قاسم!،،،،،، محمد بن قاسم کے باپ کی عمر کے ایک سالار نے کہا۔۔۔ اتنا زیادہ جوش و خروش ٹھنڈا بھی ذرا جلدی ہو جایا کرتا ہے، اگر تو کچھ پریشانی ہے تو اسے دماغ سے نکال دے، اللہ نے تجھے ہم سے زیادہ عقل اور جنگی صلاحیتیں عطا کی ہیں، انہیں کام میں لا ہم تیرے ساتھ ہیں، رات کو لشکر تلاوت قرآن اور عبادت میں مصروف رہتا ہے، ہم اللہ کو نہیں بھولے اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔
جہاں تک عبادت کا تعلق تھا محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کی ہدایات کے مطابق آیت الکرسی کا ورد زیادہ کرتا تھا، لڑائی شروع ہونے سے پہلے وہ آیت الکرسی ضرور پڑھتا تھا ،نماز کے علاوہ رات کو نوافل بھی ادا کرتا تھا، اور اس کے ساتھ نئی سے نئی جنگی چالیں سوچتا رہتا تھا۔
کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ منجنیق اور نفت کے تیر رات کو قلعے کے اندر پھینکیں؟،،،،، ایک سالار نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ یہ بڑا شہر ہے میں یہاں کی آبادی پر یہ قہر نازل نہیں کرنا چاہتا، عورتیں اور بچے بھی مارے جائیں گے آگ اور پتھروں کا استعمال وہاں کرنا مناسب ہوتا ہے جہاں محاصرہ لمبا ہوتا جاتا ہے، اور دشمن ہمارا نقصان کئے چلا جاتا ہے، یہاں ابھی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی، پہلے دیکھ لیں کہ دشمن کتنے دن مقابلے میں ڈٹا رہتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسرے دن برہمن آباد کی فوج نے پھر وہی کاروائی کی پہلی ،ڈھول بجانے والے دس بارہ آدمی ایک دروازے سے نکلے ان کے بعد ایک دروازے سے پیادے اور دوسرے سے سوار نکلے، محمد بن قاسم نے رات کو سالاروں سے صلاح و مشورہ کرکے جو اسکیم بنائی تھی اس کے مطابق سالاروں نے اپنے دستوں کو صبح طلوع ہوتے ہی خیمہ گاہ سے نکال کر ان جگہوں پر کھڑا کردیا تھا جو گزشتہ رات طے ہوئی تھی، سوار دستے پہلوؤں پر کھڑے کئے گئے تھے درمیان میں پیادہ دستے تھے،
گزشتہ روز کی لڑائی میں یہ دیکھا گیا تھا کہ ہندو فوج قلعے سے دور نہیں آتی تھی اور اس کی کوشش یہ بھی تھی کہ قلعے کی دیوار کے قریب رہا جائے، محمد بن قاسم نے پہلے ہی سوچی ہوئی اسکیم کے مطابق درمیان میں رکھے ہوئے پیادہ دستوں کو آگے بڑھا دیا اور وہ دشمن کے ساتھ الجھ گئے ،ان کے سالار کو علم تھا کہ کیا کرنا ہے، جب لڑائی شدت اختیار کر گئی تو پیادہ دستے اس طرح پیچھے ہٹنے لگے جیسے دشمن کا دباؤ برداشت نہیں کر سکے اور پسپا ہو رہے ہوں ،دشمن کے دستے مسلمانوں کے پیادہ دستوں کے ساتھ ہی آگے آ گئے، دشمن کے دستوں کو احساس تک نہ ہوا کہ وہ قلعے سے دور چلے گئے ہیں، محمد بن قاسم نے اپنے پہلوؤں والے سوار دستوں کو اشارہ کردیا ،سواروں نے سرپٹ گھوڑے دوڑائے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دشمن کے پہلوؤں اور عقب سے بھی ان پر ٹوٹ پڑے، یہ مسلمانوں کی ایک خاص چال تھی جو سب سے زیادہ خالد بن ولید نے چلی تھی، اس کے بعد یہ اسلامی طریقہ جنگ بن گئی تھی، وہی چال محمد بن قاسم نے چلی اور برہمن آباد کی فوج کی اچھی خاصی سوار اور پیادہ نفری کو خاک و خون کے جال میں پھانس لیا۔
ہندو کٹنے لگے، ان کی پسپائی کا راستہ مسدود ہو چکا تھا، کیونکہ ان کے عقب میں بھی مجاہدین تھے لیکن ہندو فوج کا کمانڈر دانشمند تھا اس نے قلعے سے ایک سوار دستہ نکالا جس نے ان مجاہدین پر ہلہ بول دیا جو قلعے کے دستوں کے عقب میں تھے اس حملے سے گھیرا ٹوٹ گیا اور ہندو نکل گئے، لیکن وہ بے شمار لاشیں گرے ہوئے زخمی ہتھیار اور گھوڑے پیچھے چھوڑ گئے، یہ معرکہ شام سے کچھ وقت پہلے ختم ہو گیا، شام تک مجاہدین اپنے شہیدوں کی لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا کر خیمہ گاہ میں لے آئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کے وقت محمد بن قاسم نے کچھ دستے خیمہ گاہ سے نکالے اور انہیں قلعے کے ارد گرد دیوار سے دور دور محاصرے میں بٹھادیا، یہ محاصرہ اس قسم کا تھا کہ دستوں کے درمیان فاصلہ تھا یعنی جگہ خالی تھی، یعنی یہ مجاہدین کی پوری فوج کا محاصرہ نہیں تھا، دستوں کو قلعے کے اردگرد رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ باہر سے قلعے والوں کو کوئی مدد نہ مل سکے۔
اس سے اگلے روز قلعے سے باہر نکل کر حملہ کرنے والے ہندو دستوں کا مقابلہ اس طرح کیا گیا کہ جونہی دستے باہر آنے لگے تو پہلوؤں کے سواروں نے گھوڑے دوڑا دیے اور جتنی نفری باہر آئی تھی اس پر حملہ کر دیا، اس نفری نے واپس اندر چلے جانے کی بہت کوشش کی تھی لیکن انہیں دروازوں میں سے اندر جانا تھا اور ہر کوئی اندر جانے کی جلدی میں تھا اس لیئے گھوڑے دروازے میں پھنسے جا رہے تھے، اور پیادے بھی ان میں پھنس گئے، کچھ کچلے بھی گئے۔
چند دن اور یہی سلسلہ چلتا رہا قلعے سے فوج نکلتی اس کے ساتھ ڈھول بج رہے ہوتے کبھی تو بڑا خونریز معرکہ لڑا جاتا کبھی مسلمان انہیں دروازے سے ہی نکلنے نہ دیتے پھر ایک دو دنوں کے وقفے سے قلعے سے دستے نکلتے اور تصادم کے بعد لاشیں اور زخمی پیچھے چھوڑ کر چلے جاتے، پھر یہ وقفہ بڑھنے لگا اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی فوج خاصا نقصان اٹھا چکی ہے، نقصان تو باہر پڑا نظر آتا رہتا تھا، دشمن کی جو لاشیں اور جو شدید زخمی باہر رہ جاتے تھے انہیں اٹھا لے جانے کی کوئی جرات نہیں کرتا تھا ،پہلے معرکے کے بعد شام کے دھندلکے میں ہندو اپنی لاشیں اور زخمی اٹھانے آئے تھے لیکن مسلمان تیر اندازوں نے انہیں تیروں کا نشانہ بنا ڈالا تھا، اس کے بعد انھوں نے ایسی جرات نہیں کی تھی ،
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>