⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴چھبیسویں قسط 🕌


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴چھبیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تو کس کی ماں ہے؟،،،، زخمی نے بڑھیا سے پوچھا۔
اس وقت میں ان تمام زخمیوں کی ماں ہوں جنہوں نے عرب کی لاج رکھنے کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔۔۔ بڑھیا نے جواب دیا۔۔۔ اور پوچھا تجھے یہ خیال کیوں آیا ہے کہ میں کسی اور کی ماں ہوں؟
تو میری بھی ماں ہے۔۔۔ زخمی نے کہا ۔۔۔میری ماں ہوتی تو وہ ایسے ہی پیار سے مجھے پانی پلاتی، مجھے کوئی اور خیال آ گیا تھا ،،،،،تو اس عمر کو پہنچ گئی ہے کہ اب ہمیں تمہاری خدمت کرنی چاہیے۔
تیرا قبیلہ کونسا ہے؟،،،، بڑھیا نے پوچھا۔
میں بنو امیہ میں سے ہوں۔۔۔ زخمی نے جواب دیا۔۔۔۔اور تو؟
میں علافیوں میں سے ہوں۔۔۔ بڑھیا نے جواب دیا۔
علافی!،،،، زخمی نے چونک کر پوچھا ۔۔۔کیا ہمارے لشکر میں کوئی علافی قبیلے کا آدمی بھی ہے جس کی تو ماں ہے؟
نہیں!،،،، بڑھیا نے جواب دیا۔۔۔ علافی قبیلے کا کوئی آدمی بنو امیہ کے لشکر میں نہیں ہوسکتا، ہو بھی کیسے سکتا ہے دشمنی دلوں میں گہری اتر گئی ہے۔
پھر تو یہاں کیسے پہنچ گئی ہے؟،،،، زخمی نے کہا ۔۔۔علافی تو باغی ہیں وہ سب یہاں آگئے تھے اور راجہ داہر کی پناہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
میں اکیلی نہیں آئی ۔۔۔بڑھیا نے جواب دیا ۔۔۔چار عورتیں اور بھی آئی ہیں، ہم تمہارے لشکر کے ساتھ عرب سے نہیں آئیں، ہم مکران سے آئی ہیں۔
تم نے یہ دریا کس طرح پار کیا ہے؟
کیا کشتیوں کا پل نہیں بنا تھا؟،،، بڑھیا نے کہا۔۔۔ ہم اس پل سے آئی ہیں، کسی نے نہیں روکا۔
میں تیرے ہاتھ سے پانی نہیں پیونگا۔۔۔ زخمی نے کہا ۔
اتنے میں محمد بن قاسم خیمے میں داخل ہوا، زخمی نے بڑھیا سے کہا کہ وہ اٹھ جائے سپہ سالار محمد بن قاسم آگیا ہے، اسے پتہ نہ چلے کہ تو علافی قبیلے کی ہے۔
بوڑھیا اٹھ کھڑی ہوئی اس نے محمد بن قاسم کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ماتھے کوچوما۔
قاسم کے بیٹے!،،،،، بڑھیا نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ کیا تو بھول چکا ہے کہ تیرے باپ دادا بنوثقیف میں سے تھے، کیا بنو امیہ کا نمک تیرے خون میں اتنا زیادہ شامل ہو گیا ہے کہ تو نے اپنے لشکر میں علافیوں کی ایسی دشمنی پیدا کر رکھی ہے کہ یہ زخمی میرے ہاتھ سے پانی بھی قبول نہیں کر رہا۔
محمد بن قاسم کے پوچھنے پر بڑھیا نے اسے بتایا کہ وہ علافی قبیلے کی عورت ہے، اور یہاں تک کس طرح پہنچی ہے۔
تو نہیں جانتا ہے قاسم !،،،،بڑھیا نے کہا۔۔۔ تو نہیں جانتا کہ علافیوں کی عورتیں کس طرح ہماری فتح کی دعائیں مانگ رہی ہیں، ذرا سوچ کے میں اس عمر میں یہاں تک کس طرح پہنچی ہونگی ،اور تجھے دیکھنے کی بڑی خواہش تھی، میں تیری آنکھوں میں خالد بن ولید ، سعد بن وقاص ،ابوعبیدہ بن جراح اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ رہی ہوں،،،،، اپنے اس زخمی مجاہد سے کہہ کہ میرے ہاتھ سے پانی پی لے میں نے اس میں زہر نہیں ملایا ہے۔
میں علافیوں کو اپنا دشمن نہیں دوست سمجھتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے احترام سے بڑھیا سے کہا۔۔۔ اس زخمی کو معلوم نہیں کہ علافی کس طرح ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔
محمد بن قاسم نے خشمگیں نگاہوں سے زخمی کی طرف دیکھا، زخمی ان نگاہوں کو سمجھ گیا ،اتنا زیادہ زخمی ہونے کے باوجود وہ اٹھ بیٹھا اور اس نے دونوں ہاتھ بڑھیا کی طرف پھیلا دیے، بڑھیا نے اس کے قریب بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے اسے پانی پلایا۔
قبیلے ایک دوسرے کے دشمن ہو سکتے ہیں۔۔۔ بڑھیا نے کہا ۔۔۔لیکن یہ دشمنی اسلام کا رشتہ نہیں توڑ سکتی، جس روز یہ رشتہ ٹوٹ گیا اس روز اسلام بھی ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح طلوع ہوئی تو دور دور تک راجہ داہر کے فوجیوں کی لاشیں بکھری نظر آنے لگی، ان میں سے کوئی فوجی اٹھنے کی کوشش کرتا اور پھر گر پڑتا تھا ،شہیدوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا گیا تھا اور مجاہدین ان کی قبریں کھود رہے تھے، سب کا مشترکہ جنازہ پڑھا گیا اور عرب کے یہ سرفروش سندھ کی ریت میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو گئے۔
محمد بن قاسم نے حجاج کے نام خط لکھوایا، جس میں اس نے اس پہلے کھلے معرکے کی تفصیل لکھی، اور اسے اس پہلی فتح کی خوشخبری سنائی، اس سے پہلے محمد بن قاسم نے قلعے فتح کیے تھے، یہ پہلی جنگ تھی جو کھلے میدان میں لڑی گئی تھی۔
قاصد کو خط دے کر محمد بن قاسم نے کہا کہ کہیں ر کے بغیر یہ خط حجاج بن یوسف تک لے جائے۔
حسب معمول ساتویں دن حجاج بن یوسف کا خط اسی قاصد کے ذریعہ آگیا ،حجاج نے محمد بن قاسم اور اسکے لشکر کو مبارکباد لکھی تھی، کچھ ہدایات بھی لکھی تھی ،اور اس نے یہ لکھا کہ اب محمد بن قاسم وہاں پہنچے جہاں راجہ داہر نے اپنی فوج جمع کر رکھی ہے،،،،،،، کبھی نہ بھولنا کہ خدا کی مرضی کے بغیر شان و شوکت اور فتح و کامرانی حاصل نہیں ہو سکتی ہے، آخر میں لکھا اللہ پر یقین رکھو گے اور آہ وزاری سے اس کی مدد کے ملتجی رہو گے تو ہر میدان میں فتح پاؤ گے۔
چند دنوں بعد یہ میدان صاف ہوچکا تھا، جے سینا کے لشکر کی لاشیں دریا میں پھینکی جا چکی تھیں، مرے ہوئے گھوڑے اور دو چار ہاتھی بھی گھسیٹ کر دریا میں پھینک دیئے گئے تھے، وہاں اب زخمی مجاہدین کے خیمے اور شہیدوں کی قبریں رہ گئی تھیں، اور محمد بن قاسم کا لشکر تھا جو پیش قدمی کی تیاریاں مکمل کر چکا تھا۔
شام سورج غروب ہوتے ہی تمام لشکر کی نگاہیں مغرب کی طرف افق کے اوپر کچھ ڈھونڈ رہی تھیں، اچانک کسی نے نعرہ لگایا،،،، نظر آگیا،،،، یہ نعرہ خوشی کے ہنگامے کی صورت اختیار کرگیا ۔
مجاہدین کے لشکر کو ماہ رمضان کا چاند نظر آگیا تھا۔
راجہ داہر کو بھی ماہ رمضان کا چاند دیکھ کر خوشی ہوئی، وہ اسی ماہ کے انتظار میں تھا، اس نے اپنے بیٹے جے سینا سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کے سامنے اس وقت آئے گا جب رمضان شروع ہوچکا ہوگا اور مسلمان دن بھر بھوکے اور پیاسے رہا کریں گے۔
آدھی رات کا عمل ہوگا کہ ایک مقامی نومسلم آیا اور شعبان ثقفی کے خیمے میں چلا گیا ،وہ جاسوس تھا اس نے بتایا کہ راوڑ کے قریب راجہ داہر کی فوج اکٹھا ہو رہی ہے، جاسوس کو یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ فوج کسی طرف پیش قدمی کرے گی یا وہیں محمد بن قاسم کی فوج کا انتظار کرے گی یا اس فوج کو للکارے گی، بہرحال جاسوس کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ فوج جنگی ترتیب میں ہو رہی ہے۔
شعبان ثقفی نے جاسوس کو ساتھ لیا اور محمد بن قاسم کے خیمے میں چلا گیا، محمد بن قاسم گہری نیند سے جاگا اور جاسوس سے پوری رپورٹ سنی اس کے بعد وہ سو نہ سکا، اس نے شعبان ثقفی سے کہا کہ وہ خود آگے چلا جائے اور راجہ داہر کی فوج کی نفری اور دیگر کوائف دیکھے۔
شعبان ثقفی کو معلوم تھا کہ اس نے کیا دیکھنا ہے، وہ چلا گیا محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ وہ وقت آگیا ہے جس کا انھیں انتظار تھا ،اور دشمن بھی اسی وقت کے لئے تیار تھا۔
راجہ داہر کی ذاتی جنگی تیاری شاہانہ تھی، تاریخوں میں اس کے ہاتھی کا رنگ سفید لکھا گیا ہے، دراصل سفید نہیں تھا سفید ہاتھی ایک مہوارہ ہے، داہر کے ہاتھی کا رنگ دوسرے ہاتھیوں کی نسبت ہلکا اور صاف تھا ،اس لئے دوسرے ہاتھیوں میں وہ الگ تھلگ لگتا اور اسی وجہ سے سفید کہلاتا تھا، یہ دیوقامت ہاتھی تھا قد اور جسامت کے لحاظ سے تمام ہاتھیوں سے بڑا تھا، اسے کبھی کسی مادہ کے قریب نہیں جانے دیا گیا تھا اس لئے یہ بد مست رہتا تھا، دوسرے جنگی ہاتھیوں کو بھی اسی طرح بدمست رکھا جاتا اور لڑائی سے پہلے انہیں شراب پلائی جاتی تھی، اس حالت میں انھیں ان کے مہاوت ہی قابو میں رکھ سکتے اور اپنے اشاروں پر چلاتے تھے، راجہ داہر کے ہاتھی پر جو ہودہ باندھا جاتا وہ اس کی شان و شوکت کے عین مطابق اور کشادہ، اس میں پھینکنے والی بہت سی پرچھیاں اور تیروں کا ذخیرہ رکھا جاتا تھا، ایک یا دو آدمی داہر کے ہودے میں برچھیاں اور تیر اسے دینے کے لئے رہتے تھے، داہر کے تیر دراصل تیر نہیں تھے ان کے دونوں سرے تیروں کی طرح ہی نوکیلے تھے، لیکن ان کی شکل پہلی کے چاند کے مانند یا آسٹریلیا کے حبشیوں کے مشہور ہتھیار بوم رینگ جیسی تھی، داہر کے ان مڑے ہوئے تیر کا اندرونی کنارہ تلوار کی طرح تیز دھار ہوتا تھا، بوم رینگ ہاتھ سے پھینکی جاتی ہے لیکن راجہ داہر نے یہ خاص تیر گوپھن میں ڈال کر پھینکا کرتا تھا، گوپھن رسّیوں کی بنی ہوئی ہوتی تھی، اس میں یہ تیر رکھ کر گوپھن کو سر کے اوپر گھماتے اور اس کا سرا چھوڑ دیتے تھے تیر بوم رینگ کی طرح یا چرخی کی طرح گھومتا جاتا اور دشمن کا جو آدمی اس کی زد میں آتا اس کا جسم کٹ جاتا تھا، اگر کوئی گردن اس کے راستے میں آجاتی تو گردن صاف کٹ جاتی اور تیر آگے نکل کر ایک اور آدمی کو زخمی کر سکتا تھا، گوپھن سے تیر نشانے پر پھینکا جا سکتا تھا لیکن اس کے لئے مہارت کی ضرورت ہوتی تھی۔
راجہ داہر کے ہودے میں دو انتہائی خوبصورت اور نوجوان لڑکیاں ہوتی تھیں، بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ لڑائی کے دوران ایک لڑکی راجہ داہر کو شراب اور دوسری پان کے بیڑے دیتی جاتی تھی، لیکن دو تاریخ نویسوں نے اس کی تردید کی ہے جو صحیح معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ 93 ہجری تک پان اس طرح کھانے کا رواج شروع نہیں ہوا تھا ، شراب تو مہاراجہ پیتے ہی تھے، لیکن ایسے نہیں کہ لڑائی کے دوران پیتے ہی چلے جاتے اس سے ہوش و حواس گم ہو جانے کا خطرہ ہوتا تھا، راجہ داہر ہوشمند جنگجو تھا اور وہ میدان جنگ میں ہوش میں رہتا تھا، یہ درست ہے کہ ہودے میں اس کے ساتھ دو خوبصورت کنیزیں رہتی تھیں اور شراب بھی ساتھ رہتی تھی جو داہر ضرورت کے مطابق پیتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
راجہ داہر جب ہاتھی پر سوار ہونے لگا تو مائیں رانی نے اس کے ماتھے پر اپنی انگلی سے تلک لگایا اور اس کے دونوں گالوں کو چوما، مائیں رانی اس کی بہن تھی اور بیوی بھی، بڑے پنڈت نے داہر کے گلے میں جنیو ڈالا ، یہ لال اور سفید دھاگے ہوتے تھے جو ہندو اپنے گلے میں قمیض کے اندر ڈال کر رکھتے تھے، پنڈتوں کی ایک قطار الگ لگی ہوئی تھی وہ بھجن گنگنا رہے تھے، راجہ داہر کا ہاتھی پر سوار ہونا ایک تقریب تھی اس نے ہودے میں پاؤں رکھا تو وہ دو کنیزوں نے جو پہلے سے ہودے میں موجود تھیں اپنے کندھے داہر کے بغلوں میں رکھ دیے جس طرح بیساکھیوں سے کسی لولے لنگڑے کو سہارا دیا جاتا ہے، داہر ان حسین بیساکھیوں پر اپنے جسم کا وزن ڈال کر ہودے میں داخل ہوا ،اس کے اشارے پر مہاوت نے ہاتھی چلا دیا بدمست ہاتھی سونڈ اوپر کرکے بڑی زور سے چنگھاڑا اس کے ساتھ ہی ایک نعرہ بلند ہوا،،،، داہر مہاراج کی جے ہو،،،، یہ نعرہ تین مرتبہ لگا ہاتھی ایک دو مرتبہ پھر چنگھاڑا ایک دو قدم آگے جاتا اور پھر پیچھے ہٹ آتا تھا، جیسے مہاوت کا حکم ماننے سے انکار کر رہا ہو۔
اس طرح ہاتھی چنگھاڑتا اور تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں جا رکا جہاں داہر کی فوج کھڑی تھی، فوج کے آگے ایک سو جنگی ہاتھی کھڑے تھے، جن کے ہودوں میں تین تین چار چار نیزہ باز اور تیرانداز چاک و چوبند استادہ تھے، ان کے پیچھے دس ہزار گھوڑ سوار تھے، جن کے سروں پر آہنی خود تھے اور وہ نیم زرہ پوش تھے، پندرہ ہزار نفری کی پیادہ فوج دائیں اور پندرہ ہزار بائیں طرف کھڑی تھی ،فوج کو داہر کے حکم سے اس ترتیب میں کھڑا کیا گیا تھا کیونکہ داہر نے فوج سے خطاب کرنا تھا۔
پوتر دھرتی کے سپوتوں !،،،،راجہ داہر نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ آج یہ دھرتی تم سے خون کی قربانی مانگ رہی ہے ،سر مانگ رہی ہے، سر کٹوا کر اپنی دھرتی کے حوالے کر دو، میں تمہارے ساتھ ہونگا ، میں تم سب کے ساتھ اپنا سر کٹواؤنگا، لیکن دشمن کے ایک ایک سو آدمیوں کے سر کاٹ کر اپنی جان دینی ہے۔ مجھے دیوی دیوتاؤں کا اشارہ ملا ہے کہ میرا سر میرے جسم کے ساتھ رہے گا اور عرب تک جائے گا ،عرب کی دھرتی تمہارا انتظار کر رہی ہے تم فتح کے نعرے لگاتے اس دیس میں جاؤ گے جہاں سے اسلام نے سر اٹھایا ہے، اسلام کا سر کچل دینا ہے، وہاں اذان ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں گی، وہاں سنکھ بجیں گے ،مندروں کے گھنٹے بجیں گے۔
دھرتی ماتا کی جئے ہو،،،،، "
داہر مہاراج کی جئے ہو ،،،،"
راجہ داہر کی آواز جئے کاروں میں دب گئی اور وہ خاموش ہو گیا۔
دلوں سے یہ خوف نکال دو کہ مسلمان بہت بہادر ہیں ۔۔۔راجہ داہر نے ہاتھ اوپر کر کے فوج کو خاموش کرایا اور پہلے سے زیادہ بلند آواز سے بولا۔۔۔ یہ مت سوچو کہ انھوں نے راج کمار جے سینا کے لشکر کو کاٹ دیا ہے، یہ بھی مت سوچو کہ انہوں نے ہمارے بہت سے قلع لے لیے ہیں، انہوں نے یہ فتح بدھوں کی مدد سے حاصل کی ہے۔ یہ بدھوں کی غداری ہے مسلمان اس نشے میں دریا پار کر آئے ہیں کہ وہ آگے بڑھتے آئیں گے اور ہم ان کے آگے بھاگتے جائیں گے، میں نے خود انہیں یہاں تک آنے دیا ہے اب وہ دریا کے پار زندہ نہیں جا سکیں گے، اب ہم دریا کے پار جائیں گے پھر ہم انہیں کے کشتیوں اور جہازوں میں سمندر پار جائیں گے،،،،، یہ سوچ لو کہ تم نے جان کی بازی نہ لگائی اور مسلمانوں کا خوف اپنے دلوں پر سوار رکھا تو تمہاری جوان بیٹیاں بہنیں اور بیویاں مسلمانوں کی لونڈیاں بنیں گی، تمہارے مال و اموال زیور اور رقمیں مسلمان لوٹ لیں گے ،تمہارے مویشی اور تمہارے گائے مسلمانوں کے ہاتھوں زبح ہوگی اور وہ انہیں کھائیں گے، کیا تم گاؤ ماتا کی یہ بے حرمتی برداشت کر لو گے۔
نہیں،،، نہیں،،، فوج سے شور اٹھا ۔۔۔گاؤ ماتا کا ہتیا چار نہیں ہونے دیں گے۔
تاریخوں کے مطابق داہر نے اپنے لشکر کے خون کو گرما دیا انہیں دیوتاؤں کے قہر سے ڈرایا اور انہیں دیوتاؤں کی خوشنودی اور انعامات کے سبز باغ دکھائے۔
اس نے گزشتہ رات اپنی فوج کے حاکم و سالاروں کو بلا کر احکام دیے تھے ان کے اور اپنے وزیروں اور مشیروں سے مشورے بھی لیے تھے اس کے مشیروں میں محمد حارث علافی بھی تھا جسے داہر اپنا مخلص دوست اور عقلمند مشیر سمجھتا تھا ،لیکن علافیوں کے اس سردار کی وفاداری عرب اور اسلام کے ساتھ تھی، اگر اس وقت خلافت بنو امیہ کی نہ ہوتی تو یہ پانچ سو عرب مکران میں نہ ہوتے۔
راجہ داہر نے اپنے فوجی کمانڈروں کو یہ احکام دیے تھے کہ اپنے لشکر کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے سے دور دور رکھنا ہے، اس نے سوچا یہ تھا کہ مسلمانوں کی فوج بھی اس کی فوج کے ہر حصے سے لڑنے کے لئے حصوں میں بکھر جائے گی، پھر داہر کی فوج کے دو تین بڑے حصے یکجا ہو کر مسلمانوں پر پہلوؤں سے یا عقب سے حملہ کر دیں گے۔
انہیں بکھیر کر مارنا ہے،،، داہر نے کہا تھا آمنے سامنے کی جنگ اس وقت شروع ہوگی جب عربی فوج تھک کر چور ہو چکی ہو گی اور اس کی بہت سی نفری زخمی اور ہلاک ہوچکی ہوگی ،نیا چاند نظر آتے ہی جیور کی طرف پیش قدمی ہوگی، لیکن عربوں پر دو سوار اور ایک پیادہ دستے سے حملہ ہو گا، یہ دستے پیچھے ہٹتے آئے نگے پھر ایک اور دستہ ایک اور طرف سے حملہ کرے گا۔
داہر نے اپنے سالاروں کو یہ منصوبہ اور یہ طرز جنگ رات کو ہی ذہن نشین کرا دیا ، صبح جب وہ اپنے لشکر کا حوصلہ جوشیلے اور جذباتی الفاظ سے بڑھا رہا تھا اسکے فوراً بعد اس نے دستوں کو منصوبے کے مطابق تقسیم کرنا اور دو سوار اور ایک پیادہ دستے کو جیور کی طرف جانے کا حکم دینا تھا ،جہاں اس کے بیٹے جے سینا کی لڑائی محمد بن قاسم کے چند ایک دستوں کے ساتھ ہوئی تھی، داہر کو مخبروں نے اطلاع دی تھی کہ مسلمانوں کی فوج ابھی وہی ہے اور اس کی پیش قدمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
راجہ داہر نے (مورخوں کے مطابق) ان الفاظ پر اپنا خطاب ختم کیا ،،،،،،،،،اسلام میری زندگی میں سندھ میں داخل نہیں ہوگا ،اگر ہم نے اس مذہب کو یہی نہیں روکا تو یہ سارے ہند میں پھیلے گا اور اس پاپ کا قہر ہمارے بچوں پر گرے گا ،ہم مر جائیں گے تو ہمیں کتوں اور چوہوں کے روپ میں دوسرا جنم ملے گا۔
اس کے بعد اس نے دستوں کو منصوبے کے مطابق تقسیم ہونے کا حکم دیا ۔
دستے تقسیم ہو چکے تو انہیں اپنے اپنے علاقے میں جانے کو کہا گیا۔
دستی جا رہے تھے کہ ایک شتر سوار اونٹ کو دوڑاتا لایا اور راجہ داہر کے ہاتھی کے قریب جا رکا۔
عربی فوج وہاں سے آگے آ گئی ہے۔۔۔ شتر سوار نے کہا ۔۔۔اور یہاں سے کچھ دور رک گئی ہے۔
بتایا جا چکا ہے کہ محمد بن قاسم کو ایک جاسوس نے اطلاع دی تھی کہ داہر کی فوج تیاری کی حالت میں راوڑ کے قریب جمع ہو رہی ہے، محمد بن قاسم نے اسلام کے فن حرب و ضرب کے اصولوں کے مطابق دشمن کو تیاری کی حالت میں دبوچنے کے لئے رات ہی رات اپنی فوج کو تیار کیا اور سحری ختم ہونے سے پہلے پیش قدمی کا حکم دے دیا، پیش قدمی بہت تیز تھی ،اتنی تیز کے دن کے پچھلے پہر تک محمد بن قاسم کا لشکر راوڑ سے تقریباً چار میل دور تک پہنچ گیا۔
اس سے داہر کو یہ نقصان اٹھانا پڑا کہ اس کا منصوبہ تقریبا بیکار ہو گیا، پھر بھی داہر نے اپنے دستوں کو جہاں تک ممکن ہو سکا تقسیم کرکے اپنے اپنے علاقے میں بھیج دیا ،داہر کو معلوم نہیں تھا کہ اب اس کی کوئی بھی نقل و حرکت خفیہ نہیں رہی، اس نے دستوں کو جس طرح ادھر ادھر بھیج دیا تھا وہ محمد بن قاسم کو اس کے جاسوسوں اور مخبروں کے ذریعے معلوم ہو رہا تھا، راجہ داہر کو رخصت کرنے کے لئے جو لوگ آئے تھے وہ وہاں سے واپس چل پڑے، ان میں پنڈت بھی تھے کچھ درباری بھی تھے، مشیر بھی تھے، راجہ داہر کی بیویاں، اور داشتائیں بھی تھیں، اور ان میں مائیں رانی بھی تھی، اور حارث علافی بھی تھا۔
مائیں رانی اپنی پالکی میں بیٹھ کر واپس جانے کی بجائے کسی سے کہہ کر گھوڑا منگوایا اور اس پر سوار ہو گئی، حارث علافی اپنے گھوڑے پر سوار سب سے الگ جا رہا تھا۔ مائیں رانی اپنا گھوڑا اس کے قریب لے گئی۔
علافی !،،،،،،مائیں رانی نے محمد بن حارث علافی سے پوچھا ۔۔۔مہاراج تمہارے مشوروں کو بڑی جلدی قبول کرلیتے ہیں،،،،، کیا تم یہ مشورے مہاراج کے ساتھ وفاداری کے طور پر پیش کرتے ہو ،یا تمہاری خفیہ وفاداری کسی اور کے ساتھ ہے۔
تم نے یہ کیوں پوچھا ہے؟،،،،، علافی نے پوچھا۔۔۔ کیا تمہیں میری وفاداری پر شک ہے؟
ہاں!،،،،،،، مائیں رانی نے جواب دیا ۔۔۔کبھی کبھی شک سا ہونے لگتا ہے، تم آخر عرب ہو، اور یہ تم خود کہہ چکے ہو کہ مسلمان ہوکر تم کسی مسلمان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاؤ گے، اس سے مجھے شک ہوتا ہے کہ تم درپردہ عرب کی فوج کے ساتھ ہو اور مہاراج کو ایسے مشورے دے رہے ہو جن کا فائدہ عربوں کو پہنچتا ہے۔
کوئی ایک ایسا مشورہ بتا سکتی ہوں؟
تم نے مہاراج کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن قاسم کو دریا کے اس طرف آنے دو ۔۔۔مائیں رانی نے کہا ۔۔۔مہاراج اس لئے مان گئے کہ وہ تمہارے ملک کی فوج کو شکست دیں گے، تو دریا انہیں بھاگنے نہیں دے گا، تم اگر یہ مشورہ دیتے تو بہتر ہوتا کہ عربوں کو دریا پار کرنے کا موقع دو اور وہ جب دریا پار کر رہے ہوں تو ان پر تیروں اور برچھیوں کا مینہ برسا دو۔
رانی !،،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔مہاراج بچے نہیں اناڑی اور نادان نہیں ،وہ محمد بن قاسم سے زیادہ تجربے کار سالار ہیں، وہ اچھے اور برے کو پہچانتے ہیں، تم وہ بات کرو جو تمہارے دل میں ہے،،،،، تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میری ہمدردیاں محمد بن قاسم کے ساتھ ہیں ،اور میں تم لوگوں کو دھوکا دے رہا ہوں۔
ہاں !،،،،مائیں رانی نے کہا ۔۔۔میں یہی کہنا چاہتی ہوں، اور میں تمہیں یاد بھی لانا چاہتی ہوں کہ مہاراج نے تمہارے قبیلے کو مکران میں پناہ دے رکھی ہے اس دیس میں کسی مسلمان کو پناہ نہیں مل سکتی،،،،،،،،،،، تمہارے ساتھ دو آدمی تھے ایک موجود ہے دوسرا کہاں ہے؟
مائیں رانی !،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔مہاراج کو جو دھوکے تم نے دیے ہے وہ مجھے معلوم ہے، تم مہاراج کی بہن ہو اور ان کی بیوی بھی ہو لیکن تم نے اپنے جذبات کی تسکین کا ذریعہ عرب کے ایک جوان آدمی کو بنایا کہو، تو تمہیں اس کا نام بتادوں،،،،،، اور تم نے میرے جس آدمی کے متعلق پوچھا ہے کہ یہاں موجود نہیں وہ کبھی کبھی رات کو بھی میرے پاس موجود نہیں ہوتا ،میں جانتا ہوں وہ کہاں ہوتا ہے۔
وہ اب کہاں ہے ۔۔۔مائیں رانی نے کھسیانے سے لہجے میں پوچھا۔
رانی !،،،،،،علافی نے گھوڑا روک کر مائیں رانی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔ مجھے شک کی نگاہوں سے دیکھنا چھوڑ دو، تمہارا ایک راز میرے سینے میں چھپا ہوا ہے۔
مائیں رانی چپ ہو گئی۔
اور میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں رانی!،،،، محمد بن حارث علافی نے کہا ۔۔۔مہاراج محمد بن قاسم کو شکست نہیں دے سکے گے۔
یہ تمہاری خواہش ہے ۔۔۔مائیں رانی نے کہا۔
نہیں !،،،،علافی نے کہا۔۔۔ یہ میری پیشن گوئی ہے، حالات بتا رہے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
علافی کا وہ آدمی جس کے متعلق مائیں رانی پوچھ رہی تھی وہ اس وقت وہاں سے تھوڑی ہی دور ایک آدمی کے پاس کھڑا تھا ،وہ آدمی محمد بن قاسم کا ایک جاسوس تھا، علافی کا آدمی اسے بتا رہا تھا کہ راجہ داہر نے جنگ کا کیا منصوبہ بنایا ہے۔
اگر علافیوں کی طرف سے محمد بن قاسم کو جاسوسوں کی مدد نہ ملتی، تو بھی وہ داہر کے جال میں آنے والا نہیں تھا ،اس نے اپنی فوج چار میل دور اس لیے روک لی تھی کہ وہ محتاط تھا ،اس نے دشمن کی نقل و حرکت اور اس علاقے کے خدوخال کو دیکھنا تھا، جو اس کے جاسوس اسے دکھا رہے تھے، اس کے ساتھ جو فوج تھی اس میں بارہ ہزار سوار تھے، جے سینا کو شکست دے کر اس کی فوج کے بہت سے گھوڑے مسلمانوں نے پکڑ لیے تھے، اس سے یہ فائدہ ہوا کہ پیادے بھی سوار بن گئے ،عربوں کے ساتھ جو پیادہ فوج تھی وہ مقامی آدمیوں کی تشکیل دی گئی تھی، یہ سب مسلمانوں کے حسن سلوک اور فیاضی سے متاثر ہو کر ان کی فوج میں شامل ہوئے تھے، ان کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ تھی، اس کے مقابلے میں راجہ داہر کی پیادہ فوج کی تعداد تیس ہزار تھی، محمد بن قاسم کی فوج میں تیراندازوں کی تعداد ایک ہزار تھی، جس میں نفت انداز بھی تھے یہ آگ لگانے والے تیر پھینکتے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنی فوج کی تقسیم اس طرح کی کہ خود قلب میں رہا اور اپنے ساتھ سالار صحرز بن ثابت کو رکھا، دائیں بازو پر سالار جہم بن زحر جعفی، اور دائیں بازو پر سالار ذکوان بن غلوان بکری کو رکھا، محفوظہ جو قلب سے پیچھے تھا سالار نباۃ بن حنظلہ کلابی کے سپرد کیا، اور آگے یعنی مقدمۃالجیش کی کمان سالار عطا بن مالک قیسی کو دی۔
عرب کے مجاہدوں!،،،، محمد بن قاسم نے اعلان کیا۔۔۔ اگر میں مارا جاؤں تو میری جگہ سپہ سالار صحرزبن ثابت ہوگا ،اور اس کے مارے جانے کی صورت میں سعید سپہ سالاری کے فرائض سنبھالے گا۔
محمد بن قاسم نے دیکھا کہ داہر کی فوج مختلف حصوں میں تقسیم ہو کر ادھر ادھر ہو گئی ہے تو اس نے اس کے مطابق اپنی فوج کو نہ بکھیرا ،مرکزی مقام اپنے پاس رکھی اور یہ معلوم کر لیا کہ راجہ داہر کی فوج کا زیادہ نفری والا حصہ کہاں ہے، داہر کا پلان یہ تھا کہ اس حصے میں مسلمانوں کی فوج پر حملہ کرنا تھا ،داہر کو توقع یہ تھی کہ مسلمان تیاری کی حالت میں نہیں ہونگے، مگر مسلمانوں کی بروقت بلکہ قبل از وقت پیش قدمی نے صورتحال بالکل ہی بدل ڈالی تھی،
محمد بن قاسم نے سالار عطا بن مالک قیسی کو حکم دیا کہ وہ دشمن کی فوج کے بڑے حصے پر حملہ کرے۔
اس سالار کا حملہ بڑا تیز اور زوردار تھا، ہندو تو اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ میدان جنگ میں ان کی حکمرانی ہوگی اور وہ مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق گھماتے لڑاتے اور بھاگتے پھریں گے، مگر یہ حکمرانی مسلمانوں کے ہاتھ آ گئی، عطا بن مالک کے حملے کا مقابلہ ہندوؤں نے جم کر کرنے کی کوشش کی انہیں امید تھی کہ ان کا مہاراجہ انہیں مدد دے گا لیکن محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو ایسی ترتیب میں پھیلا رکھا تھا کہ داہر کی فوج کے اس حصے کو کسی طرف سے بھی مدد نہیں پہنچ سکتی تھی۔
داہر کے ان دستوں کے لیے صرف ایک راستہ کھلا تھا جو پسپائی کا راستہ تھا وہ پسپا ہونے لگے، محمد بن قاسم دیکھ رہا تھا اس نے اپنے سالار کو قاصد کی زبانی حکم بھیجا کہ دشمن کے تعاقب میں نہیں جانا۔
دشمن کے ان دستوں کے ساتھ ہاتھی بھی تھے لیکن مجاہدین کے دلوں سے ہاتھیوں کا خوف نکل گیا تھا ،اب محمد بن قاسم کے حکم سے ان ہاتھیوں کے مقابلے کے لیے آتشی تیر چلانے والے تیر انداز استعمال کیے گئے، انہوں نے آگ والے تیر ہاتھیوں کی آنکھوں کا نشانہ لے کر چلائے، چونکہ ہاتھی متحرک تھے اس لیے ان کی آنکھوں میں تیر مارنا بہت مشکل تھا، آگ والا تیر جب ہاتھی کو کہیں بھی لگتا تھا تو چنگھاڑنے اور بے قابو ہو کر بھاگنے لگتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
داہر نے بدلی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی اپنے بکھرے ہوئے دستوں کو یکجا نہ کیا اور خود میدان جنگ میں نہ آیا، محمد بن قاسم بھی پیچھے رہا اور اپنے دستوں کو آگے پیچھے کرتا رہا ،اس طرح یہ جنگ چھوٹے چھوٹے اور جھڑپوں تک محدود رہی ،جونہی سورج غروب ہوتا تھا دونوں طرف کے لڑنے والے دستے پیچھے ہٹ آتے تھے، رات کو سوائے گشت کے کوئی کارروائی نہیں ہوتی تھی۔
راجہ داہر اس کوشش میں تھا کہ جس طرح اس نے اپنے دستے بکھیر رکھے ہیں اسی طرح محمدبن قاسم بھی اپنی فوج کو بکھیر دے، لیکن تاریخ اسلام کا یہ کمسن داہر کی چال کو بھانپ گیا تھا، ایک تو اس کی اپنی جنگی فہم و فراست تھی اور دوسری یہ کہ اسے محمد علافی نے اطلاع بھیج دی تھی کہ داہر کا پلان کیا ہے۔
نہیں،،،،،،، میں اور انتظار نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔راجہ داہر نے سات آٹھ روز کی جھڑپوں کے بعد اپنے فوجی حاکموں سے کہا۔۔۔ دشمن محتاط ہوگیا ہے، ہمارا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے، اور ہمارے سپاہی بھی ضائع ہو رہے ہیں ، میں اب مسلمانوں کو للکاروں گا۔
اب للکارنے کا وقت آگیا ہے مہاراج!،،،،، ایک فوجی حاکم نے راجہ داہر سے کہا ۔۔۔مسلمان تھک چکے ہیں۔
نہیں !،،،،داہر نے کہا۔۔۔ تم لوگوں میں یہی خرابی ہے کہ غور نہیں کرتے، آنکھیں کھول کر دیکھتے نہیں،،،،،، تمہارا دشمن نہ کمزور ہوا ہے نہ تھکا ہے، وہ محتاط ہوگیا ہے ،اور ہمارے پھندے میں نہیں آرہا ،فوج کو ایک جگہ کرلو۔
اسی رات کا واقعہ ہے داہر اپنے خیمے میں بیٹھا شراب اور دو کنیزوں سے دل بہلا رہا تھا وہ اپنے فوجی کمانڈروں کو آمنے سامنے کی لڑائی کے احکام اور ہدایات دے چکا تھا، اسے دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیے آواز قریب آتی جا رہی تھی، داہر نے دربان کو بلا کر پوچھا کہ یہ کون آرہا ہے، اتنے میں گھوڑا خیمے کے سامنے آ رکا ، دربان باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ مائیں رانی خیمے میں داخل ہوئی، اسکے چہرے پر گھبراہٹ تھی، وہ جس تیزی سے خیمے میں داخل ہوئی تھی اس سے پتہ چلتا تھا کہ کوئی بہت بڑا واقعہ یا حادثہ ہو گیا ہے۔
کیا ہوا رانی!،،،،، داہر نے اٹھتے ہوئےپوچھا اسوقت یہاں کیوں آئی ہو؟
رانی خیمے کے وسط میں رک گئی تھی، اس نے کنیزوں کو دیکھ کر سر کا اشارہ کیا دونوں باہر نکل گئیں، دربان پہلے ہی باہر جا چکا تھا۔ رانی نے داہر کے قریب جاکر اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے۔
مہاراج !،،،،اس نے گھبراہٹ سے کانپتی ہوئی آواز میں داہر سے کہا۔۔۔ لڑائی میں نہ جانا، پیچھے رہ کر حکم دیتے رہنا۔
کیا کہہ رہی ہو رانی!،،،، داہر نے غصیلی آواز میں پوچھا۔
اگر میں آپ کی صرف بیوی ہوتی تو ایسی بات کبھی نہ کہتی۔۔۔ مائیں رانی نے رندھیائی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میں آپ کی بہن ہوں ،بہن اپنے بھائی کو ،،،،نہیں ،نہیں،،،،ایسا نہیں ہوگا۔
اوہ رانی !،،،،،،داہر نے رانی کو گلے لگاکر کہا ۔۔۔تم کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر آئی ہو، اس نے شراب کا پیالہ اٹھا کر رانی کی طرف بڑھا دیا،،،، یہ پی لو دل مضبوط ہو جائے گا۔
مائی رانی نے پیالے پر ہاتھ مارا پیالہ داہر کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر جاپڑا، مجھے شراب نہیں بھلا سکتی۔۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ آپ لڑائی میں شامل نہ ہوں ،،،،،،،میں نے بہت بڑا خواب دیکھا ہے، آپ پانی میں ڈوب جاتے ہیں میں آپ کو زندہ نکالنے کے لئے آگے بڑھتی ہوں تو ہمارے اپنے آدمی آپ کی گردن کاٹ کر سر تن سے جدا کر دیتے ہیں۔۔۔۔ مائیں رانی چپ ہو گئی ،اور یوں خلا میں ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے لگی جیسے اسے کوئی ڈراونی چیز نظر آ رہی ہو ،اس نے داہر کو دیکھا تو اس کے قریب جا کر فرش پر گھٹنے ٹیک دیے اور دونوں بازو داہر کی ٹانگوں کے گرد لپیٹ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔ نہ جائیں مہاراج !،،،اس لڑائی میں نہ جائیں۔
میں میدان جنگ میں نہ گیا تو ہماری فوج کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا ۔۔۔۔داہر نے کہا۔۔۔ مسلمانوں کو پتہ چلا کہ سندھ کا مہاراجہ اپنی فوج کے ساتھ نہیں ہے تو وہ مجھے بزدل کہیں گے، کیا تم دیکھ نہیں رہی ہو کہ وہ کس طرح بڑھے چلے آ رہے ہیں ،مجھے پنڈتوں نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو یہی تباہ و برباد کرنا میرا فرض ہے، اور دیوتاؤں نہیں یہ فرض مجھے سونپا ہے۔
اور انھیں پنڈتوں نے میرا خواب سن کر مجھے کہا ہے کہ مہاراج کو کسی طرح آگے جانے سے روک لو۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔۔۔وہ کہتے ہیں خواب میں کسی کو پانی میں ڈوبتے دیکھنا اچھا نہیں ہوتا۔
راجہ داہر نے مائیں رانی کو ساتھ لیا اور خیمے سے نکل گیا، وہ اسے بہلا رہا تھا لیکن مائیں رانی کی جذباتی حالت بگڑتی جارہی تھی، راجہ داہر نے اسے اٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دیا اور اپنے دو محافظوں کو حکم دیا کہ وہ مائیں رانی کے ساتھ جائیں اور اسے راوڑ کے قلعے میں داخل کر کے آئیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
(9 /رمضان المبارک 933 ہجری )کی صبح راجہ داہر کی فوج میدان میں لڑائی کی ترتیب میں کھڑی تھی، ایک سو جنگی ہاتھی فوج کے آگے کھڑے تھے، ان کے پیچھے راجہ داہر اپنے دیوہیکل ہاتھی پر ہودے میں کھڑا تھا ،اس کے قریب اس کا بیٹا جے سینا گھوڑے پر سوار تھا۔ ہاتھی بدمست تھے چنگھاڑ رہے تھے، ایک دو قدم آگے ہوتے پھر پیچھے ہٹ جاتے، یہ ان کی بے چینی اور بے قراری کا اظہار تھا ،یوں لگتا تھا جیسے ان ہاتھیوں کو بھی احساس تھا کہ مسلمان ان کے دشمن ہیں، ان کے ہودوں میں نیزہ باز اور تیرانداز کھڑے تھے۔
محمد بن قاسم اپنی فوج کو داہر کی فوج کے سامنے لے گیا، اس نے اپنے سالاروں اور نائب سالاروں کو اس طرح کمان دی کہ ابو ماہر ہمدانی کو آگے ہاتھیوں کے سامنے رکھا ،اس کی کمان میں جو دستے دیے گئے ان میں تمام مجاہدین پوری فوج میں سے چنے ہوئے نڈر اور تجربے کار تھے، اور وہ ہاتھیوں کے مقابلے کا تجربہ رکھتے تھے۔
مخارق بن کعب راسی، مسعود بن الشعری کلبی، سلمان ازدی، اور زیاد بن جلیدی ازدی، کو محمد بن قاسم نے اپنے ساتھ قلب میں رکھا، دائیں پہلو کے دستوں کی کمان جہم بن زحر جعفی کو، اور بائیں پہلو کے دستوں کی کمان ذکوان بن غلوان بکری کے سپرد کی، محفوظہ کی کمان نباۃ بن حنظلہ کلابی کے پاس تھی۔
محمد بن قاسم نے چار بڑے ہی تجربے کار اور غیر معمولی طور پر بہادر مجاہدین۔۔۔۔ بشر بن عطیہ، محمد بن زیاد عبدی، مصعب بن عبدالرحمن ثقفی، اور خریم بن عروہ مدنی۔۔۔۔ کو بلایا۔
میرے عزیزو!،،،،،،، محمد بن قاسم نے انہیں کہا ۔۔۔میں تمہیں ایسا فرض سونپ رہا ہوں جس کا صلہ میں نہیں دے سکوں گا، اس کا اجر تمہیں اللہ سے ملے گا، جس کی راہ میں تم خون کے نذرانے دینے گھروں سے نکلے ہو۔
ہمیں وہ فرض بتا ابن قاسم!،،،،، ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ خدا کی قسم ہم صلے اور اجر کے بغیر فرض ادا کریں گے۔
راجہ داہر تمہارا شکار ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اپنے ساتھ چند آدمی لے سکتے ہو داہر کے ہاتھی کو گھیرے میں لے کر اتنا زخمی کرنا ہے کہ گر پڑے، داہر کو زندہ پکڑ لاؤ تو بہتر ہے، زندہ نہ رہے تو اس کا سر کاٹ کر لے آؤ، اس نے بے گناہ عربوں کو قید میں رکھا تھا، ان میں عورتیں اور بچے بھی تھے میں اسے معاف نہیں کرسکتا۔
ایسے ہی ہوگا سپہ سالار!،،،، ایک نے کہا۔۔۔ ایسے ہی ہوگا ۔
محمد بن قاسم نے ایک بار پھر اعلان کیا۔۔۔۔ ائے اہل عرب !،،،میں شہید ہوجاؤں تو صحرز بن ثابت میری جگہ سپہ سالار ہوگا، وہ بھی شہید ہو جائے تو سعید اس کی جگہ لے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
لڑائی شروع ہونے والی تھی کہ محمد بن قاسم کو پہلی مایوسی ہوئی، اس کی نظرداہر پر تھی لیکن داہر کا ہاتھی اسے پیٹھ پر اٹھائے پیچھے جا رہا تھا، پہلے تو یہ سمجھا گیا کہ داہر جگہ بدل رہا ہے لیکن وہ اپنے لشکر کے بہت پیچھے چلا گیا اس کے بعد ہاتھیوں کو بھی فوج کے آگے سے ہٹا لیا گیا۔
ابن ثابت !،،،،محمد بن قاسم نے سالار سحر ز بن ثابت کو حکم دیا ۔۔۔آگے بڑھو اور اللہ کا نام لے کر حملہ کرو۔
صحرز کے سوار دستے سر پٹ دوڑے ادھر سے بھی چند ایک سوار دستے بڑھے ،شدید اور خونریز تصادم ہوا، نقصان یہ ہوا کہ صحرز بن ثابت پہلے ہلّے میں ہی شہید ہو گیا ،خطرہ یہ تھا کہ دشمن کے ہاتھی چڑھ دوڑیں گے، محمد بن قاسم نے نفت اندازوں کو جو آگ والے تیر انداز تھے آگے کیا اور حکم دیا کے وہ ہاتھیوں کو نشانہ بنائے، لیکن داہر ہاتھیوں کو شاید فیصلہ کن حملے کے لئے محفوظ رکھنا چاہتا تھا، اس نے تمام ہاتھیوں کو پیچھے کر لیا۔
صحرز شہید کے دستوں کو پیچھے ہٹا لیا گیا، اب سعید نے حملہ کیا ،ایک بار پھر گھمسان کا معرکہ ہوا، راجہ داہر احتیاط سے اپنے دستوں کو احکام دے رہا تھا ،اس نے سعید کے حملے کے جواب میں اپنا ایک سوار دستہ آگے بڑھایا، مگر محمد بن قاسم نے عطا بن مالک قیسی کو بروقت آگے کردیا، عطا کا دستہ پا برکاب تھا اس کی تیز حرکت نے داہر کے دستے کو سعید کے دستوں تک پہنچنے ہی نہ دیا۔
تاریخ معصومی اس جنگ کے تفصیلی بیان میں مستند معلوم ہوتی ہے، راجہ داہر کو مسلمانوں میں تھکاوٹ کے آثار نظر نہیں آرہے تھے، اور مسلمان اس کی اتنی زیادہ جنگی طاقت اور ہاتھیوں سے مرعوب ہوتے بھی نہیں لگتے تھے، مسلمان جب حملہ کرتے تو رعد کی کڑک جیسا اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے تھے، ان کے نعرے جاندار اور ان کا جوش و جذبہ تروتازہ تھا۔
راجہ داہر نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا ،وہ تو مجاہدین کے دباؤ سے پیچھے ہٹ ہی رہے تھے، محمد بن قاسم نے داہر کے اس حکم کو دھوکہ سمجھا کہ داہر اس خیال سے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹا رہا ہے کہ مجاہدین اس کے دستوں کے پیچھے لگے رہیں گے اور اتنا آگے چلے جائیں گے کہ انہیں دوسرے دستوں سے گھیرے میں لے کر ختم کر دیا جائے گا، اس خطرے کے پیش نظر محمد بن قاسم نے سعید اور عطا کو پیچھے ہٹا لیا۔
دونوں فوجوں کے درمیان اب لڑنے والا کوئی دستہ نہیں تھا، لیکن میدان خالی بھی نہیں تھا وہاں لاشیں بکھری پڑی تھیں زخمی پڑے کراہ رہے تھے، ان میں سے بعض اٹھنے اور چلنے کی کوشش میں گر پڑتے تھے، دونوں طرف سے دو دو تین تین آدمی دوڑے جاتے اور اپنے اپنے زخمی کو اٹھا کر یا سہارا دے کر واپس پیچھے لے آتے تھے۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی