⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴بیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پنڈت نے دو روز بعد کی ایک رات بتائی اور حملے کا وقت آدھی رات سے ذرا بعد کا بتایا۔ کوئی بلیدان ؟،،،،بجے رائے نے پوچھا۔
ایک کنواری ۔۔۔پنڈت نے کہا۔۔۔ حملے کی روانگی سے پہلے ایک کنواری کے خون کے چھینٹے حملہ کرنے والوں کے راستے پر پڑنے لازم ہیں، اور اس کنواری کا سر کُنبھ (منچھر) جھیل کے پانی میں ڈوبا ہوا ہو، اور حملے کے لئے جانے والا ہر آدمی اس جھیل سے ایک ایک گھونٹ پانی پی کر جائے۔
شُبھ رات آ گئی اس قبیلے سے کم و بیش آٹھ سو آدمی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح ہوکر سیسم قلعے میں جمع ہو گئے، ان کے ساتھ ایک ہزار چنّہ جنگجو شامل ہوگئے، یہ ایک ہزار سوار تھے، اور دوسرے قبیلے کے آٹھ سو آدمیوں میں پیادے بھی تھے اور سوار بھی، ادھر بجے رائے ان ایک ہزار آٹھ سو آدمیوں کو آخری ہدایات دے رہا تھا اور انتہائی اشتعال انگیز الفاظ میں ان کا خون گرما رہا تھا۔
ادھر مندر میں پندرہ سولہ برس کی ایک کنواری ہندو لڑکی کی گردن کاٹ کر خون ایک بالٹی میں اکٹھا کیا جا رہا تھا اس کا سر ایک چوڑی طشتری پر رکھ دیا گیا اور پنڈت بھجن گا رہے تھے۔
کچھ دیر بعد ایک پنڈت یہ طشتری اٹھائے وہاں گیا جہاں شب خون مارنے والوں کا اجتماع تھا، شام کا دھندلکا سیاہ ہو چکا تھا ،بے شمار مشعلیں جل رہی تھیں، طشتری پر کنواری کا سر جس پنڈت نے اٹھا رکھا تھا اس کے دائیں اور بائیں دو مشعل برادر تھے اور پیچھے چار پنڈت بھجن گنگناتے جا رہے تھے۔
بجے رائے نے آگے بڑھ کر پنڈت کے ہاتھ سے طشتری لے لی اور وہ ایک چبوترے پر جا کھڑا ہوا ،اس نے طشتری اونچی کرکے شب خون کے لئے جانے والوں کو لڑکی کا سر دکھایا، اس کے ساتھ دو مشعلیں بھی بلند ہو گئی تاکہ لشکر کا ہر آدمی اسے دیکھ سکے، سر کے بال سر کے اوپر جوڑے کی طرح لپیٹ دیے گئے تھے آنکھیں بند اور منہ ذرا سا کھلا ہوا تھا۔
یہ سر جھیل میں پھینک دیا جائے گا۔۔۔ بجے رائے نے بلند آواز سے کہا ۔۔۔پھر یہ طشتری جھیل کے کنارے رکھ دی جائے گی، تم سب اس جھیل سے ایک ایک گھونٹ پانی پی کر جاؤ گے ،اور جب تم مسلمانوں کو ختم کرکے یا آدھی فوج کو مار کر اور باقی کو بھگا کر آؤ گے تو جس کے ہاتھ میں محمد بن قاسم کا سر ہو گا وہ سر اس طشتری میں رکھ کر ہمارے پاس لائے گا،،،،،،،، یہ مت بھولنا کہ تمھاری کامیابی کی خاطر اس کنواری لڑکی نے اپنی جان کی قربانی دی ہے، اس لڑکی کا خون قلعے سے باہر لے گئے ہیں یہ خون اس راستے میں چھڑکا جائے گا جس پر سے تم لوگ گزرو گے۔
اس لڑکی کا سر تن سے جدا کرنے والا پنڈت بجے رائے کے ہاتھ سے طشتری لے کر قلعے کے دروازے کی طرف چل پڑا اس کے پیچھے پیچھے چار پنڈت بھجن گنگنا رہے تھے، اور وقفے وقفے سے سنکھ بجتا تھا ،مندر میں عبادت ہو رہی تھی، جھیل دور نہیں تھی پنڈت نے جھیل کے کنارے پر رک کر لڑکی کا سر زور سے پھینکا کنارے سے کچھ دور جھیل میں سر کے گرنے کی آواز آئی اور رات پھر خاموش ہوگئی۔
رات کچھ اور گزر گئی تو قلعے کے دروازے سے گھوڑے اور پیادے باہر آنے لگے، سوار بھی پیدل آرہے تھے ان سب نے جھیل سے ایک ایک گھونٹ پانی پی کر پیش قدمی کرنی تھی، وہ جھیل پر آ کر پانی پینے اور ایک جگہ اکٹھے ہونے لگے۔
بجے رائے اور راجہ کاکا بھی باہر آ گئے تھے گھوڑوں نے بھی پانی پیا اور ان کے سوار ان کی پیٹھوں پر چڑھ بیٹھے۔
حجاج بن یوسف کا کردار تو کچھ اور تھا لیکن وہ اپنے مذہبی عقیدے کو نہیں بھولتا تھا وہ جب بھی محمد بن قاسم کو پیغام بھیجتا تھا تو جنگی نوعیت کی ہدایت کے بعد یہ ضرور لکھتا تھا کہ اللہ سے ہر وقت مدد کے طلبگار رہو، اور پیش قدمی کے دوران پڑاؤ کرو تو فوج کو چوکس اور بیدار رکھو، بیدار رہنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو آدمی قرآن پڑھ سکتے ہیں وہ رات کو تلاوت کرتے رہیں، اور انہیں قرآن پڑھائیں جو پڑھنا نہیں جانتے ،نوافل زیادہ سے زیادہ پڑھے جائیں، نماز کے بعد اللہ تبارک و تعالی سے فتح و کامرانی کی دعا مانگو اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد کرتے رہو۔
اس رات سیسم سے کچھ دور پڑاؤ میں محمد بن قاسم کی فوج تلاوت قرآن کررہی تھی، جو قرآن پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ نوافل پڑھ رہے تھے، پڑاؤ میں مشعلیں جل رہی تھیں، صبح اس لشکر کو سیسم کی طرف بڑھنا تھا ،توقع تھی کہ فوج دوپہر تک یہ فوج سیسم پہنچ جائے گی اور محاصرہ کر لے گی۔
محمد بن قاسم نے اپنی فوج سے کہا تھا کہ مجاہدین عبادت اور تلاوت کے ساتھ ساتھ کچھ آرام بھی کر لیں، لیکن اس رات کوئی ایک بھی آدمی آرام نہیں کر رہا تھا انہوں نے کچھ رات آرام کر لیا تھا۔
اس رات زخمی بھی عبادت میں مصروف تھے، فوج کے بعض سالاروں ، ان سے چھوٹے عہدیداروں، اور بعض سپاہیوں کی بیویاں اور بچے بھی ساتھ تھے، یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ فوجی جہاں کہیں بھی جاتے اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے جاتے تھے، محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ بھی ایسے کئی کنبے تھے، ان کی عورتیں زخمیوں کی دیکھ بھال کررہی تھیں۔
ادھر اٹھارہ سو منتخب جنگجو مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر شب خون مارنے آ رہے تھے۔ مسلمان اس قسم کی فوری معرکہ آرائی کے لیے تیار نہیں تھے، صرف سنتری چوکس تھے، ان میں گشتی سنتری بھی تھے جو کیمپ سے کچھ دور دور گشت کر رہے تھے، شب خون کی صورت میں وہ اپنی فوج کو قبل از وقت خبردار کر سکتے تھے، لیکن شب خون بڑا ہی تیز حملہ ہوتا ہے، اگر شب خون مارنے والے جو صحیح معنوں میں اتنے تیز ہوا کرتے تھے وہ قبل از وقت دشمن کو اطلاع ملنے کے باوجود سمجھنے کی مہلت نہیں دیا کرتے تھے۔
شب خون دراصل مسلمانوں کا طریقہ جنگ تھا اس سے وہ دشمن کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا کرتے تھے کہ دشمن کی فوج حملہ کرنے یا حملہ روکنے کے قابل نہیں رہتی تھی، اب دیکھنا یہ تھا کہ بجے رائے اور کاکا کے چھاپہ مار کس حد تک مسلمان چھاپہ ماروں کے معیار تک پہنچ سکتے تھے، خطرہ یہ تھا کہ مسلمان بے خبر تھے اور انہیں شب خون کی توقع نہیں تھی، ایک پہلو اور زیادہ خطرناک تھا وہ یہ کہ مسلمانوں کے کیمپ میں عورتیں اور بچے بھی تھے اور رسد کا ذخیرہ بھی ساتھ تھا۔
ہندو چھاپہ مار ایک کنواری لڑکی کی قربانی دے کر آئے تھے، اور ان کی کامیابی کے لئے سیسم کے مندر کے گھنٹے اور سنکھ بج رہے تھے ،اور پنڈت بھجن گا رہے تھے ۔
محمد بن قاسم اور اس کے مجاہدین اللہ کے بھروسے پر تلاوت اور عبادت میں مصروف تھے۔
شب خون کی کامیابی کی صورت میں اسلام کے اس سیلاب کو وہیں پر صرف روک ہی نہیں جانا تھا بلکہ اسے واپس بحیرہ عرب میں گم ہو جانا تھا۔
تاریخوں میں صحیح طور پر وہ جگہ نہیں لکھی گئی جہاں مسلمانوں کا یہ پڑاؤ تھا، یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ جگہ یسم سے آدھے دن کی مسافت جتنی دور تھی، اور وہ جگہ اس علاقے کی عام سطح زمین سے نیچے تھی، یہ نشیبی زمین ہموار بھی نہیں تھی اس میں تین ساڑھے تین میل لمبائی اور کم و بیش ڈیڑھ میل چوڑائی میں جگہ جگہ ٹیلے کھڑے تھے جو بھربھری مٹی کے تھے ،وہا ں ہرے بھرے درخت بھی خاصے تھے اور ایک جگہ پانی اتنا زیادہ جمع تھا کہ لمبا چوڑا تالاب بنا ہوا تھا، یہ گہری جگہ سیسم کی طرف جانے والے راستے سے ذرا دور ہٹی ہوئی تھی۔
یہ محمد بن قاسم کی عقلمندی تھی کہ اس نے عام راستے سے پیش قدمی نہیں کی تھی، اور اس نے آخری پڑاؤ ایسی جگہ کیا تھا جس کے خدوخال نے اتنے بڑے لشکر کو رسد کے چھکڑوں میں چھپا لیا تھا ،یہ بھی ایک وجہ تھی کہ مسلمان اپنے آپ کو شب خون اور اچانک حملے سے محفوظ سمجھتے تھے لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بجے رائے اور کاکا نے مسلمانوں کے کیمپ پر شب خون مارنے کے لیے اٹھارہ سو آدمی بھیجے تھے تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کا پڑاؤ کہاں ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کے کیمپ سے رات بھر تلاوت قرآن کی مترنم آوازیں اٹھتی رہی ،تھوڑے تھوڑے وقفے سے کسی زخمی کے کرہانے کی آواز بھی اس مقدس ترنم میں شامل ہوجاتی تھی ،اور اس عورت کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دیتی تھی جو کرہانے والے زخمی تک دوڑ کر پہنچتی تھی، توقع تھی کہ کیمپ کی ان آوازوں میں سیسم کے چھاپہ ماروں کے گھوڑوں اور پیادوں کے قدموں کی ہنگامہ خیز آوازیں بھی شامل ہو جائیں گی، لیکن کیمپ کی آوازیں آہستہ آہستہ خاموش ہوتی گئی اور کیمپ سے فجر کی اذان کی مقدس اور مترنم سدا ابھری اور سندھ کی خنک فضا کی لہروں میں تیرتی ہوئی دور دور تک پہنچنے لگی۔
سیسم کے مندر کے گھنٹے اور سنکھ ابھی تک بج رہے تھے، بجے رائے اور کاکا قلعے کی دیوار پر آن کھڑے ہوئے تھے، وہ اپنے چھاپہ ماروں کی واپسی کی راہ دیکھ رہے تھے اس وقت تک چھاپہ ماروں کو واپس آ جانا چاہیے تھا، وہ طشتری جھیل کے کنارے پر رکھی ہوئی تھی جس میں کسی ایک چھاپہ مار نے محمد بن قاسم کا سر رکھ کر بجے رائے کو پیش کرنا تھا۔
مسلمانوں کے کیمپ میں فجر کی نماز کے لیے جماعت کھڑی ہو گئی تھی کیمپ کی فضا خاموش تھی اس میں محمد بن قاسم کے قرات تیر رہی تھی، اور درختوں پر بھی جیسے وجد طاری ہو گیا تھا گھوڑے اور اونٹ خوراک کے لیے بےچین ہونے لگے تھے۔
بجے رائے اور کاکا قلعے کی دیوار پر کھڑے اس طرف دیکھ رہے تھے جس طرف سے ان کے چھاپہ ماروں نے واپس آنا تھا، پو پھٹنے لگی تھی پھر افق پر شفق نمودار ہوئی، صحرا کی شفق بڑی ہی حسین ہوا کرتی ہے لیکن اس صبح کی شفق بجے رائے اور کاکا کو بہت بری لگ رہی تھی ،وہ شفق کی بجائے شب خون مارنے والوں کے گھوڑوں کی گرد دیکھنا چاہتے تھے۔
افق سے سورج نے سر اٹھایا اور اس کی پہلی کرنیں اس خطے کو منور کرنے لگی، بجے رائے کی بے قراری غصے کی صورت اختیار کر گئی وہ دیوار پر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔
کیا وہ سب مارے گئے ہیں ؟،،،،،اس نے رک کر کہا ۔۔۔میں مان نہیں سکتا ۔ میں بتاتا ہوں کیا ہوا ہے ۔۔۔کاکا نے کہا۔۔۔ وہ مسلمانوں کو تباہ کرکے ان کا مال لوٹنے میں لگ گئے ہیں اور ان کی عورتوں کو گھسیٹ رہے ہونگے،،،، آجائیں گے ،،،،وہ آتے ہی ہونگے۔
وہ دیکھو !،،،،،بجے رائے نے بے تابی سے کہا۔
افق سے گرد اٹھ رہی تھی جو گہری اور بلند ہوتی گئی پھر ابھرتا ہوا سورج اس گرد میں چھپ گیا ،زمین سے گرد کے بادل اٹھتے رہے، پھر اس گرد میں سے گھوڑے اور پیادے نظر آنے لگے، بجے رائے اور کاکا دیوار سے دوڑتے ہوئے اترے ،نیچے ان کے گھوڑے کھڑے تھے وہ بڑی تیزی سے گھوڑوں پر سوار ہوئے ایڑ لگائی گھوڑے سرپٹ دوڑ پڑے اور قلعے سے نکل گئے۔
دونوں کہیں رکنے کی بجائے گھوڑے دوڑاتے گئے اور واپس آتے ہوئے چھاپہ ماروں تک جا پہنچے ،ان کی توقع کے خلاف چھاپہ ماروں نے فتح اور کامیابی کا کوئی نعرہ نہ لگایا ان کے کمانڈر کے چہرے پر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔
میں ناکامی کی خبر نہیں سنوں گا ۔۔۔بجے رائے نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
کمانڈر نے بجے رائے کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھا اور منہ سے کچھ نہ کہا۔ تمام سوار اور پیادے رک گئے تھے بجے رائے ان سب کے اردگرد گھوما اور سب کے چہروں کو دیکھا ان سب میں کوئی ایک بھی زخمی نہیں تھا، بجے رائے واپس کمانڈر تک آیا اس کی تلوار کا دستہ پکڑ کر بڑے زور سے تلوار نیام سے نکالی اور تلوار کو دیکھا تلوار چمک رہی تھی۔
تلوار ویسی ہی ہے جیسی گئی تھی ۔۔۔بجے رائے نے کہا ۔۔۔نیام سے نکلی ہی نہیں۔۔۔ اس نے گرج کر کہا۔۔۔ تم بولتے کیوں نہیں۔
مہاراج کی جئے ہو ۔۔۔چھاپہ ماروں کے کمانڈر نے بے جان سی آواز میں کہا ۔۔۔ہم مسلمانوں کے پڑاؤ تک پہنچ ہی نہیں سکے۔
کیوں ؟،،،،،،بجے رائے نے سخت غصیلی آواز میں پوچھا۔۔۔ کہیں مر گئے تھے تم ، یا ڈر کر وہاں تک پہنچے ہی نہیں۔
مہاراج نے ہماری رہنمائی کے لئے جو دو آدمی بھیجے تھے وہ ہمیں اس جگہ لے گئے جہاں بتایا گیا تھا کہ محمد بن قاسم نے پڑاؤ کیا ہے۔۔۔۔چھاپہ ماروں کے کمانڈر نے کہا۔۔۔ لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا پھر وہ کہنے لگے کہ انہیں غلطی لگی ہے وہ یہ کہہ کر ہمیں وہاں سے بہت دور ایک اور جگہ لے گئے وہاں بھی کچھ نہیں تھا اس طرح وہ ہمیں گھماتے پھراتے رہے اور پو پھٹنے لگی شب خون کا وقت گزر گیا تھا واپس آ جانا ہی بہتر تھا، اگر ہم دن کی روشنی میں اتنے بڑے لشکر کے سامنے جاتے تو مہاراج جانتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہونا تھا۔
اس کمانڈر کی تلوار ابھی تک بجے رائے کے ہاتھ میں تھی غصے سے وہ چل رہا تھا اس نے بڑی تیزی سے تلوار گھمائی اور یہ تلوار کمانڈر کی گردن کو کاٹتی ہوئی آگے نکل گئی، کمانڈر کا سر زمین پر جاپڑا اور اس کا دھڑ گھوڑے سے لڑھک آیا اور اس کا خون زمین کو لال کرنے لگا۔
اس کا سر جھیل میں پھینک دو ۔۔۔بجے رائے نے کہا۔۔۔ وہ دو آدمی کہاں ہیں جو انہیں محمد بن قاسم کے پڑاؤ تک لے جانے کے لئے ساتھ بھیجے گئے تھے۔
وہ دوگائیڈ تھے جنہوں نے بتایا تھا کہ مسلمانوں نے فلاں جگہ پڑاؤ کیا ہے، انھیں اس تمام نفری میں دیکھا گیا وہ ان چھاپہ ماروں میں نہیں تھے، وہاں سے بھاگ نہیں گئے تھے وہ گھوڑوں پر سوار تھے اس اجتماع میں سے نکل کر بھاگتے تو سب کو نظر آ جاتے ان چھاپہ ماروں کے نائب کمانڈر نے بتایا کہ واپسی پر وہ ان کے ساتھ نہیں تھے۔
ایک پیادہ چھاپہ مار اپنے کمانڈر کے جسم سے جدا کیا ہوا سر اٹھا کر جھیل کی طرف جا رہا تھا، یہ وہی جھیل تھی جس میں ایک کنواری لڑکی کا سر پھینکا گیا تھا ،کچھ دیر بعد اس کمانڈر کا سر بھی اسی جھیل کی تہہ میں پہنچ گیا، جس کی فتح کے لیے ایک لڑکی کا سر کاٹا گیا تھا ،جھیل کے کنارے چاندی کی ایک خالی طشتری پڑی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ان چھاپہ ماروں کے دونوں گائیڈ کہیں بھی نظر نہ آئے، بجے رائے نے حکم دے دیا تھا کہ جہاں کہیں وہ ملے وہی ان کے سر کاٹ کر اسی جھیل میں پھینک دیے جائیں اور ان کے جسموں کو جلانے کی بجائے قلعے سے دور پھینک دیا جائے۔
وہ دونوں بجے رائے اور کاکا کو نہیں مل سکتے تھے وہ اس وقت مسلمانوں کے کیمپ میں بجے رائے کے عتاب سے محفوظ بڑے آرام سے بیٹھے تھے ،یہ وہی دو جاسوس تھے جو ایک بوڑھی عورت اور دو لڑکیوں کو ساتھ لے کر ایک شام سیوستان کے قلعے میں پناہ گزین بن کر داخل ہوئے تھے اور انھیں شعبان ثقفی نے پکڑ لیا تھا ،انہوں نے اعتراف کر لیا تھا کہ وہ جاسوس ہیں محمد بن قاسم کے حکم سے انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔
اس آخری پڑاؤ میں جب محمد بن قاسم فجر کی باجماعت نماز سے فارغ ہو کر اپنے خیمے کی طرف جا رہا تھا تو دو گشتی سنتری ان دونوں ہندوؤں کو پکڑ کر لائے پہلے وہ انہیں شعبان ثقفی کے پاس لے گئے اور اسے بتایا کہ دونوں شعبان ثقفی سے ملنا چاہتے ہیں۔ سنتریوں نے ان دونوں کی تلواریں لے لیں تھیں شعبان ثقفی نے انھیں دیکھتے ہی پہچان لیا۔
تم پھر آ گئے ہو ۔۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اب کوئی اور لڑکیاں لائے ہو، لیکن اب تمہیں زندہ نہیں جانے دیا جائے گا، وہ تو ہمارے سالار اعلی کی رحمدلی تھی کہ تم سب کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
ہم اس احسان کا صلہ دے چکے ہیں۔۔۔ ان دونوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔ اور اب ہم زندہ رہنے اور ہمیشہ کے لئے آپ کے ساتھ رہنے کے ارادے سے آئے ہیں۔
شعبان ثقفی ان پر اعتبار نہیں کرسکتا تھا، لیکن وہ جو بات سنا رہے تھے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ،انہوں نے بتایا کہ بجے رائے اور راجہ کاکا کو انہوں نے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتے ان دونوں حاکموں کے ساتھ ان کی جو باتیں ہوئیں تھیں وہ انہوں نے شعبان ثقفی کو سنائیں۔
پھر ایسے ہوا ۔۔۔ان میں سے ایک نے کہا ۔۔۔کہ ہم نے بجے رائے سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا خطرناک کام بتائیں جس میں جان چلی جانے کا خطرہ ہو ،ہم وہ کام کر دکھائیں گے، لیکن جاسوسی نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ ہم میدان جنگ میں لڑنے والے آدمی ہیں وہ تو ہمیں قتل کر دینے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن انہوں نے آپ کے پڑاؤ پر شب خون مارنے کی باتیں شروع کر دیں ،یہ مشورہ انہیں ہم نے ہی دیا تھا کہ محمد بن قاسم کو کسی اور طریقے سے شکست دینے کی کوشش کریں، یہ طریقہ رات کا حملہ ہی ہو سکتا تھا ہم نے انھیں بتایا کہ یہ کام ہم کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کے لشکر کو دیکھتے رہے اور جہاں وہ آخری پڑاو کریں وہاں رات کو ہم اپنی فوج کو لے جائیں اور سوئے ہوئے مسلمانوں کو کاٹ دیں۔
ان دونوں جاسوسوں نے شعبان ثقفی کو تمام اسکیم بتائی جو انہوں نے شب خون کے لئے بنائی تھی ،ان دونوں جاسوسوں کو یہ کام دیا گیا تھا کہ وہ کسی اور بھینس میں سیسم کی طرف آنے والے راستے پر چلے جائیں اور مسلمان جہاں پڑاؤ کریں وہ دیکھ کر واپس آ جائیں۔
ہم آپ کے سالار کی عقلمندی کی بہت ہی تعریف کرتے ہیں ۔۔۔ایک جاسوس نے کہا ۔۔۔آپ کا سالار فوج کو اس علاقے میں سے گزار کر لایا جس میں سے کوئی عام راستہ نہیں گزرتا، وہ علاقہ گزرنے کے قابل ہی نہیں لیکن آپ کا لشکر ادھر سے گذرا اور پڑاؤ ایسی جگہ کیا جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں اتنی بڑی فوج پڑاؤ کر سکتی ہے، یہ تو اتفاق کی بات تھی کہ ہم دونوں نے آپ کے لشکر کو دیکھ لیا تھا، ہم نے واپس آکر بجے رائے کو بتایا کہ محمد بن قاسم نے کہاں پڑاؤ کیا ہے، ہم نے ان سے درخواست کی کہ شب خون مارنے والوں میں ہمیں شامل کر لیا جائے اور ہم چھاپہ ماروں کی رہنمائی بھی کریں گے۔
مختصر یہ کہ انہیں چھاپہ ماروں کے گائیڈ بنا دیا گیا اور وہ مقررہ رات ان کے ساتھ گئے۔
کیا ہم انہیں سیدھے آپ کے پڑاؤ تک نہیں لا سکتے تھے؟،،،، ایک جاسوس نے کہا۔۔۔ لا سکتے تھے لیکن ہم آپ کو پہلے بتا چکے ہیں کہ ہم آپ کے کردار سے اور آپ کی عبادت سے کتنے متاثر ہوئے تھے اور پھر آپ کے سالار نے ہمیں زندہ سلامت سیوستان کے قلعے سے نکال دیا تھا، ہم دونوں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ اس احسان کا بدلہ دیں گے، وہ ہم نے یوں دیا کہ چھاپہ ماروں کو آپ کے پڑاؤ سے بہت دور گھماتے پھراتے رہے اور ظاہر یہ کیا کہ ہم راستے سے بھٹک گئے ہیں، اس طرح گھومتے پھرتے رات گزار دی چھاپہ ماروں کو میں نے واپسی کا راستہ دکھا دیا تھا، ہم دونوں سحر کی تاریکی میں ادھر ادھر ہو گئے ہمیں کوئی بھی نہ دیکھ سکا کے ہم چھاپہ ماروں کے اس لشکر سے نکل گئے ہیں، جب چھاپہ مار دور نکل گئے تو ہم نے آپ کے پڑاؤ کا رخ کر لیا اور آپ کے پاس پہنچ گئے ،آپ حاکم ہیں آپ چاہیں تو ہمیں مروا دیں لیکن ہم اسلام کو قول کرنے آئے ہیں۔
کیا تمہیں اپنے مذہب سے اتنی زیادہ نفرت ہو گئی ہے؟،،،،، شعبان صفی نے پوچھا۔
پہلے نہیں تھی۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ ایک تو آپ کی عبادت نے ہمارے دل ہمارے مذہب سے پھیرے ہیں ،اور اب اپنے مذہب سے نفرت اس لیے ہوئی ہے کہ اہنے شب خون کی کامیابی کے لئے سیسم کے مندر میں ایک نوجوان کنواری لڑکی کی جان کی قربانی دی گئی ہے، اور اس کا سر کاٹ کر جھیل میں پھینک دیا گیا تھا،،،،،،اس نے شعبان ثقفی سے پوچھا؟،،،، کیا آپ بھی انسانی قربانی دیا کرتے ہیں۔
ہاں !،،،،،شعبان ثقفی نے جواب دیا۔۔۔ ہم انسانی قربانیاں دے کر ہی یہاں تک پہنچے ہیں، لیکن ہم کمسن اور کنواری لڑکیوں کی قربانی نہیں دیا کرتے، بلکہ انھیں کی جان اور انہیں کی عزت پر اپنی گردنیں کٹوا دیا کرتے ہیں، یہ کنواریاں ہمارے مذہب کی ہو یا کسی اور مذہب کی۔
ظلم و ستم دیکھیں ۔۔۔ایک جاسوس نے کہا۔۔۔ جس لڑکی کی گردن کاٹی گئی تھی اس کے خون کے چھیٹے اس راستے پر ڈالے گئے تھے جس راستے پر چھاپہ ماروں نے روانہ ہونا تھا،،،،،،، ہم نے سنا تھا کہ ہمارے مذہب میں انسانی جان کی قربانی دی جاتی ہے لیکن ایسی قربانی پہلی بار دیکھی ہے، اور ہم دونوں نے اس لڑکی کی ماں کو باپ کو اور اس کے دو چھوٹے بھائیوں کو آہ وزاری اور فریاد کرتے بھی دیکھا ہے ،،،،،،،آپ کے مذہب میں ایسا نہیں ہوتا؟
نہیں !،،،،،شعبان ثقفی نے جواب دیا۔۔۔ ہم صحیح راستے سے گزرتے ہیں اور غلط راستے پر چلنے والا کوئی دشمن جنگی طاقت کے گھمنڈ میں ہمارے راستے میں رکاوٹ بن جائے تو ہم اپنے راستے پر اس باطل پرست دشمن کے خون کا چھڑکاؤ کرتے جاتے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شعبان ثقفی ان دونوں ہندوؤں کو محمد بن قاسم کے پاس لے گیا اور اسے بتایا کہ گزشتہ رات ہم پر کیا قیامت آرہی تھی اور ان دونوں نے کس طرح ٹالی ہے۔
یہ خدائے ذوالجلال کا فضل و کرم ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میرے چچا حجاج نے یہ جو بار بار ہمیں ہدایت دی ہے کہ ہر وقت اللہ کی مدد کے طلبگار رہو اور رات کو تلاوت اور عبادت کرو ،وہ ویسے ہی نہیں دی تھی، جہاں اس قدر زیادہ ذکر الہی ہو رہا ہو وہاں انسانی جانوں کی قربانی دینے والے آ کر اندھے ہو جاتے ہیں۔
اس نے ان دونوں سے پوچھا۔۔۔۔ سیسم کا راجہ کا کا کیا ارادہ رکھتا ہے؟
وہ لڑنے والا آدمی نہیں ۔۔۔جاسوس نے جواب دیا۔۔۔ وہ تو بجے رائے کی باتوں میں آ گیا تھا اگر آپ ہمارا مشورہ مایں تو کاکا کی طرف اپنا ایلچی بھیجیں اور صلح کی بات کریں، لیکن بجے رائے نہیں مانے گا ۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ نہ مانے تو کیا ہوگا۔ ایک جاسوس نے کہا ۔۔۔اس کے پاس کوئی فوج نہیں وہ تو اس قلعے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
یہ تو جنگی امور تھے جن کے متعلق محمد بن قاسم نے ان دو آدمیوں کے ساتھ بحث مباحثہ یا تبادلہ خیالات نہیں کرنا تھا ،اس نے شعبان ثقفی سے کہا کہ ان دونوں آدمیوں کو نہایت عزت اور احترام سے رکھا جائے اور انہیں اچھی قسم کا لباس پہنایا جائے ۔
اس سے زیادہ ہماری اور عزت افزائی کیا ہوسکتی ہے کہ آپ ہمیں اپنے مذہب میں داخل کرلیں۔۔۔۔ ایک جاسوس نے کہا ۔۔۔اور اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کی فوج میں مسلمان کی حیثیت سے شامل ہو جائیں۔
دونوں نے محمد بن قاسم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور شعبان ثقفی سے کہا کہ ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے، انہیں فوری طور پر فوج میں شامل نہ کیا۔
اللہ کا فضل و کرم شامل حال تھا محمد بن قاسم کو معلوم نہیں تھا کہ سیسم میں کیا ہو رہا ہے، اس نے اپنی فوج کو پیش قدمی کا حکم دیا یہ حکم تو رات کو ہی دے دیا گیا تھا کہ صبح کو سیسم محاصرے میں لینے کے لیے پیش قدمی ہوگی ،اس حکم کے مطابق تمام فوج تیار تھی۔
چچ نامہ میں متعدد غیر ملکی مورخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے نباۃ بن حنظلہ کو جو خصوصی عقل و دانش کا مالک تھا ایلچی کے طور پر فوج کے کوچ سے پہلے چار محافظوں کے ساتھ سیسم کو اس ہدایت کے ساتھ روانہ کردیا کہ وہ سیسم کے راجہ کاکا سے کہے کہ وہ خونریزی کے بغیر ہماری اطاعت قبول کرلے ،اس صورت میں اس کی حیثیت برقرار رہے گی اور اس کی نہ صرف جان ومال کی بلکہ تمام علاقے کے تحفظ اور دیگر مسائل کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہوگی۔
نباۃ بن حنظلہ محمد بن قاسم سے اطاعت اور دوستی کے متعلق مزید ہدایت لے کر تیزرفتاری سے روانہ ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ادھر تاریخی حوالوں کے مطابق سیسم کے قلعے میں یہ صورتحال پیدا ہو چکی تھی کہ بجے رائے اور کاکا میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔
شب خون کی ناکامی کو میں بہت برا شگون سمجھ رہا ہوں۔۔۔ کاکا نے بجے رائے سے کہا۔۔۔ یہ ایک بڑا صاف اشارہ ہے کہ ہم نے محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ بہت برا ہوگا۔
بزدل نہ بنوں کا کا!،،،،،،، بجے رائے نے کہا۔۔ ابھی محاصرہ ہوا ہی کہاں ہے، میں راجہ داہر کی طرف پیغام بھیج کر فوج منگوا لوں گا، تمہارے پاس بھی فوج ہے اور اٹھارہ سو جنگجو تو یہی ہیں جنہیں ہم نے شب خون مارنے کے لیے بھیجا تھا، ہم انہیں پہلے ہی باہر بھیج دیں گے جب مسلمان فوج ہمارے قلعے کا محاصرہ کرے گی تو یہ منتخب جنگجو عقب سے محاصرے پر حملہ کر دیں گے۔
بجے رائے!،،،،،، کا کا نے کہا ۔۔۔۔تم میں یہی ایک وصف ہے کہ تم راجہ داہر کے بھتیجے ہو، سیوستان میں تمہارے پاس فوج کی کمی نہیں تھی اگر تم میں ایسی ہی جنگی اہلیت ہوتی تو وہاں سے بھاگ نہ آتے ، میں جو کہہ رہا ہوں وہ سمجھنے کی کوشش کرو میں مذہب کا بدھ ہوں، بدھ مت اس طرح کسی انسان کی جان کی قربانی کی اجازت نہیں دیتا، لیکن تم نے میرے سامنے ایک معصوم لڑکی کا سر تن سے جدا کر دیا اور اس کا سر جھیل میں ڈال دیا اس سے تمہیں کیا حاصل ہوا،،،،،، ناکامی اور مایوسی،،،،،، اب اس معصوم لڑکی کی روح کا قہر ہم پر نازل ہو گا ،اس سے پہلے کہ تمہارے گناہ کا قہر میری قوم پر نازل ہو میں اس گناہ کا کفارہ ادا کروں گا ،اس کی ایک ہی صورت ہے کہ میں اپنے علاقے میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لوگوں کا خون نہ بہنے دوں۔
تو کیا تم مجھے مسلمانوں کے حوالے کرنا چاہتے ہو؟،،،،، بجے رائے نے پوچھا۔
ہونا تو یہ چاہئیے تھا ۔۔۔کاکا نے کہا ۔۔۔جس طشتری میں تم نے ایک معصوم لڑکی کا سر کٹوا کر رکھا تھا اور جس پر تم محمد بن قاسم کا سر رکھنا چاہتے تھے اس طشتری پر تمہارا سر رکھا جائے ،لیکن میں تمہارے ساتھ بے وفائی نہیں کروں گا، تم یہاں سے نکل جاؤ۔
بجے رائے نے دیکھا کہ اپنے ساتھ فوج نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجبور اور بے بس ہے اور کاکا مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے، تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ قلعے سے نکل گیا ۔
کاکا اسے رخصت کر کے قلعے کے دیوار پر چڑھ گیا اور اس طرف دیکھنے لگا جس طرف سے محمد بن قاسم کی فوج کی آمد کی توقع تھی، اسے دور دورتک گرد اڑتی نظر نہ آئی وہ و دیوار پر ٹہلتا رہا۔
کچھ دیر بعد اسے دور سے پانچ گھوڑسوار آتے نظر آئے وہ دیوار پر کھڑا دیکھتا رہا وہ قلعے کے صدر دروازے کے اوپر کھڑا تھا۔ سوار قریب آئے تو اسے ان کے لباس اجنبی سے لگے، اسے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ عرب سوار ہیں، سوار دروازے کے سامنے آ کر رک گئے۔
پیشتر اس کے کہ دروازے کے پہرے داروں کا کماندار باہر نکل کر ان سے پوچھتا کہ وہ کیوں آئے ہیں ،اوپر سے کاکا نے ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟،،،، اور کیوں آئے ہیں۔ نباۃ بن حنظلہ کے ایک محافظ نے جو اس خطے کی زبان بھی سمجھتا اور بولتا تھا بتایا کہ اس سے کیا پوچھا گیا ہے۔
میں عرب کی فوج کے سپہ سالار محمد بن قاسم کا ایلچی ہوں۔۔۔ نباۃ بن حنظلہ نے کہا۔ تمہارا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟،،، کاکا نے پوچھا۔
دوستی کا پیغام لایا ہوں۔۔۔ نباۃ نے کہا ۔۔۔یہ آپ کو بھی پسند نہ ہو گا کہ انسانوں کا خون انسانوں کے ہاتھوں بہ جائے، ایک معصوم لڑکی کی گردن کاٹ کر آپ نے کیا حاصل کرلیا ہے۔
کا کا تو پہلے ہی دوستی کے لئے تیار تھا اور سوچ رہا تھا کہ وہ محمد بن قاسم تک کس طرح پہنچے ،اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ محمد بن قاسم دوستی قبول کرے گا یا نہیں ،اگر کرے گا تو اس کی شرائط قابل قبول ہوگی یا نہیں، وہ دوڑتا ہوا نیچے آیا اور قلعے کا دروازہ کھلوا کر باہر گیا اس نے نباۃ بن حنظلہ کا استقبال خندہ پیشانی سے کیا۔
اگر میں آپ کی فوج کے لیے شہر کے دروازے کھول دو تو آپ کا رویہ کیا ہو گا ؟۔۔۔ کاکا نے پوچھا۔۔۔ آپ کی شرائط کیا ہوگی؟ نباۃ نے اسے وہ شرائط بتائیں جو محمد بن قاسم نے اسے بتائی تھی۔
کاکا نے حیرت زدہ ہو کر ان شرائط کو قبول کرلیا اسے جیسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی طاقتور حملہ آور اس قسم کی شرائط پیش کرسکتا ہے۔
کیا آپ ہمارے سالار سے ملنے کے لیے میرے ساتھ چلنا پسند کریں گے ؟،،،،،نباۃ نے پوچھا۔۔۔ میں نے ایک اور شرط ابھی نہیں بتائی، آپ کو بجے رائے اپنے تمام خاندان سمیت ہمارے حوالے کرنا ہو گا۔
آپ دیر سے پہنچے ہیں۔۔۔ کاکا نے کہا۔۔۔ وہ مجھے آپ کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کررہا تھا لیکن میں اس کی بات نہیں مان رہا تھا ،اس نے جب میرا یہ فیصلہ دیکھا تو وہ آپ کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کے لئے اپنے خاندان کے بچے بچے کو ساتھ لے کر بہت دیر ہوئی نکل گیا ہے ،،،،،،،،،،،میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ کاکا بیش قیمت تحائف لے کر جو اونٹوں پر لدے ہوئے تھے نباۃ بن حنظہ کے ساتھ محمد بن قاسم سے ملنے جا رہا تھا۔
محمد بن قاسم اپنی فوج کے ساتھ ادھر ہی آ رہا تھا ان کی ملاقات راستے میں ہوئی کاکا نے محمد بن قاسم کو اطاعت اور ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا، اور محمد بن قاسم نے اسے یقین دلایا کہ وہ اس کی اور اس کے خاندان کی ہی نہیں بلکہ اس کے عوام کے جان و مال کی بھی حفاظت کا ذمہ دار ہوگا،
محمد بن قاسم کا کا کے ساتھ سیسم کے قلعے میں داخل ہوا۔
تحفۃ الکرام " میں مذکور ہے کہ محمد بن قاسم نے کاکا سے پوچھا کہ اس ملک میں جس کی بہت زیادہ عزت افزائی کی جاتی ہے اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
اس خطے میں کرسی کو بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔۔۔ کاکا نے کہا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ایک ریشمی کپڑا دیا جاتا ہے، جو وہ شخص اپنے سر پر لپیٹ لیتا ہے۔
محمد بن قاسم نے باقاعدہ ایک تقریب میں کاکا کو اپنے برابر ایک کرسی پر بٹھایا اور بیش قیمت ریشمی کپڑے لے کر اس کے سر پر لپیٹ دیا، وہاں کے لوگوں پر اس تقریب کا اتنا اچھا اثر پڑا کہ وہ دلی طور پر مسلمانوں کو پسند کرنے لگے۔
یہاں مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
دونے نے لکھا ہے کہ کاکا بجے رائے کو قلعے میں چھوڑ کر محمد بن قاسم سے ملنے کے لئے چلا گیا تھا، اور نباۃ بن حنظلہ اسے راستے میں ملا تھا جو اسے محمد بن قاسم کے پاس لے گیا تھا، اور اس نے اطاعت قبول کر لی تھی، اور محمد بن قاسم جب سیسم گیا تو شہر کے دروازے بند تھے، اور بجے رائے مقابلے کے لیے تیار تھا، دو دن لڑائی ہوتی رہی ،آخر بجے رائے مارا گیا اور قلعہ فتح ہوگیا۔
ایک اور روایت بہت حد تک قابل یقین معلوم ہوتی ہے کہ کاکا نے محمد بن قاسم کی اطاعت بغیر لڑے قبول کر لی تھی لیکن اردگرد کے علاقے میں جو علاقہ بدھیہ کہلاتا تھا بغاوت بھڑک اٹھی تھی، اس بغاوت کے پیچھے بجے رائے کا ہاتھ تھا یہ علاقہ کاکا کے زیر نگیں تھا ،اس میں اپنے آدمیوں کو بھیج کر باغیوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن باغی تعداد میں بھی اور تخریبی سرگرمیوں میں بھی بڑھتے گئے کاکا نے آخر محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ باغیوں کی سرکوبی کا جو طریقہ بہتر سمجھتا ہے وہ طریقہ اختیار کرے۔
محمد بن قاسم نے اپنے ایک نائب سالار عبدالملک بن قیس کو فوج کی کچھ نفری دے کر حکم دیا کہ وہ باغیوں کی بستیوں پر حملے کرے قتل کرے آگ لگائے اور جو کاروائی بہتر سمجھتا ہے کرے۔
باغی گروہ فوج کی بیرونی چوکیوں پر حملے کرتے اور لوگوں کے گھروں کو لوٹتے تھے۔ عبدالملک بن قیس نے باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے شروع کیے بعض مقامات پر باقاعدہ لڑائیاں لڑی گئیں اور ایسی ہی ایک لڑائی میں جب باغی اپنی بہت سی لاشیں چھوڑ کر بھاگے تو ان کے جو آدمی قیدی بنے تھے انہوں نے بتایا کہ ان لاشوں میں بجے رائے اور اس کے دو تین سرداروں کی لاشیں بھی ہونگی، لاشوں میں دیکھا گیا بجے رائے کی لاش مل گئی اس کے مرنے سے اور عبدالملک بن قیس کی زبردست اور تباہ کن کارروائیوں سے باغی دب گئے۔
باغیوں کے ٹھکانوں سے بڑا قیمتی مال غنیمت ہاتھ لگا اس میں چاندی اور سونے کی افراط تھی ،کپڑا اور اناج تو بے حساب تھا، قیدیوں سے پتہ چلا کہ یہ بجے رائے کا بندوبست تھا جو اس نے تھوڑے سے عرصے میں کر لیا تھا۔ وہ باغیوں کی تعداد بڑھاتا چلا جا رہا تھا اگر محمد بن قاسم بروقت سرکوبی کی مہم شروع نہ کرتا تو وہ باغیوں کے نرغے میں آجاتا۔
مختلف قبائل کے جو سردار باغی ہوگئے تھے وہ محمد بن قاسم کے پاس عام معافی کی درخواست لے کر آ گئے انھیں اس شرط پر معاف کر دیا گیا کہ وہ ایک ہزار درہم سالانہ خراج ادا کیا کریں گے، انہوں نے یہ شرط قبول کر لی۔
محمد بن قاسم نے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ بصرہ روانہ کردیا اور حجاج کو سیسم کی فتح اور باغیوں کی سرکوبی کی تفصیلات لکھیں۔
سیسم کے لئے محمد بن قاسم نے دو حاکم مقرر کیے ایک کا نام عبد الملک بن قیس اور دوسرے کا نام حمید بن وداع نجدی تھا دونوں آل جارود سے تعلق رکھتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم اگلی پیش قدمی کی تیاری کررہا تھا کہ حجاج کا خط آ گیا جس میں اس علاقے بدھیہ کی فتح پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا ،حجاج نے اس خط میں یہ حکم بھیجا کہ اب آگے بڑھنے کا ارادہ ملتوی کر دو اور نیرون واپس چلے آؤ، فوج کو آرام دو نفری اور سازوسامان کی کمی کو پورا کرو ،اور راجہ داہر کے مقابلے کے لیے نکلو، اسے میدان میں للکارو، اسے ایسی شکست دو کہ تمہارے قدموں میں آگرے، پھر اٹھنے کے قابل نہ رہے، تم جب اس راجہ کو تباہ کر لو گے تو تم پر ہندوستان کے دروازے کھل جائیں گے، تمہارے مقابلے میں کوئی نہ ٹھہر سکے گا، نماز اور دعا کونہ بھولنا تم نے عبادت تلاوت قرآن اور دعا کے کرشمے دیکھ لئے ہیں اللہ تمہارے ساتھ ہے۔
یہ خط ملتے ہی محمد بن قاسم سیسم کا بندوبست اپنے حاکموں کے سپرد کرکے نیرون کو روانہ ہوگیا اس نے سیسم میں فوج کا کچھ حصہ چھوڑا اور باقی فوج کو اپنے ساتھ لایا تھا۔ وہ سیوستان میں رک گیا وہ وہاں سے روانہ ہونے ہی والا تھا کہ چنہ قوم کے بہت سے آدمی اس کے پاس آئے انہوں نے بتایا کہ وہ دونوں جاسوس جو دو لڑکیوں کو ساتھ لائے تھے اور اب اسلام قبول کرچکے تھے، اپنی ذات کے سرداروں سے ملے اور انہیں بتایا کہ مسلمان کیا ہیں اور اسلام کیا ہے، وہ مسلمانوں کی نماز اور ان کے حسن سلوک سے اتنے متاثر ہوئے تھے کہ جہاں جاتے اسی کا ذکر کرتے تھے۔
چنہ قوم کے لوگ دیکھ چکے تھے کہ مسلمان مفتوح علاقوں کے لوگوں کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرتے ہیں انہوں نے ان دونوں آدمیوں سے مزید بات سنی تو وہ اتنے زیادہ متاثر ہوئے کہ ان میں سے بہت سے آدمی سیوستان میں پہنچ گئے اور محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ انھیں مسلمان بنا لے۔
یہ لوگ اپنے ساتھ بہت سے تحفے لائے تھے جو انہوں نے محمد بن قاسم کو دیئے، محمد بن قاسم نے انہیں حلقہ بگوش اسلام کرلیا ۔
وہ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا دسترخوان بچھایا گیا اور ان تمام آدمیوں کو محمد بن قاسم نے کھانے پر بٹھا لیا۔
اس موقع پر محمد بن قاسم نے کہا کہ یہ چنہ قوم مرزوق ہے، یعنی یہ رزق سے کبھی محروم نہیں رہیں گے، اللہ انہیں ہرجگہ رزق پہنچاتا رہے گا ۔
یہیں سے چنا قوم مرزوق کے نام سے مشہور ہو گئی، محمد بن قاسم نیرون کو روانہ ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>