⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴اکیسویں قسط 🕌


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴اکیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت جب محمد بن قاسم نرون میں واپس آگیا تھا۔ دو آدمی ایسے تھے جو راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے دونوں اس آواز کے منتظر رہتے تھے ۔۔۔۔محاذ سے قاصد آیا ہے۔۔۔ اور کبھی تو دونوں کی بے تابی ایسی ناقابل برداشت ہوجاتی تھی کہ وہ اپنے اپنے قلعے کی دیوار پر جا کھڑے ہوتے اور محاذ کی طرف سے آنے والے راستے پر نظریں جما لیتے تھے، ایک ہیجانی کیفیت تھی جو دونوں پر طاری رہتی تھی، ایک راجہ داہر تھا جو اپنی راجدھانی اروڑ میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ دوسرا حجاج بن یوسف تھا جو بصرہ میں سندھ سے آنے والے قاصد کے انتظار میں بے چین رہتا تھا۔
راجہ داہر کے راج کو مسلمان روندتے چلے جارہے تھے اور سندھ کی ریت سے مسجدوں کے مینار ابھرتے آرہے تھے، راجہ داہر اپنی زمین پر ہندومت کے سوا کسی اور مذہب، کسی اور عقیدے کا وجود برداشت نہیں کرتا تھا ۔اس نے کئی بستیوں میں بدھوں کی عبادت گاہیں بند کرادی تھیں، وہ صرف ان علاقوں میں بدھوں کے ہاتھوں پر مجبور تھا جہاں ان کی اکثریت تھی اور جہاں کے حاکم بدھ تھے، مگر اب ایک ایسا مذہب اس کے ملک میں داخل ہو گیا تھا جو اس کی رعایا کے دلوں میں داخل ہوتا چلا جا رہا تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ راجہ داہر نے اپنی نوجوانی میں ہی محسوس کر لیا تھا کہ ایک نہ ایک روز اس کا سامنا اسلام سے ضرور ہوگا، اور وہ یوں ہوا کہ عرب کے مسلمان مکران کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گئے، یہ اس وقت کی بات ہے جب محمد بن قاسم ابھی پیدا نہیں ہوا تھا ۔اس نے باغی علافیوں کو اسی لئے اپنے ملک میں پناہ دی تھی کہ انھیں وہ عرب کی خلافت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کرے گا، اس نے عربوں کے تجارتی جہاز اس امید پر لٹوائی اور ان کے مسافروں کو قید کر لیا تھا کہ سراندیپ کو آنے جانے والے عرب اس سے ڈر جائیں گے اور سندھ کبھی آنے کی جرات نہیں کریں گے۔
داہر کو یہ کاروائی بہت مہنگی پڑی تھی، اس کارروائی سے پہلے اس میں اور اس کے دانشمند وزیر نے بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس قوم کی غیرت کو للکار رہے ہیں، داہر کے دماغ پر صرف یہ خبط سوار ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کو سندھ میں داخل نہیں ہونے دے گا، اس کے ذہن سے یہ حقیقت بھی نکل گئی تھی کہ اس وقت کی دو بہت بڑی جنگی قوتیں ۔۔۔۔رومی اور فارسی۔۔۔۔ مسلمانوں کے ہاتھوں سے پٹ چکی ہے اور ان کے صرف نام باقی رہ گئے ہیں۔
اب راجہ داہر اروڑ میں بیٹھا صرف شکست کے پیغام سن رہا تھا ۔
ہمیں شمنی دھوکہ دے گئے ہیں۔۔۔راجہ داہر یہی رٹ لگا رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مہاراج !،،،،،اس کی بہن مائیں رانی نے جو اس کی بیوی بھی تھی کہا۔۔۔ دیبل کا قلعہ دار تو شمنی نہیں تھا ،بجے رائے تو ہمارا اپنا بھتیجا تھا، ایسا نہ سوچیں اس طوفان کو روکیں، فوج اکٹھی کریں، اب میدان میں نکلنے کا وقت آگیا ہے۔
کیا تم دیکھ نہیں رہی ہوں کہ ہم کتنی فوج اکٹھی کر چکے ہیں ۔۔۔داہر نے کہا۔۔۔ تم طوفان کسے کہہ رہی ہو؟ ،،،،محمد بن قاسم کی شکست میرے ہاتھوں لکھی ہے، کیا وہ ہمارے ہاتھیوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔
مہاراج کی جے ہو ،،،،،،،داہر کے وزیر بدہیمن نے کہا ۔۔۔آپ کی دہشت سے آپ کے دشمن کانپتے ہیں لیکن آپ کا یہ غلام وزیر یہ کہنے کی جرات ضرور کرے گا کہ جس فوج کے سالار اتنی حسین اور دلکش لڑکیوں کو دھتکار دیتے ہیں وہ ہاتھیوں کا بھی مقابلہ کر سکتے ہیں، مسلمان شراب بھی نہیں پیتے۔
لیکن میں انہیں اروڑ تک نہیں پہنچنے دوں گا۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ابھی وہ ہمارے راجکمار جے سینا کے مقابلے میں نہیں آئے، میں عرب کی اس فوج کو ختم کر کے بدھوں کو غداری کی سزا دوں گا، سندھ میں ایک بھی بدھ زندہ نہیں رہے گا، وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا کچھ دیر سوچ کر بولا،،،، کیا مجھے یہ بتانے والا کوئی بھی نہیں کہ عربی فوج اب کس طرف پیش قدمی کرے گی؟
یہ راز لینا بہت مشکل ہے۔۔۔ بدہیمن نے کہا۔۔۔ سیسم سے محمد بن قاسم اپنی فوج نیرون لے گیا ہے، ہمارا خیال تھا کہ وہ آگے آئے گا لیکن وہ نیرون واپس چلا گیا ہے۔
راز عورت لے سکتی ہے۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ یا پھر شراب ہے جو پتھر کے اندر چھپا ہوا راز بھی نکال سکتی ہے۔
مسلمان ان دونوں چیزوں سے دور رہتے ہیں، میں نے جو لڑکیاں بھیجی تھی ان کا حسن زہریلے ناگ کا زہر مار دیتا ہے ،مگر اس نوجوان سالار پر کچھ اثر نہیں ہوا۔
آئندہ کوئی لڑکی وہاں نہ بھیجی جائے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ رانی تم اب اروڑ کی عورتوں کو عربی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کرو، انہیں بتاؤ کے بھاگنے یا اپنے آپ کو دشمن کی فوج کے حوالے کرنے یا اپنے مردوں کے پیچھے چھپنے کی بجائے مردوں کے دوش بدوش لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، انہیں بتاؤ کہ دشمن کس قسم کا ہے، اور اگر تم بزدل بنی رہی تو تم مسلمان کے بچے جنو گی ،ان کے خون کو گرماؤ رانی!،،،،، انہیں کہو کہ جب تک سانس چلتی رہے لڑنا ہے، ان کی غیرت کو بھڑکاؤ۔
میں عورتوں کی ایک فوج تیار کر سکتی ہوں مہاراج!،،،،، مائیں رانی نے کہا۔
اورتم بدہیمن!،،،،، راجہ داہر نے اپنے وزیر سے کہا۔۔۔ بِیٹ کو کوئی عقل والا آدمی بھیجو جو دسایو کو بتائے کے مسلمانوں نے نیرون کے بعد سیوستان اور سیسم کے قلعے بھی لے لئے ہیں، اور وہاں کے اور ان کے اردگرد کے علاقوں کے لوگ جو ہماری رعایا تھے اب عرب کے مسلمانوں کی رعایا بن گئے ہیں ،اسے کہو کہ اپنے لوگوں کو فوج میں بھرتی کرو اور مسلمانوں کی فوج پر عقب سے حملہ کرنے کے لئے تیار رہو ،تم خود جانتے ہو کیا کہنا ہے، اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ دسایو ہمارا وفادار حاکم اور دوست ہے وہ پیٹھ نہیں دکھائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بِیٹ رن کَچھ کا ایک بڑا قلعہ تھا اس زمانے میں رن کچھ کشہا کہلاتا تھا ۔ یہ تمام علاقہ نشیبی تھا ،اس لئے اسے وادی کہتے ہیں، اس علاقے کا حاکم راجہ دسایو تھا، اسے راجہ داہر نے ہی حاکم بنایا تھا لیکن وہ خود مختار تھا اور راجہ داہر کا ایک بازو بنا ہوا تھا ،اس کے دو بیٹے تھے ایک کا نام راسل اور دوسرے کا نام موکو تھا، وہ راسل کا چھوٹا بھائی تھا اور جوان تھا دونوں بھائی تیغ زن، شہسوار اور میدان جنگ میں دشمن کے چھکے چھڑا دینے کی اہلیت اور جرات رکھتے تھے۔
موکو اپنے بڑے بھائی راسل سے مختلف فطرت کا آدمی تھا وہ اپنی رعایا سے محبت کرتا تھا، اس کی یہ عادت اسکے باپ اور بھائی کو پسند نہیں تھی وہ موکو کے دماغ میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے تھے کہ رعایا راجہ اور حاکم کی غلام اور محتاج ہوتے ہیں، اور یہ کہ رعایا کو روٹی دینے کی بجائے اس کے آگے روٹی پھینکنی چاہیے ،موکو کو یہ باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔
موکو کی شادی کی باتیں ہونے لگی اس کی ہونے والی دلہن حاکموں کے خاندان سے تھی، لیکن موکو نے شادی کا وعدہ کسی اور سے کر رکھا تھا ،وہ لڑکی اس کی رعایا میں سے تھی اور وہ فوج کے معمولی سے عہدے دار کی بیٹی تھی، موکو سے وہ ملتی ملاتی رہتی تھی، موکو نے اپنے باپ کو بتایا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا، تو باپ پریشان ہو گیا اس نے موکو کو پیار سے سمجھایا پھر دھمکیاں دیں کہ اسے راج کی جانشینی سے محروم کر دیا جائے گا۔
مجھے اس لڑکی کے ساتھ جنگل میں اور جھوپڑے میں رہنا پڑا تو رہوں گا۔۔۔ موکو نے باپ سے کہا۔۔۔ مجھے راج سے نہیں اس لڑکی سے محبت ہے۔
دسایو نے لڑکی کے باپ سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو راجکمار سے ملنے سے روکے ورنہ اسے فوج کی عہدیداری سے محروم کر دیا جائے گا۔
لڑکی کے باپ نے جب لڑکی کو بتایا کہ راجہ نے اسے کیا حکم دیا ہے، تو لڑکی نے باپ سے کہا کہ موکو اس کی خاطر راج کی جانشینی چھوڑ رہا ہے تو وہ اس سے ملنے سے کبھی باز نہیں آئے گی، موکو اسے جب بلائے گا اور جہاں بلائے گا وہ وہاں پہنچے گی، باپ کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے اسی وقت بیٹی کا گلا دبا کر اسے مار ڈالا اور دسایو کے دربار میں جا پہنچا۔
مہاراج نے حکم دیا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو راجکمار موکو سے ملنے سے روکوں۔۔۔ اس نے اعلان کیا۔۔۔ میں حکم بجا لایا ہوں مہاراج،،،، اپنی بیٹی کا گلا گھونٹ کر مہاراج کی لاج رکھ لی ہے۔
شاباش دسایو نے کہا ۔۔۔بول اپنی بیٹی کے خون کی کیا قیمت چاہتا ہے۔
وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا قیمت یا انعام مانگے کہ اچانک موکو دربار میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں برچھی تھی اس کی طرف لڑکی کے باپ کی پیٹھ تھی۔
ادھر دیکھ۔۔۔ موکو نے للکار کر کہا۔۔۔ میں تجھے تیرے بیٹی کے خون کی قیمت دیتا ہوں، لڑکی کے باپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا موکو نے پوری طاقت سے اسے برچھی ماری برچھی کی انی اس کے دل میں اتر گئی، موکو نے برچھی کھینچی، اس کا شکار گر پڑا، دوسرا وار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کوئی درباری موکو کو پکڑنے کے لئے آگے نہ گیا، کیونکہ وہ دسایو کا بیٹا تھا۔
اسے پکڑ لو۔۔۔ دسایو نے حکم دیا ۔۔۔اسے کال کوٹھری میں بند کردو۔
موکو نے تلوار نکالی اب اس کے پاس دو ہتھیار تھے، اس نے درباریوں پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ دوڑائی۔
آگے آ ،،،،،اس نے سب کو للکارا ہمت کرو۔
اس کا بڑا بھائی راسل خالی ہاتھ اس کی طرف آیا۔
چلے جاؤ موکو!،،،،، راسل نے اسے کہا۔۔۔ یہاں سے چلے جاؤ۔
موکو دربار سے نکل گیا اس نے باپ سے کہہ دیا تھا کہ اسے کال کوٹھری میں بند کرنے کے لئے پکڑنے کی کوشش کی گئی تو اس کا نتیجہ بہت برا ہوگا ،موکو لوگوں میں ہر دل عزیز تھا ،دسایو اور راسل کو یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ موکو کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو لوگ اس کے ساتھ ہوکر بغاوت نہ کردیں، لڑنے والے جو جنگجو تھے وہ بھی موکو کو بہت پسند کرتے تھے۔
موکو نے اپنے باپ اور بڑے بھائی سے کہا کہ اسے الگ کر دیا جائے ورنہ وہ ان کے لئے مصیبت بن جائے گا ۔
دسایو اور راسل نے آپس میں صلح مشورہ کرکے یہی بہتر سمجھا کے کَچھ علاقہ موکو کو دے کر اسے الگ کردیا جائے، چنانچہ اسے سورتھ کا علاقہ دے دیا گیا یہ علاقہ رن کَچھ کا ہی حصہ تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخوں میں یہ واقعہ تفصیل سے نہیں لکھا گیا کہ موکو کے دل میں محمد بن قاسم کی محبت کس طرح پیدا ہوئی تھی، تاریخ معصومی میں کچھ واضح اشارے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ موکو شکار کا شوقین تھا اور شکار کے لئے بہت دور نکل جایا کرتا تھا، شکار کے دوران اس کی ملاقات ان عربوں میں سے کسی کے ساتھ ہو گئی تھی جنہیں راجہ داہر نے اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی، ان سے اسے مسلمانوں کے رسم و رواج اور اسلامی تعلیمات کا پتہ چلا تھا ،کیونکہ وہ خود راجہ اور رعایا کے فرق کو تسلیم نہیں کرتا تھا اس لئے اسے اسلام کا یہ اصول بہت پسند آیا تھا کہ کوئی انسان دوسرے سے برتر نہیں۔
اس کے بعد اسے پتہ چلا کہ مسلمان جس شہر اور جس علاقے کو فتح کرتے ہیں اس کے لوگوں کو اپنا غلام نہیں بناتے بلکہ انہیں وہ پورے حقوق دیتے ہیں جو آزاد اور باعزت شہریوں کو ملنے چاہیے ۔
مورخ متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ موکو نے کھلم کھلا مسلمانوں کے حق میں باتیں کرنی شروع کردی تھیں۔
اس کی یہ باتیں جب بھی دسایو اور راسل کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف کرنے کی کوشش شروع کر دی اور اسے احساس دلانے لگے کہ وہ ایک ملک کا راجکمار ہے اور مسلمان اس کے ملک کے اور اس کے مذہب کے دشمن ہیں ۔
لیکن موکو نے اپنے باپ اور بڑے بھائی کی کسی بات کو تسلیم نہ کیا، اس کے دل میں اترا ہوا یہ کانٹا نہیں نکل سکتا تھا کہ جس لڑکی کو وہ چاہتا تھا اسے اس کے باپ نے قتل کروا دیا تھا، لڑکی کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ رعایا میں سے تھی۔
محمد بن قاسم کے ساتھ اب مقامی آدمی بہت ہو گئے تھے یہ سب اس کے جاسوس بن گئے تھے ،وہ شعبان ثقفی کے ماتحت کام کرتے تھے، اور شعبان ثقفی نے انہیں ٹریننگ دے کر جاسوس اور مخبر بنا لیا تھا، عرب کے جاسوس بھی تھے لیکن وہ چہرے اور قد کاٹھ سے پہچانے جاتے تھے، صرف ان عربوں کو سندھ میں جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا تھا جن کا رنگ سیاہ تھا۔
یہ زیادہ تر بدو تھے، جو پیدائش سے موت تک زندگی آسمان تلے گزارتے تھے، انہیں سندھ کی زبان سکھاں دی گئی تھی پھر بھی ان کے پکڑے جانے کا خطرہ موجود رہتا تھا، اب جبکہ مسلمانوں نے سندھ کے اتنے زیادہ علاقے فتح کرلئے تھے اور مفتوحہ لوگوں کے دل موہ لئے تھے، کئی مقامی آدمی محمد بن قاسم کے باقاعدہ جاسوس بن گئے تھے۔
محمد بن قاسم نے ان جاسوسوں کو دور دور تک پھیلا دیا تھا ان میں سے دو جاسوس رن کَچھ کے علاقے میں بھی گئے ہوئے تھے، ان میں سے ایک واپس نیرون آیا اور شعبان ثقفی کو موکو کے متعلق بتایا کہ وہ مسلمانوں کی طرف مائل ہے، اس نے یہ تمام واقعہ سنایا جو اوپر بیان کر دیا گیا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ موکو کی طرف اگر ایلچی بھیجا جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دوستی کا معاہدہ کر لے گا، بلکہ وہ اطاعت بھی قبول کر لے گا۔
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو یہ ساری بات سنائی اور کہا کہ وہ خود موکو کے پاس جائے گا۔
محمد بن قاسم نے اسے اجازت دے دی اور اس کے ساتھ جو محافظ بھیجے وہ تاجروں کے بھیس میں تھے۔
شعبان ثقفی جنوبی ہندوستان کا تاجر بن کر گیا تھا ،محمد بن قاسم کے پاس بہت قیمتی اشیاء تھیں جو اسے دیبل، نیرون ،سیوستان ،اور سیسم سے حاصل ہوئی تھیں، شعبان ثقفی ان میں سے کچھ بیش قیمت اشیا اپنے ساتھ لے گیا دوسری اشیاء جو اونٹوں پر لادکر لی جائیں گئیں ان میں زیادہ تر اناج اور ایسی ہی خوردونوش کی چیزیں تھیں۔
یہ قافلہ دو تین دنوں کی مسافت طے کرکے سورتھ پہنچا ،وہاں کے لوگ جن میں زیادہ تر تاجر اور دکاندار تھے اکٹھے ہوگئے۔
شعبان ثقفی نے بیش قیمت چیزیں جو محلات میں رہنے والوں کے ہی کام آسکتی تھیں لے کر موکو کے یہاں چلا گیا ،اس نے موکو کو اطلاع بھیجوائی کے جنوبی ہند کا ایک تاجر کچھ قیمتی چیزیں لایا ہے۔
اسے موکو نے اندر بلایا شعبان ثقفی نے اپنا قیمتی مال موکو کے آگے رکھ دیا ،موکو نے کچھ چیزیں پسند کی اور ان کی قیمتیں پوچھی۔
میرا خیال ہے مہاراج نے قیمت ادا کردی  ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔
کیا کہہ رہے ہو تم۔۔۔ موکو نے پوچھا ،میں تمہیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
میں نے یہاں آ کر سنا ہے کہ آپ مسلمانوں کے معترف اور خیر خواہ ہیں، اور آپ اپنی رعایا کو اللہ کی مخلوق سمجھتے ہیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔آپ نے دیکھا نہیں میں مسلمان ہوں اور میں جنوبی ہند میں کاروبار کرتا ہوں، ہم مسلمان کسی کا احسان نہیں بھولا کرتے، مجھے آپ کی یہ بات بھی اچھی لگی ہے کہ آپ خدا کے بندوں میں اونچ نیچ کو نہیں مانتے، میں یہ چیزیں بیچنے کے لیے لایا ہوں لیکن ان میں سے آپ کو جو پسند ہے وہ میری طرف سے تحفے کے طور پر لے لیں۔
نہیں !،،،،،،موکو نے کہا۔۔۔ اگر میں نے مسلمانوں کے حق میں کوئی اچھی بات کہہ دی ہے تو میں اس کے عوض کسی مسلمان سے کوئی تحفہ قبول نہیں کروں گا، تم ایسا تو نہیں کر رہے کہ مجھے تحفہ دے کر خوش کرو گے اور میرے لوگوں کو اناج وغیرہ مہنگے داموں دوگے، میں اپنے لوگوں کے ساتھ یہ دھوکہ برداشت نہیں کروں گا۔
کیا آپ منڈی میں سے کسی کو بلا کر میرے اناج تیل اور دوسری اشیا کے بھاؤ نہیں پوچھیں گے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔مسلمان دھوکہ کھا لیا کرتے ہیں دھوکہ دیا نہیں کرتے۔
شعبان ثقفی نے اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے باتوں کا رخ موڑ دیا، یہی اس کا فن تھا جس میں اسے کمال حاصل تھا اس نے موکو کو اپنے اثر میں لے کر محمد بن قاسم کا ذکر چھیڑدیا۔
اگر آپ عرب کی فوج کا مقابلہ کریں گے تو آپ کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا ۔۔۔۔شعبان ثقفی نے آخر میں کہا۔۔۔ اگر آپ محمد بن قاسم کے ساتھ پہلے ہی دوستی کا معاہدہ کر لیں گے تو آپ اسی طرح یہاں کے حاکم رہیں گے جس طرح اب ہیں ۔ آپ کو مزید فائدہ یہ ملے گا کہ آپ کی اور آپ کی رعایا کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہوگی۔
مجھے یقین نہیں آتا ۔۔۔موکو نے کہا ۔۔۔کیا کوئی فاتح مفتوح لوگوں کے ساتھ ایسا اچھا سلوک کر سکتا ہے۔
دیبل سے معلوم کرا لیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔نیرون میں خود جاکر دیکھ لیں، کئی اور بستیاں مسلمانوں کے قبضہ میں آئی ہیں ،کیا آپ مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں؟
تم تاجر ہو ۔۔۔۔موکو نےکہا۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ایسی باتیں نہیں کرسکتا ،اگر میں مسلمانوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہوں گا تو تم میری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔
آپ اپنا ارادہ بتائیں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ میں عرب فوج کے سالار محمد بن قاسم کے ساتھ بات کر سکتا ہوں۔
میں خود عرب کے سالار کے پاس نہیں جاؤں گا۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تمہارا سالار مجھے بزدل سمجھے گا، دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا باپ اور میرا بھائی اسی لیے میرے دشمن بنے ہوئے ہیں کہ میں مسلمانوں کو اچھا سمجھتا ہوں، وہ کہیں گے کہ میں نے لڑے بغیر مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ہے۔
میں آپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ آپ محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر لیں گے تو آپ اس جگہ کے حاکم رہیں گے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔آپ پر صرف یہ شرط عائد کی جائے گی کہ محمد بن قاسم کو آپ کی مدد کی ضرورت ہو گی تو آپ اس کی مدد کریں گے۔
تم اپنی حیثیت سے بڑھ کر بات کر رہے ہو۔۔۔ موکو نے کہا۔۔۔ اور تم مجھے ورغلا رہے ہو، ایک سالار کی طرف سے ایسی بات منہ سے نہ نکال جو سالار پوری نہ کرنا چاہے، تم اپنے دماغ کو تجارت تک ہی رکھو۔
میں اپنے سالار کی طرف سے بات کر رہا ہوں مہاراج !،،،،شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اسی نے مجھے بھیجا ہے میں تاجر نہیں ، نہ جنوبی ہند کے ساتھ میرا کوئی تعلق ہے ،میں محمد بن قاسم کا ایلچی ہوں، یہ چیزیں محمد بن قاسم کے تحائف ہیں جو اس نے آپ کے لئے بھیجے ہیں ۔
پھر تم اس بہروپ میں کیوں آئے ہو ؟،،،،موکو نے پوچھا۔
اس لیے کہ آپ میری ان باتوں سے ناراض بھی ہو سکتے تھے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ اگر میں ایلچی کے روپ میں آتا تو ہو سکتا تھا کہ آپ مجھے قید میں ڈال دیتے یا میری بےعزتی کر کے مجھے یہاں سے نکال دیتے، میں نے اپنا آپ اس وقت ظاہر کیا ہے جب یقین ہو گیا ہے کہ آپ دوستی کا معاہدہ کر لیں گے۔
اپنے سالار سے کہنا کہ میں اس کی دوستی قبول کرلونگا۔۔۔ موکو نے کہا ۔۔۔تم اسی بھیس میں یہاں سے چلے جاؤ ،تمہاری اصلیت کا کسی کو پتہ نہ چلے۔
شعبان ثقفی تحائف وہیں چھوڑ کر منڈی میں گیا اس کے آدمی جو تاجروں کے روپ میں اس کے ساتھ آئے تھے سامان بیچ چکے تھے، انہیں ساتھ لے کر وہ نیرون کو روانہ ہو گیا۔ اس کے آدمیوں نے لوگوں سے موکو اور اس کے باپ دسایو اور بھائی راسل کے حالات اور فوجی طاقت وغیرہ کے متعلق معلومات حاصل کر لی تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شعبان ثقفی نے نیرون پہنچ کر محمد بن قاسم کو تفصیل سے بتایا کہ رن کَچھ کے سیاسی اور فوجی حالات کیا ہیں، اس رپورٹ میں دو اہم باتیں تھیں ایک یہ کہ موکو دوستی کے معاہدے پر آمادہ تھا اور دوسری بات یہ کہ راجہ داہر نے رن کَچھ کے حاکم دسایو کی مدد کے لئے ایک فوجی حاکم (جرنیل) جابین کو بھیج دیا تھا ،جابین دیبل کا حاکم تھا اور وہاں سے شکست کھا کر بھاگا تھا ،وہ خوش قسمت تھا کہ دیبل سے زندہ نکل آیا تھا ،داہر کو غالبا یہ پتہ چل گیا تھا کہ محمد بن قاسم کا رخ رن کَچھ کی طرف ہوگا۔
محمد بن قاسم نیرون کے قریبی مضافات میں ایک بلند ٹیکری پر خیمے میں ٹھہرا ہوا تھا آج اس ٹیکری کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی، اتنی صدیاں جو گزر گئی ہیں، ان کے موسموں کی تغیرات نے زمین کے خدوخال بدل ڈالے ہیں ،بلندیاں پستیوں سے جا ملی ہیں اور پستیوں کو اڑتی ریت نے بھر کر بلند کردیا ہے، اگر کچھ زندہ ہے تو وہ محمد بن قاسم کا نام ہے جس نے سندھ کی پستیوں کو بھی بڑا ہی بلند مرتبہ عطا کیا تھا۔
یہ ٹیکری سرسبز اور خوشنما تھی اس کے اردگرد سبزہ زار تھا سایہ دار درخت تھے ۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ محمد بن قاسم کو یہ جگہ اتنی اچھی لگی تھی کہ اس نے سندر شمنی کے محل میں رہنے کی بجائے اس ٹیکری پر رہنا پسند کیا، اس کے سامنے بڑا لمبا سفر تھا اس نے سارے ملک ہند میں اسلام پھیلانے کا عہد کر لیا تھا۔
اس کے مجاہدین کا جذبہ اس کے عہد کے عین مطابق تھا، مجاہدین جہاں شہید ہوتے تھے وہیں انہیں دفن کردیا جاتا تھا ،اور اس طرح سندھ شہیدوں کا خطہ بنتا جا رہا تھا، آج ان کی قبروں کے نشان بھی نہیں رہے، ان کے نام بھی نہیں رہے، وہ عرب کے ریگزار کے گمنام بیٹے تھے مگر سندھ کی ریت کے ذرے ذرے میں ان کے نام زندہ ہیں، ان کا یہ فخر زندہ ہے کہ ہندوستان کے بت کدے میں وہ اسلام لائے تھے اور کفر کی تاریکیوں کو انھوں نے اسلام کے نور سے منور کیا تھا۔
محمد بن قاسم جب نیرون کی ایک خوشنما اور سرسبز ٹیکری پر ٹھہرا ہوا تھا تو اس کے نظام جاسوسی کے سربراہ شعبان ثقفی نے اسے رن کَچھ کے متعلق تفصیلات سنائی، اس وقت محمد بن قاسم کے سامنے وہ خط پڑا ہوا تھا جو حجاج بن یوسف نے لکھا تھا، یہ خط اسے سیسم میں ملا تھا، حجاج نے لکھا تھا کہ محمد بن قاسم واپس نیرون چلا جائے اور دریائے سندھ عبور کرکے راجہ داہر کو میدان میں گھسیٹے، حجاج کا خیال یہ تھا کہ داہر کو شکست دے دی گئی تو ہندوستان کے دروازے کھل جائیں گے۔
شعبان ثقفی کی رپورٹ سن کر محمد بن قاسم نے کاتب کو بلایا اور حجاج بن یوسف کے نام خط لکھوانے لگا ،اس نے خط میں اپنی فتوحات کی پوری تفصیل لکھوائی اور ان امیروں کے نام بھی لکھوائے جو اس نے مفتوحہ قلعوں میں مقرر کیے تھے، شہیدوں کی اور شدید زخمی ہوکر معذور ہونے والوں کی تعداد لکھی، اپنی فوج اور رسد وغیرہ کی کیفیت لکھی اور آخر میں رن کَچھ کے حالات اور سندھ میں اس خطے کی اہمیت لکھی، اور آخر میں لکھا کہ رن کچھ کا ایک حاکم ہماری اطاعت قبول کرنے پرآمادہ ہے اگر اس کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تو ہماری مہم آسان ہو جائے گی۔
یہ خط قاصد کو دے کر محمد بن قاسم نے نیرون سے رن کَچھ کی طرف کوچ کیا، اور تین چار دنوں کی مسافت کے بعد ایک جگہ پڑاؤ کیا۔
کسی بھی تاریخ میں اس جگہ کا نام نہیں لکھا صرف یہ لکھا ہے کہ اس جگہ محمد بن قاسم نے رک کر حجاج بن یوسف کی طرف سے اپنے خط کے جواب کا انتظار کیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج بن یوسف کا جواب بہت جلدی آ گیا مؤرخوں نے اس کے خط کا پورا متن عربی سے ترجمہ کر کے لکھا ہے، محمد بن قاسم نے اپنے خط میں حجاج کو بہت زیادہ تعظیم وتکریم دی تھی اور کچھ القاب بھی استعمال کئے تھے، حجاج نے اس انداز تحریر کو پسند نہ کیا اس نے محمد بن قاسم کو جو خط لکھا وہ اس طرح ہے۔
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
عزیز بیٹے کریم الدین محمد بن قاسم !،،،،،تجھ پر اللہ کی رحمت اور کرم ہو ،تیرا خط تکلفات اور القاب سے بھرپور تھا ،سمجھ نہیں آئی تو نے ایسا کیوں کیا، احوال وکوائف جو تو نے لکھے ہیں میں نے پورے غور سے پڑھے، میرے عزیز بیٹے!،،،، تجھے ہو کیا گیا ہے، اپنی رائے اپنی عقل اور تدبر سے کام کیوں نہیں لیتا ،میری خواہش اور دعا ہے کہ مشرق کےتمام بادشاہوں پر تو غالب آئے، اور کفار کے تمام شہر اور قلعے تیرے قبضے میں ہو، تو خود کفر کے سر کو ختم کرنے سے کیوں عاجز آ رہا ہے؟،،، کیا تو اپنے آپ کو ان پر مسلط نہیں کر سکتا ؟،،،وہ تو اسلام پر غالب آنے کے منصوبے بنا رہے ہیں ،مجھے امید ہے کہ ان کے منصوبے ناکام ہونگے اور تو فتح اور کامران ہو گا، دل کو مضبوط رکھ میرے عزیز ،اور کفار کے دفاع کو توڑنے کے لئے تو جس قدر بھی مال خرچ کرسکتا ہے کر دے، دشمن پر انعام و اکرام کا مینہ برسا دے، دشمن کا کوئی حاکم جاگیر یا حاکمیت مانگتا ہے اسے دے دے ،اور اسے اپنے پاؤں کے نیچے رکھ ،کسی کو نا امید نہ کر، ان کی درخواستوں کو قبول کر، اور انہیں کے قوانین ان پرنافذ کر، اور وہ امن کا معاہدہ چاہیں تو انہیں امن دے لیکن خود ان پر مسلط رہ،،،،،
دشمن پر غالب آکر اسکی سلطنت اپنے ہاتھ میں لینے کے چار طریقے ہیں، ایک یہ کہ صلح ہمدردی دشمن کی چھوٹی سی لغزش اور بہت بڑے مطالبے سے چسم پوشی اور اس کے ساتھ رشتے داری کے تعلقات، دوسرا طریقہ ہے فیاضی سے مال خرچ کرنا، مخالفت کو انعام اور عطیات سے سے دباؤ ،تیسرا طریقہ یہ ہے کہ دشمن مخالفت کے درپردہ خطرناک طریقے اختیار کرے اور حالات تیرے خلاف ہو جائیں تو گھبرانے کی بجائے دماغ کو حاضر رکھ ،اور تیری رائے اور فیصلہ صحیح ہو ، ہر وقت مغلوب دشمن کے مزاج پر نظر رکھ، چوتھا طریقہ ہے رعب اور دبدبہ، جرات ،قوت کا استعمال کر، کہ دشمن اور اس کے حمایتی سر نہ اٹھ سکیں،،،،،،،،،
دشمنوں کو بے اثر اور بے کار رکھنے کے لئے طریقے استعمال کر اور کوئی کافر حکمران اطاعت اور امن قبول کرے اسے موثر اور بڑے سخت عہدنامے میں جکڑ لے، اور جو بھی خراج وہ خود مقرر کرے وہ قبول کرلے، اور بہت جلدی وصول کر،،،،،،، اور میرے بیٹے قاصدوں کے معاملے میں بہت محتاط رہ، مفتوحہ علاقوں میں تو جس قاصد کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کرے اس کے متعلق یقین کرلے کے فولاد جیسا مضبوط دل رکھتا ہے، اور وہ کسی کے فریب میں نہیں آسکتا، تجھے اس کی عقل پر دور اندیشی اور ایمان کی پختگی پر پورا اعتماد ہونا چاہیے، وہ دل اور عقیدے کا اتنا مضبوط ہو کہ دشمن کے کسی آدمی یا عورت یا کسی اور لالچ کے جال میں نہ آ جائے، اور اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو تیرے نقصان کا باعث بن جائے، مت بھولنا میرے عزیز بیٹے ہندوستان بڑے خوبصورت اور دلنشین مکروفریب کا ملک ہے، قاصدوں اور ایلچیوں کے انتخاب میں محتاط رہنا،،،،،،،
داہر کی چالوں سے خبردار رہنا اس کی طرف اپنے کسی معتمد واصد یا ایلچی کو بھیجو تو اسے سختی سے نصیحت کرنا کہ دشمن کے درمیان جا کر اسکی باتوں میں نہ آجائے،
اسے پیغام اچھی طرح ذہن نشین کرا دو ، اور وہ جب کسی راجہ یا بادشاہ کے دربار میں پیش ہوکر پیغام دے تو اس پر بادشاہ کا خوف نہ ہو اور اس کے سرداروں اور حاکموں سے بھی نہ ڈرے، راجہ یا بادشاہ اس سے کچھ پوچھیں تو وہ جرات سے جواب دے ،اور بادشاہ پیغام کا جو جواب دے وہ اچھی طرح سنے اور تجھ تک پہنچائے تاکہ کوئی غلط فہمی نہ رہے، یہ بھی یاد رکھ میرے عزیز بیٹے قاصد کو یہ بتاؤ کہ تم سارے لشکر کے امام ہو اور لشکر کی فتح اور شکست تمہارے ہاتھ میں ہے، قاصد ہمیشہ اپنے مذہب کا ہو جو پاک مذہب ہے، وہ پروقار ہونا چاہیے اس کی باتوں میں اثر ہو ،وہ کفار کے بادشاہ کے دربار میں کھڑا ہوکر کہنے کی جرات رکھتا ہوں کہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لاؤ ،اگر اللہ کو وحدہٗ لاشریک تسلیم کرو گے تو تمہارے شہر، بستیاں، کھیتیاں ،اور جان و مال محفوظ رہیں گے ،اگر اپنے باطل عقیدوں کو دل میں رکھ کر اللہ کی وحدانیت سے منہ موڑو گے تو ہم تمہیں بخشیں گے نہیں لڑائی کے لئے تیار ہو جاؤ،،،،،،،
تو اب داہر کے مقابلے کو جارہا ہے یاد رکھ میرے عزیز وہ دریا مہراں اور پائے سندھ کے پار ہے، اور تو دریا کے سامنے والے کنارے پر ہوگا ،داہر کو دریا پار کرنے کا موقع نہ دینا اسے للکار کر کہنا کہ ہم دریا کے پار آکر لڑیں گے، پھر یہ بھی دھیان میں رکھ کہ لڑائی کے لیے وہ میدان منتخب کر جو کشادہ ہو تاکہ اپنے پیادے اور سوار دشمن کے پیادوں اور سواروں کو اچھی طرح دیکھ سکیں اور ان کو پینترا بدلنے کے لئے کافی جگہ مل جائے، ہر پیادہ اور سوار گھوم پھر کر لڑے اور تیرے لشکر کو یہ سہولتیں میسر آئے یا نہ آئے اللہ پر توکل رکھ ،فتح و شکست اسی کی ذات باری کے اختیار میں ہے، اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو، اللہ کے لئے لڑو اور اللہ سے ہی مدد کے طلبگار رہو، اس کے کرم اور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، دلجمعی سے لڑو اور دیکھو کہ پردہ غیب سے کیا ظہور پذیر ہوتا ہے، اور اللہ کے حضور سے کس کی بادشاہی کے خاتمے کا حکم جاری ہوتا ہے،،،،،
اور میں نے کہا ہے کہ داہر کو دریا عبور کرنے کا اختیار نہ دینا ،یہ میں پھر کہتا ہوں کہ تو جب اس کے بالمقابل ہو اور درمیان میں دریا ہو تو اسے کہنا کہ دریا ہم عبور کریں گے، اس طرح اس پر تیرا رعب بیٹھے گا، اور اس کے لشکر پر یہ اثر ہوگا کہ جو لشکر اتنی دور سے آکر دریا بھی عبور کررہا ہے اور مقابلے کے لئے بھی تیار ہے تو یہ لشکر قوی اور دلیر ہے،،،،،،،،
تو نے دیکھ لیا ہے اور میں تجھے یہ یقین دلاتا ہوں کہ تیرے ساتھ جو لشکر ہے یہ اللہ کی جماعت ہے انہوں نے کہیں بھی پیٹھ نہیں دکھائی اور آگے جا کر بھی کسی میدان میں پیٹھ نہیں دکھائیں گے، جان کی بازی لگا کر لڑیں گے یہ اللہ کے فضل و کرم پر بھروسہ کرنے اور ثابت قدم رہنے والے مجاہدین ہیں،،،،،،،
دریا ایسی جگہ سے عبور کرنا جہاں تیرے لشکر کے پاؤں جم سکیں ،ایسا نہ ہو کہ دریا آدھے لشکر کو اپنے ساتھ ہی لے جائے ،جس راستے کے متعلق تجھے یقین ہو کہ بلکل سیدھا اور محفوظ ہے اس پر بھی احتیاط سے چلنا، اور لشکر کو بھی احتیاط رکھنا لشکر کو میمنہ، میسرہ، قلب، ہراول، اورساقہ میں ترتیب دے کر آگے بڑھنا، پیادوں کو اگے رکھنا اور برگستوانیوں کو درمیان میں نہ رکھنا۔۔۔۔*
برگستوانی ذرہ کی ایک قسم تھی، جو گھوڑوں کو پہنائی جاتی تھی، حجاج بن یوسف زرہ پوش گھوڑوں کو قلب میں رکھنے کی بجائے پہلو اور عقب میں رکھنا چاہتا تھا تاکہ لشکر محفوظ رہ سکے، محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں اور کمانڈروں کو بلا کر انہیں حجاج بن یوسف کا خط پڑھ کر سنایا اور انھیں بتایا کہ کس طرف پیش قدمی ہو گی۔
میرے رفیقو !،،،،محمد بن قاسم نے سالاروں اور کمانڈروں سے کہا ۔۔۔خدا کی قسم ہم حجاج بن یوسف کے آگے جواب دہ نہیں، نہ ہم حجاج کی خوشنودی کے لئے وطن سے اتنی دور آ کر اپنی جان بازی پر لگائے ہوئے ہیں، حجاج کی آواز امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز ہے ،ہمیں حجاج نہیں اللہ دیکھ رہا ہے، اللہ کی خوشنودی کے لئے لڑو، ہم سب کو اللہ کے حضور جانا ہے اور جواب دینا ہے۔
محمد بن قاسم کو احساس تھا کہ ان سالاروں اور ان کے ماتحتوں کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں وہ سب ثابت قدم رہنے والے تھے، یہ ان کے جذبے کا کرشمہ تھا کہ وہ جدھر جاتے تھے دشمن ان کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے جاتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محرم الحرام 93 ہجری ، 7-11-12- عیسوی) جب محمد بن قاسم کی عمر 18 سال تھی وہ رن کَچھ کے ایک قلعہ اشبہار تک پہنچ چکا تھا، یہ ایک مضبوط قلعہ تھا اسلامی فوج نے اسے محاصرے میں لے لیا اس قلعے کا خود مختار حاکم دسایو تھا ،اس نے اردگرد کے دیہات کے لوگوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے قلعے میں اکٹھا کر لیا تھا، ان میں برچھی نشان پر پھیکنے کے ماہر اور تیر انداز بھی تھے اور تلوار کے دھنی بھی۔
محمد بن قاسم نے اعلان کرایا کہ قلعہ ہمارے حوالے کر دو تو امان میں رہو گے، اگر ہم نے قلعہ خود سر کر لیا تو تم سب کا انجام بہت برا ہوگا ۔
آگے آؤ۔۔۔ قلعے کی دیوار کے اوپر سے آوازآئی۔۔۔ قلعہ خود سر کرو۔
قلعے کی دیوار پر تیر اندازوں کی دیوار کھڑی تھی یہ لوگ مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے تھے۔ محمد بن قاسم نے اپنے تیر اندازوں کو آگے کیا تو دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ شروع ہو گیا، تیروں کے سائے میں مسلمانوں کا ایک جیش دروازہ توڑنے کے لئے آگے بڑھا تو دیوار کے اوپر سے برچھیاں آنے لگیں تین مسلمان بری طرح زخمی ہو کر پیچھے ہٹ آئے،
مسلمانوں نے دیوار تک پہنچنے کی کوشش بار بار کی ان کا مقصد یہ تھا کہ دیوار تک پہنچ جائیں تو سرنگ کھود لیں، لیکن اوپر سے آنے والی پرچھیاں اور تیروں کی بوچھاڑ انہیں دیوار تک نہیں پہنچنے دیتی تھیں، دیوار پر دسایو نے ایک ہجوم کھڑا کر رکھا تھا مسلمانوں کا کوئی تیر ضائع نہیں ہوتا تھا ہجوم میں سے کسی نہ کسی کو لگ جاتا تھا۔
مسلسل سات دن مسلمان دروازے تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ،ادھر دیوار پر ہجوم تھا اس میں سے بہت سے آدمی زخمی ہوچکے تھے، یہ لوگ فوجی نہیں تھے انھیں دیہات سے بلا کر دیوار پر کھڑا کردیا گیا تھا ،انہوں نے جب اپنے ساتھیوں کو تیروں سے زخمی ہوتے اور تڑپتے دیکھا تو ان کا حوصلہ جواب دے گیا۔
محمد بن قاسم نے اپنا آخری حربہ استعمال کیا یہ منجنیقوں کی سنگ باری تھی، تمام منجنیقیں ساتھ نہیں لے جائی گئیں تھیں، دو یا تین ساتھ تھیں۔ ان سے دروازے پر پتھر پھینکے جانے لگے اس کے ساتھ ہی قلعے والوں نے دیکھا کہ مسلمان اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور دیوار تک پہنچ رہے ہیں تو ان کے حوصلے پست ہونے لگے۔
آٹھویں روز قلعے پر سفید جھنڈا چڑھا دیا گیا اور دسایو نے قلعے کا دروازہ کھولنے کا حکم دے دیا، اس نے محمد بن قاسم کا استقبال کیا اور امن کی درخواست کی ،محمد بن قاسم نے درخواست قبول کرکے اس پر جزیہ اور سالانہ خراج عائد کیا اور وہاں اپنا ایک حاکم مقرر کردیا ،اشبہار کے لوگوں میں بھگدڑ اور افراتفری بپا ہوگئی تھی انھیں توقع تھی کہ مسلمان لوٹ مار کریں گے، اور اس دور کے رواج کے مطابق خوبصورت عورتوں کو گھروں سے نکال کر لے جائیں گے، لیکن مسلمان فوج نے ایسی کوئی حرکت نہ کی اور ایک ہی روز میں شہر میں امن بحال ہوگیا۔
رن کَچھ کا ایک اور بڑا قلعہ بِیٹ تھا ۔ دیبل کا شکست خوردہ فوجی حاکم جابین بیٹ میں حاکم تھا ۔محمد بن قاسم نے بیٹ کا محاصرہ کرلیا اور قلعے پر تابڑ توڑ حملے شروع کرادئیے جابین نے بڑی جلدی ہتھیار ڈال دیے اور یہ اہم قلعہ بھی مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی