⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴اٹھارہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عربوں نے عروس جیسی منجنیق بنا لی تھی جس سے اتنے وزنی پتھر اتنی دور تک پھینکے گئے تھے کہ مندر کو توڑ دیا گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کا محافظ دستہ اس کے ساتھ تھا، جس کنارے کے ساتھ کشتیاں بندھی ہوئی تھیں اس کنارے پر دونوں طرف محافظ دستے کے سواروں کو دوڑا دیا گیا ،شعبان ثقفی خود بھی ایک طرف چلا گیا اور دوسری طرف محمد بن قاسم گیا ،دونوں بہت دور تک چلے گئے لیکن انہیں کوئی سراغ نہ ملا نہ زمین پر کوئی ایسا نشان ملا جس سے یہ پتہ چلتا کہ منجنیق یہاں کشتی سے اتاری گئی ہے ،دونوں واپس آ گئے۔
ابن قاسم!،،،، شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ آپ واپس چلے جائیں میں دوسرے کنارے پر جا رہا ہوں اپنے دو محافظ میرے ساتھ رہنے دیں ،آپ کا یہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں ہمارا دشمن دوسرے طریقے اختیار کر رہا ہے۔
ہمارا اب نیرون میں رہنا بھی ٹھیک نہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہمیں اب فوراً یہاں سے کوچ کرنا چاہیے، دشمن ہماری منجنیق صرف اس مقصد کے لئے لے گیا ہے کہ وہ ایسی منجنیق تیار کرے، میں اسے اتنی مہلت نہیں دوں گا کہ وہ ایک بھی منجنیق بنا سکے۔
ہو سکتا ہے میں انہیں راستے میں ہی پکڑ لوں۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔منجنیق کو اتنی تیزی سے کہیں لے جانا آسان نہیں آپ چلے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ چھپے ہوئے دشمن کے تیر آپ تک پہنچ جائیں۔
محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ سپاہیوں کی لاشوں کو اٹھایا جائے اور جنازے کے لیے سب کو اکٹھا کیا جائے۔
یہ تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ منجنیق رات کو کس وقت چُرائی گئی ہے، اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرف لے گئے ہیں۔ شعبان ثقفی کے ساتھ دو تین اپنے سوار تھے اور اس نے محمد بن قاسم کے دو محافظ بھی اپنے ساتھ رکھ لیے تھے وہ ان سب کو دریا کے کنارے کنارے ایسی جگہ لے گیا جہاں دریا کا پاٹ چوڑا تھا انہوں نے گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور دوسرے کنارے پر چلے گئے وہاں سے وہ کنارے کنارے پر بہت دور نکل گئے۔
ایک جگہ انہیں ایک خالی کشتی نظر آئی جو آدھی سے زیادہ خشکی پر تھی اس کشتی پر منجنیق لگدی ہوئی تھی جو اب کشتی میں نہیں تھی، کنارے پر صاف نشان تھے کہ منجنیق وہاں اتاری گئی تھی، اس منجنیق کے چار پہیے تھے، ریتیلی زمین پر اور اس سے آگے جیسی بھی زمین تھی اس پر ان پہیوں کے نشانات کو چھپانا نا ممکن تھا ،شعبان ثقفی نے یہ نشان دیکھے وہاں ہاتھیوں کے قدموں کے نشان بھی تھے اور گھوڑوں کے قدموں کے نشان بھی صاف نظر آ رہے تھے۔ شعبان ثقفی سمجھ گیا کہ منجنیق ہاتھیوں سے کھینچی گئی ہے ،وہ ہاتھی کی طاقت اور رفتار سے واقف تھا پھر بھی وہ کئی میل دور تک چلا گیا جس راستے پر منجنیق لے جائی گی تھی، وہ کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا وہ ویرانہ تھا کہیں صحرا اور کہیں جنگل تھا، یہ علاقہ نیرون سے کئی میل دور تھا۔
بہت ہی دور جاکر شعبان ثقفی رک گیا اس نے اندازہ کر لیا تھا کہ منجنیق کس طرف اور کہاں لے جائی گی ہے، وہاں سے شعبان ثقفیی واپس نیرون آگیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابن قاسم !،،،،،،،شعبان ثقفی نے واپس آکر محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ ہمارے چاروں سپاہیوں کو انہیں آدمیوں نے قتل کیا ہے جو منجنیق لے گئے ہیں، اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ منجنیق سیوستان لے جائی گی ہے، ہمیں فوراً کوچ کرنا چاہئے آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ دشمن کو ہم مہلت ہی نہ دیں کہ منجنیق بنانا تو دور کی بات ہے وہ منجنیق کو اچھی طرح دیکھ بھی نہ سکے۔
سیوستان وہی مقام تھا جو آجکل سہون کے نام سے مشہور ہے۔
نیرون سے محمد بن قاسم نے سیوستان کو ہی جانا تھا لیکن اتنی جلدی نہیں جتنی جلدی اب اسے کوچ کرنا پڑا ،وہ جوں جوں سندھ کے اندر آتا جا رہا تھا زیادہ محتاط ہوتا جا رہا تھا، کیوں کہ وہ راجہ داہر کی اس چال کو سمجھ گیا تھا کہ عرب فوج لڑتے لڑتے اور پیش قدمی کرتے کرتے تھک کر چور ہو جائے، اور زیادہ سے زیادہ جنگی طاقت اکٹھی کرکے اروڑ کے میدان میں اس فوج کو ایک ہی ہلّے میں ختم کردیا جائے۔
نیرون کے حاکم شندر شمنی نے خفیہ طور پر اپنا ایک ایلچی سیوستان کے حاکم کے پاس بھیجا ہوا تھا ،وہاں کے حاکم کو یہ کہنا تھا کہ وہ عرب فوج کا مقابلہ نہ کرے، سیوستان کا حاکم بھی بدھ تھا، محمد بن قاسم نے اس ایلچی کی واپسی کا انتظار کرنا تھا ایلچی دو روز بعد واپس آیا۔
سیوستان اب ایک قلعہ نہیں بلکہ پہاڑ بن گیا ہے ۔۔۔ایلچی نے محمد بن قاسم کی موجودگی میں سندر شمنی کو بتایا ۔۔۔راجہ داہر نے سیستان کے بدھ حاکم کو اپنے پاس بلا لیا ہے اور اس کی جگہ اپنے بھتیجے بجے رائے کو وہاں کا حاکم بنا کر بھیج دیا ہے، آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ راجہ داہر نے اپنے بھتیجے کو کیوں بھیجا ہے؟،،،،، بجے رائے نے آتے ہی فوج کو نئے سرے سے تیار کرنا شروع کر دیا تھا، قلعہ تو پہلے ہی مضبوط تھا لیکن بجے رائے نے اپنی فوج کو ایسی تربیت دے دی ہے کہ محاصرے کی کامیابی آسانی سے حاصل نہیں ہو سکے گی، اس کے علاوہ قلعے کے دفاع کے لئے ایک اور چیز آگئی ہے یہ ہے ایک منجنیق جو معلوم نہیں کہاں سے لائی گئی ہے۔
یہ منجنیق کب وہاں پہنچی ہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
میری موجودگی میں وہاں پہنچی ہے۔۔۔ ایلچی نے جواب دیا ۔۔۔میں نے اسے قلعے میں آتے دیکھا تھا ،اسے دو ہاتھی کھینچ رہے تھے اور اس کے ساتھ بارہ تیرہ گھوڑ سوار تھے، میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ یہاں کی فوج منجنیق کہاں سے لائی ہے، یہاں کوئی کاریگر ایسا نہیں جو منجنیق بنا سکے۔
یہ منجنیق یہاں سے چرائی گئی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اور پوچھا کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اس منجنیق کا وہ کیا بنائیں گے؟
اسے انہوں نے شہر پناہ کے بڑے دروازے کے اوپر دیوار پر رکھ دیا ہے۔۔۔ ایلچی نے جواب دیا۔۔۔ اور انہوں نے بڑے بڑے پتھروں کے ڈھیر منجنیق کے ساتھ لگوا دیے تھے۔ محمد بن قاسم ہنس پڑا۔
خدا کی قسم!،،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔یہ لوگ جاہل ہیں ایک طرف وہ اتنے دلیر ہیں کہ انہوں نے یہاں آکر ہمارے چار آدمیوں کو قتل کیا اور منجنیق لے گئے، اور دوسری طرف وہ اتنے احمق ہیں کہ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ منجنیق کہاں اور کس طرح استعمال ہوتی ہے،،،،،آگے بات کرو۔
سیوستان کی زیادہ تر آبادی بدوھوں کی ہے۔۔۔ ایلچی نے کہا۔۔۔ میں شہر میں گھومتا پھرتا رہا ہوں شہر کے لوگ لڑائی نہیں چاہتے مگر بجے رائے انہی ڈراتا رہتا ہے کہ مسلمان آگئے تو کسی گھر میں کچھ نہیں چھوڑیں گے، اور شہر کی تمام جوان لڑکیوں کو اپنی فوج میں تقسیم کردیں گے، یہ وہی پروپیگنڈہ ہے جو ہر جگہ ہوتا آیا تھا ،لیکن مسلمانوں کا طرز عمل اور مفتوحہ بستیوں اور قلعہ بند شہروں کے لوگوں کے ساتھ ان کا سلوک اور رویہ اتنا اچھا اور دشمن کے پروپیگنڈے کے خلاف ہوتا تھا کہ یہ پروپیگنڈہ بے اثر ہو جاتا تھا ،دیبل فتح ہوا تو وہاں کے کچھ لوگ اور تاجر وغیرہ دوسرے شہروں میں گئے تھے، نیرون سے بھی کچھ لوگ سیوستان اور دوسرے شہروں میں گئے تھے، وہ جہاں جاتے وہاں کے مسلمانوں کے حسن سلوک کا ذکر کرتے تھے۔
ایسا ہی سیوستان میں ہو رہا تھا، ارمن بیلہ، دیبل اور نیرون کے بعض لوگ سیوستان پہنچے تھے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں کو بتایا تھا کہ مسلمان فوج فصل کو خراب نہیں کرتی، مفتوحہ شہر میں لوٹ مار نہیں کرتی، دکانداروں کا مال نہیں اٹھاتی، اور مسلمانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ بیان کی گئی کہ عورتوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سندر کے ایلچی نے بتایا کہ سیوستان میں فوج اور شہریوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس بدھ ایلچی نے جب دیکھا تھا کہ سیوستان کا حاکم بدل گیا ہے تو وہ ایلچی سے جاسوس بن گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے نیرون میں انتظامی امور کے لئے کچھ آدمی رہنے دیے، اور فوج کا ایک دستہ بھی وہاں چھوڑ دیا ،اور سیوستان کی طرف کوچ کر گیا ،تاریخوں میں تاریخ، دنوں ،اور مہینوں کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے یقین سے یہ لکھنا ناممکن ہے کہ محمد بن قاسم نے کون سے مہینے کی کس تاریخ کو کوچ کیا ،ان راستوں کے متعلق بھی اختلاف موجود ہیں جن راستوں پر محمد بن قاسم ایک جگہ سے دوسری جگہ گیا تھا۔
محمد بن قاسم اب زیادہ محتاط ہوگیا تھا اس نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کرکے کوچ کیا ،خود درمیان والے حصے کے ساتھ رہا اس کے علاوہ اس نے ہر اول دستہ آگے بھیج دیا تھا جو سوار تھا ،دائیں اور بائیں شتر سواروں کے دستے تھے جو فوج سے دور دور آگے بڑھتے جارہے تھے، یہ اہتمام اس لیے کیا گیا تھا کہ ایک منجنیق کی چوری سے محمد بن قاسم کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ دشمن پہلو سے یا فوج کے عقبی حصے پر رسد کے چھکڑوں پر شب خون کی طرز کے حملے کرسکتا ہے۔
محمد بن قاسم نے حکم دیا تھا کہ کوچ بہت تیز ہو اور پڑاؤ کم سے کم کیے جائیں، فوج کی نفری راجہ داہر کی فوج کے مقابلے میں خاصی کم تھی لیکن یہ فوج تیزوتند سیلاب کی مانند جارہی تھی،،،،،، اسلام ہندوستان میں داخل ہو رہا تھا،،،،، اور راجہ داہر حق کے سیلاب کو روکنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا ،اس نے اپنی فوج کو مختلف قلعوں میں بڑی خوبی سے تقسیم کردیا انہیں دفاعی انتظامات کے تحت اس نے سیوستان سے بدھ حاکم کو ہٹایا اور اپنے سگے بھتیجے کو وہاں بھیج دیا تھا ،وہ فوج کا بھی حاکم تھا اور قلعے کا بھی۔
تیسرے دن عرب کی یہ فوج موج کے مقام پر پہنچی ،یہ مقام سیوستان کے انتظام کے تحت آتا تھا ،زیادہ تر مورخوں نے لکھا ہے کہ موج کوئی بستی نہیں تھی موج کا مطلب ندی یا دریا تھا جہاں محمد بن قاسم نے پڑاؤ کیا تھا ،وہاں سے سیوستان سہون قریب ہی تھا۔ یہ جگہ سرسبز تھی پانی کی بہتات تھی اس لئے وہاں ایک بستی تھی جس میں بدھ مت کے پیروکار آباد تھے اور آبادی کے لحاظ سے یہ ایک قصبہ تھا ۔فتوح البلدان میں بھی یہی لکھا ہے کہ اس علاقے میں بدھ آباد تھے۔ مشہور اور مستند تاریخ دان بلاذری نے لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم وہاں پہنچا تو اس علاقے کے بدھوں کے راہبوں کا ایک وفد محمد بن قاسم کے پاس گیا، بدھوں کے راہیب شمنی کہلاتے تھے، انہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ وہ امن اور دوستی چاہتے ہیں کیونکہ محبت اور امن ان کے مذہب کا بنیادی اصول ہے۔
چچ نامہ کی روایت یہ ہے کہ بدوھوں نے سیوستان کے حاکم بجے رائے کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ، آپ قلعہ بند ہیں اور آپ کے پاس فوج ہے، ہم کمزور ہیں اور ہم لڑنا جانتے بھی نہیں ،ہم لڑنا چاہیں تو بھی نہیں لڑ سکتے کیونکہ ہم بدھ ہیں اور ہم مہاتما بدھ کے اس فرمان کی حکم عدولی نہیں کر سکتے کہ فوجوں سے بستیاں روندی جاسکتی ہیں، تلوار سے جسم کاٹے جاسکتے ہیں اور تیروں سے سینے چھلنی کئے جاسکتے ہیں لیکن انسانوں کے دل نہیں جیتے جا سکتے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم مسلمان سالار کی اطاعت قبول نہ کریں تو کچھ فوج بھیج دیں لیکن ہم نہیں لڑیں گے۔
بجے رائے نے اس پیغام کا یہ جواب دیا کہ بدھوں کے وفد کو حقارت سے دیکھا اور حکم دیا کہ انھیں واپس بھیج دو۔
اس کے بعد شمنیوں کا وفد محمد بن قاسم کے پاس گیا اور کہا کہ اگر وہ ان کی بستیوں پر قابض ہونا چاہتا ہے تو یہ سوچ لے کے اسے ذرا سی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوگا، اگر آپ ہم سے گھوڑوں اور اونٹوں کے لیے چارہ لینا چاہتے ہیں تو لے لیں۔۔۔۔ایک شمنی نے کہا ۔۔۔آپ لشکریوں کے لیے اناج بھی لے سکتے ہیں اور آپ نقد رقم کا مطالبہ کریں گے تو ہم وہ بھی ادا کریں گے۔
امن اور دوستی سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں ،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔آپ نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے تو ہم آپ کو ضمانت دیتے ہیں کہ آپ کی بستیوں کی حفاظت اور آپ کے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہونگے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے وہاں سے کوچ کیا تو سیوستان جا پہنچا، اس قلعہ بند شہر کے دروازے بند تھے اور وہاں کی فوج شہر کے ہر طرف دیوار پر کھڑی تھی، بجے رائے کو اطلاع مل گئی تھی کہ عرب فوج آ رہی ہے اس نے قلعے کا دفاع مضبوط کرلیا۔
عرب فوج نے دیکھا کہ ایک منجنیق بڑے دروازے کے اوپر دیوار پر رکھی ہوئی تھی، محمد بن قاسم کے حکم سے ایک نائب سالار آگے گیا اور اس نے اعلان کیا کہ مقابلے کیے بغیر قلعے کے دروازے کھول دو اگر ہم نے لڑ کر قلعہ فتح کیا تو ہم جزیہ بھی وصول کریں گے اور تاوان بھی، اور ہم شہر سے مال غنیمت بھی اکٹھا کریں گے اور ہم فوج کے حاکموں کو زندہ نہیں رہنے دیں گے۔
آگے آؤ،،،،، دیوار کے اوپر سے اعلان ہوا۔۔۔ قلعہ فتح کر کے دکھاؤ۔
منجنیق دیوار کے قریب کرلو محمد بن قاسم نے حکم دیا۔
جب منجنیقیں آگے لے جائی گئیں تو دیوار کے اوپر سے تیروں کا مینہ برس پڑا اس کے ساتھ ہی جو منجنیق دیوار پر لگائی گئی تھی اس سے پتھر پھینکے جانے لگے عرب فوج دیوار کے قریب چلی گئی لیکن کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی تھی جہاں منجنیقوں سے مسلسل سنگ باری کرکے دیوار میں شگاف ڈالا جاسکتا۔
قلعے کے اندر کی صورتحال بجے رائے اور اس کی فوج کے لئے ٹھیک نہیں تھی، قلعے کے شہریوں کا ایک وفد بجے رائے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ وہ قلعے کے دروازے کھول دے، بجے رائے نے غصے کے عالم میں اس وفد کو دھتکار دیا۔
مہاراج !،،،،شہریوں کے وفد نے کہا۔۔۔ آپ کو شہریوں سے کوئی تعاون نہیں ملے گا شہر میں زیادہ آبادی بدھوں کی ہے ۔
بجے رائے نے وفد کے ان تمام آدمیوں کو قید خانے میں بھیج دیا ،اور اس نے یہ حکم جاری کیا کہ جو لوگ نہیں لڑنا چاہتے وہ گھروں میں بند ہوجائیں اور باہر نہ نکلیں، اور جو لوگ لڑنا چاہتے ہیں وہ ہتھیار بند ہو کر دیوار پر چلے جائیں۔
بجے رائے نے مسلمانوں کی فوج کے لیے یہ دشواری پیدا کردی کہ جس طرف سے مسلمان دیوار میں سرنگ لگانے کے لئے آگے بڑھتے ان پر تیروں کی بوچھاڑ آنے لگتی ،بجے رائے نے یہ دلیرانہ اقدام بھی کیا کہ شہر کا ایک دروازہ کھلتا اور سیکڑوں گھوڑسوار باہر آکر گھوڑے سرپٹ دوڑاتے محمد بن قاسم کی فوج پر ہلہ بولتے اور واپس چلے جاتے۔
محمد بن قاسم نے سب سے بڑی منجنیق عروس سے نشان پر پتھر پھینکنے کے ماہر جعونہ سلمیٰ کو طلب کرلیا۔
تم دیکھ رہے ہو جعونہ!،،،، محمد بن قاسم نے اسے کہا۔۔۔ ہندوؤں نے ہماری چرائی ہوئی منجنیق دیوار پر لگا دی ہے ،اور ہم پر پتھر پھینک رہی ہے، چھوٹی منجنیق سے اسے نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ،تم نے دیبل کے مندر کا گنبد توڑ کر جھنڈا گرایا تھا اب اس منجنیق کو اڑا دو۔
اڑ جائے گی سپہ سالار!،،،،، جعونہ سلمیٰ نے کہا ۔۔۔میں صرف تین پتھر پھینکو گا ۔
اس نے عروس کو آگے کیا اور تین وزنی پتھر پاس رکھوا لیے اس منجنیق کو پانچ سو آدمی کھینچتے تھے تو اتنا وزنی پتھر مطلوبہ فاصلے اور نشانے پر جاتا تھا۔ جعونہ اس کو موزوں جگہ پر رکھوا کر اس میں پہلا پتھر رکھوایا۔ منجنیق کھینچ کر چھوڑی گئی تو پتھر دیوار پر رکھی ہوئی منجنیق کے ایک طرف لگا اور منجنیق ایک طرف جھک گئی۔
دوسرا پتھر منجنیق کو سامنے سے لگا منجنیق ٹوٹی بھی اور اتنے زیادہ وزنی پتھر کے دھکے سے نیچے کو گئی اور قلعے کے اندر نیچے جا پڑی۔
محمد بن قاسم کے حکم سے تمام منجنیقوں سے شہر پر سنگ باری شروع کردی گئی، اس کے جواب میں بجے رائے نے دستے باہر بھیج کر محاصرین پر حملے جاری رکھے، مسلمان سوار دستے دشمن کے سواروں کا تعاقب کرتے تھے لیکن دشمن کے سوار دستے قلع کے اندر چلے جاتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس طرز کی جنگ سات آٹھ روز جاری رہی، ایک رات محمد بن قاسم کی فوج کے آدمی دو آدمیوں کو پکڑ لائے ان کا حلیہ بہت برا تھا ان کے کپڑے کیچڑ سے لت پت تھے اور وہ کہتے تھے کہ قلعے کے اندر سے آئے ہیں اور مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس جانا چاہتے ہیں ،انھیں محمد بن قاسم کے پاس لے جانے کی بجائے شعبان ثقفی کے پاس لے گئے، وہ جاسوس بھی ہو سکتے تھے۔
میں کیسے مان سکتا ہوں کہ تم قلعے کے اندر سے آئے ہو ؟،،،،شعبان صفی نے کہا۔۔۔ کیا صرف تم دونوں کے لئے قلعے کے دروازے کھول دیے گئے تھے؟
اور کیا تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ قلعے کے دروازوں سے ہی اندر باہر آ جا سکتے ہیں۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ وہ جس طرف چٹانیں اور ٹیلے ہیں اس طرف دیوار کے نیچے نالے کے پانی کے نکلنے کا راستہ ہے، چونکہ اس طرف چٹانیں اور ٹیلے ہیں اور جگہ جگہ پانی جمع ہے اور دلدل بھی ہے اس لئے وہ راستہ کسی کو معلوم نہیں، اور ویسے بھی کوئی اس طرف جا نہیں سکتا ،ہم دونوں اس راستے سے رینگ رینگ کر نکلے ہیں، اور یوں نکلنا آسان نہیں تھا
کیا مقصد تھا کہ تم باہر آئے ہو؟،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا۔
ہم بدھ ہیں۔۔۔ باہر آنے والوں میں سے ایک نے جواب دیا۔۔۔ کیا نیرون اور موج والوں نے تمہیں بتایا نہیں کہ سیوستان کے اندر زیادہ تر آبادی بدھ لوگوں کی ہے، اور یہاں ہمارے شمنی بھی ہیں؟،،،،،،،، اور تم لوگ یہ تو جانتے ہوں گے کہ بدھ مت کے لوگ کسی کے ساتھ لڑائی نہیں کیا کرتے، کیا نیرون میں سندر شمی نے آپ کا استقبال نہیں کیا تھا؟ تم قلعے کے اندر جو پتھر پھینک رہے ہو وہ ہمارے گھروں پر گر رہے ہیں، ہم لوگ پرامن طریقے سے زندگی بسر کر رہے ہیں، ہم میں کسان بھی ہیں، بیوپاری بھی ہیں، کچھ لوگ کاریگر ہیں، ہم میں کوئی ایک بھی آدمی نہیں جو راجہ کی فوج کا سپاہی ہو۔
ہمیں یہ بتاؤ کہ ہم تمہاری کیا مدد کر سکتے ہیں ؟،،،،،شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔۔تم لوگ شہر کے اندر رہتے ہو تمہیں پتھروں سے کس طرح بچایا جاسکتا ہے۔
تم نہیں ہم تمہاری مدد کو آئے ہیں۔۔۔ ایک بدھ نے کہا ۔۔۔ہم جس راستے سے باہر آئے ہیں تم اس راستے سے اندر جا سکتے ہو، لیکن وہ راستہ سرنگ کی طرح کھلا کرنا پڑے گا۔نیچے زمین کچی ہے تم ابھی سرنگ کھودو اور صبح تک تمہارے بہت سے آدمی اندر چلے جائیں گے، ہمارے شمنیوں نے کہا ہے کہ تمہارے آدمیوں کو اندر مدد مل جائے گی، ہم دونوں تمہیں وہ جگہ دکھا دیتے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شعبان ثقفی اسی وقت ان دونوں کو محمد بن قاسم کے پاس لے گیا اور اسے یہ ساری بات سنائی ،محمد بن قاسم فوراً وہاں پہنچا اور دیکھا کہ قلعے کی دیوار کے ساتھ اس طرف کا علاقہ اس قابل نہیں کہ وہاں کھڑا بھی رہا جاسکتا ہو ۔ وہاں بدبو بھی تھی اور کھڈ اور ٹیلے بھی تھے، محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کو ساتھ لے کر پانی کے باہر نکلنے کا راستہ دیکھا۔
محمد بن قاسم نے وہیں کھڑے کھڑے ایک ترکیب سوچ لی اور اسی وقت اس پر عمل شروع کردیا، اس نے قلعے کے اس حصے پر جس طرف پانی کا راستہ تھا سنگ باری کا حکم دیا لیکن کوئی منجنیق اس طرف نہ رکھی اس کے ساتھ ہی اس نے سرنگ کھودنے والے آدمیوں کو کہا کہ صبح سے پہلے سرنگ مکمل کر لی جائے۔
یہ سرنگ اس نوعیت کی تھی کہ یہ پانی کا راستہ تھا اسے کھلا کرنا تھا زمین سخت تھی، اس کی کھدائی شروع کر دی گئی لیکن یہ مشکل پیدا ہوگئی کہ سرنگ کھودی گئی تو باہر جو پانی جمع تھا واپس سرنگ میں آگیا، اندر سے باہر گیا ہوا پانی تھا اور اس میں بارش کا پانی بھی بہت تھا محمد بن قاسم وہیں کھڑا رہا اور سرنگ کھودنے والے بڑی تیزی سے اپنا کام کرتے رہے ،ادھر سنگباری اس قدر تیز کردی گئی کے اندر سے اس طرف آنے والے کی کوئی جرات نہیں کرتا تھا، سرنگ کھودنے والے کمر سے اوپر تک پانی میں ڈوبے ہوئے اپنا کام کر رہے تھے محمد بن قاسم نے جب دیکھا کہ پانی اوپر ہی اوپر چڑھتا رہا ہے تو اس نے اپنے اور بہت سے آدمی بلا کر پانی کا ایسا راستہ کھدوا دیا جس سے پانی پھر باہر کو واپس آنے لگا، قلعے کی دیوار نیچے سے بہت چوڑی تھی سرنگ کو زیادہ تر نیچے رکھنا تھا اسلامی فوج میں سرنگ کھودنے کے ماہر موجود تھے، انہوں نے بڑی خوبی سے اور بڑی تیزی سے اپنا کام کیا۔
صبح ابھی تاریک تھی جب سرنگ مکمل ہوگئی سب سے پہلے منتخب جانبازوں کو سرنگ میں داخل کیا گیا ،چونکہ وقت بہت کم تھا اس لئے سرنگ زیادہ کشادہ نہ کی جاسکی، دو آدمی پہلو بہ پہلو ذرا سا جھک کر اس میں سے گزر سکتے تھے، مشکل یہ تھی کہ پانی جو اندر سے آرہا تھا وہ سخت بدبو دار تھا ،یہ مجاہد اپنے چہروں پر کپڑے لپیٹے سرنگ میں سے آگے نکلتے گئے۔
جونہی پہلے دو آدمی اندر پہنچے انہوں نے پچھلے والوں کو بتایا اور پیچھے والوں نے قلعے کے باہر تک پیغام پہنچا دیا کہ سنگ باری روک دی جائے۔
ایک تو یہ دو بدھ ان کے ساتھ تھے جو باہر آئے تھے اور ان کا ایک ساتھی اندر ان کے انتظار میں کھڑا تھا، انہوں نے محمد بن قاسم کے ان جانبازوں کو ایک قریبی دروازے تک پہنچا دیا دروازے کی حفاظت کے لئے چند ایک ہندو سپاہی وہاں موجود تھے انہیں تو توقع ہی نہیں تھی کہ مسلمان قلعے کے اندر آ جائیں گے، مسلمان جانباز ان پر ٹوٹ پڑے ذرا سی دیر میں ان کا صفایا کرکے دروازہ کھول دیا۔
مسلمانوں کی فوج اشارہ ملتے ہی رکے ہوئے سیلاب کی طرح اس دروازے سے اندر آ گئی پھر ایک اور دروازہ کھول لیا گیا راجہ داہر کے بھتیجے بجے رائے نے بوکھلاہٹ کی حالت میں مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اب ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا تھا اور وہ دراصل بھاگ نکلنے کے جتن کر رہا تھا، سورج کی پہلی کرنوں نے دیکھا کہ سیوستان کے دروازے کے اوپر ایک برج پر محمد بن قاسم کا اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب بجے رائے کے فوجیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو بجے رائے کہیں نظر نہ آیا اس کی فوجیوں نے بتایا کہ بجے رائے اپنی بیویوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ رتھوں پر سورج نکلنے سے پہلے بڑے دروازے سے نکل گیا تھا۔ محمد بن قاسم نے اس کے تعاقب کا حکم دیا ،لیکن سیوستان کے قلعے دار نے بتایا کہ وہ راستے میں نہیں ملے گا کیونکہ وہ اب تک سیسم پہنچ چکا ہو گا۔
محمد بن قاسم نے بجے رائے کی فوج کے ان کمانڈروں کو اکٹھا کیا جو بھاگ نہیں سکے تھے، انہیں کہو کہ مجھے وہ آدمی دے دیں جنہوں نے ہماری منجنیق چورائی تھی اور ہمارے چار مجاہدوں کو قتل کیا تھا، محمد بن قاسم نے کہا اگر یہ پس و پیش کرتے ہیں تو ان سب کی گردنیں کاٹ دو ،اور انکے گھروں کا تمام مال و اسباب مال غنیمت میں رکھ لو۔
شعبان ثقفی ان کمانڈروں سے مخاطب ہوا اور انہیں محمد بن قاسم کا حکم سنایا اور یہ بھی کہا کہ انھیں لاعلمی کا اظہار کرنے کی صورت میں فوراً قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اور زمین پر لٹا کر ان پر گھوڑے دوڑائے جائیں گے۔
ان کمانڈروں نے بتادیا کہ منجنیق چرانے اور مسلمان سپاہیوں کو قتل کرنے والے کون تھے، تمام ہندو فوجی اب جنگی قیدی تھے انہیں ایک طرف بیٹھا دیا گیا تھا ان میں سے دس آدمیوں کو اٹھاکر محمد بن قاسم کے سامنے کھڑا کردیا گیا، ان کی تعداد چودہ تھی، صرف دس موجود تھے اور چار بھاگ گئے تھے، ان کے ساتھ اس گروپ کے انچارج کے طور پر ایک کمانڈر گیا تھا اس نے خود ہی اپنے آپ کو پیش کردیا۔
ان کے بیانات سے معلوم ہوا کہ منجنیق کی چوری کی اسکیم راجہ داہر اور اس کے وزیر بدہیمن نے بنائی تھی اور یہ کام بجے رائے کے سپرد کیا تھا، بجے رائے نے اپنے منتخب انتہائی دلیر فوجی اس کام پر مامور کیے تھے اور ان کا ایک کمانڈر جو تجربے کار سالار تھا ان کے ساتھ بھیجا تھا، ان کے ایک جاسوس نے بتایا تھا کہ کچھ منجنیقیں ابھی تک کشتیوں میں رکھی ہوئی ہیں اور کشتیاں دریا کے کنارے پر بندھی ہوئی ہیں، جاسوس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہاں چار آدمی پہرے کے لئے ایک خیمے میں موجود رہتے ہیں۔
چودہ آدمی ایک کمانڈر کے ساتھ گھوڑوں پر دور کا چکر کاٹ کر نیرون سے دور دور اس جگہ پہنچے جہاں دریائے ساکرہ میں منجنقوں والی کشتیاں بندھی ہوئی تھیں، ان میں سے دو آدمی عام سے مسافروں کے بھینس میں کشتیوں کے پہرے داروں کے پاس گئے۔
ہم آپ کو آپ کے خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہماری مدد کریں۔۔۔ ان میں سے ایک نے روتے ہوئے کہا۔۔۔ ہم بدھ مذہب کے آدمی ہیں اور سفر میں ہیں ہمارے ساتھ دو جوان بیٹیاں ہیں، یہاں سے تھوڑی دور رہزنوں نے ہمیں روک لیا ہے وہ ہماری لڑکیوں کو گھسیٹ کر لے جارہے ہیں، انہوں نے ہم سے رقم اور زیورات بھی چھین لیے ہیں، ہمارے ساتھ دو بوڑھے آدمی ہیں ان دونوں کو رہزنوں نے قتل کردیا ہم دونوں ادھر بھاگ آئے ہیں ہم چونکہ مہاتما بدھ کے پیروکار ہیں اس لئے ہم ہتھیار لے کر نہیں چلتے، نہ ہم کسی کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں۔
کیا وہ رہزن گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار ہیں؟،،،،، عربی پہرےداروں نے پوچھا ۔
نہیں !،،،،انہیں جواب ملا۔۔۔ وہ پیدل جا رہے ہیں، ہم نے سنا ہے کہ مسلمان مظلوموں کی مدد کرتے ہیں اور ظالموں کو قتل کردیتے ہیں، اب یہاں آپ کی بادشاہی ہے ہماری مدد کریں۔
ان ہندو فوجیوں نے جو بہروپ میں تھے مظلومیت کی ایسی اداکاری کی کہ عربی پہرے داروں کو جوش آ گیا ،انہوں نے ان ہندوؤں کی مدد کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان میں سے دو تلواریں اور برچھیاں لے کر ان کے ساتھ دوڑ پڑے ان کے پاس گھوڑے نہیں تھے وہ پیدل دوڑے جا رہے تھے۔
دور سے عورتوں کی چیخوں اور آہ وزاری کی آوازیں آ رہی تھیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ رہزن ابھی دور نہیں گئے، پہرے دار اور تیز دوڑ پڑے اور اس جگہ جا پہنچے جہاں سے عورتوں کی چیخیں اٹھ رہی تھیں، وہاں درخت بھی تھے اور گھنی جھاڑیاں بھی تھیں، وہاں سے چار پانچ آدمی اٹھے انہوں نے خنجروں سے ان دونوں پہرےداروں کو قتل کردیا۔
بجے رائے کے ان فوجیوں کے باقی ساتھی چھپتےچھپاتے پہرےداروں کے خیمے کے پاس پہنچ گئے دو پہرے دار خیمے میں لیٹے ہوئے تھے ہندو فوجیوں نے انھیں اٹھنے کی مہلت نہ دی اور انھیں خنجروں سے قتل کردیا۔
یہ کام کر کے یہ فوجی دریا کے کنارے اکٹھے ہوئے اور منجنیقوں والی کشتیوں کی قطار میں جو آخری کشتی تھی وہ کھولی اور اسے چپو مارتے ہوئے لے گئے، بہت دور دوسرے کنارے کے ساتھ دو جنگی ہاتھی کھڑے تھے جو اس گروہ کے ساتھ لائے گئے تھے، انہوں نے کشتی خشکی پر کھینچ لی اور منجنیق اتار کر رسّوں سے ہاتھیوں کے ساتھ باندھ دی ،یہ جنگی ہاتھی تھے جو بڑی تیز رفتار سے دوڑ سکتے تھے، انکے مہاوتوں نے انہیں اور زیادہ تیز دوڑ آیا اور رات ہی رات کئی میل دور نکل گئے جہاں ان کے تعاقب میں کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔
ان لوگوں نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ اس منجنیق کو راجہ داہر کی راجدھانی اروڑ تک پہنچانا تھا ،لیکن بجے رائے نے یہ غلطی کی کہ اس منجنیق کو قلعے کی دیوار پر رکھوا دیا ،وہ کہتا تھا کہ عرب کی فوج سیوستان کو فتح کرنے کے لئے آئے گی تو وہ صرف ایک منجنیق سے عربوں کا محاصرہ توڑ دے گا ، لیکن ہوا یہ کہ عرب کی فوج آئی تو اس نے عروس سے دو پتھر پھینک کر اس منجنیق کو توڑ بھی دیا اور دیوار سے گرا بھی دیا۔
بجے رائے کو شاید معلوم نہیں تھا کہ راجہ داہر منجنیق کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے، داہر یہ منجنیق اپنے کاریگروں کو دکھا کر اس طرح کی بہت سی منجنیقیں بنوانا چاہتا تھا، یہ انکشاف بھی ہوا کہ راجہ داہر نے عربوں سے جنہیں اس نے مکران میں آباد کر رکھا تھا پوچھا تھا کہ ان میں سے منجنیقیں بنانے والا کوئی کاریگر ہے؟
علافی نے اسے جواب بھیجا تھا کہ یہاں کوئی ایسا عرب نہیں جو منجنیق تیار کر سکے۔ حقیقت یہ تھی کہ علافیوں میں دو آدمی منجنیق بنا سکتے تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ منجنیق اپنے عرب بھائیوں کے خلاف استعمال ہوگی ، محمد بن قاسم نے اس گروہ کے کمانڈر اور دس کے دس آدمیوں کو قتل کروا دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سیوستان کی فتح اس راستے کا ایک اور سنگ میل تھی جس راستے سے اسلام ہندوستان میں داخل ہو کر آگے بڑھ رہا تھا ،یہ راستہ اسلام کی شاہراہ تھا جس پر مجاہدین اسلام اپنے لہو کے نشان چھوڑ کے آگے ہی آگے بڑھے چلے جا رہے تھے، یہ سفر اتنا آسان نہ تھا جتنی آسانی سے یہ احاطہ تحریر میں آ جاتا ہے، یہ بڑا ہی کٹھن سفر تھا سرزمین عرب کے سپوت ہندوستان کی ریت میں شہید ہو کر دفن ہو رہے تھے، کوئی یہاں، کوئی وہاں ،عرب کے بچے یتیم ہو رہے تھے سہاگنیں بیوہ ہو رہی تھیں۔
وہ ملک گیری کی ہوس لے کر نہیں آئے تھے نہ وہ لوٹ مار کے لیے آئے تھے نہ انہیں جاہ و جلال اور زروجواہرات سے پیار تھا ،وہ مفتوح علاقوں کو دیتے زیادہ وہاں سے لیتے بہت کم تھے، ان کا حسن اخلاق دشمن کے دلوں کے جھنڈے سرنگوں کر دیتا تھا اسلام کے یہ سرفروش جسموں کو نہیں دلوں کو فتح کر رہے تھے۔ دل تلوار سے نہیں پیار سے فتح ہوا کرتے ہیں۔
مفتوح اسی فاتح کو فاتح اعظم کہتے ہیں جو ان کے دلوں کو فتح کر لیتے ہیں، ان مجاہدین کا تو یہ عالم تھا کہ بنی نوع انسان کے لئے ریشم وہ کمخواب کی طرح نرم و گداز تھے، لیکن راجہ داہر جیسے اسلام دشمن اور عیار بادشاہوں کے لیے سراپا فولاد تھے، اور آسمانی بجلیوں کی طرح اس کے لشکر اور اس کی شہنشاہیت پر گرتے تھے۔
تاریخ اسلام کا کمسن سپہ سالار محمد بن قاسم ابھی سیوستان میں ہی تھا پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سیوستان وہی جگہ ہے جو آجکل سہون شریف کہلاتی ہے، اس نے آگے بڑھنا تھا لیکن مسلمان سالاروں کا یہ اصول رہا ہے کہ جس شہر کو یہ فتح کرتے تھے وہاں کے نظم و نسق اور انتظامیہ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر کے آگے بڑھتے تھے، ان کا اصول یہ بھی تھا کہ انتظامیہ کو ایسے خطوط پر چلایا جائے کہ حکومت کو محصولات کا بھی نقصان نہ ہو اور مفتوحہ شہر کے عوام پر بھی مالی بوجھ نہ پڑے، اور ساتھ ہی ساتھ انھیں عدل انصاف ملے، ان کے انہی اصولوں نے اسلام کو مقبول عام مذہب بنایا ہے۔
ظاہر ہے کہ ایسے انتظامات میں اور عمال مقرر کرنے میں وقت لگتا ہے، ان انتظامات کے خاطر محمد بن قاسم کو سیوستان میں رکنا پڑا۔
اس نے حجاج بن یوسف کے نام پیغام لکھوایا جس میں سیوستان کی فتح کی خوشخبری دی اور اپنی فوج کے احوال و کوائف بھی لکھے، یعنی یہ کہ اس کے ساتھ کتنی نفری سوار اور پیادہ رہ گئی ہے کتنے شدید زخمی ہو کر بیکار اور کتنے شہید ہو چکے ہیں، اپنے ہتھیار اور رسد کی کیفیت بھی لکھی پھر اس نے لکھا کہ دشمن کے قلعے کہاں کہاں ہیں جو فتح کرنے ہیں، اور دشمن کی فوج کہاں کہاں ہے۔
بلاذری نے لکھا ہے اور اس کی تائید دو یوروپی مورخوں نے کی ہے کہ حجاج بصرہ میں بیٹھا سندھ کے محاذ کو کنٹرول کر رہا تھا اور کبھی کوئی ایسا حکم بھی بھیج دیتا تھا جو محمد بن قاسم کی بنائی ہوئی اسکیم کے مطابق نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً محمد بن قاسم کسی طرف پیش قدمی کرنے والا ہے اور بصرہ سے حجاج کا پیغام آ جاتا ہے کہ فلاں طرف جاؤں تمہیں دشمن فلاح پوزیشن میں ملے گا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ حجاج کے لیے ایسے احکام اندھا دھند یا قیاس آرائی پر مبنی نہیں ہوتے تھے اس کا اپنا بھی جاسوسی کا ایک نظام تھا جس کے ذریعے اسے محاذ کی تمام اطلاعیں اور صحیح صورتحال ملتی رہتی تھیں، پیغام رسانی کا انتظام ایسا تیز رکھا گیا تھا کہ سندھ کے اندرونی علاقوں میں سے بھیجا ہوا پیغام صرف ایک ہفتے میں بصرہ پہنچ جاتا تھا، اور اسی رفتار سے بصرہ کا پیغام ہر اس جگہ پہنچا دیا جاتا تھا جہاں اس وقت محمدبن قاسم ہوتا تھا، اس طرح اس کی جنگیں ہدایت بالکل صحیح ہوتی تھی اور بروقت پہنچتی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم ابھی سیوستان میں تھا شہر کے انتظامات تقریباً مکمل ہو چکے تھے پیش قدمی کی تیاریاں تھیں، قلعے میں اس کی فوج کی گہماگہمی تھی شہر کی رونقیں پھرسے زندہ ہو گئی تھیں، گھر گھر میں سکون اور اطمینان تھا وہ خوف وہراس جو مسلمانوں کے قلعے میں داخل ہوتے ہی لوگوں پر طاری ہو گیا تھا وہ ختم ہو چکا تھا، مسلمان فوجیوں نے حسن سلوک سے لوگوں کو یہ تاثر دیا تھا کہ وہ مفتوح ضرور ہیں لیکن غلام نہیں۔
سورج لب بام تھا ،قلعے کے دروازے بند ہونے میں تھوڑا سا ہی وقت باقی تھا باہر کھیتوں میں کام کاج کرنے والے لوگ اندر آگئے تھے اور جب دروازے بند ہونے کا وقت آیا تو دو آدمی قلعے کے بڑے دروازے پر آ رکے ،ان کے ساتھ دو اونٹنیاں تھی ایک پر ایک عورت اور دوسری اونٹنی پر دو عورتیں سوار تھیں، دونوں آدمی پیدل تھے عورتوں کے گھونگٹ لٹکے ہوئے تھے دونوں آدمیوں کے چہرے گرد سے اٹے ہوئے اور کپڑے بھی گرد آلود تھے پتہ چلتا تھا کہ بہت دور سے آئے ہیں۔
کون ہو تم لوگ؟،،،، دروازے کے اوپر ایک برج سے آواز آئی۔۔۔۔ کہاں سے آئے ہو؟،،، کیوں آئے ہو؟
بڑی دور سے آئے ہیں ۔۔۔ایک آدمی نے منہ اوپر کر کے جواب دیا ۔۔۔ہم پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔
اندر آؤ اور ڈیوڑھی میں رک جاؤ۔۔۔ اوپر سے آواز آئی۔۔۔ جلدی کرو دروازہ بند ہو رہا ہے۔ دونوں آدمی اونٹوں کو ساتھ لے کر اندر چلے گئے، پہرے داروں کے کماندار نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے اور کیوں آ رہے ہیں؟ انہوں نے کسی گمنام سی جگہ کا نام لے کر بتایا کہ وہاں ان کا جینا حرام ہو گیا ہے، ان کی اپنی فوج انہیں تنگ کرتی ہے۔
ہم غریب لوگ ہیں۔۔۔ ان میں سے بڑی عمر کے آدمی نے کہا ۔۔۔ہمارے پاس کچھ بھی نہیں جو ہم دے دلاکر سکون کی زندگی بسر کریں، یہ دو بہنیں ہیں جو ہماری بدقسمتی سے جوان ہے اور خوبصورت بھی ہیں، ہم انہیں فوجیوں سے بچاتے ہیں، یہی ہماری دولت ہے اور یہی ہماری عزت ہے۔
تمہیں کسی مسلمان نے تو پریشان نہیں کیا؟
نہیں!،،،،، اس نے جواب دیا ۔۔۔مسلمان آجاتے تو پھر کوئی خطرہ ہی نہ رہتا، ہم یہ سن کر آئے ہیں کہ مسلمان ہر کسی کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں اور کسی کے مال اموال پر ہاتھ نہیں ڈالتے ،آپ ہم دونوں کو قلعے سے نکال دیں ان دونوں لڑکیوں اور ان کی ماں کو اپنی پناہ میں لے لیں، ہم تو بہت دنوں سے ریگستان میں بھٹکتے پھر رہے ہیں، بیشمار راتیں آسمان تلے گزاری ہیں ،اور دن دھوپ میں جھلستے گزرتے رہے ہیں۔
انہوں نے اپنی بپتا ایسے انداز سے سنائی کے مسلمان پہرے داروں کے دل پسیج گئے، ان کے کماندار نے انھیں کہا کہ وہ اندر چلے جائیں اور پوچھیں کہ سرائے کہاں ہے؟،،، وہاں جا کر رہیں، رہنے کو جگہ ملے گی کھانے پینے کا انتظام بھی ہے۔
تمہارا مذہب کیا ہے ؟
ہم بدھ ہیں۔۔۔ انہوں نے جواب دیا۔
سرائے میں ڈیرہ ڈالو۔۔۔ کمانڈر نے کہا ۔۔۔پھر اپنی عبادت گاہ میں جاکر اپنے شمنی (بدھوں کا مذہبی پیشوا) سے ملنا وہ تمہارے مستقل ٹھکانے کا انتظام کر دے گا ،شہر میں کئی مکان خالی پڑے ہیں یہ ان ہندوؤں کے مکان ہیں جو یہاں سے بھاگ گئے ہیں۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>