⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴اٹھائیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے ان سب کو قتل کروا دیا لیکن یہ حقیقت تاریخوں میں محفوظ ہے کہ جو شہری اور فوجی لڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے تھے انہیں محمد بن قاسم نے معاف کر دیا۔ تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ اسلام کے اس کمسن سالار نے تجارت پیشہ اور کسی ہنر مند کو اور کسی کسان کو سزائے موت نہ دی، ان تمام پیشہ وروں کو اس نے بالکل ہی معاف کردیا اس کا اصول یہ تھا کہ معاشرے کا نظام یہی لوگ چلاتے ہیں اگر انہیں بھی قتل کر دیا جاتا تو شہریوں کی زندگی درہم برہم ہو کے رہ جاتی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب محمد بن قاسم اور اس کے مجاہدین کی دہشت برہمن آباد میں پہنچ گئی تھی، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ راجہ داہر کا بیٹا جے سینا میدان جنگ سے بھاگ کر برہمن آباد پہنچ گیا تھا، دیگر چند ایک فوجی عہدیداروں کے علاوہ اس کے ساتھ کچھ ٹھاکر بھی تھے، ٹھاکر سرداری کے درجے کے افراد ہوا کرتے تھے، ان کے متعلق مشہور تھا کہ جان دے دیتے ہیں میدان جنگ سے بھاگتے نہیں، لیکن یہ ٹھاکر بھی بھاگ گئے تھے، جے سینا کو تو داہر اپنا شیر بیٹا کہا کرتا تھا ،جہاں جہاں تک داہر کا راج تھا جے سینا شیر کے بیٹے کے نام سے مشہور تھا ،لیکن لوگوں نے شیر کو بھی شکست کھا کر اور اپنے باپ کی لاش میدان میں چھوڑ کر اور بھاگ کر برہمن آباد میں پناہ گزین ہو تے دیکھا تو ان پر دہشت طاری ہو جانا قدرتی امر تھا۔
تاریخ نویسوں کی تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جے سینا کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی، وہ برہمن آباد کے قلعے میں داخل ہوا تو سب سے پہلے وہاں کے بڑے مندر میں گیا، پنڈت ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
کیا تم نے مہاراج کو لڑائی شروع کرنے کی شُبھ گھڑی بتائی تھی؟،،،، جے سینا نے پنڈتوں سے پوچھا ۔
ہاں راجکمار!،،،، بڑے پنڈت نے جواب دیا۔
اور تم نے یہ بھی کہا تھا کہ فتح مہاراج کی ہوگی؟
کہا تھا راجکمار!،،،،، بڑے پنڈت نے جواب دیا۔
کیا تم نے سن لیا ہے کہ مہاراج کو صرف شکست نہیں ہوئی بلکہ وہ مارے بھی گئے ہیں۔۔۔ جے سینا نے قہرآلود آواز میں کہا ۔۔۔اور اب تم مجھ سے یہ توقع رکھو گے کہ میں تمھیں زندہ رہنے کا حق دے دوں گا، تم نے جھوٹ بولا تھا مہاراج کو دھوکا دیا ہے۔
اگر راجکمار کا یہی حکم ہے تو ہم مرنے کے لیے تیار ہیں۔۔۔ بڑے پنڈت نے کہا ۔۔۔لیکن راجکمار اپنی تلوار سے ہماری گردنیں کاٹنے سے پہلے یہ سن لیں کہ مہاراج پر دیوتاؤں کا قہر گرا ہے، اور یہ قہر ہم سب پر گرے گا، ہمارے مندروں میں مسلمانوں کے گھوڑے بندھے ہوئے ہونگے۔
کیسا قہر؟،،،، جے سینا نے پوچھا۔
جو مرد اور عورت ایک ماں کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں وہ میاں بیوی نہیں ہو سکتے۔۔۔ پنڈت نے کہا۔۔۔ مہاراج نے اپنی سگی بہن کو اپنی بیوی بنا رکھا تھا۔
لیکن وہ میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔۔۔ جے سینا نے کہا ۔
اس سے پہلے کہ پنڈت کچھ کہتا ایک نسوانی آواز مندر کے اندر گو جی۔
ہاں، ہم میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔
سب نے ادھر دیکھا مائیں رانی جو مندر کے اندر کسی اوٹ میں کھڑی تھی سامنے آگئی، یہ اسی کی آواز تھی۔
ہم میاں بیوی کی طرح نہیں رہتے تھے۔۔۔ مائیں رانی نے ان کے قریب آ کر ایک بار پھر کہا پھر بولی۔۔۔ لیکن میرا بھائی میری جوانی اور جوانی کے ارمانوں کا قاتل تھا، اس نے مجھے اس لیے اپنی بیوی بنایا تھا کہ میری شادی کسی اور سے ہوگی تو وہ تخت و تاج پر قبضہ کر لے گا اور مہاراج کو بن باس مل جائے گا ،اس کے دل میں یہ وہم تم جیسے پنڈتوں نے ڈالا تھا ،کیا اس سے بہتر نہیں تھا کہ مجھے قربان کر دیا جاتا، مندر میں میرا سر کاٹ کر میرے خون سے ہری کرشن کے پاؤں دھوئے جاتے، لیکن میرا بھائی کُند چھری سے میری جوانی کے جذبات اور امنگوں کو آہستہ آہستہ کاٹتا رہا، اور تم جو مذہب کے ٹھیکیدار بنے رہتے ہو مہاراج کو روکنے کی جرات نہ کرسکے، مہاراج نے اپنے راج کے لئے مجھ سے قربانی لی اور میری جوانی کی قربانی دے کر بھی اپنے راج کو بچا نہ سکے۔
ہاں !،،،،بڑے پنڈت نے کہا ۔۔۔ہم راجکمار سے یہی بات کرنا چاہتے تھے جو رانی نے کہہ دی ہے، یہ قہر ہے جو مہاراج کے راج پر گرا ہے۔ تو اب کیا ہوگا؟،،،، جے سینا نے پوچھا ،کیا ہمیں کوئی بلیدان (قربانی) کرنا ہوگا ،اگر کسی کنواری کا خون چاہتے ہو تو میں اس شہر کی تمام کنواریوں کو آپ کے سامنے کھڑا کر دوں گا۔
نہیں ۔۔۔مائیں رانی نے گرج کر کہا ۔۔۔یہ سب جھوٹ ہے کئی معصوم جانیں قربان کی جا چکی ہیں اب کسی کنواری کا خون نہیں بہایا جائے گا۔
رانی!،،،،، جے سینا نے اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے مہاراجوں کے رعب سے کہا۔۔۔ لڑنا اور مرنا ہمارا کام ہے، تم ایک عورت ہو تمہارا حکم نہیں چلے گا۔
اب کسی کا حکم نہیں چلے گا ۔۔۔رانی نے عتاب آلود لہجے میں کہا ۔۔۔مہاراج کے مرنے کے بعد میں رانی ہوں۔
اس سے پہلے کہ میری تلوار تمہارے سر کو نیچے پھینک دے میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔۔۔ جے سینا نے کہا۔۔۔ اور اس نے حکم دیا اسے لے جاؤ یہ پاگل ہو گئی ہے۔
دو تین آدمی لپکے اور مائیں رانی کو گھسیٹ کر مندر سے باہر لے گئے، اس کی چیخ نما آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت جے سینا مائیں رانی کو دھمکی دے رہا تھا کہ وہ اس کا سر کاٹ دے گا اس وقت محمدبن قاسم مال غنیمت کا معائنہ کر رہا تھا۔ راوڑ کے قلعے سے بے انداز مال غنیمت ملا تھا ،اس میں دو خاص چیزیں تھیں ایک راجہ داہر کی نو جوان بھانجی تھی جس کا نام تاریخوں میں حسنہ درج ہوا ہے، اور دوسری چیز راجہ داہر کا سر تھا۔
محمد بن قاسم کے حکم سے مال غنیمت کا پانچواں حصہ خلافت کے لئے الگ کیا گیا راجہ داہر کا سر بھی خلافت کے حصے میں شامل کیا گیا اور خلافت کے حصے میں حسنہ بھی تھی ،محمد بن قاسم نے حسنہ کو بھی خلافت کے حصے میں شامل کردیا ،اس نے یہ سارا مال اور جنگی قیدی کعب بن مخارق رابسی کے حوالے کیے۔
ابن مخارق!،،،،،، محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔ یہ مال غنیمت خلافت کے بجائے حجاج بن یوسف تک پہنچنا چاہیے، اور اسے یہ پیغام دے دینا ۔
محمد بن قاسم کا یہ پیغام بھی تاریخوں میں محفوظ ہے۔
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
خادم اسلام محمد بن قاسم کی طرف سے امیر عراق حجاج بن یوسف کے نام
السلام علیکم
اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم اور آپ کی رہنمائی سے سندھ کے سانپ کو کچل دیا گیا ہے، اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن اور عرب کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے والے راجہ داہر کا سر بھیج رہا ہوں ،اور اس کی ایک بھانجی جو ہندوستان کے حسن و جمال کا نمونہ ہے آپ کو پیش کررہا ہوں ،یہ اس راجہ کا سر اور یہ لڑکی اس راجہ کی بھانجی ہے جس نے ہماری عورتوں اور بچوں کو دیبل میں قید کر رکھا تھا،،،،،،،
میں نے ان آیات قرآنی کا ورد ہمیشہ زبان پر رکھا ہے جو آپ مجھے بتاتے رہے ہیں، لشکر رات کو تلاوت قرآن اور عبادت میں مصروف رہتا ہے ،ہر حالت میں اللہ کی مدد کے طلبگار رہتے ہیں یہ اللہ کی مدد ہے کہ ہم نے راجہ داہر کو بہت بری شکست دی ہے ،اس کا بیٹا جے سینا بھاگ گیا ہے، میں اس وقت تک راوڑ میں ہوں ،یہاں کے لوگوں کو میں نے امن وامان دیا ہے، اور جو ابھی تک لوگوں کو بغاوت پر اکسا رہے تھے انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے،،،،،،، آپ کی اجازت چاہیے کہ میں برہمن آباد کی طرف کوچ کروں، جے سینا بھاگ کر وہاں پہنچ گیا ہے اور میرے مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا ہے، برہمن آباد کے راستے میں دو مضبوط قلعے ہیں ایک بہرور ہے اور دوسرا دہلیلہ، انہیں سر کرنا اور ان میں جو فوجی ہیں انھیں تباہ کرنا ضروری ہے ،ورنہ یہ عقب سے ہم پر حملہ کریں گے،،،،،،،،
آپ اس عظیم فتح کی خوشخبری جن کو سنائیں گے انہیں میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ ہماری کامیابی کے لیے دعا کریں۔
یہ مال غنیمت شوال 93 ہجری کے مہینے میں راوڑ سے روانہ ہوا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر اللہ کو مدد کے لئے پکارا جا رہا تھا ،ادھر جے سینا ہندوستان کے راجوں مہاراجوں کو مدد کے لئے پکار رہا تھا، اس نے اپنے ایلچی ہر طرف بھیج دیے، سب کو یہی پیغام بھیجا کہ اس کے باپ نے اسلام کے سیلاب کو روکنے کے لئے اپنی جان دے دی ہے، اور معلوم ہوا ہے کہ اسلامی فوج کے لشکر نے اس کا سر کاٹ کر عرب کو بھیج دیا ہے، اس نے سورگ باشی راجہ داہر کی کنواری بھانجی کو بھی عرب بھیج دیا ہے، اس نے کئی پنڈتوں کو بھی قتل کرا دیا ہے، اگر آپ سب اسے روکنے کے لیے اکٹھے نہ ہوئے تو آپ سب کے سر عرب چلے جائیں گے، اور ان کے ساتھ آپ کی جوان اور کنواری بیٹیاں بھی جائیں گی، اور ہمارا مذہب جو دیوی دیوتاؤں کا سچا مذہب ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔
اس کے پیغام کے الفاظ بہت ہی اشتعال انگیز تھے اس نے جن راجوں وغیرہ کو پیغام بھیجیں ان میں اس کا اپنا بھائی گوپی بھی تھا ،جو راوڑ کے قلعے کا حاکم تھا اور راوڑ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجانے کے بعد کہیں اور چلا گیا تھا ،اس نے اپنے بھتیجے دار سینہ کو بھی پیغام بھیجا جو قلعہ بھاٹیہ میں تھا وہ اس قلعے کا حاکم نہیں بلکہ قلعے کا مالک تھا۔ جے سینا نے چندر کے بیٹے ڈھول کو بھی پیغام بھیجا۔
اس کے اپنے قریبی رشتے داروں نے تو اسے مایوس نہ کیا ،لیکن مختلف جگہوں کے حاکموں نے اس کے ساتھ ملنے کی بجائے راوڑ جاکر محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لی۔
بہرور، اور دہلیلہ کے حاکموں نے آپس میں صلح مشورہ کرکے جے سینا کو پیغام کا جواب دیا کہ وہ اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکیں گے، کیونکہ مسلمانوں کا لشکر بہت قریب ہے اور قلعوں کو خالی چھوڑ کر نکل جانا عقلمندی نہیں، انہوں نے جے سینا کو یقین دلایا کہ وہ اپنے اپنے قلعے میں رہ کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں گے اور محاصرے کو لمبا کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ بھی کہ وہ اپنے دستے باہر بھیج کر مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچاتے رہیں گے تاکہ وہ برہمن آباد تک پہنچے تو ان کی نفری کم ہو چکی ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مال غنیمت اور جنگی قیدیوں کا قافلہ جس کا امیر کعب بن مخارق رابسی تھا کوفہ میں داخل ہوا تو شہر کے لوگ امڈ کر باہر آ گئے، کعب مخارق اور اس کے ساتھ جو مجاہدین تھے وہ بازو لہرا لہرا کر،،، فتح مبارک ہو ،،،فتح مبارک ہو،،، کے نعرے لگانے لگے، عورت مجاہدین کے قریب آ گئیں ،کوئی اپنے باپ کا کوئی اپنے بھائی یا بیٹے کا ،اور کوئی اپنے خاوند کا نام لے کر پوچھتی تھیں کہ وہ کیسا ہے۔
حجاج کوفہ میں تھا یہ مال غنیمت پہلے دمشق خلیفہ عبدالملک کے پاس جانا چاہیے تھا لیکن حجاج کے پاس جارہا تھا کیونکہ حجاج خلیفہ پر غالب آیا رہتا تھا، دوسرے یہ کہ اس سندھ کی فتح حجاج کا عزم تھا ،خلیفہ اتنی زیادہ دلچسپی کا اظہار نہیں کرتا تھا، حجاج کی شخصیت کے سامنے خلیفہ کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی۔
حجاج نے جب لوگوں کا شور و غوغا سنا تو اس نے اپنے دربان سے پوچھا کہ کیسا شور ہے۔ اسے بتایا گیا کہ سندھ سے مال غنیمت آیا ہے۔ حجاج جس حالت میں تھا اسی میں دوڑتا باہر نکلا اور قافلے کے استقبال کے لئے آگے چلا گیا ،وہ کعب بن مخارق سے بغلگیر ہو گیا۔
حجاج نے سارے شہر میں منادی کرا دی کہ تمام آدمی جامع مسجد میں جمع ہوں جہاں نماز کے بعد انہیں سندھ کی نئی خبری سنائی جائیں گی۔
ظہر کی نماز کا وقت تھا کوفہ کے لوگ جامع مسجد میں جمع ہوگئے اور حجاج کی امامت میں نماز پڑھی نماز کے بعد حجاج کے حکم سے راجہ داہر کا سر نیزے پر اڑسا گیا اور نیزہ حجاج نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اس نے نیزہ اوپر کرکے لوگوں کو دکھایا۔
کوفہ کے لوگو! حجاج نے کہا۔۔۔ یہ اس مجرم کا سر ہے جس نے ہمارے جہازوں کو اپنے ساحل کے قریب روک کر لوٹ لیا، اور ہمارے ان آدمیوں کو اور ان کی بیوی بچوں کو بھی قید میں پھینک دیا تھا جو ان جہازوں میں سوار تھے اور سراندیپ سے حج کا فریضہ ادا کرنے آ رہے تھے، اسے اپنی طاقت پر اتنا بھروسہ تھا کہ ہماری بات ہی نہیں سنتا تھا آج اس کا سر دیکھ لو،،،،،،، لوگو!،،، محمد بن قاسم اور مجاہدین کی فتح کے لیے دعا کرتے رہا کرو یہ تمہاری دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مجاہدین فتح پر فتح حاصل کرتے جا رہے ہیں،،،،، لیکن ان کے لئے کمک بہت کم ہے، کیا تم اس جہاد میں شریک نہیں ہونا چاہو گے، سندھ کے محاذ پر کمک کی ضرورت ہے، اگر تم لوگ وقت پر نہ پہنچے تو سندھ میں مجاہدین کے دل ٹوٹ جائیں گے، خدا کی قسم تم نہیں چاہو گے کہ مجاہدین صرف اس لئے ہار جائیں کہ ان کی نفری کم ہو گئی تھی، یا مسلسل لڑتے لڑتے ان کے جسم ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔
حجاج اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ لوگوں نے "لبیک لبیک،،،،، یا حجاج لبیک ،،،،کے نعرے لگانے شروع کر دیے، اور بہت سے ایسے آدمیوں نے جو لڑنے کے قابل تھے اور جو مسلسل پیش قدمی اور لڑائی کی صعوبتوں کو برداشت کرسکتے تھے سندھ کے محاذ پر جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیا۔
حجاج نے حکم دیا کہ ان تمام آدمیوں کو باقاعدہ طور پر فوج میں شامل کر لیا جائے اور ان کی تربیت بھی شروع ہوجائے۔
حجاج نے تمام تر مال غنیمت خلیفہ ولید بن عبدالملک تک پہنچانے کے لئے دمشق بھیج دیا، اس نے راجہ داہر کی بھانجی حسنہ کو بھی خلیفہ کے پاس بھیج دیا ،مال غنیمت کے ساتھ حجاج نے خلیفہ کے نام ایک خط بھی لکھا جس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کو پسند نہیں تھا کہ سندھ کی فتح کی مہم شروع کی جائے، لیکن میں نے آپ سے اپنا فیصلہ منوا لیا، آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ سندھ پر حملے اور وہاں کی تمام تر جنگ کے اخراجات میں پورے کروں گا ،بلکہ آپ کو اخراجات سے خاصی زیادہ رقم پیش کروں گا، آپ دیکھ رہے ہیں کہ سندھ سے کتنی بار اور ہر بار کتنا مال غنیمت آچکا ہے اور اس میں کس قدر سونا اور کتنی قیمتی اشیاء آئی ہیں۔
حجاج بن یوسف نے یہ بھی لکھا کہ یہ تو زر و جواہرات ہیں جو دنیا میں جاہ و جلال قائم رکھتے ہیں، اگلی دنیا کی بھی سوچیں جہاں ہم سب نے لوٹ کے جانا ہے، وہاں زروجواہرات اور دنیاوی جاہ و جلال اور گھوڑوں ہاتھیوں پر سوار لشکر کام نہیں آئیں گے ،میرے کمسن بھتیجے نے اسلام اور سرزمین عرب کے سب سے بڑے دشمن راجہ داہر کو شکست ہی نہیں دی بلکہ اس کا سر کاٹ کر بھیجا ہے، اور میں یہ سر آپ کی طرف بھیج رہا ہوں، یہ یہ وہ سر ہے جس میں بادشاہی کا غرور اور فتور سمایا ہوا تھا، جس نے اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اسلام کی صداقت کو قبول کرنے کی بجائے دشمنی کی تھی، اور اس میں کیا شک ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو خدائے ذوالجلال کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں۔
حجاج نے خلیفہ کو یہ تفصیل بھی لکھی کہ محمد بن قاسم کی فتوحات میں کیا تازہ اضافہ ہوا ہے، اور آگے کیا ہوگا، تاریخوں میں لکھا ہے کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ جب مال غنیمت کا قافلہ دمشق میں داخل ہوا تو کوفہ کی طرح دمشق کے بھی لوگ باہر آ گئے وہ تکبیر کے نعروں کے ساتھ ساتھ جنگی قیدیوں پر طعنوں کے تیر برسا رہے تھے اور طنزیہ قہقہے بھی لگاتے تھے، دمشق کی گلیوں میں اسی ایک آواز کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ محمد بن قاسم نے سندھ کے بادشاہ کو ہلاک کردیا ہے ،گلی کوچے میں صرف محمد بن قاسم کا نام سنائی دے رہا تھا۔
ایک آواز یہ بھی سنائی دے رہی تھی کہ محمد بن قاسم نے انتقام لے لیا ہے، سارے شہر میں جشن کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی، بعض نے جوش میں آکر نقارے بجانے شروع کر دیے تھے۔
صرف ایک آدمی تھا جس کے چہرے پر مسرت کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا اس پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی سنجیدگی کی پرچھائیاں کبھی کبھی گہری ہوجاتی تھیں، چہرے کے تاثرات سے اور اس کے انداز سے پتہ چلتا تھا جیسے اسے محمد بن قاسم کی فتح و نصرت سے کوئی دلچسپی نہ ہو، کبھی یوں بھی لگتا تھا جیسے اسے فتح کے یہ نعرے تکلیف دے رہے ہیں، یہ تھا خلیفہ وقت کا بھائی سلیمان بن عبدالملک۔۔۔۔۔ وہ الگ تھلگ کھڑا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کعب بن مخارق رابسی خلیفہ کے دربار میں حاضر ہوا وہاں کچھ اور مصاحبین بھی موجود تھے، کعب بن مخارق نے حجاج بن یوسف کا تحریری پیغام پیش کیا جو خلیفہ نے اس سے لے کر پڑھنا شروع کردیا ،وہ جوں جوں پڑھتا جاتا تھا اس کے چہرے پر رونق آتی جا رہی تھی، پھر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، پیغام پڑھ کر اس نے کہ ابن مخارق سے کہا کہ وہ پیغام پڑھ کر سب کو سنائے۔
اس کے بعد خلیفہ نے باہر آکر مال غنیمت دیکھا اور اس سے سونے کے علاوہ جو قیمتی اشیاء تھی وہ الگ کرا دیں ،پھر اس نے کہا کہ راجہ داہر کی بھانجی کو پیش کیا جائے۔
لڑکی کو اس کے سامنے لایاگیا خلیفہ ولید کچھ دیر تو اس لڑکی کو دیکھتا ہی رہا لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
اے لڑکی!،،،،،، ولید بن عبدالملک نے ترجمان کی معرفت راجہ داہر کی بھانجی سے کہا۔۔۔ تیرے دل میں ابھی اپنی خوش قسمتی کا احساس پیدا نہیں ہوا اگر تو وہیں رہ جاتی تو تیرا انجام بہت برا ہوتا۔
اس میں خوش قسمتی والی بات کیا ہے؟،،،،،،، لڑکی نے پوچھا ۔۔۔یہ کوئی خوش قسمتی نہیں کہ یہاں میں ہر کسی کی داشتہ بنوں گی، عورت کی قسمت میں یہی کچھ لکھا ہے، میں نے مسلمانوں کے متعلق تو کچھ اور سنا تھا لیکن آپ ایک بے بس لڑکی کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔
ہم تمہیں اس طرح قید خانے میں نہیں رکھیں گے جس طرح تمہارے ماموں راجہ داہر نے ہمارے بحری مسافروں کو لوٹ کر انہیں دیول کے قید خانے میں قید کردیا تھا ۔۔۔خلیفہ ولید بن عبدالملک نے کہا ۔۔۔ان قیدیوں میں عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی تھے
کیا ان کا انتقام مجھ سے لیا جائے گا؟،،،، لڑکی نے پوچھا۔
انتقام جس سے لینا تھا اس سے لیاجاچکاہے۔۔۔ ولید بن عبدالملک نے کہا۔۔۔ تم ہر کسی کی داشتہ نہیں بنوں گی، کسی ایک آدمی کی بیوی بنوں گی، اگر تم سندھ میں رہ جاتی جہاں تمہارے ماموں کی فوجیں میدان چھوڑ کر بھاگ رہی ہیں، ہتھیار ڈال قید ہو رہی ہیں ،اور ہماری تلواروں سے کٹ رہی ہیں، تو تم وہاں سے کسی اور طرف بھاگتے ہوئے نہ جانے کس کے ہاتھ چڑھ جاتی، اور کس کس کی داشتہ بنتی، کیا تم کوئی ایک بھی واقعہ سنا سکتی ہوں کہ ہماری فوج نے کوئی شہر فتح کرکے کسی سالار عہدے دار یا سپاہی نے تم جیسی کسی لڑکی پر ہاتھ اٹھایا ہو، یا اس کی عزت کا پاس نہ کیا ہو ،کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جس سالار نے تمہیں یہاں بھیج دیا ہے وہ نوجوان ہے، کیا وہ تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا۔
بے شک میں نے دیکھا ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ پھر بھی میں ڈر رہی ہوں کون ہے جو میرے ساتھ شادی کرے گا؟
میں کروں گا ۔۔۔خلیفہ نے کہا۔۔۔ تمہیں اپنا مذہب چھوڑنا پڑے گا ،اور تم ہمارے مذہب کے مطابق سچے دل سے مجھے قبول کرو گی۔
خلیفۃ المسلمین !،،،،،وہاں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔کیا میری یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی کہ میں اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لوں۔
بے شک اسے میں نے اپنے لئے پسند کیا تھا۔۔۔ ولید بن عبدالملک نے کہا۔۔۔ لیکن میں تمہاری خواہش کو رد نہیں کروں گا تمہی اس کے ساتھ شادی کر لو۔
تاریخ میں اس آدمی کا نام عبداللہ بن عباس لکھا ہے جس نے خلیفہ سے یہ لڑکی مانگی تھی، کسی بھی تاریخ میں عبداللہ بن عباس کے متعلق یہ تفصیل نہیں ملتی کہ اس پر خلیفہ نے اتنی شفقت کیوں کی تھی کہ جس لڑکی کو اس نے اپنے لئے پسند کیا تھا وہ لڑکی اسے دے دی۔
عبداللہ بن عباس نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی لڑکی بڑا لمبا عرصہ عبداللہ بن عباس کے عقد میں رہی لیکن اس کے بطن سے ایک بھی بچہ پیدا نہ ہوا۔
راجہ داہر کا سر نیزے کی انی میں اڑس کر سارے شہر میں گھما پھرا کر اس کی نمائش کی گئی، سعودی عرب میں یہ رواج آج بھی ہے کہ جسے سزائے موت دی جاتی ہے اس کی گردن سرعام تماشائیوں کے ہجوم کے سامنے تلوار کی ایک ہی وار سے کاٹ دی جاتی ہے، پھر جلاد مرنے والے کا سر نیزے کی انی میں اڑس کر نیزہ بلند کرتا اور تمام تماشائیوں کو دکھاتا ہے۔
اس کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کا رویہ بالکل بدل گیا ،اور اس نے سندھ کی مہم میں پوری طرح دلچسپی لینی شروع کردی، اور اس نے حجاج کو مبارک کا پیغام بھیجا ،اور لکھا کہ محمد بن قاسم تک بھی اسکی مبارک اور دعائیں پہنچائی جائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج بن یوسف نے کعب بن مخارق رابسی کے ہاتھ محمد بن قاسم کے نام پیغام بھیجا جس میں اس نے پہلے کی طرح محمد بن قاسم کی حوصلہ افزائی کی اور اسے ہدایات دی کہ اب وہ کس طرح آگے بڑھے اس سے پہلے محمد بن قاسم کو لکھا تھا کہ راجہ داہر پر فتح پا لی گئی تو آگے پیش قدمی تیز ہوجائے گی، حجاج نے پہلے کی طرح اب بھی اپنے پیغام میں تلاوت قرآن اور عبادت پر زور دیا ،اور ایک بار پھر آیت الکرسی کی فضیلت بیان کی۔
محمد بن قاسم نے راوڑ کا شہری انتظام رواں کردیا اور عمال مقرر کردیئے اس دوران اس نے بہرور میں اپنے جاسوس بھیج دیے تھے، معلوم یہ کرنا تھا کہ وہاں کتنی فوج ہے قلعے کی دیواریں کیسی ہیں اور دیگر دفاعی انتظامات کیا ہیں، قلعے کی ساخت اور مضبوطی کا جائزہ لینے کے لئے شعبان ثقفی خود بھیس بدل کر گیا تھا اور قلعے کے ارد گرد کچھ دیر گھومتا پھرتا رہا تھا ،دوسرے جاسوس مقامی آدمی تھے ان کا بہروپ آسان تھا وہ راوڑ سے بھاگے ہوئے شہری بن کر گئے تھے اور کچھ دن وہاں رہ کر نکل بھی آئے تھے۔
بہرور اروڑ سے آگے ایک قلعہ تھا جس کے متعلق پہلے کہا جاچکا ہے کہ سر کرنا ضروری تھا ،اب جاسوسوں نے آ کر محمد بن قاسم کو جب یہ بتایا کہ اس قلعے میں فوج کی نفری سولہ ہزار ہے تو اس قلعے پر حملہ اور اس نفری کا خاتمہ ضروری ہو گیا، محمد بن قاسم کا اصل اور سب سے بڑا ہدف تو برہمن آباد تھا جہاں تک محمد بن قاسم اپنے لشکر کو دور کا چکر کاٹ کر لے جا سکتا تھا اور اس طرح بہرور اور اس سے آگے ایک اور قلعہ دہلیلہ کو نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن ان قلعوں میں دشمن کی جو اتنی زیادہ فوج تھی اسے نظر انداز کرنا بہت بڑی جنگی لغزش تھی۔
محمد بن قاسم نے ماہ شوال 933 ہجری کے آخری دنوں میں راوڑ سے کوچ کیا اور بہرور تک پہنچ گیا، محمد بن قاسم کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ اس نے دشمن کو بے خبری میں جا لیا ہے ،کیونکہ جوں ہی اس نے اپنے لشکر کو محاصرے کی ترتیب میں کیا دیواروں سے اور قلعے کے برجوں سے تیروں کا مینہ برس پڑا، تیروں کی یہ بوچھاڑیں اچانک آئی تھیں جب مسلمان قلعے کا محاصرہ کر رہے تھے تو ایسے پتہ چلتا تھا جیسے اس قلعے میں کوئی بھی نہیں، دیواروں کے اوپر دشمن کے سپاہی نظر آتے تھے لیکن ان کا انداز ایسا تھا جیسے وہ خوفزدہ ہوں اور مسلمانوں پر تیر چلانے سے گریز کر رہے ہوں، اسی دھوکے میں مسلمان دیوار کے اتنے قریب چلے گئے کہ دشمن کے تیروں کی بوچھاڑوں کی زد میں آگئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محاصرہ اکھڑ گیا کئی ایک مجاہدین زخمی اور شہید ہو گئے۔
اچانک افراتفری سی مچ گئی اس صورتحال سے دشمن نے یہ فائدہ اٹھایا کہ قلعے کا صدر دروازہ اور ایک اور دروازہ کھولا سواروں کے دستے اندر سے یوں نکلے جیسے سیلاب بند توڑ کر نکلا ہو، ان سواروں کا مسلمانوں پر حملہ بڑا ہی شدید تھا ایک بار تو مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے جتنی دیر میں وہ سنبھلتے دشمن کے سوار ایک زوردار وار کرکے واپس قلعے کے اندر جا رہے تھے۔
محمد بن قاسم کو اپنے طور طریقوں اور چالوں پر نظرثانی کرنی پڑی اس نے اپنے تمام دستوں کو پیچھے ہٹا لیا ،شہیدوں کی لاشیں ابھی تک دشمن کے سامنے پڑی تھیں، اور بعض شدید زخمی جو اٹھنے کے قابل نہیں تھے وہی بے ہوش پڑے تھے جہاں گرے تھے، ان سب کو رات کے وقت اٹھایا گیا، اگلے دن محمد بن قاسم نے کوئی کارروائی نہ کی زیادہ تر وقت زخمیوں کی مرہم پٹی میں صرف ہوا ،اور ان زخمیوں کو پیچھے بھیجا گیا جو لڑنے کے قابل نہیں تھے، اس روز محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو بلایا اور ان کے ساتھ صلح مشورہ کرکے نئی حکمت عملی ترتیب دی، تمام سالاروں کو احساس ہو گیا تھا کہ اس قلعے کو آسانی سے سر نہیں کیا جاسکے گا۔
اگلے روز محمد بن قاسم نے ایک مقام پر تیر اندازوں کو اکٹھا کیا اور دیواروں میں شگاف ڈالنے اور سرنگ کھودنے والے تربیت یافتہ آدمیوں کو بھی ساتھ لیا ،اس نے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ سامنے دائیں اور بائیں دیوار پر اس قدر تیز تیر برسائیں کہ دیوار سے کسی کا سر اوپر نہ اٹھ سکے۔
تیر اندازوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی، تیروں کی بوچھاڑیں ایک دوسری کی پیچھے دیواروں پر پڑنے لگیں تو دیوار کے اس حصے سے دشمن کے سپاہی اوٹ میں ہو گئے، محمد بن قاسم نے دیواروں میں شگاف ڈالنے والوں کو تیز دوڑایا کہ وہ دیوار تک پہنچ جائیں، وہ پہنچ گئے اور انہوں نے دیوار میں نقب لگانی شروع کر دی، کام آسان معلوم ہوتا تھا کیونکہ دیوار گارے اور پتھروں کی بنی ہوئی تھی، پتھر نکلتے آ رہے تھے لیکن یہ دیوار مکانوں کی دیواروں کی طرح سیدھی نہیں تھی بلکہ مخروطی تھی ،نیچے سے بہت چوڑی تھی اس میں نقب لگانے کا مطلب یہ تھا جیسے سرنگ کھودی جا رہی ہو۔
اس پارٹی میں آدمی اتنے زیادہ تھے جو دیوار میں سرنگ جیسی نقب لگا سکتے تھے، لیکن اسی دیوار کے دور کے کونے پر کھڑے سپاہیوں نے دیکھ لیا کہ دیوار توڑی جا رہی ہے، انہوں نے یہ انتظام کیا کہ بڑے بڑے پتھر لکڑی کے شہتیر اور چلتی ھوئی لکڑیاں اوپر جمع کرلیں پہلے انہوں نے دیوار پر پتھر رکھے خود اوٹ میں رہے ان کے صرف ہاتھ اوپر تھے، انہوں نے اوپر سے پتھر لڑکانے شروع کردیئے اس کے ساتھ ہی چلتی ھوئی لکڑیاں اس طرح نیچے پھینکیں کہ لکڑی دیوار کے اوپر والے سرے پر رکھ کر چھوڑ دیتے تھے تو یہ دیوار کی ڈھلوان سے لڑکتی نیچے آ جاتی تھی۔
دشمن نے یہ جو ہتھیار استعمال کیا یہ مسلمانوں کے لئے بڑا ہی نقصان دہ ثابت ہوا، جہاں دیوار میں نقب لگائی جارہی تھیں وہاں جلتی ہوئی لکڑیوں کے شعلے اٹھنے لگے، ایک دو آدمی جھلس بھی گئے، دشمن نے چند ایک جانوں کی قربانی دے کر یہ کامیابی حاصل کی کہ مسلمانوں کو دیوار سے بھگا دیا ،دشمن نے قربانی اس طرح دی کہ اس کے آدمی جب پتھر یا لکڑیاں نیچے کو لٹکانے کے لیے سر اوپر اٹھاتے تھے تو تیروں کا نشانہ بن جاتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کا یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا اور اس نے دروازوں کو توڑنے کی اسکیم بنائی، لیکن دشمن کے تیر انداز دروازے کے قریب نہیں جانے دیتے تھے، کئی طریقے اختیار کیے گئے لیکن قلعے کی فوج نے کوئی بھی طریقہ کامیاب نہ ہونے دیا بلکہ دشمن نے اپنی اس دلیرانہ کاروائی کو جاری رکھا کہ کبھی سوار اور کبھی پیادا دستے بڑی تیزی سے باہر آجاتے اور محاصرے میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے کسی ایک حصے پر ہلہ بول کر اسی تیزی سے واپس چلے جاتے۔
اس وقت تک محمد بن قاسم یہ سمجھ چکا تھا سندھ کی فوج کا یہ خاص انداز ہے کہ باہر آ کر حملہ کرتے اور واپس چلے جاتے ہیں، اس کا یہ طریقہ مسلمانوں کے شب خون اور دن کے چھاپوں جیسا تھا جو وہ دشمن کی پیش قدمی کرتی ہوئی فوج کے پہلو یا عقب پر مارتے اور غائب ہو جاتے، محمد بن قاسم نے ہندوؤں کی اس نوعیت کے حملوں کا یہ توڑ سوچا کہ محاصرے کے دستوں کو تیار رکھا جائے اور جب ہندوؤں کے دستہ ہلہ بولنے کے لئے باہر آئیں تو انہیں گھیرے میں لے لیا جائے اور واپس نہ جانے دیا جائے۔
دو تین روز بعد دو دروازوں میں سے حسب معمول دشمن کے سوار دستے نکلے اب مسلمان اس کے لئے تیار تھے انہوں نے دائیں اور بائیں سے آگے ہو کر ان دستوں کو نرغے میں لے لیا لیکن مسلمانوں کے جو سپاہی دیوار اور دروازوں کے قریب چلے گئے تھے ان پر دیوار سے تیر آنے لگے وہ اتنے قریب تھے کہ دیوار کے اوپر سے ان پر پتھر بھی پھینکے گئے اس طرح گھیرہ ٹوٹ گیا، ہندو سوار گھوڑے دوڑاتے اور کوئی مسلمان سامنے آتا تو اسے کچلتے واپس چلے گئے۔
محمد بن قاسم نے ایک قربانی دینے کا فیصلہ کیا اس نے منتخب جاں باز صدر دروازے کے سامنے اکٹھے کرلئے اور دشمن کے اگلے حملے کا انتظار کرنے لگا ،اگلا حملہ تین روز بعد آیا محمد بن قاسم نے اپنے منتخب جانبازوں کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ کیا کرنا ہے، جونہی صدر دروازہ کھلا جاں باز کود کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور گھوڑوں کو ایڑ لگا دی گھوڑے سر پٹ دوڑے صدر دروازے سے دشمن کے سوار نکل رہے تھے، مسلمان سواروں کے پاس برچھیاں تھیں۔
دونوں طرفوں کے گھوڑے آپس میں ٹکرائے پھر برچھیاں اور تلواریں ٹکرانے لگیں، مسلمان سوار تو باہر تھے اس لیے ان کے پاس دائیں بائیں آگے پیچھے حرکت کرنے کے لئے بہت جگہ تھی، ہندو سوار دروازے میں سے آرہے تھے اس لیے وہ آسانی سے پینترے نہیں بدل سکتے تھے، وہ پیچھے ہٹ رہے تھے اور مسلمان انہیں دباتے اور کاٹتے جا رہے تھے۔
توقع یہ تھی کہ مسلمان سوار قلعے میں داخل ہو جائیں گے، محمد بن قاسم خود ان کے قریب ہو گیا اور انھیں للکارنے لگا ،دیوار سے ایک تیر آیا جو محمد بن قاسم کے آگے زین میں اتر گیا ،اس کی زندگی اور موت کے درمیان صرف بال برابر فاصلہ رہ گیا تھا، ایک سوار نے دیکھ لیا محمد بن قاسم نے اس تیر کو اتنی سی بھی اہمیت نہ دی کہ اسے زین سے نکال کر پھینک دیتا، وہ چلا چلا کر اپنے سواروں کو ہدایات دے رہا تھا۔
جس سوار نے محمد بن قاسم کی زین میں تیر اترتے دیکھا تھا وہ گھوڑا دوڑا کر اس کے پاس آیا ۔
سالار اعلی !،،،،،،،،،سوار نے محمد بن قاسم سے کہا ۔۔۔آپ یہاں سے چلے جائیں، آپ نہ رہی تو کچھ بھی نہیں رہے گا۔
یہاں سے چلے جاؤ ۔۔۔۔محمد بن قاسم نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔۔۔اپنی جگہ پر رہو ۔
اس سوار نے اپنے سالار اعلی کی ڈانٹ اور اس کے حکم کی پرواہ نہ کی لپک کر اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی محمد بن قاسم چلا رہا تھا لیکن اس سوار نے اس کے گھوڑے کی لگام نہ چھوڑی اور اسے تیروں کی زد سے دور لے گیا۔
قاسم کے بیٹے !،،،،سوار نے اپنے اور محمد بن قاسم کے رتبے کے فرق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ تم قیمتی انسان ہو مجھ جیسے ایک ہزار سپاہی مارے گئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہ سوار محمد بن قاسم کو خاموش اور حیران چھوڑ کر گھوڑا دوڑاتا لڑائی میں شامل ہونے کے لئے گیا تو اوپر سے ایک تیر آیا جو اس کی ہنسلی سے ذرا نیچے سینے میں دور تک اتر گیا ،وہ گھوڑے پر ایک طرف کو گرنے لگا محمد بن قاسم نے دیکھ لیا اس نے گھوڑا دوڑایا اور اس تک پہنچ کر اسے گرنے سے بچا لیا اور اس کے گھوڑے کو بھی اپنے گھوڑے کے ساتھ پیچھے لے آیا۔
تم زندہ رہنا ابن قاسم!،،،،،، سوار نے کہا۔۔۔ اور اس کا سر محمد بن قاسم کے کندھے پر ڈھلک گیا ،تاریخ نے اس سپاہی کا نام ہشام بن عبد اللہ لکھا ہے وہ کوفہ کی ایک نواحی بستی کا رہنے والا تھا۔
دشمن کے ساتھ معرکہ جاری تھا اسے شاید یہ خطرہ نظر آگیا تھا کہ مسلمان قلعے میں داخل ہو جائیں گے چنانچہ قلعے کے دروازے بند ہوگئے دشمن کے جو سوار باہر رہ گئے تھے انہیں مسلمانوں نے کاٹ ڈالا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کسی سالار نے یہ مشورہ دیا کہ بغیر لڑے محاصرہ جاری رکھا جائے تاکہ قلعے والوں کو باہر سے خوراک وغیرہ نہ مل سکے اور وہ کچھ عرصے بعد بھوک اور پیاس کے مارے خود ہی ہتھیار ڈال دیں گے، اس زمانے میں محاصروں کو اکثر طول دیا جاتا تھا ،بعض محاصرے دو دو سال اور اس سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہتے تھے، اور ایک دن قلعے والے خود ہی دروازے کھول دیتے اور ان کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا تھاکہ کچھ کھانے کے لئے دو۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے یہ مشورہ رد کردیا اور کہا ۔۔۔میرے پاس اتنا وقت نہیں، ہماری منزل بہت دور ہے اور زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اس کے علاوہ میں دشمن کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ ہم اس کی طاقت سے خائف ہو کر دور بیٹھ گئے ہیں اب رات کو بھی لڑائی جاری رہے گی۔
محمد بن قاسم نے تمام سالاروں اور نائب سالاروں کو بلایا انھیں اور ان کے دستوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور انہیں بتایا کہ ایک حصہ دن کے وقت اپنی کاروائیاں جاری رکھے گا اور دوسرا حصہ رات کو نفت کے تیر اور منجنیقیں چلائے گا۔
پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ایسے تیر مسلمانوں کے یہاں استعمال ہوتے تھے جن کے ساتھ آگ کا شعلہ ہوتا تھا ،ان تیروں کے ساتھ روغن نفت سے بھیگے ہوئے کپڑے تیروں کے اگلے سرے پر لپٹے ہوئے ہوتے تھے، انہیں آگ لگا کر تیر چلائے جاتے تھے۔
یہ تو روز مرہ کا معمول بن گیا تھا لیکن ایک رات قلعے کے اندر آگ برسنے لگی اور اس کے ساتھ قلعے کے اندر پتھر گرنے لگے، آگ والے تیر چلانے والوں کو نفت انداز کہا جاتا تھا، رات کے اندھیرے سے وہ یہ فائدہ اٹھاتے تھے کہ دیوار کے اتنے قریب چلے جاتے جہاں سے چھوٹا ہوا تیر دیوار کے اوپر سے قلعے کے اندر پہنچ سکتا تھا ،پیچھے قلعے کے اردگرد منجنیقیں لگا دی گئی تھیں جن سے مسلسل پتھر پھینکے جا رہے تھے۔
پہیلی رات ہی یہ کامیابی دیکھی گی کہ قلعے کے اندر سے لال پیلی روشنی اٹھنے لگی اور اس روشنی میں دھواں نظر آنے لگا ،اس سے پتہ چلتا تھا کہ مکان جل رہے ہیں ،محمد بن قاسم نے نفت اندازی اور سنگبازی روک دی کیوں کے تیل کو کفایت شعاری سے استعمال کرنا تھا اور پتھر بھی کم ہوتے جا رہے تھے۔ سندھ کے ریگستان میں پتھر اتنے زیادہ نہیں مل سکتے تھے ،منجنیقوں کے لئے ذرا وزنی پتھروں کی ضرورت تھی اس کے علاوہ محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے یہ بھی کہا تھا کہ میں دشمن کو آہستہ آہستہ مارنا چاہتا ہوں تاکہ پھر کبھی اٹھنے کے قابل نہ رہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح طلوع ہوئی تو نفت اندازوں اور منجنیقوں سے سنگ باری کرنے والوں اور ان دستوں کو جو رات ان کے ساتھ جاگے تھے آرام کے لئے پیچھے بھیج دیا گیا ،اور وہ دستے آگے گئے جنہوں نے دن بھر محاصرہ کرنا اور دشمن کو پریشان رکھنا تھا ،انہوں نے آتے ہی دیواروں پر تیر اندازی شروع کردی، وہ تیروں کی بوچھاڑیں نہیں مار رہے تھے، انہوں نے اب یہ انداز اختیار کرلیا تھا کہ دیواروں پر جو سپاہی کھڑے تھے انہیں نشانہ میں لے کر تیر چلاتے تھے۔
شعبان ثقفی نے کہا کہ اب اگر ہندو سواریا پیادے باہر آکر ہلہ بولیں تو ان میں سے ایک دو کو زندہ پکڑا جائے، اسی روز دن کے پچھلے پہر قلعے کے دو کی بجائے تین دروازے کھلے ایک میں سے پیادہ اور دو میں سے سوار دستے پہلے حملوں کی نسبت زیادہ تیزی سے باہر آئے ،مسلمانوں نے ان کا مقابلہ کیا اور تین چار سواروں کو زندہ پکڑ لیا اور چند ایک زخمی بھی وہی رہے اور ان کے دستے واپس چلے گئے۔
زندہ پکڑے جانے والوں اور زخمیوں کو شعبان ثقفی کے پاس لے گئے اس نے ہر ایک کو الگ الگ کرکے پوچھا کہ گزشتہ رات شہر میں کتنا نقصان ہوا ہے اور فوج اور لوگ کیا کہتے ہیں۔
دشمن کے ان آدمیوں نے موت کے خوف سے اپنے قلعے کے اندر کے حالات بتا دیے۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>