⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴گیارہویں قسط 🕌


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴گیارہویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میں شیراز سے آرہا ہوں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں دمشق نہیں گیا، اور میں بصرہ بھی نہیں گیا، میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ میرے سالاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ باغی عرب جو مکران میں ہیں وہ عداوت کی بنا پر سندھ کے راجہ کا ساتھ دیں گے، میں خود یہی خطرہ محسوس کر رہا ہوں،،،،،،میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری مدد نہ کریں  لیکن یہاں کے راجہ کا بھی ساتھ نہ دیں ورنہ اسلام کی تاریخ میں یہ منحوس اور مکروہ حقیقت آجائے گی کہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے اپنے بھائیوں کو شکست دلانے کے لئے ہندوؤں کا ساتھ دیا تھا، میں جانتا ہوں آپ کے دل میں ہمارے خلاف کدورت بھری ہوئی ہے۔
میرے عزیز ابن قاسم!،،،،، علافی نے کہا ۔۔۔تم پر اللہ کی رحمت ہو، تم اپنی عمر سے زیادہ دانش مند ہوں میرے دل میں اور ہر باغی عرب کے دل میں کدورت بھری ہوئی ہے ،لیکن یہ بنو امیہ کے خلاف ہے تم اموی نہیں ثقفی ہو ،تمہیں شاید کسی نے بتایا ہوگا کہ جب سعید بن اسلم کلابی مکران میں امیر مقرر ہوا تھا تو ہمارا ایک سردار سفہوی بن لام الحامی مکران آیا ،امیر مکران سعید بن اسلم کلابی نے اسے کوئی حکم دیا۔ سفہوی نے اسے کہا کہ تمہارا حکم ماننے کو میں اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ سعید بن اسلم نے اسے قید میں ڈال دیا پھر اسے قتل کرا دیا،،،،،
ابن قاسم!،،،،، تیرے چچا حجاج نے بھی ہمارے ساتھ دشمنی پیدا کر لی تھی ،سفہوی ہم میں سے تھا علافیوں میں سے تھا، میرے قبیلے کے کچھ آدمیوں نے امیر مکران سعید کو قتل کرکے سفہوی کے قتل کا انتقام لیا۔
ہاں !،،،،محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ سعید کو قتل کرنے والے تمہارے ہیں دو بیٹے تھے ایک کا نام معاویہ اور دوسرے کا نام محمد تھا۔
پھر ابن قاسم!،،،،، علافی نے کہا ۔۔۔تمہارے چچا حجاج نے ہمارے قبیلے کے ایک سردار سلیمان علافی کو قید میں ڈالا اسے قتل کیا اور اس کا سر کاٹ کر سعید بن اسلم کلابی کے گھر بھیج دیا کہ ان کے جذبہ انتقام کی کچھ تسکین ہو جائے۔
یہ ہماری خاندانی دشمنیاں ہیں ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں آپ کو یہ دشمن دکھا رہا ہوں جس نے آپ کو دوست بنا رکھا ہے۔
مت بتاؤ مجھے ابن قاسم !،،،،،حارث علافی نے کہا ۔۔۔مجھے ایسا نہ سمجھو کہ خاندانی دشمنی کی خاطر میں اپنی قوم اور اپنے مذہب کے دشمن کو دوست بنا لوں گا ،مایوس نہ ہو علافی تمہاری مدد کریں گے، لیکن تمہارے ساتھ نہیں ہوں گے، ہماری دشمنی حکمران سے ہے ،اپنے وطن اور اپنے مذہب سے نہیں، برے اور نااہل حکمران کے خلاف کوئی کاروائی کرنا غداری نہیں، بلکہ نااہل اور خود غرض حکمران سے اپنے ملک کو آزاد کرانا حب الوطنی ہے ،ہم اپنے وطن کے باغی نہیں، ہم ایوان خلافت کے باغی نہیں ہیں، ہم ان کے باغی ہیں جو خلافت کے اہل نہ تھے مگر مسند خلافت پر قابض ہوگئے ہیں۔
مورخ بلاذری لکھتا ہے کہ حارث علافی محمد بن قاسم سے اور محمد بن قاسم حارث علافی سے بہت متاثر ہوا ،علافی نے وعدہ کیا کہ وہ راجہ داہر کا ساتھ نہیں دے گا اور وہ درپردہ راجہ داہر کی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا ۔اس نے یہ نہ بتایا کہ وہ کیا طریقہ اختیار کرے گا نہ اس نے محمد بن قاسم سے پوچھا کہ وہ کس طرح پیش قدمی کرے گا ،اور اس کا پہلا حملہ کہاں ہوگا۔
یہاں کی فوج لڑنے میں کیسی ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے پوچھا۔۔۔ کیا یہ لوگ اتنی بے جگری سے لڑتے ہیں کہ انہوں نے دو بار ہماری فوج کو شکست دی ہے، اور دونوں فوجوں کے سالار کو مار ڈالا تھا؟
اگر ان پر اپنا خوف طاری کر دو گے تو داہر کی فوج کی بہادری ختم ہوجائے گی۔۔۔علافی نے کہا ۔۔۔یہاں کے سپاہی بہادر نہیں تو بزدل بھی نہیں، پہلی دو لڑائیوں میں وہ اس لئے بہادر ہو گئے تھے کہ تمہاری فوجوں نے تھوڑی تعداد میں حملہ کیا تھا، اور بڑی عجلت میں حملہ کیا تھا ،حجاج نے داہر کی فوج کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں کیا تھا ،اتنی دور آ کر حملہ کرنے کے اہتمام ہی کچھ اور ہوتے ہیں، مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ تم اپنے ساتھ کیا کیا لائے ہو؟،،،،،اتنے زیادہ سازوسامان اور اتنے زیادہ گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ تم کوئی جذبہ بھی لائے ہو تو کوئی لشکر تمہارے مقابلے میں بہادر نہیں، اگر تم اپنے چچا حجاج اور خلیفہ کو خوش کرنے کے لئے آئے ہو تو داہر کی فوج بہت بہادر ثابت ہوگی اور شکست تمہارا مقدر ہوگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حارث علافی اور محمد بن قاسم کی یہ ملاقات تاریخی حیثیت کی حامل ہے، اگر یہ پانچ سو باغی عرب محمد بن قاسم کے خلاف داہر کی مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے تو محمد بن قاسم کی لڑائیوں کی تاریخ مختلف ہوتی، یہ محمد بن قاسم کے تدبر کا نہایت اہم مظاہرہ تھا کہ اس نے ان باغیوں کے سردار کو ملاقات پر آمادہ کر لیا ،علافی نے یہ وعدہ کر دیا تھا کہ وہ داہر کا ساتھ نہیں دے گا، لیکن امیر مکران محمد بن ہارون تذبذب میں میں پڑا رہا اسے توقع نہیں تھی کہ علافی نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا بھی کرے گا۔
محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو پیش قدمی کرنے کے لیے تیار کرلیا لیکن اسے مکران میں کم و بیش ایک مہینہ گزارنا پڑا ،اس تاخیر کی وجہ یہ ہوئی کہ بحری جہازوں سے جو سامان آرہا تھا اس میں سے ابھی کچھ سامان نہیں پہنچا تھا، اس سامان میں منجیقیں بھی تھیں اور سب سے زیادہ ضروری وہ بڑی منجیق تھی جس کا نام عروس تھا ،آخر منجیقیں بھی آگئی انہیں جہازوں سے اتار کر فوج کو کوچ کا حکم دے دیا گیا یہ 712عیسوی تھا۔
امیر مکران محمد بن ہارون بیمار تھا جب فوج روانہ ہونے لگی تو محمد بن قاسم نے دیکھا کہ امیر مکران گھوڑے پر سوار اسکی طرف آرہا ہے محمد بن قاسم نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور اس تک جا پہنچا۔
اب آپ آرام کریں۔۔۔ محمد بن قاسم نے اس کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لئے دونوں ہاتھ آگے کیے اور کہا۔۔۔ اور میرے لیے دعا کریں اور اپنی دعاؤں کے ساتھ مجھے اور میری فوج کو رخصت کریں۔
کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ میں کس لباس میں آیا ہوں ۔۔۔محمد بن ہارون نے کہا۔۔۔ کیا میرے سر پر خود نہیں دیکھ رہے، کیا میری کمر کے ساتھ تمہیں تلوار نظر نہیں آ رہی، تم میرے بچے ہوں میں تمہیں اکیلا نہیں جانے دوں گا، میں تمہارے ساتھ جانے کے لئے آیا ہوں ۔
تاریخیوں میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم اسے روک نہ سکا محمد بن ہارون اس کے باپ کی عمر کا آدمی تھا اس نے امیر مکران کو ساتھ لے لیا۔
محمد بن قاسم کا اصل ہدف دیبل تھا لیکن راستے میں قنز پور نام کا ایک شہر آتا تھا یہ شہر آج بھی موجود ہے آج اس کا نام پنجگور ہے، یہ ایک مضبوط قلعہ بند شہر تھا اسے نظر انداز بھی کیا جا سکتا تھا لیکن اس قلعے کی مضبوطی اور وسعت کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ داہر نے اس میں خاصی زیادہ فوج رکھی ہوں گی، اس لیے اس فوج کو بیکار کرنا ضروری سمجھا گیا۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ جاسوسوں نے بھی یہی اطلاع دی تھی کہ اس قلعے میں فوج زیادہ ہے جسے نظرانداز کیا گیا تو یہ فوج خطرناک ثابت ہوسکتی ہے چنانچہ اس قلعے کو محاصرے میں لے لیا گیا۔
آگے جاکر اعلان کے گئے کہ قلعے کے دروازے کھول دیے جائیں اور قلعہ ہمارے حوالے کر دیا جائے اس صورت میں ہر شہری کو امان دی جائے گی اور ان کی عزت اور جان و مال کی پوری حفاظت کی جائے گی اور اگر ہم نے اپنی کوشش سے قلعہ فتح کر لیا تو کسی کے جان و مال کی حفاظت ہماری ذمہ داری نہیں ہوگی ہر شہری کو جزیہ دینا پڑے گا ،اس اعلان کے جواب میں قلعے کی دیواروں کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آئیں یہ اعلان تھا کہ ہمت ہے تو قلعہ فتح کر لو۔
محمد بن قاسم نے قلعے کے دروازے توڑنے کے لئے آدمی آگے بھیجے لیکن اوپر سے برچھیوں اور تیروں کی ایسی بوجھاڑیں نے آئیں کہ یہ آدمی بری طرح زخمی اور شہید ہوئے۔
دیوار میں شگاف ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن جو بھی آگے گیا وہ لہولہان ہو کر وہیں گرا یا واپس آیا ،یہاں ضرورت محسوس ہونے لگیں کہ سب سے بڑی منجیق عروس کو استعمال کیا جائے، لیکن اس کا استعمال اتنا آسان نہیں تھا اس کی بجائے محمد بن قاسم نے چھوٹی منجیقوں سے شہر پر پتھر برسائے ان منجیقوں کو پیچھے ہٹانے کے لئے قلعے کی فوج نے دلیری اور جاں بازی کا یہ مظاہرہ کیا کہ قلعے کے تین چار دروازے کھلے اور اندر سے بہت سے گھوڑسوار تیرانداز نکلے وہ گھوڑے دوڑاتے ہوئے منجیقیں چلانے والوں پر تیر برساتے چلے گئے بیشتر اس کے کہ ان کا تعاقب کیا جاتا یا مسلمان سوار گھوڑے دوڑا کر قلعے میں داخل ہوجاتے دشمن کے تیر انداز سوار قلعے کے اندر چلے گئے اور دروازے پھر بند ہوگئے۔
دن پر دن گزرتے جا رہے تھے اور قلعہ پہلے کی طرح محفوظ کھڑا تھا ۔قلعے کی فوج کے حوصلے اور مزاحمت میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی تھی ،محمد بن ہارون بیماری کے باوجود گھوڑے پر سوار قلعے کے اردگرد گھوڑا دوڑاتا اور سپاہیوں کو ہدایات دے رہا تھا محمد بن قاسم نے اسے کئی بار روکا کہ وہ پیچھے اپنے خیمے میں چلا جائے لیکن وہ ہر بار یہی جواب دیتا تھا کہ تم میرے بچے ہو میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔
ایک مہینہ گزر گیا معلوم ہوتا تھا کہ قلعے میں رسد اور خوراک کی کمی نہیں، ان علاقوں میں پانی سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی معلوم ہوتا تھا کہ قلعے کے اندر یعنی شہر میں پانی کی بھی کوئی کمی نہیں۔
قاسم کے بیٹے!،،،، ایک روز محمد بن ہارون نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ یہ قلعہ اتنی آسانی سے سر نہیں ہوسکے گا سرنگ لگانے کا انتظام کیا جائے یا دیواروں پر کمند پھینکی جائے۔
امیر مکران !،،،،،،محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں یہ قلعہ سر کرسکتا ہوں لیکن میں اپنی جنگی طاقت یہیں پر زائل نہیں کرنا چاہتا، ہلہ بولنے کی بجائے ہم کچھ دن کچھ بھی نہیں کریں گے آرام سے بیٹھے گے لیکن شہر پناہ کے اندر کسی کو آرام اور چین نہیں ملے گا، ان کے پاس آخر کتنی خوراک ہو گی اور پانی کا ذخیرہ بھی ختم ہونے والا ہو گا، ہمیں اپنی طاقتیں یہیں صرف کر دینے کی بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ شہری بھوک اور پیاس سے مجبور ہو کر اپنی فوج کے لیے مصیبت کھڑی کردیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے ایک اور مہینہ وہیں پر گزار دیا یہ پتا نہ چلایا جاسکا کہ شہر کے اندر خوراک اور پانی کی کیا کیفیت ہے، یہ تبدیلی دیکھی گئی کے شہر پناہ سے تیروں کی جو بوجھاڑ آتی رہتی تھی ان میں کمی آگئی، ایک روز فجر کی نماز کے فوراً بعد مسلمانوں کی فوج نے ان احکام کی تعمیل نہایت سرعت سے کی جو احکام محمد بن قاسم نے گزشتہ رات سالاروں کو دیے تھے، چھوٹی منجیقیں آگے لے گئے تھے اور تیرانداز منجیقوں کے ساتھ اور کچھ آگے رکھے گئے، قلعے کے دروازے کے سامنے سوار دستے تیار کھڑے کردیئے گئے تاکہ اندر سے سوار حملے کے لیے باہر نکلے تو ان پر ہلہ بول دیا جائے۔
سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ قلعے کے اندر پتھر گرنے لگے اب چونکہ منجیقیں آگے کر لی گئی تھیں اس لیے ان کے پھینکے ہوئے پتھر شہر پناہ کے اوپر سے جاکر شہر کے اندر گرتے تھے ،شہر پناہ سے منجیقوں پر تیر پھینکنے کے لئے ہندو تیر انداز نظر آئے ادھر سے مسلمان تیر اندازوں نے ان پر تیروں کا مینہ برسا دیا منجیقوں کو بیکار کرنے کے لئے پہلے کی طرح قلعے کے دروازے سے ایک بار پھر کھلے بیشتر اس کے کے قلعے کے سوار تیر اندازی کے لئے باہر آتے مسلمان سواروں نے رات کے احکام کے مطابق گھوڑوں کو ایڑ لگائی اندر والے سوار باہر نہ آ سکے اور قلعے کے دروازے پھر بند ہوگئے، مسلمان سوار قلعے میں داخل نہ ہو سکے لیکن ان کی یہ کامیابی بھی کافی تھی کہ انہوں نے شہر کے تیرانداز سواروں کو باہر نہ آنے دیا اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ منجیقیں شہر پر پتھر برساتی رہیں۔
سندھ کی تاریخ لکھنے والے تقریباً تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ شہر میں ایک تو پانی کی قلت شہریوں کو پریشان کرنے لگی تھی اور پتھر تو پہلے بھی ان پر پھینکے گئے تھے لیکن اب ژالہ باری کی طرح پتھر گر رہے تھے، لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تین چار روز سنگ باری جاری رہی تو شہریوں نے واویلا بپا کردیا اور فوج کو مجبور کرنے لگے کہ قلعے پر سفید جھنڈا چڑھا دے، فوج خود تنگ آچکی تھی شہر کے اندر ایسی افراتفری پھیلی کے قلعہ دار کو بتائے بغیر کچھ لوگوں نے جن میں فوجی بھی شامل تھے شہرپناہ پر سفید جھنڈے چڑھا دیے پھر شہر کے دروازے کھل گئے ۔
محمد بن قاسم کی فوج قلعے میں داخل ہوئی قلعے دار کو حکم دیا گیا کہ جو جزیہ مقرر کیا جائے گا وہ شہریوں سے وصول کرکے فاتح فوج کے حوالے کیا جائے۔
قلعے میں جو فوج تھی اس کے کمانڈر سے لے کر سپاہیوں تک سب کو جنگی قیدی بنا لیاگیا ۔محمد بن قاسم وہاں رک نہیں سکتا تھا قلعے کے انتظامات کے لیے کچھ نفری وہاں چھوڑی گئی اور محمد بن قاسم نے اگلے شہر کی طرف کوچ کیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلا شہر ارمن بیلہ تھا محمد بن قاسم نے جنگ کے نفسیاتی پہلو کو بھی سامنے رکھا اس نے قنزپور کے چند ایک شہریوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمان لشکر سے بہت آگے نکل جائیں اور ارمن بیلہ میں جا کر لوگوں کو بتائیں کہ وہ قلعے کو بچا نہیں سکیں گے، اور اگر بچانے کی کوشش کریں گے تو بہت زیادہ نقصان اٹھائیں گے، یہ آدمی ارمن بیلہ چلے گئے بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے وہاں جاکر ایک تو یہ خوف پھیلایا کہ مسلمان بڑے زبردست لوگ ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی مشہور کیا کہ ان کے پاس معلوم نہیں جنات میں یا ایسی طاقت ہے کہ سارے شہر پر پتھروں کا مینہ برسا دیتے ہیں، دہشت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی طرف سے یہ اضافہ کیا کہ مسلمان جتنے دہشتناک لگتے ہیں دل کے اتنے ہی نرم اور رحم دل ہیں، ان کی فوج لوٹ مار نہیں کرتی اور شہریوں سے کچھ پیسے بطور جزیہ لے کر ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پوری حفاظت کرتی ہے۔
جب محمد بن قاسم کی فوج نے ارمن بیلہ کے قلعہ بند شہر کو محاصرے میں لیا تو وہاں بھی مزاحمت کا سامنا ہوا لیکن صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ مزاحمت برائے نام ہے مختصر یہ کہ کچھ دنوں بعد اس قلعے پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ محمد بن قاسم کے حملے کا پلان ایسا تھا کہ وہ اپنی فوجی طاقت کو بچا رہا تھا اور فوج کو اگلی لڑائیوں کے لئے تیار کر رہا تھا، اس کے لیے فوج کو آرام دینا بہت ضروری تھا ارمن بیلہ کو فوج کے آرام کے لئے بہترین جگہ تصور کیا گیا اس جگہ زیادہ دیر رکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کے امیر مکران کی بیماری تشویشناک حد تک پہنچ گئی طبیب جو فوج کے ساتھ تھے بیماری پر قابو پانے کی پوری کوشش کرتے رہے لیکن مرض قابو میں نہیں آ رہا تھا ،آخر ایک روز محمد بن ہارون خالق حقیقی سے جا ملا اسے ارمن بیلہ میں ہی دفن کردیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آج کا حیدرآباد اس زمانے میں نیرون کہلاتا تھا اس شہر کی بنیاد نبوت اور ہجرت مدینہ کے درمیانی عرصے میں رکھی گئی تھی، اس وقت کا اس کا نام نیرون تھا جب مغلوں نے اس علاقے کو فتح کیا تو اس کا نام حیدر آباد رکھ دیا گیا کیونکہ اسے حیدر قلی ارغون نے نئے سرے سے تعمیر کرایا تھا ،جب محمد بن قاسم قنز پور کو فتح کر چکا تو نیرون میں ایک سادھو داخل ہوا اس کے بال لمبے اور مٹی سے اٹے ہوئے تھے، اس نے جوگیا رنگ کا موٹے کپڑے کا لمبا سا کرتا پہن رکھا تھا، اس کے پاؤں میں لکڑی کی کھڑاویں تھیں اس کے پیچھے پیچھے کچھ اسی لباس میں ملبوس اس کے چیلے تھے، وہ شہر میں نعرے لگانے لگا۔۔۔۔ لوگوں گناہوں کی معافی مانگ لو آفت آ رہی ہے۔
لوگ اسے روکتے تھے لیکن ایسے لگتا تھا جیسے وہ کسی کی سن ہی نہیں رہا وہ دونوں بازو ہوا میں لہراتا تھا اور کچھ نہ کچھ بولتا جا رہا تھا۔
شہر خالی کردو۔۔۔ بھاگ جاؤ۔۔۔ آگ ہی آگ ہے۔۔۔ آسمان سے پتھر برسیں گے۔
اس کا انداز ایسا تھا کہ جو اس کی بات سنتا تھا وہ اثر قبول کرتا تھا لوگ اس کے چیلوں سے پوچھتے تھے کہ سادھو مہاراج کہاں سے آئے ہیں اور یہ کیا کہہ رہے ہیں؟
چیلے لوگوں کو بتاتے تھے کہ سادھو مہاراج تین چار مہینوں سے خاموش بیٹھے تھے ایک روز رات کو باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے تھے آخر ان کے منہ سے بڑی بلند آواز میں یہ الفاظ نکلے۔۔۔ آسمان سے پتھر برسیں گے۔
نیرون راجہ داہر کی عملداری میں تھا ،داہر تو کٹر برہمن تھا لیکن اس نے نیرون کا جو حاکم مقرر کر رکھا تھا وہ بدھ مت کا پیروکار تھا اس کا نام سندر تھا۔ راجہ داہر نے بدھ مت کے مندروں کو تقریباً بند کردیا تھا لیکن جہاں بدھ مت موجود تھے وہاں وہ کہیں نہ کہیں عبادت کرتے تھے۔
یہ سادھو اور اس کی صدائیں ایک ہی روز میں سارے شہر میں مشہور ہو گئی یہاں تک کہ حاکم نیرون سندر تک یہ صدائیں پہنچائی گئیں، اس نے حکم دیا کہ اس سادھو کو فوراً اس کے سامنے لایاجائے، سندر نے یہ ضرورت اس لئے محسوس کی تھی کہ اسے بتایا گیا تھا کہ سارے شہر پر خوف و ہراس طاری ہوچکا ہے، چونکہ ہندوؤں کا مذہب توہمات اور چند ایک اوٹ پٹانگ رسومات کا مجموعہ ہے اس لیے وہ سادھوؤں کی باتوں کو برحق مانتے تھے، آج بھی ہندوؤں کے مذہبی عقائد ویسے کے ویسے ہیں۔
حاکم نیرون کے آدمی سادھو کو اس کے پاس لے گئے اس نے سادھو سے پوچھا کہ وہ کیا صدائیں لگاتا پھر رہا ہے۔
یہ صدائیں میری نہیں۔۔۔ سادھو نے کہا ۔۔۔یہ آسمان کی آواز ہے، آسمان سے پتھر برسیں گے ،سمندر پار سے ایک طاقتور راجہ آیا ہے اس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا، جس بستی کے لوگ اس کا مقابلہ کرتے ہیں اس پر وہ آسمان سے پتھر برساتا ہے۔
کیا تم عرب کی فوج کی بات کر رہے ہو؟،،،،، سندر نے پوچھا ۔۔۔وہ فوج جس نے قنزپور کو فتح کیا ہے۔
ہم قنزپور نہیں گئے۔۔۔ سادھو نے کہا۔۔۔ ہم دنیا کو تیاگ بیٹھے ہیں ،ہم جنگل میں رہتے ہیں ہم نے وہاں آسمان کی آوازیں سنی ہے۔
سادھو مہاراج!،،،،، سندر نے کہا ۔۔۔ہمیں صرف یہ بتا دیں کہ آپ کو میرے شہر پر اتنا رحم کیوں آیا ہے؟،،،،، کیا آپ دوسری بستیوں میں بھی گئے ہیں اور لوگوں کو خبردار کیا ہے۔
وہ سب پاگل ہیں ۔۔۔سادھو نے کہا ۔۔۔ان کے راجہ نے ان کو پاگل کیا ہے، اس شہر میں اس لئے آیا ہوں کہ یہاں کا راجہ ہندو نہیں بدھ ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ بدھ مت امن کا پرچار کرتا ہے اگر تیرے دل میں امن کی خواہش ہے تو اس سے پناہ مانگ جو پتھروں کا مینہ برساتا ہے، ہماری بات نہیں مانے گا تو خود بھی تباہ ہو گا اور اس شہر کی مخلوق کو بھی تباہ کرائے گا ،تیری اپنی بیٹیاں دوسروں کے قبضے میں چلی جائیں گی اور اس شہر میں کوئی جوان عورت نہیں رہے گی لوٹ مار ہوگی خون بہے گا آگ لگے گی نیکی کر اور اس مخلوق کو بچالے۔
یہ صحیح ہے کہ بدھ مت امن اور شانتی چاہتا ہے دنیا کا یہ واحد مذہب ہے جس کی تاریخ میں کسی لڑائی کا ذکر نہیں ملتا ،اس وقت جب نیرون راجہ داہر جیسے کٹر برہمن کی عملداری میں تھا بدھ مت کے پیروکار بھی کٹر تھے اور وہ راجہ داہر سے نالاں بھی تھے کہ وہ بدھ مت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور بدھوں پر بے پناہ تشدد کرتا ہے ،اس کے ساتھ اس سادھو کی صدائیں شامل ہو گئیں اور پھر یوں ہوا کہ جب یہ سادھو اپنے چیلوں کے ساتھ وہاں سے چلا گیا تو تین چار شتر سوار شہر میں داخل ہوئے وہ بڑی خستہ حالت میں تھے بات کرتے اور کانپتے تھے، انہوں نے کہیں بیٹھ کر لوگوں کو سنایا کہ وہ قنزپور سے سے بھاگ کر آئے ہیں، انہوں نے مسلمانوں کے حملے کا ذکر ایسے بھیانک طریقے سے کیا کہ سننے والوں پر خوف طاری ہو گیا انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی فوج کاسیلاب اس طرف آ رہا ہے اور جب وہ آتے ہیں تو بستیوں پر بڑے بڑے پتھر گرتے ہیں۔
ان کی سنائی ہوئی یہ خوفناک باتیں جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئیں، اور حاکم نیرون کے کانوں تک جا پہنچیں۔
نیرون میں راجہ داہر کے احکام پہنچ چکے تھے کہ مسلمانوں کی فوج مکران میں اتر آئی ہے اور اب وہ پہلے والی فوج نہیں بلکہ یہ بڑی طاقتور فوج ہے ،جب محمد بن قاسم نے قنزپور فتح کر لیا تو راجہ داہر نے پھر اپنے راج کے تمام قلعوں کو اطلاع بھیجی کہ مسلمانوں نے قنزپور فتح کر لیا ہے ،داہر نے سب کو یہ پیغام بھی بھیجا کہ مسلمانوں کے پاس ایسا انتظام ہے کہ وہ قلعوں کے اندر بڑے بڑے پتھر پھینک سکتے ہیں، داہر نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ان پتھروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
حاکم نیرون کے لیے یہ پتھر عجیب چیز تھی اس کے علاوہ وہ بدھ تھا اس نے جب اپنے شہر کی آبادی کو دیکھا ہوگا تو یقیناً اس کے دل میں آئی ہو گی کہ ان بے گناہ کو مروانا کتنا بڑا پاپ ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم ارمن بیلہ میں اپنی فوج کو دیبل پر حملے کے لیے تیار کر رہا تھا اس کی اگلی منزل دیبل تھی اور وہ جانتا تھا کہ ہار جیت کا فیصلہ دیبل کے میدان جنگ میں ہی ہوگا ۔فوج آرام بھی کر رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی محمد بن قاسم اسے قلعہ شکنی کی ٹریننگ بھی دے رہا تھا اور فوج کو خطبے کی صورت میں یہ بتاتا تھا کہ اس جنگ کا مقصد ملک گیری نہیں۔
انہی دنوں اسے اطلاع دی گئی کہ دو اجنبی ہندو اس سے ملنا چاہتے ہیں، اس نے دونوں کو بلایا یہ دونوں اجنبی سندھی لباس میں تھے ان کے ماتھے پر تلک لگے ہوئے تھے، اور وہ ہر لحاظ سے برہمن لگتے تھے، لیکن وہ جب محمد بن قاسم کے سامنے گئے تو انھوں نے السلام علیکم کہا۔
تم دونوں نے مجھے خوش کرنے کے لئے میرے مذہب کا سلام کیا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اگر یہ سلام تمہارے دل سے نکلے تو تم روحانی سکون محسوس کرو گے، کیا تم ان الفاظ کے معنی سمجھتے ہو؟
آپ پر سلامتی ہو۔۔۔ ان میں سے ایک نے جواب دیا۔
تمہیں یہ معنی کس نے بتائے ہیں۔۔۔ محمد بن قاسم نے پوچھا۔
یہ ہمارے اپنے مذہب کے الفاظ ہیں ۔۔۔ایک نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ ہم دونوں مسلمان ہیں اور ہمیں اپنے سردار حارث علافی نے بھیجا ہے ۔
اس نے کوئی پیغام دیا ہے۔
ہاں سالار اعلی !،،،،،ایک نے جواب دیا۔۔۔ دیبل سے آگے ایک شہر ہے جس کا نام نیرون ہے وہاں کا حاکم بدھ ہے وہ راجہ داہر کا مقرر کیا ہوا حاکم ہے، لیکن اس نے راجہ داہر کو بتائے بغیر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا ہے اس نے چوری چھپے اپنے دو تین آدمیوں کو بصرہ بھیجا تھا، وفد آپ کے چچا حجاج بن یوسف سے مل کر واپس آ گیا ہے، حاکم نیرون حجاج کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں لڑے گا، اس کی بجائے وہ امن کا وعدہ کرتا ہے، اور اس پر جو جزیہ عائد کیا جائے گا وہ بخوشی ادا کرے گا،،،،،،حجاج نے امن کا یہ معاہدہ قبول کر لیا ہے، لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جزیہ کتنا مقرر ہوا ہے البتہ یہ پتہ چلا ہے کہ حجاج نے حاکم نیرون کو پیغام بھیجا ہے کہ اس کی اس کے خاندان کی اور اس کے شہر کے لوگوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمان فوج پر ہو گی، اور مسلمان فوج کی طرف سے اسے دوستی اور محبت ملے گی۔
کیا یہ معجزہ نہیں ہے ؟،،،،،محمد بن قاسم نے حیران ہو کر پوچھا۔۔۔ یقین نہیں آتا کہ راجہ کے حاکم نے اپنے آپ ہی ایک شہر حملہ آوروں کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کے حوالے کر دیا ہو، مجھے یہ خبر غلط معلوم ہوتی ہے ،حارث علافی کے دل میں کچھ اور تو نہیں؟
نہیں سالار اعلی !،،،،،ان دونوں میں سے ایک نے کہا ۔۔۔اسے آپ معجزہ نہ سمجھے یہ ہم دونوں کا کارنامہ ہے میں سادھو بن کر نیرون گیا تھا اور وہاں کے لوگوں پر خوف طاری کر دیا تھا میرا یہ دوست میرے ساتھ تھا دو اور آدمی بھی میرے ساتھ تھے ،یہ میرے چیلوں کے بھیس میں تھے یہاں کے لوگوں وہمی ہیں آفات سے بہت ڈرتے ہیں ،ہم نے نیرون میں اتنا خوف و ہراس طاری کر دیا تھا کہ حاکم شہر نے مجھے بلایا ،۔میں نے اس پر بھی خوف و ہراس طاری کردیا، لیکن ایسی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ وہ بدھ مت کا پیروکار ہے اور بدھ لڑنا تو دور کی بات ہے ہتھیار کو ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔
کیا تم یہ کارنامہ دوسرے شہروں میں بھی کرسکتے ہو؟،،،، محمد بن قاسم نے پوچھا۔
نہیں سالار اعلی!،،،،، محمد بن قاسم کو جواب ملا ۔۔۔باقی تمام شہروں کے حاکم ہندو ہیں اور کہیں نہ کہیں پکڑے جانے کا خطرہ بھی ہے ،پھر بھی ہم اس کوشش میں ہیں کہ آپ کے لیے راستہ صاف کرتے رہیں، لیکن ہمارے سردار حارث علافی نے کہا ہے کہ اسی پر بھروسہ نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑنے کی اہلیت اور جذبے میں کمی آجائے۔
میری اگلی منزل دیبل ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ وہاں کیا ہے؟،،، کتنی فوج ہے؟،،، مزاحمت کیسی ہوگی؟،،،، مجھے ان سوالوں کے جواب کون دے گا ؟،،،،تم خود لڑنے والے ہو تم جانتے ہو کہ محاصرے کی کامیابی کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ کو ان سوالوں کے جواب دینے کی پوری کوشش کریں گے۔۔۔ ان میں سے ایک نے کہا۔۔۔ لیکن ہمارا کام مشکل ہوگیا ہے، دو قلعے ہاتھ سے نکل جانے سے راجہ داہر دیبل کے دفاع کو مضبوط کر رہا ہے، کسی اجنبی کو شہر کے اندر جانے اور باہر آنے سے روکا جاتا اور اسے ڈھونک بجا کر دیکھا جاتا ہے۔
داہر کہاں ہے؟
اروڑ میں۔۔۔ علافی کے ایک آدمی نے جواب دیا۔۔۔ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ دیبل آئے گا یا نہیں ،ہم یہ جانتے ہیں کہ اس نے تمام سرداروں کو احکام بھیجے ہیں کہ فوجی قلعوں کے اندر رہے گے کوئی فوج باہر نکل کر نہیں لڑیں گی۔
ہم آپ کو خبردار کرتے ہیں سالار اعلی!،،،،، علافی کے دوسرے آدمی نے کہا ۔۔۔مقابلہ بہت سخت ہوگا میرا خیال ہے کہ راجہ داہر اروڑ میں ہی رہے گا اور وہ اس وقت آپ کے سامنے آئے گا جب آپ کی فوج کم ہو چکی ہو گی، اور باقی تھکن سے چور ہو گی، یہ سوچنا آپ کا کام ہے کہ ایسی صورتحال سے آپ کس طرح بچ سکتے ہیں۔
محمد بن قاسم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور دعاؤں کے ساتھ انہیں رخصت کیا ،اسے یہ اطمینان ہو گیا کہ یہ باغی عرب اس کے ساتھ ہیں اور ان کی طرف سے اسے کوئی خطرہ نہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سندھ سے بصرہ تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں بنا دی گئی تھی جن میں تیزرفتار اونٹ اور بڑی اچھی نسل کے گھوڑے رکھے گئے تھے قاصد جو آتے جاتے تھے وہ ان چوکیوں سے گھوڑے اور اونٹ تبدیل کرتے تھے ہر چوکی سے تازہ دم گھوڑا یا اونٹ مل جاتا تھا اس طرح سندھ اور بصرہ کے درمیان پیغام رسانی میں صرف ایک ہفتہ لگتا تھا۔
محمد بن قاسم اپنی کامیابی کی اطلاعیں پوری تفصیل سے حجاج کو بھیج رہا تھا، ایک روز اسے بصرہ سے حجاج کا پیغام ملا جس میں حجاج نے پہلی بات یہ لکھی کہ دیبل سے آگے نیرون ایک شہر ہے اس کے حاکم اعلیٰ نے ہم سے امان مانگی اور جزیہ کی ادائیگی قبول کی ہے، اور ہم نے انہیں امان دے دی ہے۔ حجاج نے محمد بن قاسم کو جو ہدایات لکھی ان کا متن مورخوں نے اس طرح لکھا ہے۔
،،،، اور جب تم سندھ میں داخل ہو جاؤ تو اپنی خیمہ گاہوں کے تحفظ کا انتظام کرو جوں جوں دیبل کے قریب ہوتے جاؤ احتیاط میں سخت ہوتے جاؤ، جہاں خیمہ زن ہوتے ہو وہاں ارد گرد خندق کھودو، اور رات کو بیداراورچوکس رہو زیادہ وقت جاگو نیند کم کر دو، فوج کے جو مجاہد قرآن پڑھ سکتے ہیں وہ تلاوت قرآن کرتے رہیں ،جو نہیں پڑھ سکتے وہ رات دعا اور عبادت میں گزاریں، اور تم اور تمہارے مجاہد ذکر الٰہی ہر وقت زبان پر رکھیں اللہ تبارک وتعالی سے فتح و کامرانی مانگتے رہو، عجز و انکساری سے، اور اللہ سے فتح کی امید رکھو کبھی کبھی لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد کرو اور اللہ تعالی سے مدد مانگو،،،،،،،
اور جب تم دیبل کے قریب پہنچ جاؤ تو رُک جاؤ ،اور پڑاؤ کے اردگرد بارہ گز چوڑی اور چھ گز گہری خندق کھودلو ،دشمن تمہیں للکارے تو جواب نہ دو ،دشمن دشنام طرازی کرے مشتعل کرے برداشت کرو ،اور خاموش رہو ،اس وقت تک لڑائی شروع نہ کرو جب تک میری ہدایت تم تک نہ پہنچ جائے ،پھر میری ہدایت کے ہر لفظ پر عمل کرنا ان شاءاللہ فتح تمہاری ہو گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم نے دیبل تک کے علاقے کی دیکھ بھال کے لئے اپنے جاسوس سندھی لباس میں آگے بھیج دیے تھے ان میں سے جو بھی پیچھے آتا تھا وہ یہی بتاتا تھا کہ شہر کے دروازے بند ہیں اور باہر سندھ کی فوج کی کہیں بھی کوئی سرگرمی یا حرکت نظر نہیں آتی، ان رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ داہر میدان میں لڑنے سے گریز کررہا ہے۔
اس دوران ان عربوں کی بستی میں ایک واقعہ ہو گیا جنہیں راجہ داہر نے پناہ دے رکھی تھی اور جن کا سردار حارث علافی تھا۔
ان کی بستی مکران اور سندھ کی سرحد پر تھی ،محمد بن قاسم نے مفتوحہ علاقے میں جو چوکیاں قائم کی تھیں ان میں ایک چوکی اس بستی کے قریب تھی، ہرچوکی کے چار چار گھوڑسوار یا شتر سوار اپنے اپنے علاقے میں گشت پر نکلا کرتے تھے۔
یہ چوکی جو باغی عربوں کی بستی کے قریب تھی ایسی جگہ بنائی گئی تھی جہاں کچھ سبزہ تھا اور اس سبزے میں گھرا ہوا ایک چشمہ تھا ،اس علاقے میں ہری بھری سی چٹانیں بھی تھیں، کبھی کبھی باغی عربوں کی عورتیں گھومنے پھرنے کے لیے ادھر آ نکلتی تھیں، لیکن یہ جگہ بستی کے اتنے قریب بھی نہیں تھی کہ وہاں عورتوں کا میلہ سا لگا رہتا، کبھی کبھار دوچار جوان لڑکیاں وہاں چلی جایا کرتی تھیں۔
ایک روز بستی کی تین جوان اور شادی شدہ لڑکی اس جگہ گئیں، کچھ دیر بعد ان میں سے دو لڑکیاں چینختی چلاتی گھبراہٹ کے عالم میں دوڑتی واپس آئیں، تیسری لڑکی ان کے ساتھ نہیں تھی، بستی کے سب لوگ باہر نکل آئے ان لڑکیوں نے بتایا کہ وہ چشمے کے قریب پہنچے تو عرب سے آئی ہوئی فوج کے چار آدمی جو گھوڑے پر سوار تھے وہاں آگئے لڑکیوں کے قریب آ کر چاروں گھوڑے سے اترے اور لڑکیوں پر جھپٹ پڑے، یہ دو لڑکیاں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں، لیکن انہوں نے تیسری لڑکی کو پکڑ لیا، اتنا سننا تھا کہ ان تینوں لڑکیوں کے خاوند اور کئی اور آدمی تلواریں اور برچھیاں لئے چشمے کی طرف دوڑ پڑے تیسری لڑکی اس حالت میں واپس آتی ہوئی دکھائی دی کہ وہ قدم گھسیٹ رہی تھی اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے سر پر اوڑھنی نہیں تھی، بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ روتی ہوئی چلی آ رہی تھی ،اس کے خاوند نے دوڑ کر اسے سہارا دیا تو وہ خاوند کے بازو میں گر پڑی، اس سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے وہ بے ہوش ہو چکی تھی ،جو آدمی وہاں پہنچے تھے ان کی یہ حالت ہو گئی جیسے وہ محمد بن قاسم کی ساری فوج کو قتل کردیں گے ۔
یہ ہے وہ فوج جس کی مدد ہمارا سردار حارث علافی کرنا چاہتا ہے۔
خدا کی قسم عرب تو ایسے تو نہ تھے ،یہ سب بنوامیہ کے لوگ ہیں ابھی اس چوکی پر چلو کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے، چلو ابھی چلو کتنی آدمی ہوں گے دس بارہ وہی تو ہیں سب کو صاف کر دو۔
ایک طوفان تھا جو ان سب کے سینوں سے اٹھ رہا تھا یہ سب عرب کی پیداوار تھے اتنے بڑے جرم کو وہ بخشنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
ان میں سب قتل کی بات کرتے تھے، اور کچھ ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ان سب کو اکٹھے کھڑے کرکے سنگسار کر دو۔
دو تین نے یہ سزا تجویز کی کے انہیں گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر اس وقت تک گھوڑے دوڑاتے رہو جب تک کے ان کی کھالیں اتر نہ جائیں۔
وہ اس چوکی کی طرف چل ہی پڑے تھے کہ حارث علافی گھوڑا دوڑاتا پہنچ گیا، اس کے ساتھ تین چار اسی کی عمر کے بوڑھے آدمی تھے جو اونٹوں پر سوار تھے علافی کو دیکھ کر سب واہی تباہی بکنے لگے۔
علافی انہیں خاموش کرانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
تم ہمارے برادر ہو۔۔۔ اس لڑکی کے خاوند نے بڑے غضب ناک لہجے میں علافی سے کہا۔۔۔ تمہارا حکم ماننا ہمارا فرض ہے لیکن آج ہم تمھارا صرف یہ حکم مانیں گے کہ اس چوکی کے تمام آدمیوں کو قتل کر دیا جائے۔
تم کہتے ہو کہ ہم عرب سے آئی ہوئی فوج کو اپنی فوج سمجھیں۔۔۔ ایک اور آدمی بولا ہم اس فوج کے سالار کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
خاموش کیوں ہو سردار حارث!،،،، لڑکی کے خاوند نے چلا کر علافی سے کہا۔۔۔ شرمسار ہو کچھ بولو اور ہمیں حکم دو۔
ان چار آدمیوں کی سزا یقینا موت ہے۔۔۔ حارث علافی نے کہا ۔۔۔لیکن مجھے اتنی مہلت دو کے میں ان کے سالار سے ملوں۔
کس سالار کی بات کرتے ہو۔۔۔ ایک ادھیڑ عمر عرب نے کہا۔۔۔ کیا بھول رہے ہو کہ وہ حجاج کا بھتیجا ہے ،اور یہ وہ حجاج ہے جس کی وجہ سے ہم جلاوطن ہوئے ہیں، بنو امیہ کی خلافت کی روٹیوں پر زندہ رہنے والا حجاج ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے، اس کے پالے ہوئے بھتیجے کے ساتھ تم کیا بات کرو گے وہ کہے گا کہ یہ جھوٹا الزام ہے۔
مت بھولو کہ ہم عرب ہیں۔۔۔۔علافی نے کہا۔۔۔ ہمارے کچھ روایات ہیں ہمارے کچھ رواج ہیں، میں نے محمد بن قاسم کے ساتھ کچھ وعدے کیے ہیں اور کچھ وعدے اس نے میرے ساتھ کیے تھے، اچانک علافی کی آواز میں جوش پیدا ہو گیا اور اس کی آواز بہت اونچی ہو گئی اس نے تلوار نکال کر کہا ۔۔۔اگر حجاج کے بھتیجے نے مجھے یہ کہا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور اس کے سپاہیوں نے ہماری لڑکی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی تو اس تلوار پر تم محمد بن قاسم کا خون دیکھو گے، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کے محافظ میرے جسم کو برچھیوں سے چھلنی کر دیں گے، مجھے اس کے پاس جانے دو اگر وہ اپنے سپاہیوں کو بچانے کی کوشش کرے گا تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ،میں تم سب سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں نے جو کہا ہے وہ کر کے دکھاؤں گا۔
یہ لوگ اس قدر بھڑکے ہوئے تھے کہ ان پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آ رہا تھا ،لیکن ان جلاوطن عربوں میں اتنا ڈسپلن موجود تھا کہ انہوں نے اپنے سردار کے وعدے کو تسلیم کر لیا اور لڑکی کو گھوڑے پر بٹھا کر لے آئے۔ اس وقت تک رات گہری ہوچکی تھی محمد بن قاسم رومن بیلہ میں تھا جو کچھ لمبی مسافت، تھی حارث علافی نصف شب سے کچھ پہلے دو آدمیوں کے ساتھ چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
علافی اور اس کے ساتھیوں کو دور سے فجر کی اذان کی آواز سنائی دی انہوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دیں تاکہ نماز تک پہنچ جائیں گے، یہ اذان اومن بیلہ کی آواز تھی یہ تینوں قلعے کے دروازے پر پہنچے تو دروازہ بند تھا ان کے لیے دروازہ اتنی جلدی نہیں کھل سکتا تھا لیکن محمد بن قاسم نے حکم دے رکھا تھا کہ سردار حارث علافی جب بھی آئیں تو اس کے لئے دروازہ کھول دیا جائے، لہذا ان کے لئے دروازہ کھول دیا گیا اور وہ عین اس وقت پہنچے جب جماعت کھڑی ہو رہی تھی، انہوں نے پچھلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی نماز کے بعد علافی نمازیوں کے ہجوم کو چیرتا محمد بن قاسم تک پہنچا، محمد بن قاسم اسے اتنی سویرے دیکھ کر حیران ہوا۔
آپ پر اللہ کی رحمت ہو ۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ آپ کوئی بہت بڑی خبر لائے ہیں۔
ہاں قاسم کے بیٹے!،،،، علافی نے کہا۔۔۔ خبر بہت بڑی ہے اور بہت بری بھی۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی