⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴تیرہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بدہیمن کمرے میں داخل ہوا۔
داہر کے یوں بات کرنے کا مطلب یہ تھا کہ سندر آج رات کو ہی واپس چلا جائے، سندر نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ اور اس کا یہ کہنا کہ عزت سے رخصت کریں، ایک اشارہ تھا۔
کیا حاکم نیرون تیار ہیں؟،،،، بدہمن نے پوچھا۔ ہاں !،،،،،،سندر شمنی نے کہا ۔۔۔تیار ہوں ۔۔۔کچھ دیر بعد سندر شمنی قلعے سے اس طرح نکل رہا تھا کہ اس کے گھوڑے کے پیچھے چھ نقاب پوش محافظوں کے گھوڑے تھے، آگے راجہ داہر کے محافظوں کا دستہ جا رہا تھا ،بدہیمن گھوڑے پر سوار سندر کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا ،چاندنی رات تھی صحرا کی چاندنی بڑی شفاف اور رات سرد تھی، راجہ داہر نے سندر کو احترام سے رخصت کرنے کے لیے اپنا محافظ دستہ بھیجا تھا جسے کچھ دور جاکر واپس آ جانا تھا۔
یہ جلوس خاموشی سے چلا جا رہا تھا رات خاموش تھی گھوڑوں کے قدموں کی آوازوں کے سوا کوئی آواز نہیں تھی، جلوس قلعے سے کوئی ایک میل دور چلا تو بدہیمن نے سندر کو روک لیا ،اس سے ہاتھ ملایا اور ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا، داہر کے محافظوں نے گھوڑے راستے کے دائیں اور بائیں کھڑے کردیے اور سب نے تلوار نکال کر آگے کو جھکا دیں ،سندر اور اس کے محافظ ان کے درمیان سے گزر گئے، داہر کے محافظوں نے تلوار ناموں میں ڈالی بدہیمن نے انہیں واپسی کا حکم دیا اور اپنا گھوڑا دوڑا دیا ،محافظوں نے بھی گھوڑے کو ایڑ لگائی اور وہ قلعے میں داخل ہو گئے، بدہیمن سیدھا راجہ داہر کے پاس گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تمہارا بندوبست ناکام تو نہیں ہو جائے گا ؟،،،،،راجہ داہر نے بدہیمن سے پوچھا ۔
صبح اس کی اور اس کے چھ محافظوں کی لاشیں قلعے میں لائی جائیگی۔۔۔ بدہیمن نے جواب دیا۔۔۔ میں نے بیس آدمی بھیجے ہیں ان پر کسی کو شک نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی فوج کے چنے ہوئے سپاہی اور عہدہ دار ہیں، وہ اونٹوں پر گئے ہیں اور وہ مسافروں کے بھیس میں ہیں میں نے پانچ عورتیں بھی ساتھ بھیج دی ہیں تاکہ دیکھنے والے انہیں مسافر ہی سمجھیں ،سندر نے سب سے پہلے کہیں پڑاؤ ضرور کرنا ہے، جہاں بھی وہ پڑاؤ کرے گا وہاں کچھ دیر سوئے گا ضرور ،اس کے محافظ بھی سو جائیں گے پھر وہ کبھی نہیں اٹھیں گے۔
اس بدھ کو نیرون زندہ نہیں پہنچنا چاہیے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔
نہیں پہنچے گا مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ آپ نیرون کا کوئی اور حاکم مقرر کردیں۔ نیرون کا حاکم میرا اپنا بیٹا جیسیہ ہوگا ۔۔۔داہر نے کہا۔
اور مہاراج !،،،،،،،،بدہیمن نے کہا ۔۔۔سندر کے ساتھ جو محافظ آئے تھے وہ اپنی فوج کے آدمی نہیں تھے وہ عرب کے مسلمان لگتے تھے، ان کی صرف پیشانیاں اور آنکھیں نظر آتی تھیں، جب سندر آپ کے پاس تھا تو یہ محافظ قلعے میں ادھر ادھر ٹہلتے ہر طرف دیکھتے اور آپس میں سرگوشیوں میں باتیں کرتے رہے تھے، ان کی چال ڈھال بھی مجھے مختلف لگتی تھی، پھر میں نے ان کے گھوڑوں کی زین دیکھی یہ ہمارے ملک کی بنی ہوئی نہیں تھی۔
اسی لئے ان کے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شخص نے عربوں کی فوج کے ساتھ تعلق پیدا کر لیا ہے اور اس نے اپنے لئے عرب محافظ رکھ لئے ہیں ۔
آج رات نہ وہ رہے گا نہ اس کے عرب محافظ۔۔۔ بدہیمن نے کہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب بدہیمن راجہ داہر کے ساتھ یہ باتیں کر رہا تھا اس وقت سندر چھ محافظوں کے ساتھ نیرون کے راستے پر جا رہا تھا، فوجوں اور مسافروں کے آنے جانے کا یہی راستہ تھا جو ریگستان میں سے گزرتا تھا، آدھے راستے میں ایک سرسبز جگہ تھی جہاں پانی مل جاتا تھا۔
یہ چھے محافظ عرب تھے، پانچ محمد بن قاسم کی فوج کے تجربے کار سپاہی تھے اور چھٹا حارث علافی کا بھیجا ہوا آدمی تھا جو عرصے سے یہاں رہنے کی وجہ سے یہاں کی زبان بول سکتا تھا، یہ محافظ نیرون اس طرح پہنچے تھے کہ سندر نے ایک آدمی محمد بن قاسم کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا کہ اسے راجہ داہر کی طرف سے جان کا خطرہ ہے۔ حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو اطلاع دے دی تھی کہ نیرون کے حاکم سندر نے اطاعت قبول کر لی ہے اس لئے اسے تحفظ دیا جائے اور شہر کے لوگوں کے جان و مال اور عزت کا خیال رکھا جائے۔
سندر کا یہ مطالبہ ابھی پورا نہیں کیا جاسکتا تھا کہ محمد بن قاسم اپنے ایک دو دستے نیرون بھیج دے، محمد بن قاسم کو بتدریج آگے بڑھنا تھا اس نے علافی کے ساتھ خفیہ رابطہ رکھا ہوا تھا اس نے اس سے پوچھا کہ اسے کیا کرنا چاہیئے؟
نیرون میں آپ کے جاسوسوں کی موجودگی ضروری ہے۔۔۔ علافی نے جواب دیا ۔۔۔اور اپنا ایک آدمی بھیجا تھا اس نے کہا تھا میں جو آدمی بھیج رہا ہوں یہ آپ کے جاسوسوں کے ساتھ نیرون جائے گا وہ نیرون کے حاکم سندر سے ملے گا اور اسے کہے گا کہ ان سب کو اپنے محافظ بنا کر رکھ لیں، سندر کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے اس لئے وہ ویسے ہی کرے گا جیسے اسے آپ کہیں گے ،یہ جاسوس سندر پر بھی نظر رکھیں گے کہ وہ دھوکہ تو نہیں دے رہا۔
اس طرح یہ چھ عرب سندر کے پاس چلے گئے تھے ،محمد بن قاسم کے نظام جاسوسی کے سربراہ شعبان ثقفی نے ان آدمیوں کو خاص ہدایات دے کر بھیجا تھا۔
اروڑ کے راج دربار سے جب سندر کا بلاوا آیا تھا تو سندر کو معلوم تھا کہ وہاں کیا باتیں ہونگی، لیکن اس نے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا تھا، وہ جرات مند اور بے باک آدمی تھا، وہ اپنے ان محافظوں کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا جو پہلے سے اس کے پاس تھے وہ فوج کے آدمی تھے جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔ عربی محافظ شعبان ثقفی کے خاص آدمی تھے انہوں نے سندر کو مشورہ دیا کہ وہ انھیں ساتھ لے چلے، اور یہ انہوں نے ہی سوچا تھا کہ ان کے چہرے سے ڈھانپے ہوئے ہوں تاکہ اروڑ میں کسی کو شک نہ ہو کہ یہ عرب ہیں، نیرون میں ان کے مطلق کے مشہور کیا گیا تھا کہ یہ ان عربوں میں سے ہیں جو عرب سے بھاگ کر آئے اور یہاں آباد ہو گئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سندر رات کو اروڑ سے نیرون کے واپسی سفر پر روانہ ہوا تھا، رات گزر گئی صبح طلوع ہوئی سورج صحرا کے افق سے ابھرا اور اوپر ہی اوپر اٹھتا آیا، راجہ داہر کی آنکھ کھلی تو اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ بدہیمن آیا؟
نہیں آیا مہاراج!،،،، اسے جواب ملا ۔
جوں ہی آئے اسے اندر بھیج دینا۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
بہت سا وقت گزر گیا تو راجہ داہر نے پوچھا کہ بدہیمن نہیں آیا؟
وہ نہیں آیا تھا۔
راجہ داہر نے کہا کہ اسے فوراً بلایا جائے۔ اسے بلانے گئے تو وہ گھر میں نہیں تھا اسے ادھر ادھر ڈھونڈنے لگے تو پتہ چلا کہ وہ قلعے کی دیوار پر کھڑا ہے بدہیمن دیوار پر کھڑا نیرون کی طرف دیکھ رہا تھا ،نیرون کی طرف سے آنے والا راستہ دور تک نظر آرہا تھا صحرا کی ریت دھوپ میں چمکنے لگی تھی بدہیمن کی نظریں جو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی وہ اسے نظر نہیں آرہا تھا ،وہ ان بیس شتر سواروں کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا جنہیں اس نے سندر اور اس کے چھ محافظوں کو قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ انہیں اب تک واپس آ جانا چاہیے تھا لیکن جہاں تک آنکھیں دیکھ سکتی تھیں وہ آتے نظر نہیں آرہے تھے، اسے بتایا گیا کہ مہاراج بلا رہے ہیں وہ مایوسی کے عالم میں قلعے کی دیوار سے اترا اور راجہ داہر کے پاس گیا۔
تم جانتے ہو میں کس خبر کا انتظار کررہا ہوں؟،،،،،، راجہ داہر نے کہا ۔
میں بھی اسی خبر کا منتظر ہو مہاراج !،،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ میں ان کی راہ دیکھ رہا ہوں ہوسکتا ہے سندر رات کو کہیں روکا ہی نہ ہو، اگر وہ دن کو کہیں روکا اور وہ اور محافظ سو گئے تو بھی انہیں صاف کر دیا جائے گا۔
رات کو تو وہ کہیں نہ کہیں ضرور رکے گا ،وہ نیرون نہیں پہنچ سکتا مہاراج ،میرا خیال ہے وہ دور نکل گئے ہیں کل تو وہ ضرور آ جائیں گے۔
وہ دن گزر گیا رات گزری اگلی صبح طلوع ہوئی بدہیمن پھر قلعے کی دیوار پر جا چڑھا اور اس کی نظریں صحرا کو کھوجنے لگیں، اسے شتر سواروں کا قافلہ واپس آتا نظر نہ آیا، راجہ داہر اس سے زیادہ بے چین تھا ،آخر وہ چوتھے روز دوپہر کو واپس آئے قاتلوں کے اس گروہ کا کمانڈر بدہیمن کے سامنے جا کھڑا ہو گیا۔
کام کر آئے ہو۔۔۔ بدہیمن نے پوچھا ۔
کمانڈر نے سر ہلا کر بتایا کہ کام نہیں ہوا۔ کیوں؟،،،،،، بدہیمن نے گرج کر پوچھا۔۔۔ کیا وجہ ہوئی، تم سب ان عورتوں میں مگن ہوگئے ہو گے جنہیں تمہارے ساتھ بھیجا گیا تھا۔
نہیں مہاراج !،،،،،کمانڈر نے جواب دیا۔۔۔ ہم تو کہیں سانس لینے کو بھی نہیں رکے ہم نیرون کے قریب سے واپس آئے ہیں وہ ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آئے، انھوں نے شاید راستہ بدل لیا تھا۔
بدہیمن کا منہ لٹک گیا اس نے راجہ داہر کو بتایا کہ شکار ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
شکار نہیں ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔نیرون ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
اب کچھ اور سوچ رہا ہوں وہ کدھر نکل گئے ہیں بدہیمن نے کہا۔۔۔ کیا انھیں شک ہو گیا تھا۔ سانپ نکل گیا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ پیچھے جو لکیر چھوڑ گیا ہے اسے مت دیکھتے رہو ،سوچنا یہ ہے کہ نیرون کے لوگوں کو کس طرح سندر کے خلاف کیا جائے، لوگ امن چاہتے ہیں اس شخص نے لوگوں کے ذہنوں میں معلوم نہیں کیا ڈال دیا ہے کہ وہ بزدل ہو گئے ہیں، اور اسی کی سنتے ہیں اور اسی کی بات کو سچ مانتے ہیں۔
کچھ کریں مہاراج!،،،، بدہیمن نے کہا۔
کب کرو گے؟،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ معلوم ہوتا ہے تمہاری عقل جواب دے گئی ہے ،اور میرے دل پر ویسے ہی ایک وہم بیٹھ گیا ہے کہ میں نے سندر کو نیرون کی حاکمیت سے سبکدوش کیا تو شاید آسمان گر پڑے گا ،میں اسے اس کے گھر میں قتل کرا دوں گا، یہ نہ ہوا تو میں اسے واپس بلا لوں گا اگر اس نے نیرون نہ چھوڑا تو میں اس کے خلاف فوجی کاروائی کروں گا۔
آپ کچھ بھی نہ کریں تو بہتر ہے۔۔۔ بدہیمن نے کہا ۔۔۔حالات ہمارے حق میں نہیں، دشمن طوفان کی طرح آ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا جبر بغاوت کی آگ بھڑکا دے ہمیں اب جو بھی کارروائی کرنی ہے سوچ سمجھ کر کرنی ہے ۔مہاراج اپنی غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں، ایک طرف بدھوں کو آپ نے اتنا زیادہ دبا کر رکھا ہوا ہے کہ ان کی عبادت گاہوں پر پابندی عائد کر دی ،اور دوسری طرف بدھوں کو ہی شہروں کا حاکم بنا دیا ،دیکھ لیں کتنے شہروں کے حاکم بدھ ہیں ، اگر سب نے سندر شمنی جیسا رویہ اختیار کرلیا تو ہمارے لئے مشکل پیدا ہو جائے گی۔
ابھی نیرون کی بات کر۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اگر عربی فوج دیبل سے آگے بڑھ آئی تو نیرون کو اڈا بنا لے گی۔
بدہیمن گہری سوچ میں گم ہو گیا، راجہ داہر کچھ نہ کچھ بولتا رہا اور بدہیمن جیسے اسکی سن ہی نہ رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت جب راجہ داہر اور اس کا وزیر بدہیمن نیرون کے مسئلے میں الجھے ہوئے تھے، سندر نیرون میں زندہ اور سلامت بیٹھا تھا ۔
وہ قتل ہونے سے اس طرح بچ گیا تھا کہ بدہیمن راجہ داہر کے محافظ دستے کے ساتھ سندر کو احترام اور شاہی اعجاز سے رخصت کرنے کے لئے دور تک اس کے ساتھ گیا تھا اور وہاں سے بدہیمن محافظ دستے کے ساتھ واپس آگیا تھا۔
جب بدہیمن بہت دور واپس چلا گیا اور سندر اپنے چھ محافظوں کے ساتھ خاصہ آگے نکل گیا تو اس کے محافظوں میں سے ایک جو عمر میں سب سے بڑا تھا رک گیا، اور اس نے سب کو روک لیا اس کا نام ابن یاسر تھا وہ شعبان ثقفی کا خاص آدمی تھا۔
حاکم نیرون!،، اس نے سندر سے کہا۔۔ آپ کو مہاراجہ یہاں بلاتا رہتا ہوگا؟
ابن یاسر نے اس عرب کی معرفت بات کی تھی جو مکران میں آباد تھا اور وہ یہاں کی زبان جانتا تھا۔
ہاں !،،،،،سندر نے جواب دیا۔۔۔ کبھی کبھی بلاتا ہے، یا شہروں کے حاکم خود بھی راجدھانی میں آتے رہتے ہیں۔
کیا ہر بار ایسے ہی ہوتا ہے کہ آپ شام کو یہاں آئے اور رات کو ہی آپ کو رخصت کردیا گیا ؟۔۔۔۔ابن یاسر نے پوچھا۔
نہیں!،،،،،، سندر نے جواب دیا ۔۔۔میرے ساتھ یہ پہلی بار ہوا ہے ،جو حاکم یہاں آتا ہے اسے دو تین دن یہاں رکھا جاتا ہے اور اس کی خاطر تواضع کی جاتی ہے ۔
کیا آپ نے خود کہا تھا کہ ابھی واپس جانا چاہتے ہیں؟
نہیں !،،،سندر نے جواب دیا ۔۔۔راجہ نے خود ہی اپنے وزیر سے کہا کہ حاکم نیرون ابھی واپس جا رہے ہیں۔
کیا آپ کو اسی طرح اعجاز کے ساتھ ہمیشہ رخصت کیا جاتا ہے جس طرح آج کیا گیا ہے؟ نہیں !،،،،سندر نے جواب دیا ۔۔۔اور کچھ حیران سا ہو کر بولا میں خود حیران ہوں کہ مجھے اتنا اعجاز کیوں دیا گیا ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ راجہ مجھے کہہ رہا ہے کہ میں آپ لوگوں کی اطاعت ترک کر دوں اس مقصد کے لیے راجہ میری خوشامد کرنا چاہتا ہو گا ۔
آپ اسے کیا جواب دے آئے ہیں؟
میں نے صاف کہہ دیا ہے کہ میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس سے ہٹونگاں نہیں۔۔۔ سندر نے جواب دیا ۔۔۔میں نے اسے یہ بھی کہا ہے کہ میں اپنے شہر کے لوگوں اور ان کی بیوی بچوں کو امن و امان اور عزت و آبرو دینا چاہتا ہوں۔
پھر یہ راستہ بدل دیں۔۔۔ ابن یاسر نے کہا۔ کیوں ؟،،،،سندر نے پوچھا۔۔۔ راستہ کیوں بدل دیں۔
راستے میں آپ پر حملہ ہو گا۔۔۔ ابن یاسر نے کہا ۔۔۔آپ کو نیرون تک زندہ نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔
میرا خیال ہے کہ راجہ داہر ایسی حرکت نہیں کرے گا ۔۔سندر نے کہا۔۔۔۔ یہ تمہارا وہم ہے۔
حاکم نیرون !،،،،،ابن یاسر نے کہا ۔۔۔ہم نے آپ کے ملک کی دھوکہ بازیوں اور فریب کاریوں کے بہت قصے سنیں ہیں ،لیکن آپ نے عرب کی سرزمین کی ذہانت اور دور اندیشی اور نظر کی گہرائی کے قصے نہیں سنیں، جب آپ نے راجہ کے پاس محل کے اندر بیٹھے ہوئے تھے تو ہم باہر ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہے تھے، ایک آدمی کو ہم نے دیکھا جو لباس اور چال ڈھال سے شاہی خاندان کا آدمی لگتا تھا، پتہ چلا کہ وہ راجہ داہر کا بہت ہی دانشمند وزیر ہے، رات کے وقت آپ کے رخصت ہونے سے بہت پہلے میں نے اسے قلعے کے دروازے کے قریب دیکھا، اونٹوں کا ایک قافلہ قلعے سے نکلا اس قافلے میں کچھ عورتیں بھی تھیں، میں نے دیکھا کہ اس نے قافلے والو کے ساتھ کچھ باتیں کی تھیں، پھر اس نے قافلہ میں سے ایک آدمی کو روک کر اس کے کان میں کچھ بات کی، اونٹ باہر نکل گئے تو یہ وزیر بھی باہر چلا گیا میں ایک طرف ہو گیا اس کا انداز بتا رہا تھا کہ یہ کوئی خاص معاملہ ہے، وہ واپس آیا تو دیکھا کہ محل کے محافظوں کو تیار کر رہا تھا ،پھر جب دیکھا کہ یہ محافظ ہمارے ساتھ جا رہے ہیں اور پھر انہوں نے دور جا کر آپ کو سلامی دی تو مجھے کچھ شک ہوا میں نے آپ سے اتنے زیادہ جو سوال کیے ہیں یہ اسی شک کی بنا پر کیے تھے، مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اونٹوں کا جو قافلہ ہمارے آگے آگے روانہ کیا گیا ہے وہ کوئی عام لوگ نہیں تھے، بلکہ فوج کے خاص آدمی تھے یہ میرا پختہ قیاس ہے کہ راستے میں ہم پر حملہ ہوگا۔
میں تمھاری بات پر یقین کر لیتا ہوں۔۔۔ سندر نے کہا ۔۔۔کیونکہ وجہ ایسی ہے کہ ایک نا ایک دن مجھے قتل ہی ہونا ہے راستہ بدل لو۔
راستہ ہمیں آپ ہی بتا سکتے ہیں۔۔۔ ابن یاسر نے کہا۔۔۔ ہم تو یہاں اجنبی ہیں۔
ایک راستہ ہے ۔۔۔سندر نے کہا۔۔۔ وہ دراصل راستہ نہیں، ادھر سے اگر ہم جائیں تو نیرون جلدی پہنچیں گے لیکن بڑا ہی مشکل راستہ ہے، بھٹکنے کا خطرہ بھی ہے ،کیونکہ مٹی اور ریت کی گھاٹیاں ٹیلے اتنے زیادہ ہیں کہ ان میں سے گزرتے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ گھومتے مڑتے کہیں واپس ہی نہ چل پڑیں، آگے کچھ علاقہ دلدلی ہے۔
جیسا بھی ہے ۔۔۔ابن یاسر نے کہا ۔۔۔ہم اسی طرف چلیں گے۔
اس طرح سندر اپنے عربی محافظوں کے ساتھ دشوار گزار علاقوں سے گزرتا زندہ اور سلامت نیرون جا پہنچا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چند دن گزرے ہوں گے کہ آدھی رات کے وقت نیرون کے لوگوں نے کسی لڑکی کی بڑی ہی بلند اورکرخت چیخیں سنی جو دل دہلا دینے والی تھی، کئی لوگ گھروں سے باہر نکل آئے یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ جس لڑکی کی یہ چیخیں ہیں وہ کہاں ہے، لوگ ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر لڑکی کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے ،کہ کئی ایک گھبرائی ہوئی آوازیں سنائی دیں کہ اوپر دیکھو لوگوں نے اوپر دیکھا تو رات کی تاریکی میں انہیں آگ کے تین چار شعلے شہر کے اوپر بڑی تیزی سے چکروں میں اڑ رہے تھے۔
ان شعلوں سے شہر کے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی زیادہ تر لوگ اپنے اپنے گھروں کے اندر دبک گئے اور کچھ لوگ شہر سے باہر کو بھاگ اٹھے۔
نیرون کا حاکم سندر شمنی بھی جاگ اٹھا اور باہر آکر اس نے ان شعلوں کو دیکھا ،وہ چونکہ حاکم تھا اور شہر کا امن و امان اور لوگوں کی حفاظت اس کی ذمہ داری تھی، اس لئے وہ کہیں پناہ لینے کی بجائے شہر میں آگیا اور اوپر شعلوں کو دیکھنے لگا، شعلے شہر کے اوپر اڑ رہے تھے اور ان میں سے زناٹے دار آوازیں نکل رہی تھیں، کسی کو ہوش نہیں تھی کہ دیکھتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ شہر میں ہندوؤں کی جو مندر تھے ان میں بڑے گھنٹے اور گھنٹیاں بجنے لگیں ،اس کے ساتھ ہی پنڈتوں نے سنکھ بجانے شروع کردیئے، گھنٹیوں کی آوازوں اور سنکھوں کی بے سوری اور چیخ نما آوازوں سے دہشت میں اضافہ ہوگیا ،یہ خطرے سے بچنے کے لئے پنڈت بجا رہے تھے۔
یہ بھیانک سلسلہ کوئی ایک گھنٹہ جاری رہا۔ ہندو اپنے گھروں میں اپنی عبادت میں اور بدھ اپنی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ سندر کے ساتھ اس کے محافظ بھی تھے وہ اپنے گھر کی طرف چلا گیا اس نے دیکھا کہ اس کے عربی محافظ اس کے محل نما مکان کے باہر کھڑے تھے۔
میرے دوستوں !،،،،اس نے عربی محافظوں سے کہا ۔۔۔ہندو اور بدھ اپنی اپنی عبادت کر رہے ہیں ،اور اس آفت سے بچنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں ،تم اپنی عبادت شروع کردو، معلوم نہیں یہ کیا آفت نازل ہو رہی ہے تم اپنے طریقے سے اپنے خدا کو یاد کرو مجھے ڈر ہے کہ ان میں آگ کا ایک بھی گولا نیچے آگیا تو شہر جل جائے گا۔
حاکم نیرون!،،،، ایک عربی محافظ نے کہا۔۔۔ ہمارا خدا ہمیں اس طرح نہیں ڈرایا کرتا۔
کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ آفت آسمان سے آئی ہے۔۔۔ سندر نے ذرا غصے سے کہا ۔
حاکم نیرون!،،،، ابن یاسر نے کہا۔۔۔ آپ اندر چلے جائیں۔
سندر ابھی اپنے گھر میں داخل نہیں ہوا تھا کہ لڑکی کی چیخیں بند ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی شعلے بھی غائب ہو گئے۔
کچھ لوگ رات ہی کو شہر کے سب سے بڑے مندر میں چلے گئے ،اور باقی صبح ہوتے ہی مندر کی طرف چل پڑے مندروں کی گھنٹیوں گھنٹے اور سنکھ ساری رات بجتے رہے تھے، شہر کا بڑا مندر ایک وسیع و عریض اور کم و بیش دس گز اونچے چبوترے پر کھڑا تھا ،مندر چبوترے کے درمیان میں تھا اور اس کے ارد گرد چبوترے پر بہت کھلی جگہ تھی، چبوترے پر چڑھنے کے لیے کئی ایک سیڑھیاں تھیں، صبح وہاں اس قدر ہندو اکٹھے ہوگئے تھے کہ سیڑھیوں پر چبوترے کے اوپر اور مندر کے اندر تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں رہی تھی، ان لوگوں میں عورتیں بھی تھیں، بچے بھی تھے، مندر کے اندر پنڈت بتوں اور مورتیوں کے آگے ہاتھ جوڑے گڑگڑا رہے تھے ،جو لوگ مندر کے اندر نہیں پہنچ سکے تھے وہ باہر ہی ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئے تھے اور بار بار اپنے سروں کو جھکاتے تھے۔
اے لوگوں!،،،،، بڑے پنڈت نے پراتھنا سے فارغ ہو کر بلند آواز سے کہا کہ شہر پر بہت بڑی مصیبت آنے والی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر میں ایسے مذہب کے لوگ آگئے ہیں جنہیں ہمارے دیوتا پسند نہیں کرتے، ایک مصیبت سمندر کی طرف سے آرہی ہے ، یہ عرب کے مسلمانوں کی فوج ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ،اگر تم نے یہ سوچا کہ اس ملیچھ فوج کے لیے شہر کے دروازے لڑے بغیر کھول دو گے تو دیوتا اس شہر کو جلا کر راکھ کر دیں گے۔
لوگ خوفزدگی کے عالم میں مندر سے واپس آئے اور تمام دن رات اس آگ کے شعلوں کی باتیں کرتے رہے، اور سارے شہر پر خوف و ہراس طاری رہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی رات پھر اسی وقت یعنی آدھی رات کے وقت ایک لڑکی کی چیخیں بلند ہونے لگی جو گزشتہ رات کی طرح بڑی ہی کرخت تھی اور اس کے ساتھ ہی آگ کے شعلوں بگولوں کی صورت میں شہر کے اوپر اوپر چکر کھانے اور اڑنے لگے، لوگ گزشتہ رات کی طرح گھروں میں دبک گئے مندروں میں گھنٹیاں گھنٹے اور سنکھ بجنے لگے۔
رات خوف وہراس میں گزر گئی ،صبح لوگ پھر مندروں میں چلے گئے ان ہندوؤں میں بدھ مت کے جو تھوڑے سے پیروکار تھے وہ اپنی عبادت گاہ میں گئے اور اس کے ساتھ ہی سارے شہر میں اس قسم کی باتیں سنی سنائی جانے لگیں کہ شہر میں کوئی ناپاک لوگ آگئے ہیں، اور یہ بھی کہ شہر کے حاکم نے مسلمانوں کے خلاف نہ لڑنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ غلط معلوم ہوتا ہے، اور دیوتا سب کو خبردار کر رہے ہیں۔
دن کے وقت لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ لڑکی کی چیخیں سنائی دینے لگی ،شہر کے درمیان کی جگہ خالی تھی ان میں بعض جگہ کھلے میدانوں جیسی تھی ایسی کئی جگہوں سے زمین سے آگ کے فوارے پھوٹے اور کچھ دور اوپر تک چلے گئے، یہ شعلے پانی کے فوارے کی طرح خاصہ اوپر تک جا رہے تھے لوگ کام کا چھوڑ کر اپنے گھروں کو بھاگنے لگے ،ماؤں کو اپنے بچوں کا ہوش نہ رہا اور کسی کو یہ بھی خیال نہ آیا کہ یہ تو دیکھیں کہ یہ جو چیخیں سنائی دے رہی ہیں یہ کہاں سے اٹھ رہی ہیں اور چیخنے والی کون ہے؟
رات آئی لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ یہ چیخیں پھر ابھرنے لگیں ایسا لگتا تھا جیسے چیخنے والی کوئی ایک ہی ہے اور وہ ہوا میں اڑ رہی ہے، اس رات ہوا میں پھر وہی آگ کے بگولے اڑنے لگے اور اس کے ساتھ ہی کئی جگہوں سے زمین سے آگ فواروں کی طرح نکلنے لگی یہ سلسلہ روزمرہ کی طرح کوئی ایک گھنٹہ جاری رہا اگلے روز بڑے مندر کا پنڈت دو پنڈتوں کو ساتھ لے کر سندر شمنی کے یہاں گیا۔
مہاراج!،،،،،،،بڑے پنڈت نے سندر سے کہا۔۔۔ ہم تین راتیں سوئے نہیں ہیں ،چنگاریاں چل کر دیکھیں ہم نے وہ تجربے کار نجومیوں اور جوتشوں کو بلایا ہے، انہوں نے اپنا حساب کتاب کیا ہے اور ہم نے اپنے طریقے سے معلوم کیا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے، وہ اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ ہمارے دیوتاؤں کا اشارہ ہے کہ ہم اس شہر کی حفاظت میں اپنی جان لڑا دیں، ہمیں یہ اشارہ بھی ملا ہے کہ اس شہر کی زمین میں مہارشیوں اور مہنتوں کی ہڈیاں کی راکھ دفن ہے، ہم نے سنا ہے کہ آپ نے یہ شہر ایک کچّے اور غلط مذہب کے لوگوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ،آپ کا مذہب معلوم نہیں کیا کہتا ہے اگر آپ غور کریں تو آپ کا مذہب بھی اجازت نہیں دے گا کہ کسی ایسے مذہب کے لوگوں کو اس شہر میں آنے دیا جائے جو مذہب ہمارے مذہبوں کے بالکل الٹ ہے، نجومی اور جوتشی کہتے ہیں کہ حاکم اپنے فیصلے پر اڑا رہا تو اس شہر کو تباہی سے کوئی بھی نہیں بچاسکے گا ،مہاراج لوگوں پر رحم کریں کئی لوگ شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
مجھے سوچنے دو ۔۔۔سندرشمنی نے دبی دبی زبان سے کہا۔۔۔ ذرا سوچنے دو ۔
پنڈتوں کے جانے کے بعد سندر نے ابن یاسر کو بلایا اور اسے بتایا کہ پنڈت اسے کیا بتا گئے ہیں اور وہ کیا سوچ رہا ہے۔
میں اگر تم لوگوں سے کہو کہ تم سب یہاں سے چلے جاؤ تو تم کیا کرو گے۔۔۔ سندر نے ابن یاسر سے پوچھا ۔۔۔میں نے ابھی کوئی فیصلہ تو نہیں کیا لیکن مجھے شہر کے لوگوں کا خیال آتا ہے میں نے تمہارے سالار کی اطاعت انہی لوگوں کو امن و امان میں رکھنے کے لیے قبول کی ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا مذہب لڑنے کی اجازت نہیں دیتا ،اب لوگوں پر یہ جو آفتاب آن پڑی ہے۔
آپ صرف تین دن انتظار کریں ۔۔۔ابن یاسر نے کہا ۔۔۔مجھے امید ہے کہ اس آفت کو ہم ختم کردیں گے۔
تم اسے کس طرح ختم کر سکتے ہو؟،،،، سندر نے کہا۔۔۔ تم اس طاقت کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہو جو کسی کو نظر ہی نہیں آتی؟
صرف تین دن حاکم نیرون!،،،،، ابن یاسر نے کہا ۔۔۔صرف تین دن۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابن یاسر کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ سندر اور محمد بن قاسم کے درمیان رابطے کا کام کرے، وہ اسی وقت کھانے پینے کا کچھ سامان لے کر روانہ ہو گیا وہ ان دنوں کا واقعہ ہے جن دنوں محمد بن قاسم ارمن بیلہ میں تھا اور دیبل کی طرف کوچ کی تیاریاں کررہا تھا ۔
ابن یاسر کے سامنے ایک سو میل سے زیادہ فاصلہ تھا اور اس کے پاس صرف تین دن تھے وہ اپنے سربراہ شعبان ثقفی کو نیرون کی صورتحال بتانے اور رہنمائی لینے کے لیے جا رہا تھا ،وہ مان نہیں رہا تھا کہ نیرون پر دیوتاؤں کا قہر نازل ہو رہا ہے، وہ مسلمان تھا اور مسلمان کے لئے دیوتا کوئی معنی نہیں رکھتے کہ ان کا وجود ہے۔
وہ دوپہر سے کچھ پہلے نیرون سے نکلا تھا اور آدھی رات سے کچھ دیر پہلے منزل پر پہنچ گیا، اس کی منزل اس کی طرف بڑھی آرہی تھی، وہ اس طرح کے محمد بن قاسم نے حکم دے دیا تھا کہ الصبح تمام فوج دیبل کی طرف کوچ کرے گی، کوچ اندھا دھن نہیں کیا جاتا تھا کچھ آدمی مسافروں کے بہروپ میں آگے بھیج دیے جاتے تھے جو آگے کے تمام علاقے کو دیکھتے جاتے تھے، یہ دشمن کا علاقہ تھا اور محمد بن قاسم دو قلعے فتح کر کے تیسرے قلعے کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا ،یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ دشمن کی فوج قلعوں میں دبکی بیٹھی ہوگی، توقع یہ تھی کہ راجہ داہر کے دستے گھات میں ہونگے اور شب خون بھی ماریں گے،
ان خطروں کے پیش نظر محمد بن قاسم کی فوج کے کچھ آدمی رات کو ہی آگے دیبل کی طرف چلے گئے تھے جو کہ جنگی لحاظ سے یہ علاقہ نازک اور خطرناک تھا، اس لئے ان آدمیوں کے ساتھ شعبان ثقفی خود ساتھ گیا تھا، یہ پارٹی ارمن بیلہ سے کئی میل دور آ گئی تھی انہیں ایک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دیے شعبان ثقفی نے اپنے آدمیوں کو راستے سے ہٹا کر بٹھا دیا اور اپنی طرف بڑھتے ہوئے گھوڑے کا انتظار کرنے لگا ،گھوڑا تیز رفتار سے آ رہا تھا جب قریب آیا تو شعبان ثقفی نے راستے میں آکر اسے روک لیا اور فوراً ہی دوسرے آدمیوں نے اٹھ کر اسے گھیرے میں لے لیا۔
کون ہو ؟،،،،شعبان ثقفی نے پوچھا ۔۔۔کہاں جا رہے ہو؟
شعبان ثقفی نے عربی میں بات کی تھی اس کے ساتھ مکران کا رہنے والا ایک آدمی تھا جو عربی بولتا اور سمجھتا تھا ،اس نے سندھی زبان میں شعبان ثقفیی کا سوال دہرایا ۔
میں ابن یاسر ہوں۔۔۔ وہ گھوڑے سے کود آیا۔۔۔ میں نے اپنے استاد کی آواز پہچان لی تھی ،آپ کہاں یہاں کیسے؟
فجر کی نماز کے فوراً بعد دیبل کی طرف پیش قدمی ہو رہی ہے۔۔۔ شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔ تم جانتے ہو ہم آگے کیوں جارہے ہیں، ہراول دستے چل پڑے ہوں گے، تم کیسے آئے کوئی خاص خبر ہے؟
ابن یاسر نے اپنے شعبے کے سربراہ شعبان ثقفی کو بتایا کہ نیرون میں کیا ہو رہا ہے ، اور یہ بھی بتایا کہ سندر کو راجہ داہر نے بلایا اور اس پر زور دیا تھا کہ وہ اطاعت قبول کرنے والا معاہدہ توڑ دے لیکن وہ انکار کر آیا ہے۔
میں اب یہ پوچھنے آیا ہوں کے نیرون میں جو پراسرار آگ شہر کے اوپر گھومتی ہے یہ کیا ہوسکتا ہے؟،،،،،،ابن یاسر نے پوچھا ۔۔۔اور ہمیں کیا کرنا چاہیے، اگر ہم نے ایک دو دن اور کچھ نہ کیا تو نیرون ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
آؤ ابن یاسر!،،،،، شعبان ثقفی نے اسے راستے سے ہٹا کر بٹھا لیا اور بولا ۔۔۔میں تمہیں بتاتا ہوں آگ کے یہ گولے کہاں سے آتے ہیں ۔
شعبان ثقفی نے اسے سارا معاملہ سمجھایا اور بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو ساتھ ملا کر کیا کرے۔
مجھے ابھی واپس چلے جانا چاہیے ۔۔۔ابن یاسر نے اونگھتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ مجھے گھوڑا بدل دیں، میں نے اپنے گھوڑے کو آرام کی مہلت نہیں دی تھی۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں بھی آرام کی ضرورت ہے ۔۔۔شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔تم گھوڑے کی پیٹھ پر سو جاؤ گے، لیکن ابن یاسر ہم سو گئے تو ہماری تاریخ بھی اور قوم کی تقدیر بھی سو جائے گی، اسلام کو ہماری قربانی کی ضرورت ہے، جا میرے رفیق اللہ تیرے ساتھ ہے۔
ابن یاسر تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوا اور ایڑ لگا دی، ریگستان کی کھنک اور خاموش رات میں کچھ دیر تک اس کے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیتے رہے اور رات پھر خاموش ہوگئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلے دن کا پچھلا پہر تھا جب ابن یاسر نیرون میں داخل ہوا اور اپنے ساتھیوں کے کمرے میں گیا، وہ اتنا تھکا ہوا تھا کہ چارپائی پر گرتے ہی سو گیا، اس کے گھوڑے کے جسم سے پسینہ یوں ٹپک رہا تھا جیسے گھوڑا پانی سے نکل آیا ہو۔
آدھی رات سے کچھ پہلے پھر وہ چیخیں سنائی دینے لگی کسی لڑکی بچی کی معلوم ہوتی تھی، یہ تو ہر رات کا معمول بن گیا تھا ابن یاسر نے بہت سو لیا تھا اس کے ساتھی جاگ اٹھے اور اس کی بھی آنکھ کھل گئی چیخوں کے ساتھ فضا میں گڑگڑاہٹ بھی سنائی دے رہی تھی جو فضا میں گھومتی پھرتی محسوس ہوتی تھی۔
ابن یاسر اچھل کر اٹھا اور تلوار نکالی، میرے ساتھ آؤ دوستوں!،،،،، اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔۔۔آج کے بعد یہ آگ کے بگولے نظر نہیں آئیں گے۔
اس کے پانچوں ساتھی تلوار اٹھائے اس کے پیچھے نکل گئے مندر کے گھنٹے اور پنڈتوں کے سنکھ بج رہے تھے اوپر آگ کے بگولے گھوم رہے تھے اور ان میں چلتی ہوئی چکی جیسی آوازیں آرہی تھیں، شہر کا کوئی ایک بھی فرد باہر نظر نہیں آرہا تھا، چاند افق سے کچھ اوپر اٹھ آیا تھا یہ پورا نہیں رہا تھا ،اس کی چاندنی میں دور تک دیکھا جا سکتا تھا۔
ابن یاسر کے دو دنوں کی غیر حاضری میں پراسرار آگ کے بگولوں اور چیخوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا تھا اور دن کو ایک آدھ گھنٹے کے لیے زمین سے آگ اور پانی کے فوارے نلکتے تھے، مکان خالی ہو گئے تھے لوگ شہر سے چلے گئے تھے، پہلے پہل جب یہ پراسرار اور خوفناک سلسلہ شروع ہوا تو بعض لوگ گھروں سے نکل آتے تھے لیکن دو دنوں سے انہوں نے باہر آنا چھوڑ دیا تھا۔
ابن یاسر بڑے مندر کی طرف جا رہا تھا اور وہ اپنے ساتھیوں کو بتاتا جا رہا تھا کہ شعبان ثقفی نے اسے کیا بتایا ہے، وہ جوں جوں مندر کے قریب ہوتے جا رہے تھے آواز اور زیادہ بلند ہوتی جا رہی تھی، یہ چیخیں مندر کے اندر ہیں یا مندر کے چبوترے پر۔۔۔ ابن یاسر نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔۔۔اور یہ کسی جن یا ہندوؤں کی دیوی کی چیخیں نہیں یہ انسانی چیخیں ہیں، اور ہمیں چیخنے والی کو پکڑنا ہے۔
ابن یاسر !،،،،،اس کے ایک ساتھی نے کہا ۔۔۔تم غیبی مخلوق کو تو ہاتھ ڈالنے نہیں جارہے؟،،،، میں ڈر سا محسوس کر رہا ہوں کہ تم آسمانی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہو۔
تم میں سے جس کسی کے دل پر ذرا سا بھی خوف ہے وہ سورہ فاتحہ کا ورد کرتا رہے۔۔۔ ابن یاسر نے کہا۔۔۔ قرآن کے سامنے کوئی غیبی مخلوق یا آسمان کی آگ نہیں ٹھہر سکتی نہ دل پر کوئی خوف رہتا ہے ۔تین مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر اس کے یہ الفاظ "ایاک نعبدو و ایاک نستعین" ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں" دہراتے رہو ۔
اس کے ساتھیوں نے یہ ورد شروع کر دیا ،اور وہ مندر کی طرف بڑھتے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابن یاسر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کشادہ گلی میں داخل ہوگیا جو کچھ آگے جا کر ختم ہو جاتی تھی اور وہاں سے کوئی پچاس گز آگے مندر تھا، چاند کچھ اور اوپر آ گیا تھا اور اس کی شفاف چاندنی مندر پر پڑ رہی تھی، جب یہ چھ عرب گلی میں سے نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی جس کی عمر کا کوئی اندازہ نہیں ہوسکتا تھا مندر کے چبوترے کی سیڑھیاں چڑھتی اور چینختی جارہی تھی، چبوترے پر جاکر وہ مندر کے بڑے دروازے کی طرف دوڑی اندر سے دو آدمی نکلے انہوں نے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اسے گھسیٹ کر چبوترے کی سیڑھیوں تک لائے اور اسے اٹھا کر سیڑھیوں سے نیچے چھوڑ دیا ،لڑکی کی چیخیں اور زیادہ کرخت اور بلند ہوگئی اور وہ پھر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
مندر کے اندر سے جب دو آدمی نکلے تھے تو ابن یاسر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک درخت کی اوٹ میں ہو گیا اور بیٹھ گیا تھا، لڑکی سیڑھیاں چڑھنے لگی لیکن تیسری یا چوتھی سیڑھی سے اس کا پاؤں پھسل گیا اور وہ پھر نیچے آ پڑی، اس دوران شہر کے اوپر آگ کے بگولے اڑ رہے تھے، ایسی ہیبت ناک حالت میں اپنے دل کو مضبوط رکھنا خاصا مشکل تھا، دل کی مضبوطی کے لئے عرب کے یہ چھ مجاہد اللہ کے کلام کا ورد کر رہے تھے۔
لڑکی کے قد اور جسم سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کوئی جوان لڑکی نہیں وہ بارہ چودہ سال کی بچی معلوم ہوتی تھی ،وہ چیختی ہوئی اٹھی اور سیڑھیاں چڑھ گئی ،وہ مندر کی طرف چلنے لگی تو اس کی چیخیں خاموش ہوگئیں اور وہ گر پڑی، اس کے ساتھ ہی فضا میں آگ کے جو گولے اور بگولے اڑ رہے تھے وہ غائب ہو گئے اور نیرون کی رات بالکل خاموش ہوگئی ایسا لگتا تھا جیسے یہ شہر نہیں بلکہ قبرستان ہے۔
مندر میں سے وہی دو آدمی باہر آئے انہوں نے لڑکی کو اٹھایا اور اندر لے گئے۔
ابن یاسر اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر مندر کے سامنے سے اوپر جانے کی بجائے ایک طرف سے اوپر گیا ،پہلے وہ خود بڑے دروازے میں داخل ہوا یہ ایک راہداری تھی جو سرنگ کی مانند تھی، آگے کچھ روشنی نظر آرہی تھی، یاسر نے اپنے ساتھیوں کو اشارے سے بلایا اور سرگوشی کی کہ کسی قسم کی آواز پیدا نہ ہو ،وہ راہداری کی دیوار کے ساتھ ایک قطار میں دبے پاؤں بڑھتے گئے اندر سے ایک دو آدمیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، آگے جاکر راہداری کے ساتھ دائیں اور بائیں سے تاریک راہداریاں ملتی تھیں، ابن یاسر آگے بڑھتا گیا ،بولنے کی آوازیں آگے تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>