⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴سولہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم یہ پیغام سن کر مسکرایا اس نے اپنے سالار و نائب سالاروں اور امیر محمد بن وداع نجدی کو بلایا اور ترجمان سے کہا کہ وہ ان سب کو یہ پیغام پڑھ کر سنائے، ترجمان نے پیغام ایک بار پھر پڑھا اور تمام حاضرین مسکرانے لگے۔
اس شخص نے مجھے مغرور کہا ہے ۔۔۔محمد بن قاسم نے شگفتہ سے لہجے میں کہا ۔۔۔کیا یہ شخص کم عقل اور کمینہ نہیں، میں جو جواب لکھوانا چاہتا ہوں وہ آپ سب سن لیں اور اپنی رائے اور مشورے دیں۔
محمد بن قاسم نے انہیں بتایا کہ وہ کیا لکھنا چاہتا ہے، سب نے مشورہ دیا کہ ایسے شخص کو شریفانہ جواب نہیں ملنا چاہیے ،سب نے جو مشورے دیے ان سے پیغام تیار ہوا ،محمد بن قاسم نے کاتب کو بلا کر پیغام لکھوایا یہ خط بھی تاریخوں میں محفوظ ہے، جو اس طرح ہے۔
یہ خط اس محمد بن قاسم ثقفی کی طرف سے ہے جو شرکش اور مغرور مہاراجوں اور بادشاہوں کا سر نیچا کرنا جانتا ہے ،اور جو مسلمانوں کے خون کا انتقام لیے بغیر نہیں رہتا ہے، تو کافر، جاہل ،مغرور، اخلاق کا منکر اور اپنی سگی بہن کا خاوند ہے ،اور جسے احساس نہیں کہ وقت اور زمانہ بدلتے دیر نہیں لگتی اور حالات تکبر اور غرور کو کچل دیتے ہیں،،،،،
تم نے جہالت اور حماقت سے جو لکھا ہے وہ میں نے پڑھا ہے، اس میں سوائے تکبر و غرور اور چھچھورے پن کے کچھ بھی نہیں ،مجھے اس سے بھی واقفیت ہوئی کے تمہارے پاس طاقت ہے ہتھیار ہیں اور ہاتھی بھی ہیں، میں نے سمجھ لیا کہ تم انہی چیزوں پر بھروسہ کرتے ہو، میرے پاس طاقت بھی کم ہے اور ہاتھی بھی نہیں لیکن ہماری سب سے بڑی طاقت خداوند تعالی کا کرم اور فضل ہے،،،،،
اے عاجز انسان !سواروں، ہاتھیوں ،اور لشکر پر کیوں ناز کرتا ہے، ہاتھی تو ایک کمزور اور انسان جیسا عاجز جانور ہے جو ایک مچھر کو بھی اپنے جسم سے نہیں ہٹا سکتا ،اور تم میرے جن گھوڑوں اور سواروں کو اپنے ملک میں دیکھ کر حیران اور پریشان ہو گئے ہو وہ اللہ کے سپاہی ہیں اور اللہ کے فرمان کے مطابق فتح انہیں کے لیے لکھی گئی ہے، اور یہی غالب آئیں گے کیونکہ یہ اللہ کی جماعت ہے (حزب اللہ) ہیں،،،،،،،
ہم تمھارے ملک پر لشکر کشی کبھی نہ کرتے لیکن تمہاری بداعمالیوں ،اسلام دشمنی ،اور تکبر نے ہمیں مجبور کر دیا ہے، تم نے سراندیپ کے مسلمانوں کے بحری جہاز کو روک کر ان کو لوٹا اور پھر ان کو قید کر لیا حالانکہ خلیفۃ المسلمین کی برتری اور حکومت کو دنیا کے تمام ملک تسلیم کرتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ خلیفۃ المسلمین نبوت کا نائب ہوتا ہے۔
صرف تم ہو جس نے سرکشی کی اور ہمارے ساتھ دشمنی شروع کی ،تم بھول گئے تھے کہ تمہارے باپ دادا ہماری خلافت کو خراج ادا کرتے تھے جو تم نے روک دیا ہے، پھر تم نے بیہودہ حرکتیں کیں اور دوستانہ تعلقات رکھنے کی بجائے دوستی کے منکر ہوئے اور پھر تم نے اپنی اشتعال انگیز حرکتوں کو جائز سمجھا، تمہاری کرتوت کو دیکھتے ہوئے مجھے خلافت سے حکم ہوا کہ تمھیں سبق سکھاؤں مجھے یقین ہے کہ میرا اور تمہارا مقابلہ جہاں کہیں بھی ہو گا میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے جو ظالموں اور مغرورں کو مغلوب کرنے والا ہے تم پرغالب آؤں گا، اور تم ذلت کا منہ دیکھو گے تمہارا سر کاٹ کر عراق بھیجوں گا یا اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا،،،،،،،
جسے تم اپنے ملک پر لشکر کشی کہتے ہو یہ ہمارے لئے جہاد فی سبیل اللہ ہے ،میں نے یہ فرض اللہ تبارک و تعالی کی خوشنودی کے لئے قبول کیا ہے، اور میں اسی کی ذات کے فضل و کرم کا طلبگار ہوں وہی مجھے فتح عطا فرمائے گا۔
یہ پیغام راجہ داہر کے ایلچی کو دے کر رخصت کر دیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آج سندھ کے زمینی خدوخال وہ نہیں رہے جو آج سےایک ہزار دو سو سال پہلے تھے، دریائے سندھ نے بارہا اپنا راستہ بدلا ہے آج یہ بتانا ممکن نہیں کہ محمد بن قاسم کے دور میں سندھ کا راستہ کیا تھا، کون کون سی بستیاں اس کنارے اور کون سی اس کنارے تھیں ،اس وقت کی متعدد بستیوں اور قصبوں کے نام و نشان بھی نہیں رہے۔
دریائے سندھ کے معاون دریا بھی تھے یہ سب اب خشک نالے بن چکے ہیں ،چھوٹی بڑی ندّیاں بھی تھیں ان میں ایک ساکرہ نالہ بھی تھا جس کی گہرائی بڑی کشتیوں کے لئے کافی تھی۔
ایسے ہی برہمن آباد اس دور میں ایک شہر ہوا کرتا تھا راجہ داہر نے اپنے بیٹے جے سینا کو اس کے دستوں کے ساتھ برہمن آباد بھیج دیا تھا ،آج اس شہر کے کہیں کھنڈرات بھی نظر نہیں آتے، بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ یہ آج کا منصورہ ہے، مختلف مورخوں کی تحریروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برہمن آباد منصورہ سے سات آٹھ میل دور ہوا کرتا تھا۔
یہ تو گمنام بستیاں تھیں جو زمانے کی ریت میں دب گئی، لیکن ایسی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہو کر جو مر کر بھی زندہ رہتی ہیں یہ بستیاں اپنا نام و نشان مٹا کر بھی زندہ ہیں، ان بستیوں سے وہ مجاہد گزرے تھے جو سینوں میں اللہ کا پیغام لے کر بڑی دور سے آئے تھے، وہ کفر کی تاریکیوں میں اسلام کا نور بکھیرتے گئے تھے، ان میں سے بہت سے لوٹ کے نہیں آئے تھے وہ اللہ کی راہ میں خاک و خون میں تڑپے اور سندھ کی ریت کے ذروں کے ساتھ ریت ہوگئے تھے ،اللہ کی راہ ان بستیوں میں سے گزرتی تھی انہی کے صدقے ان بستیوں کے نام آج بھی زندہ ہیں اور تا ابد زندہ رہیں گے۔
اس وقت جب راجہ داہر دو سو بیس میل دور اروڑ میں اپنے بیٹے جے سینا سے کہہ رہا تھا کہ یہ جنگ اب دو ملکوں یا دو بادشاہوں کی نہیں یہ دو مذہبوں کی جنگ بن گئی ہے۔ اُس وقت دیبل میں محمد بن قاسم جمعہ کے خطبے میں کہہ رہا تھا کہ ہم جس مقصد کے لئے یہاں آئے تھے وہ پورا ہو چکا ہے، ہم نے قیدی رہا کرانے ہیں سندھ کی فوج کو سزا بھی دے لی ہے اور مال غنیمت، جزئے، اور جنگی قیدیوں کی صورت میں راجہ داہر سے ہرجانہ بھی وصول کر لیا ہے، لیکن سمجھنے کی کوشش کرو کے ہم پر ایک اور فرض عائد ہو گیا ہے،
ہم نے دیکھا ہے کہ اس مندر کا گنبد ٹوٹا اور جھنڈا گرا تو ان لوگوں کے حوصلے ختم ہوگئے محمد بن قاسم نے خطبے میں کہا۔۔۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک جھنڈا لہرا رہا ہے انہیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی یہ لوگ دیوتا پرست اور بت پرست ہیں، ان کے دل اللہ کے نام سے بے بہرہ اور خالی ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں کہ سب سے بڑی قوت اللہ ہی، انہیں کسی نے بتایا نہیں یہ ہمارا فرض ہے کہ انھیں ذہن نشین کرایا جائے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ کے بندے ہو کر یہ اللہ کے نام سے بھی واقف نہیں، ان کا خدا یہ جھنڈا تھا ہم انہیں خدا سے روشناس کرائیں گے، یہ ملک بت خانہ ہے۔
اور جب راجہ داہر اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا کہ ہم نے ثابت کرنا ہے کہ دیوتاؤں کی توہین کرنے والوں پر قہر نازل ہوگا ،اُس وقت محمد بن قاسم کہہ رہا تھا کہ ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو بتائیں کہ جن دیوتاؤں اور دیویوں کے تم بت اور مورتیاں بنا کر پوجتے ہو وہ اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکی کو بھی نہیں اڑا سکتے۔
تم اس ملک کے لوگوں سے جہاں بھی ملو ان کے ساتھ پیار، محبت اور تعظیم سے پیش آؤ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور انہیں بتاؤں کہ خدا ہم سب کا خالق ہے لیکن تم نے اپنے خداؤں کی تخلیق اپنے ہاتھوں کی ہے ،اگر ہم یہ کام نہیں کرتے تو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جسے گمراہ دیکھو اسے صراط مستقیم دکھاؤ ،یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی اندھے کو ٹھوکریں کھاتا دیکھتے ہو تو اس کا ہاتھ تھام کر اسے اس راستے پر ڈال دیتے ہو ،جس پر ٹھوکریں نہیں لگتیں۔
راجہ داہر اسے دو مذہبوں کی جنگ کر رہا تھا، تو محمد بن قاسم نے بھی اسے حق و باطل کا معرکہ بنا دیا تھا، اس نے حجاج بن یوسف کو اطلاع دے دی تھی اور حجاج کا اجازت نامہ بھی آ گیا تھا ،اور حجاج نے اسے لکھا تھا کہ وہ کمک اور رسد بھیج رہا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کے اپنے جاسوس بھی تھے اور ان کے ساتھ دیبل کے چند آدمی مل گئے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا ،ان کے علاوہ علافی نے محمد بن قاسم کو درپردہ اپنے چار آدمی دے دیے تھے جو اس خطے کی زبان بولتے اور سمجھتے تھے ،محمد بن قاسم نے انہیں آگے بھیج رکھا تھا اور کچھ جاسوس نیرون کے اندر بھی تھے، شعبہ جاسوسی کا سالار شعبان ثقفی بھی بہروپ میں نیرون تک ہوا آیا اور اردگرد کا علاقہ دیکھ آیا ان کی رپوٹوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ راجہ داہر باہر آکر نہیں لڑنا چاہتا، اس سے یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا تھا کہ وہ باہر آ کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا ،محمد بن قاسم جانتا تھا کہ راجہ داہر اِس دور دراز علاقے میں کھلے میدان کی جنگ لڑے گا جہاں تک پہنچتے محمد بن قاسم کی فوج پیش قدمی اور محاصروں کی تھکی ہوئی ہو گی، اور شہیدوں اور زخمیوں کی وجہ سے اس کی نفری بھی کم ہو چکی ہو گی، اور یہ فوج دیبل کی بندرگاہ سے بہت دور ہو گی، اس طرح سندھ کی فوج نے محمد بن قاسم کی فوج کے رسد اور کمک کے راستے کاٹ دینے تھے۔
محمد بن قاسم نے اپنے سالاروں کو دشمن کی اس نیت سے آگا ہ کر دیا۔
آپ تجربے کار ہیں ۔۔۔اس نے سالاروں سے کہا ۔۔۔رسد اور کمک کو رواں اور محفوظ رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم سندھ کے راجہ کے دارالحکومت اروڑ تک کچھ قلعے فتح کر لیں کچھ بستیاں لے لیں اور ان میں اپنی تھوڑی نفری چھوڑتے جائیں جو گشت کے ذریعے رسد اور کمک کی آمدورفت کو محفوظ رکھے۔
آگے سے آنے والے جاسوسوں نے اگلے قلعے کی رپورٹ دی تھی جن کے مطابق آگے ایک مقام سیسم تھا اور اس سے آگے نیرون (حیدرآباد) تھا محمد بن قاسم کی منزل نیرون تھی وہاں تک کا فاصلہ اس وقت کی پیمائش کے مطابق پچیس فرسنگ تھا ایک فرہنگ ساڑھے پانچ میل کے لگ بھگ ہوتا تھا۔
ایک چھوٹا دریا جس کا نام ساکرا تھا دیول کے قریب سمندر میں گرتا تھا ،اور نیرون کے قرب وجوار سے گزر کر آتا تھا ،محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ تمام منجنیقیں کشتیوں میں لاد کر کشتیاں دریائے ساکرا میں جو ساکرا نالہ کہلاتا تھا لائی جائیں، ان کے علاوہ بے شمار رسد اور دیگر جنگی سامان بھی کشتیوں میں لاد نے کا حکم دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چند ہی دنوں بعد کشتیوں کا ایک بیڑہ دیبل سے نیرون کی طرف ساکرا نالے میں جا رہا تھا، ان میں بادبانی کشتیاں بھی تھیں اور چپو والی بھی، ان میں تیر انداز بھی جارہے تھے کہ دشمن حملہ کرے تو اسے دریا کے قریب نہ آنے دیا جائے، دریا کے دونوں کنارے کے ساتھ گھوڑسوار جا رہے تھے یہ اس بیڑے کی حفاظت کا انتظام تھا۔
باقی فوج جاسوسوں کے بتائے ہوئے راستے پر جا رہی تھی، گائیڈ ساتھ تھے شعبان ثقفی نے اپنے آدمی آگے اور دائیں اس مقصد کے لئے بھیج دیے تھے کہ کوئی مشکوک آدمی نظر آئے تو اسے پکڑ لیں، کوشش کی جارہی تھی کہ نیرون تک یا داہر تک اسلامی فوج کی پیشقدمی کی اطلاع نہ پہنچ سکے ،لیکن یہ ممکن نہیں تھا، یہ دریا تھا اور دریا کے کنارے چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جن کی آبادی نے فوج کو جاتے دیکھا ،کئی آدمی دریا کے کنارے ملے وہ دیہاتی اور سادہ لوح لوگ تھے۔
موسم سخت گرم تھا ساون کی برسات ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، یہ عرب کی فوج تھی جو عرب کی گرمی کی عادی تھی اور ریگستان بھی ان کے لیے نیا اور تکلیف دے نہیں تھا ،لیکن سندھ کی گرمی کچھ اور قسم کی تھی۔
کشتیاں سیسم کے مقام پر پہنچ گئیں کچھ وقفے سے فوج بھی پہنچ گئی محمد بن قاسم نے وہاں پڑاؤ کا حکم دیا ،گرمی جلا رہی تھی کشتیوں کو بھی وہیں روک لیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات کے وقت بصرہ سے ایک قاصد آیا ،وہ خشکی کے راستے آیا تھا ،پہلے دیبل گیا وہاں سے اسی راستے پر چل پڑا جس راستے پر فوج جا رہی تھی، آخر سیسم کے مقام پر محمد بن قاسم تک پہنچا وہ حجاج بن یوسف کا پیغام لایا تھا حجاج نے لکھا تھا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ؛
حجاج بن یوسف کی طرف سے سالار محمد بن قاسم کے نام ،ہمارے دلی ارادوں کا اور ہماری ہمت کا تقاضہ یہ ہے کہ تمہیں ہر حال میں فتح و نصرت حاصل ہو اور انشاءاللہ تم فتحیاب ہوکر واپس آؤ گے، اور اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے ہمارے دین کا دشمن اس دنیا میں سزا پائے گا، اور اپنے بت کے عذاب میں ہمیشہ پڑا رہے گا ،ایسا خیال کبھی دل میں نہ لانا کے دشمن کے ہاتھی، گھوڑے، زروجواہرات اور اس کا تمام مال و اسباب تمہاری ملکیت میں آجائے گا، اس کی بجائے کیا یہ بہترین نہیں کہ تم اپنے رفیقوں اور تمام مجاہدین کے ساتھ پر مسرت زندگی بسر کرو ،لالچ نہیں رکھو گے تو تمہاری زندگی پر مسرت ہوگی،،،،،،،
تمہارا وصول یہ ہو کہ ہر کسی کی تعظیم و تکریم کرو ،اور چھوٹے بڑے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ،دشمن کے ملک پر فتح پا کر بھی اس ملک کے لوگوں کو یہ یقین دلاوں کے یہ ملک تمہارا ہے، جب کبھی کوئی قلعہ فتح کرو تو اس میں سے ضروریات کی جو بھی چیزیں ملیں وہ اپنے پاس نہ رکھا کرو، یہ سب اپنے لشکر پر اور فوج کو تیار کرنے پر صرف کرو، اگر کوئی شخص کھانے پینے کی چیزیں زیادہ رکھتا ہے تو اس سے مت چھینو اور اس کو مت ٹوکو،،،،،،
کسی شہر کو فتح کرو تووہاں اشیاء کی قیمتیں مقرر کر دو ،جو مال و اسباب خصوصا غلہ دیبل میں پڑا ہے وہ فوج کی رسد کے طور پر استعمال کرو، ایسا نہ ہو کہ وہ دیبل میں ذخیرے کے طور پر پڑا رہے اور خراب ہو جائے، جو شہریاخطہ فتح کر لو سب سے پہلے اس کا دفاع مضبوط کرو اور پھر دیکھو کہ وہاں کے لوگ بغیر خوف و ہراس کے مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں ،مفتوحہ علاقے کے لوگوں کی دلجوئی کرو اور پوری کوشش کرو کہ وہاں کے کسان دیگر پیشہ ور لوگ اور تاجر آسودہ حال ہوں، اور وہاں کی کھیتیاں ویران نہ ہو جائیں، اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ 20رجب 93 ہجری 712 عیسوی۔
حجاج بن یوسف نے اس خط میں محمد بن قاسم کے حوصلے کو تازگی بخشی، اس نے اپنے سالاروں اور کماندروں کو بلا کر یہ خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ یہ تمام لشکر کو سنایا جائے۔
ایک دو روز قیام کرکے محمد بن قاسم نیرون کی طرف روانہ ہوا ،کشتیاں چل پڑی ساتویں روز یہ لشکر بلہار کے مقام پر پہنچا۔
یہاں پانی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ،دریا جس میں کشتیاں جا رہی تھی بہت پرے ہو گیا تھا اور فوج کا راستہ خاصہ دور چلا گیا تھا ،پانی کی قلت پیداہوگئی گھوڑے پیاس سے بے چین ہوتے اور ہنہناتے تھے، لشکر کی حالت بھی دگرگوں ہونے لگی ایک دو روز میں پانی کے ذخیرے کا آخری قطرہ بھی ختم ہو گیا صورت ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ کوچ ناممکن نظر آنے لگا ،محمد بن قاسم نے دوپہر کے وقت جب زمین اور آسمان جل رہے تھے تمام لشکر کو اکٹھا کیا اور کہا کہ نماز استسقاء ادا کی جائے۔
تمام لشکر قبلہ رو ہو کر صف آراء ہو گیا امامت کے فرائض محمد بن قاسم نے ادا کیے تاریخوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اس نے رقت آمیز آواز میں دعا مانگی اس کی دعا کے الفاظ تاریخ میں محفوظ ہیں جو اس طرح ہیں۔
اے اپنے گمراہ اور پریشان حال بندوں کو راستہ دکھانے والے!اے فریادیوں کی فریاد سننے والے!اپنے ان الفاظ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے صدقے ہماری فریاد سن لے۔
تاریخ اسلام کے اس کمسن سالار پر ایسی رقت طاری ہوئی کے اس سے آگے اسکی زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا مجاہدین کے لشکر میں سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ،متعدد مورخوں نے لکھا ہے کہ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس قدر مینہ برسا کے ریگزار سمندر کی صورت اختیار کرگیا تمام لشکر نے پانی ذخیرہ کر لیا اس سے اگلے روز محمد بن قاسم نے نیرون کی طرف کوچ کا حکم دے دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
لشکر نیرون سے تھوڑی ہی دور رہ گیا تھا کہ ایک شتر سوار جو اسی علاقے کا مسافر معلوم ہوتا تھا سامنے سے آتا نظر آیا ،وہ سیدھا لشکر کے اس حصے میں داخل ہو گیا جس حصے میں محمد بن قاسم گھوڑے پر سوار چلا جا رہا تھا، وہ مسلمان جاسوس تھا اور نیرون سے آیا تھا ۔
کیا خبر لائے ہو ؟،،،،محمد بن قاسم نے اس سے پوچھا۔
سالار اعلی!،،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔نیرون کا حاکم سندر شمنی نیرون سے غیر حاضر ہے۔
کہاں چلا گیا ہے
اروڑ!،،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔راجہ داہر کے بلاوے پر گیا ہے۔
شہر کے لوگ کیا کہتے ہیں؟،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
شہر کے لوگ نہیں لڑیں گے۔۔۔ جاسوس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن ان کے راجہ نے نیرون کی فوج کے حاکم کو بدل ڈالا ہے ،فوج شہر کے لوگوں کو ڈراتی پھر رہی ہے کہ مسلمان شہر میں داخل ہو گئے تو لوٹ مار کریں گے، اور بچوں اور خوبصورت عورتوں کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، اور وہ کسی گھر میں کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے غلہ بھی اکٹھا کرکے خود کھا لیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج مقابلہ کرے گی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
ہاں سالار اعلی!،،، جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔فوج مقابلے کے لیے تیار ہے۔
محمد بن قاسم نے پیشقدمی تیز کرکے نیرون شہر کو محاصرے میں لے لیا ،اور اس طرح کے اعلان شروع کردیئے کہ فوج نے قلعہ ہمارے حوالے نہ کیا اور ہم نے قلعہ لے لیا تو کسی فوجی کو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مورخ لکھتے ہیں کہ نیرون کے حاکم سندرشمنی کی اروڑ میں طلبی ایک سازش تھی ،راجہ داہر نے اس اطلاع پر کے مسلمان کی فوج نیرون کی طرف بڑھ رہی ہے سندر شمنی کو ایک ضروری کام کے بہانے اروڑ بلا لیا، پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ نیرون کے اس حاکم نے راجہ داہر کو بتائے بغیر حجاج بن یوسف کی طرف اپنا وفد بھیج کر دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا، اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی تھی، حجاج نے اسے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی تھی۔
حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ جب نیرون پہنچے گا تو اسے شہر کے دروازے کھلے ہوئے ملیں گے، لیکن محمد بن قاسم کے لیے شہر کے دروازے بند تھے ،اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ منجیقوں سے شہر پر سنگباری کریں یا نہ کریں، سنگ باری سے شہریوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ،جاسوس نے بتایا تھا کہ شہری نہیں لڑنا چاہتے لیکن فوج ان پر غالب آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اروڑ میں راجہ داہر نے سندرشمنی کو ویسے ہی روکا تھا ،اسے توقع تھی کہ اس نے نیرون میں اپنی فوج کا جو حاکم سالار بھیجا ہے وہ مسلمانوں کے محاصرے کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ ایک صبح راجہ داہر نے سندرشمنی کو بلایا پتہ چلا کہ سندرشمنی کمرے میں نہیں ہے ،اسے ہر جگہ تلاش کیا گیا لیکن وہ نہ ملا ،وہ ملتا بھی کہاں اس وقت وہ اروڑ سے بہت دور پہنچ چکا تھا، اس کے گھوڑے کی رفتار خاصی تیز تھی، اس کے محافظ بھی اروڑ سے لاپتہ تھے۔ وہ سب اس کے ساتھ نیرون کو جا رہے تھے۔
سندر شمنی کے محافظ دراصل عرب کے مسلمان تھے جنہیں شعبان ثقفی نے بھیجا تھا وہ وہاں کی زبان روانی سے بولنے لگے تھے۔ ہوا یوں تھا کہ آدھی رات کے لگ بھگ محمد بن قاسم کے ایک جاسوس کو محمد بن قاسم کے کہنے پر اروڑ بھیجا گیا تھا، اسے زبانی سندر شمنی کے لئے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ نیرون میں جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے اس میں ہم کیا کریں، جاسوس کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ اس نے سندر شمنی کے ساتھ کیا بات کرنی ہے۔
جب یہ جاسوس سندر شمنی کے پاس اروڑ پہنچا اور اسے پیغام دیا تو اس وقت سندر شمنی کو خیال آیا کہ راجہ داہر نے اسے نیرون سے دور رکھنے کے لئے اروڑ میں پابند کر رکھا ہے، وہ اسی وقت اٹھا اور نہایت خاموشی سے اپنے محافظوں سے کہا کہ وہ اس طرح اپنے گھوڑوں کو باہر لائیں کہ کسی کو شک نہ ہو۔
کسی کو شک ہو یا نہیں انہیں اروڑ سے نکلنا تھا اور کم سے کم وقت میں نیرون پہنچنا تھا۔ وہ جب نیرون پہنچے اس وقت سورج بہت اوپر آچکا تھا سندر شمنی محاصرے میں سے گزر کر شہر کے ایک دروازے پر آیا ،محاصرہ ابھی خاموش تھا مسلمان فوج نے کوئی کارروائی شروع نہیں کی تھی ،کئی دن گزر گئے تھے۔
اپنے حاکم کو دیکھ کر اندر کی فوج نے دروازہ کھول دیا۔
سندرشمنی نے دروازہ بند نہ کرنے دیا اس نے اپنے ایک محافظ کو محمد بن قاسم کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ آؤ اور شہر میں داخل ہو جاؤ۔
فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ سندر شمنی نے محمد بن قاسم کا شاہانہ استقبال کیا بیش قیمت تحفے بھی پیش کئے، اور مسلمان فوج کو شہر میں داخل کر کے اعلان کیا کہ معاہدے کے مطابق نیرون کے لوگ محمد بن قاسم کے وفادار رہیں گے۔
یہ خطرہ نظر آ رہا تھا کہ نیرون کی فوج مزاحمت کرے گی لیکن شہر کے لوگوں نے ایسی پرمسرت اور ہنگامہ خیز فضا پیدا کردی کہ فوج کچھ بھی نہ کرسکی، اس فوج کے حاکم نے یہ ضرور سوچ لیا ہو گا کہ اس نے کوئی مزاحمت کی تو مسلمانوں کی فوج اور خود نیرون شہر کے لوگ نیرون کی فوج کے ایک سپاہی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
نیرون کا ہاتھ سے نکل جانا راجہ داہر کے لیے ایک اور چوٹ تھی لیکن اب اس کا رد عمل و ایسا نہیں تھا جیسا ارمن بیلہ اور دیبل کی شکست کے بعد ظاہر ہوا تھا۔
مہاراج!،،،،،، ایک فوجی مشیر نے کہا ۔۔۔عربوں کو نیرون سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے ۔
ہمیں حکم دیں مہاراج !،،،،ایک اور بولا ہم سندر شمنی کو اور اس کے خاندان کے بچے بچے کو قتل کر کے ان کے سر آپ کے قدموں میں حاضر کر دیں گے۔
سنا ہے وہ لڑکا سا ہے۔۔۔ داہر کے ایک اور فوجی حاکم نے کہا ۔۔۔اور او چھی چالیں چلتا ہے ،اپنے فیصلے کو بدلیں۔
اسے اروڑ تک نہیں پہنچنا چاہیے مہاراج !،،،ایک اور نے کہا۔۔۔ ہم اسے نیرون میں ہی ختم کر سکتے ہیں۔
ہاں مہاراج!،،،، فوجی مشیر نے کہا۔۔۔ ہم نیرون کا محاصرہ کر لیتے ہیں اسکی منجنیقیں ابھی دریا میں کشتیوں پر رکھی ہوئی ہیں۔
راجہ داہر کمرے میں اس طرح ٹہل رہا تھا کہ اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے اور سر ذرا سا جھکا ہوا تھا، جب کوئی اسے مشورہ دیتا تھا تو وہ ذرا رکتا اور ٹیڑھی آنکھ سے اسے دیکھ کر چل پڑتا تھا، ہر مشورے پر اس کے ہونٹوں پر تبسم سا آجاتا تھا ،وہاں جتنے بھی مشیر اور حاکم موجود تھے ان سب نے اپنے اپنے مشورے دے ڈالے ،پھر داہر کے اس شاہانہ کمرے میں سکوت طاری ہو گیا ،داہر کے قدموں کی ہلکی ہلکی آہٹ اس سکوت کو منتشر کرتی تھی۔
آخر داہر رک گیا اس کا انداز یہ ہوا کرتا تھا کہ بولنے والے کی پوری بات چلتے چلتے بھی سن لیتا تھا لیٹے لیٹے بھی سن لیتا تھا ،لیکن جب وہ جواب میں بولتا تھا یا کوئی حکم نامہ جاری کرتا تھا تو وہ اپنی کرسی پر جا بیٹھتا، تلوار اپنے سامنے رکھ لیتا تلوار کا ہیرو ں سے مرصع دستہ اس کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ اپنے چہرے پر ایسا بارعب تاثر پیدا کرلیتا جیسے تمام تر ہندوستان پر اس کی حکمرانی ہو ،اس وقت تمام درباری مکمل انہماک سے اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔
یہ تمام مشورے سن کر وہ اپنے مخصوص انداز سے تخت کی تین سیڑھیوں پر چڑھا بیٹھا اور اس نے سب پر نگاہ دوڑائی۔
وہ یہاں تک پہنچے گا ۔۔۔راجہ داہر نے مہاراجوں کے لہجے میں کہا ۔۔۔ہم اسے یہاں تک آنے دیں گے، لیکن وہ یہاں اپنی تلوار ہماری جوتیوں کے نیچے رکھنے کے لیے آئے گا، وہ کسی عربی ماں کا نادان بچہ اس وقت اپنے آپ کو جنگل کا شیر سمجھ رہا ہے، ہم اسے یہی بتا رہے ہیں کہ مورکھ بالک تو شیر ہے ،،،،،راجہ داہر مسکرایا اور بولا ،،،یہ شیر اروڑ کی دیواروں سے دور آ بیٹھے گا اور اپنے زخم چاٹے گا،،،،،،،، کیا تم نہیں جانتے کہ سندھ کی دھرتی کا سپوت جے سینا اس کے راستے میں پہاڑ بن کر کھڑا ہے، برہمن آباد میں ایک عربی بیٹے اور ایک سندھی بیٹے کا مقابلہ ہوگا، پھر اس ملک میں ہندو مت رہےگا یا اسلام، یہ اپنے سینوں پر لکھ لو کہ ہم نے محمد بن قاسم کو اور اس کی فوج کو نہیں روکنا بلکہ ایک مذہب کو روکنا ہے، اور یہ وہ مذہب ہے جو تھوڑے سے عرصے میں دور دور تک پھیل گیا ہے، کیا تم جانتے ہو اس کی وجہ کیا ہے؟،،،،،،، اس نے بڑے مندر کے پنڈت کی طرف دیکھا جو وہاں موجود تھا اس نے پنڈت سے کہا ۔۔۔رشی مہاراج انہیں بتائیں۔
اسلام اس لیے پھیل گیا ہے کہ اس کے مقابلے میں آنے والے مذہب سچے نہیں تھے۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔ایک طرف آگ کو پوجنے والے ایرانی تھے، دوسری طرف صلیب کے پجاری عیسائی تھے، ان مذہبوں میں کوئی طاقت نہیں تھی ،ہندومت دیوتاؤں کا مذہب ہے ہمارے دیوتا آگ برسا سکتے ہیں، پہاڑوں کو اٹھا کر جہاں چاہیں لے جا کر اپنے دشمنوں پر گرا سکتے ہیں، یہ مسلمان آگ اور صلیب کے پجاریوں کے دھوکے میں یہاں آ نکلے ہیں۔
اور ہمارا دھرم اور دھرم ہے جس پر ہماری عورتیں اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اپنے دھرم اور اپنی دھرتی پر قربانی دینے والی عورتوں کو دیوتا دھرتی سے اٹھا کر آکاش پر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے سائے میں رکھتے ہیں ۔
مہاراج کی جے ہو ۔۔۔ایک فوجی حاکم نے کہا۔۔۔ ہماری عورتیں اس وقت قربانی دیں گی جب ہم کٹ چکے ہوں گے۔
تم نہیں سمجھے میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہماری جوان عورتیں اس جنگ میں شامل ہو چکی ہیں۔
تم نہیں سمجھے۔۔۔۔ پنڈت نے کہا ۔۔۔وہ نوجوان ہے کیا نام لیتے ہو اس کا، ہاں محمد بن قاسم ،وہ تلوار کو اور لڑائی بھڑائی کو کھلونا اور کھیل سمجھ رہا ہے ،وہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ دیوتاؤں کی آگ سے کھیل رہا ہے۔ ہماری ایک خوبصورت لڑکی اس کے سامنے چلی گئی تو اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑے گی ،کسی نادان بچے کو معمولی سا کھلونا دکھا دو تو اپنا قیمتی کھلونا چھوڑ کر معمولی سے کھلونے کی طرف لپکا آئے گا ،،،،،کیا ایسا نہیں ہوتا؟
لیکن ہمیں یہی حسین ہتھیار استعمال نہیں کرنا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہم جب اسے کھلے میدان میں اپنے سامنے لائیں گے تو وہ اپنے سب داؤپیچ بھول جائے گا اور ہم اسے ایسی بری حالت میں لے آئیں گے کہ وہ ہمارے سامنے جھک کر کہے گا مہاراج مجھے اپنی پناہ میں لے لو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
راجہ داہر کی اس مجلس میں اس کا وزیر بدہیمن نہیں تھا ،بدہیمن اسی محل کے ایک کمرے میں راجہ داہر کی بہن مائیں رانی کو جو داہر کی بیوی بھی تھی لیے بیٹھا تھا، جس حسین حربے کا ذکر راجہ داہر کر رہا تھا اس کے استعمال کی تمام تر ذمہ داری بدہیمن اور مائیں رانی نے سنبھال رکھی تھی۔
تاریخ شاہد ہے کہ دو قوموں نے فریب کاری عیاری اور انتہائی بے غیرتی کو تلوار سے زیادہ خطرناک ہتھیار بنایا ہے، ایک یہودی اور دوسرے ہندو، یہودی کبھی بھی کھلی جنگ میں مسلمانوں کے سامنے نہیں آئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ زمین دوز محاذ آرائی جاری رکھی اور اس زمین دوز جنگ میں انھوں نے دو ہتھیار استعمال کیے ایک زر و جواہرات اور دوسرا انتہائی حسین اور تربیت یافتہ لڑکیاں ،ہندو کی تاریخ بھی بے حیائی بے غیرتی اور جنسیت سے بھری پڑی ہے، انھوں نے مسلمانوں سے شکست کھائی تو تحفوں کے طور پر اپنی بیٹیاں دے دیں اور ان بیٹیوں کے ذریعے اسلامی سلطنتوں کی جڑیں کھوکھلی کر دیں، اس کی سب سے بڑی اور عبرت ناک مثال مغل شہنشاہ اکبر کی ہے جسے ہندو آج تک مغل اعظم کہتے ہیں، ہندوؤں نے اس کا حرم اپنی انتہائی اور بے حد عیار لڑکیوں سے بھر دیا تھا ،ہندوستان کی اس طلسماتی ہوس نے اس مسلمان بادشاہتوں کو اس حد تک گمراہ کردیا تھا کہ اس نے دین الہی کے نام سے اسلام کا چہرہ ہی مسخ کر دیا تھا۔
جو قوم اپنی بہو بیٹی کو خواہ وہ سہاگ کی ایک ہی رات گزار کر بیوہ ہو جائے اپنے ہاتھوں چتا پر کھڑا کر کے زندہ جلا دیتی ہے اس کے لیے یہ حربہ معمولی نہیں کہ دشمن کو کمزور کرنے کے لیے بیٹیوں کو استعمال کرے یہ ان کے گھر میں شامل ہے ،ان کے پنڈت چانکیہ کی تحریر ارتھ شاستر کے عنوان سے آج بھی ہندو اور ان کے لیڈر عقیدت مندی سے پڑھتے ہیں، یہ کتاب اس وقت سے صدیوں پہلے لکھی گئی جب محمد بن قاسم اسلام کا پرچم لئے ہندومت کے لئے ایک عظیم چیلنج بن کر سندھ کے ساحل پر اترا تھا، مؤرخ شہادت پیش کرتے ہیں کہ راجہ داہر اپنے پنڈت چانکیہ کا اتنا معتقد تھا کہ اسے پیغمبری کا درجہ دیتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کا استقبال نیرون والوں نے یوں کیا تھا جیسے کوئی اوتار زمین پر اتر آیا ہو، اس نے وہاں کے حاکم سندر کو خودمختاری عطا کردی لیکن کوتوال اپنا مقرر کیا جس کا نام ذہلی بصری تھا ۔پھر اس شہر کے انتظامات کے متعلق احکام جاری کئے، اور ان شہر میں جس پہلی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا وہ ایک مسجد تھی، آج یہ کہنا مشکل ہے کہ حیدرآباد میں وہ کون سی قدیم مسجد ہے جس کی بنیاد کھودنے کے لیے پہلی کدال محمد بن قاسم نے بسم اللہ پڑھ کر اپنے ہاتھوں چلائی تھی۔
محمد بن قاسم فوراً ہی پیش قدمی نہیں کرسکتا تھا ،حجاج بن یوسف کی ہدایات کے مطابق پیش قدمی سے پہلے یہ ضروری تھا کہ رسد اور کمک کے راستوں کو محفوظ کیا جائے، محمد بن قاسم اچھی طرح سمجھتا تھا کہ راجہ داہر کی یہ کوشش ہے کہ عرب فوج کی رسد اور کمک کا راستہ زیادہ سے زیادہ لمبا ہوجائے تاکہ عربی فوج اس کی حفاظت کا مستحکم انتظام نہ کر سکے۔
راستوں کی حفاظت کے انتظامات کے علاوہ جاسوسوں کو آگے بھیجنا بھی ایک پیچیدہ کام تھا، عربی فوج جوں جوں سندھ کے اندر آتی جا رہی تھی جاسوسوں کا کام مشکل ہوتا جا رہا تھا ،اب ضرورت یہ تھی کہ عربی جاسوسوں کے ساتھ مقامی جاسوس بھی رکھے جائیں۔
حجاج بن یوسف کی تمام تر توجہ اور سرگرمیوں کا مرکز سندھ بن گیا تھا، باقاعدگی سے کمک بھیچ رہا تھا، اس کے لئے دیبل بڑا ہی کارآمد اڈہ بن گیا تھا زیادہ تر کمک اور جنگی سامان سمندر کے راستے آتا تھا۔
محمد بن قاسم نے ایک کام اور کیا نیرون کی فوج نے بغیر لڑے شہر اس کے حوالے کر دیا تھا اس فوج کا جو حاکم تھا وہ اپنے تین چار جونیئر کمانڈروں کے ساتھ معلوم نہیں کس وقت نیرون سے بھاگ گیا تھا ۔محمد بن قاسم کو یہ بتایا گیا تھا کہ نیرون کی فوج لڑنے کے لئے تیار تھی اور یہ بھی کہ یہ فوج اس حد تک تیار تھی کہ نیرون کے حاکم کا حکم نہیں مانے گی، لیکن نیرون کے حاکم نے دروازے کھلوا دئیے اور شہریوں نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ نہ خود لڑیں گے نہ فوج کو لڑنے دیں گے۔
ان اطلاعوں سے محمد بن قاسم نے یہ تاثر لیا تھا کہ یہ فوج کسی بھی وقت خطرہ بن سکتی ہے اس خطرے کے پیش نظر اس نے نیرون کی فوج ایک میدان میں اکٹھا کیا اور ایک ترجمان کے ذریعے اس فوج سے خطاب کیا۔
ملک ہند کے سپاہیوں!،،،، تمہارے دلوں میں اب بھی یہ خوف موجود ہوگا کہ ہم تم سب کو قتل کردیں گے، ہونایہی چاہیے تھا ،یہی دستور چلا آرہا ہے کہ جس ملک کو فتح کرو اس کی فوج کو زندہ نہ رہنے دو لیکن یہ دستور اُن فاتحین کا ہوتا ہے جو ملک کو فتح کرنے کے لیے آتے ہیں، وہ مفتوحہ فوج کو اس لیے ختم کر دیتے ہیں کہ ان کے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے، ہم ملک گیری اور بادشاہی کے حصول کے لئے نہیں آئے ہیں، ہم اللہ کا ایک پیغام لے کر آئے ہیں لیکن ہم یہ پیغام جو ایک عقیدہ ہے اور ایک سچا مذہب ہے تم پر اس لیے مسلط نہیں کریں گے کہ تم نے ہمارے آگے ہتھیار ڈالے ہیں، ہمارے ہاتھوں وہ قتل ہوتے ہیں جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں، ہم تمہیں معاف کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب کو دیکھو اگر تمہیں اس میں صحیح راستہ نظر آتا ہے تو اسے اختیار کر لو اور یہ بھی سوچو کہ تمہارے جو بت اور جو مورتیاں ہمیں اس شہر میں داخل ہونے سے نہیں روک سکی وہ تمہاری کیا مدد کر سکتی ہیں، وہ تو اپنے اوپر سے ایک مکھی بھی نہیں اڑا سکتی یہ سب انسانوں کے بنائے ہوئے خدا ہیں عبادت کے لائق صرف ایک خدا ہے جس نے انسانوں کو بنایا ہے،،،،،،،
یہ بھی سن لو کہ ہم نے تمھیں جو آزادی دی ہے اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ تم گھروں میں بیٹھ کر اور چوری چھپے ہمارے خلاف کارروائیاں کرتے پھرو ،تمہاری کوئی حرکت ہم سے چھپی نہیں رہے گی اور تمہاری زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ ہمارے کانوں تک پہنچے گا،،،،،،، اور ہم تمہیں یہ بھی اجازت دیتے ہیں کہ تم میں سے جو یہاں سے جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے لیکن اسے دوبارہ یہاں آنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔
اس دور کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کئی آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ اس خوف سے مرے جا رہے تھے کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے گا ،انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی جان بخشی کردی گئی ہے ۔
محمد بن قاسم کا فیصلہ سن کر انہوں نے عرب کے شہزادے کی جے ہو کے نعرے سے زمین و آسمان ہلا دیے۔
کچھ ایسا ہی خوف شہریوں پر بھی طاری تھا پنڈتوں نے مندروں میں یہ پراپیگنڈا کیا تھا کہ مسلمان بہت ظالم ہیں اور وہ جہاں جاتے ہیں وہاں کسی گھر میں کچھ نہیں چھوڑتے اور جوان عورتوں کو گھروں سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
یہ سب جھوٹ ثابت ہوا اور شہر کی فضا میں امن و امان کی خوشبوئیں مہکنے لگیں ،ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس مسجد کی بنیاد محمد بن قاسم نے رکھی تھی اس کی تعمیر میں نیرون کے فوجیوں اور شہریوں نے بلا اُجرت حصہ لیا تھا۔
عشاء کی نماز کے بعد محمد بن قاسم اپنے کمرے میں سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ نیرون کی کچھ عورتیں اسے ملنے آئی ہیں، محمد بن قاسم نے انہیں اسی وقت بلا لیا۔
وہ سات آٹھ جوان لڑکیاں تھیں اور ان کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر عورت تھی وہ سب ہندو تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت تھیں، اندر آکر انہوں نے ہاتھ جوڑ کر ہندوانہ طریقے سے سلام کیا، ادھیڑ عمر عورت نے آگے بڑھ کر محمد بن قاسم کے پاؤں پر ماتھا رکھ دیا محمد بن قاسم پیچھے ہٹ گیا، پھر لڑکی آگے بڑھی کسی نے اس کے ہاتھ پکڑ کر چومے کسی نے اس کی عبا پکڑ کر آنکھوں سے لگائی اور والہانہ عقیدت اور تشکر کا اظہار کیا ،محمد بن قاسم نے ترجمان کو بلایا اور اس کے ذریعے ان سب کے ساتھ بات کی۔
تم سب کیوں آئے ہو؟،،، محمد بن قاسم نے پوچھا ۔
ہم بہت دنوں بعد خشک گھاس اور بھوسے کے نیچے سے نکلی ہیں۔۔۔ ادھیڑ عمر عورت نے جواب دیا۔۔۔۔ہمارے آدمیوں نے ان لڑکیوں کو چھپا دیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>