⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴ستائیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دونوں طرف سے دو دو تین تین آدمی دوڑے جاتے اور اپنے اپنے زخمی کو اٹھا کر یا سہارا دے کر پیچھے لے آتے تھے۔
محمد بن قاسم نے ایک پارٹی الگ کر رکھی تھی، یہ مشکیزہ برادر پارٹی تھی یہ وہ آدمی تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے لڑائی کے قابل نہیں تھے، یا یہ خادم قسم کے آدمی تھے، وہ پانی سے بھرے ہوئے مشکیزے اٹھائے دونوں فوجوں کے درمیان پڑے ہوئے زخمیوں کے منہ میں پانی ڈال رہے تھے، اسی پارٹی کے آدمی اپنے دستوں میں گھوم پھر کر مجاہدین کو پانی پلاتے تھے۔
ایک روایت ہے کہ محمد بن قاسم نے پانی پلانے والوں میں ایک آدمی کو دیکھا جو اس کے سامنے سے گزر گیا تھا، محمد بن قاسم کو شک ہوا کہ یہ آدمی نہیں عورت ہے ،اگر عورت نہیں تو نوجوان لڑکا ہے۔
محمد بن قاسم نے اسے بلایا اور گھوڑے کی پیٹھ سے جھک کر اسے ذرا غور سے دیکھا۔
اگر میری آنکھیں مجھے دھوکہ نہیں دے رہی تو تم مرد نہیں ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اہل ثقیف کی آنکھیں دھوکا نہیں کھایا کرتی،،،،، پانی پلانے والی نے کہا ۔۔۔میں عورت ہوں، اور میں اکیلی نہیں ہوں، کئی اور عورتیں مشکیزے اٹھائے پانی پلاتی رہی ہیں۔
کیا تو اپنے خاوند کے ساتھ آئی ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ تیرا بھائی بھی آیا ہوگا تیرے ساتھ؟
ابن قاسم!،،،، عورت نے کہا ۔۔۔یہ سب میرے بھائی ہیں میں اپنے خاوند کے ساتھ آئی ہوں یہ سب میرے بیٹے ہیں، اور یہ عورت اپنے لشکر میں غائب ہو گئی۔
پانی صرف زخمی پیتے تھے، دن کے وقت کوئی اور مجاہد ماہ رمضان کی وجہ سے پانی نہیں پیتا تھا۔
محمد بن قاسم کو یہ فیصلہ کرنے کی مہلت نہ ملی کہ عورتوں کو میدان جنگ میں رہنے دیا جائے یا انہیں پیچھے زخمیوں کے پاس بھیج دیا جائے، مہلت اس لیے نہ ملی کہ راجہ داہر نے ہاتھیوں کو آگے کردیا تھا ، ہاتھی دوڑتے چنگھاڑتے آرہے تھے، ان کے ہودوں میں کھڑے آدمی ہاتھوں میں برچھیاں تول رہے تھے۔
محمد بن قاسم کے اشارے پر سعید اور عطاء کے سوار دستے فوراً چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو گئے، یہ تقسیم پہلے سے طے شدہ تھی، ہر گروہ نے ایک ایک ہاتھی کو گھیرنا تھا، سواروں کے پہنچنے تک تیر اندازوں نے ہاتھیوں پر آگ والے تیر برسائے، ہاتھیوں میں کھلبلی مچانے کے لیے یہی تیر کافی تھے۔
دو تیر ایک ہاتھی کے ہودے میں کھڑے ایک پرچھی باز کو لگے اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی، اس نے ہودے میں ناچنا شروع کر دیا اس کی آگ نے اس کے ایک ساتھی کو بھی زد میں لے لیا ،دونوں اوپر سے کودے اور زمین پر آپڑے ،وہ سنبھلنے یا بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مجاہدین کے گھوڑوں کے نیچے آگئے۔
سورج غروب ہو گیا ہاتھیوں اور مجاہدین کا معرکہ عروج پر تھا کہ فیل بانوں نے ہاتھیوں کو واپس لے جانا شروع کردیا، شام ہوتے ہی لڑائی بند کر دی جاتی تھی، اس رواج کے مطابق ہاتھی ادھر چلے گئے اور گھوڑے ادھر آ گئے، تین چار ہاتھی زخمی ہوگئے تھے، فیل بانوں کے قابو سے نکل گئے انہوں نے اپنے لشکر کی صفوں میں ادھم بپا کردیا۔۔۔ پھر تاریکی نے میدان جنگ پر سیاہ پردہ ڈال دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
10 رمضان المبارک بروز جمعرات تاریخ اسلام اور تاریخ ہند کا ایک اہم ترین دن ہے، اس روز حق و باطل کے معرکے کا فیصلہ کن مرحلہ شروع ہوا تھا۔
گزشتہ رات مجاہدین نے ذرا سا بھی آرام نہیں کیا تھا، انہیں بتایا گیا تھا کہ اگلا روز بہت خطرناک ہو گا، اور اس کے لیے غیر معمولی طور پر تیاری کی ضرورت ہوگی۔
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ داہر دور اپنے ہاتھی پر سوار تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔محمد بن قاسم اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا ۔۔۔وہ دیکھ رہا تھا کہ ہم کس حالت میں ہیں، اور آمنے سامنے جنگ میں ہمارا انداز اور ہماری لڑنے کی اہلیت کیسی ہے، اس نے آخر میں ہاتھیوں سے حملہ کرایا تھا ،وہ جائزہ لے رہا تھا کہ ہم ہاتھیوں کا مقابلہ کس طرح کریں گے،،،،، اس نے رمضان میں جنگ یہ سوچ کر شروع کی ہے کہ دن کو ہم بھوکے اور پیاسے ہوں گے اس لیے ہم میں لڑنے کی ہمت نہیں ہوگی ،،،،،،کل کا سورج کچھ اور ہی نظارہ دیکھے گا۔
سحری کے وقت لشکر نے کھا پی لیا، میدان جنگ میں انہوں نے اپنے کسی زخمی ساتھی کو نہیں رہنے دیا تھا، سب کو اٹھا کر لے آئے تھے، اور عورتیں ان کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔
محمد بن قاسم کو خبریں مل رہی تھیں کہ دشمن کیا کر رہا ہے، راجہ داہر نے اپنے کمانڈروں کو بتا دیا تھا کہ آنے والا دن فیصلہ کن دن ہوگا ،اور یہ محمد بن قاسم کی زندگی کا آخری دن ہوگا، اور اس کی فوج میں جو زندہ رہیں گے ان کی باقی زندگی داہر کی غلامی میں گزرے گی، اور یہ بدترین غلامی ہوگی۔
ہماری فوج کا وہ آدمی خوش قسمت ہو گا جو محمد بن قاسم کا سر میرے پاس لائے گا۔۔۔ راجہ داہر نے کہا تھا۔۔۔ اس آدمی کو ہم اپنے دربار میں جگہ دیں گے، اور وہ چار دیہات کا مالک اور قلعے دار ہوگا۔
رات کو مائیں رانی پھر آگئی ،وہ خوش تھی کہ داہر لڑائی میں شریک ہونے کی بجائے پیچھے رہا تھا، وہ اسے کہہ رہی تھی کہ اگلے روز بھی وہ پیچھے رہے، اور اپنے لشکر کو لڑائے، داہر نے اسے کہا تھا کہ وہ آگے نہیں جائے گا ،اس نے مائیں رانی کا دل بہلانے کے لئے جھوٹ بولا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح ہوئی تو دریائے سندھ کے کنارے میدان میں کچھ اور ہی منظر تھا، داہر کا تمام تر لشکر لڑائی کی ترتیب میں کھڑا تھا، راجہ داہر لشکر کے وسط میں اپنے ہاتھی پر سوار تھا، اس کے ساتھ اس کا بیٹا جے سینا تھا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ اس روز داہر کی شان ہی کچھ اور تھی، اس کے آگے پیچھے دائیں اور بائیں دس ہزار زرہ پوش سوار کھڑے تھے، دس ہزار گھوڑوں کا رعب ہی کافی تھا ،تیس ہزار پیادہ فوج تھی، اپنے درمیان اپنے راجہ کو دیکھ کر فوجی اور زیادہ چاک و چوبند نظر آتے تھے۔
داہر کے ساتھ ہودے میں دو خوبصورت کنیزیں بھی موجود تھیں، اور ہودے میں برچھیوں اور ٹیڑھے تیروں کے علاوہ شراب کا ذخیرہ بھی رکھا ہوا تھا، داہر کے ہاتھی کے دائیں اور بائیں ٹھاکر گھوڑوں پر سوار کھڑے تھے۔
محمد بن قاسم نے جب دشمن کی فوج کو دیکھا تو اپنی فوج کی کمان میں کچھ تبدیلیاں کردیں، اس نے دشمن کے تیور بھاپ لیے تھے، اس نے تیرانداز دستے کو تین حصوں میں تقسیم کردیا ،یہ غالبا اس لئے کیا تھا کہ دشمن کی فوج کا پھیلاؤ اپنی فوج کی نسبت بہت زیادہ تھا، ہر حصے کو اس نے تیاری کا حکم دیا، ہر تیر انداز نے ایک ایک تیر کمان میں ڈال لیا۔
اب کے محمد بن قاسم نے اپنے لشکر کو اس ترتیب میں رکھا کہ ایک صف میں قبیلہ عالیہ کے لوگ تھے، دوسری صف میں قبیلہ تمیم کے جنگجوؤں کی تھی ، تیسری صف بکر بن وائل کے مجاہدین تھے ،چوتھی صف میں عبدالقیس کے ساتھ اس کا قبیلہ تھا، اور پانچویں صف میں ازدی قبیلے کے جنگجو تھے۔
یہ ترتیب مکمل ہوجانے کے بعد محمد بن قاسم گھوڑا دوڑاتا اپنے پورے لشکر میں گھوم گیا، پھر لشکر کے سامنے گھوڑا روکا اور اس نے اپنے مجاہدین سے جو خطاب کیا وہ آج بھی لفظ بہ لفظ تاریخ میں محفوظ ہے۔
اے اہل عرب!،،،، تم باطل کے پجاریوں کا لشکر اپنے سامنے دیکھ رہے ہو، یہ لشکر نہ صرف یہ کہ تمہارا راستہ روکنے کے لئے آیا ہے بلکہ یہ ہمیں تباہ و برباد کرنے کے ارادے سے ہمارے مقابل آن کھڑا ہوا ہے ، یہ کفار اپنے باطل مذہب کے لئے لڑنے نہیں آئے ،بلکہ اپنے اہل و عیال مال و اموال اپنے گھروں اور اپنے خزانوں کے تحفظ کے لئے جانوں کی بازی لگانے آئے ہیں ،ان کے دلوں میں ان دنیاوی چیزوں کی اتنی محبت ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک انداز سے لڑیں گے، یہ جنگ معمولی جنگ نہیں ہوگی، تمہیں بڑے ہی مضبوط حوصلے کی ضرورت ہے، تم راہ حق پر جذبہ شہادت لے کر وطن سے نکلے ہو، اور تمہاری ٹکر باطل کی قوتوں سے ہے ،اس لئے اللہ تبارک و تعالی تمہاری مدد کرے گا، ہر وقت اللہ کی مدد کے طلبگار رہو، تمہارے دلوں میں کوئی خوف پریشانی اور وہم نہیں ہونا چاہیے، ہماری تلواریں ان کفار کے خون کی پیاسی ہیں ،یہ ہمارے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوں گے،،،،،،، اگر تم دنیا کے جاہ و جلال کو بھی سامنے رکھوں تو تمہیں ان کفار سے بے انداز مال و دولت حاصل ہوگا، تمہیں اس جہان میں بھی صلہ ملے گا اور اس کا اجر اگلے جہان میں اللہ دے گا،،،،،،،، یہ خیال رکھو کہ جس کسی کو جہاں کہیں بھی کھڑا کیا گیا ہے، اور اسے حرکت کے لیے جو علاقہ دیا گیا ہے وہاں سے وہ نہ ہٹے، ایسا نہ ہو کہ دائیں پہلو کے آدمی بائیں پہلو میں چلے جائیں، یا پہلوؤں کے آدمی قلب میں جا گھسے، صرف اس صورت میں کوئی آدمی اپنی جگہ چھوڑ سکتا ہے کہ وہ کسی کی مدد کرتے ہوئے کسی اور جگہ جا پہنچا ہو،،،،،،،، یاد رکھو فتح نیک اور پرہیز گار کو حاصل ہوتی ہے، اللہ کو وہ لوگ عزیز ہیں جن کا مقصد نیک ہوتا ہے، لڑائی کے دوران آیات قرآنی کا ورد جاری رکھو اور لاحول ولاقوۃ پڑھتے رہو ،
محمد بن قاسم کا خطاب ختم ہوا تو ایک دو آدمی قبیلہ بکر بن وائل اور ایک دو آدمی بنی تمیم کے محمد بن قاسم کے سامنے آن کھڑے ہوئے ۔
خدا کی قسم!،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم لوگ کوئی شکایت لے کر نہیں آئے کہ یہ وقت شکوے اور شکایتوں کا نہیں۔
خدا تجھے فتح و نصرت عطا فرمائے۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ ہم سب سے پہلے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے آئے ہیں، کفار کے لشکر کو دیکھ یہ ہاتھی بدمست کی طرح ہمارے سامنے کھڑا ہے، اور دیکھ کے ان کے ہتھیار کتنے اچھے اور کتنے عمدہ ہیں، یہ بھی دیکھ کے ان کے پاس راجاؤں جیسے ہاتھی ہیں، دشمن کے چہرے کو دیکھ وہ اپنے ہاتھوں اور اپنی زرہ پر کس قدر مسرور ہے، کیا تو ہمیں اجازت نہیں دے گا کہ ہمارے قبیلے سب سے پہلے کفار پر حملہ کریں۔
خدا کی قسم تم مجھے عزیز ہو!،،،،اے بنی تمیم اور اے بنی بکر بن وائل ۔۔۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ تم اپنی پوری طاقت اور ایمان کے جذبے سے کفار کا مقابلہ کرو گے، محمد بن قاسم اپنے لشکر سے مخاطب ہوا ۔۔۔اے اہل عرب!،،،، بنی تمیم اور بنی بکر بن وائل لڑائی کی بسم اللہ کرنے کو بیتاب ہیں، مجھے یقین ہے کہ تم سب انہی کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے لئے بے تاب اور بے قرار ہو۔
ان دونوں قبیلوں کے دستوں نے اللہ اکبر کا ایسا نعرہ لگایا کہ زمین وآسمان ہلتے ہوئے محسوس ہونے لگے، اس نعرے کے بعد تمام لشکر سے نعرے بلند ہونے شروع ہوگئے، اس کا یہ فائدہ ہوا کہ مجاہدین کے لشکر میں اگر کسی کے دل پر خوف و ہراس تھا تو وہ نکل گیا،، گھوڑا ہنہنانے اور زمین پر سُم مارنے لگے، جیسے وہ بھی لڑائی کے لئے بے تاب ہو گئے ہوں، محمد بن قاسم نے ہاتھ بلند کرکے لشکر کو خاموش کرایا۔
اے اہل عرب !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔ خداوند تعالی سے بخشش مانگو اور استغفار کرو، خداوند تعالی نے مسلمانوں کو دو نعمتیں عطا کی ہیں، ایک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ،اور دوسری نعمت یہ کہ اللہ توبہ استغفار کو قبول کرتا ہے، اگر دل کو مضبوط رکھو گے تو خداوند تعالی تمہیں دشمن پر غالب کرے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دونوں فوجوں کے درمیان جا گھوڑا روکا۔ سلیمان بن نبہان اور ابو فضہ قشیری۔۔۔ محمد بن قاسم نے بڑی بلند آواز سے حکم دیا ۔۔۔اپنے ساتھ چالیس سوار لے کر دشمن کے سامنے جاؤ اور دشمن کو للکارو۔
یہ اس زمانے کی جنگوں کا دستور تھا کہ پورے پورے لشکر کے تصادم سے پہلے اس طرح چند آدمیوں کے جیش آگے بھیج کر مقابلہ کرایہ جاتا تھا، ابو فضہ حبشی غلام ہوا کرتا تھا، لیکن تھوڑی ہی عرصہ پہلے اسے آزاد کردیا گیا، اسے نے سلیمان بن نبہان اور چالیس چنے ہوئے سواروں کو ساتھ لیا اور یہ سب مجاہدین نعرے لگاتے ہوئے بڑی تیزی سے دشمن کی طرف بڑھے۔
راجہ داہر نے اپنے دو تین سواروں کو کچھ نفری دے کر مسلمانوں کے خلاف جیش کے مقابلے کے لئے آگے بھیجا ،داہر خود بھی اپنے ہاتھی پر سوار ہو کر مسلمانوں کے خلاف جیش کے مقابلے کے لئے آگے بڑھا۔ مسلمانوں کے سالار نے دھماکے کی طرح نعرہ تکبیر بلند کیا ،تو ایک طرف ہاتھی سواروں نے باطل کا نعرہ بلند کیا، جیش کے چالیس سواروں نے دوبُدو معرکے کی بجائے ایسی چال چلی کے گھوم کر دشمن کے سواروں کے عقب میں چلے گئے، ایک طرف سے ابو فیضہ نے اور دوسرے پہلو سے سلیمان بن نبہان نے اکیلے اکیلے اتنا تیز حملہ کیا کہ جو کوئی اس کے سامنے آیا وہ ان کی تلواروں سے کٹ کر گرا ،تڑپا ،اور مرا۔
مجاہدین نہایت پھرتی سے ایسی چال چل گئے تھے کہ داہر کے سوار بوکھلا گئے اس کے کی سوار گر چکے تھے باقی جو بچے وہ بھاگ کر اپنے لشکر میں جا گھسے، ابو فضہ میدان میں گھوڑا دوڑاتا دشمن کو للکار رہا تھا، داہر نے سواروں کا ایک اور جیش جس میں دو تین ٹھاکر بھی تھے آگے کیا ،ابو فضہ صحیح معنوں میں آسمانی بجلی بنا ہوا تھا اس نے داہر کے سواروں کو سنبھلنے کی یا لڑائی کی پوزیشن میں آ نے کی مہلت ہی نہ دی اور ان پر ٹوٹ پڑا ،اس جارحانہ قیادت کا اس کے سواروں پر ایسا اثر ہوا کہ وہ آگ کے بگولے بن گئے ابو فضہ کے ساتھ سلیمان بن نبہان بھی تھا اس کی پھرتی بھی کچھ کم نہ تھی، لیکن ابو فضہ کی بے خوفی بے مثال تھی۔
داہر کے اس سوار جیش کا انجام وہی ہوا جو پہلے جیش کا ہوا تھا، اب کے داہر نے تیسرا سوار جیش آگے کیا جس کی نفری خاصی زیادہ تھی، تاریخ میں یہ اعدادوشمار نہیں ملتے کہ ان چالیس مسلمان سواروں میں سے کتنے زخمی اور شہید ہوئے، البتہ یہ بالکل واضح ہے کہ یہی سوار داہر کے تینوں سوار جیشوں سے لڑے اور انہوں نے دشمن کے تیسرے جیش کو بھی پہلے جیشوں کی طرح کاٹا اور جو بچ نکلے وہ بھاگ کر اپنے لشکر میں جاگھسے۔
مسلمانوں کی صفوں میں داد و تحسین اور فتح و نصرت کے نعرے بلند ہونے لگے، یہ تو گھٹاؤں کی گرج اور بجلی کی کڑک تھی دشمن کے سپاہ پر ان نعروں کا اور اپنے سواروں کے تین جیشوں کے انجام کا نفسیاتی اثر ضرور پڑا ہوگا، ابو فضہ قشیری داہر کے لشکر کے قریب جا جا کر للکار رہا تھا ۔
وہ گھوڑا دوڑاتا اور دشمن کو للکارتا تھا۔
آگے آؤ بت پرستوں!،،،،،، ابو فضہ نے داہر کے سواروں کی بکھری ہوئی لاشوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔ اپنے ان مردوں کو اٹھانے آؤ،،،،،ہمت کرو،،،،،، آؤ،،، اٹھاؤ،،، انہیں اور ان کے گھوڑے لے جاؤ ،،،داہر کے مرے ہوئے سواروں اور گرے ہوئے زخمیوں کے گھوڑے میدان میں گھوم پھر رہے تھے محمد بن قاسم نے اپنے چند سوار آگے بھیجے کے دشمن کے گھوڑوں کو پکڑ لائیں، اس طرح دشمن کے متعدد گھوڑے مجاہدین کے پاس آگئے اور انہیں پیچھے بھیج دیا گیا۔
سندھ کی دھرتی کے سپوتوں !،،،،،،راجہ داہر نے چلا کر کہا ۔۔۔ان اسلامیوں کو دائیں اور بائیں سے گھیر کر کاٹ دو، میں ان کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
داہر کے پاس لشکر اتنا زیادہ تھا کہ وہ اپنے پہلوؤں کے دستوں کو اور زیادہ پھیلا کر دائیں اور بائیں سے حملہ کرا سکتا تھا، اس کا حکم ملتے ہی اس کے پہلوؤں کے دستے پھیلنے لگے ،اور سامنے والے دستوں نے محمد بن قاسم کے درمیان والے دستوں پر حملہ کردیا، محمد بن قاسم نے اپنے دونوں پہلوؤں کے سالار جہم بن جحر جعفی اور ذکوان بن غلوان بکری کو حکم دیا کہ وہ دائیں اور بائیں کو اتنا زیادہ پھیل جائیں کہ دشمن ان کے پہلوؤں پر نہ آ سکے۔
راجہ داہر کے لشکر کا حملہ دراصل وسیع پیمانے کا ہلّہ (چارج) تھا اس نے کوئی چال نہیں چلی تھی اسے توقع تھی کہ وہ اپنی تعداد کی زیادتی اور ہاتھیوں کی بدولت مسلمانوں پر غالب آجائے گا ۔ لیکن محمد بن قاسم نے اپنے دماغ کو حاضر رکھا اور اپنے دستوں کو جنگی فہم وفراست کے مطابق استعمال کیا۔
اے اہل عرب !،،،،،،،،،لڑائی کے شوروغل اور قیامت خیزی میں محمد بن قاسم کی للکار سنائی دی۔۔۔ کفار کا لشکر بکھر گیا ہے ،اس کی کوئی ترتیب نہیں رہی انہیں چن چن کر ختم کرو۔
اپنے سالار کی للکار سن کر مجاہدین میں نیا حوصلہ اور ولولہ پیدا ہو گیا ،انہوں نے اپنی صفوں میں انتشار پیدا نہ ہونے دیا ،سالاروں نے دشمن کی بے ترتیبی سے فائدہ اٹھایا دشمن کو زرہ بھی کوئی فائدہ نہ دے سکی مجاہدین نے پہلوؤں کے دستے اتنا زیادہ باہر کو نکال دیے کہ آسانی سے دشمن کے پہلوؤں سے آگے چلے گئے اور اسکی منتشر اور بے ترتیب سپاہ پر ہلہ بول دیا۔
جن مؤرخوں نے اس معرکے کی تفصیلات لکھی ہیں وہ متفقہ طور پر بیان کرتے ہیں کہ راجہ داہر نے باؤلے پن کی کیفیت میں یہ حملہ کرایا تھا، اس کا لشکر سوار اور پیادہ بری طرح کٹنے اور مجاہدین کی برچھیوں سے چھلنی ہونے لگا ،اس ابتر کیفیت میں داہر اپنے ہاتھیوں کو صحیح اور کارگر طریقے سے استعمال نہ کر سکا ،ہاتھیوں کے آگے اس کے اپنے ہی گھوڑسوار آ جاتے اور ان کے لئے رکاوٹ بنتے تھے۔
پھر ایسے ہوا کہ داہر کا لشکر پسپا ہونے لگا، یہ صورتحال داہر کے لیے قطع ناقابل برداشت تھی ،وہ بہت پیچھے تھا اور اس نے محفوظہ (ریزور)میں زیادہ تعداد والے اور سوار دستے رکھے ہوئے تھے، اس نے ان میں سے چار سو سوار منتخب کیے اور انہیں اپنے ساتھ لے کر میدان جنگ میں داخل ہوا ،سوار زرہ پوش تھے ان کے پاس تلواریں اور لمبی برچھیاں تھیں، اور ان کے پاس ڈھالیں بھی تھیں، داہر اپنے ہاتھی پر سوار تھا، جس سے تاریخوں میں سفید ہاتھی کہا گیا ہے، داہر کے ہاتھ میں گوپھن تھی جس میں وہ دونوں طرف سے نوکیلے اور ٹیڑھے تیر پھینک رہا تھا یہ تلوار نما یہ مجاہدین کو کاٹنے لگے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے ہاتھیوں کے مقابلے کے لئے الگ الگ جیش مقرر کررکھے تھے اور اس نے راجہ داہر کے ہاتھی کو گھیر کر مارنے کا کام چار مجاہدین کے سپرد کیا تھا لیکن وہ چاروں کہیں اور الجھ گئے تھے، داہر کے چار سو سواروں نے داہر کے ہاتھی کو اپنے حصار میں رکھا ہوا تھا، یہ کریک ٹروپ تھا جو اپنے راجہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے غیر معمولی بہادری کے مظاہرے کر رہا تھا۔ مجاہدین کا جانی نقصان بڑھ گیا۔
میدان جنگ میں دشمن کی طرف سے اعلان ہونے لگے۔۔۔ مہاراج میدان میں آگئے ہیں،،،، مہاراج ہمارے ساتھ ہییں،،،مہاراج عرب کی فوج کو کاٹ رہے ہیں،،، ہندو فوجیوں نے داہر کو میدان میں دیکھ بھی لیا اس سے ان کے گرتے ہوئے حوصلے پھر تازہ ہو گئے، مجاہدین کو شدید مزاحمت کا سامنا ہونے لگا ۔
اس صورتحال میں مجاہدین کی فوج کا سوار شجاع حبشی گھوڑا دوڑاتا محمد بن قاسم کے پاس آیا۔
سالار محترم!،،،،،،، شجاع حبشی نے کہا ۔۔۔داہر اور اس کے ہاتھیوں کو زخمی کرنے تک مجھ پر کھانا پینا اور سونا حرام ہے ،میں داہر کا سر کاٹ کر لاؤں گا یا شہید ہو جاؤں گا۔
اس نے پروا ہی نہیں کی کہ اس کا سالار کیا کہتا ہے اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور قیامت خیز معرکے میں گم ہو گیا۔
محمد بن قاسم کے سواروں نے داہر کے ان چار سو سواروں کا مقابلہ شروع کر دیا تھا۔ شجاع حبشی کو داہر کے ہاتھی تک پہنچنے کا موقع مل گیا، لیکن اس کا گھوڑا ہاتھی کو دیکھ کر بدک گیا ،شجاع گھوڑے کو دوسری طرف سے لے گیا اور اسے پھر ہاتھی کی طرف لایا، پھر گھوڑے نے ہاتھی کے قریب جاکر خود ہی رخ بدل لیا اور دور نکل گیا،
داہر کے سواروں کو مسلمان سواروں نے الجھا لیا تھا اس لئے داہر کے ہاتھی کی طرف اسکی توجہ نہیں رہی تھی، شجاع حبشی کے سر پر پگڑی تھی اس نے پگڑی اتاری اور گھوڑے کو روک لیا گھوڑے کے آگے ہو کر اس نے پگڑی گھوڑے کی آنکھوں پر باندھ دی اب گھوڑا لگام کے اشاروں پر چلنے اور دائیں بائیں مڑنے لگا۔
شجاع حبشی گھوڑے کو پیچھے سے ہاتھی کے قریب لے گیا اور تلوار کا بھرپور وار کرکے ہاتھی کی سونڈ کاٹ ڈالی ،سونڈ پوری نہ کٹی البتہ زخم گہرا تھا ، شجاع حبشی ہاتھی سے دور ہٹ گیا ،دوسرے وار کے لیے گھوڑے کو موڑنے لگا داہر نے اس پر اپنا مخصوص تیر پھینکا جو شجاع کی گردن پر لگا گردن کٹ گئی اور سر ایک طرف ڈھلک گیا، شجاع حبشی گھوڑے سے گرا اور شہید ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میدان جنگ کی صورتحال میں اچانک تبدیلی آگئی ،یہ شاید راجہ داہر کی للکار سے آئی یا اس کے کمانڈروں نے مسلمانوں سے بچنے کے لئے آخری ہلہ بولا ،مسلمان نو دنوں سے مسلسل لڑ رہے تھے، داہر نے اپنے لشکر کا خاصا حصہ بچا کر رکھا ہوا تھا، وجہ کچھ بھی ہو ، یہ کہ جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا، داہر نے اپنے محفوظہ کے سوار دستوں کو بھی حملے کا حکم دے دیا، ہندوؤں کا حملہ اتنا شدید تھا کہ مجاہدین کے قدم اکھڑ گئے ،ترتیب درہم برہم ہو گئی، پھر ان میں کھلبلی مچ گئی ان کے لئے زیادہ دشواری ہاتھیوں نے پیدا کر رکھی تھی، داہر اپنے مخصوص تیر بڑی تیزی سے پھینک رہا تھا ،ان کی ہلاکت خیزی نے مجاہدین پر خوف و ہراس طاری کر دیا تھا اور وہ اپنے سالاروں کے احکام سننے سے قاصر ہوگئے۔
مجاہدین اسلام!،،،،،، محمد بن قاسم نے بڑی ہی بلند آواز میں کہا ۔۔۔میں تمہارا سپہ سالار محمد بن قاسم زندہ ہوں، تمہارے ساتھ ہوں، لڑ رہا ہوں، پیٹھ نہ دکھانا اپنے دلوں سے خوف اتار دو۔
معصومی نے لکھا ہے کہ موکو دسایو کا بیٹا جس نے محمد بن قاسم کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا تھا اپنے آدمیوں کے ساتھ آگیا۔ موکو کو معلوم تھا کہ داہر نے مسلمانوں کو شکست دے دی تو وہ اسے گرفتار کرکے قتل کرادے گا ،اس کی نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ مسلمانوں کی مدد کرے۔
محمد بن قاسم تو بہت ہی پریشان ہو گیا تھا اس نے موکو کو دیکھا تو اس کے دل کا سہارا ملا وہ ایک بار پھر اپنے لشکر کو للکارنے لگا۔
خریم بن عمرو مدنی کہاں ہو؟،،،،، اس نے پکارا ۔۔۔ذیلی محمد بن مصعب کہاں ہو،،،، نباۃ بن حنظلہ کلابی ،،،،دارس بن ایوب کہاں ہو،، محمد بن زیاد عبدی،،، تمیم بن زید کہاں ہو،،،، میرے ساتھیوں،،،، میرے عزیزو ،،،،میرے تیغ زن کہاں ہیں ،،،میرے محافظ ،،،،،،میرے تیر انداز کدھر گئے ،،،،،،تم اسلام کے محافظ ہو،،،،،، میرے سالاروں!،،،،، سب کا حوصلہ بڑھاؤ۔
اس پکار اور للکار کا کچھ اثر ہوا ،مسلمانوں کو کمک تو کہیں سے بھی نہیں مل سکتی تھی لیکن موکو اپنے علاقے کے بہت سے آدمی لے کر آگیا تو یہی کمک کافی تھی، محمد بن قاسم اور دوسرے سالاروں نے مجاہدین کو یکجا کرنا شروع کردیا اور انہیں ذرا پیچھے لے آئے، زوردار حملے کا حکم دیا اور موکو بھی اپنے آدمیوں کے ساتھ اس حملے میں شامل ہوگیا۔
ہندوؤں نے جم کر مقابلہ کیا لیکن زیادہ دیر جم نہ سکے، لڑائی بہت ہی خون ریز تھی، محمد بن قاسم نے اپنے سالار وغیرہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہندو فوج بھاگ گئی تو اس کے سامنے پورا ملک ہند ہے جہاں بھی جائیں گے انھیں پناہ بھی مل جائے گی اور مدد بھی لیکن ہمیں سوائے موت کے کوئی بھی پناہ نہیں دے گا سارا ملک کفار کا ہے، چنانچہ مسلمانوں نے آخر میں جو ہلہ بولا وہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا۔
یہ معرکہ جیتنے کے لئے محمد بن قاسم نے وہ ہتھیار بھی استعمال کیا جو میدان جنگ میں اور خاص طور پر گھمسان کی لڑائی میں استعمال نہیں کیا جاتا تھا ،نہ استعمال ہوسکتا تھا، یہ ہتھیار منجنیقیں ہیں، ان میں پتھر ڈالے جاتے ہیں پھر انہیں کھینچا جاتا اور جب چھوڑا جاتا تو پتھر آگے دور تک چلے جاتے تھے، مگر یہ لڑائی جو لڑی جا رہی تھی یہ گتھم گتھا قسم کی لڑائی تھی اپنی منجنیقوں کے پتھر اپنے ہی آدمیوں اور گھوڑوں کو تباہ کر سکتے تھے، منجنیقیں محاصرے میں لیے ہوئے قلعے کے دیوار پر پتھر پھینکنے کے لئے بنائی گئی تھیں محمد بن قاسم نے منجنیقیں چلانے والوں سے کہا کہ وہ چھوٹی منجنیقوں سے ہاتھیوں پر پتھر پھینکیں، یا وہاں پتھر پھینکے جہاں دشمن کے سواروں کا جمگھٹا نظر آئے،
پیچھے سے چھوٹی منجنیقیں لائی گئیں اور پتھر پھینکے جانے لگے، لیکن مجاہدین نے شوروغل کیا کہ سنگ باری روک دی جائے، ان سے مجاہدین بھی خطرے میں آگئے تھے۔
ابن حوقِل جو مؤرخ ہے، جس نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کو جلدی ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور اس نے سوچا کہ تمام ہدف متحرک ہے اور حرکت بھی اتنی تیز کہ پتھر چھوڑتے چھوڑتے اصل ہدف سے نکل جاتا ہے اور اپنے آدمی زد میں آ جاتے ہیں، سنگ باری ساکن ہدف پر کی جاتی تھی، محمد بن قاسم نے سنگ باری روک دی لیکن جو پتھر پھینکے جا چکے تھے ان سے ہندوؤں پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ، پتھروں کی زد میں خواہ مجاہدین ہی آئے لیکن ہندوؤں کے لئے منجنیقیں دہشت ناک چیز تھی ، دیبل کا مندر ایک منجنیق نے ہی توڑا تھا، اب اروڑ کے میدان میں بھی منجنیقوں نے دشمن کو نفسیاتی نقصان پہنچایا ، سنگباری رکنے کے باوجود راجہ داہر کا لشکر خوفزدہ رہا۔
متعدد ہاتھی بری طرح زخمی ہو کر بے قابو ہوگئے تھے وہ چیختے چنگھاڑتے پھرتے تھے، انکے لئے اپنے اور پرائے کی پہچان ختم ہوگئی تھی، ابھی کئی ہاتھی صحیح سلامت تھے محمد بن قاسم نے ان پر آگ کے تیر چلانے کا حکم دیا ،تیر اندازوں نے آگ برسانی شروع کی تو کئی ایک ہاتھیوں کے ہودے جل اٹھے، ان میں سے آدمی اور مہاوت بھی کود آئے مجاہدین نے ان ہاتھیوں کو تلواروں اور برچھیوں سے کاٹا، ہاتھیوں کو مجاہدین نے پکڑنے کی کوشش نہ کی کیونکہ اسے وہ کام کی چیز نہیں سمجھتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہندو پسپائی کے لیے لڑ رہے تھے لیکن پسپائی خودکشی کی کامیاب کوشش تھی ،وہ کٹ رہے تھے یہ صورتحال دیکھ کر راجہ داہر نے اپنے مہاوت سے کہا کہ وہ ہاتھی کو لڑائی کے اندر لے چلے۔
اب داہر زندگی اور موت کا معرکہ لڑنے آیا وہ دائیں بائیں اپنے مخصوص تیر بھی پھینکتا اور جہاں پرچھی کی ضرورت سمجھتا وہاں برچھی پھینکتا تھا ، مورخ لکھتے ہیں کہ اس پر دیوانگی طاری ہو گئی تھی اس کا جسم تیز چلنے والی مشین کی طرح متحرک تھا، اس کے بازو مشینی تیزی سے تیر اور برچھیاں پھینک رہے تھے، دو بڑی حسین کنیزیں اسے شراب پیش کرتی تھیں لیکن تیز حرکت کرنے والے ہاتھی کے ہودوں میں پاؤں پر کھڑا نہیں رہا جاسکتا جام چھلکتے تھے اور کنیزیں گرگر کر اٹھتی تھیں، داہر ان کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔
محمد بن قاسم کے تیر اندازوں نے اسی ہاتھی کو نشانہ بنانا شروع کردیا داہر اکیلا ان کا مقابلہ کر رہا تھا، ایک آتشی تیر اس کے ہودے میں لگا اور ہودے کو آگ لگ گئی ہاتھی کی پیٹھ پر ریشمی چادر پڑی ہوئی تھی جو اس کے گھٹنوں تک لٹکی ہوئی تھی اس چادر کو بھی آگ لگ گئی، فیل بان ہاتھی سے کود گیا لیکن داہر ہودے میں موجود رہا جیسے وہ اپنے آپ کو زندہ جلا دینا چاہتا ہو۔
دونوں کنیزوں کی چیخیں سنائی دینے لگی وہ زندہ جلنے لگی تھیں لیکن داہر نے دونوں کنیزوں کو اٹھا کر ہودے سے نیچے پھینک دیا کسی مسلمان پیادے نے انہیں دوڑتے گھوڑوں سے بچانے کے لئے پکڑ لیا اور میدان جنگ سے باہر لے جا کر ادھر بھیج دیا جہاں مجاہدین کی خواتین زخمیوں کی مرہم پٹی کر رہی تھیں۔
ہاتھی آگ کی لپیٹ میں تھا قریب ہی جھیل تھی، اپنی قدرتی حِس نے ہاتھی کا رخ جھیل کی طرف کردیا، وہ دوڑتا ہوا جھیل میں اتر کر بیٹھ گیا ،مجاہدین نے ہاتھی اور داہر پر تیر چلائے، ہاتھی بڑے آرام سے سونڈ میں پانی بھر بھر کر اپنے منہ میں ڈالتا رہا کبھی وہ سونڈ میں پانی بھر کر اپنے جسم پر چھڑک دیتا۔
سورج غروب ہو چکا تھا داہر ہاتھی سے جھیل میں اتر گیا اور دوسرے کنارے تک جا پہنچا، اسے چند ایک مجاہدین نے گھیر لیا داہر نے تلوار نکالی اور اکیلے ان سب کا مقابلہ کیا آخر ایک مجاہد کی تلوار پیچھے سے اس کی گردن پر پڑی جس سے گردن کٹ گئی لیکن جسم سے الگ نہ ہوئی۔
داہر کو ہلاک کرنے والے مجاہد کا نام قاسم بن ثعلبہ بن عبداللہ بن حصین تھا ، وہ قبیلہ بنو طے کا آدمی تھا، ایک روایت یہ ہے کہ داہر کو بنی کلاب کے ایک آدمی نے قتل کیا تھا۔
لیکن فتوح البلدان میں ابن کلبی کے حوالے سے تحریر ہے کہ داہر کو قاسم بن ثعلبہ نے ہلاک کیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا دسویں کا چاند تو روشن تھا لیکن میدان جنگ کا غبار اتنا زیادہ تھا کہ چاندنی بجھی بجھی سی لگتی تھی، راجہ داہر کی جنگی قوت کچلی جا چکی تھی، اس کی بچی کھچی فوج راوڑ کے قلعے میں جا رہی تھی، محمد بن قاسم نے دو تین سالاروں کو حکم دیا کہ وہ راوڑ کے قلعے میں داخل ہو جائیں ایسا نہ ہو کہ بھاگے ہوئے کفار قلعہ بند ہوجائیں اور ہمیں ایک اور لڑائی لڑنی پڑے۔
محمد بن قاسم کے چند ایک دستے گھوڑے سرپٹ دوڑاتے قلعے کی طرف گئے، قلعے کے دروازے کھلے ہوئے تھے کیونکہ میدان جنگ سے بھاگے ہوئے سپاہی آ رہے تھے، انہیں قلعے میں ہی پناہ مل سکتی تھی۔ مسلمانوں کے سوار دستے بھی قلعے میں داخل ہوگئے، محمد بن قاسم صبح کے وقت قلعے میں داخل ہوا اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ داہر مارا جاچکا ہے، اس نے حکم دیا کے معلوم کرو داہر کہاں ہے، یا وہ کس انجام کو پہنچا ہے۔
یہ کام شعبان ثقفی کا تھا اس نے پتہ چلا لیا کہ داہر جھیل کے کنارے مارا گیا تھا، وہاں جا کے دیکھا تو لاش وہاں نہیں تھی، کسی نے بتایا کہ راوڑ کے مندر کے بڑے پنڈت کو اس طرف جاتے دیکھا گیا تھا جہاں قتل ہوا تھا۔ شعبان ثقفی نے اس پنڈت کو بلا کر پوچھا کہ وہ وہاں کیوں گیا تھا؟
ہم نے آپ لوگوں کی رحمدلی کے بہت قصّے سنے ہیں۔۔۔ پنڈت نے کہا۔۔۔ میں سچ بولوں گا اس کے عوض مجھ پر یہ کرم کریں کہ مجھے اور میری بیوی بچوں کو امان دے دیں۔
امان دے دی۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔بولو۔
مجھے رات کو بتایا گیا تھا کہ مہاراج داہر مارے گئے ہیں۔۔۔ پنڈت نے کہا۔ ۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ لاش کو کہاں اور کس طرح جلایا جائے، آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم لوگ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں یہ تو راجہ کی لاش تھی اسے ایک عام لاش کی طرح تو نہیں جلانا تھا، لیکن آپ کی فوج وہاں موجود تھی، میں نے کہا کہ لاش کو یہی کیچڑ میں دبا دو جب مسلمان آگے چلے جائیں گے تو لاش کو پورے احترام اور اعزاز کے ساتھ جلائیں گے،،،،،،،، چلیئے لاش دیکھ لیں۔
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو اطلاع دی محمد بن قاسم خود وہاں گیا اور کیچڑ سے لاش نکلوائی، داہر کے چہرے پر بھی زخم تھے جن سے چہرہ بگڑ گیا تھا ،ایک روایت یہ ہے کہ داہر سر سے ننگا تھا اس کے سر پر اتنی زیادہ طاقت سے تلوار ماری گئی تھی کہ اس کی کھوپڑی اوپر سے نیچے گردن تک کٹ گئی تھی۔
راجہ داہر کی دونوں کنیزوں کو بھی بلا کر لاش دکھائی گئی انہوں نے تصدیق کی کہ یہ داہر کی ہی لاش ہے۔
اس کا سر کاٹ لو ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔ یہ سر حجاج بن یوسف کے پاس بھیجا جائے گا۔
سر کاٹ لیا گیا۔
اس کا بیٹا جے سینا کہاں ہے؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
وہ پہلے ہی بھاگ گیا تھا۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔وہ برہمن آباد پہنچ چکا ہوگا ، جے سینا برہمن آباد پہنچ کر محمد بن قاسم کی پیش قدمی روکنے کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم دہشت کا دوسرا نام بن گیا تھا، قدیم تحریروں میں جو غالبا کسی تاریخ میں شامل نہیں ہوتی اس وقت کی غیر مسلم دانشورں کی ایک نہایت اچھی مثال ملتی ہے، اس کے الفاظ کچھ اس قسم کے ہیں کہ سانپ جب چوہے کو پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگتا ہے تو چوہا دوڑ نہیں سکتا ،سانپ کی دہشت سے چوہے کی قوت مفلوج ہو جاتی ہے، اس نے لکھا کہ کسی قلعے میں اطلاع پہنچی تھی کہ محمد بن قاسم کی فوج قلعے کا محاصرہ کرنے آرہی ہے تو اس قلعے کی فوج دم بخود ہو جاتی تھی اور قلعہ دار کوئی ایسی جنگی چال سوچنے کے قابل نہیں رہتا تھا جسے محمد بن قاسم کو قلعے تک پہنچنے سے پہلے روک لیا جاتا ، یا محاصرہ توڑا جاسکتا، تمام فوج میں خوفزدگی کا عالم طاری ہوجاتا تھا، انہیں میں رہنے والے غیر فوجیوں یعنی شہریوں کی حالت اس سے بھی زیادہ بری ہو جاتی تھی۔
دہشت زدگی کی یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوئی تھی جب محمد بن قاسم نے دریائے سندھ کے مشرقی علاقے کے تقریباً تمام قلعے لے لیے تھے، لیکن محمد بن قاسم کی فوج جب مفتوحہ قلعے میں داخل ہوتی تھی تو صرف ایک ہی دن گزرنے کے بعد فوجیوں اور شہریوں کو خوفزدگی سے نجات مل جاتی تھی، یہ محمد بن قاسم کے احکام اور حسن سلوک کے اثرات تھے ،مفتوحہ لوگوں کو یہ توقع ہوتی تھی کہ ہر فاتح بادشاہ کی طرح محمدبن قاسم بھی فوجیوں اور شہریوں کا قتل عام کرے گا ،لوٹ مار ہوگی اور جوان عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں چلی جائیں گی۔
ہندو تاریخ نویسوں نے محمد بن قاسم پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ کسی کی جان بخشی نہیں کرتا تھا ،یہ غلط نہیں لیکن وہ صرف ذمہ دار افراد کو سزا دیتا تھا اور یہ سزا موت ہوتی تھی بغاوت کرنے والوں بغاوت پر اکسانے والوں اور بلاضرورت مزاحمت کرنے والوں کے لئے، محمد بن قاسم کے پاس سزائے موت سے کم کوئی سزا نہیں تھی جیسا کہ پہلے کئی مقامات پر بیان ہوچکا ہے کہ اسلام کا یہ کمسن مجاہد مفتوحہ شہر میں داخل ہو کر سب سے پہلے شہریوں کی عزت جان اور مال کی حفاظت کا حکم دیتا تھا ،حکم دینے کی ضرورت بھی نہیں تھی یہ حکم تو مسلمان فاتحین کے لیے ایک آئین کی حیثیت رکھتا تھا، اور اسے خدا کا حکم سمجھا جاتا تھا۔ جب اس حکم پر عمل ہوتا تھا تو مفتوحہ لوگوں کے دلوں سے دہشت اتر جاتی اور اس کی جگہ محبت پیدا ہوجاتی اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ کئی ہندو اسلام قبول کرلیتے۔
راجہ داہر کو شکست دے کر اور اس کی لاش سے اس کا سر کاٹ کر جب محمد بن قاسم راوڑ کے قلعے میں داخل ہوا تو اس کے ان جاسوسوں نے جنہیں شعبان ثقفی نے پہلے ہی قلعے میں داخل کردیا تھا محمد بن قاسم کو اپنی رپورٹیں پیش کیں، وہاں چند ایک ہندو فوجی افسر تھے جو میدان جنگ سے بھاگے ہوئے سپاہیوں کو مسلمانوں کی فوج پر جوابی حملہ کرنے کے لئے تیار کر رہے تھے اور اس کے ساتھ شہریوں کو بھی بھڑکا رہے تھے کہ وہ لڑنے کے لئے فوجیوں کے ساتھ ہو جائیں، ان میں سے دو تین افسر ایسے بھی تھے جنہوں نے میدان جنگ سے بھاگے ہوئے جے سینا کو راوڑ میں نہیں ٹھہرنے دیا تھا اور اسے کہا تھا کہ وہ برہمن آباد چلا جائے اور محمد بن قاسم کے مقابلے کے لئے فوج تیار کرے، برہمن آباد سے چند ایک ٹھاکر اسی سلسلے میں راوڑ آئے تھے۔
شعبان ثقفی نے ان تمام فوجی افسروں، ٹھاکروں، اور دو پنڈتوں کو بھی جنہوں نے مذہب کا واسطہ دے کر لوگوں کو جنگ کے لئے اکسایا تھا ایک جگہ اکٹھا کر لیا، اس نے فوجیوں اور شہریوں سے تفتیش کی کہ جنگ کی تیاری کرنے والے اور کون کون تھے اس طرح کچھ اور آدمی پکڑے گئے۔
محمد بن قاسم نے ان سب کو قتل کروا دیا لیکن یہ حقیقت تاریخوں میں محفوظ ہے کہ جو شہری اور فوجی لڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے تھے انہیں محمد بن قاسم نے معاف کر دیا۔ تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ اسلام کے اس کمسن سالار نے تجارت پیشہ اور کسی ہنر مند کو اور کسی کسان کو سزائے موت نہ دی۔۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>