⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴بائیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورتھ کا قلعہ ابھی باقی تھا اس کا حاکم موکو تھا ،محمد بن قاسم نے موکو کو صلح اور دوستی کا پیغام بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ شعبان ثقفی نے کہا کہ موکو کے پاس وہ خود جائے گا اور اسے اس کا وعدہ یاد دلائے گا۔ محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کو ہی بھیج دیا اس کے ساتھ محافظ دستے کے بیس سوار بھیجے گئے تھے۔
موکو کو جونہی اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا ایلچی آیا ہے تو اس نے اسے فوراً بلا لیا۔
اب شعبان ثقفی تاجروں کے بہروپ میں نہیں تھا اس کے لباس سے اس کے رتبے کا اندازہ ہوتا تھا۔
موکو اسے دیکھ کر مسکرایا اور اسے عزت اور احترام سے بٹھایا، اسے اس نے پوری تعظیم دی جو ایک سالار کو یا کسی دوسرے بادشاہ کے ایلچی کو ملنی چاہیے۔
میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ میں اپنے وعدے پر قائم ہوں۔
تو پھر معاہدہ ہو جانے میں دیر نہیں لگنی چاہیے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ ہمارے سالار اعلی اور لشکر کے امام محمد بن قاسم نے کہا ہے کہ آپ کا راج اسی طرح قائم رہے گا اور اس کی اور آپ کی تمام رعایا کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہوگی، کیا آپ ہمارے سالار سے ملنا پسند کریں گے، یا وہ آ جائیں اور آپ ان کے لئے قلعے کے دروازے کھول دیں۔
میرے محترم دوست !،،،،،،موکو نے کہا ۔۔۔تم یہ تو جانتے ہو کہ میں اس علاقے کا حاکم اور خاندانی طور پر راجکمار ہوں، لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ ہمارا خاندان ان جنگجو خاندانوں میں سے ہے جنہیں لوگ اپنا اور اپنے ملک کا محافظ سمجھتے ہیں ،وہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکمرانی اور بادشاہی کا حق انہیں جنگجو خاندانوں کو حاصل ہے، اگر میں تمہارے سالار سے ملنے کے لئے چلا جاؤں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اطاعت قبول نہیں کی بلکہ شکست قبول کی ہے، تم مجھے پہلی بار ملے تھے تو میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میرا اپنا بھائی اور باپ میرے دشمن بنے ہوئے ہیں، ہماری دشمنی ایسی نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں، لیکن وہ دونوں کہتے ہیں کہ میں اپنے خاندان کے لیے بدنامی کا باعث بنتا ہوں۔
لیکن وہ دونوں تو ہتھیار ڈال چکے ہیں ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔وہ تو بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
یہی ایک وجہ ہے کہ میں دوستی کے معاہدے کے لیے تمہارے سالار کے پاس نہیں جانا چاہتا موکو نے کہا۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ دوستی کا معاہدہ نہیں کریں گے ؟۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ کیا آپ ہمارا مقابلہ کرسکیں گے؟
یہ الگ بات ہے کہ میں مقابلہ کرسکوں گا یا نہیں۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کروں گا، لیکن اس کا کوئی اور طریقہ اختیار کروں گا، میں اپنی اس رعایا کو جس میں میں ہر دل عزیز ہوں یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ میں نے بزدلوں کی طرح مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالے ہیں۔
مجھے تمہاری بات سمجھنے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ مجھے شک ہونے لگا ہے کہ تم ہمیں دھوکہ دے رہے ہو۔
میرے عربی دوست !،،،،،،موکو نے کہا۔۔۔ میں نے تمہارے سالار تک پہنچنے کا جو طریقہ سوچا ہے وہ میں تمہیں بتاتا ہوں، کچھ دنوں بعد میری ایک بہن کی شادی ہو رہی ہے یہ شادی ہو گی اور میں وہاں جاؤں گا، میں تمہیں دن اور وقت بتا دیتا ہوں اور ایک جگہ بھی بتا دوں گا ،تمہارے کم از کم ایک ہزار آدمی مجھ پر حملہ کریں گے اور مجھے گرفتار کرلیں گے ،میرے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہوں گے تم اگر مجھے اس طرح پکڑ لو گے تو مجھ پر یہ الزام نہیں آئے گا کہ میں نے لڑے بغیر مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
شعبان ثقفی کو یہ تجویز اچھی لگی، موکو نے اسے ایک راستہ سمجھایا ،جو ساکرا کی طرف جاتا تھا، اور ایک ایسی جگہ بتائی جہاں زمین کٹی پھٹی تھی، ٹیلے اور ٹھیکریاں بھی تھیں، اور یہ زمین ہر لحاظ سے گھات لگانے کے قابل تھی۔
شعبان ثقفی موکو کے ساتھ ضروری تفصیلات طے کرکے واپس آ گیا ۔
وہ قلعے سے نکل گیا تو موکو نے اپنے فوجی کمانڈروں کو بلایا۔
تم جانتے ہو کہ راجہ دسایو نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال کر ان کی اطاعت قبول کرلی ہے۔۔۔ موکو نے ان سب سے کہا ۔۔۔مسلمانوں نے مجھے بھی اور ہم سب کو بھی میرے باپ کی طرح بزدل سمجھ لیا ہے ،تم نے دیکھا ہے کہ ابھی ابھی مسلمان فوج کے سالار کا ایلچی میرے پاس آیا تھا، وہ یہ پیغام لے کر آیا تھا کہ ہم بغیر لڑے ان کی اطاعت قبول کر لیں، میں نے اس ایلچی کو دھتکار کر رخصت کر دیا ہے۔
اسے زندہ نہیں جانے دینا تھا ۔۔۔ایک کمانڈر نے کہا۔۔۔۔وہ ہماری غیرت کو للکارنے آیا تھا۔ ہاں، مہاراج!،،،، ایک دو اور نے کہا ۔۔۔اس کا سر کاٹ کر اس کے سالار کی طرف بھیج دینا تھا۔
میں نے ایسے ہی سوچا ہے۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ لیکن یہ بزدلوں کی حرکت ہے، جنگجو اکیلے آدمی کو نہیں مارا کرتے، وہ دشمن کے لشکر کا مقابلہ کیا کرتے ہیں،،،،، تمام لوگوں سے کہہ دو کہ میں نے دشمن کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، لوگوں سے کہو کہ لڑائی کے لیے تیار رہیں،،،،، میں دو روز بعد اپنی بہن کی شادی پر ساکرا جا رہا ہوں ،اس شادی پر تم سب کو جانا تھا ،لیکن تمہارا یہاں رہنا زیادہ ضروری ہے، کیوں کہ خطرہ ہے کہ دشمن میری غیر حاضری میں حملہ کرسکتا ہے ،مجھے پوری امید ہے کہ میری غیر حاضری میں حملہ ہوا تو تم مجھے اپنے ساتھ سمجھتے ہوئے دشمن کے ایسے چھکے چھڑاؤ گے کہ وہ سوائے بھاگنے کے اور کچھ نہیں کر سکے گا۔
موکو نے اپنی فوجیوں اور شہریوں میں جوش و خروش پیدا کر دیا ۔
مورخوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ موکو خود سر آدمی تھا یہ بتانا ناممکن ہے کہ اس خاندان پر حملہ ہوا تھا ،اور جنگی حالات پیدا ہو گئے تھے پھر انہوں نے اپنی لڑکی کی شادی ملتوی کیوں نہیں کی تھی۔
تاریخوں میں اتنا ہی اشارہ ملتا ہے کہ موکو اپنی بہن کی شادی پر ساکرا جا رہا تھا اور اس نے شعبان ثقفی سے کہا تھا کہ راستے میں اس پر حملہ کر کے اسے گرفتار کر لیا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو موکو کی اسکیم سنائی۔
کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہم ایک ہزار مجاہدین کو بھیج دیں تو وہاں دو تین ہزار آدمی گھات میں موجود ہوں اور وہ ہماری ایک ہزار نفری کو ختم کردیں۔
خطرہ مول لینا پڑے گا ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، ہم یوں کر سکتے ہیں کہ ان ایک ہزار آدمیوں کو آگے بھیج کر ان کے پیچھے پانچ چھ سو سوار کچھ فاصلے پر رکھ کر بھیج دیں۔
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کی تجویز منظور کر لی جس خطرے کا اس نے اظہار کیا تھا وہ بے بنیاد نہیں تھا ،دھوکہ دہی اور فریب کاری ہندو کی فطرت میں شامل ہے جو شروع سے ہی ہندو کی فطرت کا لازمی حصہ بنی رہی ہے ،محمد بن قاسم ہندو کی اس فطرت سے اچھی طرح واقف تھا ،اس طرح اس نے اس خطرے کو محسوس کیا اور اپنے ایک ہزار مجاہدین کو بچانے کے لیے تین سو سوار تیار کر لیے ،جنہوں نے ان ایک ہزار مجاہدین سے ڈیڑھ دو میل کا فاصلہ رکھ کر پیچھے پیچھے جانا تھا ،ایک ہزار مجاہدین کو الگ کر لیا گیا اور ان کی کمان سالار نباۃ بن حنظلہ کو دی گئی ،اسے اور اس ایک ہزار نفری کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ کیا کاروائی کرنی ہے، انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ مقابلہ نہ ہونے کے برابر ہوگا، اور ہو سکتا ہے کہ مقابلہ بہت ہی سخت ہو اور گھیرے میں آ جانے کا خطرہ بھی ہے ،انہیں مزید جنگی ہدایات بھی دی گئی اور مقررہ دن سے ایک رات قبل یہ دستہ نباۃ بن حنظلہ کی زیر کمان روانہ ہو گیا۔
وہ جگہ غالبا بہت دور نہیں تھی یہ دستہ عام راستے سے ہٹ کر دشوار گزار علاقے سے گزرتا ہوا طلوع آفتاب سے پہلے ہی اس مقام تک پہنچ گیا، جو موکو نے شعبان ثقفی کو بتایا تھا۔
وہاں سے ایک کشادہ پگڈنڈی گذرتی تھی اس کے دائیں اور بائیں کے علاقے میں ٹیلے بھی تھے، گہرے کھڈ بھی تھے، اور کہیں کہیں ریتیلی چٹانیں بھی تھیں، یہ علاقہ اور اس کے خد و خال گھات کے لئے نہایت موزوں تھے۔
نباۃ بن حنظلہ کے ایک ہزار آدمیوں کو زمین کے ان نشیب فراز نے چھپا لیا۔
تین سو سوار جو اس دستے کے پیچھے آ رہے تھے وہ بھی پہنچ گئے، لیکن انہیں وہاں نہیں رکنا تھا انہیں وہاں سے تقریبا ایک میل دور ایک ایسی گہرائی میں بھیج دیا گیا جہاں وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتے تھے، اس گہرائی کے قریب ایک آدمی کو ایک اونچے ٹیلے پر بٹھا دیا گیا جہاں سے وہ اس جگہ کو دیکھ سکتا تھا جہاں ایک ہزار آدمیوں کو گھات میں بیٹھا دیا گیا تھا ،اس کا کام یہ تھا کہ وہ دیکھتا رہے اور جب اسے اس طرف سے اشارہ ملے تو وہ سوار دستے کو بتائے، اس کے اشارے پر سوار دستے کے ایک ہزار مجاہدین کی مدد کو پہنچنا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آدھا دن گزر چکا تھا جب دور سے ایک گھوڑسوار قافلہ آتا نظر آیا ، نباۃ بن حنظلہ ٹیلے کے سامنے کھڑا دیکھ رہا تھا، پگڈنڈی سے ہٹ کر ایک ٹیلے کے پیچھے ہو گیا ،اور اس نے اپنے مجاہدین کو تیاری کا حکم دیا ،وہ خود ٹیلے کی اوٹ سے اپنی طرف آتے ہوئے قافلے کو دیکھنے لگا، وہ موکو کو نہیں پہچانتا تھا، لیکن گھوڑسوار جو کچھ اور قریب آ گئے تھے کوئی عام سے مسافر نہیں لگتے تھے، وہ جب اور قریب آئے تو اس نے دیکھا کہ ان سواروں کے آگے آگے جو سوار آرہا تھا اس کا لباس شاہانہ تھا اور اس کا گھوڑا بھی اعلٰی نسل کا تھا، اس کے پیچھے جو گھوڑسوار آ رہے تھے وہ فوجی ترتیب میں تھے، ان کے پاس جو برچھیاں تھیں وہ انہوں نے اس طرح سیدھی پکڑ رکھی تھی کہ ان کی انی اوپر کو تھی۔
نباۃ بن حنظلہ نے دور دور تک نگاہ دوڑائی اسے کہیں کوئی پیادہ یا سوار دستہ ادھر آتا نظر نہ آیا۔
یہ قافلہ موکو کا ہی تھا ،اس کے ساتھ جو سوار تھے ان کی تعداد ایک سو سے کچھ کم تھی، جونہی موکو گھات کے قریب آیا نباۃ بن حنظلہ نے اپنے مجاہدین کو اشارہ کیا ایک ہزار نفری طوفان کی طرح اٹھی اور جس طرح اسے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا اس نے موکو اور اس کے محافظوں کو ذرا سی دیر میں گھیرے میں لے لیا۔
تمام سوار اپنے ہتھیار نیچے پھینک دو ۔۔۔نباۃ بن حنظلہ نے ترجمان کی معرفت موکو کے سوار محافظ دستے کو للکار کر کہا۔۔۔ ہتھیار پھینک کر گھوڑوں سے اتر آؤ، اور گھوڑوں کو چھوڑ کر الگ کھڑے ہو جاؤ، نباۃ بن حنظلہ موکو کے قریب چلا گیا اور اسے کہا ،،،،،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موکو تم ہی ہو ،کیا تم اپنے ساتھ اپنے محافظوں کو ہمارے ہاتھوں مروانا پسند کرو گے؟
تم لوگ کیا جانتے ہو۔۔۔۔ موکو نے نباۃ بن حنظلہ سے پوچھا۔
موکو کے سوار محافظوں نے ابھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔
سب سے پہلے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے یہ سوار تلواریں اور برچھیاں پھینک کر گھوڑوں سے اتر آئیں۔۔۔ نباۃ بن حنظلہ نے جواب دیا۔۔۔ اگر یہ ہمارے ہاتھوں اپنے جسموں کے ٹکڑے کروانا چاہتی ہیں تو میرا حکم بے شک نہ مانے۔
اور اگر یہ ہتھیار ڈال دیں تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔۔۔ موکو نے پوچھا۔
اگر تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو تو انہیں آزاد کر دیا جائے گا، مجھے امید ہے کہ تم ہمیں ان سواروں کے قتل کے گناہ سے بچا لو گے، تم دیکھ رہے ہو کہ تم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
یہ باتیں موکو کے محافظوں کو سنانے کے لیے کی جا رہی تھیں، صرف موکو اور نباۃ جانتے تھے کہ یہ ایک ناٹک کھیلا جا رہا ہے، اس ناٹک کا اختتامیہ یوں ہوا کہ نباۃ بن حنظلہ کے اشارے پر اس کے چند مجاہدین نے موکو کو پکڑ لیا اس کے محافظوں نے مسلمانوں کی اتنی زیادہ نفری دیکھ کر ہتھیار ڈال دیے، نباۃ بن حنظلہ ان سب کو قیدی بنا کر لے گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے موکو کا استقبال عزت اور احترام سے کیا اور اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
کیا آپ ایسے اطاعت قبول نہیں کر سکتے تھے؟،،،، محمد بن قاسم نے موکو سے پوچھا۔۔۔ یہ کھیل کھیلنے کی کیا ضرورت تھی۔
سمجھنے کی کوشش کریں میرے عربی دوست!،،،، موکو نے کہا ۔۔۔راجہ داہر ہمارا عزیز ہے ،اور آقا بھی، سندھ ہمارا وطن ہے جو ہمارے باپ دادا نے ورثے کے طور پر پیچھے چھوڑا ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ راجہ داہر کا راج قائم رہے گا تو ہم بھی سر بلند رہیں گے ،راجہ داہر نے ہم پر جو مہربانیاں کی ہیں ان کا صلہ یہ نہیں کہ ہم ان کے دشمن کے ساتھ مل جائیں ،لیکن جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس دشمن کو ہم شکست نہیں دے سکتے تو اپنی فوج کو کٹوانا اور اپنی رعایا کو لٹوا کر مروانا نیکی اور دانشمندی نہیں،،،، اس نے مسکرا کر کہا ،،،،دانشمندی یہ ہے کہ نئے حالات سے فائدہ اٹھایا جائے۔
اس طرح موکو نے محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لی، چچ نامہ میں مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے موکو کو اپنے برابر بٹھایا اور اسے ایک لاکھ درہم انعام کے طور پر دیا ،جب محمد بن قاسم اس کے قلعے میں گیا تو اس کے سرداروں اور خاندان کے چیدہ چیدہ افراد کو خلعت اور عربی گھوڑے تحفے کے طور پر دیئے ،اس کے علاوہ بیٹ اور سورتھ کی حکومت بھی موکو کو عطا کردی ،اور یہ فرمان بھی جاری کیا کہ یہ علاقہ موکو کی آئندہ نسلوں کی ملکیت اور حکومت میں رہے گا ،محمد بن قاسم نے موکو سے صرف یہ مدد مانگی کہ وہ اتنی کشتیاں فراہم کردیں جس سے دریا پار کیا جاسکے، موکو کے لیے اتنی زیادہ کشتیوں کی فراہمی کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اروڑ میں راجہ داہر کے محل کے اندر اور باہر سناٹا طاری تھا ،اگر کسی کی آواز سنائی دیتی تھی تو وہ داہر کی آواز تھی ،اس کی آواز میں قہر اور عتاب تھا، قہر اور عتاب تو ہونا ہی تھا ،کچھ ہی دیر میں اسے اطلاع ملی تھی کہ دسایو اس کے بڑے بیٹے راسل اور چھوٹے بیٹے موکو نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی ہے، اور موکو مسلمانوں کے ساتھ مل گیا ہے، یہ اطلاع دینے والا اس کا اپنا فوجی حاکم جابین تھا۔
تم پہلے دیبل سے بھاگے تھے۔۔۔ راجہ داہر نے جابین سے کہا۔۔۔ اور اب وہاں سے بھی بھاگ آئے ہو جہاں میں نے تمہیں بھیجا تھا کہ تمہاری موجودگی میں ان کے حوصلے مضبوط رہیں گے اور تم ان سب کو اپنی کمان میں لے کر اس طرح لڑاؤ گے کہ عرب کی فوج کو پسپا کرو دو گے، لیکن تم انہیں ہتھیار ڈالنے کے لئے وہاں چھوڑ کر خود بھاگ آئے۔
مہاراج !،،،،،جابین نے کہا۔۔۔ دیبل سے میں اس لئے بھاگا تھا کہ دیول کا جھنڈا گر پڑا تھا، پورے لشکر اور شہر کے لوگوں پر خوف طاری ہو گیا تھا ،اور ان میں ایسی بھگدڑ مچی کے دیوار سے تمام تیرانداز نیچے کو بھاگ آئے، اور ان سب نے میری اجازت کے بغیر دروازے کھول دیے تھے اور مسلمانوں پر ہلہ بول دیا ، شکست تو ہونی ہی تھی، ادھر دسایو، راسل، موکو کے خلاف ہو گئے تھے، اور موکو پہلے ہی مسلمانوں کا خیر خواہ بنا ہوا تھا، میں ان کی کیا مدد کرتا جب یہ آپس میں ہی پھٹے ہوئے تھے۔
میں تمہیں زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا۔۔۔ راجہ داہر نے اسے کہا۔۔۔ لیکن میں تمہیں ایک اور موقع دینا چاہتا ہوں۔
یہی عرض میں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔جابین نے کہا۔۔۔ لیکن مہاراجہ میری بہادری اور جنگی اہلیت دیکھنی ہے تو مجھے کسی قلعہ میں بند کرکے نہ لڑائیں، میں میدان میں لڑنے اور لڑانے والا آدمی ہوں۔
اب ہم میدان میں ہی لڑیں گے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔میں نے جو سوچا تھا وہ سب بیکار گیا، مجھے امید تھی کہ میرے فوجی حاکم اور قلعہ دار عربوں کا محاصرہ کہیں بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے، اور محمد بن قاسم کی جنگی طاقت دو تین قلعوں کے محاصرے میں ہی ختم ہو جائے گی، اور وہ اپنے زخم چاٹتا ہوا واپس چلا جائے گا ،لیکن سب نے مجھے مایوس اور شرمسار کیا، مسلمانوں کی طاقت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی، میرے اپنے حاکموں نے حملہ آوروں کے ہاتھ مضبوط کیے۔
مہاراج کی جے ہو ۔۔۔جابین نے کہا۔۔۔ اب ہمیں محاصروں کی جنگ ترک کر دینی چاہیے، مسلمانوں کا حوصلہ یہی سوچ کر مضبوط ہوا ہے کہ ہم قلعے کے باہر شاید لڑ ہی نہیں سکتے۔
میں مسلمانوں کو دریا میں ڈبو کر ہی دم لونگا۔۔۔ راجہ داہر نے گرج کر کہا ۔۔۔تم میری نظروں سے دور ہو جاؤ ،میدان میں لڑنے کی تیاری کرو، تم سب نے مجھے دھوکا دیا ہے آدھا ملک دشمن کو دے کر مجھے مشورے دینے آئے ہو۔
اس کے بعد داہر کے محل پر خاموشی طاری ہوگئی اس خاموشی کو داہر کی گرجدار آواز توڑتی تھی، اور اس آواز کا پیدا کیا ہوا ارتعاش کچھ دیر قائم رہتا ،پھر آہستہ آہستہ ساکن ہو جاتا، داہر حکم دے رہا تھا اس کے قاصد کسی نہ کسی کو بلانے کے لئے دوڑ رہے تھے۔
داہر نے حکم دیا کے وہ تمام لشکر جسے مسلمانوں کے خلاف تیار کیا گیا تھا فوراً کوچ کر جائے، اس کے ساتھ ہی اروڑ میں افراتفری اور بھاگ دوڑ شروع ہوگئی ،داہر اب کسی کے ساتھ سوائے جنگ کے اور کوئی بات کرتا ہی نہیں تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اگلا تصادم راجہ داہر کے ساتھ ہی ہوگا، حجاج بن یوسف نے بھی اسے یہی لکھا تھا کہ اب قلعوں کو نظر انداز کرکے راجہ داہر کو للکارو ،حجاج نے لکھا تھا کہ داہر سے ہتھیار ڈلوا لیے گئے تو ہندوستان کے دروازے کھل جائیں گے، محمد بن قاسم نے موکو سے اور کچھ مانگنے کی بجائے صرف کشتیاں مانگی تھی، اس کے ذہن پر تو اب صرف دریائے سندھ سوار تھا جسے اس نے عبور کرنا تھا۔
محمد بن قاسم نیرون واپس آگیا اس نے شعبان ثقفی اور دیگر سالاروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ اب کھلے میدان میں لڑائی ہو گی اور داہر کو للکارا جائے گا۔
میں نے آپ سب کو مشورے کے لئے بلایا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔کیا یہ صحیح نہیں ہوگا کہ داہر کو ہم پیغام بھیجیں کہ وہ ہماری اطاعت قبول کرلے، اگر وہ لڑنا ہی چاہتا ہے تو اس سے پوچھا جائے کہ وہ دریا عبور کر کے اس طرف آنا چاہتا ہے یا ہم دریا عبور کرکے اس کے سامنے آئیں، میں اسے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جب اس کا لشکر دریا عبور کر رہا ہوگا تو ہماری طرف سے اس پر ایک بھی تیر نہیں چلے گا ،اور اسکے لشکر کو اطمینان سے دریا پار کرنے کا موقع دیا جائے گا، اور اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم دریا پار کر کے اس کی طرف آئیں تو وہ ہمارے لشکر کو کسی رکاوٹ اور مزاحمت کے بغیر دریا پار کرنے دے۔
سب نے اس پیغام پر غوروخوض کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ داہر کے پاس اپنا ایلچی بھیجا جائے، جو اس کے ساتھ یہ بات کرے۔
ابھی یہ سالار محمد بن قاسم کے پاس بیٹھے ہی ہوئے تھے کہ اطلاع ملی ایک آدمی آیا ہے، اسے اندر بلا لیا گیا وہ شعبان ثقفی کا بھیجا ہوا جاسوس تھا، اور وہ اروڑ سے آیا تھا ،اس نے اطلاع دی کہ راجہ داہر نے بہت بڑا لشکر اروڑ سے باہر بھیج دیا ہے ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ لشکر کہاں خیمہ زن ہو گا، البتہ یہ یقین ہے کہ راجہ داہر پورے غیض و غضب سے لڑنے کے لیے آ رہا ہے ۔
محمد بن قاسم نے اس جاسوس سے تفصیلی رپورٹ لی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جیسا کہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ راجہ داہر کے پاس ایلچی بھیجا جائے جو اسے قائل کرے کہ وہ خونریزی کے بغیر مسلمانوں کی شرائط قبول کرلے، محمد بن قاسم نے دو افراد کو ایلچی مقرر کیا ان میں ایک مولانا اسلامی تھے۔
کسی بھی تاریخ میں ان کا پورا نام نہیں آیا ہر مؤرخ نے مولانا اسلامی ہی لکھا ہے، وہ دیبل کے رہنے والے ہندو تھے اور انہوں نے محمد بن قاسم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا، اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک تھی لیکن مولانا اسلامی اسلام کے ایسے شیدائی ہوئے کہ انہوں نے اسلام کے متعلق بڑی تیزی سے علم حاصل کیا ،محمد بن قاسم نے اسلام کے لئے ان کی لگن دیکھی تو انہیں مولانا اسلامی کا خطاب دیا ، یہی ان کا نام بن گیا۔
دوسرے جس آدمی کو ایلچی نامزد کیا گیا وہ شام کے ملک کا رہنے والا تھا ،علم و فضل میں اور گفتگو کے فن میں اسے ملکہ اور مقام حاصل تھا، اور وہ محمد بن قاسم کے خاص معتمدوں میں سے تھا ،اس کانام بھی مورخوں نے نہیں لکھا صرف شامی لکھا ہے۔
محمد بن قاسم نے ان دونوں کو ہدایات دیں اور اچھی طرح ذہن نشین کرایا کے راجہ داہر کے ساتھ کیا بات چیت کرنی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں ابن قاسم !،،،،شامی نے کہا۔۔۔ ہم صرف تیری نہیں بلکہ خلافت اسلامیہ کی نمائندگی کریں گے ۔
اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔تمہاری حفاظت اور کامیابی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، میں تمھاری حفاظت کے لیے اپنے حفاظتی دستے کے بیس منتخب سوار بھیج رہا ہوں، اور زاد راہ ایک اونٹنی پر تمہارے ساتھ جارہا ہے، مولانا اسلامی اور شامی گھوڑوں پر سوار ہوئے اور رخصت ہو گئے، اس قافلے کو گھوڑوں اور اوٹنی سمیت کشتیوں پر دریاپار کرایا گیا تھا ایک گائیڈ ان کے ساتھ تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ قافلہ اروڑ پہنچا یہ راجہ داہر کو اطلاع ملی تو اس نے دربار میں بلا لیا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ مولانا اسلامی اور شامی نے اپنی حیثیت کا یہ مظاہرہ کیا کہ اپنے بیس سوار محافظوں کو ساتھ لے کر داہر کے دربار تک گئے ،سواروں کو دربار کے سامنے دو صفوں میں کھڑا کیا ہر سوار کے ہاتھ میں برچھی تھی اوپر کو اٹھی ہوئی برچھیوں کی انیاں چمک رہی تھیں۔
دونوں ایلچی گردن اونچی اور سینے تانے ہوئے داہر کے دربار میں داخل ہوئے، وہاں ترجمان کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مولانا اسلامی دیبل کے رہنے والے تھے وہ اسی خطے کی زبان بولتے تھے۔
تم سب پر اللہ کی سلامتی ہو۔۔۔ مولانا اسلامی نے کہا۔
راجہ داہر انہیں گھور رہا تھا اس کے ماتھے پر شکن پڑ گئے۔
کیا تم دونوں شاہی آداب سے واقف نہیں ؟۔۔۔۔راجہ داہر نے اپنے لہجے میں رعونت پیدا کرکے کہا ۔۔۔یا تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ تم ایک راجہ کے دربار میں داخل ہو رہے ہو۔
مہاراجہ کے دربار میں ۔۔۔۔کسی درباری کی آواز سنائی دی ۔۔۔یہ سندھ کے مہاراجہ کا دربار ہے، جس کی ہیبت سے سب کانپتے ہیں۔
مولانا اسلامی نے شامی کو بتایا کہ راجہ داہر اور اس کے درباری کیا کہہ رہے ہیں۔
تم جانتے ہو انہیں کیا جواب دینا ہے۔۔۔ شامی نے کہا ۔۔۔سر ذرا اونچا کر کے بات کرو۔
ہم صرف اللہ کے دربار کے آداب جانتے ہیں ائے راجہ !،،،،،مولانا اسلامی نے کہا۔۔۔ کسی انسان کے آگے جھکنا ہمارے مذہب میں گناہ ہے۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم دیبل کے رہنے والے ہو۔۔۔ راجہ داہر نے مولانا اسلامی سے کہا۔۔۔ تم ہمارے ملازم تھے تم اچھی طرح جانتے ہو کے دربار میں جسے بھی آنے کا شرف بخشا جاتا ہے وہ جھک کر آداب بجا لاتا ہے، اور بعض سجدے بھی کرتے ہیں، تمہیں دربار میں آکر آداب کا خیال رکھنا اور جھکنا چاہیے تھا۔
میں جب آپ کا ملازم تھا تو جھکا کرتا تھا ۔۔۔مولانا اسلامی نے کہا۔۔۔ اب مسلمان ہوں سجدے کے لائق صرف اللہ ہے، آپ اللہ کے گمراہ بندے ہیں، میں آپ کو وہ روشنی دکھانے آیا ہوں جس نے مجھے کفر کی تاریکی میں سیدھا راستہ دکھایا ہے۔
تم خوش قسمت ہو کہ ایلچی بن کر آئے ہو۔۔۔ راجہ نے غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ ورنہ میں تم دونوں کو قتل کرا دیتا پھر تم سمجھ جاتے کہ سجدے کے لائق کون ہے۔
مولانا اسلامی نے شامی کو بتایا کہ داہر نے کیا کہا ہے۔
اسے کہو کہ ہم دونوں کے قتل سے عرب کی فوج کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا ۔۔۔شامی نے مولانا اسلامی سے کہا۔۔۔ لیکن ہمارے خون کی جو قیمت تمہیں دینی پڑے گی اسے تم تصور میں نہیں لا سکتے، ہمارے خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے تمہیں ایک ایک آدمی کا خون دینا پڑے گا۔
مولانا اسلامی نے اپنی زبان میں یہی الفاظ دہرائے راجہ داہر یوں سیدھا ہوکر پیچھے ہٹا جیسے اسے شدید جھٹکا لگا ہو، غصے سے اس کا چہرہ دمکنے لگا، دربار پر سناٹا طاری ہو گیا تمام درباری اپنے مہاراجہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ ابھی ان دونوں ایلچیوں کے قتل کا حکم صادر ہوتا ہے۔
ہماری برداشت سے باہر ہے کہ تم جیسے بدتمیز آدمی کچھ دیر اور ہمارے دربار میں کھڑے رہیں۔۔۔ راجہ داہر نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔کہو کیا پیغام لائے ہو ،جو کہنا ہے جلدی کہو اور رخصت ہو جاؤ۔
اور ہم ایسے راجہ کے دربار میں کھڑا رہنا برداشت نہیں کر سکتے جس میں اتنا سا بھی اخلاق نہیں کہ ایک سالار اعلی کے ایلچیوں کو بیٹھنے کے لئے کہتا۔۔۔ شامی نے کہا ۔۔۔ہم اللہ کا پیغام لائے ہیں، کیا آپ اللہ کا پیغام قبول کریں گے، اسے اسلام کہتے ہیں۔
نہیں !،،،،،راجہ داہر نے کڑک کر کہا۔۔۔ کوئی اور بات کرو ،جب تمہارا لشکر میرے لشکر کے سامنے آئے گا تو تم اللہ کا پیغام بھول جاؤ گے۔
اگلی بات یہ ہے۔۔۔ مولانا اسلامی نے کہا۔۔۔ ہمارے سالار محمد بن قاسم نے پوچھا ہے کہ تم دریا پار کر کے آؤ گے یا ہم دریا پار کر کے آئیں، ہمارے سالار نے کہا ہے کہ تم دریا پار کرو یا ہم کریں دونوں پر لازم ہوگا کہ راستہ چھوڑ دیں، دریا عبور کرتے وقت نہ ہم تمہیں چھیڑیں گے نہ تم ہمیں چھیڑو گے۔
ہمارے جواب کا انتظار کرو۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
اور اپنے ایک وزیر کو جس کا نام سیاکر تھا ساتھ لے کر ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔
تین چار مورخوں نے داہر اور ایلچیوں کی پوری گفتگو لکھی ہے اور داہر نے وزیر سیاکر کے ساتھ جو صلح مشورہ کیا تھا وہ بھی لکھا ہے۔
اس نے سیاکر سے پوچھا کہ مسلمانوں کو دریا کے اس طرح آنے دیا جائے یا ہمیں اپنا لشکر دریا کے پار لے جانا چاہیے؟
بات بالکل صاف ہے مہاراج!،،،، سیاکر نے کہا۔۔۔ مسلمانوں کو ادھر آنے دیں لڑائی کے وقت دریا ان کے پیچھے ہوگا، ان کے پیچھے ہٹنے کی جگہ ہی نہیں ہوگی ،یہ بھی سوچیں کہ ان کی رسد ختم ہو گئی تو کہاں سے لائیں گے، ہم ان کی کشتیاں جلا دیں گے، ہم چونکہ اس طرف ہوں گے اس لیے ہمیں رسد کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
راجہ داہر دربار میں آیا۔
اپنے سالار سے کہنا کہ دریا پار کر کے ادھر آ جائیں۔۔۔راجہ داہر نے دونوں ایلچیوں سے کہا۔۔۔ اور اسے کہنا کہ تم زندہ واپس نہیں جاسکوگے، اور اسے کہنا کہ تمہاری کوئی شرط ہمیں منظور نہیں، جس کا مذہب سچا ہوگا وہ فتحیاب ہو گا، تم دریا پار کر کے ادھر آجاؤ ہم تمہیں اختیار دیتے ہیں دریا میں تمھارے لشکر پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھائے گا ، بے خوف ہو کر دریا عبور کرو ہم لڑائی کے لیے تیار ہیں۔
مولانا اسلامی اور شامی واپس آگئے، نیرون پہنچ کر انہوں نے محمد بن قاسم کو وہ گفتگو سنائی جو داہر کے ساتھ ہوئی تھی پھر اس کا جواب سنایا ۔
الحمدللہ !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم یہی چاہتے تھے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چچ نامہ میں یہ بھی شامل ہے کہ مولانا اسلامی اور شامی کے واپس آنے کے فوراً بعد راجہ داہر نے باغیوں کے سردار کو بلایا اور اس سے بھی مشورہ لیا، ان باغیوں کے جس سردار کا اس داستان میں ذکر آیا ہے وہ محمد علافی تھا ،جس کا پورا نام محمد حارث علافی تھا ، وہ محمد بن قاسم سے ملا تھا اور اس نے یقین دلایا تھا کہ باغی عرب راجہ داہر کے احسان کا صلہ دینے کے لئے عربوں کے خلاف نہیں لڑیں گے ،محمد حارث علافی نے راجہ داہر کو بھی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا کہ وہ اس کا ہر حکم مانیں گے لیکن ایسی کسی کارروائی میں شامل نہیں ہونگے جو محمد بن قاسم کے خلاف جاتی ہو۔
اب محمد بن قاسم کے ایلچیوں کے جانے کے بعد راجہ داہر نے جس علافی سردار کو مشورے کے لئے بلایا تھا چچ نامہ میں اس کا نام محمد علافی نہیں لکھا صرف یہ لکھا ہے کہ خاندان علافی کے سردار کو بلایا ،یہ کوئی اور سردار ہوگا ، بہرحال یہ تاریخی حقیقت ہے کہ راجہ داہر نے ایک علافی سردار کو بلایا اور محمد بن قاسم کے ایلچیوں کے ساتھ اس کی جو گفتگو ہوئی وہ سنائی اور اس سے پوچھا کہ اس کی کیا رائے ہے۔
میں تمہاری رائے اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ تم بھی عرب ہو۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اپنے ہم وطنوں کی خصلتوں اور لڑنے کے طریقوں سے واقف ہو، میں ان کی عادت جاننا چاہتا ہوں ۔
میری رائے یہ ہے کہ آپ کے وزیر کا مشورہ ٹھیک نہیں ۔۔۔علافی سردار نے کہا ۔۔۔پہلی بات یہ ہے کہ محمد بن قاسم کی فوج میں چنے ہوئے تجربے کار سالار ہیں، اور اس فوج کے سپاہی جوان آدمی ہیں ادھیڑ عمر آدمی شاید ایک بھی نہیں سوائے سالاروں اور کماندروں کے، یہ نہ بھولیں کہ مسلمان جب جنگ کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو وہ عزیز واقارب کو اور اپنی جانوں کو اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں اور اللہ پر ہی ان کا بھروسہ ہوتا ہے ،مسلمان بے مقصد نہیں لڑتے وہ جنگ کو جہاد کہتے ہیں، مسلمان کسی لالچ سے یا اپنی بادشاہی کو پھیلانے کے لئے نہیں لڑتے اور وہ اللہ سے مدد مانگتے ہیں اور اپنے مذہب کو پھیلانے کے لئے لڑتے ہیں ،اس طرح وہ جنگ کو ایک مذہبی عقیدہ سمجھتے ہیں وہ پیچھے ہٹنے کا نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا راستہ دیکھا کرتے ہیں ،کوئی رکاوٹ آجائے تو اسے ختم کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔
میں کچھ اور پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔تمہارے عرب بھائی دریا کو اپنے پیچھے رکھ کر کس طرح لڑیں گے، اور وہ رسد کا کیا انتظام کریں گے، وہ دریا کے اس طرف آجائیں گے تو میں ان کی رسد کی کشتیاں روک دوں گا۔
آپ اس طرح مسلمانوں کو رسد سے محروم نہیں کر سکیں گے ۔۔۔علافی سردار نے کہا۔۔۔ آپ ایک حکم جاری کریں کہ جو کوئی آدمی عربی لشکر کو غلّہ، لکڑی، یا کھانے پینے اور ضرورت کی کوئی چیز دیتا ہوا پکڑا گیا اسے اسی وقت قتل کر دیا جائے گا ،اس طرح مسلمانوں کو پریشان کریں لیکن وہ اتنی جلدی پریشان ہونے والے نہیں، دریا پار کرکے وہ اس طرف لڑیں گے تو بھی ان کے جذبے میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
راجہ داہر اپنے فیصلے پر قائم رہا کہ مسلمانوں کو دریا پار کرنے دے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے جب مولانا اسلامی اور شامی کو راجہ داہر کے پاس اروڑ بھیجا تھا اسی وقت اس نے ایک تیز رفتار قاصد کو ایک خط دے کر حجاج بن یوسف کی طرف بھیج دیا تھا، اس نے لکھا تھا کہ تین اور راج اور حاکم اس کی اطاعت میں آگئے ہیں، اور اب وہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے ساتھ راجہ داہر کی راجدھانی اروڑ کی طرف کوچ کر رہا ہے، اور راستے میں کہیں اپنے خط کے جواب کا انتظار کرے گا۔
نیرون سے محمد بن قاسم کے لشکر کا کوچ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ہوا، کسی بھی تاریخ میں اس راستے کا تعین نہیں کیا گیا جو محمد بن قاسم نے اختیار کیا تھا، یہ پتہ چلتا ہے کہ منجنیقیں کشتیوں پر لے جائی گئیں تھیں، لشکریوں کے بیوی بچے بھی کشتیوں پر جا رہے تھے، رسد اونٹوں اور بیل گاڑیوں پر لدی ہوئی تھی، یہ لشکرِ اسلام تھا جو کفرستان میں پانی پر تیرتا اور ریت پر چلتا جا رہا تھا۔
راجہ داہر کی نیندیں حرام ہو گئی تھی ،وہ جنگجو تھا خوفزدہ نہیں تھا ،اس کے ذہن میں کوئی الجھن نہیں تھی اس کے احکام واضح اور دوٹوک تھے اس نے اپنی فوج کو ایک نعرہ دے دیا ،اسلام آگے نہیں جائے گا۔
اس نے مندروں کے پروہتوں اور پنڈتوں سے کہہ دیا تھا کہ مندروں کے گھنٹے اور سنکھ بجتے رہیں، اور عبادت ہر وقت جاری رہے، اس نے لوگوں کے لیے اعلان کیا تھا کہ مندروں میں زیادہ سے زیادہ نذرانے اور چڑھاوے چڑھائیں۔
یہ کسی حملہ آور بادشاہ کا لشکر نہیں جو آرہا ہے۔۔۔ داہر نے پنڈتوں اور پجاریوں سے کہا تھا۔۔۔ یہ ایک مذہب آرہا ہے اگر تم نے اسے راستہ دے دیا تو ان مندروں کا نام و نشان نہیں رہے گا ،تمہارے مال اموال تمہارے نہیں رہیں گے، تمہاری بیٹیاں تمہاری نہیں رہیں گی انہیں مسلمان لے جائیں گے۔
اپنی فوج اور رعایا کو مشتعل کرنے اور ان کے جذبے میں جان ڈالنے کے لیے راجہ داہر نے مسلمانوں کے خلاف ایسی بے بنیاد باتیں پھیلا دیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ مسلمان وحشی اور جنگلی قوم ہے ،عورتوں کو ڈرانے کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا، اور انھیں کہا گیا کہ مسلمانوں سے بچنا چاہتی ہو تو مردوں کی طرح لڑنا سیکھو اور مردوں کے دوش بدوش لڑنے کا حوصلہ پیدا کرو۔
اپنی راجدھانی میں مائیں رانی نوجوان لڑکیوں اور جوان عورتوں کو تیغ زنی برچھی بازی اور گھوڑ سواری کی ٹریننگ دے رہی تھی۔
اروڑ اور گرد و نواح کے علاقے میں جو افراتفری بپا ہو گئی تھی جوان آدمی فوج میں بھرتی ہونے کے لئے آ رہے تھے ،بھرتی ہونے والوں کو ٹریننگ دی جا رہی تھی، راجہ داہر نے دور دور تک اپنا پروپیگنڈا پہنچا دیا تھا۔ لوگوں کو مسلمانوں سے ڈرایا بھی جا رہا تھا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جارہا تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے ذہن اور اپنی اپنی عقل و ذہانت کے مطابق سرگرم تھا، زیادہ تر لوگ لڑنے کے لئے تیار ہو رہے تھے، اور ایسے بھی کم نہ تھے جو اس علاقے سے بھاگ جانے کی تیاریاں کر رہے تھے، ان میں وہ لوگ تھے جن کے پاس دولت تھی یا وہ لوگ جن کی بیٹیاں جوان تھیں۔
محمد بن قاسم کا لشکر چلا جا رہا تھا۔
مجاہدین اسلام کا لشکر راوڑ کے مضافات میں جا پہنچا۔
یہ بتانا ممکن نہیں کہ راوڑ کا محل وقوع کیا تھا ،اس کے متعلق بہت ہی اختلاف پایا جاتا ہے، ایک انگریز نے لکھا ہے کہ راوڑ اروڑ (روہڑی) سے بیس یا پچیس میل مغرب یا، جنوب مغرب میں کنگری کے قریب نشیبی علاقے میں واقع تھا لیکن دوسروں نے اس کا محل وقوع بہت ہی مختلف بتایا ہے، ایران کے ایک مصنف مرزبان زرتشتی نے فارسی زبان کی ایک کتاب میں جو اس نے عیسوی 1612 میں لکھی تھی راوڑ کا ذکر کیا ہے، خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ سولہویں یا سترویں صدی تک موجود تھا پھر یہ ویران ہوا اور اس کے بعد اس کا نام و نشان ہی مٹ گیا، محکمہ آثارقدیمہ بھی اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں بتاتا۔
بہرحال یہ مقام دریائے سندھ کے کنارے پر واقع تھا اور محمد بن قاسم اس سے تھوڑی ہی دور خیمہ زن ہوا تھا ،مورخ لکھتے ہیں کہ محمدبن قاسم وہاں حجاج بن یوسف کی ہدایات کے انتظار میں رک گیا ،اس نے حجاج کو خط لکھا تھا کہ وہ اروڑ کی طرف کوچ کر رہا ہے، وہاں ایسے بھی یہ آخری پڑاؤ کرنا ہی تھا۔ کیونکہ لشکر مسلسل کوچ کی حالت میں تھا اور کشتیوں کے ملاح بھی تھک چکے تھے کیونکہ وہ دریا کے الٹے رخ جا رہے تھے۔
دوسرے ہی دن بصرہ سے حجاج کا قاصد آ گیا، حجاج نے محمد بن قاسم کو جو ہدایات لکھی تھی وہ آج تک تاریخوں میں لفظ بلفظ موجود ہیں اس کا یہ خط بہت ہی طویل ہے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج کو شاید پوری طرح یقین نہیں تھا کہ محمد بن قاسم داہر کے مقابلے میں فتح یاب ہوگا، اس نے ہدایات تو بہت لکھیں لیکن اللہ پر توکل رکھنے کے متعلق بھی بہت کچھ لکھا مثلاً یہ اقتسابات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>