⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴چوبیسویں قسط 🕌


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴چوبیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہاں !،،،،علافی نے کہا تھا ۔۔۔میں یہ کر سکتا ہوں اس طرح باغی عربوں کا سردار محمد حارث علافی راجہ داہر کے ساتھ تھا ۔
ہمارا دوست علافی بھی یہاں موجود ہے راجہ داہر نے کہا ۔۔۔دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں کیا مشورہ دیتا ہے۔
مہاراج !،،،،محمد حارث علافی نے کہا ۔۔۔آپ کی فوج کے تمام حاکم حملہ کرنا چاہتے ہیں، اگر میں مشورہ دوں تو شاید انھیں اور آپ کو بھی پسند نہ آئے ۔
سب نے اسے کہا کہ وہ بلاجھجک اپنا مشورہ اور تجویز پیش کرے۔
میں عرب ہوں !،،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔عربوں کو آپ نے لڑتے دیکھ لیا ہے ان کی پیش قدمی ان کی جنگی کامیابیوں کو دیکھا ہے، آپ نے ان میں اپنے آدمی بھیجے کہ وہ وہاں تباہی مچائیں لیکن آپ کو کامیابی نہ ہوئی سوائے ایک منجنیق کے جو آپ کے آدمی وہاں سے چوری کرکے لے آئے تھے، آپ سمجھتے ہوں گے کہ عربوں کے متعلق اور ان کی جنگی قابلیت کے متعلق سب کچھ جان لیا ہے، لیکن ان کے متعلق آپ بہت کچھ نہیں جان سکے، جو میں جانتا ہوں، وہ آپ نہیں جانتے۔
کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ عربی فوج گھوڑوں کے بغیر ہمارا مقابلہ کرسکے گی؟،،،، راجہ داہر نے پوچھا ۔۔۔کیا عرب کے پیادے ہمارے ہاتھیوں کو بھی پسپا کر دیں گے۔
کر دیں گے مہاراج !،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔وہ اسی ملک کے ہاتھی تھے جو فارس کے آتش پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف چٹانوں کی طرح ان کے سامنے کھڑے کردیئے تھے، ان کے مہاوت بھی آپ کے ہی ملک کے تھے، ان ہاتھیوں کی سُنڈوں پر آہنی خول چڑھے ہوئے تھے، اور باقی جسم کے اردگرد آہنی زنجیر لٹک رہی تھی، وہ قادسیہ کی لڑائی تھی کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عرب کے مسلمانوں نے ان ہاتھیوں کو کس طرح میدان جنگ سے بھگایا تھا ،ہمارے پیادوں نے ان ہاتھیوں کی سونڈے کاٹ دی تھیں،،،،،، اور مہاراج عرب کے مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ شروع شروع میں ان کے پاس گھوڑے ہوتے ہی نہیں تھے، کون سی جنگ ہے جو انہوں نے ہاری تھی ،میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ صرف اس وجہ سے عرب کی فوج کو کمزور نہ سمجھ لینا کہ ان کے گھوڑے بیمار ہوگئے ہیں، اور یہ بھی نہ سمجھ لینا کہ اس فوج کا سالار کم عمر ہے۔
اگر تم عرب نہ ہوتے تو عربوں کی اتنی تعریف نہ کرتے ۔۔۔راجہ داہر کے ایک فوجی حاکم نے کہا۔
میرے عزیز دوست!،،،،، علافی بولا ۔۔۔کیا تمہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ ہماری دشمنی اسی خلیفہ کے ساتھ ہے جس نے حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم کو اتنا بڑا اعزاز بخشا ہے، اور شاید ‏تم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ محمد بن قاسم کے دماغ میں یہ ٹھونس کر بھیجا گیا ہے کہ علافیوں کو ویسا ہی دشمن سمجھنا جیسے ہندو ہیں۔
لیکن تم دشمنی کی بجائے دوستی کا حق ادا کر رہے ہو۔۔۔ اسی فوجی حاکم نے کہا ۔۔۔تمہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ میرا پورا قبیلہ تمہارے ساتھ ہے۔
تم ہمارے رسم و رواج نہیں جانتے۔۔۔ علافی نے کہا۔۔۔ دشمنی انسانوں کی ہوتی ہے، اس زمین کو دشمن نہیں سمجھا جاتا جس پر انسان پیدا ہوتے ہیں، میں تمہیں سچے دل سے پوری ہمدردی سے یہ مشورہ دیتا کہ محمد بن قاسم پر حملہ نہ کرنا ورنہ ایسا نقصان اٹھاؤ گے کہ مسلمان سیدھے بلارکاوٹ اروڑ تک پہنچیں گے، تم سمجھتے ہو گے کہ دریا پار کر جاؤ گے، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہاری کشتیاں اس کنارے سے چلے گی تو وہ اس کنارے پہنچے گی نہ واپس آ سکیں گی، ان کے پاس منجنیقیں ہیں اور آتشی تیر ہیں، جو کشتیوں کو جلا کر راکھ کر دیں گے۔
راجہ داہر اناڑی نہیں تھا دوراندیش تھا، اس نے اس وقت تک مسلمانوں کے ہاتھوں جو کھویا تھا اس سے وہ بہت محتاط ہو گیا تھا ،اس نے علافی کے مشورے کو قبول کرلیا اور فیصلہ کیا کہ مسلمانوں پر حملہ نہیں کیا جائے گا، اور انہیں دریا عبور کر کے اس طرف آنے کی مہلت دی جائے گی۔
میں تم سب کو ایک بار پھر کہتا ہوں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔کہ عرب فوج ادھر آئے گی تو سامنے ہم اپنے ہاتھیوں کے ساتھ ایک پہاڑ کی طرح کھڑے ہونگے اور پیچھے یہ گہرا اور تیز دریا ہوگا ،وہ ہمارے ہاتھ کاٹیں یا پیچھے ہٹ کر ڈوب مریں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کی کیفیت یہ تھی کہ اس کی نیندیں حرام ہوگئی تھی
راتوں کو دریا کے کنارے گھوڑا دوڑاتا دور تک نکل جاتا تھا، اس نے کئی بار اپنے سالاروں سے کہا تھا کہ راجہ داہر اتنا کم عقل نہیں ہوسکتا کہ ہماری اتنی بڑی کمزوری کو جانتے ہوئے بھی حملہ نہ کرے۔
رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تھی تیرانداز دریا کے کنارے چار چار پانچ پانچ کی ٹولیوں میں گشت کر رہے تھے، ان کی نظریں دریا کی وسعت کو دیکھ رہی تھیں، دریا میں ذرا سی بھی کوئی غیر معمولی آواز اٹھتی تو جو تیر انداز یہ آواز سنتے چونک کر رک جاتے دریا کی لہروں کو غور سے دیکھتے اور اس وقت وہاں سے ہٹتے جب انہیں یقین ہو جاتا کہ کسی دریای مخلوق نے سر باہر نکالا اور ڈبکی لگائی تھی۔
تیر اندازوں کی ایک ٹولی چلتے چلتے رک گئی دریا کی سطح پر انہیں ایک سایہ تیرتا نظر آیا، وہ روک کر دیکھنے لگے سایہ آگے ہی آگے بڑھتا رہا تھا پھر صاف نظر آنے لگا کے یہ ایک چھوٹی کشتی ہے اور دو آدمی کشتی کو چپوؤں سے کھینچ رہے ہیں، تیر انداز بیٹھ گئے تاکہ کشتی والے انہیں دیکھ نہ سکیں۔
پانی کا بہاؤ بڑا تیز تھا کشتی کچھ آگے جا کر کنارے لگی اور دو آدمی کشتی میں سے نکلے ،تیر انداز جھکے جھکے چھپتےچھپاتے ان تک جا پہنچے اور انہیں گھیرے میں لے لیا، ان دونوں نے عربی زبان میں بات کی لب و لہجہ بھی عربی تھا لیکن صرف عربی زبان سے یقین نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یہ دوست ہیں اور دشمن کے آدمی نہیں، انہوں نے کہا کہ وہ محمد بن قاسم کے پاس جانا چاہتے ہیں، تیر اندازوں نے انھیں پکڑ لیا اور مشکوک آدمیوں کی حیثیت سے انہیں خیمہ گاہ میں لےگئے اور وہاں کے سنتریوں کے حوالے کر کے خود دریا کے کنارے آ گئے۔
انہیں شعبان ثقفی کے حوالے کیا گیا انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے سردار محمد حارث علافی کی طرف سے آئے ہیں، شعبان ثقفی کا خفیہ رابطہ علافی کے ساتھ تھا ،وہ یقیناً ان آدمیوں کو جانتا ہوگا وہ اسی وقت انہیں محمد بن قاسم کے پاس لے گیا۔
محمد بن قاسم بہت کم سوتا تھا اس نے سب سے کہہ رکھا تھا کہ وہ سو جائے تو رات کسی بھی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اسے جگہ لیا جائے۔
کیا خبر لائے ہو ۔۔۔ابن قاسم نے ان آدمیوں کو اپنے خیمے میں بٹھا کر پوچھا۔
ہمارے سردار نے آپ کے نام پیغام دیا ہے ۔۔۔ان دونوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔ اس نے کہا ہے کہ راجہ داہر کو اس نے منوا لیا ہے کہ وہ آپ پر حملہ نہ کرے۔
کیا اس نے راجہ داہر سے درخواست کی تھی؟
نہیں سالار اعلیٰ !،،،،،اس آدمی نے کہا ۔۔۔ہمارے سردار نے راجہ داہر کو مشورہ دیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر حملہ کیا تو اسے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا ،،،،علافی کے ان آدمیوں نے محمد بن قاسم کو وہ تمام باتیں سنائیں جو راجہ داہر کے ساتھ علافی کی ہوئی تھی، اور داہر کے اپنے فوجی حاکموں نے اسے جو مشورے دیے تھے وہ بھی سنائے۔
سالار اعلی!،،،، اس قاصد نے کہا ۔۔۔سردار علافی نے کہا ہے کہ آپ جتنی جلدی ہو سکے گھوڑوں کا انتظام کریں، جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے یہ وقت آپ کا دشمن ہوتا جا رہا ہے، سردار نے کہا ہے کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں آپ کو گھوڑے نہیں دے سکتا کیونکہ داہر کو پتہ چل جائے گا پھر میں آپ کی یہ مدد بھی نہیں کر سکوں گا جو اب کر رہا ہوں، اور آپ کو یہاں کے اندرونی حالات اور خفیہ باتوں کا علم ہوتا جارہا ہے ۔
کیا حارث اس راجہ داہر کے ساتھ ہی رہتا ہے؟
ہاں سالار اعلی!،،،،، قاصد نے جواب دیا۔۔۔ راجہ داہر اسے آپ کے خلاف اکسا رہا تھا لیکن سردار نے صاف انکار کردیا ،وہ صرف اس پر راضی ہوا تھا کہ مشاورات کے لئے اس کے ساتھ رہے گا۔
اور سردارعالی !،،،،دوسرے قاصد نے کہا ۔۔۔یہ بھی ہمارے سردار نے اس لئے قبول کیا ہے کہ راجہ داہر کے ساتھ رہنے سے اس کے ارادوں اور عزائم کا پتا چلتا رہے گا،،،، ہم چار آدمی ہیں جنھیں سردار نے اپنے محافظوں کے طور پر اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے، ہم بڑا خطرہ مول لے کر یہاں تک پہنچے ہیں، ایک چھوٹی کشتی چوری کی تھی اب اسی کشتی پر واپس جائیں گے، اور اس طرح جانا پڑے گا کہ ہمیں کوئی دیکھ نہ سکے۔
حارث سے کہنا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اسکا اجر تمہیں اللہ دے گا ،،،،دونوں قاصد واپس چلے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بصرہ میں حجاج بن یوسف کو جب اطلاع ملی کہ محمد بن قاسم کے تمام گھوڑے کسی نامعلوم بیماری میں مبتلا ہو کر بیکار ہوگئے ہیں اور مرنے بھی لگے ہیں تو وہ پریشانی سے نڈھال ہوگیا، اتنا بڑا صدمہ برداشت کر گیا اس نے اسی وقت حکم دیا کے بصرہ میں فوج کے جتنے بھی گھوڑے ہیں فورا حاضر کیے جائیں ،تھوڑی سی دیر میں دوہزار گھوڑے قصرِ امارت کے سامنے آ کھڑے ہوئے، حجاج نے دوسری کارروائی یہ کی کہ شہر کی تمام مسجدوں کے اماموں کو علماء اور کئی دیگر متقی افراد کو طلب کیا۔
سندھ میں ہم پر جو آفت نازل ہوئی ہے اس کا علاج صرف دعا ہے۔۔۔ حجاج نے اماموں اور علماء وغیرہ سے کہا۔۔۔ سندھ میں اپنے سوار دستوں کے تمام گھوڑے کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں، گھوڑے مرنا شروع ہوگئے ہیں، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے نوجوان سپہ سالار کا کیسی ہولناک مصیبت میں گرفتار ہوگا ،وہ دشمن کا ملک ہے دشمن اس پر حملہ کرے گا تو نتیجہ کیا ہو گا، دشمن ضرور حملہ کرے گا، اس نوجوان لڑکے اور اسکے لشکر کو صرف دعائیں بچا سکتی ہیں، اللہ کے حضور گڑگڑاؤ، اور روؤ ، سجدے کرو اور اللہ سے دعا مانگو۔
پھر حجاج نے منوں کے حساب سے روئی اور سرکہ فوراً اکٹھا کرنے کا حکم دیا، جوں جوں روئی آتی جا رہی تھی حجاج کے حکم سے اسے سرکے میں بھگوتے تھے ،اور دھوپ میں رکھتے جا رہے تھے روئی آتی رہی سرکہ بھی آتا رہا سرکے میں بھیگی ہوئی روئی خشک ہو جاتی تھی تو اسے پھر سرکے میں بھگو دیتے تھے تاکہ روئی زیادہ سے زیادہ سرکہ اپنے اندر جذب کر لے۔
جب روئی خشک ہو گئی تو اس کی گانٹھیں بنا کر دو ہزار گھوڑوں کے ساتھ سندھ روانہ کردی گئیں، یہ گھوڑے جس آدمی کی ذمہ داری میں بھیجے گئے اس کا نام طیار تھا وہ گھوڑوں کے امراض کا ماہر تھا۔
حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کے نام پیغام بھیجا جس میں اس نے لکھا کہ گھوڑوں کو اس خطے کی غذا ہضم کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے، اور یہ غذا گھوڑوں کو راس نہیں آئی، سرکے میں بھگو کر خشک کی ہوئی روئی بھیجی جا رہی ہے تھوڑی سی روئی پانی میں ڈال کر نیچوڑو گے تو تمہیں سرکہ حاصل ہوگا، سرکے کے علاوہ یہ پانی ہر روز دو تین مرتبہ گھوڑوں کے منہ میں ڈلواتے رہنا گھوڑے صحت یاب ہو جائیں گے۔
مسجدوں میں دعائیں مانگی جا رہی تھیں، نوافل پڑھے جا رہے تھے سارے شہر بصرہ میں یہ خبر پھیل گئی، عورتیں گھروں میں دعائیں مانگنے لگیں، گھر گھر وظیفہ پڑھے جانے لگے، خلیفہ وقت کو بھی محمد بن قاسم کو درپیش صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا تھا، خلیفہ عبدالملک ہر جمعے کے خطبے میں لوگوں کو محمد بن قاسم اور اس کے لشکر کی نجات اور کامیابی کی دعا کے لئے کہنے لگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اللہ تبارک وتعالٰی نے دعائیں قبول کرلیں، دوہزار تازہ دم گھوڑے بروقت پہنچ گئے ورنہ خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ حجاج کے بھیجے ہوئے گھوڑوں سے پہلے داہر کے گھوڑے آ جائیں گے، جن پر مسلح سوار ہوں گے، دوہزار گھوڑوں کے ساتھ بیمار گھوڑوں کا علاج بھی پہنچ گیا، اس نے بہت سے بیمار گھوڑوں کو بچا لیا۔
محمد بن قاسم نے اس مقام پر قیام ضرورت سے زیادہ لمبا کر دیا ،حجاج اسکے اس پیغام کا منتظر رہا کہ دریا عبور کرلیا گیا ہے اور داہر کی فوج کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی ہے، لیکن کوئی پیغام نہیں آرہا تھا، حجاج کو اپنے خفیہ ذرائع سے معلوم ہوا کہ محمد بن قاسم بلا وجہ وہاں رکا ہوا ہے، حجاج کو یہ اطلاع بھی ملی تھی کے سیسم پر ایک ہندو حاکم نے دھوکے سے قبضہ کر لیا تھا اور اس سے قبضہ چھڑا لیا گیا ہے، حجاج اس اطلاع پر بہت برہم ہوا کہ سیسم میں صرف سرغناؤں کو سزائے موت دی گئی ہے اور جو ہندو فوجی دھوکے سے قلعے میں داخل ہوئے تھے اور جن ہندوؤں نے انہیں اپنے گھروں میں چھپایا تھا ان سب کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
حجاج نے یہ ساری باتیں سامنے رکھ کر محمد بن قاسم کو تحریری پیغام بھیجا جو تاریخوں میں محفوظ ہے۔
،،،،، میں حیران ہوں کہ تم ابھی تک وہی ہوں اور ابھی تک دریا عبور کرنے کی کوشش نہیں کی، کیا تم دشمن پر رحم کرنا چاہتے ہو، مجھے تمہارا یہ رویہ پسند نہیں کہ دشمن کو امان دیتے اور جان بخشی کرتے رہو ،عداوت پیدا ہوجائے تو امان نہیں دینی چاہئے، تم گنہگار اور بے گناہ کو یکساں سمجھتے ہو، دشمن کہے گا کہ یہ تمہاری کمزوری ہے کیا تم بھول گئے ہو کہ خدائے ذوالجلال نے تمہیں ایسی عقل سے نوازا ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتی تم اس عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟،،،،،،، اور تم وہاں بیکار بیٹھے دشمن کو مزید تیاری کا موقع دے رہے ہو، تمہارے مشیر کیا کر رہے ہیں میرا یہ پیغام انہیں بھی سنا دینا،،،،،، جنگ میں دشمن کو دھوکہ دیا جاتا ہے ظاہر کچھ اور کرکے کیا کچھ اور جاتا ہے، تم وقت ضائع کرتے رہو گے تو جنگ کے اخراجات بڑھتے جائیں گے، حکومت اور حکمت عملی کی طرف توجہ دو، لشکر کی جرات مندی اور بے خوفی کو نظر انداز نہ کرنا، لشکریوں کے حوصلے دور اندیشی اور ظرف کی کشادگی سے مضبوط کرو، راست گو رہو راست گو کا احترام کرو، ثابت قدم رہو اور ذکر ہی اور عبادت دل و جان سے ادا کرو،،،،،
مجھے یہاں بیٹھے دریائے مہران سندھ نظر آرہا ہے، دریا بیٹ کے قریب سے عبور کرنا کیوں کہ وہاں دریا تنگ ہے پانی گہرا اور تیز ہے لیکن وہی سے پار جانا آسان ہوگا ،کشتیوں کا پل بنا لینا مقامی لوگوں کو استعمال کرنا وہ تمہیں کشتیاں اکٹھی کر دیں گے، اصل مدد تو اللہ سے مانگنا، اللہ کو اپنے ساتھ سمجھنا جب تم بے خوف ہو کر دریا عبور کرو گے اور حوصلے سے دشمن کو للکارو گے تو وہاں کے لوگوں پر تمہارا رعب بیٹھ جائے گا اور وہ دل و جان سے تمہاری اطاعت قبول کریں گے۔
اس پیغام کے ساتھ حجاج نے خلیفہ کا حکمنامہ بھیجا تھا جس کے تحت محمد بن قاسم کو سندھ کا امیر (گورنر) مقرر کیا گیا تھا ،حجاج نے لکھا تھا کہ اس نے خلیفہ سے یہ حکم نامہ بہت سی باتیں کر کے حاصل کیا ہے، تمہیں اب ثابت کرنا ہے کہ تم اس التجاء کے اہل ہو، تمہیں آزادی سے حکومت کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے۔
محمد بن قاسم اپنے حالات کو خود ہی بہتر سمجھتا تھا اس نے جاسوسوں کو ہر طرف پھیلا رکھا تھا، عرب کے باغی علافی اس سلسلے میں اس کی مدد کر رہے تھے، داہر کی فوج دوسرے کنارے پر تھی وہ ہاتھیوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا تھا ،ہندوستان سے مزید ہاتھی آرہے تھے اس نے اپنی فوجی حاکموں سے کہا تھا کہ وہ اسی لڑائی کو فیصلہ کن بنائے گا ،اور اسی میدان میں مسلمانوں کا نام و نشان مٹا کر سندھ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم محتاط ہو کر آگے بڑھنا چاہتا تھا حجاج کے پیغام نے اسے گرما دیا ،وہ حجاج کے ان الفاظ کو برداشت نہ کر سکا کہ تم وہاں بیکار بیٹھے ہو اور وقت ضائع کر رہے ہو۔
میرا چچا ہمیں تیر سمجھتا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں اور مشیروں سے کہا۔۔۔ وہ ہمیں کمانوں میں ڈال کر چھوڑنا چاہتا ہے، تیر کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس نے کہاں گرنا یا کس کے جسم میں اترنا ہے، تیر یہ نہیں جانتی کہ دشمن کو اپنے راستے سے ہٹا ہوا دیکھ کر اپنا رخ اس کی طرف پھیر لے، ہمیں سوچ سمجھ کر چلنا ہے۔
اس نے سالاروں کو بتانا شروع کردیا کہ پیش قدمی کس طرح کرنی ہے اس نے حسب معمول سالاروں اور مشیروں سے مشورہ طلب کئے کچھ وقت کے بحث مباحثے کے بعد دریا پار کرنے کا منصوبہ تیار ہو گیا۔
سب سے پہلے بیٹ کے حاکم دسایو کے بیٹے موکو کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ دریا عبور کرنے کے لیے کشتیوں اور ملاحوں کا انتظام کرے، جو کشتیوں کو رسوں سے باندھ سکیں۔ موکو کے ساتھ انہی شرائط پر سمجھوتا ہوا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کو ہر وہ مدد دے گا جس کی ضرورت پیش آئے گی اور موکو کی حاکمیت قائم رہے گی اور اس کے اور اس کی رعایا کے تحفظ کی ذمہ داری محمد بن قاسم کی ہوگی۔
موکو پہلے ہی اپنے باپ بھائی اور راجہ داہر کے خلاف تھا اسے محمد بن قاسم کا پیغام ملا تو اس نے فوراً جواب دیا۔
کیا عرب کے یہ سالار سمجھتے ہیں کہ ہند کے راجکمار عقل کے کورے ہوتے ہیں؟،،،،،، موکو نے جواب دیا۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ تم لوگوں نے دریا عبور کرنا ہے ،کشتیاں تیار ہیں رسّے بھی موجود ہیں اور آدمی بھی، کشتیاں تمہیں بیٹ کے بالمقابل دریا میں بندھی ہوئی ملیں گیں، وہاں دریا کا پاٹ تنگ اور پانی کا بہاؤ تیز ہے خود آکر دیکھ لو ۔
قاصد نے واپس آکر محمد بن قاسم کو موکو کا جواب دیا۔
اللہ مسبب الاسباب ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔وہ ہمارے ساتھ ہے، کشتیاں اسی جگہ ہے جہاں سے حجاج نے لکھا ہے کہ دریا عبور کیا جائے،،،،،، آج ہی رات کشتیوں کو رسّوں سے باندھ دیا جائے گا،،،،،، موکو کو اطلاع بھیج دو کہ میں آج رات وہاں آؤنگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کو محمد بن قاسم اپنے سالاروں کے ساتھ اس مقام پر پہنچ گیا جہاں کشتیاں رکھی گئی تھیں، وہ اپنے ساتھ ایسے آدمی لے گیا تھا جو کشتیوں کا پل باندھنے کا تجربہ رکھتے تھے، موکو بہت سے آدمیوں کے ساتھ وہاں پہلے سے موجود تھا ، بڑے موٹے اور مضبوط رسّے بھی لائے گئے تھے تمام کشتیاں چھوٹی تھیں اور ان کے کنارے اونچے نہیں تھے۔
فتوح البلدان" اور چچ نامہ" میں کشتیوں کے پل کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ اس طرح ہے۔ وہاں دریا زیادہ تنگ اور اس وجہ سے پانی گہرا اور بہاؤ تیز تھا پارٹ کی تنگی کا یہ فائدہ تھا کہ پل لمبا نہیں بنانا پڑتا تھا اور نقصان یہ تھا کہ اتنے بہاؤ میں جس میں لہریں اٹھ رہی تھی کشتیوں کو سنبھالنا اور باندھنا بہت مشکل تھا۔
آخر عربوں کے دماغ نے ایک طریقہ سوچ لیا، چند ایک ملاحوں کو ایک کشتی میں دوسرے کنارے پر بھیج دیا گیا کشتیوں کو رسوں سے اس طرح باندھ دیا گیا کہ دریا کی چوڑائی کا اندازہ کر کے دیکھا گیا کہ اس کنارے سے اس کنارے تک کتنی کشتیاں کافی ہوگی، اتنی کشتیوں کو خشکی پر پہلو بہ پہلو رکھ کر انہیں دونوں طرف رسوں سے باندھ دیا گیا پہلی اور آخری کشتی سے آگے رسّوں کو لمبا رکھا گیا۔
کشتیوں کی اس بندھی ہوئی قطار کو بے شمار آدمیوں نے مل کر دھکیلا اور دریا میں اس طرح ڈال دیا کہ کشتیاں کنارے کے ساتھ رہیں ،اس طرف جو لمبے رسّ گئے تھے وہ بڑے لمبے اور موٹے کیلوں کے ساتھ باندھ دیے گئے، یہ کیل تقریباً ایک ایک فٹ قطر کے تھے ،ان کا زیادہ تر حصہ زمین میں گاڑ دیا گیا تھا ،ایسے دو کیل ان ملاحوں کے ساتھ دوسرے کنارے پر بھیج دیئے گئے جو پار چلے گئے تھے۔
ادھر سے باندھ کر کشتیوں کو چھوڑ دیا گیا، چونکہ ادھر والی پہلی کشتی کنارے کے ساتھ بندھی ہوئی تھی اس لیے دوسری کشتیاں دریا میں بہنے لگیں یہ گھڑی کی سوئی کی طرح دریا میں اس طرح گئیں کہ آخری کشتی سامنے والے کنارے کے ساتھ جا لگی، وہاں ملاح موجود تھے انہوں نے ادھر والے رسّے پکڑ لئے اور ان کے ادھر گڑھے ہوئے کیلوں کے ساتھ باندھ دیے پل تیار ہو گیا۔
کشتیوں پر تختے ڈالے جاتے تو یہ پکا اور مضبوط پل بن جاتا لیکن تختوں کو کشتیوں پر لوہے کے کیلو سے پکا ٹھوکنا تھا تختیوں کے حصول اور انہیں کشتیوں پر لگانے کے لیے بہت وقت درکار تھا ،اس کے علاوہ پل عارضی بنانا تھا ،اس سے گزر کر کشتیاں کھول دینی تھیں، اس سے گزرنے کے لئے ایک کشتی سے دوسری کشتی میں جانا تھا ،کشتیاں چھوٹی تھیں گھوڑوں کو گزارنے کے لیے وقت درکار تھا۔
اگلے روز جب سورج کچھ اوپر آگیا تھا پل گزرنے کے لیے تیار ہو چکا تھا، محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار ہوا اور بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر پل عبور کرنے لگا، گھوڑا ایک سے دوسری کشتی میں سنبھل سنبھل کر قدم رکھتا گیا درمیان میں لہریں اٹھ رہی تھیں اس لئے کشتیاں اوپر نیچے ہوتی اور ڈولتی تھیں، اس سے گھوڑا ڈرتا اور بدکتا تھا، محمد بن قاسم نے پیچھے دیکھا سالاروں کے گھوڑے آرہے تھے محمد بن قاسم کو اطمینان ہوگیا کہ اس کے گھوڑے کو دیکھ کر دوسرے گھوڑے بدکے بغیر چلے آرہے تھے، ان گھوڑوں نے دریا پار کر لیا محمد بن قاسم نے گھوڑے کو موڑا اور کشتیوں سے گزرنے لگا اب گھوڑے کا ڈر دور ہوچکا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
خیمہ گاہ میں جاکر محمد بن قاسم نے کوچ کی تیاری کا حکم دے دیا، وہاں سے چند میل دور دریا کے اس طرف ایک قلعہ تھا ،بعض مورخوں نے اسے راوڑ کا قلعہ لکھا ہے، اور بعض اس سے اختلاف کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ راوڑ کا قلعہ نہیں تھا البتہ ایک قلعہ ضرور تھا، اس میں داہر کی فوج کے کچھ پیادہ اور سوار دستے رہتے تھے اور ان کا کمانڈر گوپی تھا جو راجہ داہر کا بیٹا تھا۔
محمد بن قاسم نے اپنے ایک سالار سلیمان بن قشیری سے کہا کہ وہ چھ سو پیادہ مجاہدین کو ساتھ لے کر راوڑ قلعے کے سامنے چلا جائے۔
ہر وقت تیاری کی حالت میں رہنا ہوگا ۔۔۔محمد بن قاسم نے اسے کہا۔۔۔ ہوسکتا ہے گوپی کو راجہ داہر مدد کے لئے بلائے وہ جونہی اپنے دستوں کے ساتھ قلعے سے نکلنے لگے اس پر تیروں کی بوچھاڑ پھینکیں، اگر دستے باہر آئے تو انہیں روک لو جم کر نہیں لڑنا ،آگے بڑھو کچھ لڑو پیچھے ہٹو پھر حملہ کرو اور دائیں بائیں ہوجاؤں، اسی طرح ان دستوں کو یہی روک کر رکھنا ۔
محمد بن قاسم نے ایک اور سالار عطیہ تغلبی کو پانچ سو مجاہدین کے ساتھ ایک ایسے راستے پر نظر رکھنے کے لیے بھیج دیا جس راستے سے راجہ داہر کو مدد ملنے کی توقع تھی۔
چونکہ ان دونوں دستوں کو ہر وقت تیاری کی حالت میں رہنا تھا اور زیادہ تر دشمن کی تاک میں گھومتے پھرتے رہنا تھا، اس لئے یہ اپنے ساتھ رسد کا ذخیرہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ محمد بن قاسم نے یہ انتظام کیا کہ نیرون کے ایک سردار میگدہنیا کو حکم دیا کہ ان دستوں کو رسد پہنچاتا رہے، ایک نائب سالار ذکوان بن غلوان البکری مقامی لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنے کے لیے گیا ہوا تھا، یہ وہ علاقہ تھا جو مطیع ہو چکا تھا ،ذکوان بن غلوان نے ان لوگوں کو اتنی زیادہ تنخواہیں پیش کی جو داہر کے فوجیوں کی تنخواہوں سے خاصی زیادہ تھیں، بڑی اچھی خوراک اور مال غنیمت میں سے حصے کا بھی لالچ دیا گیا۔
ذکوان بن غلوان اس وقت واپس آیا جب محمد بن قاسم دریا عبور کرنے والا تھا، ذکوان اپنے ساتھ ایک ہزار پانچ سو کے لگ بھگ گھوڑسوار لے کر آیا ،یہ سب جاٹ تھے، بعض مؤرخوں نے انہیں جت اور دو نے جات لکھا ہے، ان کے علاوہ کچھ ٹھاکر بھی ذکوان کے ساتھ آگئے اور موکو بھی آگیا۔
تم سب ہماری فوج میں آئے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے ترجمان کی مدد سے ان ڈیڑھ ہزار سواروں سے کہا ۔۔۔ہم بڑی عزت اور مسرت سے تمہارا استقبال کرتے ہیں ،ہم تمہیں اجرتی قاتل نہیں سمجھیں گے ،تمہیں وہ تمام حقوق ملیں گے جو عرب کے سپاہیوں کو ملتے ہیں ،اپنے آپ کو ہمارا غلام نہ سمجھنا ،اسلام کسی انسان کو غلام بنانے کی اجازت نہیں دیتا،،،،، میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں کہ اپنا مذہب بدلو یا نہ بدلو وفاداری نہ بدلنا ،اگر تم نے میدان جنگ میں جاکر وفاداری بدلنے کی کوشش کی تو اس کی سزا موت سے کم نہیں ملے گی، یہ ابھی سوچ لو کہ تمہیں اپنے مذہب کے لوگوں کے خلاف لڑنا ہے، اگر یہ منظور نہیں تو یہیں سے واپس چلے جاؤ، ہمارے ساتھ رہو گے تو مالامال ہو جاؤ گے۔
سب نے بلند آواز سے عہد کیا کہ وہ اسلامی فوج کے وفادار رہیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے محمد بن مصعب کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ ہراول کے دستوں کی کمان لے لے اور کشتیوں کے پل سے پار چلا جائے اور بہت آگے نکل جائے۔
ابن مصعب !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تم جانتے ہو ہراول کا کام کیا ہوتا ہے، اگر دشمن تم پر حملہ کردے تو تمہارا قاصد وہاں سے نکلنے کی کوشش کرے اور پیچھے آکر اطلاع دے، یہ احتیاط کرنا کے قاصد کوئی مقامی آدمی نہ ہو، عربی ہو۔
محمد بن مصعب اپنے ساتھ کچھ دستے لے کر روانہ ہو گیا اور پل سے گزر گیا اس کے بعد محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ باقی لشکر کشتیوں کے پل تک چلا جائے، محمد بن قاسم کوچ کا حکم دے کر خود کشتیوں کے پل کے قریب جا کھڑا ہوا پھر لشکر پہنچ گیا اور کشتیوں کے پل سے دریا عبور کرنے لگا۔
محمد بن قاسم کھڑا دیکھتا رہا گھوڑے کشتیوں میں قدم رکھتے آگے بڑھتے گئے پیادے بھی جا رہے تھے اتنے زیادہ گھوڑوں اور پیادوں کے ہجوم کے نیچے کشتیاں زور زور سے ہلنے لگیں، سوار اپنے گھوڑوں کی باگیں پکڑے پیدل ان کے ساتھ جا رہے تھے محمد بن قاسم کھڑا دیکھ رہا تھا۔
ایک ہی بار کشتیوں پر زیادہ ہجوم ہو گیا گھوڑوں کے ساتھ اونٹ بھی بے شمار تھے ان پر رسد لدی ہوئی تھیں، بیل گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں کشتیوں سے نہیں گزاری جاسکتی تھیں اس لیے اونٹوں کا انتظام کرلیا گیا تھا ،گھوڑے اونٹ اور انسان اتنے زیادہ ہو گئے کشتیاں بہت زیادہ ڈولنے اور اوپر نیچے ہونے لگیں، دریا نے ایک جان کی قربانی لے لی، اس شہید کا نام صرف توراب لکھا گیا ہے، وہ بنی حنظلہ میں سے تھا ،وہ پل کے وسط تک پہنچ چکا تھا شاید گھوڑوں سے بچنے کے لئے وہ کسی کشتی پر اتنا زیادہ دائیں بائیں ہو گیا کہ ہلتی ہوئی کشتیوں پر اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور دریا میں جا پڑا وہاں دریا بہت زیادہ تیز اور بہت گہرا تھا، دریا اسے اپنے ساتھ ہی لے گیا کوئی اس کی مدد کو نہ پہنچ سکا وہ ڈوب کر شہید ہو گیا ،دریائے سندھ نے مسلمانوں سے پہلی قربانی لے لی۔
محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف کے قاصد کو روک کر رکھا تھا کیونکہ وہ دریا عبور کر کے اسی قاصد کے ساتھ حجاج کو پیغام بھیجنا چاہتا تھا کہ اس نے دریا عبور کر لیا ہے، اس نے قاصد کو اس وقت بھی اپنے ساتھ رکھا جب کشتیوں کا پل بن رہا تھا، جب فوج اس پل سے گزر رہی تھی تو یہ منظر بھی قاصد کو دکھایا۔
طیار نام کا جو آدمی گھوڑوں کی بیماری دیکھنے آیا اور سرکہ لایا تھا اسے بھی محمد بن قاسم نے اپنے ساتھ رکھا، طیار کو محمد بن قاسم نے فوج کی تقسیم بھی دکھائی اور اپنی فوج میں اس نے مقامی آدمیوں کے جو سوار اور پیادہ دستے شامل کیے تھے وہ بھی دکھائے۔
تم دونوں میری تمام کاروائیاں اور کارگزاری دیکھ لی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے دونوں کو اپنے ساتھ دریا کے پار لے جا کر کہا ۔۔۔کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ میں اتنا لمبا خط نہیں لکھوا سکتا کہ یہ تمام کارروائیاں اس میں شامل کرو، امیر بصرہ حجاج بن یوسف کو یہ سب زبانی سنا دینا جو تم نے دیکھا ہے، اور یہ بھی کہنا کہ مجھے سندھ کا امیر نہ بنایا جاتا تو بھی میں نے اپنا فرض ادا کرنا ہے جس کے لیے میں یہاں آیا ہوں، اور میں یہاں واپس جانے کے لئے نہیں آیا ،جب تک زندہ ہوں بت پرستوں کے اس ملک میں دور دور تک اسلام کا نور پہنچاؤں گا، لاریب اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے اور محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں یہ پیغام لے کر اس ملک میں داخل ہوا ہوں۔
پھر اس نے حجاج کے نام پیغام لکھوایا جو قاصد کو دے کر اسے واپس جانے کو کہا طیار بھی قاصد کے ساتھ چلا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دریا کے پار جا کر محمد بن قاسم اپنے گھوڑے کو بلند جگہ پر لے گیا ،اس کا لشکر اس کے سامنے کھڑا تھا۔
مجاہدین !،،،،،،وہ بڑی بلند آواز سے لشکر سے مخاطب ہوا۔۔۔ دریا کے اُس طرف معاملہ کچھ اور تھا اِس طرف کچھ اور ہے ، اب تم اس طاقتور دشمن کے بالمقابل آگئے ہو جس کے آدھے علاقے پر تم قابض ہو چکے ہو، یہ راجہ داہر ہے جو اسلام کا دشمن ہے، اس نے پانج سو عربی مسلمانوں کو یہاں پناہ دے کر انہیں عربوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کئی بار کی ہے،،،،،،، اس نے ہمیں ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے بے انداز جنگی طاقت اکٹھی کر رکھی ہے، اس نے کہا تھا کہ ہم جب یہاں تک پہنچیں گے تو ہم تھکے ہوئے ہوں گے، اس لئے یہ ہمیں آسانی سے شکست دے سکے گا، کیا تم یہ ثابت کرو گے کہ اس نے جو سوچا تھا وہ ٹھیک تھا۔
نہیں،،،، نہیں،،،، لشکر سے سور اٹھا ۔۔۔ہم تھکے ہوئے نہیں ہیں۔
آفرین !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہارے جسم تھک سکتے ہیں روحیں ایمان اور جذبے سے تروتازہ ہیں ،لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارے سامنے کیا آنے والا ہے،،،،،، اسلام کا یہ دشمن جنگی ہاتھی بھی لا رہا ہے، سنا ہے اس نے ہاتھیوں کو کسی طریقے سے بدمست کر رکھا ہے، اس کا خیال ہے کہ یہ اسلام کی پیش قدمی کو ہاتھیوں سے روک لے گا،،،،،، نہیں روک سکے گا، قادسیہ کی جنگ یاد کرو آتش پرست بھی ہاتھی لائے تھے، تمہارے باپ دادا نے ان ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ ڈالی تھیں، وہ ہاتھی بھی اسی ملک کے تھے اور وہ اسی راجہ داہر کے باپ دادا نے بھیجے تھے ،ہاتھی لگتے خوفناک ہیں لیکن تمہارے جذبے تمہاری تلواروں اور تمہاری برچھیوں کے آگے یہ ریت کے ٹیلے ثابت ہو نگے ، اگر تلوار استعمال کرنی ہو تو ہاتھی کی سونڈ کاٹنے کی کوشش کرو، اگر برچھی مارنی ہے تو ہاتھی کی آنکھ میں برچھی مارو، اگر تیر چلانا ہے تو ذرا دور سے فیل بان پر تیر چلاؤں جو ہاتھی کے سر پر بیٹھا ہوگا ،اس کے ہاتھی کے ہودے میں جو آدمی ہوں گے ان پر تیر چلاؤ،،،،،،،،
اب یہ سوچ لو کہ تم اس طرح لڑو گے کہ تمہارے سامنے بہت بڑی جنگی طاقت ہوگی اور تمہارے پیچھے دریا ہوگا ،تمہارا دشمن کہتا ہے کہ آگے آؤ گے تو تمہیں اس کے ہاتھی کچل ڈالیں گے ،اور پیچھے ہٹو گے تو دریا میں ڈوب جاؤ گے، اس کا کہنا غلط نہیں لیکن تم نے اللہ کا نام لے کر اسے غلط ثابت کرنا ہے، تمہاری زبان پر ذکر الہی ہونا چاہیے، اور دل کو یقین دلاتے رہو کہ خدائے عزوجل تمہارے ساتھ ہے، ایسا کر دکھاو کے دشمن کے ہاتھی دشمن کی فوج کو ہی کچل ڈالیں اور اپنی فوج کو روندتے ہوئے بھاگ جائیں، ایسا ہی ہوگا ان شاء اللہ۔
ان شاءاللہ،،،، ان شاءاللہ،،،،،، لشکر سے کی آوازیں اٹھیں۔
اور میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ سوچ لو۔۔۔ محمد بن قاسم کہہ رہا تھا ۔۔۔اگر میدان جنگ سے بھاگنا ہے تو یہیں سے واپس چلے جاؤ، اگر میدان جنگ سے ایک آدمی بھاگا تو اس کے ساتھ دو تین اور آدمی بھاگ اٹھیں گے، پھر دیکھی دیکھا کچھ اور آدمی جنگ سے نکل جائیں گے، کیا یہ اچھا نہیں کہ یہیں سے آگے نہ جاؤ، میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ جو آدمی کسی بھی وجہ سے آگے نہیں جانا چاہتا وہ باہر آ جائے اور واپس چلا جائے۔
صرف تین آدمی لشکر سے باہر آئے اور محمد بن قاسم کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے۔ کسی بھی مورخ نے ان تینوں کے نام نہیں لکھے صرف یہ واقعہ لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ تین آدمی سامنے آئے، اور محمد بن قاسم نے قدر برہم ہوکر ان کے ساتھ بات کی۔
کیا تم بزدل ہو گئے ہو؟،،،، محمد بن قاسم نے ایک سے پوچھا۔
نہیں سالار اعلی!،،،،،، اس نے کہا ۔۔۔بزدل ہوتا تو گھر سے ہی نہ آتا، آیا تو کہیں کبھی بزدلی نہیں دیکھائی، میری ایک ہی بیٹی ہے اس کی ماں مر چکی ہے اسے میں ایک دوست کے گھر چھوڑ آیا تھا اب وہ جوان ہو گئی ہے، کیا یہ میرا فرض نہیں کہ میں اس کی پرورش اور نگہداشت خود کرو۔
ہاں !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ پہلی ذمہ داری جوان اور بے آسرا بیٹی کی ہے ،جاؤ پہلے بیٹی کا فرض ادا کرو۔
اور تم !،،،،محمد بن قاسم نے دوسرے سے پوچھا ۔
میری ماں بہت بوڑھی ہے دوسرے نے کہا۔۔۔ کوئی ایسا رشتے دار اور دوست نہیں جو اس کی دیکھ بھال کر سکے، مجھے ہر وقت اس کا خیال آتا ہے میں ڈرتا ہوں کہ اگلی لڑائی میں ماں کی یاد مجھے گمراہ نہ کر دے۔
ماں کی خدمت پہلا فرض ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ آج ہی واپس چلے جاؤ ۔
اور میں مقروض ہوں سالار عرب!،،،،، تیسرے نے کہا ۔۔۔ڈرتا ہوں کہ مارا گیا تو قرض کون ادا کرے گا، میرا کوئی رشتہ دار نہیں ۔
کیا تم قرض ادا کرنے کے قابل ہو گئے ہو؟ ہاں سالار اعلٰی!،،،،، اس مجاہد نے جواب دیا۔۔۔ اتنی رقم اکٹھا ہوگئی ہے ۔
جاؤ !،،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔پہلے قرض ادا کرو، قرض دینے والے نے تم پر اعتبار کیا ہے، ان تینوں کو وہیں سے واپس بھیج دیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم اپنی فوج کو منظم کر رہا تھا، وہ بہت ہی محتاط ہو کر آگے بڑھنا چاہتا تھا، کیونکہ یہ میدان کی پہلی جنگ تھی اور دشمن بہت طاقتور تھا ،راجہ داہر نے اسی جنگ کے لئے اپنی طاقت محفوظ رکھی تھی ،اور اس نے ہر طرف یہ حکم بھیجا تھا کہ قلعہ بند ہو کر مسلمانوں کا مقابلہ کرو ،وہ شکست پر شکست برداشت کرتا رہا لیکن کسی کو کمک نہیں دی تھی۔
جاسوس جو پہلے ہی آگے چلے گئے تھے وہ آ کر آگے کی اطلاعیں دینے لگے تھے، آگے جیور نام کا ایک بڑا گاؤں تھا جو باقاعدہ قلعہ تو نہیں تھا لیکن اس کے اردگرد دیوار تھی اور دروازے بھی تھے، محمد بن قاسم کو اڈہ بنانے کے لئے ایک جگہ کی ضرورت تھی، جیور ہی بہتر جگہ ہو سکتی تھی، وہاں داہر کی فوج کی کتنی نفری ہے اور گاؤں کیسا ہے۔
محمد بن قاسم نے پیش قدمی کا حکم دیا ،اس کے مقامی جاسوس پہلے ہی آگے چلے گئے اور وہاں جو فوجی مقیم تھے انہیں بتایا کہ مسلمانوں کی فوج طوفان کی طرح آرہی ہے یہاں سے بھاگو ورنہ مارے جاؤ گے، اس کا خاطر خواہ اثر ہوا داہر کے فوجی بھاگ گئی، گاؤں میں بھی بھگدڑ مچ گئی جاسوسوں نے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی انہیں کہا کہ مسلمان غیر فوجیوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے نہ ہی کوئی اور نقصان پہنچاتے ہیں، اس طرح گاؤں کے لوگ رک گئے لیکن خوف وہراس قائم رہا۔
مہاراج کی جے ہو !،،،،،راجہ داہر کو ایک آدمی نے اُکھڑی ہوئی اور قدرے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔عرب کا لشکر آ گیا ہے، دریا کے اس طرف آ گیا ہے، اور اب جیور میں ہے، ہماری فوج کے آدمی وہاں سے بھاگ آئے ہیں، جیور پر عربوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔
ہمارے آدمیوں نے اچھا کیا ہے کہ وہاں سے بھاگ آئے ہیں۔۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ یہ تھوڑے سے سپاہی اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، اب بھاگنے کی باری مسلمانوں کی ہے ،ان میں کوئی بہت ہی خوش قسمت ہو گا جو عرب تک زندہ پہنچے گا، وہ میرے جال میں آگئے ہیں، اتنے زیادہ قلعے لے کر ان کے دماغ پھر گئے ہیں، یہ بدبخت سمجھ نہیں سکے کہ یہ شہر اور قلعے جو انہوں نے لیے ہیں یہ فیصلہ کن شکست کے راستے کی منزلیں تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی