⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴سترہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہم بہت دنوں بعد خشک گھاس اور بھوسے کے نیچے سے نکلی ہیں۔۔۔ ادھیڑ عمر عورت نے جواب دیا۔۔۔۔ہمارے آدمیوں نے ان لڑکیوں کو چھپا دیا تھا۔
کیوں؟
ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان جس شہر کو فتح کرتے ہیں سب سے پہلے وہاں کی خوبصورت عورتوں کو اکٹھا کرکے آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔۔۔۔ ادھیڑ عمر عورت نے کہا۔۔۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مسلمان وحشی قوم ہے اور ان کی خصلت درندوں جیسی ہے ،جب شہر کے دروازے کھولے گئے تھے تو جوان عورتوں اور جوان لڑکیوں کو جہاں جگہ ملی وہاں چھپا دیا گیا تھا ،لیکن ایسے نہ ہوا جیسے ہمیں بتایا گیا تھا ،آج پتہ چلا کہ آپ نے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے اگر آپ کی فوج نے وہ سب کچھ کرنا ہوتا جس سے ہمیں ڈرایا گیا تھا تو اب تک کرچکی ہوتے، ہم جہاں جہاں چھپی ہوئی تھی وہاں سے نکلیں پھر ہم باہر آئیں اور ہر طرف گھومتی پھرتی رہیں، آپ کی فوج نے ہماری طرف دیکھا بھی نہیں۔
تمہیں کیا ڈر تھا؟،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہاری جوانی پیچھے رہ گئی ہے اور تم بڑھاپے میں داخل ہو گئی ہو۔
میں ان لڑکیوں کو آپ کے پاس لائی ہوں۔۔۔ ادھیڑ عمر عورت نے کہا۔۔۔ آپ دیکھیں یہ کتنی خوبصورت ہیں، کیا کوئی فاتح انہیں نظرانداز کرسکتا ہے؟،، انہوں نے مجھے کہا تھا کہ یہ آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے آپ کے پاس آنا چاہتی تھیں، انہوں نے مجھے کہا میں ان کے ساتھ چلو ،جسے تم نے عجیب سمجھ رکھا ہے۔
یہ ہمارے لیے عجیب نہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہم اتنی دور سے یہاں کوئی دنیا کا اور عیش و عشرت کا لالچ لیکر نہیں آئے ،اور نہ ہی ہم نے تمھیں غلام بنایا ہے ،تمہاری عزت اور جان و مال کی حفاظت ہمارا فرض ہے یہ ہمارے مذہب کا حکم ہے،،،، تم سب اپنے گھر کو چلی جاؤ۔
ان لڑکیوں کے انداز سے پتہ چلتا تھا جیسے وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہتیں، ایک تو وہ غیر معمولی طور پر حسین اور دلکش تھیں، دوسرے ان کے ناز و انداز تھے جو اشتعال انگیز تھے ۔
کچھ دیر بعد محمد بن قاسم کے ایک بار پھر کہنے پر یہ لڑکیاں کمرے سے نکلنے لگیں لیکن ایک لڑکی جو ان سب میں بہت زیادہ خوبصورت تھی وہیں کھڑی رہی۔
میں کچھ دیر اور آپ کے سائے میں رہنا چاہتی ہوں ۔۔۔اس لڑکی نے محمد بن قاسم سے کہا۔
کیا کروں گی یہاں رہ کر؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
آپ انسان نہیں لگتے۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔آپ اوتار ہیں میں کچھ جاننا چاہتی ہوں کچھ سمجھنا چاہتی ہوں۔
ادھیڑ عمر عورت دوسری لڑکیوں کے ساتھ باہر نکل گئی اور لڑکی جو اندر رہ گئی تھی وہ باہر نہ آئی ،کچھ دیر انتظار کر کے یہ عورت لڑکیوں کو ساتھ لے کر چلی گئی کچھ دیر بعد ترجمان بھی باہر نکل آیا اور یہ لڑکی اندر ہی رہی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تین چار روز بعد یہ خبر نیرون شہر میں پھیل گئی کے ہندوؤں کے مندر کا بڑا پنڈت اپنے کمرے میں مرا پڑا ہے ،محمد بن قاسم نے غیرمسلموں کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی ہندو اپنے مندر میں جاتے تھے اور بدھ اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتے تھے ،یہ خبر محمد بن قاسم تک بھی پہنچی اس نے حکم دیا کہ معلوم کیا جائے کہ پنڈت کس طرح مرا ہے۔ جاسوسوں کا سربراہ شعبان ثقفی گیا تو اس نے لاش کو دیکھتے ہی کہا کہ اسے زہر دیا گیا ہے، اس نے محمد بن قاسم کو یہی رپورٹ دی۔
اب یہ معلوم کرو کہ اسے زہر دینے والا کوئی مسلمان تو نہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔ شعبان ثقفی نے مندر کے چھوٹے پنڈتوں اور ان کے ان بالکو کو جو مندر میں رہتے تھے اکٹھا کر لیا اور باری باری ان سے پوچھا کہ ان میں سے پنڈت کے ساتھ کسی کی دشمنی تو نہیں تھی، یہ انکشاف ہوا کے ایک بڑی خوبصورت لڑکی آدھی رات کے وقت مندر میں آئی تھی اور وہ بڑے پنڈت کے کمرے میں چلی گئی تھی، کسی کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کس وقت وہاں سے نکلی تھی ۔
اس لڑکی کا نام شومو رانی تو نہیں ؟،،،،شعبان ثقفی نے پنڈتوں سے پوچھا۔
یہی نام ہے۔۔۔۔ ایک پنڈت نے کہا۔
اس لڑکی کا نام اس پنڈت کے سوا اور کوئی نہیں جانتا تھا ،جب ثشعبان ثقفی نے یہ نام سنا تو وہ مندر میں گیا اور پنڈت کے کمرے میں اچھی طرح دیکھا وہاں ایک پیالہ پڑا ہوا تھا جس میں ایک دو گھونٹ شربت بچہ ہوا تھا شعبان ثقفی نے یہ پیالہ اٹھا لیا اور مندر سے باہر آ گیا اس نے کہا کہ ایک کتّا یا بلی لائی جائے۔ دو تین آدمی ایک کتے کو پکڑ لائے شعبان ثقفی کے کہنے پر کتے کا منہ کھولا گیا اس نے پیالے میں بچاہوا شربت کتے کے منہ میں انڈیل دیا پھر اس نے کہا کہ اسے چھوڑ دو، کتے کو چھوڑ دیا گیا ڈرا ہوا کتا ایک طرف دوڑ پڑا لیکن زیادہ دور نہ جا سکا دوڑتے دوڑتے روکا اور وہیں رک گیا پھر اس کا جسم بالکل ہی ساکت ہو گیا۔
وہ لڑکی کہاں ہے ؟،،،،شعبان سفینے مندر کے پنڈتوں اور پجاریوں سے پوچھا۔
سب نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔
شعبان سختی نے ان سب کو مندر کی دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا وہ سات آٹھ تھے شعبان ثقفی نے دس بارہ تیر اندازوں کو بلایا اور انہیں ان سب کے سامنے پندرہ بیس قدم دور کھڑا کرکے کہا کہ کمانوں میں ایک ایک تیر چڑھا لیں۔
اب وہی زندہ رہے گا جو بتائے گا کہ لڑکی کہاں ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے ان ہندوؤں سے کہا ۔۔۔کون بتائے گا۔
شعبان ثقفی نے چند لمحے انتظار کیا ان میں سے کوئی بھی نہ بولا شعبان نے تیر اندازوں کو اشارہ کیا تو انہوں نے کمانیں سیدھی کر کے کھینچ لیں، میں بتاؤں گا ان میں سے ایک بلبلا اٹھا۔
شعبان ثقفی نے اسے الگ کرلیا اس آدمی نے بتایا کہ انہیں رات کو ہی پتہ چل گیا تھا کہ شومو نے پنڈت کو زہر پلا کر مار دیا ہے ،پتہ اس طرح چلا کے ایک پنڈت بڑے پنڈت کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا اور شومو باہر نکل رہی تھی اس پنڈت نے دیکھا کہ بڑاپنڈت بستر پر تڑپ رہا تھا وہ بڑی مشکل سے اتنا ہی کہہ سکا کہ اسے پکڑ لو مجھے زہر پلا گئی ہے۔ شومو کو پنڈت کے کہنے پر پکڑ لیا گیا اور صبح جب شہر کے دروازے کھلے تو لڑکی کو مردانہ لباس پہنا کر باہر لے گئے۔
کہاں ؟،،،،شعبان ثقفی نے پوچھا۔
وہ تو اروڑ کا آدھا راستہ طے کر چکے ہوں گے ۔۔۔پنڈت نے بتایا ۔۔۔اروڑ پہنچتے ہی اسے قتل کردیا جائے گا۔
ہاں ۔۔۔۔شعبان ثفی نے کہا ۔۔۔پنڈت کا قتل معمولی جرم نہیں ہوسکتا ہے۔
اس لڑکی کو پہلے کچھ دن اذیتیں دی جائیں گی۔۔۔ اس ہندو نے کہا۔۔۔ اس کا جرم صرف یہ نہیں کہ اس نے پنڈت کو زہر دے کر مارا ہے، بلکہ اس کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اسے جس آدمی کو زہر دینے کے لئے بھیجا گیا تھا اسے اس نے نہیں دیا اور پنڈت کی جان لے لی ۔
زہر کسے دینا تھا؟،،،، ثعبان ثقفی نے پوچھا۔ آپ کے سالار محمد بن قاسم کو۔۔۔ اس نے جواب دیا۔
لڑکی نے مندر میں واپس آکر بتایا ہوگا کہ اس نے ہمارے سالار کو زہر کیوں نہیں دیا ۔
نہیں !،،،،،اس نے جواب دیا ۔۔۔وہ آئی اور پنڈت کے کمرے میں چلی گئی تھی۔
اس مندر میں اور کیا سازش ہورہی تھی۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اگر تم بیمار کتے کی طرح تڑپ تڑپ کر مرنا نہیں چاہتے تو سچ بولنا اس وقت تمہاری زندگی میرے ہاتھ میں ہے۔
جھوٹ نہیں بولوں گا ۔۔۔اس نے کہا۔۔۔ رات کو ایک عورت کچھ لڑکیوں کو ساتھ لے کر آپ کے سالار کے پاس گئی تھی یہ ایک سازش تھی ہمیں بتایا گیا تھا کہ مسلمان خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کے دلادہ ہیں ،ہمارے راجہ کا وزیر بدہیمن دانش مند آدمی ہے وہ کہتا تھا کہ عربی فوج کا سالار نوجوان ہے اور وہ اس جال میں آ جائے گا اور عیش و عشرت میں مگن ہو کر پیش قدمی روک دے گا، شومو نے اس کے پاس ٹھہرنا تھا اور اس پر اپنا جادو چلائے رکھنا تھا، پھر ایک روز ہمارے راجہ نے آپ کی فوج کو محاصرے میں لے کر ختم کر دینا تھا محاصرہ یا حملہ ہوتے ہی شومو نے آپ کے سالار کو زہر دے دینا تھا ۔
کس طرح؟
لڑکی نے جو انگوٹھی پہن رکھی تھی اس کے اوپر ڈھکنا لگا ہوا تھا ۔۔۔اس نے جواب دیا۔۔۔ قریب سے دیکھ کر بھی کسی کو شک نہیں ہوتا تھا کہ انگوٹھی پر ڈھکنا لگا ہوا ہے اور اس کے نیچے اتنا زہریلا سفوف بھرا ہوا ہے جو چند لمحوں میں انسان کی جان لے سکتا ہے، اس لڑکی نے بڑی آسانی سے آپ کے سالار کے پانی یا شربت میں انگوٹھی کا ڈھکنا اٹھا کر زہر ڈال دینا تھا ،لیکن میں یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ سازش الٹ کیسے گئی ،آپ نے میری جان بخشی کی ہے میں اس کا یہ صلہ دیتا ہوں کہ آپ کو خبردار کر رہا ہوں کہ اپنے سالار کو بچا کر رکھنا ،یہ ہندوستان ہے یہ اصرار اور طلسمات کی سرزمین ہے ،آپ قلعے سر کر سکتے ہیں میدان جنگ میں لڑ سکتے ہیں لیکن ایک نہ ایک دن آپ اور آپ کا سالار اس طلسم ہوش ربا میں گم ہوجائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہندوؤں نے اتنی تیزی سے کارروائی کی تھی کہ اس ادھیڑ عمر عورت اور تمام لڑکیوں کو بھی نیرون سے نکال دیا تھا، مندر میں جتنے پنڈت اور ان کے آدمی تھے ان سب کو گرفتار کر لیا گیا تھا،ان سب نے اپنے جرم کا اعتراف کر کیا تھا کہ وہ محمد بن قاسم کو قتل کرنے کی سازش پر عمل کر رہے تھے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سازش کا خالق راجہ داہر کا وزیر بدہیمن ہے اور مائیں رانی بھی اس کے ساتھ شامل ہے۔
ہم نے تمہیں مذہب کی آزادی دے دی تھی۔۔۔ شعبان ثقفی نے مندر کے بڑے پنڈت سے کہا۔۔۔ اور ہم نے تمہیں اس پر بھی مجبور نہیں کیا کہ اسلام قبول کر لو لیکن تم نے ہماری اس فیاضی کا یہ صلہ دیا کہ ہمارے سالار کو قتل کرنے کی سازش کی اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہو۔
ارے عرب سے آنے والے حملہ آور۔۔۔ پنڈت نے عجیب سی مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔میں اپنے آپ کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کرسکتا ہوں ،لیکن میں مذہب سے محروم نہیں ہو سکتا، ہم نے آپ کے صرف سالار کو قتل نہیں کرنا تھا قتل ہونے والوں میں آپ بھی شامل تھے، اور آپ کے تمام چھوٹے بڑے سالاروں کو بھی ہم نے قتل کرنا تھا،،،،،،،،، آپ کے ساتھ ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں یہ ہمارے مذہب کا معاملہ ہے ہم نے یہ سوچ کر اتنا بڑا خطرہ مول لیا تھا کہ ہم پکڑے گئے تو قتل کردیئے جائیں گے، جس طرح آپ اپنے مذہب اور عقیدے پر جان قربان کردیتے ہیں اسی طرح ہم بھی اپنے مذہب پر قربان ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
تم کم عقل ہو پنڈت !،،،،شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ باطل کے پجاریوں کا یہی انجام ہوتا ہے، خدا ان کی عقل پر پردے ڈال دیتا ہے ان کے کان بند ہو جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں ، دیکھ بھی سکتی ہیں لیکن انہیں نظر کچھ بھی نہیں آتا اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ فریب نظر آتا ہے اور وہ باطل کی پرچھائیاں ہوتی ہیں۔
اے نادان عرب!،،،، پنڈت نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔میں تیرے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتا، میری گردن تیرے جلاد کی تلوار کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہے،،،،،،،،، اور میں تجھے یہ بتا دیتا ہوں کہ تم اس خطے میں اسلام تو پھیلا دو گے لیکن ہندومت زہر کی طرح اس خطے کے لوگوں کی رگوں میں موجود رہے گا، اور آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا رہے گا، ہماری روحیں بدروحیں بن کر اس خطے پر منڈلاتی رہیں گی ،،،،پنڈت نے ہاتھ آگے کیا اور شہادت کی انگلی اوپر کرکے کہا ،،،،میری پیشن گوئی سن لے تمہارے سالار محمد بن قاسم نے آخر قتل ہونا ہے ،اگر وہ ہندوؤں کے ہاتھوں قتل نہ ہوا تو اپنوں کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا ۔
وہ کیوں؟،،،،،، شعبان ثقفی نے پوچھا ۔
میری آنکھیں بہت دور تک دیکھ سکتی ہیں ۔۔۔پنڈت نے کہا ۔۔۔تمہاری قوم کا زوال شروع ہو چکا ہے۔۔۔۔ اے عرب کے سالار !،،،،میں جوتشی اور نجومی نہیں میں اپنی عقل کی آنکھوں سے جو دیکھ رہا ہوں وہ بتا رہا ہوں۔
تم عقل کے کورے ہو پنڈت!،،،، شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔اور پنڈت کو اپنے سپاہیوں کے حوالے کردیا۔
اسی روز محمد بن قاسم نے حکم دے دیا کہ مندر بند کر دیے جائیں اور ہندو گھروں میں عبادت کیا کریں، اس کے ساتھ ہی محمد بن قاسم نے یہ حکم بھی دیا کہ ان تمام پنڈتوں اور ان کے آدمیوں کو جو اس سازش میں شریک تھے قتل کردیا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت جب ان سب کو قتل کیا جارہا تھا راجہ داہر کی راجدھانی اروڑ میں شومو ایک ایسی مجرم کی حیثیت سے بدہیمن اور مائیں رانی کے سامنے کھڑی تھی جس نے قتل سے زیادہ سنگین جرم کیا تھا۔
اسے وہاں تک بھوکا اور پیاسا پہنچایا گیا تھا، تمام راستے اس کے ہاتھ رسیوں سے بندھے رہے تھے سفر کی صعوبت بھوک اور پیاس سے اسکی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ وہ اچھی طرح کھڑی بھی نہیں ہو سکتی تھی۔
بدہیمن اور مائیں رانی اس سے پوچھتے تھے کہ اس نے محمد بن قاسم کی بجائے اپنے پنڈت کو زہر کیوں دیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں وہ صرف اتنا کہتی تھی کہ پانی پلاؤ ،لیکن اسے پانی نہیں دیا جا رہا تھا۔
اگر میں پیاس سے مر گئی تو تمہیں اس سوال کا جواب کون دے گا۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ میں جھوٹ تو نہیں بول رہی کہ تم مجھے پیاسا رکھ کر سچ بولنے پر مجبور کر رہے ہو۔
آخر اسے پانی پلایا گیا اور کھانے کے لئے بھی کچھ دیا گیا۔
اس انتہائی حسین لڑکی نے جو بیان دیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ سازش کے تحت وہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ محمد بن قاسم کے پاس گئی ان کے ساتھ جو ادھیڑ عمر عورت تھی اس نے محمد بن قاسم کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی فوج نے شہر کی عورتوں کی عزت آبرو کا پورا پورا خیال رکھا ہے، پھر جس طرح انھیں ٹریننگ دی گئی تھی اس کے مطابق شومو محمد بن قاسم کے پاس بیٹھ گئی، دوسری سب لڑکیاں باہر نکل گئیں وہ چونکہ اس ڈرامے کو جانتی تھی اس لئے انہوں نے اس لڑکی کا انتظار نہ کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تم جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے اسے کہا۔۔۔ وہ تمہارا انتظار کر رہی ہوں گی۔
کیا آپ مجھے کچھ دیر اور اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں دے سکتے؟،،،، شومو نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا۔۔۔ اب لڑکی نے عربی بولنی شروع کردی۔
تم عرب کی بیٹی نہیں ،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔ہماری زبان کہاں سے سیکھی ہے۔
میں نے صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکران میں رہنے والے ایک عرب سے یہ زبان سیکھی ہے۔ مجھے عربی آدمی اچھے لگتے ہیں ،اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ مجھے کچھ دیر تنہائی میں اپنے پاس بیٹھنے دو۔
کیا کرو گی میرے پاس بیٹھ کر؟
میں جانتی ہوں کہ ایسا حکم آپ نے ہی دیا ہو گا کہ شہر کے لوگوں کو اور ان کی عورتوں کو پریشان نہ کیا جائے۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا درجہ اوتار سے کم نہیں، میرا خیال تھا کہ آپ بہت بوڑھے ہوں گے اتنے دانشمندی کسی معمر آدمی میں ہی ہوسکتی ہے، لیکن آپ کو دیکھا تو پتہ چلا کہ آپ اپنی سیرت اور فطرت سے زیادہ خوبصورت ہیں، میں تو آپ کی پجارن بن گئی ہوں۔
تمہارے مذہب میں یہی خرابی ہے کہ تم کسی انسان سے متاثر ہوتے ہو تو اس کی پوجا کرنے لگتے ہو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کیا تم جس سے ڈرتے ہو اس کی پجاری بن جاتے ہو، میں جو بھی حکم دیتا ہوں وہ اپنے اللہ کے احکام کے مطابق ہوتا ہے ۔
میں تو اپنا مذہب بھی چھوڑنے پر تیار ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ اگر آپ مجھے اپنے پاس رکھ لیں تو میں واپس نہیں جاؤں گی۔
میں تمہیں صرف ایک صورت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہوں کہ تمہارے ساتھ شادی کر لوں۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ لیکن میں شادی کرنے نہیں آیا ،اور نہ میں ان بادشاہوں میں سے ہوں جو کسی شہر کو فتح کرکے وہاں کی خوبصورت لڑکیوں میں سے ایک دو انتہائی حسین لڑکیوں کو اپنی بیوی یا داشتائیں بنالیتے تھے، میں یہاں کسی مقصد کے لیے آیا ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس لڑکی نے بدہیمن اورمائیں رانی کو تفصیل سے سنایا کہ اسے جس طرح بتایا سمجھایا اور سنایا گیا تھا اس نے محمد بن قاسم کے جذبات کو مشتعل کرنے کی بہت کوشش کی، الفاظ سے حرکات سے اپنے اوپر جذبات کی دیوانگی طاری کرکے بھی اس کی جوانی کو بھڑکانے کی کوشش کی لیکن وہ یوں ہنستا اور مسکراتا رہا جیسے اس کا جسم بہت بوڑھا اور آسمان سے گرنے والے اولوں کے مانند یخ بستہ ہو چکا ہے۔
آخر اس کم عمر سالار نے اس لڑکی کو اس طرح اپنے پاس بلایا جیسے اولوں کا انبار پگھل گیا ہو، شومو اس کے سامنے اتنی قریب جا کھڑی ہوئی کہ اس کا لباس محمد بن قاسم کے لباس کو چھو رہا تھا ،محمد بن قاسم نے شومو کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا شومو نے اپنا دوسرا ہاتھ محمد بن قاسم کے ہاتھ پر رکھ دیا، وہ بہت خوش ہوئی کہ اس نے شکار مار لیا ہے، محمد بن قاسم کا انداز ہی ایسا تھا جیسے اس پر لڑکی کے حسن کا طلسم طاری ہو گیا ہو۔
محمد بن قاسم نے اس کی وہ انگلی پکڑ لی جس میں انگوٹھی تھی، یہ سونے کی وزنی انگوٹھی تھی اس کا اوپر والا حصہ ذرا بھرا ہوا تھا اور بہت اچھا لگتا تھا۔
بہت خوبصورت انگوٹھی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے انگوٹھی کے اوپر والے حصے پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
آپ رکھ لو ۔۔۔۔شومو نے کہا۔۔۔ شاید آپ کی چھوٹی انگلی میں آجائے۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اس میں میرے لئے جو لائی ہو وہ مجھے دے دو۔
شومو نے بڑی تیزی سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور دوسرا ہاتھ انگوٹھی پر رکھ دیا اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، محمد بن قاسم نے ہاتھ آگے کرکے اس کا انگوٹھی والا ہاتھ پھر پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچا شومو نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہ کی محمد بن قاسم نے انگوٹھی کے اوپر والے حصے پر اپنے انگوٹھے سے ذرا سا دباؤ ڈالا تو ڈھکنا کھل گیا اس نے دیکھا اس میں تھوڑا سا سفوف پڑا ہوا تھا۔
محمد بن قاسم کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ شومو کا رنگ پہلے ہی اڑ گیا تھا اب اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔
اب جھوٹ بولوں گی کہ تم میرے لئے نہیں لائی تھی؟
شومو نے آہستہ سے سر ہلایا اور اس کے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی،،،،، نہیں۔
تم نے زہر مجھے کس طرح دے سکتی تھی۔
میں سمجھی تھی یہ کام مشکل نہیں ہو گا۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ اگر مندروں میں بیٹھے ہوئے ہمارے پروہت مہاتما پنڈت اور رشی مجھ جیسی لڑکی کو دیکھ کر دوپہر کی دھوپ میں رکھے ہوئے موم کی طرح پگھل جاتے ہیں، تو میں خوش تھی کہ آپ جیسا نوجوان میرے اشاروں پر ناچے گا، مجھے بتایا گیا تھا کہ مسلمان شراب نہیں پیتے اور مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہمارے حسن اور جوانی کا نشہ شراب سے زیادہ مدہوش اور بد مست کرنے والا ہے، میں نے آپ پر اپنا نشہ طاری کرکے آپ کو پانی یا شربت بلانا تھا، اب اگر میں ایک بات کہوں گی تو آپ نہیں مانیں گے۔
تم نے جو کہنا ہے کہ دو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔
میں شاید آپ کو زہر نہ پلاتی۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ میں جو جذبہ لے کر آئی تھی اسے آپ کے سراپا اور آپ کے کردار نے توڑ دیا، آپ نہیں مانیں گے آپ کہیں گے کہ میں سزا سے بچنے کی کوشش کر رہی ہوں ،مجھ پر ایک کرم کریں مجھے سزا دینے کے لئے دوسروں کے حوالے نہ کریں مجھے یہ زہر اپنے منہ میں ڈال لینے دیں یہ زہر اتنا تیز ہے کہ مرتے ذرا دیر نہیں لگے گی، پھر میری لاش جہاں چاہیں پھینک دینا۔
نہیں لڑکی!،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اگر تم عرب ہوتی تو میں اپنی تلوار سے تمہارا یہ جسم ، جس میں تمہیں یہاں بھیجنے والے سمجھتے ہیں کہ شراب سے زیادہ نشہ ہے دو حصوں میں کاٹ دیتا، لیکن میری تلوار دشمن کی عورت پر نہیں اٹھے گی ،اسلام اتنا بے رحم مذہب نہیں میں تمہیں باقی عمر پچھتانے کے لیے اور تمہارے راجہ داہر اور اس کے وزیر کو شرمسار کرنے کے لئے یہاں سے زندہ بھیجوں گا۔
آپ انسان نہیں ۔۔۔شومو نے کہا۔۔۔ میں عربی میں بات کر رہی ہوں اس لئے آپ کو فرشتہ کہوں گی، پہلے میں نے آپ کو دھوکا دینے کے لیے کہا تھا کہ مجھے اپنے پاس رکھ لیں، لیکن اب میں سچے دل سے کہتی ہوں کہ مجھے اپنی لونڈی بنا لیں، آپ کے قریب نہیں آؤنگی آپ کو دیکھ کر زندہ رہوں گی مجھے اپنی پجارن بنالیں ۔
میں تمہارے ہر سوال کا اور ہر خواہش کا جواب دے چکا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم پہلے بھی تم جیسی تین چار لڑکیاں راجہ داہر کے پاس بھیج چکے ہیں، انہوں نے مکران میں پناہ گزین عربوں کے ساتھ شادیاں کر لی تھیں، تم شاید انہیں جانتی ہوگی وہ بھی داہر کے وزیر بدہیمن کی بھیجی ہوئی تھیں ان کا بھی وار خالی گیا تھا ،میں نے ان لڑکیوں سے کہا تھا کہ اپنے راجہ داہر سے کہنا کہ لڑائی مرد آمنے سامنے آکر لڑا کرتے ہیں اور لڑائی تلوار سے لڑی جاتی ہے۔
میں ان لڑکیوں کو جانتی ہوں۔۔۔ شومو نے کہا۔
اور اب تم بدہیمن سے اور اپنے راجہ سے کہنا کہ اے بے غیرت راجہ !سامنے آ ، کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ اروڑ کے قلعے کی دیواریں تجھے میری تلوار سے اور اللہ کی سپاہیوں کی پرچھیوں اور تیروں سے بچا لی گی۔
روایت ہے کہ یہ ہندو لڑکی محمد بن قاسم کے سامنے یوں دو زانو ہو گئی اور ہاتھ اپنی عبادت کے انداز سے جوڑ لئے جیسے محمد بن قاسم کوئی دیوتا ہو یا ہندو دیوی مالائی داستانوں کا کوئی طلسماتی کردار ہو ،لڑکی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔
اے بدقسمت لڑکی !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ ہم اس مذہب کے پیروکار ہیں جو عورت کو اپنی آبرو جانتا ہے، ہم عورت کی آن پر اپنی جان قربان کر دیا کرتے ہیں ،عورت سے جان کی قربانی نہیں مانگا کرتے، تم جانتی ہو گی کہ تیرے راجہ نے عربی مسلمانوں کے صرف جہاز ہی نہیں لوٹے بلکہ جہازوں کے مسافروں کو قید خانے میں ڈال دیا تھا، ہم نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے حملہ تو کرنا ہی تھا لیکن ذرا سوچ سمجھ کر، مجھ سے پہلے ہمارے دو سالار یہاں آ کر بہت بری شکست کھاکر مارے گئے تھے ،اس لیے ہم نے پوری تیاری کرکے حملہ کرنا تھا، لیکن میرے چچا حجاج بن یوسف کو ایک قیدی عورت کا پیغام ملا تو حجاج نے اسی وقت مجھے حکم بھیجا کہ جہاں کہیں بھی ہو اور کچھ بھی کر رہے ہو سب چھوڑ دو اور سندھ کو روانہ ہو جاؤ، تمہیں فوج مل جائے گی میں نے کوئی تیاری نہیں کی تھی میرے دل میں اللہ اور اللہ کے رسول کا نام تھا۔
اپنے قیدی رہا کرا لیے ہیں؟،،،شومو نے کہا۔
ہم نے اس پورے شہر کو ایک ظالم راجہ سے آزاد کرا لیا ہے جس شہر کے قیدخانے میں ہمارے قیدی تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ کیا تو اس راجہ کو ظالم نہیں کہے گی جو تجھ جیسی لڑکیوں کو اپنے دشمن کے پاس بھیج دیتا ہے، کیا تو نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ تیرا ایک خاوند ہو جو دلیر ہو، اور مردِ میدان ہو، اور تو اس کی بہادری پر فخر کرے۔
اے عرب کے بہادر شہزادے!،،،،، شومو نے کہا ۔۔۔میں اور مجھ جیسی بہت سی لڑکیاں اس قابل نہیں رہیں کہ ہم بیویاں بن کر عزت والے گھروں میں آباد ہوں، ہمارا شعور بیدار ہوا تو ہمیں یہ تربیت دی جانے لگی تھی، ہماری حِسّیں مار دی گئی ہیں ،ہم سب ان کے کھلونے ہیں جنہوں نے ہمیں اس کام کے لئے تیار کیا ہے، ہم اپنے پنڈتوں کا بھی دل بلایا کرتی ہیں، لیکن آپ نے آج میری حِسیّں بیدار کردی ہیں۔
اب تم چلی جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔کہاں جاؤں گی؟
بڑے مندر میں۔
میں تمہارے ساتھ دو محافظ بھیجوں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔
نہیں!،،،، شومو نے کہا ۔۔۔میں اکیلی جاؤں گی۔
اور وہ اکیلی چلی گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میں مرنے سے پہلے سب کچھ اگل دینا چاہتی ہوں ۔۔۔اس نے بدہیمن اورمائیں رانی کو محمد بن قاسم کی ملاقات کی تفصیل سنا کر کہا۔۔۔ میں مندر چلی گئی مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ مسلمانوں کا سالار میرے ساتھ ساتھ چلا آرہا ہے، یا شاید وہ جادوگر ہے اور اس نے مجھ پر جادو کر دیا ہے، میں جادو کے اثر میں چلتی مندر میں پہنچی میں نے ارادہ کیا تھا کہ انگوٹھی میں بھرا ہوا زہر اپنے منہ میں ڈال کر میں نے مٹی اور پتھر کے بتوں کو شرمسار کر کے مرنا تھا۔
بدہیمن نے اس کے منہ پر بھرپور تھپڑ مارا۔
کیا تو اس ملچھ مسلمان سے اتنی متاثر ہو کر آئی تھی کہ اپنے دیوتاؤں کی اور اپنے بھگوان کی بھی ہتیا کرنے پر اتر آئی تھی؟،،،،، بدہیمن نے دانت پیس کر کہا۔
میں اس کے جسم کی ایک ایک بوٹی کاٹ کر اسے مارونگی۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ یہ اس لٹیرے سالار کی بیوی پھر لونڈی بننا چاہتی تھی۔
رانی بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔۔۔ بدہیمن نے کہا ۔۔۔آگے بول کیا ہوا۔
شومو کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی جو اور زیادہ کھل گئی،،،،،، پھر یہ ہوا کہ میں مندر میں داخل ہوئی۔۔۔ شومو نے کہا ۔۔۔دوسری لڑکیاں مندر کے تہ خانے میں جا کر سو گئی تھیں صرف بڑا پنڈت جاگ رہا تھا۔
بدہیمن نے اس کے منہ پر ایک اور تھپڑ مارا کہا،،،، پنڈت جی مہاراج جاگ رہے تھے،،، بدہیمن نے کہا۔
میں نے جو کہہ دیا ہے پھر بھی وہی کہوں گی۔۔۔ شومو نے کہا۔۔۔ میرے دل سے جس کا احترام نکل گیا ہے اس کا نام نفرت سے لونگی۔
جو کہتی ہے اسے کہنے دو۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔۔۔بک کیا بکتی ہے۔
بڑا پنڈت میرے انتظار میں جاگ رہا تھا۔۔۔ شومو نے کہا ۔۔۔مجھے دیکھتے ہی اس نے پوچھا کہ کام کر آئی ہوں،،،،، میں نے کہا کر آئی ہوں،،،، پنڈت نے خوشی سے نعرہ لگایا اور بازو پھیلا کر آگے بڑھا اس نے مجھے بازوؤں میں سمیٹ لیا اور اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گیا ،اس کے تھوک کی بدبو ابھی تک میرے گالوں پر موجود ہے ،اس نے مجھے بستر پر گرا لیا اور بد مست سانڈ کی طرح پھنکارنے لگا، میرا ارادہ بدل گیا مرد کا وجود میرے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی اس کے پاس میں دو بار پہلے بھی آچکی تھی ،لیکن میں اب پتھر نہیں رہی تھی ،ایک وہ مرد تھا جس کے پاس مجھے بھیجا گیا تھا لیکن اس نے مجھے عزت سے رخصت کیا، گناہ کی دعوت کو بھی وہ میرا بہت بڑا گناہ سمجھتا تھا اسی جرم میں وہ مجھے قتل کرا سکتا تھا لیکن اس نے میری انگوٹھی میں زہر دیکھ کر بھی اور میرے اس اعتراف پر بھی کہ میں نے یہ زہر اسے دینا تھا اس نے مجھے بخش دیا اور کہنے لگا کہ میں تمہارے ساتھ اپنے محافظ بھیجوں گا ،ایک یہ مرد ہے جس کے دل میں مندر کا بھی احترام نہیں،،،،،،،،،،،،،
میں نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ تم لوگ مجھے سزائے موت ہی دو گے تو میں خود ہی یہ زہر منہ میں ڈالوں گی ،لیکن میرے دل میں اس پنڈت کی ایسی نفرت بیٹھ چکی تھی کہ میرا ارادہ بدل گیا، میں یہ کہتے ہوئے بستر سے اٹھی کے پانی پی لو میں نے پنڈت سے کہا کہ آپ بھی پانی پی لیں ،پنڈت نے کہا کیا یہ رات پانی پینے والی ہے، یہ کہہ کر اس نے طاق نے سے ایک صراہی اور دو پیالے اٹھائے اور بولا یہ پیو اور ہمیں بھی پلاؤ، میں نے دونوں پیالوں میں صراحی سے تھوڑی تھوڑی شراب ڈالی میری پیٹھ پنڈت کی طرف تھی میں نے انگوٹھی کھول کر زہر اس کے پیالے میں ڈال دیا اور ذرا سا ہلا کر پیالہ اس کے ہاتھ میں دے دیا ،اس نے ایک ہی گھونٹ میں شراب پی لی مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ زہر اتنا تیز ہے،،،،،،،،،،
شراب کے چند گھونٹ اس کے حلق سے اترے ہی تھے کہ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی شہ رگ پر رکھی پھر اس کے ہاتھ اس کے سینے پر آگئے اس کے منہ سے صرف یہ الفاظ نکلے کہ تو نے کیا پلا دیا ہے، میں نے کہا پنڈت جی مہاراج یہ کسی نہ کسی کو تو پلانا ہی تھا،،،،،،،،،، میں باہر کو چل پڑی دروازے میں پہنچی تو اپنا ایک آدمی دروازے میں داخل ہوا کمرے میں فانوس جل رہا تھا پنڈت اب ایک ہاتھ سینے پر اور ایک پیٹ پر رکھے ہوئے آگے کو جھک گیا تھا، وہ آدمی دوڑ کر پنڈت تک پہنچا میں دروازے میں سے نکل گئی پنڈت نے مرتے مرتے اسے بتایا ہوگا کہ میں اسے زہر پلا کر جا رہی ہوں ،میں ایک طرف دوڑ پڑی ۔
کہاں جانا تھا تم نے ؟،،،مائیں رانی نے پوچھا۔
میں نے کچھ بھی نہیں سوچا تھا کہ میں کہاں جاؤں گی۔۔۔ شومو نے کہا ۔۔۔میں اپنے آپ میں تھی ہی نہیں اب یاد آتا ہے کہ میرا رخ کس طرف تھا جدھر مسلمان کے سالار رہتے تھے، لیکن مجھے رخ بدلنا پڑا کیونکہ مجھے اپنے پیچھے دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی وہ مجھے پکڑنے کے لیے آ رہے تھے، میں ایک گلی میں داخل ہوگئی لیکن آگے سے یہ گلی بند تھی اور اس طرح انہوں نے مجھے پکڑ لیا، مجھے واپس مندر میں لے گئے پنڈت مر چکا تھا پھر تم لوگ جانتے ہو کہ مجھے یہاں تک کس طرح پہنچایا گیا۔
اگلے روز صبح سویرے اس ادھیڑ عمر عورت کو جو لڑکیوں کے اس گروہ کو محمد بن قاسم کے پاس لے گئی تھی اور ان تمام لڑکیوں کو سواریوں میں بند کرکے اونٹوں پر لاد کر شہر کے بڑے دروازے سے نکالا گیا تھا، اسکے بعد یہ خبر نکالی گئی تھی کہ بڑا پنڈت مر گیا ہے۔
اس لڑکی کو بیدردی سے مارا گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس رات شومو محمد بن قاسم کے پاس آئی تھی اس سے اگلی صبح شعبان ثقفی محمد بن قاسم کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ ابھی ایسی خبر ملی ہے کہ مندر کا بڑا پنڈت مرا پڑا ہے ،شعبان ثقفی نے یہ بھی بتایا کہ اس نے لاش دیکھی ہے لاش کی حالت سے اور پنڈت کے منہ سے نکلی ہوئی جھاگ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسے زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے۔
ہاں !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اسے زہر ہی دیا گیا ہوگا، اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اسے زہر کس نے دیا ہے،،،،،، میں تمہیں بلانے ہی لگا تھا ،رات کو میرے یہاں کچھ مہمان آئے تھے ،،،،محمد بن قاسم نے شعبان ثقفی کو رات کا سارا واقعہ سنایا ،شومو کی ہر ایک بات اور ہر ایک حرکت سنائی۔
میں نے تمہیں یہ کہنا تھا کہ یہ مندر بند کر دو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ یہ راجہ داہر کے تخریب کاروں کا خفیہ اڈہ بن گیا ہے،،،،، مجھے یقین ہے کہ پنڈت کو زہرا سی لڑکی نے دیا ہے، جو رات کو میرے پاس آئی تھی۔
شعبان ثقفی دوڑا مندر تک پہنچا اس نے دیکھا کہ ایک پیالے میں تھوڑا سا پانی باقی تھا یہ چند قطرے دراصل شراب تھی پانی نہیں تھا، شعبان ثقفی نے ایک کتا منگوایا اور چند قطرے اس کے منہ میں انڈیلے اتنے سے زہر سے ہی کتا مر گیا ،اس کے بعد شعبان ثقفی نے جو کاروائی کی وہ پہلے سنائی جاچکی ہے۔
ابن قاسم !،،،،،،شعبان ثقفی نے مندر سے واپس آکر محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ آپ شاید ان خطروں کو خاطر میں نہیں لا رہے جو آپ کے اور ہم سب کے ارد گرد منڈلا رہے ہیں، آپ جنگی چالوں اور حرب و ضرب کے ماہر ہو سکتے ہیں لیکن دشمن کی ان چالوں کو نہیں سمجھ سکتے جو وہ زمین کے نیچے چلتا ہے، اور میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ جو میں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں وہ آپ نہیں سمجھ سکتے، آئندہ کوئی بھی اجنبی مرد یا عورت میری اجازت کے بغیر آپ تک نہیں پہنچے گا۔
شعبان ثقفی ادھیڑ عمر آدمی تھا اور جاسوسی اور سراغ رسانی کے معاملے میں اس کی ذہانت عرب کی تمام تر فوج میں مشہور تھی، ان معاملات میں محمد بن قاسم اسکے سامنے محض ایک طفل مکتب تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کو نیرون بغیر لڑے مل گیا تھا وہاں تک منجنیقیں کشتیوں پر لے جائی گئی تھیں، جب نیرون کا محاصرہ کیا گیا تھا تو تمام منجنیقیں ساتھ نہیں لے جائی گئی تھیں ان میں سے چند ایک محاصرے کے ساتھ رکھی گئی تھیں باقی سب کشتیوں میں ہی رہنے دی گئی تھیں اور کشتیاں دریا ساکرہ کے کنارے بندھی ہوئی تھیں، دریائے نیرون سے کچھ میل دور سب سے بڑی منجنیق عروس ابھی دریا میں تھی، تمام منجنیقیں محاصرے میں استعمال نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ محمد بن قاسم کو معلوم تھا کہ نیرون کے حاکم سندر شمنی نے حجاج بن یوسف کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے اور اس نے جزیہ کی ادائیگی بھی قبول کر لی ہے ،توقع یہ تھی کہ نیرون میں مزاحمت نہیں ہوگی۔
چونکہ اس تمام علاقے پر محمد بن قاسم کی فوج کا قبضہ ہوچکا تھا اس لئے ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ ان منجنیقوں کو جو ابھی کشتیوں پر رکھی تھیں کوئی نقصان پہنچائے گا ،پھر بھی پوری رات دریا کے کنارے منجنیقوں کے لیے گشتی پہرہ رہتا تھا، وہاں ماہی گیروں کی کشتیاں بھی بندھی رہتی تھیں، ان سب کو وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
محمد بن قاسم کی اگلی منزل سہون تھی راستے میں چھوٹے چھوٹے ایک دو قلعے اور بھی تھے لیکن ان کے متعلق محمد بن قاسم کو کوئی غم نہ تھا ،سندر شمنی نے محمد بن قاسم کو بتایا تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے قلعے کس نوعیت کے ہیں اور انہیں سر کرنا کتنا آسان ہے ،سہون کا حاکم بھی بدھ تھا ۔
بدھ جنگ و جدل اور کسی بھی قسم کی خونریزی کو گناہ سمجھتے تھے اس لئے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ سہون بھی کسی مزاحمت کے بغیر مل جائے گا، لیکن وہاں کی فوج ہندو تھی اس لیے یہ خطرہ تھا کہ یہ فوج پورا مقابلہ کرے گی۔
سندر شمنی نے اپنا ایک ایلچی سہون کے حاکم کی طرف بھیج دیا تھا اس نے سہون کے حاکم کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ لڑائی سے گریز کرے اور جب مسلمان فوج وہاں پہنچے تو قلعے کے دروازے کھول دے، یہ جاسوس ابھی واپس نہیں آیا تھا ،اسی لئے محمد بن قاسم کوچ نہیں کر رہا تھا ،رسد اور کمک کا بھی انتظار تھا۔
ایک روز اطلاع ملی کہ منجنیقوں والی کشتیوں پر جو سپاہی رات کو پہرہ دیتے ہیں ان میں سے دو مرے پڑے ہیں اور دو لاپتہ ہیں۔
پہرہ دینے کا طریقہ یہ تھا کہ چھ سات دنوں کے لئے چار سپاہی وہاں چلے جاتے تھے اور وہاں ایک خیمے میں رہتے تھے، دو دو آدمی باری باری تھوڑے سے وقت کے لئے ٹہلتے ٹہلتے تمام کشتیوں کو جو دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں دکھ آتے تھے، یہ واقعہ بڑا عجیب تھا کہ دو سنتری غیر حاضر تھے اور دو مرے پڑے تھے دونوں کو خنجر مارے گئے تھے۔
محمد بن قاسم اور شعبان ثقفی اپنے محافظ دستے کے ساتھ وہاں پہنچے انہوں نے دیکھا کہ دونوں کی لاشیں دریا کے کنارے ایک دوسرے سے کچھ دور پڑی ہوئی تھیں، شعبان ثقفی نے زمین دیکھی قدموں کے جو نشان تھے ان سے پتا چلتا تھا کہ زیادہ لڑائی نہیں ہوئی دونوں کی تلواریں نیام میں تھیں جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں مقابلے کا موقع ملا ہی نہیں تھا۔
ان پر اچانک حملہ کیا گیا ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔یہ کسی دھوکے میں مارے گئے ہیں ۔
تو کیا ان کے قاتل ان کے اپنے ہی ساتھی ہیں جو لاپتہ ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔خدا کی قسم میں یہ بات نہیں مانوں گا۔
شعبان ثقفی نے زمین کو دیکھنا شروع کیا یہ غیر آباد اور ریتیلا علاقہ تھا ،قدموں کے نشان صاف نظر آ رہے تھے انھیں دیکھ دیکھ کر شعبان ثقفی کنارے سے دور ہی دور ہٹتا گیا اور یہ نقوش پا اسے مقتول سنتریوں کے غیرحاضر ساتھیوں کی لاشوں تک لے گئے ،ان دونوں کو بھی خنجروں سے مارا گیا تھا وہاں سے زمین کو دیکھتے ہوئے شعبان ثقفی چل پڑا اور یہ نقوش پا دریا کے کنارے پر اس جگہ آ گئے جہاں منجنیق والی آخری کشتی کھڑی تھی۔
جب منجنیقیں گنی گئیں تو پتہ چلا کہ ایک چھوٹی منجنیق کم ہے۔
شعبان ثقفی نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ یہ دشمن کی کارروائی ہے وہ ایک منجنیق لے گیا ہے۔
یہ معلوم کرنا بہت مشکل تھا کہ ایک منجنیق کو کس طرح لے جایا گیا ،شعبان ثقفی نے اس خطرے کا اظہار کیا کہ اب راجہ داہر بھی اپنے کاریگروں کو یہ منجنیق دکھا کر منجنیقیں بنوا لے گا۔
منجنیق عربوں کی ایجاد ہے، پہلی منجنیق ہندوستان میں عرب لائے تھے، یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ منجنیقوں کی افادیت دیکھ کر راجہ داہر یا اس کے دانشمند وزیر نے یہ سوچا ہوگا کہ کسی طرح ایک منجنیق ہاتھ آ جائے اور اس طرح کی منجنیقیں تیار کر لی جائیں، عربوں نے عروس جیسی منجنیق بنا لی تھی جس سے اتنے وزنی پتھر اتنی دور تک پھینکے گئے تھے کہ مندر کو توڑ دیا گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>