⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴تیئیسویں قسط 🕌


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴تیئیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج نے ہدایات تو بہت لکھیں لیکن اللہ پر توکل رکھنے کے متعلق بھی بہت کچھ لکھا مثلاً یہ اقتسابات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
،،،،، پانچ وقت کی نمازوں میں خلوت و جلوت میں تمہارے لیے یہی دعا کرتا رہتا ہوں کہ خدائے تعالی تمہیں کافروں پر غالب کرے، اور تمہارے دشمن ذلیل و خوار ہوں، ازل میں جو حکم مقدر ہوچکا ہوتا ہے پر وہ مراد سے بھی وہی ظاہر ہوتا ہے، میں اللہ تبارک و تعالی کے حضور آہ و زاری
سے عرض کرتا رہتا ہوں کہ اے باری تعالی تو ایسا بادشاہ ہے کہ تیرے سوا دوسرا کوئی خدا نہیں،،،،، جس طرح بھی ممکن ہو اور جس طرح تم بہتر سمجھو دریا عبور کرو، اور اللہ سے مدد کی التجا کرتے رہو ،اسی کی رحمت کو اپنی پناہ سمجھو، رضائے الہی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی شجاعت اور طاقت کا مظاہرہ کرنا، تائید الہی فرشتوں کی امداد اور مجاہدین کی تلوار تمہیں اپنے دشمن پر غلبہ دے گی۔
آگے چل کر حجاج نے دو طریقے لکھے جو اختیار کرکے محمد بن قاسم کو دریا عبور کرنا تھا۔
پھر حجاج نے لکھا۔
،،،،، جب دشمن بھاگے تو فوراً اس کے مال و اموال اور اس کے خزانے پر قبضہ کرنا ،لیکن دھوکے اور فریب سے بچنے کی کوشش کرنا، پھر دشمن کو اسلام کی طرف راغب کرنا اور جو غیر مسلم اسلام قبول کرلیں ان کی تعلیم و تربیت کا نہایت اچھا انتظام کرنا، اگر ایسا کرو گے تو دیکھو گے کہ دین کا کوئی دشمن باقی نہیں رہے گا۔
اس خط میں حجاج نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ وہ آیت الکرسی کا ورد کرتا رہے، حجاج نے یہ بھی لکھا کہ وہ خود یہ ورد کرتا رہتا ہے۔ حجاج نے آیت الکرسی کے ساتھ دو تین آیات کا اضافہ بھی کیا ہے۔
یہ خط جس کاتب نے لکھا تھا اس کا نام بھی خط کے نیچے موجود ہے ،اس کا نام حمران تھا پورا نام حمران بن ایان ہے، یہاں اس تاریخی کاتب کا تھوڑا سا ذکر بے محل نہ ہوگا ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں خالد بن ولید نے ایک مشہور شہر عین التمر فتح کیا تھا اس شہر کے قریب ہی ایک گاؤں تھا، خالد بن ولید گاؤں میں گئے تو دیکھا کہ چند ایک بچے بیٹھے پڑھ رہے تھے، پھر وہ تختیوں پر لکھنے کی مشق کرنے لگے، اس دور کے جنگی رواج کے مطابق کچھ لوگوں کو جنگی قیدی بنایا گیا جن قیدیوں کے بیوی بچے تھے وہ بھی ان کے ساتھ قید میں آ گئے، ان میں حمران بھی تھا جو اس وقت چھوٹا سا بچہ تھا۔
قید میں آکر بھی یہ بچہ لکھنے کی مشق کرتا رہا، یہ اس کا شوق تھا ،اسے ایک روز حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھ لیا اور اسے خرید کر آزاد کر دیا ،اور اسے ایک کاتب کی شاگردگی میں بٹھا دیا تھا ،اس نے اسی عمر میں فن کتابت میں کمال حاصل کر لیا وہ جوں جوں بڑا ہوتا گیا اس کی دیانتداری اور ایمانداری نکھرتی آئی ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے دور خلافت میں حاجب مقرر کیا ، حاجب کی حیثیت سکریٹری جیسی ہوتی تھی، وہ کاتب بھی رہا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو اس پر اتنا بھروسہ تھا کہ ان کی سرکاری مہر تک حمران کے تحویل میں رہتی تھی۔
حمران اتنا دانشمند اور دیانتدار نکلا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اسے بصرہ کا حاکم مقرر کیا، بعد میں وہ شیراز میں عامل مقرر ہوا ،اس وقت فارس کا امیر زیاد تھا۔
حجاج بن یوسف حمران سے کھچا کھچا رہتا تھا لیکن حمران کا کردار ایسا تھا کہ وہ سچی اور کھری بات کہتا تھا ،حجاج کا کردار کچھ اور تھا جب حجاج کو بصرہ کی عمارت ملی تو اس نے حمران پر بےجا سختیاں شروع کر دیں اور اس کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم جاری کردیا۔ لیکن اس وقت کے خلیفہ عبدالملک نے حجاج کا یہ حکم منسوخ کردیا اور حجاج سے کہا کہ وہ اپنے دل سے حمران کی عداوت نکال دے، کیونکہ یہ صداقت پسند ہے اور ہمارے پاس خلفائے راشدین کی نشانی ہے، حمران کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل تھا کہ وہ احادیث کے روایوں میں شمار ہوتا تھا ،بعد میں حجاج بن یوسف نے اسے اتنا اعزاز دیا کہ اسے اپنا کاتب مقرر کرلیا، حجاج کے خطوط جو محمد بن قاسم کو لکھے جاتے تھے وہ حمران ہی لکھتا تھا ،اس عرصے میں اس کی عمر اٹھاسی سال ہو چکی تھی۔
اس خط میں حجاج نے دریا عبور کرنے کے متعلق جو ہدایات لکھی تھی ان میں اس نے خاص طور پر یہ لکھا کہ کشتیوں کے ملاح چونکہ وہاں کے مقامی لوگ ہوں گے اس لیے انھیں اچھی طرح پہچان لینا اور انہیں انعام و اکرام سے خوش رکھنا ،جہاں سے دریا عبور کرو وہاں کے گھاٹ کو اچھی طرح دیکھ لینا، اور یہ بھی خیال رکھنا کہ جہاں تمہارا لشکر دریا کے پار جائے وہاں دلدل نہ ہو، دریا کے پار جا کر تمہیں لڑائی کا یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ دریا تمہاری پشت پر ہوگا اور دشمن تمہاری پشت پر نہیں آسکے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس خط کے بعد محمد بن قاسم نے دریا پر جا کر دیکھنا شروع کردیا کہ دریا کہاں سے عبور کیا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ اس کے سالار بھی ہوتے تھے ایک دو سالاروں نے محمد بن قاسم کو مشورہ دیا کہ راجہ دسایو ہمارا مطیع ہے اسے بلایا جائے وہ بتا سکے گا کہ دریا پار کرنے کے لیے موزوں گھاٹ کہاں ہوگا ؟
محمد بن قاسم نے اس مشورے کو قبول کرتے ہوئے ایک مقامی آدمی کو روانہ کیا کہ وہ دسایو کو لے آئے۔
دسایو بیٹ کے قلعے میں تھا جو وہاں سے خاصے فاصلے پر تھا ،اور وہ جگہ دریا کے پار تھی، یہ آدمی دریا پار کر کے دوسرے کنارے پر پہنچا ہی تھا کہ دو آدمیوں نے اسے پکڑ لیا اور پوچھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہا جا رہا ہے، اس آدمی نے جھوٹ بولا اور یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ محمد بن قاسم کی طرف سے راجہ دسایو کے پاس جارہا ہے، لیکن ان آدمیوں نے شاید دیکھ لیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے آیا ہے اسے پکڑ کر اروڑ لے گئے جہاں اس سے اس کی اصلیت اگلوا لی گئی۔
راجہ داہر نے اپنے بیٹے جے سیناکو حکم بھیجا کہ وہ اپنے دستے لے کر اس علاقے میں پہنچ جائے جو دسایو کے علاقے اور دریا کے درمیان آتا ہے، داہر کا مطلب یہ تھا کہ دسایو اور اس کے بیٹے راسل اور موکو مسلمانوں کو کسی قسم کی مدد نہ دے سکیں۔
راجہ داہر کو یہ اطلاع بھی مل گئی کہ محمد بن قاسم کا لشکر راوڑ کے علاقے میں پہنچ چکا ہے اور شاید دریا کے کنارے پر بھی آ گیا ہے، داہر اسی وقت ہاتھی پر سوار ہوا اور دریا کے اپنی طرف والے کنارے پر اس جگہ پہنچا جہاں اسے مسلمانوں کا لشکر صاف نظر آ رہا تھا ۔
اس وقت محمدبن قاسم دریا کے قریب ہی کہیں کھڑا تھا۔
محمد بن قاسم کے ساتھ جو آدمی تھے ان میں سے اس کے محافظ بھی تھے، ان آدمیوں یا ان محافظوں میں ایک آدمی تھا جس کا تاریخ میں نام نہیں لکھا صرف شامی لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ تیر اندازی میں ایسی مہارت رکھتا تھا کہ اس کا تیر کبھی خطا نہیں گیا تھا۔
اس داہر نے ہمارے جہازوں کو لوٹا تھا۔۔۔ شامی نے چلا کر کہا ۔۔۔میری ماں اور ایک بہن بھی ایک جہاز میں اپنے وطن کو واپس جا رہی تھیں اور اس نے انہیں بھی قید خانے میں ڈال دیا تھا ،یہ کہتے کہتے اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور کنارے پر جا کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا اس کے ساتھ ہی اس نے کمان میں تیر ڈالا اور داہر کا نشانہ لیا ،لیکن گھوڑا پانی میں بدکنے لگا، سب سمجھ گئے کہ شامی داہر کو دیکھ کر غصے سے بے قابو ہو گیا ہے اور وہ اس پر تیر چلانے لگا ہے۔
اسے پکڑ کر واپس لے آؤ۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
دو سواروں نے اس کی طرف گھوڑے دوڑائے لیکن ہوا یوں کہ شامی کا گھوڑا پانی میں آگے جانے کی بجائے پیچھے ہٹتا تھا اس کے ساتھ ہی شامی کمان میں تیر ڈالے ہوئے داہر کو نشانے میں لیتا تھا لیکن اس کا گھوڑا بدک کر اس کی کمان کا رخ موڑ دیتا تھا، داہر سمجھ گیا کہ یہ اس پر تیر چلانا چاہتا ہے، داہر نے اپنے ایک محافظ سے کمان اور ایک تیر لیا اور شامی کا نشانہ لے کر تیر چلایا جو شامی کی شہ رگ میں اتر گیا ،شامی گھوڑے پر دہرا ہوا اور الٹ کر دریا میں جا پڑا ،اس کے ساتھیوں نے جب اسے دریا سے نکالا تو وہ شہید ہو چکا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
معلوم نہیں داہر کی یہ چال تھی یا داہر ابھی تیاری مکمل نہیں کر سکا تھا کہ وہ اپنا لشکر مسلمانوں کے بالمقابل نہ لایا ،محمد بن قاسم نے بھی دریا عبور کرنے کا حکم نہ دیا غالبا وہ حملے میں پہل نہیں کرنا چاہتا تھا ،اس طرح اس خیمہ گاہ میں محمد بن قاسم نے ایک مہینے سے کچھ زیادہ وقت گزار دیا تین مورخوں کی تحریروں سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے حجاج نے ابھی محمد بن قاسم کو مزید اور آخری ہدایات بھی دینی تھیں، بہر حال کسی نہ کسی وجہ سے محمد بن قاسم کو اس خیمہ گاہ میں رکنا ہی تھا اور ایک ایسی مصیبت کا سامنا کرنا تھا جس کا کبھی ذہن میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ گھوڑوں کے لئے خشک چارہ اتنی زیادہ مقدار میں رکھا گیا تھا جو کئی مہینوں کے لیے کافی تھا ،محمد بن قاسم کو اپنے کسی سالار نے مشورہ دیا کہ اس علاقے میں سبز چارہ بہت ہے خشک چارہ بچانے کا یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ گھوڑوں کو یہاں کا سبز چارہ کھلایا جائے اور کچھ خشک چارہ بھی دیا جائے۔
محمد بن قاسم نے اس کو اجازت دے دی۔ اجازت کی ضرورت بھی نہیں تھی ایسا تو ہوتا ہی تھا کہ جہاں بھی سبز گھاس وغیرہ ہوتی تھی وہاں گھوڑوں کو چرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا، یہاں بھی گھوڑوں کو مقامی سبزہ کھانے کے لئے چھوڑا جانے لگا ،دو تین روز بعد سواروں نے دیکھا کہ گھوڑے مردہ مردہ سے نظر آرہے ہیں، گھوڑوں کو ٹہلانے کے لئے لے گئے تو بہت سے گھوڑے چلنے سے بھی معذور نظر آتے تھے، سواروں نے گھوڑوں کو وہ چیزیں کھلائی جو پیٹ وغیرہ کو صحیح رکھتی تھیں لیکن ایک رات اور گزری تو صبح کئی گھوڑے مرے ہوئے پائے گئے۔
گھوڑوں کے امراض کے ماہرین نے گھوڑوں کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ انھیں ہو کیا گیا ہے، وہ آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں کی زمین میں کوئی ایسا زہریلا مادہ ہے جو یہاں کے سبزے میں شامل ہے، انہوں نے گھوڑوں کو سبز چارہ دینا بند کردیا اور تمام دوائیں آزماء کر دیکھی لیکن گھوڑوں میں جو بیماری پھیل گئی تھی وہ قابو میں نہ آئی ،گھوڑوں کے امراض کے ماہرین ہار گئے صاف نظر آتا تھا کہ تمام گھوڑے مر جائیں گے ،نہ مرتے تو بھی گھوڑوں کی بیشتر تعداد ٹانگوں پر اپنا وزن بھی اٹھانے کے قابل نہیں رہی تھی۔
محمد بن قاسم جو کسی بھی صورتحال میں گھبرانے والا سالار نہیں تھا اس کے پُر شباب چہرے پر مُراونی چھا گئی ،وہ گھوڑوں کو چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔
کیا سوار پیادوں کی طرح لڑ سکیں گے؟،،،،،،، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں سے کہا۔۔۔ میں یہاں سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، اگر راجہ داہر کو پتہ چل گیا کہ ہمارے گھوڑے بیکار ہو گئے ہیں تو وہ حملہ کر دے گا سواروں سے کہو کہ تمہیں پیادوں کی طرح لڑنا پڑے گا۔
نہیں ابن قاسم !،،،،،،،ایک ادھیڑ عمر سالار نے کہا۔۔۔ کیا تو نہیں جانتا کہ داہر میدان میں ہاتھیوں کو لائے گا،ہمارے سوار اب پیادوں کی طرح لڑنے سے انکار تو نہیں کریں گے لیکن یہ سوچ ابن قاسم کیا ہم پیادوں سے ہاتھیوں اور دشمن کے گھوڑ سوار لشکر کا سامنا کر لیں گے؟،،،،،،،،، نہیں اپنے لشکر کا قتل عام نہ کرا ،اگر ہم ایک بار شکست کھا گئے تو پھر سنبھلنا مشکل ہوجائے گا،،،،،،، سوچنے دے کوئی راستہ نکل آئے گا۔
لیکن میں پیچھے جانے والے راستے پر نہیں چلوں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔
محمد بن قاسم نے خدا کے حضور گڑگڑانا شروع کردیا وہ پوری ایک رات آیت الکرسی کا ورد کرتا رہا، اور کئی بار اس کے آنسو نکل آئے، اللہ کے سوا اس کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا ،خطرہ یہ تھا کہ دشمن کو پتہ چل گیا تو وہ کسی اور گھاٹ سے دریا عبور کر کے حملہ کر دے گا۔
صبح طلوع ہوئی تو دریائے سندھ کے اس طرف والے کنارے سے ایک کشتی آ لگی، اس سے ایک آدمی اترا جو راجہ داہر کا ہی فوجی حاکم ہو سکتا تھا ،اس کا لباس حاکموں جیسا تھا اور اس کے ساتھ آٹھ محافظ تھے، وہ مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں آیا اور بتایا کہ وہ راجہ داہر کا ایلچی ہے اور محمد بن قاسم سے ملنا چاہتا ہے۔
اسے محمد بن قاسم کے خیمے تک لے گئے۔ تاریخ اسلام کا یہ کم عمر سالار اللہ کے حضور دست بدعا تھا، فارغ ہو کر اس نے ایلچی کو خیمے میں بلایا ، تاریخ سندھ میں یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔
کیا راجہ داہر نے میرے لیے کوئی پیغام بھیجا ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
ہاں عرب کے سالار!،،،،، داہر کے ایلچی نے کہا ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ہے کہ آپ نے اپنے لئے اور ہمارے لئے بھی مشکلات پیدا کردیں ہیں ،اپنی حالات دیکھ لیں، مجھے پتہ چل گیا ہے کہ آپ کے گھوڑوں میں بیماری پھیل گئی ہے آپ گھوڑوں کے بغیر کس طرح لڑ سکتے ہیں ،آپ جس کام کو انتہا تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ آپ کی بدنصیبی اور ذلت کا باعث بننا شروع ہو گیا ہے، میں اس شرط پر آپ کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر لوں گا کہ آپ یہیں سے واپس چلے جائیں، میں آپ کے پورے لشکر کا رسد دے دوں گا تاکہ آپ کا کوئی آدمی بھوکا نہ مر جائے، اور یہ بھی سوچو کہ آپ کے پاس ایسے بہادر مرد نہیں ہیں جو میری فوج کا مقابلہ کرسکیں، میں آپ کو سوچنے کا موقع دے رہا ہوں، اگر تباہ و برباد ہونا ہے تو جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ راجہ داہر کے اس پیغام نے محمد بن قاسم کو جھنجوڑ ڈالا، نہ اداسی رہی نہ مایوسی رہی۔
اپنے راجہ سے بعد از سلام کہنا۔۔۔ محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے ایلچی سے کہا ۔۔۔میں ان سالاروں میں سے نہیں ہوں جو ذرا سی مصیبت سے گھبرا کر پیچھے ہٹ جایا کرتے ہیں، تم نے میری اطاعت قبول نہیں کی یہ سرکشی ہے جو میں معاف نہیں کروں گا، اگر تم صلح کے خواہشمند ہو تو تمہارے خزانے میں جو کچھ ہے وہ ہماری خلافت کے حوالے کر دو، اور خلافت اسلامیہ کی اطاعت قبول کرو ، نہیں کرو گے تو اللہ تعالی کی مدد سے میں واپس جاؤں گا تو تمہارا سر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔
راجہ داہر کے ایلچی کے جانے کے فوراً بعد محمد بن قاسم نے ایک قاصد کو حجاج کے نام پیغام لکھوا کر دیا اور قاصد سے کہا کہ وہ اڑتا ہوا بصرہ پہنچے اور حجاج کو یہ پیغام دے اور جواب لے کر اسی رفتار سے واپس آئے۔
محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو للکار تو دیا تھا لیکن وہ گھوڑوں کی طرف دیکھتا تھا تو اس کے ہاتھ اللہ کے حضور اٹھ جاتے تھے ،وہ لڑنے کے قابل نہیں تھا تباہی اور بربادی بڑی تیزی سے اس کی طرف بڑھی آرہی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم پر یہ آفت ناگہانی اکیلی نہیں آ پڑی تھی کہ گھوڑوں میں کوئی پراسرار بیماری پھیل گئی اور تمام گھوڑے نیم مردہ ہو گئے گھوڑے مرنے بھی لگے تھے، اس سے کچھ دن پہلے سیوستان کے قلعہ بند شہر سیسم میں بڑی سنگین نوعیت کا ایک واقعہ ہوگیا تھا جس نے محمد بن قاسم کے پاؤں جکڑ لئے تھے۔
سیوستان کی فتح سنائی جاچکی ہے یہ جنگ سیسم کے قلعے میں لڑی گئی تھی ،راجہ داہر کا بھتیجا بجے رائے وہاں سے بھاگ گیا تھا لیکن وہ اسی علاقے میں گھومتا پھرتا رہا اور بڑی جلدی پتہ چل گیا کہ وہ محمد بن قاسم کے خلاف سیوستان کے لوگوں کو بغاوت کے لیے تیار کر رہا ہے، محمد بن قاسم نے ایک نائب سالار عبدالملک بن قیس کو کچھ نفری دے کر باغیوں کی سرکوبی کے لیے بھیجا تھا، جس نے تھوڑے سے وقت میں باغیوں کو کچل ڈالا اور بجے رائے بھی ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا، اس کے بعد محمد بن قاسم تھوڑی سی نفری سیسم میں چھوڑ کر نیرون چلا گیا اور اب وہ اروڑ سے کچھ دور خیمہ زن تھا۔
اس دوران سیسم کے قلعے میں امن وامان رہا جو ہندو اور بدھ وہاں سے بھاگ گئے تھے وہ بھی مسلمانوں کے اچھے سلوک اور فیاضی کو دیکھ کر واپس آ گئے تھے، شہر کے مضافات میں رہنے والے لوگوں کو پتہ چلا کہ مسلمانوں کی حکومت ہر کسی کو انصاف اور حقوق دیتی ہے اور لوگوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار بن جاتی ہے تو باہر کے کئی خاندان شہر میں منتقل ہوگئے اس طرح اس شہر کی آبادی بڑھ گئی۔
محمد بن قاسم کے مقرر کیے ہوئے حاکم، عمال، اور فوجی دیکھ نہ سکے کہ باہر سے آنے والے زیادہ تر لوگ ہندو ہیں، مسلمانوں نے بودھوں اور ہندوؤں کو مذہبی آزادی دے دی تھی اس لیے ان کے مندروں کی رونق عود کر آئی، یہ بھی کسی نے نہ سوچا کہ ہندوؤں کے بڑے مندر میں رات کو بھی ہندو عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔
اس شہر میں تاجروں کے قافلے تو آتے ہی رہتے تھے، لیکن اب قافلے پہلے سے زیادہ آنے لگے، ایک ایک قافلہ چالیس سے پچاس اونٹوں تک کا ہوتا تھا، ان کے مال کے خریدار زیادہ تر ہندو ہوتے تھے، ہر قافلے کے ساتھ آدمی زیادہ آتے تھے، یہ کسی نے نہ دیکھا کہ ایک قافلے کے ساتھ جتنے آدمی آتے ہیں اتنے واپس نہیں جاتے۔
مال کی خریداری اس طرح ہو رہی تھی کہ کپڑا بوریوں میں بند ہوتا تھا ،بعض بوریاں کھولی نہیں جاتی تھیں، دوچار ہندو یہ بوریاں خرید لیتے اور اونٹوں پر لادکر اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے، وہ بوریا گھروں کے اندر کھلتی، اور ہر بوری سے ایک آدمی برآمد ہوتا تھا، ان آدمیوں کو رات کے وقت ہندو بانٹ لیتے اور ایک ایک دو دو کو اپنے گھروں میں لے جا کر چھپا دیتے۔
ایک روز ایک ہندو رشی جس کی داڑھی بڑی لمبی اور سر کے بال بھی لمبے تھے، قلعے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں تریشول تھا ،اس نے ماتھے پر تین رنگوں کی لمبوتری لکیریں ڈالی ہوئی تھیں، اس کے ساتھ پانچ چھ چلے تھے ان کے حلیے بھی اپنے رشی جیسے تھے۔
چونکہ وہ مذہبی پیشوا تھا اس لئے اسے اس قلعے کے دروازے پر نہ روکا گیا، وہ شہر میں داخل ہوا۔
اس شہر کی کایا پلٹ جائے گی۔۔۔ اس نے تریشول اوپر کرکے کہا ۔۔۔زمین بدل جائے گی۔۔۔ آسمان بدل جائے گا ۔۔۔وہ کہتا جارہا تھا۔۔۔ میں خوشخبری لے کر آیا ہوں ،،،،مسلمان رحم دل بادشاہ ہیں۔
وہ کچھ نہ کچھ کہتا مندر تک جا پہنچا، ہندوؤں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ رشی مندر کے اندر چلا گیا پنڈتوں نے لوگوں سے کہا کہ رشی مہاراج بڑا لمبا سفر پیدل طے کر کے آئے ہیں انہیں آرام کی ضرورت ہے ،یہ کل صبح سب کو درشن دیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ رات سیسم قلعے کی ایک پراسرار رات تھی، قلعے کے دروازے بند تھے سنتری بے فکری سے برجوں میں بیٹھے تھے، وہ ذرا سی دیر کے لئے باہر نکلتے اور ادھر ادھر دیکھ کر پھر برج میں جا کر بیٹھ جاتے تھے ،انہیں کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا تھا ،سیوستان پر مسلمانوں کا قبضہ تھا، بغاوت دبائی جا چکی تھیں، اور باغیوں کا سردار بجے رائے مارا جا چکا تھا۔
شہر پر قبرستان جیسا سکوت طاری تھا لوگ گھروں میں گہری نیند سو رہے تھے، اس خاموشی اور اس سکوت میں ایک طوفان انگڑائیاں لے رہا تھا ،اس طوفان نے خاموش راتوں میں پرورش پائی تھی، اور اب یہ سب کچھ اپنے ساتھ اڑا اور بہا لے جانے کے لئے تیار ہو چکا تھا، اور اس طوفان نے ہندوؤں کے مندر سے اٹھنا تھا۔
اس رات مندر کے ایک خاص کمرے میں دس بارہ آدمی بیٹھے تھے ان میں ایک تو اس مندر کا بڑا پنڈت تھا، دوسرا وہ رشی تھا جو اسی روز شہر میں داخل ہوا تھا، لیکن مندر میں اس کا حلیہ کچھ اور تھا اس کی داڑھی اتنی لمبی نہیں تھی نہ اس کے بال لمبے تھے ،اس کے ماتھے پر رنگ دار لکیریں بھی نہیں تھیں ،اس کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا،،،، وہ رشی نہیں تھا کسی پہلو سے مذہبی پیشوا نہیں تھا، وہ سیوستان کے ایک حصے کا حاکم چند رام ہالہ تھا۔
اس کے ساتھ پانچ آدمی تھے جو شہر میں اس کے ساتھ اس کے چیلوں کے بہروپ میں داخل ہوئے تھے ، یہ سیوستان کے ٹھاکر تھے جو چندرام ہالہ کے ساتھ ایک بہت بڑی سازش کی تکمیل کے لئے آئے تھے۔
شام گہری ہوتے ہی ایک ایک دو دو ہندو مندر میں آنا شروع ہوگئے تھے، ان کی تعداد چالیس پچاس کے درمیان تھی اور یہ راجہ داہر کی فوج کے منتخب جنگجو تھے، یہ سب تاجروں کے قافلوں کے ساتھ تاجروں کے ملازم، محافظ، اور شتربان بن کر آئے تھے اور یہی رہ گئے تھے، انہوں نے وقت مقرر کر رکھا تھا مقامی ہندوؤں کے گھروں میں باہر کے جو ہندو چھپے ہوئے تھے وہ ایک ایک کر کے گھروں سے نکلنے لگے وہ دبے پاؤں چھپتےچھپاتے مندر تک پہنچ رہے تھے، یہ بھی داہر کی فوج کے آدمی تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مسلمان حاکم اطمینان کی نیند سوئے ہوئے تھے انھیں یقین تھا کہ شہر میں امن وامان ہے اور اگر امن و امان تباہ ہوا بھی تو باہر کے حملے سے تباہ ہو گا ،ان کے ذہن میں یہ خدشہ تو آیا ہی نہیں تھا کہ شہر کے اندر سے بھی تباہی اٹھ سکتی ہے، دیوار پر جو گشتی سنتری تھے ان کی تعداد تھوڑی تھی اور وہ چوکس بھی نہیں تھے۔
مندر اب جنگی آپریشن روم بن چکا تھا ،چند رام ہالہ ہدایات دے رہا تھا ہندو فوجیوں میں سے بعض کے پاس تلواریں اور باقی برچھیوں سے مسلح تھے۔
یہ چند رام ہالہ کی زمین دوز سازش تھی، اس نے سیسم کے مندر کے بڑے پنڈت کو سب سے پہلے اعتماد میں لیا اور پھر خود کسی بہروپ میں سیسم آیا اور اپنی آنکھوں دیکھا تھا کہ قلعے میں مسلمان فوج کی تعداد کتنی ہے اور رات کو کہاں کہاں سنتری ہوتی ہیں ،اس نے پنڈت کو اپنی اسکیم بتائی تھی ، اس کے تحت ہندو فوجیوں نے تاجروں کے بہروپ میں آنا اور ہندوؤں کے گھروں میں چھپنا تھا، سیسم کے ہندوؤں کو مندر سے یہ ہدایت ملی تھی کہ وہ بہروپ میں آنے والے فوجیوں کو اپنے گھروں میں چھپا لیں۔
کسی بھی مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ راجہ داہر کو اس سازش کا علم تھا یا نہیں۔
ہندو فوجی مندر اور گھروں سے نکل آئے انہیں جس طرح بتایا گیا تھا وہ اکیلے اکیلے بھی دو دو اور تین تین اکٹھے بھی شہر میں پھیل گئے، اکیلے اکیلے سنتری کو دبوچ لینا کوئی مشکل کام نہ تھا، مسلمان فوج کی نفری قلیل تھی اور سوئی ہوئی تھی ،ان پر چندرام کے آدمیوں نے حملہ کردیا مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا ان میں کچھ زخمی اور شہید ہوئے اور باقی قیدی بنالئے گئے۔
سیسم کے دو مسلمان حاکم و عبدالملک بن قیس اور حمید بن وردع نجدی کے محافظوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن نقصان اٹھایا۔
صبح طلوع ہوئی تو سیسم کے قلعے سے مسلمانوں کا پرچم اتر چکا تھا اور راجہ داہر کا جھنڈا لہرا رہا تھا، مسلمان حاکم اور سپاہی چندرام ہالہ کے قیدی تھے، ایک روایت یہ ہے کہ چندرام ہالہ نے تمام مسلمانوں کو قلعے سے نکال دیا تھا، اور کوئی
قیدی اپنے پاس نہیں رکھا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کو اروڑ کے قریب خیمہ گاہ میں اطلاع ملی کے سیسم پر دشمن کا قبضہ ہو گیا ہے، محمد بن قاسم کو بتایا گیا کہ یہ طوفان شہر کے اندر اٹھا تھا ،محمد بن قاسم نے اپنے ایک تجربے کار سالار محمد بن مصعب کو ایک ہزار سوار اور دوہزار پیا دے کر کہا کہ وہ کہیں روکے بغیر سیسم پہنچے اور قلعے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے۔
خدا کی قسم ابن مصعب!،،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں یہ نہیں سن سکوں گا کہ تم نے باغیوں کو بخش دیا ہے ،اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہیں کتنی جلدی واپس بھی آنا ہے، حالات سے تم واقف ہو۔
ابن قاسم !،،،،،محمد بن مصعب نے کہا۔۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے اچھی خبر سنو گے۔
ایک ہزار سوار اور دوہزار پیادے بہت تیز چلتے دو روز بعد سیسم پہنچ گئے اور قلعے کا محاصرہ کر لیا۔
چند رام !،،،،محمد بن مصعب نے اعلان کرایا۔۔۔ قلعے سے باہر آجاؤ ورنہ آتشیں تیروں سے ہم شہر کو آگ لگا دیں گے، اور تم میں سے کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
ہندوؤں نے دیواروں کے اوپر سے تیر برسائے لیکن ان کی نفری تھوڑی تھی اس کے علاوہ شہر کے لوگوں نے چند رام ہالہ کے ساتھ تعاون نہ کیا، شہر کا کوئی ایک بھی آدمی ان کے ساتھ نہیں تھا، مورخوں کی تحریروں کے مطابق وہ ہندو بھی ان کے ساتھ نہیں تھے جنہوں نے ہندو فوجیوں کو اپنے گھروں میں چھپا کر رکھا تھا۔
مختلف مورخوں کے حوالے سے چچ نامہ فارسی میں تفصیل سے لکھا ہے کہ سیسم کے سرکردہ بدھوں نے چند رام کو گھیر لیا، شہر کے دوسرے لوگ جن میں کچھ ہندو بھی تھے باہر آگئے انہوں نے چند رام کو مجبور کر دیا کہ وہ قلعے کے دروازے کھول دے۔
لیکن کیوں؟،،،،، چند رام نے پوچھا ۔۔۔کیا تم اپنے ملک پر ایک غیر قوم کا قبضہ پسند کرتے ہو۔
شہر کے لوگوں کا شور و غوغا اتنا زیادہ بڑھا کے چندرام ہالہ مجبور اور بے بس ہو گیا ،اس کے پاس فوجی نفری تھوڑی تھی اس نے سیسم کے پنڈتوں پر بھروسہ کیا تھا ،اسے توقع یہ تھی کہ شہر کے تمام لوگ مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور وہ مسلمانوں کو غیر ملکی حملہ آور سمجھ کر ان کے خلاف ہو جائیں گے، اور وہ یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ یہ حملہ ان کے ملک پر ہی نہیں بلکہ مذہب پر بھی ہے، لیکن لوگ کچھ اور سوچ رہے تھے، وہ مسلمانوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے تھے، مسلمانوں نے انہیں امن اور عدل و انصاف دیا تھا، بیگار اور فوج میں جبری بھرتی ممنوع قرار دے دی تھی، مسلمانوں کے ان اثرات کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ سندھ کے چنہ قوم کی بیشتر تعداد نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس زمانے میں طویل ترین آدمی کا اعزاز رکھنے والاعالم چنہ اسی قوم سے تعلق رکھتا ہے۔
سیسم کے لوگ ایسے جوش میں آئے کہ چند رام ہالہ کو یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ لوگ اسے اور اس کے آدمیوں کو جنہوں نے دھوکے سے قلعے پر قبضہ کیا تھا قتل کردیں گے، لوگوں نے آگے بڑھ کر قلعے کا دروازہ کھول دیا۔
محمد بن مصعب اپنے سوار اور پیادہ دستوں کے ساتھ شہر میں داخل ہو گیا، سندھ کی تاریخ لکھنے والے تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ شہر کے سرکردہ افراد نے آگے بڑھ کر محمد بن مصعب کا استقبال کیا اور معذرت بھی پیش کی کہ چندرام ہالہ دھوکے سے قلعے پر قابض ہو گیا تھا، محمد بن مصعب نے حکم دیا کے چند رام ہالہ کو پیش کیا جائے، لوگوں نے دیکھا کہ چند رام غائب تھا اس کی تلاش شروع ہوئی تو کسی نے بتایا کہ وہ مندر میں چھپا ہوا ہے۔ اسے مندر سے پکڑا گیا اس کے فوجیوں کو جو بھیس بدل کر وقتاً فوقتاً شہر میں داخل ہوتے تھے پکڑ لیا گیا ،وہ ان ہندوؤں کے گھروں میں چھپنے کی کوشش کررہے تھے جنہوں نے انہیں پہلے گھر میں چھپا رکھا تھا اب کوئی ہندو انہیں اپنے گھر میں داخل نہیں ہونے دے رہا تھا وہ اس جرم کی سزا سے ڈرتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کچھ دیر بعد سیسم کے ایک وسیع میدان میں اسلامی فوج کے ان چند ایک شہیدوں کی لاشیں اکٹھی رکھی ہوئی تھیں جنہیں چند رام ہالہ کے آدمیوں نے شہید کیا تھا ،ایک طرف چندرام ہالہ بڑے مندر کے چار پانچ پنڈت اور ان کے پیچھے وہ تمام فوجی کھڑے تھے جنہوں نے ان مجاہدین کو قتل کیا اور قلعے پر قبضہ کیا تھا۔
چندرام ہالہ کے فوجیوں سے تفصیلی بیانات لے کر معلوم کر لیا گیا تھا کہ یہ دھوکہ کس طرح عمل میں آیا تھا۔
محمد بن مصعب اپنے کمانداروں کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھا اور یہ گھوڑے لاشوں کے قریب کھڑے تھے ،وہاں سے ذرا پیچھے ہٹ کر شہر کے لوگوں کا ہجوم تماشائیوں کے گول دائرے کی طرح کھڑا تھا، مکانوں کی چھتوں پر عورتوں کا ہجوم تھا اتنے بڑے ہجوم پر خاموشی طاری تھی ہر کوئی دم بخود تھا ،یہ موت کا سکوت تھا سب جانتے تھے کہ موت اپنا کھیل کھیلنے والی ہے، مجرموں کی گردنیں اڑنے والی تھیں، وہ پنڈت جو دیوتاؤں کے ایلچی بنے ہوئے تھے مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑے تھے ،محمد بن مصعب نے ایک مقامی آدمی کو ساتھ لے رکھا تھا جو سندھی اور عربی زبان روانی سے بول اور سمجھ سکتا تھا۔
شہر کے لوگوں ۔۔۔محمد بن مصعب نے کہا، اور ترجمان ساتھ ساتھ بلند آواز سے بولتا گیا۔۔۔ ان لوگوں کا جرم تمہارے سامنے ہے ہم فاتح ہیں، ہم چاہیں تو انتقام میں ان مجرموں کے ساتھ ان تمام ہندوؤں کے بچے سے بوڑھے تک کو قتل کر دیں جنہوں نے ان مجرموں کو اپنے گھروں میں پناہ دی تھی، لیکن ہم جسموں کو نہیں دلوں کو فتح کیا کرتے ہیں،،،،،، ان مجرموں نے جنہیں قتل کیا ہے ان کی لاشیں تمہارے سامنے پڑی ہیں، خدا کی قسم میری تلوار نیام میں تڑپ رہی ہے کہ میں اپنے مقتولین کے خون کا انتقام اس پورے شہر سے کیوں نہیں لیتا، لیکن جس طرح تم لوگوں نے ہمارے لئے قلعے کے دروازے کھولے ہیں اور جس محبت سے ہمارا استقبال کیا ہے میں اس کا صلہ ضرور دوں گا،،،،،،، میں چند رام ہالہ، اس کے ٹھاکروں اور اس کے فوجیوں کو پھر شہر کے ان تمام افراد کو جنہوں نے انہیں پناہ دی اپنے ان آدمیوں کے قتل کے جرم میں قتل کرنا مناسب فیصلہ سمجھتا ہوں۔
محمد بن مصعب نے یہ الفاظ منہ سے نکالے ہی تھے کہ لوگوں کے ہجوم کی خاموشی ٹوٹ گئی ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا ،چھتوں پر جو عورتیں کھڑی تھیں ان میں سے کئی عورتوں نے باذو اوپر کرکے اونچی آواز میں رونا شروع کردیا یہ وہ عورتیں جن کے گھروں میں چند رام ہالہ نے اپنے آدمیوں کو چھپایا تھا
،،،،،"جو فیصلہ ہونا چاہیے تھا وہ میں نے سنا دیا ہے لیکن میں شہر کے لوگوں کو یہ صلہ دیتا ہوں کہ تم فیصلہ کرو کہ ان قاتلوں اور دھوکہ بازوں کے ساتھ کیا سلوک ہو،،،، محمد بن مصعب کہہ رہا تھا ،،،میں چندرام ہالہ، اس کے ٹھاکروں اور مندر کے بڑے پنڈت کی جان بخشی نہیں کروں گا باقی جو ہیں ان کا فیصلہ تم کرو،،، "
شہر کے دو تین سرکردہ آدمی محمد بن مصعب کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔
اے سالار عرب !،،،،،ایک آدمی نے کہا ۔۔۔ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔
ہم عرض کرتے ہیں کہ قتل کے جرم میں انہیں قتل کیا جائے جنہوں نے یہ جرم کروایا ہے، پنڈت مہاراج کو لوگ مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں اس لئے اس کی ہر بات مانتے ہیں، چندرام ہالہ نے لوگوں کو اپنے فوجیوں سے ڈرا کر اپنے آدمیوں کو لوگوں کے گھروں میں چھپایا تھا ،اس کے ساتھ پنڈت نے ان لوگوں کو مذہب کے نام پر بھڑکایا تھا ،اگر آپ ہمارا فیصلہ قبول کریں تو قتل ان چند ایک آدمیوں کو ہونا چاہیے جنہوں نے یہ جرم کروایا ہے۔
محمد بن مصعب نے سیسم کے حاکم عبدالملک بن قیس اور حمید بن وداع نجدی کی طرف دیکھا جو پاس ہی کھڑے تھے دونوں نے تائید میں سر ہلائے ،اس کے فوراً بعد چندرام ہالہ مندر کے تین پنڈتوں ،باہر سے آئے ہوئے ٹھاکروں، اور شہر کے دو تین سرکردہ ہندوؤں کی لاشیں شہیدوں کی لاشوں کے قریب تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہوگئی تھیں، ان کی گردنیں تن سے جدا کر دی گئی تھیں۔
تاریخوں میں ایک اور چیز آئی ہے جو اس طرح بیان کی گئی ہے کہ محمد بن مصعب نے سیسم سے ایک قاصد محمد بن قاسم کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ سیسم کے حالات معمول پر آگئے ہیں اور مجرموں کو سزا دے دی گئی ہے۔
محمد بن قاسم پریشانی کے عالم میں اس خبر کا انتظار بڑی بے صبری سے کر رہا تھا یہ خوشخبری ملتے ہی اس نے اسی قاصد کے ہاتھ پیغام کا جواب دیا جواب کچھ اس طرح تھا۔
محمد بن قاسم سالار اعلیٰ عساکر عربی کی طرف سے،،،،، محمد بن مصعب کے نام خداوند تعالی سے مجھے یہی امید تھی کہ اس کی ذات باری ہماری دعائیں اور عبادتیں قبول کرلے گی، تم نے وہ کامیابی حاصل کر لی ہے جس کا تم نے ذمہ لیا تھا ،اب وہاں کے عمال میں صرف ان مقامی آدمیوں کو رہنے دو جو وہاں کے شمنیوں کی نظر میں قابل اعتماد ہوں، ہندوؤں پر کبھی بھروسہ نہ کرنا ،میرا یہ پیغام عبدالملک بن قیس اور حمید بن وداع نجدی کے لیے بھی ہے، اب میں تم سے اور اپنے دونوں حاکموں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ ایک اور کامیابی حاصل کرو گے، تم جب واپس آؤں تو تمہارے ساتھ مقامی بودھوں کی کم از کم چار ہزار ایسی نفری ہونی چاہیے جو جنگجو ہو اور ہمارے مجاہدین کی طرح جرات والے ہوں، وہاں کے شمنی سرداروں اور سرکردہ آدمیوں کی ضمانتیں لے کر ان آدمیوں کو فوج میں لینا ہے۔
مورخ لکھتے ہیں کہ محمدبن مصعب جب سیسم سے محمد بن قاسم کے پاس واپس آیا تو اس کے ساتھ اپنے دستوں کے علاوہ چار ہزار مقامی آدمیوں کی فوج تھی، یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ کس قوم کے آدمی تھے لازمی طور پر ان میں چنہ قوم کے آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سیسم کے حالات بہتر ہوئے تو گھوڑوں میں وباء پھوٹ پڑی گھوڑوں کی کمی ہو سکتی تھی حجاج بن یوسف کو پیغام بھیج دیا گیا تھا لیکن اتنی دور سے گھوڑوں کا جلدی پہنچنا آسان نہیں تھا ممکن ہی نہیں تھا خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ راجہ داہر حملہ کر دے گا پہلے بیان ہوچکا ہے کہ داہر کو پتہ چل چکا تھا کہ مسلمانوں کے گھوڑے کسی بیماری کی وجہ سے بیکار ہوگئے اور مرنا شروع ہوگئے ہیں اس نے محمد بن قاسم کو پیغام بھیجا تھا کہ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ واپس چلا جائے محمد بن قاسم نے اسے بہت سخت اور توہین آمیز جواب دیا تھا
محمد بن قاسم نے ایک انتظامیہ کیا کہ تیراندازوں کی بہت سی نفری کو دریا کے کنارے بھیج دیا ان کے لئے حکم یہ تھا کہ وہ کنارے کنارے چلتے پھرتے رہے اور جہاں انہیں داہر کی فوج دریا عبور کرتی نظر آئے اس پر تیروں کا مینہ برسا دے
مسلمانوں کے پاس آتشی پیر بھی تھے ان کے اگلے سروں پر ایسے آتشگیر سیال میں کپڑے بھگوکر باندھے جاتے تھے جسے آگ لگا کر تیر چلاتے تو تیر کی اتنی زیادہ رفتار کے باوجود آگ ہوا میں نہیں بھجتی تھی یہ تیر جہاں کرتے وہاں آگ لگا دیتے تھے
تاریخ ایسی شہادت بھی پیش کرتی ہے کہ اس دور میں مسلمانوں نے ایسے تیر بنا لیے تھے جو کمان سے نکلتے تھے تو ہوا کی رگڑ سے انہیں آگ لگ جاتی تھی یہ تھا کہ داہر کی فوج کشتیوں میں دریا پار کرنے لگے تو کشتیوں کو دریا کے وسط میں آنے دیا جائے پھر ان پر آگ والے تیر پھینکے جائیں محمد بن قاسم کا دوسرا حکم یہ تھا کہ رات کو خواب بیدار رہے
مسلمانوں کو صرف یہ فائدہ حاصل تھا کہ راجہ داہر کی فوج دریا کے پار تھی۔
راجہ داہر کے یہاں یہی مسئلہ زیر بحث تھا کہ عرب کی فوج پرحملہ کیا جائے یا اسے دریا عبور کرنے اور اپنے سامنے آنے دیا جائے، اس کے وزیر اور جنگی مشیر کہتے تھے کہ اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہوگی کہ دشمن گھوڑوں سے محروم ہوگیا ہو اور اسے نئے گھوڑے لانے کی مہلت دی جائے۔
سردار محمد حارث علافی راجہ داہر کے ساتھ ہی تھا داہر نے اسے کچھ دن پہلے بلا کر کہا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کی فوج کے خلاف اس کی مدد کرے، اور اپنے پانچ سو عربوں کو جنہیں داہر نے پناہ دے رکھی تھی ایک دستے کی صورت میں اس کی فوج میں شامل کر دیں۔
سردار علافی نے انکار کر دیا تھا ،اس نے کہا تھا کہ مسلمان ہوکر وہ مسلمان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائے گا ،راجہ داہر نے اسے اپنے احسانات جتائے تھے، لیکن علافی نہیں مانا تھا۔
کیا تم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ ہمارے ساتھ رہو۔۔۔ راجہ داہر نے اسے کہا تھا ۔۔۔ہمیں کوئی مشورہ ہی دے دیا کرو۔
ہاں !،،،،علافی نے کہا تھا ۔۔۔میں یہ کر سکتا ہوں اس طرح باغی عربوں کا سردار محمد حارث علافی راجہ داہر کے ساتھ تھا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی