⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴نویں قسط 🕌


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴نویں قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس سوال پر تو ان لوگوں نے میری ہڈیاں بھی توڑ دی ہیں۔۔۔۔بلال نے کہا۔۔۔ میرے جسم کے جوڑ الگ ہوگئے ہیں، میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں، کوئی جواب ہوتا تو میری یہ حالت نہ ہوتی۔
مائیں رانی محبت کا واسطہ دے کر اس سے پوچھنے لگی کہ اس کی اس کاروائی میں اور کس کس کا ہاتھ تھا ۔بلال اپنی زبان پر نہ لایا کہ اس نے اس اقدام کی اسکیم محمد حارث علافی سے مل کر بنائی تھی ۔
مائیں رانی بلال سے یہی راز لینے آئی تھی، ورنہ ایک رانی بلال جیسے مجرم کو ملنے نہ آتی۔
مائیں!،،،، بلال نے کہا ۔۔۔کیا تم مجھے سزائے موت سے بچا سکتی ہو ،راجہ صرف تمہاری بات مانتا ہے، مجھے بچا لو تو میں اس ملک سے ہی نکل جاؤں گا۔
نہیں!،،،،،، مائیں رانی نے کہا ۔۔۔میں نے تم سے ایک بات پوچھی ہے اور تم نے جھوٹ بولا ہے میرے ساتھ ۔
نہیں رانی نہیں۔۔۔ بلال نے کہا۔۔۔ کچھ سچ ہوتا تو میں بتا دیتا ،میں تمہارے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا، تمہارے ساتھ میرا تعلق ایسا نہیں کہ میں تم سے کچھ چھپاؤں گا ،میں تو تم سے زندگی مانگ رہا ہوں رانی !،،،،مجھے بچا لو۔
بلال کی جسمانی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ زیادہ دیر پاؤں پر کھڑا نہ رہ سکا اس نے سلاخوں کا سہارا لے لیا ،اس کی ذہنی حالت جسم سے زیادہ خراب تھی ایسی ظالمانہ اذیتوں نے اسے ذہنی لحاظ سے مردہ کر دیا تھا ،اسی لئے وہ زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا، وہ اپنی قدرتی حالت میں ہوتا تو یوں نہ گڑگڑاتا ۔
میں تمہیں نہیں بچا سکتی۔۔۔ مائیں رانی نے کہا۔
وہ وقت یاد کرو رانی!،،،، جب تم نے مجھ سے محبت کی بھیک مانگی تھی۔۔۔ بلال نے کراہتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ پھر جس بے تابی سے تم مجھے چوری چوری اپنے پاس رکھتی تھی وہ ملاقاتیں نہ بھولو۔
محبت!،،،، رانی نے طنزیہ کہا۔۔۔ بلال وہ محبت نہیں تھی، اگر وہ محبت ہی تھی تو اس کا تعلق صرف جسم کے ساتھ تھا، مجھے تمھاری ضرورت تھی اور میں نے تمہیں ایسے ہی پالا تھا جیسے پالتو جانور کو گھر میں رکھتے ہیں ،وہ وقت گزر گیا ہے جوانی گزر گئی ہے، اسی لیے میں تمہیں کہا کرتی تھی کہ مذہب کا نام نہ لیا کرو ،اگر تمہاری محبت میرے دل میں اتری ہوئی ہوتی تو میں تمہاری خاطر تمہارے مذہب میں داخل ہو جاتی، یا پھر تمہیں اپنے مذہب میں داخل کرلیتی، اب تم ہمارے مجرم ہوں، اپنے جرم کو دیکھو اگر تم راجہ داہر ہوتے تو کیا تم ایسے مجرم کو بخش دیتے؟
مائیں رانی وہاں سے ہٹی اور تیز تیز چل پڑی۔ قُبلہ اس کے انتظار میں کھڑا تھا ۔
کیا حکم ہے مہارانی۔۔۔ قُبلہ نے پوچھا۔
وہی جو پہلے تھا۔۔۔مائیں رانی نے کہا۔
مائیں انی قیدخانے سے نکلی تو بلال کو کوٹھری سے نکالا گیا ،اس سے چلا نہیں جاتا تھا ،اسے گھسیٹ کر لے گئے اور قید خانے کے اندر ایک احاطے میں داخل کردیا ،اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دیے گئے اور اس کے پاؤں بھی باندھ کر اسے گھٹنوں کے بل بیٹھا دیا گیا ،جلاد نے اس کا سر جھکا دیا اور ایک چوڑی تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس سے ایک دو روز بعد سالار بدیل بن طہفہ تین سو سپاہیوں کے ساتھ مکران پہنچ گیا ،وہاں کے امیر محمد بن ہارون نے تین ہزار سواروں کو تیاری کا حکم دے رکھا تھا سالار بدیل نے صرف ایک رات مکران میں قیام کیا اور نماز فجر کے فوراً بعد دیبل کی طرف کوچ کیا ۔
مؤرخوں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ابھی یہ پتا نہیں چلا تھا کہ جہازوں کے مسافروں کو کہاں رکھا گیا ہے، سالار بدیل بن طہفہ کو بھی معلوم نہیں تھا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مکران کے امیر محمد بن ہارون کو بھی معلوم نہیں تھا، حجاج بن یوسف کا حکم یہ تھا کہ سب سے پہلے دبیل پر قبضہ کیا جائے، یہ سندھ کی واحد بندرگاہ تھی، بندرگاہ ہاتھ آجانے سے سمندر کے راستے کمک اور رسد بھیجنے میں آسانی ہو جاتی تھی، اس حکم کے تحت سالار بدیل نے دیبل کا رخ کیا۔
راجہ داہر نے خلافت کے باغی اور جلاوطن عربوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے خانہ بدوشوں کے بھیس میں اپنی فوج کے آدمی اور ان کے بیوی بچے مکران بھیج دیے تھے، ان میں سے کسی نے سالار بدیل کی فوج کو دیبل کی طرف جاتے دیکھا لیا، وہ ایک تیز رفتار اوٹنی پر سوار ہوا اور اوٹنی کو دیبل کے سمت دوڑا دیا ،دیبل والے بے خبر تھے شترسوار مسلمانوں کی فوج سے ایک روز پہلے دیبل پہنچ گیا، اور اس نے دیبل کے حاکم کو بتایا کہ عربوں کی فوج آ رہی ہے اس نے فوج کی تعداد بھی بتا دی۔
دیبل کے لوگوں !،،،،،سرکاری ہرکارے سارے شہر میں اعلان کرنے لگے، عرب کے مسلمانوں کو ایک بار پھر موت ادھر لا رہی ہے ،،،،ہوشیار،،،، خبردار،،،، جوان آدمی تیار اور ہتھیار بند ہو کر شہر میں تیار رہیں، اپنی فوج باہر جاکر لڑی گی ،دیول مندر کی آن پر مر مٹنے کا وقت آگیا ہے، دیبل میں ہندوؤں کا بہت بڑا مندر تھا جس کا نام دیول تھا۔
اسی پر اس شہر کا نام پڑا، مندر تو دیول کہلاتا رہا لیکن شہر کا نام دیول سے بگڑ کر دیبل ہوگیا۔
دیبل کے ہندو حاکم نے اسی شتر سوار سے کہا کہ وہ اروڑ چلا جائے اور راجہ داہر کو عرب فوج کی آمد کی اطلاع دے، اس نے اپنی فوج کو قلعے سے نکالا اور دیبل سے تھوڑی دور آگے لے گیا ،وہ علاقہ اونچا نیچا تھا اور چٹانیں بھی تھیں، اس نے فوج کو چٹانوں کے پیچھے اور کچھ نفری کو نشیبی جگہوں پر بٹھا دیا ،یہ انداز گھات کا تھا اور مسلمانوں کے لیے یہ گھات بہت ہی خطرناک تھی۔
سندھیوں کے حوصلے اس لئے بلند تھے کہ وہ پہلے ایک مسلمان سالار کو شکست دے چکے تھے، اور وہ سالار ان کے ہاتھوں شہید بھی ہو گیا تھا ،اور پھر جس طرح مسلمانوں کی فوج میں کھلبلی مچی اور جس انداز سے یہ فوج پسپا ہوئی تھی اس سے بھی سندھیوں کے دل بہت مضبوط ہوگئے، ان سندھی ہندوؤں کے کمانڈر نے انہیں یہی جنگ یاد دلائی اور ان کے حوصلوں کو مزید مضبوط کیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سالار بدیل بن طہفہ اپنی فوج کے ساتھ بظاہر بے خبر چلا آ رہا تھا، لیکن اس نے عربوں کے فن حرب و ضرب کے اصولوں کے مطابق اپنے کچھ آدمی بہت آگے بھیج دیے تھے، ان میں سے دو آدمی واپس آئے اور انہوں نے سالار بدیل کو بتایا کہ آگے دشمن کی فوج موجود ہے، ان دونوں نے جو دیکھا تھا وہ تفصیل سے سنایا، سالار بدیل بن طہفہ تجربے کار جنگجو تھا وہ جان گیا کہ دشمن کو اس کی پیش قدمی کی اطلاع قبل از وقت مل گئی ہے اس نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا دو حصوں کو اس نے راستے سے ہٹا دیا جو دیبل کی طرف جاتا تھا، اس نے ایک حصے کو راستے سے دور ہٹ کر دائیں طرف سے آگے بڑھنے کو کہا ،اور دوسرے حصے کو راستے کے دوسری طرف کچھ دور دور پیش قدمی جاری رکھنے کو کہا، تیسرے حصے کو اس نے اپنی زیر کمان رکھا اور سیدھا اسی راستے پر چلتا آیا جو دیبل کو جاتا تھا اور جو اس علاقے میں سے گزرتا تھا جہاں ہندو فوج گھات میں بیٹھی تھی، بدیل نے راستے سے ہٹ کر آگے بڑھنے والے حصوں کے کمانداروں کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ آگے دشمن گھات میں ہے، ان دونوں حصوں کو اس نے پوری ہدایات دے دی تھی۔
دشمن گھات میں بیٹھا تھا اس نے بھی اپنے کچھ آدمی مسلمانوں کی پیش قدمی کی خبر دینے کے لئے آگے بھیج رکھے تھے لیکن وہ دیکھ نہیں سکے تھے کہ مسلمانوں کی فوج اپنی ترتیب بدل چکی ہے، دشمن کے ان آدمیوں کی نظر سالار بدیل کے دستوں پر رہی، ان دستوں کو دشمن کے آدمی ساری فوج یا ساری فوج کا ہراول سمجھتے رہے سالار بدیل نے اپنی رفتار سست کر لی تھی وہ اپنے دونوں بازوؤں کو گجرات کے علاقے میں پہنچ جانے کا موقع دے رہا تھا۔
آخر دونوں ہی دستے اس علاقے کے باہر باہر پہنچ گئے جہاں دشمن کی فوج سالار بدیل کے انتظار میں بیٹھی تھی، دونوں حصوں نے دونوں طرف سے دیبل کی فوج پر حملہ کر دیا ان دونوں حصوں کی صورت ایسی تھی جیسے سالار بدیل دشمن کو اپنے دونوں بازوؤں میں دبوچ لیا ہو،گھات میں بیٹھا ہوا دشمن خود گھات میں آگیا ہندو اس صورتحال کے لئے تیار نہیں تھے ان میں کھلبلی مچ گئی۔
زیادہ تر نقصان دیبل کی فوج کا ہورہا تھا اگر سورج غروب نہ ہو جاتا تو دشمن کے آدھی فوج وہی رہتی، جوں جوں شام گہری ہوتی گئی دشمن کے سپاہی لڑائی سے غائب ہو تے گئے آخر تاریکی نے لڑائی ختم کر دی۔
سالار بدیل کی فوج کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ اسی وقت دیبل کی طرف پیش قدمی کے قابل نہ رہی، سپاہی مکران سے آرہے تھے اور اسی حالت میں انھیں لڑنا پڑا شام تک وہ تھک کر چور ہو چکے تھے وہیں پڑاؤ کیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح سالار بدیل بن طہفہ فوج کو دیبل کی طرف کوچ کا حکم دیا، دشمن کے سپاہیوں کی لاشیں جنگ کے میدان میں بکھری ہوئی تھیں انہیں اٹھانے کوئی نہیں آیا تھا، ان لاشوں کو رات بھر لومڑیاں بھیڑیے وغیرہ کھاتے رہے تھے ،اور صبح گدھوں کے غول اتر رہے تھے۔
مسلمانوں کی فوج زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ ایک طرف سے زمین سے گرد کے بادل اٹھتے نظر آنے لگے سالاروں اور سپاہیوں کے لیے یہ گرد کوئی عجیب چیز نہیں تھی یہ فوج آ رہی تھی اور یہ فوج سندھ کی ہی ہوسکتی تھی ۔
سالار بدیل نے اپنی فوج کو لڑائی کی ترتیب میں کرلیا، گرد آگے ہی آگے بڑھتی آرہی تھی جب زیادہ قریب آئی تو اونٹ اور گھوڑے نظر آنے لگے، یہ راجہ داہر کی فوج تھی جو اس نے دیبل کی فوج کی مدد کے لیے بھیجی تھی۔ مؤرخوں کے مطابق اس فوج کی تعداد چار ہزار تھی یہ گھوڑ سوار اور شترسوار دستے تھے آگے آگے چار ہاتھی تھے ایک ہاتھی پر راجہ داہر کا بیٹا جیسیہ سوار تھا ،اس فوج کی کمان جیسیہ کے ہاتھ میں تھی یہ فوج اروڑ سے اسی وقت چل پڑی تھی جب دیبل سے اروڑ اطلاع پہنچی تھی کہ عرب کی فوج دیبل کی طرف آ رہی ہے ،راجہ داہر نے اپنے بیٹے کو فوج دے کر روانہ کر دیا تھا ،اس فوج کو ابھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ دیبل کی فوج شکست کھا کر بھاگ گئی ہے۔
سالار بدیل نے اپنی پیش قدمی روک لی اور فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر کے پھیلا دیا، اب مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے کچھ کم ہوگئی تھی، پہلے روز کی لڑائی میں کئی سپاہی شہید اور زخمی ہوئے تھے، دشمن کو یہ برتری حاصل تھی کہ تمام تر فوج گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھی اور اس کے پاس ہاتھی بھی تھے، یہ صرف چار ہزار ہی تھے لیکن بہت نقصان کر سکتے تھے۔
سالار بدیل نے دشمن کو حملے میں پہل کرنے کا موقع دیا اور اپنے پہلوؤں کے دستوں کو اور زیادہ پھیلا دیا، ہندو سواروں نے بڑا ہی زور دار حملہ کیا مسلمانوں نے پہلوؤں میں جاکر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن داہر کا بیٹا جیسیہ چابکدستی اور مہارت سے اپنے دستوں کو لڑا رہا تھا ،سالار بدیل نے اپنے دستوں کو بڑی خوبی اور جاں بازی سے لڑایا یہ ایک خونریز معرکہ تھا ،ہاتھیوں کے ہودوں سے تیروں کی بوچھاڑیں گر رہی تھیں، جیسیہ ایک ہاتھی پر سوار تھا ،دن کے پچھلے پہر لڑائی میں مزید شدت پیدا ہوگئی، سالار بدیل اس ارادے سے آگے بڑھا کے جیسیہ کے ہاتھی تک پہنچ کر اسے گرا دے، سالار بدیل اپنے محافظوں کے ساتھ جیسیہ کے ہاتھی تک پہنچ گیا، سالار بدیل ہاتھی کی سونڈ کاٹنے کے لئے آگے ہوتا تھا تو ہاتھی کے ہودے سے برچھیاں آتی تھیں، ایک بار یوں ہوا کہ سالار بدیل ہاتھی کے سامنے چلا گیا پیچھے سے کسی مسلمان کی برچھی ہاتھی کو لگی ہاتھی بڑی زور سے چنگھاڑا سالار بدیل جو گھوڑے پر سوار تھا ہاتھی کے قریب چلا گیا تھا ہاتھی کی چنگھاڑ پر سالار بدیل کا گھوڑا بدک گیا ۔بدکا بھی ایسا کے سالار بدیل گھوڑے سے گر پڑا، اس سے اچھا موقع اور کونسا ہو سکتا تھا اور سپاہیوں نے اسے گھیر لیا اور اسے اٹھنے کی بھی مہلت نہ دی اسے پکڑ لیا گیا کہ اسے جنگی قیدی رکھا جائے گا۔
چھوڑ دو اسے!،،،، راجہ داہر کے بیٹے جیسیہ نے کہا ۔۔۔اسے زندہ رہنے کا حق نہ دو ۔
سالار بدیل کو چھوڑ دیا گیا وہ ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ ہاتھی کے ہودے سے جیسیہ کی پرچھی آئی جو سالار بدیل کی گردن سے ذرا نیچے سینے میں اتر گئی، بدیل گرا اور شہید ہو گیا۔
یہ معرکہ شام تک لڑا گیا مگر مسلمان مرکزی کمان ختم ہو جانے کی وجہ سے اکھڑ چکے تھے، وہ کچھ دیر انفرادی طور پر لڑتے رہے اور اس کا نتیجہ وہی نکلا جو کمان کے بغیر لڑنے کا نکلا کرتا ہے۔ مسلمان کٹنے اور بھاگنے لگے اور اندھیرا گہرا ہونے تک جو نکل سکے نکل گئے، اندھیرے کی وجہ سے جیسیہ نے ان کا تعاقب نہ کیا ورنہ سب مارے جاتے یا پکڑے جاتے اور ان کی باقی زندگی ہندوؤں کی غلامی میں گزرتی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج بن یوسف کو جب اطلاع ملی تو صدمے سے اس کا سر جھک گیا ،جیسے برچھی اس کے سالار بدیل بن تحفہ کے سینے میں اتری تھی وہ حجاج کے سینے سے بھی پار ہو گئی ہو، اس نے سر اٹھایا تو اس کا چہرہ گہرا سرخ ہو چکا تھا آنکھوں میں قہر اتر آیا تھا۔
بدیل بن طہفہ ایسا بزدل تو نہ تھا۔۔۔ حجاج نے غصے سے کہا ۔۔۔دشمن کی ایک فوج کو شکست دے کر دوسری سے ہار کیوں گیا۔
امیر عراق!،،،، ان تین عہدے داروں میں سے جو دیبل کے میدان جنگ سے واپس آئے تھے ایک نے کہا ۔۔۔تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، اور اللہ ابن طہفہ کی شجاعت اور شہادت قبول فرمائے ،وہ بزدل نہیں تھا وہ تو دشمن کے قلب میں چلا گیا تھا ،اس نے ہندوؤں کا حصار توڑ دیا تھا، اس کی تلوار نے ہندو سالار کے محافظوں کا مقابلہ کیا تھا ، پھر اس نے گھوڑے کو دشمن سالار کے ہاتھی کے اردگرد دوڑایا اور اوپر آتی برچھیوں سے جس طرح اپنے آپ کو بچا یا وہ بیان نہیں ہو سکتا، خدا کی قسم ابن طہفہ ڈرپوک نہیں تھا۔
کیا تو اس کے ساتھ تھا۔۔۔ حجاج نے پوچھا۔ ہاں امیر عراق!،،،،، اس عہدیدار نے کہا ۔۔۔میں جو بیان کررہا ہوں یہ میں نے اپنی آنکھوں دیکھا ہے، میں اس کے ساتھ تھا اسے پرچھی لگی تو میں اس سے ذرا ہی پیچھے تھا۔
اور تو بھاگ آیا ۔۔۔حجاج نے غصے سے کہا۔۔۔ اور تو اس کے ساتھ مرا نہیں، تو نے میرے شیر جیسے سالار کو اکیلا چھوڑ دیا۔
چچ نامہ میں مختلف حوالوں سے لکھا ہے کہ حجاج بن یوسف نے تلوار نکالی اور اس عہدیدار کا سرتن سے کاٹ دیا، یہ شخص بزدل نہ ہوتا تو اپنے سالار کے ساتھ جان دے دیتا۔۔۔ حجاج نے کہا۔ اور تلوار اپنے خادم کی طرف پھینک دی جو دروازے میں کھڑا تھا۔
اس دوسری شکست کی اطلاع بھی دمشق میں خلیفہ ولید بن عبدالملک کو پہنچ چکی تھی۔ خلیفہ کا پیغام آیا کہ حجاج دمشق آئے۔
امیرالمومنین!،،،، حجاج نے پیغام کا جو دراصل حکم تھا تحریری جواب دیا، اگر آپ مجھے اس جواب طلبی کے لئے بلا رہے ہیں کہ منع کرنے کے باوجود میں نے دوسری بار سندھ پر حملہ کرنے کے لیے فوج بھیجی اور شکست کھائی ہے اور اتنا زیادہ نقصان کیا ہے تو میں ابھی دمشق نہیں آؤں گا ،میں نے آپ سے پہلے حملے کی اجازت اس شرط پر لی تھی کہ اس حملے میں جو مالی نقصان ہو گا میں اس سے دوگنا خزانے میں جمع کراؤنگا۔
اب میں اس وقت امیرالمومنین کے سامنے آؤں گا جب میں اپنی شرط پوری کرنے کے قابل رہوں گا ،ہمارے لیے اب سندھ پر قبضہ پہلے سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے، میں نے فیصلہ کر لیا ہے اب میں اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ بھیجوں گا ،مجھے امید ہے کہ امیرالمومنین کی غیرت کا بھی یہی تقاضہ ہوگا ،اور مجھے روکا نہیں جائے گا، اور مجھے اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہونے کا موقع دیا جائے گا۔
ولید بن عبدالملک حجاج بن یوسف کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا ،حجاج ایک طاقت بن چکا تھا اور حجاج کی فطرت میں جو قہر بھرا ہوا تھا اس سے خلیفہ ولید خائف بھی رہتا تھا ۔
اس دوران ایک سالار عامر بن عبداللہ حجاج کے پاس آیا۔
یا حجاج!،،،،، سالار عامر نے کہا ۔۔۔اگر آپ مجھے سندھ پر حملے کے لئے بھیجا جائے تو پہلی دو شکستوں کا انتقام بھی لوں گا، مال و اموال کا جو نقصان ہوا ہے وہ بھی پورا کروں گا ۔
اگر تیرے دل میں کوئی اور لالچ نہیں، اور اگر تو صرف سالاری کی خواہش نہیں رکھتا تو میں تیرے جذبے کی تعریف کروں گا۔۔۔ حجاج نے کہا۔۔۔ لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ مہم محمد بن قاسم سر کرے گا۔
حجاج بن یوسف کو سالار بدیل بن طہفہ سے بہت پیار تھا اور وہ بدیل کی شجاعت اور جارحانہ قیادت سے متاثر تھا۔ بدیل شہید ہو گیا تو حجاج نے ایک روز مسجد کے موذن کو بلایا۔ اللہ تیری آواز کو اور زیادہ دور تک پہنچائے، اور تجھ پر ابر رحمت برسائے، آج سے یوں کیا کر کہ ہر اذان کے بعد بدیل بن طہفہ کا نام اونچی آواز میں لیا کر تا کہ میں اسے بھول نہ پاؤں اور اس کے خون کا بدلہ لینے تک اس کے لیے دعا کرتا رہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت محمد بن قاسم امیر فارس تھا اور شیراز میں مقیم تھا، کچھ دن پہلے حجاج نے اسے حکم بھیجا تھا کہ رے قبائل سر کشی کر رہے ہیں وہ باتوں سے سیدھے راستے پر آنے والے نہیں ان پر باقاعدہ حملہ کرو ایسی سرکشی کو فوج کشی سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
محمد بن قاسم اس مہم کی تیاریاں مکمل کرچکا تھا کہ اس کے پاس حجاز کا ایک اور قاصد پہنچا، حجاج کا پیغام بالکل مختصر تھا۔
میرے بھائی کے بیٹے!،،، پیغام میں لکھا تھا۔۔۔ وہ وقت آگیا ہے جس وقت کے لئے میں نے تیری پرورش کی تھی، رے قبائل کی مہم کو ترک کردو شیراز میں ہی انتظار کرو ،میں فوج بھیج رہا ہوں سندھ پر حملہ کرنا ہے اور میں سندھ کو سلطنت اسلامیہ میں دیکھنا چاہتا ہوں، باقی ہدایات بعد میں دونگا سندھ میں ہماری دو بار ناکامی کی تفصیل قاصد سے سن لینا۔
حجاج کی تمام تر سرگرمیاں سندھ پر حملے کے لیے فوج تیار کرنے اور جنگی سازوسامان اور رسد اکٹھی کرنے پر مرکوز ہو گئی ،ایک جمعے کے روز اس نے بصرہ کے لوگوں کو اکٹھا کرکے خطبہ دیا تقریباً تمام مؤرخوں نے اس کے اس خطبے کو لفظ بلفظ لکھا ہے۔
اے لوگو!،،،،، حجاج نے خطبے میں کہا۔۔۔ اس حقیقت سے تم سب کو واقف ہونا چاہیے کہ وقت بدلنے والا ہے اور وقت دو دھاری تلوار کی مانند ہے، یہ کبھی ہمارے حق میں ہو جاتا ہے اور کبھی ہمارے خلاف رخ بدل لیتا ہے، وقت جب ہمارے حق میں ہو تو ہمیں سست اور بے خبر نہیں ہو جانا چاہیے ایسے وقت اپنی فوج کو تربیت دو اور اپنی تربیت بھی کرو ،اور جب وقت اچانک پلٹا کھا کر ہمارا دشمن ہو جائے تو اس کے لائے ہوئے مصائب اور مشکلات کا مقابلہ دلجمعی سے کرو، مصائب کو شکست دو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرو اس کی ذات باری کی نوازشوں کو یاد رکھو، ورنہ اللہ اپنی نعمتوں کے دروازے بند کر دے گا۔
میں اپنے سالار بدیل بن طہفہ کی یاد کو دل سے مٹا نہیں سکتا ،میرے کانوں میں اسکی پکار گونجتی رہتی ہے،،،،،،حجاج انتقام،،، حجاج انتقام،،،، میں ابن طہفہ کی پکار کا جواب دیتا رہتا ہوں کہ خدا کی قسم میں عراق کی ساری دولت ابن طہفہ کے خون کا بدلہ لینے پر صرف کر دوں گا، میرے قہر کا شعلہ انتقام لینے تک نہیں بجھے گا۔
اے لوگو!،،،، عرب کی آبرو ہی نہیں اسلام کی آن تمہیں پکار رہی ہے، سندھ کے ایک ہندو راجہ نے ہماری عورتوں اور ہمارے بچوں کو اپنی قید میں رکھ کر ہمیں للکارا ہے ،دشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ بہت دیر تک،،،، لبیک،،، لبیک،،، یا حجاج لبیک،،، کے نعرے گونجتے اور گرجتے رہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج کا قاصد جب محمد بن قاسم کے پاس شیراز پہنچا تو محمد بن قاسم نے بڑی تیزی سے پیغام قاصد کے ہاتھ سے لیا اور پڑھا اس کے چہرے کے تاثرات میں نمایاں تبدیلی آئی اس نے جھٹکے سے پیغام ایک طرف رکھ دیا جیسے پھینک دیا ہو۔
میرا چچا اتنا بوڑھا تو نہیں ہوا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ پھر اس کا دماغ سوچنے سے معذور کیوں ہو گیا ہے؟،،،، کیا سندھ پر حملے کے لئے کوئی اور سالار نہیں تھا؟،،،، کیا وہ بھول گیا ہے کہ میں سرکش قبائل کی سرکوبی کے لئے جا رہا ہوں؟،،،، میں نہ گیا تو کیا ان کی شرکشی بڑھ نہ جائے گی ؟،،،،کیا ابھی تک سندھ کے راجہ سے اپنے قیدی نہیں چھڑائے جا سکے؟
امیر شیراز!،،،،، قاصد نے کہا ۔۔۔آپ پر اللہ کی رحمت ہو ،دو سالار سندھ کی سرزمین پر اپنی جانیں دے چکے ہیں۔
سالار محمد بن قاسم نے چونک کر پوچھا ۔۔۔جلدی بتاؤ وہ کون تھے؟
پہلا سالار عبداللہ بن نبہان گئے اور شہید ہو گئے۔۔۔ قاصد نے کہا۔۔۔ اور ہمارے لشکر نے شکست کھائی پھر بدیل بن طہفہ گئے اور وہ بھی شہید ہوگئے اور ان کی شہادت ہماری شکست کا باعث بنی ،سالار عامر بن عبداللہ نے آپ کے چچا ابن یوسف امیر بصرہ کو کہا تھا کہ اب انھیں سندھ پر حملے کا موقع دیا جائے، لیکن امیر بصرہ نے کہا کہ سندھ کا فاتح میرے مرحوم بھائی کا بیٹا ہی ہو گا۔
محمد بن قاسم کے چہرے پر جو تبدیلی آئی تھی وہ کچھ اور ہی قسم کی تھی وہ اٹھ کر کمرے میں آہستہ آہستہ ٹہلنے لگا اس نے اپنے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ رکھے تھے اور اس کا سر جھکا ہوا تھا، قاصد کی نظریں اس پر لگی ہوئی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔
ابن نبہان اور ابن طہفہ شکست کھانے والے سالار تو نہیں تھے۔۔۔ محمد بن قاسم نے رک کر قاصد سے پوچھا۔
خدا کی قسم وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں آگے بڑھنے والوں میں سے تھے ۔۔۔قاصد نے کہا۔۔۔ دونوں دشمن کے قلب میں چلے گئے،
قاصد کو سندھ پر دونوں حملے کی جو تفصیلات معلوم تھیں وہ اس نے محمد بن قاسم کو سنائی اور اسے بتایا کہ حجاج بن یوسف کی جذباتی حالت کیا ہو رہی ہے۔
اس کی حالت ایسی ہی ہونی چاہیے۔۔۔ محمد بن قاسم نے قاصد سے کہا۔۔۔ ہم پر سونا اور کھانا حرام ہو جانا چاہیے، ہم پر اپنی بیویاں حرام ہو جانی چاہیے، کچھ دیر آرام کر لے اور واپس چلا جا میرے چچا سے کہنا کہ تیرے بھائی کا بیٹا تیرا عہد پورا کرے گا، اپنے قیدیوں کو میں ہی آزاد کراؤنگا، اور اگر اللہ مجھ پر راضی رہا تو سندھ کے سب سے اونچے مندر پر اسلام کا پرچم لہراؤنگا۔
قاصد کے جانے کے فوراً بعد محمد بن قاسم نے اپنے مشیروں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ حجاج بن یوسف کا کیا حکم آیا ہے۔
امیر محترم!،،،،، ایک سالار نے کہا ۔۔۔حجاج کا یہ کہنا کہ رے قبائل پر فوج کشی روک دی جائے، کوئی اچھا فیصلہ نہیں، سندھ پر حملے کے لئے صرف آپ جا رہے ہیں آپ یہاں سے اپنے محافظ دستے کے سوا کوئی نفری نہیں لے جا رہے، اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی غیر حاضری میں ہم رے کی مہم جاری رکھیں۔
اگر ہم نے یہ مہم روک دی تو قبائل کی سرکشی بغاوت بن جائے گی ۔۔۔دوسرے سالار نے کہا۔۔۔ آپ کے جانے کے بعد ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو نہیں رہ سکتے۔
میں آپ کو اجازت دیتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔لیکن یہ سوچ لینا کہ حجاج سندھ میں دو دفعہ شکست کے بعد تیسری شکست کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرے گا، اور وہ بخشے گا بھی نہیں، آپ سب اسے جانتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس کی جذباتی حالت کیا ہو رہی ہوگی۔
اس کے باوجود ہم باغیوں کے خلاف اس جنگی کارروائی کو ملتوی نہیں کریں گے۔۔۔ ایک سالار نے کہا ۔
حجاج کے اوپر اللہ بھی ہے۔۔۔ دوسرے سالار نے کہا ۔۔۔ہمیں حجاج کی نہیں اللہ تعالی کی خوشنودی چاہیے۔
محمد بن قاسم کی اپنی جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہو گئی تھی جیسے وہ ان دونوں سالاروں کی بات دھیان سے سن ہی نہ رہا ہو، اس نے مکران اور سندھ کا نقشہ سامنے رکھ کر سالاروں کے ساتھ صلح مشورہ شروع کردیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی