⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴پچیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ بدبخت سمجھ نہیں سکے کہ یہ شہر اور قلعے جو انہوں نے لیے ہیں یہ فیصلہ کن شکست کے راستے کی منزلیں تھیں۔
مورخ لکھتے ہیں کہ راجہ داہر کے چہرے پر بشاشت تھی اطمینان تھا اور وہ کسی سے مشورے بھی نھیں لیتا تھا ،اس کے جسم میں اتنی عمر کے باوجود عجیب طرح کی پھرتی اور دماغ میں مستعدی آ گئی تھی، اس نے یہ خبر سن کر کہ عرب فوج جیور پر قابض ہو گئی ہے ،اپنے ایک فوجی کمانڈر راجکیش کو بلایا ۔
راجکیش کو بھی اطلاع مل چکی تھی کہ مسلمان دریا پار کر آئے ہیں وہ شاید گھبرایا ہوا تھا۔
راجکیش!،،،،، راجہ داہر نے اس کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمہارا رنگ اڑا ہوا نہیں ،کیا تم نے بھی اپنے اوپر عربوں کا خوف طاری کر رکھا ہے؟
نہیں مہاراج!،،،،، راجکیش نے کہا۔۔۔ خوف کیسا لڑائی سے پہلے چہروں کے رنگ کچھ دیر کے لیے تو اڑ ہی جاتے ہیں، میرے لئے کیا حکم ہے مہاراج۔
شکار جال میں آ گیا ہے ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ لیکن میں اسے یہ اعزاز نہیں دونگا کہ خود اپنی فوج لے کر اس کے سامنے چلا جاؤں، وہ مجھے میدان جنگ میں ڈھونڈے گا میں اسے نہیں ملوں گا، اس کے ساتھ کھیلوں گا اسے گھماؤں پھراؤنگا ،،،،،،جیور سے اس طرف جو جھیل ہے وہ تم نے سیکڑوں بار دیکھی ہے، ایک ہزار سوار اور ایک ہزار اپنے ساتھ لے لو اور اس جھیل کے اس طرف جا کر ڈیرہ ڈال دو، دشمن پر نظر رکھو ،میں تمہارے پیچھے رہوں گا۔
راجکیش ایک ہزار سوار اور ایک ہزارپیا دے لے کر جھیل کے کنارے خیمہ زن ہوا۔
محمد بن قاسم کو اطلاع ملی تو اس نے اپنے ایک کمانڈر صحرز بن ثابت قیسی کو دو ہزار سوار اور پیادے دے کر جھیل پر بھیج دیا۔
دو مورخوں نے قیسی کو الدمشکی لکھا ہے۔ ایک اور کمانڈر محمد زیاد المعبدی کو ایک ہزار سوار دے کر اسی جھیل کے ایک اور کنارے بھیج دیا۔
ابن ثابت !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ دشمن اپنی طرف والے کنارے پر خیمہ زن ہے، تم اس کے ساتھ والے کنارے پر خیمہ گاڑ لو اور ہر وقت چوکس رہو ، تمہارا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ دشمن کے سر پر سوار رہو،،،،، اور تم محمد زیاد!،،، صحرز کے بالمقابل کنارے پر ڈیرہ جما لو، اور تم بھی دشمن کو یہ تاثر دو کہ اس کے سر پر سوار ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس دوران محمد بن قاسم کو حجاج بن یوسف کا تحریری پیغام ملا ،جس میں اس نے عبادت، دعاء اور راتوں کو ذکر الہی پر زیادہ زور دیا تھا ،اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ تمہیں جنگ کا اصل تجربہ اب ہوگا ،اس کے ساتھ ہی حجاج نے بہت سی عملی ہدایات لکھی تھیں، آخر میں اس نے لکھا تھا کہ تم نے خداوند تعالی پر بھروسہ رکھا اور اپنے ایمان اور جذبے کو اللہ کی خوشنودی کے لئے قائم رکھا تو فتح ہر حال میں تمہاری ہو گی۔
اب دونوں طرف کے لشکر فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار تھے، راجہ داہر بھی میدان میں آگیا تھا، اس نے اپنے بیٹے جے سینا کو اپنے پاس بلا لیا، اس وقت جے سینا کچھ دستے اپنے ساتھ لے کر ایسے مقام پر خیمہ زن تھا جہاں سے وہ دسایو کا راستہ روک سکتا تھا کہ دسایو محمد بن قاسم کی مدد کو نہ پہنچ سکے، راجہ داہر نے اسے اس کے دستوں کے ساتھ اپنے پاس بلا لیا۔
میرے بہادر بیٹے!،،،،،، داہر نے اسے کہا۔۔۔ اب ہمیں بکھر کر نہیں رہنا چاہیے، دشمن اس میدان میں آ گیا ہے جہاں میں اسے لانا چاہتا تھا، تم سب کو کچھ سمجھتے ہو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، یہ زمین یہ دیس تمہارا ہے، میں اس دشمن کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ایک ہی بار سارا لشکر اس کے سامنے لے جاؤ اور اسے للکاروں، میں عرب کے اس نوجوان سالار کو پیغام بھیج کر کہہ چکا ہوں کہ تم اوچھے سالار ہو ،میں اسے آہستہ آہستہ کمزور کر کے مارنا چاہتا ہوں۔
پِتاجی مہاراج!،،،،، جے سینا نے کہا ۔۔۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو یہ کام میرے سپرد کریں، اس اوچھے سالار سے پہلی جھڑپ میں لونگا۔
میں نے تمہیں اسی لیے بلایا ہے ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔میں ابھی بتا نہیں سکتا کہ عرب کے یہ مسلمان میدان کی لڑائی لڑنے میں کیسے ہیں ،اور ان کا طریقہ کیا ہے، تم ذرا سنبھل کر آگے بڑھنا اور یہ دیکھنا کہ ان کا طریقہ اور انداز کیا ہے، پہل انہیں کرنے دینا، ہو سکتا ہے محمد بن قاسم یہ سمجھ کر سامنے آجائے کہ میں خود وہاں موجود ہوں ،تم ہاتھی پر سوار رہنا اور اپنی فوج کے درمیان رہنے کی کوشش کرنا ،اگر محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ ہوا تو خود اس تک پہنچنے کی بجائے اپنے دستوں سے بہت ہی دلیر اور بہادر آدمی چن کر محمد بن قاسم کو گھیرے میں لے کر مارنے کی یا زندہ پکڑنے کی کوشش کرنا۔
ماہ رمضان 93 ہجری ، 7/ 11 /12 عیسوی سے کچھ دن پہلے ایک اور واقعہ ہو گیا، راجہ داہر نے علافیوں کے سردار محمد حارث کو ایک بار پھر کہا کہ وہ اپنے باغی عربوں کو سندھ کی فوج میں ایک الگ سوار دستے کی صورت میں شامل کردے۔
مہاراج!،،،،، محمد حارث علافی نے کہا ۔۔۔آپ مجھے ساری عمر یہی بات کہتے رہیں تو میرا جواب وہی ہو گا جو پہلے دے چکا ہوں ،آج آپ کو اس دھمکی کا جواب بھی دوں گا جو آپ مجھے پہلے دے چکے ہیں، اس دن آپ نے مجھے کہا تھا کہ آپ نے ہمیں پناہ دی تھی اور اور پھر آپ نے یہ دھمکی دی تھی کہ آپ ہمیں اپنے ملک سے نکال دیں گے، اب اگر آپ ہمارے خلاف کوئی کاروائی کریں گے تو عرب کی یہ فوج ہمارے تحفظ کے لیے لڑے گی، محمد بن قاسم کو معلوم ہو گیا ہے کہ ہم ان کے مخالف کی مدد نہیں کریں گے، وہ ہمیں اپنے بھائی سمجھتے ہیں، ہم پر کوئی مشکل آ پڑی تو وہ ہماری مدد کو پہنچیں گے، یہ عرب کی سرزمین کا کردار ہے، پھر اسلام کا رشتہ ایسا ہے جس سے ہم منحرف نہیں ہو سکتے۔
کیا عرب کا کردار یہ ہے کہ جو تم پر کوئی احسان کرے اسے یہ صلہ دو جو تم دے رہے ہو ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ مجھے خطرہ نظر آتا ہے کہ تم مجھے دھوکہ بھی دو گے۔
نہیں!،،،، حارث علافی نے کہا ۔۔۔آپ نے مجھے مشوروں وغیرہ کے لیے اپنے ساتھ رہنے کو کہا تھا اور دیکھ لیں میں آپ کے ساتھ ہوں ،کہیں بھی آپ کو غلط مشورہ نہیں دیا، حارث علافی بولتے بولتے چپ ہو گیا اس نے کچھ سوچا اور بولا ،،،،،اگر آپ اپنے احسان کا اور زیادہ صلہ چاہتے ہیں تو میں یہ کر سکتا ہوں کہ جے سینا کی لڑائی سے پہلے میں یہ خبر لا سکتا ہوں کہ جے سینا کے سامنے مسلمانوں کا جو لشکر آئے گا اس کے ساتھ محمد بن قاسم ہو گا یا نہیں، اگر آپ کوئی اور بات معلوم کرنا چاہیں تو وہ بھی مجھے بتا دیں میں مسلمانوں کے پاس چلا جاؤں گا میں انہیں دوستی اور اسلام کے رشتے کا دھوکہ دوں گا ،اور میں جاسوسی آپ کے لئے کروں گا۔
یہ بات سن کر راجہ داہر بہت خوش ہوا اس نے حارث علافی سے کہا کہ وہ جاسوسی کر سکے تو یہی صلہ کافی ہے۔
محمد حارث علافی اسی روز روانہ ہوگیا اور محمد بن قاسم کے پاس پہنچا ۔
ابن قاسم !،،،،،حارث علافی نے محمد بن قاسم سے کہا ۔۔۔میں راجہ داہر کا جاسوس بن کر آیا ہوں، وہ مجھے ہر وقت مجبور کرتا رہتا ہے کہ میں تمام باغی عربوں کو سندھ کی فوج میں شامل کردوں، لیکن میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ تمہیں معلوم ہے، اس نے مجھے کہا تھا کہ میں صلح مشورے کے لئے اس کے ساتھ رہا کروں ،میں نے اس کی یہ بات اس لئے مان لی ہے کہ اس کے ارادے معلوم ہو جاتے ہیں ،اور مجھ سے اس کا کچھ بھی چھپا ہوا نہیں رہتا۔
ہاں حارث!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تم ہمارے لیے جو کچھ کر رہے ہو یہ ایک عبادت ہے، اب تم کس طرح آئے ہو؟
میں داہر کا جاسوس بن کر آیا ہوں۔۔۔ حارث علافی نے کہا ۔۔۔میں نے اسے خود کہا تھا کہ میں جاسوسی کروں گا اور مسلمانوں کے پاس ان کا دوست بن کر جاتا رہونگا، میں یہ معلوم کرنے آیا ہوں کے پہلی لڑائی میں جو داہر کی طرف سے اس کا بیٹا جے سینا لڑے گا تم کتنی فوج لاؤ گے، اور کیا تم خود اپنی فوج کے ساتھ ہو گے یا نہیں ،لیکن میں تمہیں بتانے آیا ہوں کہ تمہاری پہلی لڑائی جے سینا کے ساتھ ہوگی اور داہر اس کے ساتھ نہیں ہوگا، تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ راجہ داہر تمہیں چھوٹی چھوٹی لڑائیوں سے کمزور کرنا چاہتا ہے، پہلی لڑائی میں تم خود شامل نہ ہونا اور اپنے کم سے کم دستے استعمال کرنا، جے سینا ہاتھی پر سوار ہوگا اور اپنے فوج کے قلب میں ہوگا ، اپنے ایسے سالاروں کو آگے کرنا جنہیں جنگوں کا زیادہ تجربہ ہوگا، فتح اور شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے ،تمہارے سالار کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جے سینا کے لشکر کا بہت ہی برا حال کر دیں، صرف یہ نہ دیکھیں کہ جے سینا کی فوج تتر بتر ہوگئی ہے اور تم جیت گئے ہو، جے سینا کی فوج کو پسپا نہ ہونے دینا، اگر میدان تمہارے ہاتھ رہا تو دشمن کا قتل عام کرنا ،یہ ایک دہشت ہوگی جو داہر کے باقی تمام لشکر پر طاری ہو جائے گی، اور یہ تمہیں لڑائیوں میں بہت فائدہ دے گی۔
ایسا ہی ہوگا علافی!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ جب سندھ میرے ہاتھ میں آجائے گا تو تمھارے ماتھے پر بغاوت کا جو دھبہ لگا ہوا ہے وہ میں اپنے ہاتھوں سے صاف کروں گا۔
میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں ابن قاسم!،،،،، علافی نے کہا۔۔۔ میں نے تم سے حجاج بن یوسف سے اور خلیفہ وقت سے کچھ نہیں لینا، کچھ نہیں مانگنا، میں اللہ کی خوشنودی اور اسلام کی سربلندی کے لئے سرگرداں ہوں،،،،، اب تم یوں کرو گے مجھے یہاں سے نکال کر یہ اعلان کر دو کہ یہ شخص جو باغی علافیوں کا سردار ہے ہمارے پاس راجہ داہر کا جاسوس بن کر آیا تھا، اپنے آدمیوں سے کہوں کہ مجھے دھکے دیتے ہوئے دشمن کی خیمہ گاہ کے سامنے چھوڑ آئیں۔
میں ایسا نہیں کر سکوں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اے معزز علافی! تم مجھ سے یہ گناہ کیوں کروانا چاہتے ہو۔
یہ میں بہتر سمجھتا ہوں۔۔۔ حارث علافی نے جواب دیا۔۔۔ تمہارا دشمن وہ سامنے دیکھ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں شک ہوجائے کہ میں چونکہ مسلمان ہوں اس لئے راجہ داہر کو دھوکا دے رہا ہوں، میں دشمن کو دکھانا چاہتا ہوں کہ تم نے مجھے دھکے دے کر یہاں سے نکلوایا ہے، اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ تم میری اصلیت سمجھ گئے تھے۔
محمد بن قاسم نے ایسے ہی کیا جیسے حارث علافی نے کہا تھا، محمد بن قاسم کے لشکر کو تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ ایک ناٹک کھیلا جا رہا ہے، وہ اسے سچ سمجھے، کہ علافیوں کا سردار دوستی کا دھوکہ دے کر ہندوؤں کا جاسوس بن کر آیا تھا، محمد بن قاسم نے یہ حکم دیا تھا کہ اسے دھکے دیتے اور گھسیٹتے ہوئے دشمن کی خیمہ گاہ تک پہنچا دیا جائے۔
مسلمان سپاہیوں نے حارث علافی پر لعن طعن شروع کردی اور اسے تین چار آدمیوں نے اپنے آگے کر لیا اور دھکیلتے ہوئے اپنی خیمہ گاہ سے باہر لے گئے پھر دشمن کی خیمہ گاہ کے قریب جا پہنچے اور علافی کو دھکے دے کر خود وہیں کھڑے رہے ،انہوں نے بلند آواز سے راجہ داہر کے فوجیوں کو پکارا، ادھر سے بہت سے فوجی باہر نکل آئے ان میں ان کا سالار راجکیش بھی تھا۔
یہ لو اپنا جاسوس!،،،،، مسلمانوں نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ یہ مسلمان نہیں تم کافروں جیسا کافر ہے، مسلمان لعن طعن کرتے رہے اور علافی راجکیش کے پاس چلا گیا ،وہاں سے وہ راجہ داہر کے پاس گیا۔
مہاراج!،،،،، اس نے راجہ داہر سے کہا۔۔۔ آپ عربوں کی دانشمندی اور ذہانت تک نہیں پہنچ سکتے، میں نے محمد بن قاسم سے آپ کے کام کی باتیں معلوم کر لی تھیں، لیکن محمد بن قاسم کو شک ہو گیا کہ میں جاسوسی کر رہا ہوں، اس کے ساتھ شعبان ثقفی نام کا ایک آدمی ہے جسے خدا نے بہت زیادہ عقل اور فہم و فراست دی ہے، اس سے کچھ بھی نہیں چھپایا جاسکتا اسی نے مجھے پہچانا تھا یہ تو عرب ہو نے کی وجہ سے محمد بن قاسم نے رحم کیا کہ مجھے زندہ چھوڑ دیا ورنہ مجھے قتل کر دیا جاتا، انھوں نے میری بہت بےعزتی کی ہے اور وہاں سے دھکے دے کر نکالا ہے۔
پھر میں کیا سمجھوں؟،،،،،راجہ داہر نے پوچھا۔۔۔ کیا محمد بن قاسم خود آئےگا۔
ہو سکتا ہے وہ اپنا ارادہ بدل دے۔۔۔ علافی نے جواب دیا ۔۔۔یہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پہلی لڑائی میں محمد بن قاسم ساتھ نہیں ہوگا، اور وہ اپنے دستے استعمال کرے گا ،میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ بہت محتاط ہو کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
اس واقعہ سے محمد بن قاسم کے کیمپ میں ہی غلط فہمی پیدا نہیں ہوئی تھی، بلکہ تاریخ نویسوں کو بھی غلط فہمی ہو گئی تھی کہ علافی واقعی راجہ داہر کا جاسوس بن کر مسلمانوں کے کیمپ میں گیا تھا، معصومی اور بلاذری نے صحیح واقعہ لکھا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ محمد حارث علافی نے راجہ داہر کو دھوکہ دیا تھا اور داہر کو غلط باتیں بتا کر اس طرح گمراہ کیا تھا کہ داہر نے پہلی لڑائی میں جے سینا کو پوری نفری دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ماہ رمضان سے پہلے ہی ایک روز محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی کہ راجہ داہر کے دو دستے جھیل کے کنارے خیمہ زن تھے وہ خیمہ گاہ سمیٹ کر چلے گئے تھے، اپنے دیکھ بھال والے آدمیوں کو آگے بھیجا گیا تو پتہ چلا کہ جھیل سے ڈیڑھ دو میل دور دوسری طرف یہ دستے اور چند اور سوار اور پیادہ دستے جنگی تربیت میں منظم ہو رہے ہیں، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ منظم ہوکر حملہ کر دیں، اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ لڑائی کے لئے للکاریں، محمد بن قاسم نے خود آگے جاکر دیکھا اور اندازہ کیا کہ دشمن کی نفری کتنی اور کس قسم کی ہے ،یعنی کتنے سوار اور کتنے پیارے ہیں۔
شعبان ثقفی نے اپنے فرائض کے مطابق کچھ آدمی بہت دور دور یہ دیکھنے کے لیے بھیج دیے کہ داہر کے کوئی اور دستے آرہے ہیں یا نہیں۔
محمد بن قاسم کو تو حارث علافی سے پتہ چل ہی چکا تھا کہ پہلی لڑائی داہر کا بیٹا جے سینا لڑے گا ،محمد بن قاسم نے انہیں دستوں کو جو جھیل کے کنارے خیمہ زن تھے حکم دیا کہ وہ جے سینا کے مقابلے کے لئے آگے چلے جائیں، ان کے ساتھ ایک دو مزید سوار دستے بھیجے گئے تھے۔
جے سینا کے ساتھ مسلمانوں کی نسبت زیادہ نفری تھی ہاتھی بھی اس کے ساتھ تھے جو جو چنگھاڑ رہے تھے اور بے قابو ہو رہے تھے وہ اس طرح منہ زور ہو رہے تھے اس سے پتہ چلتا تھا کہ انہیں کچھ کھلا کر یا کسی اور طریقے سے بد مست کیا گیا ہے۔
دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں، جے سینا اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق آگے بڑھنے کی بجائے یہ کوشش کر رہا تھا کہ مسلمان پہلے حملہ کریں محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو پہلے سے ہی ہدایت دے رکھی تھی ،عرب کے مسلمانوں کے جنگی دستور کے مطابق محمد بن قاسم کے دستے کے چار حصوں میں تقسیم تھے دائیں پہلو، بائیں پہلو، اور قلب کے پیچھے ایک سوار دستہ ریزور کے طور پر رکھا گیا تھا ،جسے ہر اس جگہ پہنچنا تھا جہاں مدد کی ضرورت تھی۔
صحرز بن ثابت قلب کے دستوں کے ساتھ تھا، ادھر داہر کا بیٹا جے سینا اپنی فوج کے قلب میں ہاتھی پر سوار تھا ۔
صحرز بن ثابت عربکے دستور کے مطابق گھوڑے پر سوار تلوار ہاتھ میں لئے دونوں فوجوں کے درمیان چلا گیا۔
تم میں کون اتنا بہادر ہے جو میرے مقابلے میں آئے گا۔۔۔ صحرز نے للکار کر کہا۔
دشمن کی فوج میں کوئی ہلچل نہ ہوئی نہ ادھر سے کوئی جواب آیا نہ کوئی آدمی صحرز کے مقابلے کے لئے نکلا ۔
کیا داہر کا بیٹا جے سینا یہاں نہیں ہے۔۔۔ صحرز نے للکار کر کہا ۔۔۔ہاتھی پر آ جاؤ جے سینا ۔
اس طرف کی فوج میں کوئی حرکت نہ ہوئی، صحرز بن ثابت نے گول چکر میں گھوڑا دوڑاتا اور تلوار لہرا لہرا کر جے سینا کو للکارنا شروع کردیا لیکن سندھ کی فوج ساکت و جامد کھڑا رہی، یہ رواج سندھ اور ہندوستان میں نہیں تھا کہ لڑائی سے پہلے دونوں طرف سے ایک ایک آدمی عموماً سالار سامنے آتا اور ان میں تیغ زنی کا مقابلہ دونوں میں سے ایک کے مارے جانے تک ہوتا تھا ، ایسے دو تین مقابلے ہوتے اور اس کے بعد لڑائی شروع ہوتی تھی یہاں یہ رواج نہیں تھا۔
صحرز بن ثابت واپس آ گیا اور اس نے درمیان والے دستے کو حملے کا حکم دیا ،سوار تیزی سے آگے بڑھے اور ذرا ہی دیر بعد گھوڑے گھوڑوں سے اور تلواریں تلواروں سے ٹکرانے لگیں، مسلمان سوار آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنے لگے جیسے وہ ہندوؤں کے دباؤ کو برداشت نہ کر سکے ہوں، اس دوران دائیں اور بائیں پہلو والے دستے باہر کی طرف پھیل گئے تھے جس دستے نے حملہ کیا تھا وہ پیچھے ہٹ گیا، پیچھے والے پیادہ دستے نے آگے بڑھ کر سواروں کی جگہ لے لی۔ مسلمانوں کا یہ حملہ زیادہ زور دار تھا اب ہندو دستے پیچھے ہٹنے لگے۔
ایک صف ہاتھیوں کی تھی ان کے ہودوں میں جو آدمی تھے وہ برچھیاں پھینکتے تھے اور ان میں تیر انداز بھی تھے، مسلمان تیرانداز زیادہ تر فیل بانوں اور ہاتھیوں کو نشانہ بنا رہے تھے، لیکن بھاگتے دوڑتے ہوئے تیروں کو نشانے پر پھینکنا مشکل تھا، مسلمان زیادہ تر ہاتھیوں کی طرف سے ہی خطرہ محسوس کر رہے تھے، ہاتھیوں کی چنگھاڑ بڑی ہی خوفناک تھی اور صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کئی مسلمان پیا دے ہاتھی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اس کے راستے سے دور ہٹ جاتے تھے۔
ہاتھیوں سے مت ڈرو ۔۔۔سالاروں کے کہنے پر دو تین مجاہدین کی بڑی بلند للکار سنائی دینے لگی،،،، یہ قادسیہ والے ہاتھی ہیں، ان کی سونڈیں کاٹ دو، ہم نے قادسیہ میں ہاتھیوں کو کاٹ دیا تھا۔
یہ للکار سنائی دیتی رہی،،،، مجاہدین ہاتھیوں کے قریب جانے لگے لیکن ان کے ہودوں میں تین تین چار چار جو آدمی تھے وہ اوپر سے برچھیاں پھینکتے یا تیر چلاتے تھے ،ان کے قریب جانے والے زخمی ہوتے یا ادھر ادھر بھاگ جاتے تھے۔
آخر دمشق کے ایک مجاہد ابو اسحاق نے ایسی مثال پیش کر دی کہ مجاہدین کا خوف دور ہو گیا۔
ابواسحاق ناصری ایک ہاتھی کی طرف دوڑ کر گیا اس وقت ہودے کے برچھی بازوں کی توجہ اس طرف نہیں تھی، لیکن وہ ہاتھی کے قریب گیا تو فیل بان نے اسے دیکھ لیا ،اس کے شور پر ہودے سے ایک پرچھی آئی جو ناصری کے بائیں کاندھے میں لگی، ناصری نے پرواہ نہ کی اس میں اور ہاتھی میں ابھی آٹھ دس قدم کا فاصلہ تھا، فیل بان نے ہاتھی کا منہ ناصری کی طرف کردیا ،ہاتھی بڑی زور سے چنگھاڑ کر آیا، ناصری بڑا گہرا زخم کھا چکا تھا وہ گرنے یا بھاگ جانے کی بجائے ایک ہی جست میں ہاتھی تک پہنچا ،ہاتھی نے بد مستی سے سونڈ اوپر کرلی تھی ناصر نے تلوار کا وار اتنی زور سے کیا کہ سونڈ درمیان سے کٹ گئی اور اس کا آگے والا حصہ زمین پر آگیا۔
ہاتھی ایسے چنگھاڑ پڑا جیسے بجلی کڑک رہی ہو ، وہ ایک طرف کو دوڑ پڑا، ابواسحاق ناصری نے ایک اور زور دار وار ہاتھی کی پچھلی ٹانگ پر کیا، تلوار سے ہڈی کا کٹ جانا تو ممکن نہ تھا لیکن تلوار ٹانگ کو کاٹتی ہڈی تک پہنچ گئی، اس وار سے ہاتھی کی ٹانگ دوہری ہو گئی، ہودے سے برچھی باز لڑھک کر نیچے آ پڑے، ناصری ان میں سے صرف ایک کو مار سکا ،باقی اٹھ کر بھاگنے لگے لیکن مجاہدین نے انہیں کاٹ کر ڈھیر کردیا، ہاتھی سیدھا کھڑا ہو کر چنگھاڑتا ہوا دوڑتا جا رہا تھا، کٹی ہوئی ٹانگ اور کٹی ہوئی سونڈ سے جو خون بہ رہا تھا وہ کھلے ہوئے نلکے سے نکلتے ہوئے پانی کے مانند بہہ رہا تھا۔
خدا کی قسم میں نے ایک ہاتھی کی سونڈ کاٹ ڈالی ہے،،،، ابواسحاق ناصری اچھل اچھل کر چلا رہا تھا،،،، ہاتھیوں سے مت ڈرو ،،،،خدا کی قسم میں نے ایک ہاتھی کی سونڈ کاٹ ڈالی ہے۔
زخمی ہاتھی فیل بان کے قابو سے نکل گیا تھا اور وہ اپنے ہی دستوں کی طرف دوڑا جا رہا تھا اس نے اپنے ہی چند آدمیوں کو کچل ڈالا تھا۔
ابواسحاق ناصری شدید زخمی تھا وہ لڑنے کے قابل نہیں رہا تھا لیکن اس نے اپنے ساتھیوں کو یہ دکھا دیا کہ ان کے مقابلے میں ہاتھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے ،بلکہ گھوڑے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، ناصری کو تو اس کے دو ساتھی پیچھے چھوڑ آئے، ہاتھی کے ہودے سے آئی ہوئی برچھی نے اس کے کندھے اور بازو کا جوڑ الگ کردیا تھا، لیکن اس نے ساتھیوں کے دلوں سے ہاتھیوں کا خوف نکال دیا۔ اس کے بعد مجاہدین ہاتھیوں پر ٹوٹ پڑنے لگے ۔
کچھ دیربعد جے سینا کی فوج کے لئے اس کے ہاتھی مصیبت بن گئے ،وہ برچھی یا تلوار کے زخم سے بے قابو ہوجاتے اور اندھا دھن ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے تھے، انہوں نے اپنے دستوں کی ترتیب درہم بر ہم کر دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جے سینا ابھی پیچھے تھا مسلمانوں نے اب تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے تھے، دس بارہ سوار جے سینا کو ڈھونڈ رہے تھے لیکن وہ اپنے قلب میں اپنے محافظوں کے نرغے میں تھا۔
لڑائی بہت تیز اور خونریز ہوگئی تھی، عربی سالاروں نے اگلی چال چلنے کے لیے موزوں صورت حال پیدا کر لی تھی، انہوں نے پہلو کے دستے دائیں اور بائیں پھیلا دیے تھے۔ انہوں نے یہ خطرہ بھی مول لیا کہ محفوظ (ریزور) دستوں کی آدھی نفری سے بھی حملہ کرادیا ،جے سینا کی توجہ سامنے کے حملوں اور جوابی حملوں پر تھی ،اس کے ہاتھیوں نے الگ بھگدڑ مچا رکھی تھی، کئی ہاتھیوں کو مجاہدین زخمی کر چکے تھے ،بعض کے فیل بانوں کو انہوں نے تیروں سے مار گرایا تھا، چند ایک تیر اندازوں نے کسی کے حکم کے بعد آتشی تیر ہودوں پر چلا دئیے ،دو تین ہودوں کو جو لکڑی کے بنے ہوئے تھے آگ لگ گئی، اس سے کچھ نقصان نہ ہوا کیونکہ ہودوں کے لکڑی موٹی ہونے کی وجہ سے جلدی آگ نہیں پکڑتی تھی، ہودوں میں جو برچھی باز تھے انہوں نے آگ کو پھیلنے نہ دیا، سالاروں نے یہ یہ تیر رکوا دیئے کیوں کہ یہ کسی اور جگہ چلائے جاتے تھے۔
جب عربی فوج کے پہلوؤں کے دستے بہت باہر کو چلے گئے تو سالار صحرز بن ثابت نے انھیں پہلوؤں اور عقب سے حملے کا اشارہ دے دیا۔ ہندوؤں کے لئے یہ حملہ ناگہانی اور غیر متوقع تھا، جے سینا کو اپنے دستوں کی ترتیب بدلنے کی مہلت نہ مل سکی۔
اب لڑائی جے سینا کی سپاہ کے قتل عام کی صورت اختیار کرگئی، سپاہیوں کے لیے نکل بھاگنے کے راستے مسدود ہو چکے تھے، محمد بن قاسم دور کھڑا دیکھ رہا تھا، اس نے ایک قاصد سے کہا کہ وہ صحرز بن ثابت تک پہنچنے کی کوشش کرے اور اسے کہے کہ ہمیں جنگی قیدیوں کی ضرورت نہیں کسی کو زندہ نہیں رہنے دینا۔
محمد بن قاسم راجہ داہر کی فوج کے لئے دہشت بن جانے کے ارادے سے یہ حکم دے رہا تھا، ابھی راجہ داہر سے اس کا مقابلہ ہونا تھا اور اسے معلوم ہو چکا تھا کہ داہر نے فیصلہ کن جنگ کے لیے کمک تیار کر رکھی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جے سینا کے سامنے اب ایک ہی راستہ تھا اور وہ راستہ فرار کا تھا، عرب مجاہدین نے اس کی فوج کو گھیرے میں لے لیا تھا اس کی فوج میں بھگدڑ مچ چکی تھی، ہندو سپاہی اب جان بچانے کے لیے لڑ رہے تھے، راجکیش مارا جاچکا تھا۔
مسلمان سوار جو جے سینا کو ڈھونڈ رہے تھے وہ گتھم گتھا قسم کی لڑائی میں پھنس گئے، میدان جنگ قیامت کا منظر پیش کررہا تھا۔ گھوڑے لاشوں کو اور ان زخمیوں کو روند رہے تھے جو اٹھ نہیں سکتے تھے، ہاتھیوں کی چنگھاڑی اور گھوڑوں کا دوڑنا اور ہنہنانا اور زخمیوں کی آہ و بکا زمین و آسمان پر لرزہ طاری کر رہی تھی، سندھ کی ریتیلی مٹی اتنی اڑ رہی تھی کہ زمین سے اٹھنے والا بادل بن گئی، گرد کا یہ بادل اتنا گہرا ہو گیا اور اتنا پھیل گیا کہ میدان جنگ کو چشم فلک سے اوجھل کر دیا ۔
حق و باطل کا یہ معرکہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گیا تھا۔
گرد نے جے سینا کے ہاتھیوں کو چھپا لیا تھا۔ کسی کی للکار سنائی دی کہ ہاتھی بھاگ گئے ہیں۔
ہاتھی زخمی ہوئے تھے وہ اب بھاگے جا رہے تھے، میدان جنگ سے نکل گئے تھے، کسی کا فیل بان تھا کسی کا نہیں تھا ،کسی کے ہودے میں ایک دوبرچھی باز تھے، کئی ہودے خالی تھے، یا ان میں ایک دو لاشیں پڑی ہوئی تھیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
راجہ داہر میدان جنگ کی خبر سننے کے لیے بے تاب تھا، دن گزر گیا تھا سورج افق کے قریب چلا گیا تھا، کوئی خبر نہیں آ رہی تھی۔ جے سینا ان کے تعاقب میں چلا گیا ہوگا ۔۔۔راجہ داہر نے اپنے وزیروں مشیروں وغیرہ سے کہا ۔۔۔اس نے مسلمانوں کو بھگا دیا ہے۔
بھاگ کر جائیں گے کہاں۔۔۔۔ایک درباری نے کہا۔۔۔ دریا میں دوڑیں گے ڈوب چکے ہونگے۔
میرا سپوت ان کا فیصلہ کرچکا ہے۔۔۔ داہر نے کہا ۔۔۔وہ بھاگ گئے ہیں، جے سینا کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔
اس وقت راجہ داہر باہر کھڑا تھا دور سے ایک ہاتھی آتا نظر آیا۔
وہ اطلاع آگئی ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اس نے اطلاع بھیج دی ہے۔
ہاتھی آہستہ آہستہ چلا آرہا تھا راجہ داہر نے غصے سے کہا کہ فیل بان کو اشارہ کرو جلدی آئے۔
راجہ داہر کے ایک سوار محافظ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ہاتھی تک پہنچا، اس ہاتھی کے پیچھے کچھ دور ایک اور ہاتھی آرہا تھا ،محافظ نے ہاتھی کے اردگرد گھوڑا دوڑایا اور واپس آ گیا۔
مہاراج کی جے ہو !،،،،،محافظ نے کہا ۔۔۔ہاتھی زخمی ہے، اس کی پچھلی دونوں ٹانگوں میں گہرر زخم ہیں، فیلبان بھی زخمی ہے ،اس کے کندھے میں تیر اترا ہوا ہے، ہودا خالی ہے۔
ہاتھی قریب آیا تو فیل بان جس کا سر ڈول رہا تھا ،اترنے لگا تو گر پڑا ،ہاتھی کا خون اتنا زیادہ بہ گیا تھا کہ وہ روکا اور اس کی ٹانگیں دوہری ہو گئی اور وہ پھر بیٹھ گیا ،ہودے میں داہر کے دو سپاہی مرے پڑے تھے، فیل بان کے منہ میں پانی ڈالا گیا، تیر پٹھے میں اترا ہوا تھا اسے نکالنا آسان نہیں تھا۔
لڑائی کی کیا خبر ہے؟،،،،، راجہ داہر نے اس سے پوچھا۔
سب کٹ گئے ہیں۔۔۔ فیلبان نے اونگھتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ سب ہاتھی کٹ گئے،،، اور وہ بیہوش ہو گیا۔
اتنے میں پیچھے والا ہاتھی پہنچ گیا ،اس کا فیل بان زخمی نہیں تھا لیکن اس کے ہودے میں کوئی بھی نہیں تھا، اس فیل بان نے میدان جنگ کی پوری کیفیت بیان کی۔
ہاتھی تو ایک بھی سلامت نہیں رہا۔۔۔ فیل بان نے کہا ۔۔۔میرے ہودے میں چار آدمی تھے چاروں کو عربی سالاروں نے برچھیوں سے گھائل کر کے نیچے پھینک دیا تھا ،میں نے بڑی مشکل سے اپنے ہاتھی کو وہاں سے نکالا ہے۔
جے سینا کہاں ہے؟،،،،، راجہ داہر نے پوچھا۔
کچھ پتہ نہیں مہاراج!،،،،، فیل بان نے رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا ۔۔۔کچھ پتہ نہیں کسی کو کسی کا ہوش نہیں رہا تھا ،گرد اتنی زیادہ اڑ رہی تھی کہ اپنا آپ بھی نظر نہیں آتا تھا، لڑائی بہت دور دور تک پھیل گئی ہے ۔
کیا مسلمان بھاگے نہیں ؟،،،،،راجہ داہر نے پوچھا۔
نہیں مہاراج !،،،،،فیل بان نے جواب دیا ۔۔۔نہ وہ خود بھاگ گئے ہیں نہ ہمارے کسی آدمی کو انہوں نے بھاگنے دیا ہے، یہ تو ہاتھی تھے جو چیختے چنگھاڑتے وہاں سے نکل آئے ہیں، اپنا کوئی آدمی شاید ہی بچ کر آجائے،،،،،،،، راج کمار جے سینا کو میں نے کہیں نہیں دیکھا، عرب کے سپاہیوں نے ہاتھیوں پر ایسے سخت حملے کیے تھے کہ ہاتھی بھی منہ موڑ گئے،،،،،،، گستاخی معاف مہاراج!،،،، اپنا کوئی آدمی شاید ہی زندہ واپس آئے گا، راجکیش بھی مارے گئے ہیں، میں نے انہیں خود تلواروں سے کٹتے اور گرتے دیکھا ہے۔
جے سینا نہیں کٹ سکتا ،،،،،،راجہ داہر نے اکھڑی اکھڑی سی آواز میں کہا۔۔۔۔ ہمارا سپوت گرنے والوں میں سے نہیں ،سواروں کا ایک دستہ بھیج دو اور ہمارے سپوت کو ڈھونڈ کر لاؤ ۔
اتنے میں دو اور ہاتھی چلے آ رہے تھے ان کے جسموں سے بھی خون بہ رہا تھا، ایک پر فیل بان موجود تھا دوسرا فیل بان کے بغیر تھا۔
سواروں کا ایک دستہ حاضر ہو گیا اس دستے کے کمانڈر کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ لڑائی میں شامل ہونے کی بجائے کسی طرح جے سینا کو ڈھونڈ کر اپنی حفاظت میں لے لے اور اسے واپس لے آئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب فیل بان راجہ داہر کو میدان جنگ کی حالات سنا رہے تھے، اس وقت محمد بن قاسم کے مجاہدین میدان جنگ میں جے سینا کو ڈھونڈ رہے تھے، محمد بن قاسم نے حکم بھیجا تھا کہ جے سینا کو زندہ پکڑنے کی کوشش کی جائے۔
پہلے اسے دس بارہ سوار ڈھونڈتے رہے تھے لیکن وہ گھمسان کی لڑائی میں الجھ کر اپنے آپ کو بھی گم کر بیٹھے، چند ایک پیادہ مجاہدین تھے جنہوں نے عہد کر لیا کہ وہ جے سینا کو زندہ پکڑیں گے۔
ان پیادوں نے جے سینا کو دیکھ لیا، وہ ہاتھی پر سوار تھا اس کے ساتھ تین برچھی باز تھے، اس کے ہودے کی دیواریں زیادہ اونچی تھیں، اور ان کی لکڑی زیادہ موٹی تھی، اور اس کا ہاتھی دوسرے تمام ہاتھیوں کی نسبت زیادہ تندرست اور قدوقامت میں بڑا تھا ،اس وقت میدان جنگ کی صورتحال اس کے لئے مہلک ہو چکی تھی وہ اپنے بکھرے ہوئے دستوں کو مسلمانوں کی تلواروں سے کٹتا اور برچھیوں سے چھلنی ہوتا دیکھ رہا تھا، یہ صورتحال اس کے بس سے باہر ہو گئی تھی، اب وہ بھاگ نکلنے کا راستہ دیکھ رہا تھا ،اس نے اپنا جھنڈا چھپا لیا تھا تاکہ مسلمانوں کو پتہ نہ چلے کہ وہ اس ہاتھی پر موجود ہے، معلوم نہیں محمد بن قاسم کے ان چند پیادہ مجاہدین کو کس طرح پتہ چلا کہ یہ ہاتھی جے سینا کا ہے اور وہ اس میں موجود ہے، شاید ہاتھی کی جسامت ہودے کی ساخت اور سجاوٹ سے انہوں نے اندازہ کیا ہوگا کہ یہ شاہی ہاتھی ہے، انہوں نے اس ہاتھی کو گھیرے میں لے لیا لیکن فیل بان جب ہاتھی کو دوڑاتا تھا تو اس کے سامنے کوئی نہیں ٹھر سکتا تھا، مجاہدین پیچھے سے اس پر برچھیوں اور تلواروں کے وار کرنے کے لئے آگے بڑھتے تھے تو ہودے میں سے برچھیاں اور تیر آتے تھے، وہ آگے ہوتے تھے تو ہاتھی ان پر دوڑا دیا جاتا تھا۔
مجاہدین نے بہت کوشش کی کہ ہاتھی کو زخمی کر کے بے بس کر لیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے، اور ہاتھی میدان جنگ سے نکل گیا ،ان پیادے مجاہدین کے آگے رکاوٹیں بہت تھیں، کہیں گھوڑے مرے پڑے تھے، اور انسانوں کی لاشوں کے انبار بھی تھے، لڑائی بھی ہو رہی تھی، گرد بھی اڑ رہی تھی، اس حالت میں جے سینا کا ہاتھی کہیں غائب ہو گیا۔
اس دور کے تاریخ نویسوں کے حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ سورج غروب ہو چکا تھا اور شام بہت گہری ہوگئی تھی، جب جے سینا کا ہاتھی اپنے ٹھکانے پر پہنچا اس وقت راجہ داہر بہت بری ذہنی حالت میں باہر کھڑا تھا، اپنے بیٹے کو دیکھ کر وہ زمین پر دو زانو ہو گیا اور ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا، پھر اٹھ کر اپنے بیٹے سے بغلگیر ہو گیا۔
جے سینا کی ذہنی حالت اتنی بگڑی ہوئی تھی کہ اس کے منہ سے بات بھی نہیں نکلتی تھی۔
چچ نامہ میں مختلف حوالوں سے سندھ کی اس پہلی لڑائی کی جو تفصیلات تحریر ہے ان کے مطابق جے سینا کا تمام لشکر مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گیا تھا ،تمام سے مراد نوے فیصد کہی جاسکتی ہے، اور یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ راجہ داہر نے جو پلان بنایا تھا وہ پہلے مرحلے میں ہی تباہ و برباد ہو گیا ۔
دلبرداشتہ نہ ہو راجکمار!،،،،،، راجہ داہر نے جے سینا سے کہا ۔۔۔ہمارا کچھ نہیں بگڑا، ہم ان عربوں کو راوڑ کے میدان میں ختم کردیں گے ، نیا چاند نظر آنے دو چند ہی دن باقی ہیں اگلا مہینہ رمضان کا ہے مسلمان روزے رکھتے ہیں سارا دن پانی بھی نہیں پیتے، ہم اسی مہینے میں انہیں لڑائی کے لئے للکاریں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شعبان 93 ہجری کی وہ رات تاریک تھی۔
اس رات کے تاریکی خون کی بو سے اوجھل تھی۔
بے شمار مشعلوں کے شعلے تاریکی میں تیرتے پھر رہے تھے ،زخمیوں کی آہ و بکا رات کا جگر چاک کر رہی تھی، مجاہدین ٹولیوں میں بٹے ہوئے داہر کے مرے ہوئے زخمی فوجیوں کے ہتھیار اور دیگر ساز و سامان اکٹھا کر رہے تھے ،کچھ ٹولیاں اپنے شہیدوں کی لاشیں اٹھا رہی تھیں، ایک دو ٹولیاں زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پیچھے لا رہی تھیں، ان کی مرہم پٹی وہ عورتیں کر رہی تھیں جو محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ آئی تھیں، یہ مجاہدین کی بیویاں بیٹیاں یا بہنیں تھیں، ہر لڑائی کے بعد زخمیوں کی دیکھ بھال وہی کرتی تھیں، مشکیزے اٹھائے پانی پلاتیں پھرتی تھیں۔
گھوڑ سوار کا ایک دستہ داہر کی فوج کے ان گھوڑوں کو پکڑ رہا تھا جن کے سوار مارے گئے یا زخمی ہو کر گر پڑے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنی توجہ مال غنیمت پر مرکوز نہ کی اسے معلوم تھا کہ یہ راجہ داہر کی فوج کے چند ایک دستے تھے اور ابھی اس کی فوج کا بہت بڑا حصہ تازہ دم اروڑ کے گرد و نواح میں تیار کھڑا ہے ،رات کے وقت لڑائی روک دی جاتی تھی لیکن شب خون کا خطرہ ہر وقت رہتا تھا، محمد بن قاسم نے دو سالاروں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے اپنے دستوں کو میدان جنگ سے کچھ دور لے جائیں اور ان راستوں پر گشت کرتے رہیں جن راستوں سے یا جس طرف سے دشمن کے شب خون کا امکان تھا، یہ دفاعی انتظام لازمی تھا کیونکہ دشمن اناڑی نہیں تھا، راجہ داہر کی یہ سوچ کہ اس نے اپنی زیادہ تر اور زیادہ اچھی فوج کو اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا تھا ایک ایسے جنگجو کی سوچ تھی جو فن حرب و ضرب کو نہایت اچھی طرح سمجھتا تھا۔
محمد بن قاسم خود اس معرکے میں شامل نہیں ہوا تھا رات کو وہ گھوڑے پر سوار میدان جنگ میں گھوڑا دوڑاتا پھر رہا تھا، اسکے ساتھ مشعل برادر محافظ تھے وہ میدان جنگ سے دور تک چلا گیا جہاں اس کے سوار دستے گشت کر رہے تھے۔
میرے رفیقو!،،،،، اس نے دونوں سالاروں سے کہا۔۔۔ یہ ابتدا ہے اسے دشمن کا انجام نہ سمجھنا، اللہ تمہیں ایسی ہی فتوحات سے نوازے ،لیکن یہ خیال رکھنا کے صرف ایک معرکہ جیت کر اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جانا کہ دشمن اگلی لڑائی میں بھی اسی طرح تمہارے ہاتھوں تباہ ہوگا، راجہ داہر نے اپنے بیٹے کو یہ چند ایک دستے دے کر اور انہیں ہم سے لڑا کر یہ دیکھا ہے کہ ہم کس طرح لڑتے ہیں، اور وہ ہمیں کس طرح شکست دے سکتا ہے، اگلے میدان میں ہمیں زیادہ محتاط ہو کر لڑنا ہوگا۔
ابن قاسم!،،،، ایک سالار خریم بن عمرو مدنی نے کہا۔۔۔ غم نہ کر ، ہم اس روز اپنے آپ کو فاتح کہیں گے جس روز راجہ داہر کا سر تیرے قدموں میں پڑا ہو گا ،اسلام کے راستے میں اس چٹان کو توڑ پھوڑ کر ہم کہیں گے کہ یہ ہے وہ فرض جس کی ادائیگی کے لئے ہم آئے تھے۔
اور ابن قاسم !،،،،،دوسرے سالار دارس بن ایوب نے کہا ۔۔۔بیشک ہماری یہ فتح آخری فتح نہیں لیکن ہم نے ایک ایسی فتح پائی ہے جو آخری ہے، ہمارے مجاہدین ہاتھیوں سے ڈرتے تھے اور اب میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ داہر کے ہاتھی مجاہدین سے ڈرنے لگے ہیں۔
بیشک،،،، بیشک ،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں نے اسلام کے سپاہیوں کو ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹتے دیکھا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم اپنے زخمیوں کو دیکھنے چلا گیا ،زخمیوں کے لیے خیمے لگا دیے گئے تھے، زمین پر گھاس اور کپڑے بچھا کر زخمیوں کو لٹایا گیا تھا ،وہاں جاکر محمد بن قاسم گھوڑے سے اترا گیا ،وہ ہر خیمے کے اندر جاتا اور زخمیوں کے ساتھ باتیں کرتا تھا، ایک خیمے میں گیا خیمے کے اندر دو مشعلیں جل رہی تھیں، ایک بڑھیا ایک زخمی کو پانی پلا رہی تھی، اس سے پہلے اس بڑھیا اور اس زخمی کے درمیان کچھ باتیں ہو چکیں تھیں۔
زخمی کی مرہم پٹی ہو چکی تھی یہ بڑھیا جس کے چہرے پر بڑھاپے نے چند ایک لکیریں گہری کردی تھیں اسے پانی پلانے آئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>