⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴پندرہویں قسط 🕌


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴پندرہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ تمام منجیقوں سے شہر پر پتھر برسائے جائیں، دیوار کے اوپر ایک بھی سپاہی نہیں رہا تھا جھنڈا گرنے سے وہ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے ،مجاہدین نے دیوار پر کمند پھینکی اور اوپر چڑھنے لگے سب سے پہلے جو مجاہد دیوار پر چڑھا اس کا نام آج تک تاریخ میں محفوظ ہے وہ تھا "سعدی بن خزیمہ" وہ کوفہ کا رہنے والا تھا، دوسرا مجاہد جو دیوار پر گیا اس کا نام عجل بن عبدالملک بن قیس دینی تھا وہ ال جاروو میں سے تھا ،اور بصرہ کا رہنے والا تھا۔
شہر پر پتھر گر رہے تھے افراتفری مچی ہوئی تھی، مجاہدین ایک دوسرے کے پیچھے دیوار چڑھتے جارہے تھے کئی کمندیں پھینکیں گئیں تھیں، انہوں نے اندر سے دروازے کھول دیے اور محمد بن قاسم کی فوج سیلاب کی طرح دروازوں میں داخل ہوئی۔
پہلے اپنے قیدیوں کو دیکھو محمد بن قاسم نے ایک سالار سے کہا۔۔۔ اگر وہ اسی قلعے میں ہیں تو ہندو انہیں قتل کردیں گے، دیبل کی گلیوں میں خون بہنے لگا کسی پر رحم نہ کرو محمد بن قاسم بڑی بلند آواز سے کہہ رہا تھا یہ لوگ رحم کے قابل نہیں۔
شہر کے لوگوں نے اور سپاہیوں نے اسلامی فوج کو بہت طعنے دیے تھے، دیوار کے اوپر سے ان کا مذاق اڑایا تھا اب وہ مجاہدین کی للکار سن رہے تھے۔
بلاؤ اپنے دیوتاؤں کو تمہیں بچائیں ۔
اپنے بتوں سے مدد مانگو۔
کہاں ہے دیوتاؤں کا قہر۔
محمد بن قاسم اپنے محافظوں کے ساتھ قید خانے کی طرف گھوڑا دوڑاتا جا رہا تھا محمد بن قاسم اپنے محافظ دستے کے ساتھ قید خانے کی طرف جا رہا تھا محافظوں نے قلعے کے ایک آدمی کو رہبر کے طور پر ساتھ لے لیا تھا ،رہبر کا گھوڑا ان کے آگے آگے جا رہا تھا۔
عرب کی فوج شہر میں پھیل گئی ایک مکان سے تین عربی سپاہی نکلے وہ دو جوان عورتوں کو گھسیٹ کر لارہے تھے، دو مقامی آدمی اندر سے نکلے اور عربی سپاہیوں کے آگے آ کر دو زانو بیٹھ گئے ،انہوں نے ہاتھ جوڑ کر سپاہیوں سے التجاء کی کہ وہ ان عورتوں کو نہ لے جائیں، ایک سپاہی نے تلوار نکالی اور وار کرنے کو اوپر اٹھائی۔
رُک جا ؤ!،،،،،،اس مسلمان سپاہی کو للکار سنائی دی،،،،،،تلوار نیچے کر لے، اس نے تلوار نیچے کرکے ادھر دیکھا اس کا سالار اعلی محمد بن قاسم آرہا تھا، اسی نے اسے للکارا تھا ۔
محمد بن قاسم نے ان سپاہیوں کے قریب جاکر گھوڑا روکا ،کیا تم دونوں عرب ہو؟
ہاں سالار!،،،،،،،، ایک نے تعظیم سے کہا ۔۔۔ہم عرب ہیں۔
کیا تم مسلمان نہیں ہو؟
الحمدللہ سالار!،،،،عرب دوسرے نے کہا۔۔۔ ہم مسلمان ہیں۔
کیا تمہارے خون میں فارسیوں کے خون کی ملاوٹ ہے یا رومیوں کے خون کی۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔خدا کی قسم میرے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہتّوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔۔۔ وہ گرج کر بولا چھوڑ دو انہیں۔
محمد بن قاسم نے عورتوں اور ان کے آدمیوں کو اشارہ کیا کہ وہ اندر چلی جائیں اور وہ اپنے قاصدوں سے مخاطب ہوا جو اس کے ساتھ تھے۔
سارے شہر میں گھوم جاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔اور اعلان کرتے جاؤ کے صرف فوج کے آدمیوں کو پکڑو شہر کے لوگوں، ان کی عورتوں، اور بچوں پر ہاتھ اٹھانے والے کی سزا موت ہوگی، اس وقت تاریخ اسلام کا یہ کمسن اور بیدار مغز سالار بہت جلدی میں تھا، جن قیدیوں کو وہ رہا کرانے کا عزم لے کر آیا تھا وہ خطرے میں تھے، محمد بن قاسم ان کے قتل سے پہلے قیدخانے میں پہنچ جانے کی کوشش میں تھا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس طرح شہر میں بھگدڑ مچ گئی تھی ایسی ہی افراتفری قید خانے کے اندر بپا ہو چکی تھی، قید خانے کے چاروں کونے پر سنتریوں کی مچانیں بنی ہوئی تھیں، سنتریوں نے جب دیکھا کہ مندر کا جھنڈا گر رہا ہے تو وہ مچانوں سے اتر آئے اور قید خانے میں پاگلوں کی طرح دوڑتے پھرے۔
دیول گر رہا ہے۔۔۔ وہ چلاتے پھر رہے تھے۔۔۔ دیول کا قہر آ رہا ہے۔۔۔ لوگ قلعے سے بھاگ رہے ہیں۔
قیامت جو قید خانے کے باہر باپا تھی وہ پتھروں کی اونچی اور مضبوط دیواروں کے اندر بھی بپا ہوگئی ،بڑے دروازے والے سنتری نے دروازہ کھول دیا ،قید خانے کے تمام قیدی نکل بھاگے، کوٹھریوں میں جو قیدی بند تھے وہ سالاخوں کے ساتھ ٹکرانے لگے وہ نکل نہیں سکتے تھے۔
باہر کی خبر تہہ خانے تک بھی پہنچ گئی جہاں عرب کے قیدی بند تھے، سب قبلہ رو ہو کر بیٹھ گئے اور یاد الٰہی میں مصروف ہوگئے،انہیں ابھی معلوم نہیں تھا کہ مسلمان فوج شہر میں داخل ہو گئی ہے انہیں صرف یہ احساس تھا کہ وہ قید خانے میں نہیں بلکہ موت کی آغوش میں بیٹھے ہیں، صبح طلوع ہوئی تھی تو وہ اسے اپنی زندگی کی آخری صبح سمجھتے تھے، سورج غروب ہوتا تھا تو وہ سمجھتے تھے کہ ان کی زندگی کا آخری سورج ڈوب گیا ہے، وہ ہر روز مرتے اور زندہ ہوتے تھے، انہیں یہ علم ہو گیا تھا کہ عرب کی فوج نے شہر کا محاصرہ کر لیا ہے، عبادت تو وہ پہلے بھی کرتے تھے عبادت کے سوا ان کی اور کوئی مصروفیت تھی بھی نہیں، لیکن محاصرے کی خبر سن کر ان کا ہر لمحہ عبادت اور دعا میں گزرنے لگا تھا۔
انہوں نے اسلامی دستور کے مطابق اپنا ایک امیر مقرر کر لیا تھا ،وہ عمرع بن عوانہ تھا۔ شام کا رہنے والا تھا، جس روز باہر کی بھگدڑ اور نفسانفسی قیدخانے میں پہنچی اس روز عمر بن عوانہ نے آدمیوں اور عورتوں کو آخری پیغام دیا۔
اس فیصلے کا وقت آگیا ہے کہ ہم رہا ہوں گے یا قتل۔۔۔۔اس نے کہا۔۔۔۔ دعا کرو اللہ قیدخانے کے سنتریوں سے پہلے عرب کے سپاہیوں کو ہم تک پہنچا دے، اگر سنتری تمہیں باہر نکالنے لگے تو ان سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرنا، مرنا ہی ہے تو لڑتے ہوئے مرنا، اگر ہم سب کو اکٹھے نکالا گیا تو قیدخانے میں ہی ہم سب ان پر ٹوٹ پڑیں گے، ہر وقت زبان پر اللہ کا نام رکھو۔
وہ اپنی کوٹھری کی سلاخوں کے ساتھ لگا بول رہا تھا، قیدی چار کشادہ کوٹھریوں میں بند تھے سب نے اپنے امیر کی آواز پر لبیک کہی، عورتیں بھی لڑنے کے لئے تیار ہو گئیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تہ خانے میں جو سیڑھیاں اترتی تھیں ان پر قدموں کی دھمک سنائی دینے لگی۔
سیڑھیوں کے ساتھ والی کوٹھڑی سے آواز اٹھی خبردار دروازے کھلتے ہی اندر گھسیٹ لینا یہ آواز عربی زبان میں تھی۔
تمام قیدی تیارہوگئے کوٹھریوں میں خاموشی طاری ہو گئی، جسے بھاری قدموں کی دھمک توڑ رہی تھی، سب سے پہلے قید خانے کا دروغہ قیدیوں کو نظر آیا اس کا نام قُبلہ تھا، تاریخ میں اس کا مذہب نہیں لکھا خیال ہے کہ وہ بدھ تھا ،اس کے آتے ہی اس کے ہاتھ میں چابیوں کا گچھا تھا اس کے پیچھے جو آدمی سامنے آئے وہ اس قید خانے کے سنتری نہیں تھے۔
خدا کی قسم تم عرب کے مجاہد ہو۔۔۔ایک کوٹھری سے آواز بلند ہوئی۔۔۔ تمہارے جسموں سے عرب کی خوشبو آتی ہے۔
اور اس کے بعد تہہ خانے کا منظر انتہائی جذباتی ہو گیا ،قیدی ان سے لپٹ رہے تھے جو انہیں چھوڑانے آئے تھے، یہ محمد بن قاسم کے محافظ دستے کے سپاہی تھے، سب پر خوشی اور فتح کی رقت طاری تھی۔
فوراً اوپر آؤ۔۔۔ محافظوں کے کماندار نے کہا۔۔۔ سالار اعلی انتظار کر رہے ہیں۔
محمد بن قاسم اوپر قید خانے کے وسط میں کھڑا تھا وہ گھوڑے پر سوار تھا اور اس کی نظریں اس تاریک راہداری کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں جس میں اس کا محافظ دستہ غائب ہو گیا تھا، اسے سب سے پہلے قیدی خواتین نظر آئیں وہ اپنی نجات دہندہ کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھیں، لیکن دھوپ میں آئیں تو ان کی آنکھیں چوندھیا گئیں انہوں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے وہ ایک لمبے عرصے بعد دھوپ میں آئیں تھیں، انہیں سورج کی روشنی اور تپش سے محروم کردیا گیا تھا ان کے پیچھے جو بھی قیدی باہر آیا اس نے سرجھکا کر دونوں ہاتھ اوپر آنکھوں پر رکھ لئے
آنکھیں کھولو۔۔۔ عمربن عوانہ نے جذبات کی شدت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔اپنے فاتح سالار کو دیکھو جو فرشتہ بن کر اترا ہے۔
محمد بن قاسم گھوڑے سے کود آیا اور دوڑتا ہوا آگے گیا سب سے آگے جو عورتیں تھیں ان کی آنکھوں نے سورج کی چمک کو قبول کر لیا تھا، اور ان کی اپنی کوشش بھی یہی تھی کہ ان کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہو جائیں ،انہوں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان ان کے سامنے اس طرح موجود تھا کہ اس کا ایک گھٹنا زمین پر تھا اور دوسرا گھٹنا سامنے تھا وہ زمین پر ایک زانو تھا اور اس کے بازو دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے یہ محمد بن قاسم تھا، جو قیدیوں کے استقبال کو اس پوزیشن میں زمین پر بیٹھ گیا تھا، عورتیں اس کے قریب آ کر رک گئیں۔
کیا میں نے عہد پورا کردیا ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے جذباتی لہجے میں کہا۔۔۔ کیا تم اللہ کے حضور گواہی دوں گی کہ یہ ہے اسلام کا وہ فرزند جس نے ہمیں کفار کی کال کوٹھریوں سے نکالا تھا۔
ایک ادھیڑ عمر عورت اس کی طرف لپکی اور اسے اٹھا کر گلے لگا لیا پھر اس کے چہروں پر بوسوں کی بوچھاڑ کردی۔
خدا کی قسم!،،،،،، اس خاتون نے کہا ۔۔۔اہل ثقیف کی مائیں ایسا بیٹا پھر نہیں جنیں گیں، ہر قیدی جذبات اور عقیدت سے دیوانہ ہو کر محمد بن قاسم سے لپٹ لپٹ کر ملا ۔
محمد بن قاسم رہا کرائے ہوئے قیدیوں کے ساتھ قید خانے کے دفتر میں گیا ،اس نے قید خانے میں ان قیدیوں کا شور سنا جو بند کوٹھریوں کی سلاخوں کو جھنجھوڑ رہے تھے، اور جو قیدی باہر تھے وہ اپنے پاؤں میں پڑی ہوئی آہنی بیڑیوں کو پتھروں سے توڑنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ سب پنجروں میں بند پرندوں کی طرح تڑپ رہے تھے پھڑپھڑا رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دروغہ کو پکڑ کر لاؤ ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔۔ اور اسے قتل کر دو ۔
محافظ دوڑ پڑے قید خانے میں ہر جگہ دیکھا محافظوں کو صرف قیدی دکھائی دئے ان سے پوچھا دروغہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا، محمد بن قاسم جب قید خانے میں داخل ہوا تھا تو اسے دروغہ مل گیا تھا، اس نے فوراً بتادیا تھا کہ عرب کے قیدی کہاں ہیں، اس نے چابیاں لیں اور محافظ کے ساتھ تہہ خانے کی طرف چل پڑا تھا ،جس وقت قیدی باہر آکر محمد بن قاسم سے ملے تھے اس وقت دروغہ وہاں سے کھسک گیا تھا، نکل بھاگنے کا موقع اچھا تھا۔
دو قیدی بیڑیوں سمیت قدم گھسیٹتے قیدخانے کے بڑے دروازے سے نکل رہے تھے انہوں نے بتایا کہ دروغہ باہر چلا گیا ہے ،دو محافظوں نے باہر کو گھوڑے دوڑا دئیے انہوں نے دروغہ کو پہلے دیکھا تھا تھوڑی ہی دور گئے تو انہیں دروغہ جاتا نظر آ گیا اسے پکڑ کر محمد بن قاسم کے پاس لے آئے۔
کیا تو سمجھتا تھا کہ دیبل سے زندہ نکل جائے گا ؟،،،،محمد بن قاسم نے اس سے ترجمان کی معرفت پوچھا۔
اے فاتح سالار!،،،،، دروغہ نے کہا ۔۔۔۔اگر میں زندہ نکل جانے کی کوشش میں ہوتا تو آپ کے ان آدمیوں کو اتنی آسانی سے نہ مل جاتا۔
کیا تو زندہ نکلنے کی کوشش میں نہیں تھا؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔ کیا تو قتل ہونا چاہتا ہے؟
نہیں !،،،،دروغہ نے کہا۔۔۔ اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہو گی کہ آپ فاتح ہیں اس کے سوا آپ کے پاس میرے قتل کی کوئی اور وجہ موجود نہیں۔
کیا ان بے گناہوں کو اتنا عرصہ قید میں رکھنا کوئی جرم نہیں ؟،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہارا یہ جرم کیسے بخش دوں؟
کیا ان بے گناہوں کو اتنا عرصہ زندہ رکھنا جرم ہے ؟،،،،دروغہ نے کہا۔۔۔ انہیں ہمارے راجہ کے حکم سے قید میں ڈالا گیا تھا ،اور انھیں آرام اور عزت سے میرے حکم سے رکھا گیا تھا ،انھیں قید میں ڈالنے کی سزا کا حقدار راجہ داہر ہے ،اور اگر انہیں قید خانے میں کوئی تکلیف پہنچائی گئی ہے تو اس کی سزا ملنی چاہیے، پہلے ان قیدیوں سے پوچھ لیں سالار محترم۔
چچ نامہ میں مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے اپنے قیدیوں سے پوچھا کہ قید خانے میں ان کے ساتھ ان لوگوں کا سلوک کیسا رہا ؟،،،،،،تمام قیدیوں نے بتایا کہ یہ دروغہ ہر روز تہہ خانے میں آتا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا ،تمام قیدیوں نے اس کے سلوک
کی بہت تعریف کی۔
سالار محترم !،،،،،دروغہ نے کہا ۔۔۔آپ نہیں جانتے کہ میں نے ان قیدیوں میں جو دو نوجوان لڑکیاں ہیں ان کو میں نے دیبل کے حاکم سے بڑی مشکل سے بچا کر رکھا ہے، کبھی کبھی وہ قید خانے میں آیا کرتا تھا ،میں اس کے آنے کی اطلاع پر ان دو لڑکیوں کو ایک جگہ چھپا دیا کرتا تھا، اور سالار محترم اروڑ سے راجہ داہر کا حکم آیا تھا کہ عرب کی فوج کا دیبل کا محاصرہ کامیاب ہوگیا اور عرب فوج شہر میں داخل ہو گئی تو ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، وہ وقت آ گیا تھا میں نے اپنے راجہ کے اس حکم کی تعمیل نہ کی۔
جیل سے سنتری بھاگ گئے تھے ۔۔۔محمد بن قاسم نے پوچھا ۔۔۔راجہ داہر کا قانون اور حکم ختم ہوگیا تھا، پھر تم نے ہمارے قیدیوں کو آزاد کیوں نہ کر دیا۔
آزاد کر دیتا تو سنتری بھاگنے سے پہلے انہیں قتل کردیتے ۔۔۔۔۔دروغہ نے جواب دیا ۔۔۔۔سنتریوں کو معلوم تھا کہ عرب کی فوج ان قیدیوں کو رہا کرانے کے لئے آ رہی ہے، انہوں نے دیول پر پتھر گرتے اور پھر جھنڈے کو بھی گرتے دیکھا تھا ،یہ ان قیدیوں سے انتقام لے لیتے لیکن میں نے تہہ خانے کا دروازہ بند کرا دیا تھا ،سب کے بھاگ جانے کے بعد میں یہاں موجود رہا ،میں نے عہد کیا تھا کہ ان قیدیوں کو عربی فوج کے حوالے کرکے یہاں سے جاؤنگا، میں اپنا عہد پورا کرکے جا رہا تھا، میں بھاگ نہیں رہا تھا۔
تم ان پر اتنے مہربان کیوں رہے؟،،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
اس لئے کے یہ بے گناہ تھے ۔۔۔دروغہ نے جواب دیا۔۔۔ اگر آپ نے مجھے قتل کرانا ہے تو تلوار ان قیدیوں میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیں اور اسے کہیں کہ وہ مجھے قتل کریں۔
قیدی پہلے ہی محمد بن قاسم کو بتا چکے تھے کہ اس دروغہ نے انہیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دی۔
تمہیں اسلام قبول کر لینا چاہیے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ تمہاری قدروقیمت صرف اسلام میں جانی پہچانی جائے گی ،تم پر کوئی جبر نہیں میں تمہیں قبول اسلام کی دعوت دے کر ایک نیکی کر رہا ہوں اس کا اندازہ تمہیں اسلام میں آکر ہوگا۔
تاریخیوں میں یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے، دروغہ نے اسلام قبول کرلیا یہ واضح نہیں کہ اس کا نام قُبلہ اسلامی تھا یا پہلے ہی اس کا نام یہی نام تھا اور یہ بدلا نہیں گیا ،تاریخیوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ہندوستان کے کسی اور علاقے کا رہنے والا تھا، اور وہ ہندوستان کا مشہور دانشور، صاحب علم ،اور اہل قلم تھا ۔محمد بن قاسم نے اس کی یہ خوبیاں بھانپ لی، اور نہ صرف قید خانے کا دروغہ رہنے دیا ،بلکہ دیبل کا جو امیر مقرر کیا گیا دروغہ قُبلہ کو اس کا مشیر بنا دیا۔ حمید بن ورداع نجدی کو دیول کا امیر یا حاکم مقرر کیا گیا تھا۔ اسے محمد بن قاسم نے کہا کہ وہ انتظامی امور اور دیگر معاملات میں قُبلہ سے مشورہ لیا کرے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم ابھی قیدخانے میں تھا اور اس نے قبلہ کو دروغہ قیدخانہ مقرر کردیا۔
کیا یہاں ایسے اور بھی بے گناہ قیدی ہیں؟،،،، محمد بن قاسم نے قبلہ سے پوچھا۔
جس ملک کا حکمران سچ سننا پسند نہ کرتا ہو اس ملک کے قیدخانے سچ بولنے والوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔۔۔قبلہ نے جواب دیا۔۔۔ یہاں کئی بے گناہ ہوں گے۔
یہ فیصلہ تم خود کرو قبلہ !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔۔ جنہیں بے گناہ سمجھتے ہو انہیں رہا کر دو،اور جو مجرم ہے ان کی سزائیں اگر جرم کی نسبت زیادہ ہے تو کم کردو، اب اسلامی عدل و انصاف کے اصول چلیں گے۔
عرب کے جن قیدیوں کو رہا کرایا گیا تھا ان کے متعلق محمد بن قاسم نے حکم دیا کے انہیں فوراً کشتیوں میں عرب کو بھیج دیا جائے۔ اس نے ان قیدیوں کے ساتھ بہت باتیں کیں۔
،،،، تم اللہ کا شکر صرف اس پر بجا نہ لاؤ کہ تم اس قیدخانے سے زندہ و سلامت نکل آئے ہو،جس سے تم جیسے قیدی زندہ نہیں نکلا کرتے، بلکہ اللہ نے تمہیں بہت بڑی سعادت بخشی ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے قیدیوں سے کہا۔۔۔ تم یہاں قید نہ ہوتے تو میں یہاں نہ آتا، میں آگیا ہوں تو میں اس کفرستان کے گوشے گوشے میں اسلام کا نور پھیلاؤنگا، تمہاری قید نے میرے لیے نہیں اسلام کے لئے راستے کھول دیے ہیں، اس ملک کی تاریخ میں جب یہاں اسلام کی آمد کا ذکر آئے گا تو اسلام سے پہلے تمہارا ذکر ہوگا ،سندھ کی فتح کے ساتھ تمہارا ذکر ہو گا ،تم نے قید کی جو اذیت برداشت کی ہے اللہ اسکا تمہیں اجر دے گا، دعا کرتے رہنا کہ میں جو عزم لے کر آیا ہوں وہ پورا کر سکوں، تمہاری رہائی پر ہی میرا کام ختم نہیں ہوا، میرا کام اب شروع ہوا ہے ،
قیدی دعائیں دیتے رخصت ہوئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دیبل کا ہندو حاکم بھاگ گیا تھا اسے بہت ڈھونڈا گیا گھر گھر دیکھا گیا اس کا سراغ نہ ملا ،وہ نیرون پہنچ گیا تھا اسے نیرون میں ہی پناہ مل سکتی تھی، وہ اروڑ میں راجہ داہر کے پاس جاتا تو داہر اسے شکست اور اپنی فوج کو چھوڑ کر بھاگ آنے کے جرم میں قتل کرا دیتا، اسے معلوم تھا کہ نیرون کا حاکم سندرشمنی امن پسند آدمی ہے۔
داہر کو جب اطلاع ملی کہ دیول پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے تو وہ صحیح معنوں میں آگ بگولا بن گیا، کوئی بھی اس کے سامنے نہیں جاتا تھا، ایسی جرات اسکا دانشمند وزیر بدہیمن ہی کرسکتا تھا ،وہ اندر چلا گیا۔
کیا لینے آئے ہو ؟،،،،راجہ داہر نے گرج کر بدہیمن سے کہا۔۔۔ کہاں گئی تمہاری دانشمندی؟
مہاراج!،،،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔ ہماری فوج نے عرب کے حملہ آوروں کو دو بار شکست دی تھی، اس سے ہماری فوج نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اُسے کسی میدان میں شکست تو ہو ہی نہیں سکتی ،ہماری فوج پر فتح کا نشہ سوار ہوگیا تھا ،مسلمانوں کے دباؤ کو ہمارے سپاہی برداشت نہ کر سکے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ دیول کا جھنڈا گر پڑا تھا۔۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔عرب کے ان مسلمانوں نے مندر کے گنبد پر پتھر پھینکے تھے، گنبد ٹوٹا تو جھنڈا گر پڑا ،ہماری قسمت اس جھنڈے کے ساتھ وابستہ ہیں ،اگر وہاں اس سے چار گنا زیادہ فوج ہوتی تو وہ بھی بھاگ جاتی۔
مہاراج!،،،،، بدہیمن نے کہا ۔۔۔سوال آپ کے راج بھاگ کا ہے، اگر مسلمان اسی طرح فتح پر فتح کرتے آئے تو اپنا انجام سوچ لیں ،آپ تخت سے تہہ خانے تک پہنچ جائیں گے، آپ نے مجھ پر ہمیشہ اعتماد کیا اور مجھے دانشمند سمجھا ہے ،اور آپ کو میری وفاداری پر بھی شک نہیں تو میں آپ سے امید رکھتا ہوں کہ میری کسی بات سے آپ خفا نہیں ہوں گے۔
نہیں ہونگا ۔۔۔راجہ داہر نے جھنجلا کر کہا ۔۔۔تم بات کرو اور فوراً کرو، دیبل پر قبضہ ہو گیا ہے تو یوں سمجھو کہ دشمن نے ہماری شہ رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ ہماری شکست کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی قسمت بےجان چیزوں کے ساتھ وابستہ کر دی ہے، وہ ایک جھنڈا تھا جو گر پڑا تھا وہ کپڑے کا ٹکڑا تھا اور ایک بانس کے ساتھ بندھا ہوا تھا، پنڈتوں نے دلوں میں یہ عقیدہ ڈال دیا کہ یہ جھنڈا دیوتاؤں نے اپنے ہاتھوں یہاں لہرایا تھا ،یہ گر پڑا تو سمجھو ہم سب گر پڑے، اور دیوتاؤں کا قہر آ گیا ،اگر اپنی فوج کو اور اپنے لوگوں کو یہ بتایا جاتا کہ یہ جھنڈا ہماری عظمت اور عزت کا نشان ہے، دشمن اس تک نہ پہنچنے پائے ،اگر جھنڈے کو ہم یہ درجہ دیتے تو دیول کی فوج اور وہاں کے لوگ اپنی جانیں لڑا دیتے۔
انہوں نے جانے لگا دی تھیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔وہ سب دروازے کھول کر باہر نکلے اور دشمن پر حملہ کردیا تھا۔
میں جانتا ہوں مہاراج!،،،، بدہیمن نے کہا ۔۔۔وہاں سے آئے ہوئے دو آدمیوں میں سے میں نے پوری تحقیقات کی ہے، ہماری فوج اور دیبل کے شہریوں کا باہر نکل کر مسلمانوں پر جو حملہ کیا تھا وہ حملہ نہیں تھا وہ تو خودکشی کی کوشش تھی، یہ بھی عقیدہ ہے کہ جھنڈا گر پڑے تو دشمن پر اندھا دھند ٹوٹ پڑو اور مارے جاؤ۔
وہ تو مارے جاچکے ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ میں دیول کے حاکم کو اور وہاں کے فوجی حاکم کو بھی زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا، معلوم نہیں وہ کہاں ہے؟
مہاراج کو ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ بدہیمن نے کہا ۔۔۔انہیں زندہ رہنے دیں ،اور انہیں شرمسار کریں، وہ کوشش کریں گے اور اگلی لڑائی میں اپنے چہروں سے شکست کا داغ دھو ڈالیں گے،لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے مہاراج اگر ان کے دلوں پر یہ دہشت طاری رہی تو دیول کا جھنڈا گر پڑا تھا اس لیے ان پر دیوتاؤں کا قہر گرتا رہے گا، تو وہ ہر میدان میں شکست کھائیں گے
کیا میں انہیں یہ کہو کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرلیں۔۔۔راجہ داہر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔ کیا میں یہ کہوں کہ مسلمانوں کا مذہب سچا ہے ؟،،،،جس کے ماننے والوں نے دیول کا جھنڈا گرا کر ہمارے دیوتاؤں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے، بدہیمن تم دانشمند ہو تم میں مجھ سے زیادہ عقل ہو سکتی ہے، لیکن میرا یہ عہد سن لو کہ سندھ میں اسلام نہیں آئے گا۔
وہ تو آ گیا ہے مہاراج!،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔ مہاراج نے پہلے ہی اسلام کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے، جن عربوں کو مہاراج نے اپنے سائے اور شفقت میں رکھا ہوا ہے وہ ہمارے نہیں اپنے مذہب کے لوگوں کے ہمدرد ہیں ،کیا مہاراج نے سوچا ہے کہ مسلمانوں کے سالار کو کس نے بتایا تھا کہ اس جھنڈے کو گرا دو تو دیبل والوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی، شہر کے دروازے بند تھے اندر سے باہر کوئی نہیں گیا، یہ ایک راز تھا جو ان عربوں نے حملہ آور سالار کو دیا ہے ،جنہیں ہم نے مکران میں آباد کر رکھا ہے ۔
ان کے خلاف میں اب کیا کرسکتا ہوں؟
مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ انہیں اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں ان سے ایک راز لینے کی کوشش کریں، ان سے پوچھیں کہ منجنیق کس طرح بنائی جاتی ہے؟،،،، ہوسکتا ہے انھیں میں منجنیق بنانے والے ایک دو کاریگر ہوں، اگر ہمیں دس بارہ منجنیقیں مل جائیں تو ہم مسلمان فوج کے پڑاؤ پر رات کے وقت پتھر اور آگ کے گولے برسا سکیں گے، جب ان کی فوج ایک جگہ سے کوچ کرے گی تو ہم انھیں اگلے پڑاؤ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔
یہ راز تم حاصل کرنے کی کوشش کرو۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اگر ان میں کوئی کاریگر نہ ملے تو ان میں سے ایسے آدمی تیار کرو جو عرب کی فوج میں ان کے وفادار بن کر شامل ہو جائیں اور منجنیقوں کو اچھی طرح دیکھ لیں کہ اس کی ساخت کیا ہے، اور کس لکڑی سے بنتی ہے، میں منجنیقیں بنانے والے کو اتنا انعام دوں گا جو اس کی سات پشتوں میں ختم نہیں ہوگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دیبل کی شکست راجہ داہر کے لئے معمولی سی چوٹ نہیں تھی اور وہ کوئی ایسا اناڑی بھی نہیں تھا کہ وزیر کے مشورے کے بغیر کچھ سوچ ہی نہ سکتا ،وہ تجربے کار اور عیار قسم کا جنگجو تھا، ہندومت کے سوا کسی اور مذہب کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتا تھا، اس کے وزیر اس کی فوج کے سالار اور مشیروں اور پنڈتوں تک کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ دوسرے ہی لمحے وہ کیسی خوفناک کارروائی کا حکم دے دے، وہ شکست کھانے والے فوجی افسروں کو بخشنے والا نہیں تھا۔
اس نے بدہیمن کو رخصت کردیا اور کمرے کے دروازے بند کرکے تنہائی میں بیٹھ گیا، اس کے درباری اور حاکم وغیرہ باہر کھڑے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے، انہیں معلوم تھا کہ راجہ آگ اگلنے والا پہاڑ ہے اگر یہ پھٹ پڑا تو معلوم نہیں کس کس کو بھسم کر ڈالے گا۔
بہت دیر بعد اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس نے حکم دیا کہ جے سینا کو فوراً بلایا جائے۔
جے سینا راجہ داہر کا اپنا بڑا بیٹا تھا ،جو کسی دوسری بیوی میں سے تھا اس نے اپنی سگی بہن کو بھی بیوی بنا رکھا تھا لیکن کہتا تھا کہ وہ اس کی بہن ہی ہے۔
جے سینا سندھ کی فوج میں سالار تھا جسے فوجی حاکم کہا جاتا تھا، جس وقت داہر نے اسے بلایا اس وقت وہ اپنے دستوں کے ساتھ نیرون کے مضافات میں کسی جگہ خیمہ زن تھا، اسی وقت قاصد روانہ ہو گیا۔
جے سینا آدھی رات کے وقت آ پہنچا ،راجہ داہر اس کے انتظار میں جاگ رہا تھا اس نے اپنے بیٹے کو آرام تک نہیں کرنے دیا اور اپنے پاس بٹھا لیا ۔
میرے عزیز بیٹے!،،،، اس نے کہا ۔۔۔کیا تم نے اس خطرے کا اندازہ کیا ہے جو ہمارے سر پر آگیا ہے؟
میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔۔۔ جے سینا نے کہا ۔۔۔میں حیران ہوں کہ آپ ابھی تک سوچوں میں پڑے ہوئے ہیں میں فوراً دیول پر حملہ کرنے کی سوچ رہا ہوں۔
جوان اور بوڑھے میں یہی فرق ہوتا ہے ۔۔۔داہر نے کہا۔۔۔ جوان آدمی کرکے سوچتا ہے اور بوڑھا سوچ کر کرتا ہے، تم نے نہیں سوچا کہ نیرون ہاتھ سے نکل چکا ہے، میں زہر کا یہ گھونٹ اپنے حلق سے کبھی نہیں اتاروں گا۔
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عرب کی حملہ آور فوج کا سالار مجھ سے بھی چھوٹی عمر کا ہے۔۔۔ جے سینا نے کہا۔۔۔ آپ مجھے صرف اس لیے کم عقل نہ سمجھیں کہ میں جوان ہوں۔
میں تمہارا اور اس کا مقابلہ نہیں کر رہا ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اس وقت جو صورتحال ہے اس پر غور کرو اور جو میں کہتا ہوں وہ کرو ،اور یہ بھی سوچ لو کہ اب یہ جنگ کی صورت بدل چکی ہے، اب یہ دو ملکوں یا دو بادشاہوں کی جنگ نہیں، یہ دو مذہبوں کی جنگ بن گئی ہے، مسلمانوں نے دیول کا متبرک جھنڈا گرا کر ہمارے مذہب کو اور ہمارے دیوتاؤں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے، اب ہم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ دیوتاؤں کی توہین کرنے والا ان کے قہر سے نہیں بچ سکتا، یہ بھی سوچ لو کہ ہم نے اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی تو یہ سیاہ دھبہ میرے خاندان کے چہرے پر لگا رہے گا کہ اس خاندان نے ہندوستان میں اسلام کے لیے دروازے کھولے تھے، اتنی زیادہ باتوں کا وقت نہیں، ارمن بیلہ اور دیبل کا ہاتھ سے نکل جانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن جنگی نقطہ نگاہ سے یہ بڑی خطرناک صورت ہے، دشمن کو وہ مضبوط اڈے مل گئے ہیں ،دیبل بندرگاہ ہے اب دشمن کو سمندر کے راستے کمک رسد اور ہر طرح کی مدد آسانی سے ملتی رہے گی ،ادھر نیرون کے حاکم سندرشمنی نے پہلے ہی مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے۔
پِتامہاراج !،،،،،جے سینا نے کہا۔۔۔ نیرون کو ہم اس طرح بچا سکتے ہیں کہ میں اپنے دستے نیرون میں بھیجوں اور وہاں کے حاکم سندر شمنی کو اس کے گھر میں نظر بند کر دوں۔
نہیں! ،،،،راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اگر تم ایسا کرو گے تو وہاں کے لوگ تمہارے خلاف ہو جائیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے خلاف ہتھیار اٹھائیں، کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہمارے وزیر بدہیمن نے لوگوں کو مرعوب کرنے اور وہاں کے حاکم کے خلاف بھڑکانے کے لئے شعبدہ بازی کا انتظام کیا تھا، لیکن وہ بری طرح ناکام رہا، مجھے بتایا گیا تھا کہ ہمارے اس ناکامی کے پیچھے عربوں کا ہاتھ تھا جو سندرشمنی کے بلانے پر یا وہ خود ہی نیرون میں آگئے تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندرشمنی کا عربوں کے ساتھ درپردہ رابطہ ہے۔
اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس شخص کو ہمیشہ کے لیے غائب کر دو ۔۔۔جے سینا نے کہا۔
اگر ایسا کرنا ہوتا تو میں کبھی کا اسے غائب کر چکا ہوتا۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔لیکن اس حالت میں جب کہ حملہ آور ہمارے قلعوں پر قابض ہو چکے ہیں اور ان کے جاسوس ہمارے محلات تک پہنچ رہے ہیں میں کوئی خطرہ مول نہیں لوں گا ،خطرہ یہ ہے کہ نیرون میں بدھ مت کے لوگ جمع ہو گئے ہیں وہ خانہ جنگی پر اتر آئیں گے، اور اس کا فائدہ حملہ آور مسلمان کو پہنچے گا، میں نے یہ سوچا ہے کہ جب مسلمان کی فوج دیبل سے آگے بڑھے گی تو میں نیرون کے حاکم سندرشمنی کو کسی خاص اور ضروری کام کے بہانے اپنے پاس بلا لوں گا ،میرا خیال یہ ہے کہ مسلمان دیبل سے نیرون پر ہی آئیں گے، تم ابھی واپس چلے جاؤ اور اپنے دستے برہمن آباد لے جاؤ ،تمہیں دریا عبور کرنا پڑے گا لیکن یہ بہت ضروری ہے وہ اس لئے کہ دشمن جب تمہارے سامنے آئے تو دریا تمہاری پیٹھ کے پیچھے ہو، اس طرح دشمن تمہارے عقب میں نہیں آ سکے گا، نیرون میں اپنی فوج کا جو حاکم ہے اس سے ملنا اور کہنا کہ وہ نیرون کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔
جے سینانے کہا! اور اگر لوگوں نے اپنی ہی فوج کے لئے کوئی مشکل پیدا کر دیں تو کیا کارروائی کی جائے؟
جیسی صورتحال پیدا ہو وہ اس کے مطابق کارروائی کرے ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔اگر وہ کسی طرح مجھ تک اطلاع پہنچا سکے تو پہنچا دے، میں کچھ وقت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا ،اس کا ایک طریقہ یہ اختیار کر رہا ہوں کہ میں مسلمانوں کے سالار محمد بن قاسم کو ایک خط لکھ رہا ہوں ،میں اسے ڈرانے کی کوشش کروں گا ،میں جانتا ہوں کہ جو اپنے وطن سے اتنی دور آئے ہیں وہ الفاظ سے نہیں ڈرا کرتے، لیکن اس طرح ہمیں تیاری کا اور اپنے دستے مختلف جگہوں پر بھیجنے کا وقت مل جائے گا۔
جے سینا اسی وقت روانہ ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دیبل میں اذان گونج رہی تھی ،محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے ان فوجیوں کو جو بھاگ نہیں سکے تھے قیدی بنا لیا تھا ،اس فوج میں سے زیادہ تر آدمی محمد بن قاسم کے اس حکم کے تحت مارے گئے تھے کہ کسی کو بخشا نہ جائے، دیبل کے شہریوں نے بھی دیول کا جھنڈا گرنے کے بعد مسلمان فوج پر ہلہ بولا تھا لیکن محمد بن قاسم نے عام معافی کا اعلان کردیا ،اس طرح کچھ لوگ شہر سے بھاگ کر مضافات میں ہی کہیں چھپ گئے تھے وہ آہستہ آہستہ واپس آگئے۔
محمد بن قاسم نے مال غنیمت اپنی فوج میں تقسیم کیا اور بیت المال کا حصہ جنگی قیدیوں کے ساتھ سمندر کے راستے عراق بھیج دیا۔ اس نے حمید بن ورداع نجدی کو امیر دیبل مقرر کیا ۔
دیبل کو مکمل طور پر اسلامی شہر بنانے کے لئے محمد بن قاسم نے شہر کے وسط میں ایک مسجد کی تعمیر شروع کردی ،اس مسجد کی بنیادوں کی کھدائی میں بسم اللہ محمد بن قاسم نے اپنے ہاتھوں کی، آج اس مسجد کا کہیں نام و نشان ہے نہ دیبل کہیں نظر آتا ہے، اس کے کھنڈر بھی وقت اور زمانے کی نذر ہو چکے ہیں، لیکن تاریخ میں دیبل ایک سنگ میل کی طرح زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اس شہر کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ یہاں ہندوستان کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔
دو تاریخ نویسوں نے اس وقت کی تحریروں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ دیبل کے لوگ محمد بن قاسم کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ وہاں کے بت تراشوں نے محمد بن قاسم کا مجسمہ بنالیا تھا ،کسی اور مستند مورخوں نے اس کی تصدیق نہیں کی، لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کا اور اس کی فوج کا سلوک وہاں کے شہریوں کے ساتھ اتنا مُشفقانہ تھا کہ لوگ اس کی پوجا کرنے پر بھی اتر آئے تھے، محمد بن قاسم کو بڑی تیزی سے آگے بڑھنا چاہیے تھا لیکن وہ شہری انتظامات مکمل کیے بغیر آگے بڑھنا مناسب نہیں سمجھتا تھا، تاریخ اسلام کے اس کمسن سالار کے سامنے ایک مقصد تھا وہ ان بادشاہوں جیسا نہیں تھا جو دولت اور ملک گیری کی ہوس لے کر حملہ کرتے اور بستیوں کی بستیاں اجاڑتے چلے جاتے ہیں۔
محمد بن قاسم نے جاسوسی کا نظام خالد بن ولید جیسا بنا رکھا تھا بلکہ اس نے جاسوسی خالد بن ولید سے ہی سیکھی تھی، اسی مقصد کے لیے اس نے شعبان ثقفی کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا، وہ خود اپنی فوج کے ساتھ دیبل میں تھا لیکن جاسوسوں کی معرفت وہ نیرون اور اروڑ تک پہنچ چکا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز دیبل شہر کے دروازے کے باہر آٹھ شاہی سوار آ کر رکے، انھوں نے بتایا کہ وہ اروڑ سے آئے ہیں اور راجہ داہر کا پیغام لائے ہیں ۔
محمد بن قاسم کو اطلاع دی گئی۔
ان کے لیے دروازہ کھول دو ۔۔۔محمد بن قاسم نے حکم دیا۔۔۔ ایلچی کو میرے پاس بھیج دو اور اس کے محافظوں کو عزت سے رکھو اور ان کی خاطر مدارت کرو ۔
راجہ داہر کا ایلچی جب محمد بن قاسم کے سامنے آیا تو وہ رکوع کی طرح جھک گیا پھر اس نے پر تکلف سے الفاظ کہنے شروع کردیئے ترجمان اس کے الفاظ کا ترجمہ کرتا جا رہا تھا۔
کیا اتنا کافی نہیں ہے کہ یہ یہاں آگیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اسے کہو کہ ہم اپنے سامنے کسی کا اس طرح جھکنا پسند نہیں کرتے، نہ ہی ہمارا مذہب اسکی اجازت دیتا ہے کہ کوئی انسان کسی انسان کے سامنے اس طرح جھکے، اس سے پیغام لے لو اور اسے باہر بٹھاؤ۔
ایلچی نے پہلا عربی سالار دیکھا تھا جو فاتح بھی تھا ،اس سالار کی بات سن کر وہ اسے حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ نوجوان بھی ہے، سالار بھی ہے، اور فاتح بھی ہے لیکن اس میں اخلاق بھی ہے، اس نے پیغام محمد بن قاسم کے حوالے کیا اور باہر نکل گیا۔
محمد بن قاسم نے کھول کر دیکھا یہ پیغام راجہ داہر نے اپنی زبان میں لکھا تھا ،محمد بن قاسم نے پیغام اپنے ترجمان کے حوالے کردیا ترجمان پیغام پڑھنے لگا تاریخوں میں یہ پیغام لفظ بلفظ محفوظ ہے ،یہ اس طرح ہے۔
یہ پیغام چچ کے بیٹے داہر کی طرف سے ہے جو سندھ کا بادشاہ اور ہندوستان کا راجہ ہے، یہ خط اس داہر کی طرف سے ہے جس کا حکم دریاؤں جنگلوں صحراؤں اور پہاڑوں پر چلتا ہے، یہ پیغام عرب کے کم عمر اور ناتجربہ کار سالار محمد بن قاسم کے نام ہے جو انسان کے قتل میں بے رحم اور مال غنیمت کا حریص ہے ،اور جس نے اپنی فوج کو تباہی اور موت کے منہ میں پھینکنے کی حماقت کی ہے،،،،،
ائے کمسن لڑکے تم سے پہلے بھی تمہارے وطن کے سالار اپنے دماغوں میں یہ خبط لے کر آئے تھے کہ وہ سندھ کو اور پھر ہندوستان کو فتح کریں گے، کیا تو نے ان کا انجام نہیں دیکھا یاسنا، ہم نے اسی شہر دیبل میں ان کو ایسی شکست دی تھی کہ وہ زندہ واپس نہ جا سکے، وہ دیبل کی دیواروں تک بھی نہیں پہنچ سکے تھے، اب یہی خبط تم اپنے دماغ میں لے کر آ گئے ہو دیبل کو فتح کرکے اور اس شہر کے اندر بیٹھ کر تم بہت خوش ہوں گے، لیکن میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کے اس شہر کی فتح پر غرور نہ کرنا یہ چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں تاجر بیوپاری اور دکاندار رہتے ہیں، یہ لوگ جنگجو نہیں نہ کبھی انہیں لڑائی سے واسطہ پڑا ہے، ان پر دو تین پتھر پھینکے تو انہوں نے ڈر کر شکست تسلیم کر لی ،دیبل میں ہماری کوئی اتنی فوج بھی نہیں تھی، تم اسے اتنی بڑی فوج اور ہماری شکست نہ سمجھو اگر ہمارا ایک بھی بہادر سالار وہاں ہوتا تو تمہارا انجام تمہارے وطن کے پہلے سالاروں جیسا ہوتا ،تم اور تمہارا ایک بھی سپاہی زندہ نہ ہوتا، میں تمہاری نوجوانی پر رحم کرتا ہوں اور تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ایک قدم آگے نہ بڑھانا جہاں تک پہنچے ہو وہی سے واپس چلے جاؤ ،آگے آؤ گے تو تمہارا سامنا میرے بیٹے جے سینا سے ہوگا ،تم نہیں جانتے کہ اس کے قہر اور غضب سے بڑے جابر اور جنگجو بادشاہ بھی پناہ مانگتی ہیں، اور ہندوستان کے راجہ اور مہاراجہ اس کے آگے ماتھے رگڑتے ہیں ،میرا بیٹا سندھ ،مکران، اور توران کا حکمران ہے، اس کے پاس ایک سو جنگی ہاتھی ہیں جو بدمست ہو کر لڑتے اور دشمن کو کچلتے ہیں، اور جے سینا خود ایک سفید ہاتھی پر سوار ہوتا ہے جس کا مقابلہ نہ گھوڑے کرسکتے ہیں نہ وہ بہادر سپاہی جوبرچھی برادر ہوتے ہیں،،،،
تم صرف ایک فتح پر اتنے مغرور ہوگئے ہو کہ تمہاری عقل پر پانی پڑ گیا ہے، تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو تمہارے پہلے سالار بدیل کا ہوا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی