⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴بارہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس کے بولنے کا انداز ایسا تھا کہ محمد بن قاسم کے چہرے پر گھبراہٹ آگئی اس نے کچھ بھی نہ کہا اور علافی اس کے دونوں ساتھیوں کو اپنے کمرے میں لے گیا یہ قلعہ تھا جس میں قلعہ دار کی رہائش بڑی شاہانہ تھی۔
ابن قاسم !،،،،،،علافی نے کہا ۔۔۔۔اگر علافیوں کے ساتھ دوستی سچے دل سے لگائی ہے تو آج دوستی کا حق ادا کر دے۔
حق ادا کرونگا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ اگر آپ کوئی احسان کرکے اس کا صلہ مانگتے ہیں تو اپنے منہ سے کہیں میں اتنا ہی صلہ دوں گا۔
حارث علافی نے اسے یہ سارا واقعہ سنا دیا کہ اس کے سپاہیوں نے کس طرح تین لڑکیوں پر جھپٹ کر ایک لڑکی کو خراب کیا ہے۔
یہ سن کر محمد بن قاسم پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔
میرے عزیز!،،،، علافی نے کہا۔۔۔ میں نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو اور ان تمام عربوں کو جو یہاں رہتے ہیں اور جنہیں تمہارا خلیفہ باغی کہتا ہے بڑی مشکل سے رضامند کیا تھا کہ وہ عرب سے آئی ہوئی فوج کی اگر کھلم کھلا مدد نہ کرے تو درپردہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں، اور اگر دل یہ بھی نہ مانے تو اتنا ہی کریں کہ ان کے خلاف ہماری طرف سے کوئی کاروائی نہ ہو، لیکن اب میری بستی کا یہ عالم ہے کہ اگر تم وہاں چلے جاؤ تو معلوم نہیں کتنی برچھیاں تمہارے جسموں پر اتر جائیں گی، میں انہیں ایک وعدے پر ٹھنڈا کر کے آیا ہوں اگر میں ضرورت سے زیادہ ان کی توقع کے خلاف وقت لگا کر واپس گیا تو شاید وہ مجھے راستے میں ہی مل جائیں اور مجھے ہی قتل کردیں۔
ہاں حارث!،،،،،، محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ انہیں اس سے زیادہ مشتعل ہونا چاہیے یہ واقعہ ایسا نہیں کہ لوگوں کو باتوں سے ٹھنڈا کیا جا سکے۔
مجھے بتا قاسم کے بیٹے۔۔۔ حارث علافی نے کہا ۔۔۔تو کیا کرے گا ،کچھ نہیں کرنا تو مجھے بتا میں کیا کروں؟
میں دیبل پر حملہ کروں گا ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ لیکن اس معاملے کو میں سب سے پہلے مٹاؤں گا۔
محمد بن قاسم نے اسی وقت اپنا گھوڑا منگوایا اور علافی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ چل پڑا دستور کے مطابق چند ایک محافظ اس کے ساتھ گئے۔ خالد بن ولید نے جاسوسی کے نظام کو ایک خاص تنظیم دی تھی اور جس طرح انہوں نے اس نظام کو چلایا تھا وہ اتنا کامیاب رہا تھا کہ یہ عرب کی فوج کا لازمی حصہ بن گیا تھا، بعد میں جاسوسی کا ایک الگ محکمہ بنا دیا گیا تھا ،جس کے لیے الگ سالار مقرر کردیا گیا تھا لیکن اس محکمے کی سالاری اس آدمی کو ملتی تھی جس میں زمین کی تہوں کے نیچے سے بھی راز اور سراغ نکال لانے کی اہلیت ہوتی تھی، محمد بن قاسم کے ساتھ انٹیلی جنس کا سالار تھا اس کا نام شعبان ثقفی تھا یہ محمد بن قاسم کے اپنے قبیلے کا آدمی تھا ،اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کے پاس کوئی جادو ہے کہ وہ زمین وآسمان کے راز بھی پا لیتا ہے، محمد بن قاسم جب علافی کے ساتھ روانہ ہوا تو شعبان ثقفی بھی اس کے ساتھ گیا محمد بن قاسم نے خاص طور پر اسے ساتھ لیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حارث علافی اور اس کے ساتھی بھی گھوڑوں پر سوار تھے انھیں توقع تھی کہ دوپہر تک بستی تک پہنچ جائیں گے لیکن محمد بن قاسم نے قلعے سے نکلتے ہی گھوڑا دوڑا دیا یوں پتہ چلتا تھا جیسے وہ اڑ کر ورادات والی چوکی تک پہنچنے کی کوشش میں ہو، وہ ان سب سے آگے تھا اس نے شعبان ثقفی کو اپنے ساتھ رکھا تھا اور اس کے ساتھ وہ باتیں کرتا جا رہا تھا۔
دوپہر سے خاصا پہلے وہ چوکی تک پہنچ گئے اپنے سالار کو دیکھ کر چوکی کے تمام آدمی باہر نکل آئے محمد بن قاسم پیچھے ہٹ آیا اور شعبان ثقفی چوکی کے آدمیوں کے قریب گیا اور ان سے پوچھا کہ کل پچھلے پہر سے شام تک گشت پر کون کون نکلا تھا ،چار سپاہیوں نے ہاتھ کھڑے کیے۔
کیا تم چاروں نے ان تین لڑکیوں پرحملہ کیا تھا؟،،، شعبان نے پوچھا۔۔۔ یا تم میں کوئی ایسا بھی تھا جس نے اس جرم میں شریک ہونا پسند نہ کیا ہو۔
چاروں حیرت سے شعبان کی طرف دیکھنے لگے۔
تم دیکھ رہے ہو کہ سالار اعلی ساتھ آئے ہیں۔۔۔ شعبان نے کہا ۔۔۔اس سے سمجھ لو کہ یہ معاملہ کتنا سنگین ہے، اور تمھارا جرم بے نقاب ہو چکا ہے۔
دشمن کی زمین پر کھڑے ہو کر اپنی زبان ناپاک نہ کر۔۔۔ ایک سپاہی نے غصیلی آواز میں کہا۔
وطن سے دور لا کر ہمیں یوں ذلیل نہ کر سالار۔۔۔۔اس سپاہی کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور سپاہی اس سے زیادہ غصیلی اور بلند آواز سے محمد بن قاسم کی طرف ہاتھ لمبا کرکے بولا ۔۔۔اے سالار عرب تجھے اس اللہ کی قسم جس کے نام پر لڑنے کے لئے تو ہمیں یہاں لایا ہے ہمیں یہ بتا کہ یہ شخص ہم پر ایسی تہمت کیوں لگا رہا ہے، ہم تیری ٹکر کے آدمی نہیں۔
محمد بن قاسم نے کچھ بھی نہ کہا اس نے یہ تفتیشی کام شعبان ثقفی کے سپرد کردیا اور یہ شعبان کا ہی کام تھا۔
چاروں سپاہی احتجاجی واویلا بہا کر رہے تھے۔ علافی اور اس کے ساتھی الگ کھڑے دیکھ رہے تھے۔
حارث علافی!،،،،،، شعبان نے کہا۔۔۔ تینوں لڑکیوں کو بستی سے اپنے ساتھ لے آؤ اور جتنے بھی لوگ ان کے ساتھ آنا چاہیں آجائیں۔ علافی کے جانے کے بعد سالار شعبان نے چوکی کے کمانڈر سے کہا کہ اس وقت جو آدمی گشت پر گئے ہوئے ہیں انہیں بھی یہاں لے آئیں، کماندار کے جانے کے بعد محمد بن قاسم اور شعبان الگ جا کھڑے ہوئے اور آپس میں باتیں کرتے رہے ،پہلے صرف چار سپاہی واویلا باپا کر رہے تھے، علافی کے جانے کے بعد چوکی کے تمام سپاہیوں نے کچھ نہ کچھ بولنا شروع کردیا، محمد بن قاسم میں اتنا تحمل تھا اور اتنی بردباری کے سپاہیوں نے بعض باتیں ایسی ناروا کی جو کوئی سپاہی بھی برداشت نہیں کرسکتا لیکن محمد بن قاسم خاموشی سے سنتا رہا ۔
آخر شعبان ثقفی نے انہیں تسلی دی کہ بے انصافی نہیں ہوگی۔
سالار اعلی!،،،،، ایک ادھیڑ عمر سپاہی نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ معلوم ہوتا ہے یہ لوگ جو آپ کے ساتھ آئے ہیں یہ باغی لوگ ہیں جنھیں عرب سے نکال دیا گیا تھا اور سندھ کے راجہ نے انہیں اپنی شفقت کے سائے میں رکھ لیا ہے۔
ہاں یہ وہی لوگ ہیں۔۔۔ چوکی کے ایک سپاہی نے ہی کہا۔۔۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ ہم میں سے نہیں یہ یہاں کے ہندو راجہ کا نمک حلال کر رہے ہیں ،میں کہتا ہوں کہ ہندوؤں سے پہلے ان مسلمانوں کو صاف کیا جائے ،یہ ہمارے بدترین دشمن ہیں۔
کیا تم لوگ اپنی زبانیں بند نہیں رکھ سکتے؟،،،،،، شعبان ثقفی نے کہا۔۔۔میں کہہ چکا ہوں کہ کسی کے ساتھ نہ انصافی نہیں ہوگی انصاف ہوگا۔
صاف نظر آ رہا تھا کہ ان سپاہیوں کے دلوں میں باغی عربوں کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
علافی تینوں لڑکیوں کے ساتھ دور سے آتا نظر آیا، پیچھے پیچھے بستی کے کئی آدمی آرہے تھے ،شعبان نے ان کی طرف گھوڑا دوڑا دیا اور انہیں دور ہی روک لیا۔
اس کے پوچھنے پر اس لڑکی کو آگے کیا گیا جس کے متعلّق کہا گیا تھا کہ اس کے ساتھ مجرمانہ زیادتی ہوئی ہے۔
چشمہ قریب ہی تھا اور چشمہ بھربھری سی چٹانوں میں گھرا ہوا تھا ،شعبان اس لڑکی کو ان چٹانوں کی اوٹ میں لے گیا اور اس سے اپنی زبان میں پوچھا کہ وہ کون سی جگہ ہے جہاں ان پر اور اس کی سہیلیوں پر سپاہیوں نے حملہ کیا تھا۔
لڑکی شعبان کے منہ کی طرف دیکھنے لگی۔ کچھ دیربعد شعبان نے اپنا سوال دہرایا تو لڑکی نے دائیں بائیں سر ہلایا۔
ہم انصاف کرنے آئے ہیں لڑکی۔۔۔ شعبان نے کہا۔۔۔ جس نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے اسے تمہارے سامنے قتل کیا جائے گا ،اتنی خوفزدہ نہ ہو۔
لڑکی پھر بھی چپ رہی شعبان لڑکی کو وہیں چھوڑ کر چٹانوں سے باہر آیا۔
کیا یہ لڑکی گونگی ہے۔۔۔ اس نے بلند آواز سے پوچھا۔
علافی آگے بڑھا اور شعبان کے قریب چلا گیا۔
شعبان!،،،،،، علافی نے کہا ۔۔۔تم نے اس کے ساتھ عربی میں بات کی ہوگی یہ لڑکی عربی نہیں سمجھتی یہ ہندو تھی کوئی ایک سال پہلے اس نے ہمارے ایک آدمی کے ساتھ شادی کرنے کی خاطر اسلام قبول کیا تھا۔
اور اس کے ساتھ جو دوسری لڑکیاں تھی؟،،،،، شعبان نے پوچھا ۔۔۔کیا وہ تمہارے قبیلے کی ہیں؟
نہیں !،،،،،،علافی نے جواب دیا ۔۔۔وہ بھی یہی کی رہنے والی ہیں پہلے ہندو تھیں اور یہی کوئی سال بھر پہلے انہوں نے بھی اسلام قبول کیا تھا اور ان کی شادی ہمارے آدمیوں کے ساتھ ہوئی تھی ۔
شعبان ثقفی نے ایک آدمی کو ساتھ لیا جو سندھ اور مکران کی زبان بول سکتا تھا اور اسے لڑکی کے پاس لے گیا شعبان نے اس آدمی کی معرفت لڑکی سے کہا کہ وہ جگہ دکھائے جہاں تینوں لڑکیوں پرحملہ ہوا تھا۔
لڑکی نے چند قدم پر لے جا کر بتایا کہ یہ جگہ تھی ۔
شعبان نے اسے کہا کہ وہ پورا واقعہ سنائے لڑکی نے بولنا شروع کردیا اور ترجمان اس کا بیان عربی میں سناتا گیا ،بیان سن کر شعبان نے لڑکی سے کہا کہ وہ جگہ دکھائی جہاں سپاہیوں نے اسے گرایا تھا لڑکی نے ایک جگہ دکھا دی۔
شعبان نے اس لڑکی کو ایک چٹان کی اوٹ میں بھیج دیا اور دوسری لڑکی کو بلایا اور ساتھ یہ کہا کہ اس کا خاوند بھی آئے۔
عربوں کی ذہانت اور سراغرسانی شروع سے ہی مشہور ہے ان کے خیالی قصوں اور کہانیوں میں بھی عربوں کی دانشمندی صاف جھلکتی نظر آتی ہے، عربوں کے رہن سہن رسم و رواج اور ثقافت کے متعلق یورپی مصنفوں نے کتابیں لکھی ہیں، ہر مصنف نے خواہ وہ عربوں کے خلاف متعصب ہی کیوں نہ تھا عربوں کی عقل و دانش کو بہت سراہا ہے، اس کے متعلق تو کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ عرب کے لوگ صحرا کے بھیدی تھے آج بھی بدوؤں میں یہ ذہانت اور سراغرسانی کی غیرمعمولی اہلیت موجود ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ علم فلکیات کو جو راز مسلمانوں نے دیے تھے وہ کوئی اور قوم نہیں دے سکی، یہ کہنا غلط نہیں کہ عربوں نے خلع کی سراغرسانی بھی کر لی تھی۔ شعبان ثقفی تو جیسے پیدائشی سراغ رساں تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسری لڑکی کو شعبان اس کے خاوند اور ترجمان کے ساتھ چشمے کے دوسری طرف لے گیا اور اس سے پوچھا کہ ان پر سپاہیوں نے کس جگہ حملہ کیا تھا، لڑکی نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ جگہ تھی شعبان کے کہنے پر اس لڑکی نے بھی پورا واقعہ بیان کیا۔
اس لڑکی کو دور کھڑا کر دیا گیا اور شعبان نے تیسری لڑکی کو اس کے خاوند کے ساتھ بلایا، شعبان اسے ایک اور جگہ لے گیا اور اسے کہا کہ وہ جگہ بتائے جہاں ان پر سپاہیوں نے حملہ کیا تھا ،اس لڑکی نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا شعبان کے کہنے پر اس نے بھی واقعہ بیان کیا اس لڑکی کو ایک اور طرف کھڑا کرکے شعبان نے پہلی لڑکی کو بلایا اور اس کے خاوند کو بھی بلا لیا گیا ،اس کا خاوند اس قدر مشتعل تھا کہ غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہوا جا رہا تھا شعبان پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتا تھا لیکن شعبان تحمل اور خاموشی سے اپنا کام کرتا رہا۔
شعبان کے پوچھنے پر لڑکی نے بتایا کہ وہ ان چاروں سپاہیوں کو پہچان سکتی ہے۔
چوکی کے سپاہیوں کو جن کی تعداد بارہ تھی کھڑا کیا گیا، شعبان اس لڑکی کو اس کے خاوند کے ساتھ سپاہیوں کے سامنے لے گیا اور لڑکی سے کہا کہ سپاہیوں کو پہچانے ، لڑکی نے بڑی تیزی سے چار سپاہیوں کی طرف اشارہ کر دیا ،ان سپاہیوں کو دوسروں سے دور کھڑا کردیا گیا اور اس لڑکی کو بھیج دیا گیا۔
دوسری لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ شعبان کے بلاوے پر آئی اس نے کہا کہ وہ ایک سپاہی کو تو بہت اچھی طرح پہچانتی ہے، اسے سپاہیوں کے سامنے لے گئے تو اس نے درمیان میں سے ایک سپاہی کے سینے پر ہاتھ رکھا ، اس سپاہی کو الگ کردیا گیا۔
تیسری لڑکی آئی تو اس نے کہا کہ وہ بھی ایک سپاہی کو پہچانتی ہے اس نے زیادہ غور سے دیکھے بغیر ایک سپاہی کی طرف اشارہ کیا، شعبان نے علافی کو اور تینوں لڑکیوں کے خاوندوں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں کہا کہ یہ جو چارسپاہی تمہارے سامنے کھڑے ہیں یہ کل اس وقت گشت پر تھے اور لڑکیوں نے جنہیں ملزم ٹھہرا کر الگ کیا ہے وہ اپنے خیموں میں تھے۔
شعبان نے تینوں لڑکیوں کو بھی بلایا اور انہیں ان کے خاوند کے پاس کھڑا کردیا ۔
میرے دوستوں !،،،،،،شعبان ثقفی نے ان سب سے کہا ۔۔۔ان تینوں لڑکیوں نے وہ جگہ مختلف بتائی ہیں جہاں ان پر حملہ ہوا تھا تم بھی صحراؤں میں پیدا ہوئے ہو اور تم جانتے ہو کہ صحرا کی ریت بھی بولا کرتی ہے، سپاہی گھوڑوں پر سوار تھے اس علاقے میں اور ان جگہوں پر جہاں یہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ ان پر حملہ ہوا چار گھوڑوں کے سموں کے نشان دکھا دو، یہ کل شام کا واقعہ ہے اس کے بعد اندھی نہیں چلی بارش نہیں ہوئی کوئی نشان مجھے دکھا دو، اس لڑکی نے وہ جگہ مجھے دکھائی ہے جہاں اسے گرایا گیا تھا میرے ساتھ آؤ اور وہ جگہ دیکھو۔
شعبان انہیں اس جگہ لے گیا وہاں ایسا کوئی نشان اور کوئی کُھر نہیں تھا۔
میرے ہم وطنوں !،،،،،شعبان نے کہا ۔۔۔ان تینوں لڑکیوں نے مختلف جگہ بتائی ہے جہاں ان پر حملہ ہوا یہ بھی سوچو کہ سپاہی گھوڑے پر سوار تھے کیا وجہ تھی کہ انہوں نے بھاگنے والی دو لڑکیوں کا پیچھا نہ کیا ،کیا یہ لڑکیاں گھوڑوں کی رفتار سے تیز دوڑنے والی تھیں، اردگرد کوئی آبادی نہیں کہ یہ ڈر گئے ہونگے، یہ بھی سوچو کہ ان تین لڑکیوں نے مختلف آدمیوں کو شناخت کیا اور جو اس وقت گشت پر تھے وہ یہ تمہارے سامنے کھڑے ہیں، شعبان نے انھیں ان لڑکیوں کی موجودگی میں ان کے بیان سنائے اور کہا کہ ان سے پوچھو کہ انہوں نے یہی بیان دیئے ہیں یا نہیں۔
میرے بھائی حارث علافی!،،،،، شعبان ثقفی نے کہا ۔۔۔بنو ثقیف کے خون میں ابھی تک کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اگر بنو اسامہ خاندانی اور خونی دشمنی کو بھول کر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو بنی ثقیف کا سالار اپنی جان دے کر دوستی کا حق ادا کرے گا ،کیا تم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ لڑکیاں کچھ مہینے پہلے تک ہندو تھیں، یہ ہندو گھروں میں پیدا ہوئیں بتوں کو پوجتے جوان ہوئیں، پھر انہیں یہ تین عرب اچھے لگے تو یہ مسلمان ہو گئیں، اپنا مذہب اور اپنی ذہنیت ان کے خون میں شامل ہے، اگر یہ میری لڑکیاں ہوتی تو میں ان سے کسی اور طریقے سے پوچھتا کہ بتاؤ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، یہ ایک ڈھونگ رچایا گیا ہے، ہمارے اور تمہارے درمیان نفاق پیدا کرنے کے لئے ،علافی ایسے اوجھے تو نہیں ہوا کرتے تھے، لیکن سندھ اور مکران کی ریت عرب کے مقدس ریگزاروں پر غالب آ گئی ہے، تم اپنے وطن میں تھے تو باغی کہلائے خدا کی قسم تمہاری بغاوت جائز تھی ،کہاں گئی تمھاری وہ دانشمندی اور تمہاری وہ جرات،،،،،،اب یہ تمہاری لڑکیاں ہیں۔ اگر تم ان کے خاوند مجھے اجازت دو تو میں ابھی دروغ اور صداقت کو الگ الگ کر دوں گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اچانک اس لڑکی کا خاوند جس کے متعلّق کہا گیا تھا کہ سپاہیوں کے تشدد کا نشانہ بنی ہے لڑکی پر جھپٹ پڑا اس کے بالوں کو دونوں ہاتھوں میں اس طرح پکڑا جس طرح چیتا یا شیر اپنے شکار میں پنجے گاڑھا کرتا ہے، اس نے لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر گھمایا اور زمین پر پٹخ دیا وہ پیٹھ کے بل گری تو اس کے خاوند نے تلوار نکالی پاؤں اس کے سینے پر رکھ کر تلوار کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی، سچ بتا ہندو کی بچی اس نے دانت پیس کر کہا۔
عین اس وقت علافی نے اپنی تلوار نکالی اور دوسری دو لڑکیوں کے سامنے کھڑا ہو گیا سچ بولو گی تو زندہ رہوں گی اس نے دونوں لڑکیوں سے کہا ،پھر وہ دوسروں سے مخاطب ہوکر بولا تینوں کے بالوں کو رسیوں سے باندھوں اور رسیاں گھوڑوں کے پیچھے باندھ دو۔
نہیں!،،،،، ایک لڑکی کی سخت خوفزدہ آواز سنائی دی۔۔۔ میں ایسی موت نہیں مرنا چاہتی، سچ سننا ہے تو مجھ سے سنو۔
ادھر وہ لڑکی جس کی شہ رگ پر اس کے خاوند نے تلوار کی نوک رکھی ہوئی تھی بول پڑی وہ بھی سچی بات بتانے پر آگئی تھی۔ تینوں لڑکیوں نے جو حقیقت بیان کی وہ اس طرح تھی کہ ان تینوں کو راجہ داہر کی سگی بہن مائیں رانی نے جو اس کی بیوی بھی تھی تیار کیا تھا کہ وہ ان عربوں کے ساتھ شادی کر لیں اور ان پر چھا جائیں، یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب حجاج کا بھیجا ہوا دوسرا سالار بدیل بن طیفہ مارا گیا تھا اور راجہ داہر فکر میں پڑ گیا تھا کہ اب عرب سے زیادہ طاقتور فوج آئے گی، یہ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ داہر نے حارث کو رضامند کرنے کی کوشش کی تھی کہ عربوں نے حملہ کیا تو تمام باغی عرب ان کے خلاف لڑیں، لیکن علافی رضامند نہیں ہوا تھا۔
جب محمد بن قاسم کی فوج مکران میں پہنچ گئی اور داہر کو اس کی اطلاع ملی تھی تو اس کے وزیر بدہیمن نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ زمین دوز طریقے سے مسلمانوں کی فوج کو کمزور کردے گا اور اس خطرے کو بھی ختم کر دے گا کہ مکران میں آباد عرب حجاج بن یوسف کی فوج کا ساتھ دیں گے، بدہیمن کو معلوم تھا کہ مائیں رانی پہلے ہی یہ ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔
ان تینوں لڑکیوں نے بتایا کہ وہ مائیں رانی کی بھیجی ہوئی عورتوں سے ملتی رہتی تھیں، اور یہ تینوں جب سیر سپاٹے کے بہانے کہیں باہر جاتی تھیں تو وہ دراصل مائیں کی بھیجی ہوئی کسی عورت سے ملنے جایا کرتی تھیں، انہیں مائیں رانی کی آخری ہدایت یہ ملی تھی کہ علافی نے عرب کی حملہ آور فوج کے ساتھ دوستی کر لی ہے لہذا ان کے درمیان دشمنی پیدا کرنی ہے، مائیں رانی نے دشمنی پیدا کرنے کا یہ طریقہ بتایا تھا ۔
ان کی قسمت کا فیصلہ ہمارا سردار حارث علافی کرے گا۔۔۔ ایک لڑکی کے خاوند نے کہا۔
تینوں کو قتل کر دو۔۔۔ علافی نے کہا۔
تینوں لڑکیاں چیخنے چلانے لگیں وہ رحم کی بھیک مانگ رہی تھیں اور وہ کہتی تھیں کہ یہ کام انہوں نے خود نہیں کیا ان سے کروایا گیا ہے۔
لیکن علافی نے ایک بار پھر کہا کہ ان کی جان بخشی نہیں کی جائے گی۔
رک جا حارث علافی!،،،،، محمد بن قاسم کی آواز سنائی دی، وہ ایک طرف کھڑا خاموشی سے اپنے سراغ رساں سالار شعبان ثقفی کی کاروائی دیکھ رہا تھا اس نے کہا۔۔۔ انہیں بےگناہ سمجھو، میں داہر کو ایک پیغام بھیجنا چاہتا ہوں، اس نے تینوں لڑکیوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا میرے سپاہی تمہیں گھوڑوں پر بیٹھا کر کسی بستی میں چھوڑ آئیں گے، راجہ داہر سے کہنا کی لڑائی میدان میں لڑی جاتی ہے اور لڑائی مرد لڑا کرتے ہیں عورتوں کو نہ لڑاؤ ،اور اسے یہ کہنا کہ اپنی سگی بہن کو بیوی بنانے والے کو آخر سزا ملنی ہی ہے، اپنے بھیانک انجام کے لئے تیار ہو جاؤ۔
محمد بن قاسم نے چوکی کے کماندار سے کہا کہ وہ ان لڑکیوں کو الگ الگ گھوڑوں پر بٹھائے اوردو سوار ساتھ بھیجے اور یہاں جو قریبی بستی ہے انہیں وہاں کسی سرکردہ آدمی کے حوالے کر آئے۔
اس طرح ایک بڑی خطرناک صورتحال پیدا ہوتے ہوتے رہے گی ورنہ ہندو ذہن نے مسلمانوں میں دشمنی پیدا کرنے کی بڑی پرکشش اور خوفناک کوشش کی تھی ،اس دور میں ہندوستان ایک پراسرار زمین تھی، ہندوستان کے شعبدہ باز مشہور تھے ،یہاں کے مندروں کے اندر ایک اور دنیا آباد تھی جو حسین بھی تھی اور بھیانک بھی، عربوں کا مذہب اور کلچر ہندومت کے بالکل الٹ تھا، جب یہ دو متضاد کلچر ہم متصادم ہوئے تو بڑی ہی سنسنی خیز کہانیوں نے جنم لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم کو ابھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس کا دشمن اس کے خلاف کیسے کیسے ہتھیار استعمال کرکے اسے شکست دینے کی کوشش کرے گا ،محمد بن قاسم ارمن بیلہ پہنچا اور اس نے اگلی صبح دیبل کی طرف کوچ کا حکم دے دیا ۔
کیا وہ بدھ ابھی تک نہیں آیا۔۔۔ راجہ داہر نے غصے اور بےتابی سے پوچھا۔
آرہا ہوگا مہاراج !،،،،،اسے جواب ملا۔
نیرون اتنی دور تو نہیں کہ وہ تین دنوں میں یہاں تک نہ پہنچ سکے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ عرب والوں کی اطاعت کو قبول کر کے وہ بھول گیا ہے کہ اسے ہم نے حاکم مقرر کیا ہے ،ہم اسے حاکم سے بھکاری بھی بنا سکتے ہیں۔
داہر کو تفصیلی رپورٹ مل چکی تھی کہ عرب سے کتنی زیادہ فوج آئی اور کس قدر زیادہ سازوسامان ساتھ لائی ہے، اب اسے یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ قنزپور اور ارمن بیلہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا ہے ،اور گزشتہ رات اسے مائیں رانی نے بتایا تھا کہ اس نے جو تین ہندو لڑکیاں باغی عربوں کی بستی میں بھیجی تھی وہ واپس آگئی ہیں اور یہ وار بیکار ہو گیا ہے۔
ان لڑکیوں کو محمد بن قاسم نے زندہ رہنے دیا اور انہیں ایک قریبی بستی میں بھیج دیا تھا ،ان لڑکیوں نے بستی والوں سے کہا تھا کہ ان کا تعلق راج دربار سے ہے اور انہیں فوراً اروڑ پہنچایا جائے، انہیں تیز رفتار اونٹوں پر اروڑ روانہ کردیا گیا تھا ،چار آدمی اس کے ساتھ بھیجے گئے تھے وہ گزشتہ شام اروڑ پہنچی اور مائیں رانی کو بتایا تھا کہ ان پر کیا بیتی ہے، مائیں رانی رات کو ہی ان لڑکیوں کو راجہ داہر کے پاس لے گئی تھی اور داہر نے ان سے سارا واقعہ سنا تھا۔
مہاراج!،،،،،، ایک لڑکی نے کہا۔۔۔ ہم بے قصور ہیں، ہم نے اپنا کام کر دیا تھا لیکن ہمیں معلوم نہ تھا کہ عرب کے لوگوں کی نظریں زمین کے نیچے بھی دیکھ سکتی ہیں ، ہم سمجھتی تھیں کہ مکران کے عرب جس طرح عربی فوج کے خلاف بھڑک اٹھے ہیں وہ اس چوکی کے عرب فوجیوں پر حملہ کر دیں گے پھر ان میں اور عربی فوج میں ایسی دشمنی پیدا ہوجائے گی کہ علافی اپنے تمام قبیلے کے ساتھ مہاراج کا دایاں بازو بن جائے گا ،لیکن عربی فوج کا سالار آگیا اس کے ساتھ بہت سے آدمی تھے۔
آگے جو کچھ ہوا وہ میں سن چکا ہوں ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ کیا تجھے یقین ہے کہ تو نے عربوں کے سالار کو دیکھا ہے؟
یہ تو ہم تینوں نے پہلے ہی پتہ چلا لیا تھا کہ عرب سے جو فوج آئی ہے اس کے سپہ سالار کا نام ہے ۔۔۔لڑکی نے جواب دیا۔۔۔ ہمارے خاوندوں نے ہمیں بتایا تھا کہ اس کا نام محمد بن قاسم ہے۔
محمد بن قاسم !،،،،،داہر نے زیر لب کہا ۔۔۔اور لڑکی سے پوچھا کیا تم تینوں نے نام غلط تو نہیں سنا؟،،،،،، نام حجاج بن یوسف تو نہیں؟
نہیں مہاراج !،،،،،ایک لڑکی نے کہا۔
اس میں کوئی شک نہیں مہاراج !،،،،،دوسری لڑکی نے کہا۔۔۔ نام محمد بن قاسم ہے، حجاج بن یوسف نہیں۔
مہاراج !،،،،،پہلی لڑکی نے کہا ۔۔۔وہ حجاج بن یوسف کا بھتیجا ہے ہم تینوں سے چھوٹا ہے وہ تو کمسن لڑکا ہے۔
مہاراج !،،،،دوسری لڑکی نے کہا ۔۔۔اور بہت ہی خوبصورت لڑکا ہے، اسے دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ وہ سالار ہے، لیکن اس کے ساتھ جو کوئی بات کرتا سالار محترم کہہ کر بات کرتا تھا ،اس نے ہمیں اپنے خاوندوں اور حارث علافی کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا اور حکم دیا کہ انہیں قریبی بستی میں چھوڑ آؤ ،اس سے کوئی شک نہ رہا کہ یہی سالار ہے ۔
راجہ داہر نے قہقہہ لگایا۔
سنا تھا حجاج بن یوسف دانشمند ہے۔۔۔ داہر نے کہا۔۔۔ لیکن احمق نکلا، تجربے کار سالاروں کو ہمارے ہاتھوں مروا کر اس نے ایک بچے کو بھیج دیا ہے، وہ اس بچے کو کسی وجہ سے مروانا چاہتا ہے یا اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ تجربے کار سالاروں سے ہمیں شکست دے گا اور فتح کا سہرا اپنے کمسن بھتیجے کے سر بندھے گا۔۔۔۔اس نے لڑکیوں سے پوچھا ۔۔۔رانی نے بتایا ہے کہ اس کمسن سپہ سالار نے میرے لیے کوئی پیغام دیا ہے؟
تینوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جیسے وہ مہاراج کے سامنے محمد بن قاسم کا پیغام زبان پر لانے سے ڈر رہی ہو ،پھر انہوں نے مائیں رانی کی طرف دیکھا ۔
مہاراج کو بتاؤ اس عربی سالار نے کیا پیغام دیا تھا ۔۔۔مائیں رانی نے کہا ۔
اس نے کہا ہے۔۔۔ ایک لڑکی روک روک کر بولی۔۔۔ راجہ داہر سے کہنا کہ لڑائی میدان میں لڑی جاتی ہے اور لڑائی مرد لڑا کرتی ہیں عورتوں کو نہ لڑاؤ،،،،،،،،، اور اپنے راجہ سے کہنا کے اپنی سگی بہن کو بیوی بنانے والے کو آخر سزا ملنی ہی ہے، اپنے بھیانک انجام کے لئے تیار ہو جاؤ۔
وہ کم عمر ہی نہیں ۔۔۔راجہ داہر نے کہا ۔۔۔وہ اوچھا بھی ہے۔
لڑکیوں کو باہر بھیج کر داہر نے مائیں رانی سے پوچھا کہ ان لڑکیوں کا اب کیا بنے گا؟
یہ اب کسی ہندو کے قابل نہیں رہیں۔۔۔۔مائیں رانی نے کہا یہ مسلمانوں کی بیویاں رہ چکی ہیں۔
انہیں مندر کی داسیاں بھی نہیں بنایا جاسکتا، میں نے ان کے برتن الگ کر دیئے ہیں، انہیں اپنے پاس رکھوں گی، انہیں میں نے بھیجا تھا میں ان کے ساتھ بے وفائی نہیں کروں گی۔
یہ نہ بھولنا کے یہ ناپاک لڑکیاں ہمارے راج کے لئے منحوس ثابت ہوںگی۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔انہیں زیادہ دن اپنے پاس نہ رکھنا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ گزشتہ رات کی باتیں تھیں، صبح راجہ داہر پوچھ رہا تھا کہ وہ بدھ ابھی تک نہیں آیا، اس کا مطلب اپنے نیرون کے حاکم سندر سے تھا جس نے درپردہ اپنا ایلچی بصرہ حجاج بن یوسف کے پاس اس درخواست کے ساتھ بھیجے تھے کہ اس سے جزیہ لیا جائے اور نیرون پر حملہ نہ کیا جائے، حجاج نے یہ پیشکش قبول کر لی تھی اور محمد بن قاسم کو اطلاع دے دی تھی کہ وہ جب نیرون پہنچے گا تو اس کا مقابلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ شہر اسے پیش کیا جائے گا۔
نیرون (حیدرآباد) کا حاکم بدھ مت کا پیروکار تھا اور اس کا پورا نام سندر شمنی تھا، راجہ داہر کو معلوم ہو چکا تھا کہ سندر نے عربوں کی اطاعت قبول کر لی ہے لیکن اس نے سندر سے باز پرس نہیں کی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی بھی شہر کا حاکم کسی بھی وقت خودمختاری کا اعلان کر سکتا ہے، عام طور پر ایسا نہیں ہوتا تھا لیکن باہر کے حملے کی صورت میں اکثر حاکم حملہ آور کی اطاعت لڑے بغیر قبول کرلیتے تھے، داہر عقلمند راجہ تھا وہ اس حالت میں جب غیر ملکی حملہ آور فوج اس کے ملک میں داخل ہو چکی تھی اپنے کسی حاکم پر جبر نہیں کرنا چاہتا تھا ،جبر سے اپنی راج دھانی سے دور کسی شہر کے حاکم کو اپنے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔
داہر کو توقع تھی کہ عرب کے پہلے دو سالاروں کی طرح اس کی فوج محمد بن قاسم کو بھی دیبل سے آگے نہیں بڑھنے دے گی، لیکن اب اسے صورتحال کچھ اور ہی نظر آ رہی تھی، اس لیے اس نے سندر شمنی کو اروڑ بلایا ،سندر کو ایک دو روز پہلے اروڑ پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں آیا تھا اس نے راجہ داہر کے حکم کی تعمیل میں اٹھ دوڑنا ضروری نہیں سمجھا تھا، راجہ داہر پیچ و تاب کھا رہا تھا ،اس نے وزیر بدہیمن کو بلایا۔
میرے دانشمند وزیر۔۔۔ راجہ داہر نے بدہیمن سے کہا ۔۔۔وہ ابھی تک نہیں آیا ،کیا میں یہ سمجھوں کہ وہ عرب کے حملہ آوروں سے مل گیا ہے؟
عربوں سے ملا ہے یا نہیں ،،،،بدہیمن نے کہا۔۔۔ وہ مہاراج سے ضرور بے پرواہ ہو گیا ہے ،وہ آئے گا ضرور آئے گا۔
تمہاری عقل و دانش کیا کہتی ہے۔۔۔ داہر نے پوچھا۔۔۔ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟۔۔۔ میں اپنی حکم عدولی برداشت نہیں کرسکتا۔
مہاراج حکم عدولی برداشت کریں ۔۔۔بدہیمن نے کہا۔۔۔ وہ آئے تو اس سے نہ پوچھیں کہ وہ فوراً کیوں نہیں آیا ،اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسے وہ اپ کی ٹکر کا راجہ ہے، میں جانتا ہوں مہاراج اسے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی اطاعت نہ کرے۔
ہاں !،،،،راجہ داہر نے کہا ۔۔۔میں اسے یہی کہنا چاہتا ہوں۔
اور اسے یہ بھی کہیں کہ وہ مسلمانوں کو اطاعت کے دھوکے میں رکھے۔۔۔ بدہیمن نے کہا۔۔۔ ان کے لیے شہر کے دروازے کھول دے اور ان کا استقبال کرے، جب مسلمانوں کی تمام فوج اندر آجائے تو دروازے بند کردے اور اپنی فوج سے اس پر حملہ کر دے، مسلمان فوج قلعہ مل جانے سے لڑنے کے لئے تیار نہیں ہو گی ،سندر شہر کے لوگوں کو تیار کرے کہ وہ اپنے مکانوں کی چھتوں پر بڑے بڑے پتھر جمع کر لیں، مسلمان جب اچانک حملے سے بوکھلا کر گلیوں میں جائیں تو لوگ اوپر سے ان پر پتھر پھینکیں۔
اگر وہ نہ مانے تو کیا کروں؟
مہاراج !،،،،بریمن نے کہا ۔۔۔کیا آپ زہریلے ناگ کو اپنے گھر میں پالنا پسند کریں گے؟،،،، آگ اور ناگ سے کھیلنے کا نتیجہ آپ جانتے ہیں،،،،،،،، آگ پر پانی ڈالا جاتا ہے اور ناگ کا سر کچلا جاتا ہے۔
یہ کام راجدھانی میں نہ ہو تو اچھا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
راجدھانی میں کیوں ہو ۔۔۔بدہیمن نے کہا۔۔۔ وہ واپس جائے گا تو راستے میں ناگ کا سر کچل دیا جائے گا ،اور مشہور یہ کریں گے کہ اسے عربوں نے قتل کیا ہے، اور نیرون میں یہ خبر پھیلائیں گے کہ حاکم نے راجدھانی سے واپسی پر اپنے ساتھ دو نہایت ہی خوبصورت لڑکیاں لے جارہا تھا عرب فوجی لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ محافظ ہونگے ۔۔۔داہر نے کہا۔
فوج تو نہیں ہوگی۔۔۔ برہمن نے کہا ۔۔۔دس بارہ محافظ ہونگے، حملہ ان کے کسی پڑاؤ پر ہوگا ،جب سب سوئے ہوئے ہونگے، یہ انتظام میرا ہو گا مہاراج ،آپ سمجھیں کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔
اسی شام کو سندرشمنی اروڑ پہنچ گیا، راجہ داہر کو اطلاع ملی کہ وہ آرہا ہے تو وہ آگے چلا گیا سندر کا استقبال کیا سندر کے ساتھ صرف چھ محافظ تھے اس کا سامان اونٹوں پر لدا ہوا تھا، راجہ داہر نے عجیب چیز یہ دیکھی کہ محافظوں نے پگڑیاں اس طرح سروں پر لپیٹی ہوئی تھیں کہ ان کے حصوں نے ان کے چہرے بھی چھپا رکھے تھے، ان کی صرف آنکھیں دکھائی دیتی تھیں۔
انہوں نے چہرے ڈھانپے ہوئے کیوں ہیں؟،،،،، راجہ داہر نے محافظوں کے متعلق سندر سے پوچھا ۔
مجھے اس طرح زیادہ اچھے لگتے ہیں ۔۔۔سندر شمنی نے کہا۔۔۔ زیادہ خوفناک لگتے ہیں، محافظ ایسے ہو نے چاہیے کہ جو دیکھے اس پر خوف طاری ہوجائے۔
راجہ داہر نے اس کی یہ بات ہنسی میں ٹال دی، اس کے سامنے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ مسئلہ تھا ،وہ سندر کو اپنے خاص کمرے میں لے گیا ۔
کیا یہ سچ ہے کہ تم نے مسلمانوں کی اطاعت کو قبول کر لی ہے؟،،،، راجہ داہر نے اس سے پوچھا۔
ہاں مہاراج !،،،،،سندر نے کہا ۔۔۔یہ بالکل سچ ہے ۔
اور تم نے جزیہ دینا قبول کیا ہے ؟
ہاں میاراج !،،،،سندر نے جواب دیا ۔۔۔میں نے اس شہر کے لوگوں کے لئے جس کا میں حاکم ہو امن و امان کا سودا کیا ہے۔
نہیں سندر شمنی!،،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ تم نے میری عزت اور غیرت اپنی عزت اور غیرت اور شہر کے لوگوں کی عزت اپنے دشمن کے ہاتھ بیچ ڈالی ہے، اور ساتھ رقم بھی دی ہے، کیا تم یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ وہ غیر ملک اور غیر مذہب کی قوم ہے جس نے ہمیں غلام بنانے کے لئے حملہ کیا ہے۔
مہاراج!،،،، سندر نے کہا ۔۔۔میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس غیر قوم نے اپنی فوج ہمارے ملک میں کیوں بھیجی ہے؟،،،، اسے آپ نے خود بلایا ہے۔
سندر!،،،،، داہر نے کہا ۔۔۔تم عربوں کے ایلچی نہیں تم میرے حاکم ہو ،تم اپنے راج اپنے ملک کی بات کرو ،تمہیں اپنے ملک کے لئے لڑنا ہے۔
میرا مذہب مجھے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ سندر نے کہا۔۔۔ اور اس حالت میں میں لڑا ہی نہیں سکتا جبکہ ہم خود ظالم ہیں ،مہاراج نے ان عربوں کو کس گناہ میں قید میں ڈالا ہے جو اپنے ملک کو جا رہے تھے، انہیں آپ کے سمندری لٹیروں نے لوٹا پھر انہیں پکڑ کر قیدخانے میں ڈال دیا۔
مجھے معلوم نہیں وہ کہاں ہیں؟،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ انہیں لوٹنے والے وہ لوگ ہیں جن کا پیشہ ہی یہی ہے، اور وہ میری گرفت سے باہر ہیں۔
وہ دیبل کے قیدخانے میں ہیں مہاراج!،،، سندر نے کہا ۔۔۔اب بھی وقت ہے ان قیدیوں کو رہا کردیں۔
میں تمہارا حکم نہیں مان سکتا ۔۔۔داہر نے کہا۔۔۔ تم میرا حکم مانو گے۔
میں مہاتما بدھ کا حکم مانو گا مہاراج !،،،،سندر شمنی نے کہا ۔
پھر تم نے نیرون کو چھوڑ دو اور یہاں آجاؤ۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
نیرون سے کہو کہ مجھے چھوڑ دے۔۔۔ سندر نے کہا۔۔۔ مہاراج نیرون کا ایک بچہ بھی کہہ دے کہ سندر شمنی کو یہاں سے لے جاؤ تو میں اپنے آپ کو دریائے سندھ کی لہروں کے حوالے کر دوں گا ،مجھے مہاراجہ حکم سے وہاں سے ہٹائیں گے تو وہاں کے لوگ آپ کی حکم عدولی پر اتر آئیں گے۔
کن لوگوں کی بات کرتے ہو۔۔۔ راجہ داہر نے گرج کر کہا ۔۔۔یہ لوگ ہماری رعایا ہیں، ہم چاہیں تو انہیں بھوکا مار دیں چاہے تو ان کی جھولیاں بھردیں۔
تکبر میں نہ آئیں مہاراجہ!،،،، سندر شمی نے کہا ۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پیدا کرنے والے کو عزیز ہیں، جنہیں مہاراج اپنا محتاج سمجھتے ہیں ان کے قہر و غضب سے ڈریں انہیں جنگ کے تنور میں نہ پھینکیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مہاراج کا راج اسی آگ میں جل جائے، خدا اپنے بندوں کی آواز سنتا ہے، خدا کے بندوں کو امن اور محبت عزیز ہے ،بدھ مت امن کا علمبردار ہے، اسلام عام لوگوں کا مذہب ہے جو محبت کا سبق دیتا ہے۔
کیا تم اس اسلام کی باتیں کرتے ہو جس کی فوج ہمارے بستیاں اجاڑنے کو آ گئی ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
انہوں نے میرے شہر کے لوگوں کو امن دیا ہے۔۔۔ سندر شمنی نے کہا۔۔۔ وہ امن اور پیار کے جواب میں امن اور پیار ہی دیتے ہیں ،آپ ان سے محبت کی توقع کیوں نہیں رکھتے ہیں، آپ کے باپ دادا نے عرب کے ان مسلمانوں کو فارسیوں سے شکست دلانے کے لیے ہاتھی بھیجے تھے، فارسیوں نے سندھ اور مکران پر ہمیشہ حملے کیے ہیں، سندھ کے کئی ہزار جاٹوں کو وہ پکڑ کر لے گئے تھے، فارسی تو آپ کے خاندان کے دشمن تھے لیکن آپ کے پیتا جی نے فارسیوں کے ساتھ صرف اس لیے دوستی کرلی تھی کہ ان کی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی تھی، آپ کے باپ دادا نے ان کی مدد کی پھر مکران میں مسلمانوں کے خلاف چھیڑ چھاڑ جاری رکھی، آپ نے عرب کے مسلمانوں کو ہمیشہ مشتعل کیا ہے، ان کے باغی عرب سے نکل کر آئے تو آپ کے باپ دادا نے انہیں مکران میں پناہ دی اور انہیں عربوں کے خلاف اکساتے اور بھڑکاتے رہے، اب مہاراج نے ان کے جہاز لوٹے اور آدمیوں کے ساتھ ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی قید میں ڈال دیا ہے، اب آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ اسلام کی فوج ہماری بستیاں اجاڑنے کے لیے آ گئی ہیں۔
تم پر مسلمانوں کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔
مہاراج کہہ رہے تھے کہ میں نیرون کا حاکم نہ رہوں ۔۔۔سندر نے کہا ۔۔۔یہ فیصلہ نیرون کے لوگ کریں گے، اگر آپ نے مجھے نیرون سے زبردستی ہٹایا تو وہاں کے لوگ آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، لوگ امن کی زندگی چاہتے ہیں ،ہوسکتا ہے فوج بھی لوگوں کے ساتھ ہو جائے ۔
راجہ داہر سندر دشمنی کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ مسلمانوں کو جزیہ نہ دے، اور ان کی اطاعت قبول نہ کرے ،لیکن سندر قائل نہ ہوا۔
داہر نے اپنے وزیر بدہیمن کو بلایا۔
سندر شمنی آج رات کو ہی واپسی کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔۔۔ راجہ داہر نے بدہیمن سے کہا ۔۔۔انہیں عزت سے رخصت کریں۔
بدہیمن اسی وقت باہر نکل گیا ،راجہ داہر سندر کو اپنے ساتھ کھانے پر لے گیا اور بہت دیر باتوں میں لگائے رکھا، داہر نے سندر کو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ مسلمانوں کی اطاعت سے باز آجائے تو اسے نیرون کا خود مختار حاکم بنا دیا جائے گا ،سندر نے یہ پیشکش ہنس کر ٹال دی۔
بدہیمن کمرے میں داخل ہوا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>