⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴اُنیسویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شہر میں کئی مکان خالی پڑے ہیں یہ ان ہندوؤں کے مکان ہیں جو یہاں سے بھاگ گئے ہیں۔
مسافروں نے جھک کر شکریہ ادا کیا اور اندر چلے گئے۔
اس وقت قلعے کی دیوار پر ایک سپاہی مغرب کی اذان دے رہا تھا، اسکی آواز سریلی تو تھی لیکن اس آواز میں کچھ ایسا تاثر بھی تھا کہ یہ مسافر روک کر اسے دیکھنے لگے، انہوں نے پہلی بار اذان سنی تھی انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ مسلمانوں کی فوج میدان میں اکٹھی ہو رہی تھی اور سپاہی صفیں باندھ رہے تھے، یہ مسافر وہاں سے دور ہٹ گئے اور دیکھنے لگے کہ یہ مسلمان کیا کرنے والے ہیں ؟،،،،،انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ جب اذان ہو رہی تھی تو اتنی زیادہ فوج میں سے کوئی ذرا سی آواز بھی نہیں اٹھی تھی، جونہی اذان ختم ہوئی فوجیوں کی آوازیں سنائی دینے لگی وہ صفیں سیدھی کر رہے تھے، پھر صفیں سیدھی ہو گئی اور ایک آدمی ان کے آگے کھڑا ہوگیا ،اس کا منہ بھی اسی طرف تھا جس طرف ہر کسی کامنہ تھا۔
یہ ایک مشہور واقعہ ہے جو متعدد مورخوں نے لکھا ہے ،اور تاریخ معصومی میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
مسلمان فوج مغرب کی نماز باجماعت پڑھ رہی تھی اس وقت کے دستور کے مطابق محمد بن قاسم امامت کے فرائض انجام دے رہا تھا ،محمد بن قاسم کی آواز میں بھی ایک خاص قسم کی سوز تھا اور یہ آواز بڑی جاندار تھی، اس نے جب قرات کی تو یہ مسافر اور زیادہ متاثر ہوئے اور مسلمانوں کی اس جماعت کو رکوع اور سجود کرتے انہماک سے دیکھتے رہے، ان کے انداز سے پتہ چلتا تھا جیسے وہ اپنی بپتا اور سفر کی صعوبتوں کو بھول گئے ہوں۔
انہوں نے اونٹنیوں کو وہیں بٹھا دیا اور عورتیں اتر آئی تھیں، دونوں لڑکیاں محمد بن قاسم کو دیکھ رہی تھیں۔
یہ تو بچہ سا ہے ۔۔۔بوڑھی عورت نے کہا ۔۔۔۔
اور دیکھو کتنا پیارا ہے۔
دونوں لڑکیاں دور سے محمد بن قاسم کو اس طرح دیکھ رہی تھیں جیسے ان کی نظریں اس نوجوان سالار کے وجود کے ساتھ چپک گئی ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نماز ہوچکی فوج وہاں سے جانے لگی محمد بن قاسم وہیں کھڑا تھا، بعض سپاہی عقیدت مندی سے اس سے ہاتھ ملاتے اور وہاں سے ہٹ جاتے تھے، اس طرح ہجوم کم ہوتے ہوتے اتنا سا رہ گیا کہ محمد بن قاسم تھا ،دو تین سالار تھے اور شعبان ثقفیی کے علاوہ تین چار محافظ تھے۔
دونوں مسافر آگے بڑھے، آگے انھیں نیرون کا ایک نومسلم مل گیا جس سے انہوں نے پوچھا کہ مسلمانوں نے یہ کیا کیا ہے؟
انھیں بتایا گیا کہ انہوں نے عبادت کی ہے۔
اور یہ کون ہے جو سب سے آگے کھڑا تھا؟
یہ ہمارا سپہ سالار ہے ۔۔۔مسلمان نے جواب دیا ۔۔۔جس طرح تم اپنی فوج کے سالار کو فوج کا حاکم کہتے ہو عبادت کے وقت یہ ہمارا امام ہوتا ہے۔
کیا ہم اسے مل سکتے ہیں۔۔۔ ایک مسافر نے پوچھا اور کہا ۔۔۔ہم بڑی دور سے آپ کے سالار کی اور آپ سب کی تعریف سن کر آئے ہیں۔
آگے چلے جاؤ۔۔۔ مسلمان فوجی نے کہا ۔۔۔وہاں تمہیں پتہ چلے گا کہ ہمارے سالار سے مل سکو گے یا نہیں؟
وہ اس طرف چل پڑے جہاں محمد بن قاسم کھڑا تھا ،دونوں لڑکیاں اور ان کی ماں بھی ان کے ساتھ ساتھ جا رہی تھیں، محمد بن قاسم نے انہیں دیکھا تو آہستہ آہستہ ان کی طرف چل پڑا دونوں مسافر اس تک پہنچے گھٹنے زمین پر ٹیک کر انہوں نے ہاتھ جوڑے اور اتنا جھک گئے جیسے سجدے میں جا رہے ہوں ،دونوں لڑکیوں نے محمد بن قاسم کے قریب جاکر اور ان آدمیوں کی طرح دو زانو ہو کر محمد بن قاسم کی عبا پکڑی اور اسے چوما۔
ان سے پوچھو یہ کیا چاہتی ہیں؟،،،،، محمد بن قاسم نے اپنے ترجمان سے کہا ۔
ترجمان نے ان سے ان کی زبان میں پوچھا تو ان مسافروں نے وہی کہانی سنائی جو انہوں نے قلعے کے دروازے پر پہرے داروں کے کماندار کو سنائی تھی، دونوں لڑکیوں نے گھونگھٹ اٹھائے تو سب نے دیکھا کہ وہ بہت ہی خوبصورت تھیں، انہوں نے ترجمان کی طرف دیکھا اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے،،،،،اپنے راجہ سے کہو کہ ہمیں اپنے محل میں نوکری دے دے۔۔۔ لڑکیوں نے التجا کی ہم یہیں محفوظ رہ سکتی ہیں ۔
چونکہ محمد بن قاسم وہاں موجود تھا اس لئے کوئی اور آدمی اس کی نمائندگی میں جواب نہیں دے سکتا تھا ترجمان نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ لڑکیاں کیا درخواست کر رہی ہیں، ان لڑکیوں نے جو الفاظ کہے تھے ترجمان نے وہی عربی زبان میں دہرائے ۔
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔
شہنشاہیت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی سے کہا۔۔۔ یہ غریب لوگ سمجھتے ہیں کہ ان بادشاہوں کو خدا نے بادشاہوں کے روپ میں ہی زمین پر اتارا ہے، ہم ان لوگوں کو کیسے سمجھائیں کہ ساری دنیا کا شہنشاہ صرف ایک ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے،،،،،،، یہ مجھے بھی بادشاہ اور راجہ سمجھ رہے ہیں۔
اس نے ترجمان کی معرفت لڑکیوں سے کہا۔۔۔ ہم میں کوئی راجہ نہیں اور کوئی رعایا نہیں اور ہمارا کوئی محل بھی نہیں، ہم کسی عورت کو ملازم نہیں رکھا کرتے، ہماری زندگی میدان جنگ میں گزر جاتی ہے،
تم اپنے آدمیوں کے ساتھ سرائے میں چلی جاؤ وہاں تمہاری عزت محفوظ رہے گی اور تمہاری ہر ضرورت پوری ہو گی ۔
ہم آپ سے کچھ نہیں لینگے۔۔۔ ایک لڑکی نے کہا۔۔۔ ہم آپ کی خدمت کے لیے یہاں لونڈیاں بن کر رہنا چاہتی ہیں۔
کیوں ؟،،،،محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔ میں تمہارا راجہ یا دیوتا تو نہیں۔
آپ ہمارے دیوتاؤں سے زیادہ اونچے اور اعلی ہیں ۔۔۔لڑکی نے کہا۔۔۔ ہمارے اپنے مذہب کے لوگوں کی نیت ہم پر خراب رہتی ہے ہمارے پنڈت جو دیوتاؤں کے ایلچی بنے ہوئے ہیں ہماری عزت کے ساتھ کھیلنے سے باز نہیں آتے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم اپنی عزت بچانے کی خاطر آپ کے پاس آ گئی ہیں، ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کے سائے میں عورتوں کی عزت و آبرو محفوظ رہتی ہے۔
محمد بن قاسم انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ کسی عورت کو یا کم از کم ان جیسی خوبصورت لڑکیوں کو اپنے ہاں ملازم نہیں رکھے گا ۔ لیکن دونوں لڑکیاں ضد کرتی رہیں کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں ،،،،وہ کہتی تھیں کہ محمد بن قاسم دیوتا ہے اور وہ اس کی پوجا کرنا چاہتی ہیں۔ لڑکیاں بارہا کبھی محمد بن قاسم کا ہاتھ پکڑ کر چومتی اور کبھی اس کی عبا کا دامن پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا لیتیں، ان کے ساتھ جو آدمی تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور کہنے لگے کہ محمد بن قاسم ان لڑکیوں کو اپنے پاس رکھ لے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شعبہ جاسوسی کا سربراہ شعبان ثقفی الگ کھڑا بڑی غور سے ان لڑکیوں کو ان کے ساتھ کے آدمیوں کو اور بوڑھی عورت کو دیکھ رہا تھا، ان سب کے لباس اس علاقے کے غریب کسانوں جیسے تھے۔
محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کی طرف دیکھا۔
شعبان ثقفی آگے بڑھا۔
میرے ساتھ آؤ۔۔۔ اس نے دونوں لڑکیوں کے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ میں نے ملازم رکھ لوں گا۔
لڑکیوں نے محمد بن قاسم کی طرف دیکھا تو اس نے مسکرا کر سر سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس کے ساتھ چلیں جائیں۔ شعبان ثقفی نے بوڑھی عورت اور دونوں آدمیوں سے کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلیں، اس طرح وہ ان سب کو اپنے ساتھ لے گیا۔
شام گہری ہوچکی تھی جگہ جگہ مشعلیں جل اٹھی تھیں، شعبان ثقفی انہیں ایک کمرے میں لے گیا لڑکی کو اپنے ساتھ رکھا اور باقی جو اس کے ساتھ تھے انھیں باہر بٹھا دیا اور دروازہ بند کرلیا ،کمرے میں دو تین دیے جل رہے تھے اس نے دونوں لڑکیوں کی اوڑھنیاں اتار دیں اور ان کے بالوں کو بڑی غور سے دیکھا، پھر دونوں کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کی انگلیاں دیکھی، بازو ننگے کرکے دیکھے پھر ان کے جوتے اتروائے اور پاؤں دیکھے۔
تم نے ٹھیک سنا ہے کہ مسلمان عورتوں کی عزت کا خیال رکھتے ہیں ۔۔۔شعبان ثقفی نے انہیں کہا۔۔۔ یہاں تمہاری عزت محفوظ رہے گی ،ہم تم جیسی عورتوں کو صرف قتل کیا کرتے ہیں، لیکن جس طریقے سے ہم قتل کرتے ہیں وہ بڑا ہی بھیانک ہے، اگر تم سچ بولو گی تو ایسی اذیت ناک موت سے بچ جاؤں گی، اور ہو سکتا ہے کہ جس طرح تم لوگ آئے ہو اسی طرح ہم تمہیں عزت سے رخصت کر دیں۔
دونوں لڑکیوں نے تڑپ تڑپ کر پوچھنا شروع کردیا کہ انہیں کس گناہ میں قتل کیا جائے گا، ان کا احتجاج کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ وہ شعبان ثقفی کے ساتھ لپٹ لپٹ جاتی تھیں، ان کا یہ انداز اشتعال انگیز تھا ،جسے شعبان ثقفی جیسا سراغ رساں اور جہاندیدہ آدمی ہی سمجھ سکتا تھا کہ اس انداز میں مظلومیت اور بے گناہی نہ ہونے کے برابر تھی، اس نے ان کے بال ہاتھوں پاؤں اور بازو ننگے کر کے دیکھے تھے، یہ ہاتھ اور پاؤں اور یہ بال کسان عورتوں کے نہیں تھے ،اور جس بے تکلفی سے ان لڑکیوں نے محمد بن قاسم کے ساتھ باتیں کی تھیں وہ پسماندہ اور جاھل کسان کی بیٹیوں والا نہیں تھا۔
وہ لوگ احمق ہیں جنہوں نے تمہیں یہاں بھیجا ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ تم کسی غریب اور محنت و مشقت کرنے والے کسان کی بیٹیاں لگتی بھی ہو یا نہیں ،،،،،،،،خود ہی بتا دو کہ تمہارا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟،،،، کیا ہمارے سالار کو زہر دینا ہے یا صرف جاسوسی کرنا ہے؟
بیشتر اس کے کے دونوں لڑکیاں اپنے ردعمل کا اظہار کرتیں شعبان ثقفی نے ان دونوں میں سے ایک کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا اور پھر اپنا بازو اس کی پیٹھ پیچھے کر کے اسے اپنے ساتھ یوں لگا لیا، جیسے وہ اس لڑکی کے حسن اور اتنے کشش جسم کا گرویدہ ہو گیا ہو ،اس نے لڑکی کے گال پر آہستہ سے تھپکی دی اور اسے اپنے بازو میں بھینچ لیا۔
بولو !،،،،،اس نے بڑے پیار سے لڑکی سے کہا۔۔۔ میں چاہوں تو تمہیں اور تمہارے ساتھ کی لڑکی کو بھی شہزادیاں بنا کر یہاں رکھ سکتا ہوں ،اور یہ بھی میرے ہاتھ میں ہے کہ تم دونوں کے ہاتھ باندھ کر گھوڑے کے پیچھے باندھ دوں اور گھوڑاسرپٹ دوڑا دوں۔
آپ کون ہیں؟،،،، لڑکی نے اس سے پوچھا ۔۔۔کیا آپ بھی سالار ہیں؟
یہاں سب کچھ میں ہوں ۔۔۔ثعبان ثقفی نے جواب دیا ۔۔۔میں جو پوچھ رہا ہوں تم اس کا جواب دو۔
لڑکی نے شعبان ثقفی کے بازو سے آزاد ہونے کی کوشش نہ کی بلکہ اپنا ایک بازو اس کی کمر میں ڈال دیا اور ایسا انداز اختیار کرلیا جیسے لڑکی نے اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیا ہو ۔ دوسری لڑکی کے ہونٹوں پر تبسم سا آ گیا۔
اچانک شعبان ثقفی نے اس لڑکی کو جھٹکے سے پرے ہٹا دیا اور دروازہ کھول کر دونوں آدمیوں کو اندر بلایا ،وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکیاں تربیت یافتہ بے حیا ہیں اور یہ یقینا جاسوس ہیں۔
کیا تم لوگوں میں عقل کی اتنی کمی ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے ان سے پوچھا۔۔۔ کیا تم عرب کے لوگوں کو کم عقل سمجھتے ہو ،یا تم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کے ہم یہاں کے لوگوں کے طور طریقے رہن سہن وغیرہ کو نہیں سمجھتے، میں ہاتھ اور پاؤں دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ اس آدمی کا پیشہ کیا ہے؟
اتنا کہہ کر اس نے جھپٹا مار کر ایک آدمی کا ہاتھ پکڑا اور اس ہاتھ کو الٹا سیدھا کرکے دیکھا، تمہارے پورے خاندان میں کسی نے کبھی کھیتی باڑی نہیں کی ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ اب اتنا بتا دو کہ فوج میں تمہارا عہدہ کیا ہے؟
اگر آپ ہمیں خود اندر نہ بلاتے تو ہم خود ہی اندر آنے والے تھے ۔۔۔دوسرے آدمی نے کہا۔۔۔ اب اگر ہم بات کریں گے تو آپ کہیں گے کہ ہم سزا سے بچنے کے لئے اعتراف کر رہے ہیں ، ہم دونوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اندر آکر آپ کو صاف بتا دیں کہ ہم بودھیر کے راجہ کاکا کے بھیجے ہوئے جاسوس ہیں ۔
ہمیں اس قلعے سے بھاگے ہوئے بجے رائے نے تیار کیا تھا۔۔۔۔ دوسرے آدمی نے کہا۔۔۔ یہ دونوں لڑکیاں بجے رائے کے اپنے خاندان کی ہیں۔
کیا بجے رائے یہاں سے بھاگ کر سیسم پہنچ گیا ہے؟،،،، شعبان صفی نے پوچھا ۔
ہاں!،،،،، اس آدمی نے جواب دیا ۔۔۔اسے راجہ کاکا نے پناہ دی ہے اور وہ دونوں آپ کے خلاف جنگی تیاریاں کر رہے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب محمد بن قاسم کی فوج سیوستان کے قلعے میں سرنگ لگا کر داخل ہوئی تھیں تو راجہ داہر کا بھتیجا بجے رائے جو یہاں کی فوج کا حاکم تھا اپنے خاندان کو ساتھ لے کر نکل بھاگا تھا ،محمد بن قاسم کا ارادہ یہ تھا کہ اس کا تعاقب کیا جائے ابھی اپنے جاسوس یہ نہیں بتا سکے تھے کہ بجے رائے کس طرف نکل گیا ہے، محمد بن قاسم کو اس علاقے اور راجہ داہر کی فوج کے متعلق جو اہم معلومات ملی تھی ان میں ایک یہ بھی تھی کہ داہر کی فوج کی زیادہ تر کمان اس کے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کے ہاتھ میں ہے، ان میں ایک جے سینا تھا جو اس کا اپنا بیٹا تھا ،اور دوسرا بجے رائے تھا جو سیوستان سے بھاگ گیا تھا ۔
محمد بن قاسم کی یہ کوشش تھی کہ ان دونوں کو گرفتار یا ہلاک کردیا جائے تو راجہ داہر کی فوج کافی کمزور ہو سکتی ہے، اس لیے وہ بجے رائے کے تعاقب کی سوچ رہا تھا۔
سیوستان سے آگے محمد بن قاسم کا ٹارگیٹ سیسم کا قلعہ تھا جو ریاست بودھیر کا پایہ تخت تھا وہاں کا راجہ کا کا تھا، جو بدھ مت کا پیروکار تھا، یہ ریاست کہنے کو تو آزاد تھی لیکن راجہ داہر نے اسے اپنے پاؤں کے نیچے رکھا ہوا تھا، اور کاکا کو یہ لالچ دے رکھا تھا کہ اس پر کسی دشمن نے حملہ کیا تو وہ اسے فوج کی مدد دے کر بچا لے گا۔
یہ بڑی اچھی اطلاعات تھیں جو ان جاسوسوں نے شعبان ثقفی کو دی تھی ،قیمتی اس لئے کہ محمد بن قاسم کو اطلاع ملی تھی کہ سیسم کوئی اتنا مضبوط قلعہ نہیں اس کے علاوہ وہ وہاں کا راجہ بدھ ہے، چونکہ بدھ خونریزی کو گناہ سمجھتے ہیں اس لئے محمد بن قاسم کو توقع تھی کہ جس طرح پہلے بدھ حاکم اس کی اطاعت قبول کرچکے تھے اسی طرح کا کا بھی اس کا استقبال دوستوں کی طرح کرے گا، لیکن ان جاسوسوں کے کہنے کے مطابق وہاں صورتحال بالکل مختلف تھی، سوچنے والی بات یہ تھی کہ یہ جاسوس کس حد تک سچ بول رہے تھے یہ دھوکہ بھی ہو سکتا تھا اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ انہیں اسی مقصد کے لئے بھیجا گیا ہو کہ سیوستان جا کر ایسی اداکاری کرو کہ تم پر جاسوسی کا شک کیا جائے اور فورا تسلیم کر لو کہ تم جاسوس ہو اور اپنی جان بچانے کے لئے یہ خبر دو کہ بجے رائے سیسم میں پناہ لیے ہوئے ہے اور راجہ کاکا کے ساتھ مل کر جوابی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمیں چھوڑ نہیں دیں گے۔۔۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک نے کہا۔۔۔ ہمارا جرم ہی کچھ ایسا ہے جس کا اعتراف کر کے ہم نے اپنی گردنیں آپ کی تلواروں کے نیچے رکھ دی ہیں ،ہم آپ کو یقین نہیں دلا سکتے کہ ہمارے اعراف کا جو باعث بنا ہے وہ کس حد تک سچ ہے۔
تم دونوں عقلمند آدمی معلوم ہوتے ہو ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اور میں تمہیں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ان آدمیوں میں سے ہو جو تم جیسے جاسوسوں کو تیار کیا کرتا ہے، تم جھوٹ بولو میں تمہیں بتا دوں گا کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ، کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اپنی جان بچانے کے سوا اور کیا وجہ ہے کہ تم نے اپنی اصلیت بے نقاب کردی ہے۔
ہم نے پہلی بار مسلمانوں کی عبادت دیکھی ہے۔۔۔ ایک نے کہا ۔۔۔اذان بھی پہلی بار سنی ہے، اس سے پہلے ہمیں زبانی بتایا گیا تھا کہ مسلمان اذان دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، لیکن یہ آواز پہلی بار سنی اور یہ نماز پہلی بار دیکھی، ہم آخر انسان ہیں ہم نے بدھوں کو عبادت کرتے دیکھا ہے، اپنے مندروں میں جا کر خود بھی عبادت کی ہے، ہم ہندو ہیں اور ہمارا تعلق چّنہ قوم سے ہے، ہماری عبادت میں وہ بات نہیں جو ہم نے آج آپ کی عبادت میں دیکھی ہے، ہم پر ایسا اثر ہوا ہے جو ہم شاید الفاظ میں بیان نہ کر سکیں۔
میں اتنی لمبی چوڑی داستان نہیں سنوں گا۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔مجھے صرف یہ بتاؤ کہ تمہارا یہاں آنے کا مقصد کیا تھا، اپنی مدح اور اپنے مذہب کی تعریفیں میرے دل کو موم نہیں کر سکے گی۔
ہمارا مقصد صرف یہ دیکھنا تھا کہ آپ یہاں سے کس طرف پیش قدمی کریں گے۔۔۔ جاسوس نے کہا۔۔۔ یہ بھی دیکھنا تھا کہ آپ کی فوج کی نفری کتنی ہے اور کس کیفیت میں ہے ،اور یہ بھی کہ آپ کو کمک اور رسد مل رہی ہے یا نہیں، اگر مل رہی ہے تو کس راستے سے آتی ہے۔
ان لڑکیوں کو ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ شعبان ثقفی نے پوچھا کیا تم دونوں آدمی یہ کام نہیں کر سکتے تھے؟
یہ معلومات حاصل کرنے کے لئے اونچے رتبے کے آدمیوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا تھا۔۔۔ اس نے جواب دیا۔۔۔ اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں کا سالار نوجوان آدمی ہے اور وہ لڑکیوں کے جال میں آ جائے گا، لیکن لڑکیوں کے جال میں آنے والے سوچا نہیں کرتے، دیر نہیں کیا کرتے، ہم نے وہیں باہر دیکھ لیا تھا کہ آپ کے سالار کو ان لڑکیوں کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں۔
اسے لڑکیوں کے ساتھ دلچسپی ہو کیسے سکتی ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ ہماراسالار ہی نہیں ہمارا امام بھی ہے، اگر سالار بدکار ہو تو فوج پر کچھ اثر نہیں ہوتا، لیکن امام گنہگار ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی نماز قبول نہیں ہوتی، اور اللہ کے حضور امام جوابدہ ہو گا،،،،،،،،،،لیکن تم نہیں سمجھو گے کہ میں کیا کہہ رہا ہو تم اپنی بات کرو،،،،،،،،،،،،، ہم پہلے بھی تمہارے راجہ داہر کو اس کی بھیجی ہوئی انہی جیسی لڑکیوں کو اس کے پاس اس پیغام کے ساتھ واپس بھیج چکی ہیں، کہ وہ ہم سے اپنے آپ کو اپنے ملک کو اور اپنے باطل عقیدے کو حسین اور آبرو باختہ لڑکیوں کے ذریعے نہیں بچاسکے گا ،اب اس کے بھتیجے نے اپنے خاندان کی دو لڑکیوں کو ڈھال بنا یا ہے۔
ہم آپ سے رحم کی التجا نہیں کریں گے۔۔۔ ایک جاسوس نے کہا۔۔۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہماری طرف سے ایک پیغام راجہ کاکا اور بجے رائے کو پہنچ جائے، ہم انہیں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم اس قوم کے مقابلے میں نہیں جم سکو گے جس کی عبادت اتحاد اور صف بندی کا سبق دیتی ہے، اور جو ایک امام کی پیروی میں جھکتی سجدے کرتی اور اٹھتی ہے۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ ہندوؤں کی یہ جاسوس مسلمان فوج کی باجماعت نماز سے اتنے متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ واپس چلے جائیں گے اور اپنے حاکموں سے کہیں گے کہ وہ مسلمانوں کی فتح کا راز لے آئے ہیں، اور وہ راز ان کا نظم و نسق اور ایک امام کی پیروی ہے۔
ان جاسوسوں نے مسلمانوں کی فتح کا دوسرا راز یہ پایا تھا کہ ان کا سالار جو نوجوانی کے عالم میں تھا اتنی حسین لڑکیوں کو ٹھکرا رہا تھا۔
شعبان ثقفی اس جاسوس گروہ پر سنتری کھڑے کرکے محمد بن قاسم کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ یہ جاسوسوں کا ٹولہ ہے، اس ٹولے کے ساتھ جو باتیں ہوئی تھی اس نے وہ بھی محمد بن قاسم کو سنائیں، قلعے کے بڑے دروازے کے پہرے داروں سے تصدیق کرائی گئی کے یہ جاسوس اسی شام قلعے میں داخل ہوئے تھے اور یہ اس سے پہلے یہاں نہیں تھے۔
محمد بن قاسم نے کہا کہ انھیں قلعے سے نکال دیا جائے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمد بن قاسم کسی کی جان بخشی نہیں کیا کرتا دشمن کے لئے وہ سراپا قہر تھا، لیکن اس نے کچھ سوچ کر ان جاسوسوں کی جان بخشی کردی۔
ہمارے سپہ سالار نے حکم دیا ہے کہ تمہیں زندہ سلامت واپس بھیج دیا جائے۔۔۔ شعبان ثقفی نے واپس آکر ان جاسوسوں سے کہا۔۔۔ بجے رائے اور راجہ کاکا سے کہنا کہ بہت جلد ان سے ہماری ملاقات ہوگی، ہم انہیں منجنیقوں کے پتھروں سے اور تیروں سے قلعے کے اندر اپنا سلام پہنچائیں گے۔
آدھی رات کا وقت تھا جب قلعے کا دروازہ کھول کر اس ٹولے کو باہر نکال دیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بتایا جا چکا ہے کہ بجے رائے سیوستان سے بھاگ کر سیسم کے قلعے میں راجہ کاکا کے پاس چلا گیا تھ،ا اس نے کا کا کو بتایا کہ مسلمانوں کا لشکر سیلاب کی مانند آرہا ہے، اور کا کا اپنے دفاع کی تیاری کرلے۔
تم جانتے ہو ہم بدھ ہیں۔۔۔ راجہ کاکا نے کہا۔۔۔ ہم محبت کے پجاری ہیں کسی کے خون کے پیاسے نہیں۔
لیکن مسلمان ہر اس انسان کے خون کے پیاسے ہیں جو مسلمان نہیں۔۔۔ بجے رائے نے کہا ۔۔۔میں جانتا ہوں تم اور کیا کہو گے میں تمہیں کچھ اور کہنے کی مہلت نہیں دوں گا، بدھوں کی وجہ سے پورا ملک ہاتھوں سے جا رہا ہے، نیرون جیسا شہر سندر نے مسلمانوں کے حوالے کردیا ہے ،موج کے بدھوں نے ہمارے ساتھ بےوفائی کی ہے اور ان کی غداری سے سیوستان مسلمانوں کے پاس چلا گیا، اب تم انہی جیسی باتیں کرنے لگے ہو ،تم اپنے مذہب کو بہانہ بنا کر بزدل ہو گئے ہو ،جن مسلمانوں کے آگے تم ہتھیار ڈالنے اور دوستی کا معاہدہ کرتے ہو وہ تمہاری جوان بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہیں۔
ایسا نہیں ہوتا بجے رائے!،،،، کا کا نے بھڑک کر کہا۔۔۔نیرون میں تم نے نہیں دیکھا میں معلوم کر چکا ہوں۔
مسلمان نہیں تو ہم تمہاری بیٹیوں کے ساتھ رنگ رلیاں منائیں گے۔۔۔ بجے رائے نے کہا۔۔۔ کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارا راج داہر کے رحم و کرم پر ہے، اگر تم نے بھی ہمیں دھوکہ دیا تو ہم تمہارے خاندان کے بچے بچے کو ختم کردیں گے، میرا ساتھ دو مجھے سیوستان کی شکشت کا بدلہ لینا ہے، تم نہیں جانتے راجہ داہر کو مجھ پر کتنا بھروسہ ہے ۔
پھر بتاؤ میں کیا کروں ۔۔۔کاکا نے پوچھا؟
اپنی نیت بدل لو۔۔۔ بجے رائے نے کہا۔۔۔ چنہ قوم تمہاری رعایا ہے اور یہ جنگجو قوم ہے، اس کے جوان آدمیوں کی مجھے ایک فوج بنا کر دو۔
کاکا دبک گیا اس نے اپنی نیت بدل لی اور وہ بجے رائے کے ساتھ محمد بن قاسم کی پیش قدمی اور جنگی چالوں کی باتیں کرنے لگا پھر دونوں محمد بن قاسم کو شکست دینے کا منصوبہ تیار کرنے لگے۔
یہ کیسے پتہ چلے گا کہ محمد بن قاسم ادھر ہی آئے گا ۔۔۔بجے رائے نے کہا۔۔۔ میں یہ فرض کرکے کہ مسلمان ادھر ہی آئیں گے قلعے میں محصور ہوکر نہیں لڑنا چاہتا، راجہ داہر کا حکم ہے کہ قلعہ بند ہو کر لڑو اس طرح ہم قلعے پر قلعے مسلمانوں کو دیتے چلے جارہے ہیں، میں میدان میں ان سے لڑوں گا سیوستان کی شکست نے مجھے کہیں کا نہیں رہنے دیا ،لیکن یہ کیسے پتہ چلے گا کہ سیوستان سے مسلمان کس طرف جائیں گے۔
ہم اپنے جاسوس بھیجیں گے۔۔۔ کاکا نے کہا۔۔۔ میرے پاس کوئی ایسی لڑکی نہیں جو جاسوسی کے لیے جا سکے، ایک دو بڑی ہی خوبصورت لڑکیوں کی ضرورت ہے ۔
لڑکیاں مجھ سے لو۔۔۔ بجے رائے نے کہا۔۔۔ میرے خاندان میں بڑی خوبصورت اور ہوشیار لڑکیاں ہیں۔
اس نے اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ بات کی تو یہ دو لڑکیاں بخوشی جاسوسی کے لئے تیار ہو گئیں، کاکا نے انہیں بتایا کہ سیوستان میں جاکر کیا کرنا اور کس طرح کرنا ہے ،کاکا کو معلوم نہ تھا کہ جس کام کے لیے وہ ان لڑکیوں کو بھیج رہا ہے وہ اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھتا تھا، اسے غالبا یہ توقع تھی کہ جس طرح راجہ مہاراج اور بادشاہ کسی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر فورا اسے محل کی زینت بنا لیتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی لڑکیوں کو دیکھتے ہی اپنے دین اور مذہب کو بھول جائے گے اور لڑکیاں اس کے سینے سے تمام راز نکال لیں گی۔
کاکا اپنی دنیا میں جو دیکھ رہا تھا اس کے مطابق اس کی سوچ یہی ہونی چاہیے تھی، وہ جانتا تھا کہ مندروں میں پنڈی، رشی اور مہارشی بھی خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو عیش و عشرت کے لئے اکٹھا کیے رکھتے ہیں، اور اس بدکاری پر وہ مذہب کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں، کاکا کی سوچ غالبا یہ بھی تھی کہ وطن سے اتنی دور آ کر مسلسل لڑتے رہنے والوں کو عورت کی تشنگی زیادہ محسوس ہوتی ہے، انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے، تاریخ بھی یہی قصے سناتی ہے کہ فاتح بادشاہ مفتوحہ شہر میں سب سے پہلا جو تحفہ مانگتے تھے وہ مفتوح شہر کی انتہائی خوبصورت لڑکیاں ہوتی تھیں، فاتح بادشاہ کی فوج بھی مفتوحہ شہر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے شہر کی عورتوں پر ہلہ بولتی تھی۔
کاکا نے جو سوچا تھا وہ ٹھیک سوچا تھا لیکن اس کی سوچ نے اسے یوں دھوکا دیا کہ وہ جان نہ سکا کہ محمد بن قاسم کوئی دنیاوی ہوس لے کر نہیں آیا اور اس کی زندگی کا مقصد یہ نہیں کہ وہ فاتح کہلائے اور مفتوح لوگ اس کے آگے سجدے کریں۔
انہوں نے جس بوڑھی عورت کو ان لڑکیوں کے ساتھ بھیجا تھا وہ بجے رائے کے خاندان کی پرانی ملازمہ تھی اور انتہائی چالاک اور عیار تھی وہ تو اس خاندان کے افراد کو بھی انگلیوں پر نچاتی تھی ،جو دو آدمی جاسوسی کے لئے ان کے ساتھ بھیجے گئے تھے وہ فوج کے عہدے دار تھے اور وہ تیغ زنی ،نیزا بازی اور گھوڑ سواری کے ماہر تھے، وہ عقلمند تو تھے لیکن ان میں وہ عقل نہیں تھی جو جاسوسوں میں ہونی چاہیے تھی، جاسوس کو تو اپنے جذبات کو مارنا پڑتا ہے لیکن یہ سیوستان گئے تو مسلمانوں کو با جماعت نماز پڑھتے دیکھ کر ہی موم ہوگئے پھر انہوں نے فوراً ہی اپنی اصلیت بے نقاب کر دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اور ایک روز بعد ان کے بھیجے ہوئے جاسوسوں کا یہ ٹولہ واپس آ گیا بجے رائے اور راجہ کاکا نے خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا، انھوں نے حیران ساہو کے پوچھا کہ لڑکیوں کو کیوں واپس لے آئے ہو؟
ان جاسوسوں کے ساتھ جو بیتی تھی وہ انہوں نے سنا ڈالی۔ بجے رائے اور کاکا کے منہ لٹک گئے، انہوں نے دونوں آدمیوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا تم دونوں کو جلاد کے حوالے کردیا جائے تو یہی بہتر ہوگا۔۔۔ بجے رائے نے کہا۔
انہیں ہاتھ پاؤں باندھ کر دور ریگستان میں پھینک دیا جائے۔۔۔ کاکا نے کہا۔۔۔ یہ بھوکے اور پیاسے تڑپ تڑپ کر مر جائیں تو یہ سزا بھی ان کے لئے تھوڑی ہو گی، ہم نے انہیں بھیجا کس لیے تھا اور یہ کر کے کیا آئے ہیں۔
ہم آپ کے لئے ایک بڑا ہی قیمتی راز لائے ہیں۔۔۔ ان دونوں میں سے ایک آدمی نے کہا۔۔۔ راز یہ ہے کہ آپ اس قوم کو شکست نہیں دے سکتے، ہم نے انہیں جس طرح عبادت کرتے دیکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی صفوں میں کہیں بھی شگاف پیدا نہیں ہو سکتا ،ہم نے وہاں کی غیر مسلم آبادی کو پرسکون اور خوش باش زندگی گزارتے دیکھا ہے۔
انھوں نے مسلمانوں کی باجماعت نماز سے جو تاثر لیا تھا وہ بیان کیا۔
دونوں لڑکیوں پر خاموشی طاری تھی صاف پتہ چلتا تھا کہ ان کے چہروں پر جو اداسی اور مایوسی سی چھائی ہوئی ہے وہ اس لئے نہیں کہ وہ اپنی مہم میں ناکام رہی ہیں، بلکہ انہیں افسوس ہو رہا تھا کہ انھیں سیوستان سے بڑی جلدی نکال دیا گیا تھا، وہ بھی کچھ ایسا ہی تاثر لے کر آئی تھیں جیسا ان کے ساتھی مرد لائے تھے۔
اگر آپ ان مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہیں تو اپنی فوج میں وہی اخلاق اور اتحاد پیدا کریں جو ہم مسلمانوں میں دیکھ آئے ہیں۔۔۔ ایک آدمی نے کہا۔۔۔ یا کوئی اور طریقہ اختیار کریں، ہم دونوں کو کوئی اور ایسا کام دے دیں جو کوئی اور نہ کر سکے اور جس میں جان ضائع ہونے کا خطرہ ہو ،ہم وہ کام کرکے دکھائیں گے۔
تاریخی حوالوں سے پتا نہیں چلتا کہ ان دو آدمیوں کو کسی خطرناک مہم پر پھر کبھی بھیجا گیا تھا یا نہیں ،لیکن بجے رائے اور کاکا نے محمد بن قاسم کو شکست دینے کا ایک اور طریقہ سوچ لیا جو یہ تھا کہ محمد بن قاسم سیوستان سے سیسم کی طرف پیش قدمی کرے تو راستے میں کسی پڑاؤ پر شب خون مارا جائے انہوں نے ایک اسکیم تیار کرلی، کاکا جو مذہبی لحاظ سے بدھ تھا، ذات کا چنہ تھا ، اس نے اسی روز حکم دے دیا کہ چنہ قوم میں سے ایک ہزار انتہائی دلیر اور شہسوار جوان آدمی ان کے سامنے لائے جائیں۔
دو تین دنوں میں چنہ قوم کے ایک ہزار منتخب شہسوار سیسم کے قلعے میں آگئے، کاکا نے یہ آدمی بجے رائے کے سپرد کر کے اسے کہا کہ انہیں وہ مسلمانوں کے پڑاؤ پر شب خون مارنے کے لئے تیار کرے، اس کا مطلب یہ تھا کہ انھیں باہر لے جا کر عملی ٹریننگ دی جائے۔
اسی روز سے ان ایک ہزار آدمیوں کی ٹریننگ شروع ہوگئی بجے رائے خود انہیں باہر لے جاتا اور کہیں فرضی مسلمانوں کے پڑاؤ کا نشان لگا کر سواروں کو بتاتا کہ حملہ کس طرح کرنا ہے ،وہ انہیں یہ سبق دیتا تھا کہ ایک جگہ رک کر اور جم کر نہیں لڑنا بلکہ ہلہ بول کر اور ضرب لگا کر آگے نکل جانا ہے اور دور سے گھوم کر پھر ہلا بولنا ہے، اس طرح کئی روز ان کی ٹریننگ ہوتی رہی۔
محمد بن قاسم نے سیوستان سے کوچ کیا وہ سیسم کی طرف جا رہا تھا اس نے اپنے سالاروں سے کہا کہ پیش قدمی بہت تیز ہوگی، جاسوسوں نے اسے بتایا تھا کہ راستے میں چند ایک قلعے ہیں جنہیں سر کرنا ضروری ہے ،مقامی گائیڈ ساتھ تھے۔
تاریخ اسلام کے اس کمسن اور عظیم فاتح سالار کی داستان شجاعت سنانے میں یہ دشواری قدم قدم پر سامنے آتی ہے کہ اس وقت کی کئی چھوٹی بڑی بستیوں کے آج نشان ہی نہیں ملتے، ان میں ایک دو شہر بھی تھے ان کے کھنڈر بھی کہیں نظر نہیں آتے، کوئی ایسا ریکارڈ بھی نہیں جس سے ان بستیوں اور شہروں کے درمیانی فاصلے معلوم ہو سکے، تاریخوں میں ان بستیوں کے صرف نام ملتے ہیں باقی سب قیاس آرائیاں ہیں کہ فلاں بستی غالباً وہی ہے جس کا آج یہ نام ہے۔ حیدرآباد اور روہڑی کے متعلق تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ شہر اس دور میں نیرون اور اروڑ کہلاتے تھے، لیکن بہت سے مقامات وقت اور زمانے کی ریت میں دب کر نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔
سیوستان کے متعلق تو یقین ہو چکا ہے کہ یہ آج کا سہون شریف ہے، لیکن سیسم کے متعلق کچھ بھی وثوق سے نہیں بتایا جا سکتا کہ یہ مقام آج بھی موجود ہے یا نہیں ۔
ایک انگریز مورخ ہیگ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ سیسم وہی قصبہ ہے جو منچھر جھیل کے کنارے پر واقع ہے اور آج کل شاہ حسن کہلاتا ہے ،لیکن زیادہ تر مورخ لکھتے ہیں کہ قصبہ شاہ حسن محمد بن قاسم کے دور کے بہت بعد آباد ہوا تھا، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیسم منچھر جھیل کے کنارے پر ہی واقع تھا ،اس دور میں اس جھیل کو کنبھ بھی کہتے تھے۔
محمد بن قاسم کی یہ کیفیت تھی کہ گھوڑے پر سوار گھوڑے کو دوڑاتا پھر رہا تھا اس کے منہ سے یہی الفاظ باربار نکلتے تھے کہ بہت جلدی وقت نکل رہا ہے۔
اوپر دیکھو۔۔۔ محمد بن قاسم نے گھوڑا دوڑاتے ہوئے کئی بار کہا ۔۔۔سورج تم سے آگے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ بتانا ممکن نہیں کہ محمد بن قاسم نے راستے میں کتنے اور کہاں کہاں پڑاؤ کئے، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ راستے میں دو تین ایسے قلعہ بند مقام آ گئے تھے جنہیں سر کرنا ضروری تھا ایسے تمام قلعے سر کیے گئے اور ہر قلعے پر آٹھ آتھ دس دس دن لگ گئے فاصلہ بھی زیادہ تھا اس لیے سیسم تک پہنچتے کم و بیش تین مہینے گزر گئے۔
آخر محمد بن قاسم ایک مقام تک پہنچ گیا جو بندھان کہلاتا تھا، یہ سیسم تک پہنچنے کے لیے آخری پڑاؤ تھا، یہاں عام پڑاؤ کی نسبت زیادہ دن رکنا تھا کیونکہ یہاں سے سیسم کو محاصرے میں لینے کے لیے تیار ہو کر آگے بڑھنا تھا ،فوج کو آرام کی بھی ضرورت تھی کیونکہ اس فوج نے بڑی تیز رفتار پر کوچ کیا تھا اور راستے میں محاصروں کی لڑائی بھی لڑنی پڑی تھی۔
سیسم کے قلعے میں کاکا اور بجے رائے کو اطلاع مل گئی کہ مسلمانوں کی فوج آگئی ہے اور بندھان کے مقام پر خیمہ زن ہو چکی ہے، یہ اطلاع ملتے ہی بجے رائے نے چنّہ قوم کے ان ایک ہزار آدمیوں کو بلایا اور انہیں بھڑکانے کے لئے مسلمانوں کے خلاف وہی باتیں کیں جو ہر غیر مسلم حکمران یا حاکم اپنی فوج اور اپنے عوام کو بتایا کرتا تھا، مثلا یہ کہ مسلمان گھروں کو لوٹ لیتے ہیں جوان عورتوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، اور ایسا قتل عام کرتے ہیں کہ کسی بچے کو بھی زندہ نہیں رہنے دیتے، بجے رائے نے ان آدمیوں سے یہ بھی کہا کہ عوام کی عزت جان اور ان کے مال کی حفاظت ہمارا فرض ہے ورنہ ہم سب مسلمانوں کے بے دام غلام ہو جائیں گے۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ علاقہ بدھیہ کے ایک قبیلے نے جس کا کسی بھی تاریخ میں نام نہیں لکھا اپنے طور پر یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ مسلمانوں کے پڑاؤ پر شب خون ماریں گے، ان کے بڑوں نے از خود حملہ کرنے کی بجائے یہ بہتر جانا کے سیسم کے قلعے میں جاکر راجہ کاکا کو بتایا جائے کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنا ایک وفد سیسم قلعے کو روانہ کر دیا۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس قبیلے کو کاکا اور بجے رائے نے مسلمانوں پر شب خون مارنے کے لیے اکسایا اور تیار کیا تھا۔
مگر ہیگ جو زیادہ مستند معلوم ہوتا ہے لکھتا ہے کہ یہ قبیلہ جو غالباً جاٹ تھا اپنے مذہب پر مر مٹنے والا قبیلہ تھا، ان لوگوں نے سنا تھا کہ عرب کے مسلمان اپنا مذہب پھیلانے آئے ہیں اور وہ جہاں جاتے ہیں وہاں کے لوگوں کو جبراً مسلمان بناتے ہیں اور جو ان کا مذہب قبول نہ کرے اسے قتل کر دیتے ہیں ،چنانچہ اسلام کو روکنے اور اپنے مذہب کو بچانے کے لیے یہ لوگ مسلمانوں کے پڑاؤ پر رات کو ہلہ بولنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔
بہرحال اس واقعے پر تمام مؤرخین متفق ہیں کہ اس قبیلے کا وفد سیسم قلعے میں گیا اور راجہ کاکا کو اپنا ارادہ بتایا، اس کی زیادہ خوشی بجے رائے کو ہوئی، اس نے پنڈتوں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ شب خون مارنے کے لیے شُبھ رات بتائیں، اور یہ بھی معلوم کریں کہ فتح کے لیے کوئی بلیدان (قربانی) دینے کی ضرورت ہے یا نہیں، اگر ہے تو کیا دیا جائے۔
پنڈت مندر میں چلے گئے اور آنے والے وقت کے پردے چاک کرنے کے عجیب وغریب ڈھنگ آزمانے لگے۔
اگر تم لوگ عرب کے اس فوج کو پڑاؤ میں ختم کر دو تو میں تمہیں جھولیاں بھر کر انعام دوں گا۔۔۔ بجے رائے نے انہیں کہا۔۔۔ اور جو آدمی مسلمانوں کے سالار محمد بن قاسم کو زندہ پکڑ کر لائے گا وہ فوج میں بہت بڑا عہدہ راجہ کے دربار میں اعلی رتبہ اور اس مسلمان سالار کے سر کے برابر وزنی سونا دیا جائے گا، اور وہ بدھیہ کی جس لڑکی کو پسند کرے گا اس کے ساتھ اس کی شادی کردی جائے گی، اور جو آدمی محمد بن قاسم کا سر لائے گا اسے اس سر کے وزن سے دگنا سونا دیا جائے گا اور ایک خوبصورت اور نوجوان لڑکی بھی اسے دی جائے گی۔
اور ہم تمہیں اکیلے نہیں چھوڑ رہے ہیں۔۔۔ کاکا نے کہا۔۔۔ ہم تمہارے ساتھ چنّہ جاتی کے ایک ہزار سوار بھیجیں گے ،تم سب ان کے ساتھ مل کر حملہ کرو گے۔
مہاراج کی جئے ہو ۔۔۔وفد کے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔ہم اس لئے میدان میں اترے ہیں کہ مہاراجہ داہر کی فوج مسلمانوں کو نہیں روک سکی ،ہم مسلمانوں کو اس قابل رہنے ہی نہیں دیں گے کہ وہ آگے بڑھ سکیں، وہ یہاں ہماری تلواروں اور برچھیوں سے مرنے آئے ہیں ہم آپ سے انعام لینے نہیں آئے ہم اپنا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں۔
پنڈت مہاراج شُبھ رات بتائیں گے؟،،،، بجے رائے نے کہا۔۔۔ اور جس رات تم حملہ کرنے جاؤ گے وہ تمام رات پنڈت مندر میں عبادت کرتے رہیں گے یہ تمہاری کامیابی کی ضمانت ہو گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>