⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴چھٹی قسط 🕌


⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴چھٹی قسط 🕌
✍🏻تحریر:  اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
راجہ داہر نے اپنے وزیر کے مشورے کو قبول کرلیا ،اس کے دماغ پر تخت و تاج سوار تھا اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ بادشاہ اور راجہ کے اعمال رواج کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، اور قانون بھی بن جایا کرتے ہیں ،جو کہ راجہ داہر ہر کسی کو خوش رکھنے کے اصول کو پسند کرتا تھا اس لیے اس نے اپنے پانچ سو سردار وغیرہ کو دربار میں بلایا اور انہیں نجومیوں کی پیشنگوئی سنائی ،اور یہ بھی بتایا کہ وزیر نے کیا مشورہ دیا ہے۔
نہیں مہاراج !،،،،،،ایک آواز سنائی دی ۔
ایسا نہیں ہوسکتا مہاراج!،،،،، ایک اور آواز آئی۔
بہت بدنامی ہوگی مہاراج !،،،،،کسی اور نے کہا ۔
پھر سبھی بولنے لگے ،کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے وزیر بدہیمن کے مشورے کی تائید کی ہو۔
سب اس کے خلاف بول رہے تھے۔
لیکن ہم نے اپنی بہن کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔ راجہ داہر نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔۔۔ تم سب یہ چاہتے ہو کہ ہم اپنا راج کسی اور کے حوالے کر کے جنگل میں چلے جائیں اور باقی عمر بنباس میں گزاریں، ہمارے راج میں کسی کو کوئی تکلیف ہو تو اپنی تکلیف بیان کرے۔
سب پر خاموشی طاری ہو گئی راجہ داہر کی نظریں سب طرف گھوم گئیں، کیا ہم نے تم میں سے کسی کو کبھی نا خوش کیا ہے ،سب کے سر جھک گئے۔ بولو راجہ داہر نے گرجدار آواز میں کہا ۔۔۔ہم اپنی بہن کے ساتھ صرف بیاہ کریں گے اسے بیوی نہیں بنائیں گے ۔
پھر ٹھیک ہے مہاراج!،،،، ایک آواز سنائی دی، اور سب نے تائید میں بولنا شروع کر دیا، دو تین دنوں بعد راجہ داہر نے اپنی بہن مائیں رانی کے ساتھ شادی کر لی ،یہ ایک رسم تھی جو خاموشی سے ادا کی گئی، لوگوں میں اس شادی کے خلاف باتیں ہوئی جس نے سنا اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا لیکن بہن کے ساتھ شادی کرنے والا اس دیس کا راجہ تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس طرح میری شادی اپنے سگے بھائی کے ساتھ ہوں گئی۔۔۔ مائیں رانی نے اس انوکھی شادی کی کہانی بلال بن عثمان کو سناتے ہوئے کہا۔۔۔ میں نے اپنے بھائی کے لیے یہ قربانی دی، یہ تو میں بھی نہیں چاہتی تھی کہ میرا بھائی راج سے محروم ہو جائے، مجھے یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ میرا خاوند میرے بھائی کو قتل کرا کے اس کی تخت پر بیٹھ جائے گا۔
تمہیں یہ تو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ تمہاری شادی کس کے ساتھ کی جارہی تھی۔۔۔ بلال نے پوچھا ۔
معلوم تھا مائیں رانی نے جواب دیا ۔۔۔وہ بھی راجہ ہے بھاٹیہ نام کی ایک ریاست ہے، وہ اسکا راجہ ہے، اسکا نام سونہن رائے ہے، میں برہمن آباد میں اپنے بھائی دہرسینہ کے پاس تھی، اس نے مجھے اس بھائی راجہ داہر کے پاس بھیج دیا تھا اس نے پیغام بھیجا تھا کہ میری شادی فوراً بھاٹیہ کے راجہ سونھن رائے کے ساتھ کر دی جائے، بھائی دہرسینہ نے میرے ساتھ میرا جہیز بھی بھیجا تھا جس میں سات سو گھوڑے اور پانچ سو ٹھاکر تھے ،اور ایک قلعہ بھی جہیز میں دیا جا رہا تھا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ راجہ داہر کے بھائی دہر سینہ کو پتہ چلا کہ داہر نے مائیں کے ساتھ شادی کر لی ہے تو وہ آگ بگولا ہوگیا ،اس نے داہر کو لکھا کہ وہ مائیں رانی کو راجہ سونھن رائے کے حوالے کردے، داہر نے جواب دیا کہ اس نے کس خطرے کے تحت اپنی بہن کے ساتھ شادی کی ہے اس نے یہ بھی لکھا کہ بہن کو اس نے بہن ہی رکھا ہے ،اسے عملاً بیوی نہیں بنایا۔
دہرسینہ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اس نے فوج ساتھ لی اور راجہ داہر کی راجدھانی کو آکر محاصرے میں لے لیا ،راجہ داہر کے پاس فوج زیادہ تھی اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ محاصرہ توڑا جائے ،اس حکم پر فوج باہر نکل آئ دہرسینہ نے دیکھا کہ اس کی فوج داہر کی فوج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تو اس نے راجہ داہر کو پیغام بھیجا کہ وہ قلعے سے باہر آکر اس کی بات سنے، راجہ داہر نے دہرسینہ کو یہ پیغام بھیجا کہ تم میرے بھائی ہو تم خود قلعے میں کیوں نہیں آ جاتے، اس پیغام پر دہر سینہ ہاتھی پر سوار ہوکر قلعے میں آیا اور راجہ داہر سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ باہر چلے ،راجہ داہر اسی ہاتھی پر سوار ہوگیا۔ ہودے میں آگے دہرسینہ آگے کو منہ کئے بیٹھا تھا، داہر پیچھے بیٹھ گیا، اس کا وزیر بدہیمن ساتھ ساتھ گھوڑے پر جارہا تھا ،جب ہاتھی رتھ لے کے دروازے پر پہنچا تو بدہیمن کو کچھ شک ہوا یا اسے کسی سے اشارہ ملا اس نے راجہ داہر کو اشارہ کیا کہ وہ باہر نہ جائے۔
دہر سینہ تو آگے کو دیکھ رہا تھا داہر ہودے میں کھڑا ہو گیا اور دروازے کے اوپر کسی چیز کو پکڑ کر لٹک گیا ،ہاتھی باہر نکل گیا داہر کو اوپر سے اتارا گیا اور قلعے کا دروازہ بند کردیا گیا ،باہر جاکر دہرسینہ نے ہاتھی رکوایا پیچھے دیکھا تو داہر ہودے میں نہیں تھا ۔
تم نے ہمیں کیوں روک لیا تھا؟،،،،،، راجہ داہر نے اپنے وزیر سے پوچھا۔
آپ کا بھائی آپ کو باہر قتل کرنے کے لیے لے جا رہا تھا ۔۔۔بدہیمن نے جواب دیا ۔۔۔اس کے تیور بتا رہے تھے اور میرے بھیجے ہوئے ایک جاسوس نے عین اس وقت مجھے یہ خبر دی تھی جب آپ ہاتھی پر سوار دروازے کے قریب پہنچ گئے تھے ،تاریخوں میں ہے کہ دہر سینہ نے داہر کو واقعی قتل کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا ،دہر سینہ نے دیکھا کہ داہر اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اس کی فوج داہر کی فوج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تو اسے بہت صدمہ ہوا ،صدمے کے علاوہ گرمی زیادہ تھی دہر سینہ کو بخار ہو گیا اس کے تمام جسم پر چھالے اٹھ آئے وہ چار روز بیمار رہ کر وہیں قلعےکےباہر مر گیا ۔ یہ واقعہ 672 عیسوی کا ہے اس وقت دہر سینہ کی عمر تیس سال تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کیا سمجھتے ہو بلال !،،،،،مائیں رانی نے بلال بن عثمان کو یہ ساری داستان سنا کر کہا۔۔۔۔ راجہ داہر مجھ پر کوئی پابندی عائد نہیں کر سکتا ،اس نے مجھے اپنی بیوی نہیں بنایا۔ ہمارا رشتہ بہن بھائی والا ہے ،لیکن وہ جانتا ہے کہ میں جوان ہوں اور اس عمر میں مجھے اپنے خاوند کے پاس ہونا چاہیے ،اسے احساس ہے کہ جوان جسم کے مطالبے کیا ہوتے ہیں، اور جوان روح کیا چاہتی ہے، اس نے اپنے تختوں کو بچانے کے لئے میری جوانی کے جزبات کی قربانی دی ہے۔
میں نے سنا ہے کہ اس ملک میں زندہ لڑکیوں کی جان کی قربانی بھی دی جاتی ہے۔۔۔ بلال بن عثمان نے کہا۔۔۔ تم نے ٹھیک سنا ہے۔ مائیں رانی نے کہا۔۔۔ اگر نجومی یا پنڈت کہہ دے کہ کوئی آئی ہوئی مصیبت انسانی جان کی قربانی سے ٹلے گی تو کسی موزوں لڑکی کو پنڈتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے یہ ایک رسم خاص طریقے سے ادا کی جاتی ہے۔
ہم اسے شرک اور گناہ کبیرہ کہتے ہیں ۔۔۔بلال نے کہا۔۔۔ تمہارا خدا کیسا ہے جو اپنے بندوں کا خون بہا کر خوش ہوتا ہے ۔
میں نے تمہیں پہلے کہا ہے کہ میرے ساتھ مذہب کی بات نہ کرو ۔۔۔مائیں رانی نے کہا۔۔۔ میں جب تمہارے پاس آتی ہو تو میں ہندو نہیں ہوتی، اور میں تمہیں مسلمان نہیں سمجھتی، میں ایک عورت ہوں اور تمہیں ایک مرد سمجھ کر آتی ہوں ،عورت اسی مرد کو اپنے دل میں بساتی ہے جو اس کے دل کو اچھا لگتا ہے، میں رانی ہوں تمہیں زنجیروں میں باندھ کر اپنا غلام بنا سکتی ہوں لیکن میں تمہاری محبت کی زنجیروں میں بند کر تمہاری غلام ہو گئی ہوں، میں تمہارے اس سوال کا جواب دے رہی ہو کہ میں اپنے خاوند کو کیوں دھوکہ دے رہی ہوں، اور میں اسے محبت کے قابل کیوں نہیں سمجھ رہی۔
میں کہہ رہی تھی کہ میرا بھائی راجہ داہر جانتا ہے کہ اس نے میری جوانی کے ارمان اور رومان قربان کر کے مجھے ریگستان میں چھوڑ دیا ہے جہاں میں پیاسی بھٹک رہی ہوں، میرے وجود کا انگ انگ جل رہا ہے۔
وہ مرد ہے اور وہ راجہ ہے وہ بھنورا ہے کلی کلی کا رس چوس سکتا ہے، محل میں داسیوں کی کمی نہیں اسے ایک بیوی کا پابند رہنے کی ضرورت نہیں، اس نے مجھے بھی آزاد چھوڑ رکھا ہے لیکن میں رانی ہوں میں اپنے وقار کو مٹی میں نہیں ملا سکتی میں کسی کی بیوی نہیں بن سکتی ،لیکن فطرت کا گلہ نہیں گھونٹ سکتی ،دل میں محبت کا جو الاؤ بھڑک اٹھا ہے اسے میں بجھا نہیں سکتی میں کسی کی بیوی نہیں بن سکتی جو مجھے پیار سے دیکھے اور میں جس کے راستے میں آنکھیں بچھاؤں۔
میں سمجھ گیا ہوں رانی!،،،،، بلال نے کہا۔۔۔ خدا کی قسم تم نے میرے دل میں اپنا پیار پیدا کر لیا ہے ،لیکن میں اجنبی مسافر ہوں تمہارے وطن میں بے وطن ہوں ،کیا ایک جلاوطن کے ساتھ تم یوں چھپ چھپ کر ملتی رہوں گی۔
نہیں!،،،،،، مائیں نے جواب دیا ۔۔۔میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں گی۔
رانی!،،،، بلال نے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔اگر میں بے وطن نہ ہوتا تو تمہیں مسلمان بنا کر تمہارے ساتھ شادی کر لیتا ۔
تم نے پھر مذہب کا نام لیا ۔۔۔مائیں نے کہا۔۔۔ نہ میں اپنا مذہب چھوڑو گی نہ تمہیں اپنے مذہب میں لانے کی کوشش کروں گی، ہم ایک دوسرے کی پوجا کریں گے، کہو بلال قبول کرتے ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چھ سال بعد رمل کے راجہ نے راجہ داہر کے ملک پر حملہ کردیا اور اس کے کچھ علاقے پرقبضہ کرکے آگے بڑھا ،اس کے ساتھ ہاتھی بھی تھے یہ سب نر ہاتھی تھے، انھیں بہت زیادہ اور بڑی قوی غذا کھلائی جاتی تھی، اسی لیے یہ مستی میں رہتے تھے حملے کے لیے ان ہاتھیوں کو شراب پلا کر لایا گیا تھا۔ ہاتھیوں کے ساتھ رمل کے راجہ کی جو فوج تھی وہ اتنی زیادہ تھی کہ راجہ داہر گھبرا گیا اور اس کی فوج اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی ،راجہ داہر نے اپنے وزیر بدہیمن کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ وہ کیا کرے۔
مقابلہ کریں مہاراج !،،،،،بد یمن نے کہا ۔۔۔اپنی فوج تھوڑی ہے تو کیا ہوا اس خزانے کا منہ کھولیں جس میں آپ نے دولت کے ڈھیر لگا رکھے ہیں، یہ لوگوں میں تقسیم کریں اور انہیں کہیں کہ دشمن کے مقابلے کے لئے نکلیں، بہادری سے لڑنے والوں کے لئے انعام مقرر کریں۔
رعایا کو لڑنے کا تجربہ نہیں۔۔۔ راجہ داہر نے کہا۔۔۔ اناڑی لوگ دشمن کے آگے ٹھہر نہیں سکیں گے۔
پھر دشمن کے ساتھ صلح کر لیں۔۔۔ وزیر بریمن نے کہا ،کیا اس سے بہتر موت نہیں وزیر نے کہا۔
ہمارا دشمن صلح کی نہ جانے کتنی قیمت اور نہ جانے کیا قیمت مانگ بیٹھے ،صلح کا مطلب ہے ہتھیار ڈالنا میں ہتھیار نہیں ڈالوں گا۔
پھر ایک ہی صورت رہ جاتی ہے بدہیمن نے کہا۔۔۔ مہاراج نے عرب کے جن مسلمانوں کو پناہ دے کر اپنے ملک میں آباد کیا تھا انہیں لڑنے پر راضی کریں۔
لیکن ان کی تعداد صرف پانچ سو ہے ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ شاید کچھ زیادہ ہو اتنی تھوڑی تعداد میں کچھ نہیں کر سکیں گے۔
مہاراج !،،،،،،بدہیمن نے کہا ۔۔۔عربوں کو آپ نہیں جانتے یہ اس قوم کے آدمی ہیں جس نے فارسیوں اور رومیوں کو شکست پر شکست دے کر ان کی جنگی طاقت ختم کر ڈالی ہے، یہ لوگ دلیر بھی ہیں اور بہت تھوڑی تعداد میں بھی فتح پانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
چچ نامہ اور تاریخ معصومی میں لکھا ہے کہ راجہ داہر کو یہ مشورہ پسند آیا ،اور خود ان عرب مسلمانوں کے پاس گیا جنہیں اس نے اپنے ملک میں پناہ دی تھی، ان کی تعداد پانچ سو تھی اور یہ سب اپنے قبیلوں کے سردار یا سرداروں کے بیٹے تھے، یہ باغی ہوئے پھر وہاں سے بھاگ کر سندھ میں آگئے تھے، ان کا سردار امیر محمد علافی تھا ،بعض مورخوں نے اس کا نام محمد حارث علافی لکھا ہے، وہ بنی اسامہ کا سردار تھا اور سندھ میں آنے والے سرداروں نے اسے امیر بنا لیا تھا۔
علافی قبیلے نے عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں مکران کے امیر سعید بن اسلم کلابی کو قتل کیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مہاراج!،،،،، علافی نے آگے بڑھ کر داہر کا استقبال کیا اور کہا ۔۔۔آپ کے آنے میں وہ شان نہیں جس شان سے آپ باہر نکلا کرتے ہیں۔
آج میری شان کو تمہاری تلوار قائم رکھے گی۔۔۔ راجہ داہر نے کہا ۔۔۔میں احسان جتانے اور احسان کا صلہ لینے نہیں آیا ،میں دوستی کا حق لینے آیا ہوں۔
علافی نے اسے بٹھایا اور تین چار سرکردہ آدمیوں کو بھی بلایا۔
کہو مہاراج!،،،،،، علافی نے پوچھا۔۔۔ آج ہماری تلوار کی کیا ضرورت پیش آئی ہے ،ہم دوستی کا حق ادا کریں گے۔
راجہ داہر نے اسے بتایا کہ ایک بہت طاقتور دشمن اس پر حملہ کرنے آ رہا ہے اور اس وقت اس کی فوج دس بارہ میل دور پڑاؤ کئے ہوئے ہے۔
خدا کی قسم عرب کے مسلمان کسی کا احسان بھولا نہیں کرتے۔۔۔ علافی نے کہا ۔۔۔ہم دوستی کا حق ادا کریں گے ،حق ادا نہ ہوا تو جانیں دے دیں گے۔
پھر کوئی ترکیب کرو اور میرے راج کو اس دشمن سے بچاؤ ۔۔۔راجہ داہر نے مایوس اور ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ دشمن کے پاس ہاتھی ہیں جو بد مست ہیں ان کی یلغار کو تو کوئی فوج برداشت کر ہی نہیں سکتی، ان کی چنگھاڑ سے ہی فوج پر دہشت طاری ہو جاتی ہے ،کیا آپ لوگ ان ہاتھیوں سے مقابلے کی کوئی ترکیب سوچ سکتے ہیں۔
اے سندھ کے راجہ!،،،،،، ایک بوڑھے عرب سردار نے کہا۔۔۔ آج سے چالیس سال پہلے کے دن یاد کر، تو اسوقت چھوٹا ہو گا ،فارس کے آتش پرستوں نے ہمارے ہاتھوں کھائی ہوئی شکستوں سے تنگ آکر قادسیہ کے میدان میں ہم سے فیصلہ کن جنگ کرنے کے لئے اتنی فوج اتاری تھی جو شاید اس سے پہلے کسی لڑائی میں نہیں اتری تھی، آتش پرست ہاتھی بھی لائے تھے، ہمارے لیے ہاتھی بالکل نئی اور بہت ہی خوفناک چیز تھی، میں اس وقت جوان تھا اور میں اس میدان میں لڑا تھا۔ اے سندھ کے راجہ تو شاید جانتا ہوگا کہ شاہ فارس کو یہ ہاتھی اس وقت کے سندھ کے راجہ نے دیئے تھے، یہ ہندوستان کے جنگی ہاتھی تھے، چالیس سال گزر گئے ہیں لیکن ان ہاتھیوں کی چنگھاڑ مجھے آج بھی سنائی دے رہی ہیں ،ان ہاتھیوں نے ہماری فوج کو بہت نقصان پہنچایا تھا لیکن ہم نے ہاتھیوں کے سونڈ کاٹ ڈالی تھی، کیا یہ کام آسان تھا؟
نہیں میرے بزرگ دوست!،،،،، راجہ داہر نے کہا ۔۔۔۔یہ کام آسان نہیں تھا میں اس وقت چھوٹا تھا مجھے ذرا بڑے ہوکر معلوم ہوا تھا کہ مسلمانوں نے قادسیہ کی جنگ میں فارسیوں کو بہت بری شکست دی ہے، اور ہاتھیوں نے زخمی ہو کر اپنی فوج میں بھگدڑ مچادی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جنگ قادسیہ 635 عیسوی (14ہجری) میں لڑی گئی تھی، اس وقت شاہ فارس یزدگرد تھا، اس نے مختلف ملکوں سے فوجی مدد یہ کہہ کر مانگی تھی کہ اسلام کے سیلاب کو روکا نہ گیا تو کوئی اور مذہب زندہ نہیں رہے گا ،اور سب مسلمانوں کے غلام ہوں گے،
اس نے سندھ کے راجہ سے بھی مدد مانگی تھی، سندھ کے راجہ نے اسے اپنی فوج کی کچھ نفری دی تھی، اور جو خطرناک چیز دی وہ ہاتھی تھا، معلوم نہیں سندھ سے کتنے ہاتھی شاہ فارس کو دیے گئے تھے، ان میں راجہ کا اپنا سفید ہاتھی بھی شامل تھا ،جو دراصل سفید نہیں بلکہ سفیدی مائل بھورا تھا ،جنگ قادسیہ میں اس ہاتھی پر فارس کا مشہور سالار رستم سوار تھا ،وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس لیے تمھارے پاس آیا ہوں ۔۔۔راجہ داہر نے کہا۔۔۔ ہاتھیوں کا مقابلہ تم ہی کرسکتے ہو، میں نے تمہاری مدد کی تھی تم میری مدد کرو۔
ہم مدد کو پہنچیں گے۔۔۔ علافی نے کہا ۔۔۔ہمیں اپنے اللہ پر بھروسہ ہے، ہاتھی انشاءاللہ میدان میں آئیں گے ہی نہیں، ہم میں لڑنے کے قابل جتنے بھی آدمی ہیں وہ لڑیں گے آپ ہمیں تھوڑی سی فوج دے دیں باقی فوج کو آپ ابھی ادھر روانہ کردیں جدھر دشمن پڑاؤ کئے ہوئے ہے، اس کے پڑاؤ سے کچھ دور آپ کی فوج پڑاؤ کرے، اور اپنے ارد گرد خندق کھود لے ، مجھے اپنے پانچ سو سوار دے دیں باقی میرے اپنے سوار ہوں گے، اس کے بعد جو ہوگا وہ آپ کا دشمن بھی دیکھے گا اور آپ بھی دیکھ لینا ۔
پھر جو ہوا وہ عرب کے مسلمانوں کی عسکری روایات کے مطابق ہوا ،صرف سندھ کے راجہ داہر اور اس کے دشمن نے ہی نہ دیکھا بلکہ تاریخ نے دیکھا اور آج تک تاریخ ساری دنیا کو دکھا رہی ہے۔
ہوا یہ کہ محمد حارث علافی کی ہدایات کے مطابق راجہ داہر نے اپنی فوج کے پانچ سو سوار س کے حوالے کردیئے ۔
علافی نے ان میں مسلمان سوار شامل کرلئے۔ داہر کی فوج نے قلعے سے نکل کر کوچ کیا اور رمل کے راجہ کی فوج کے پڑاؤ سے تین میل دور خیمے گاڑ دیے، اور خیمہ گاہ کے ارد گرد خندق کھود لی، اس دوران علافی بھیس بدل کر اور ایک دو ساتھیوں کو ساتھ لے کر راجہ داہر کے دشمن کے خیمہ گاہ تک گیا اور دیکھا کہ وہاں کتنی فوج ہے اور کیا کہاں ہے۔ وہ تو بہت بڑا لشکر تھا راجہ داہر کے بچنے کی یہی صورت تھی کہ اپنے دشمن کی شرائط پر اس سے صلح کر لیتا یا اس کی اطاعت قبول کرلیتا ۔
رمل راجہ نے داہر کی فوج پر توجہ مرکوز کرلی اور حملے کی تیاری کرنے لگا، اس نے دیکھا کہ داہر کی فوج اس کی فوج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تو وہ بے فکر ہو گیا ،اسے ایسا خطرہ نظر نہ آیا کہ راجہ داہر کی فوج اس پر حملہ کرے گی۔
ایک رات جب رمل کی فوج گہری نیند سوئی ہوئی تھی علافی نے اپنے سواروں میں سے جن میں سندھی اور عرب سوار شامل تھے رمل کی خیمہ گاہ پر شب خون مارا، اور خیموں کو آگ لگادی خیمہ گاہ میں بھگدڑ مچ گئی دشمن کی فوج سوائے بھاگ نکلنے کے کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی، لیکن علافی کا شب خون اتنا شدید اور تیز تھا کہ رمل کی فوج کے لیے بھاگنا بھی محال ہو گیا ،ہزاروں سپاہی مارے گئے اور جنگی قیدی بھی ہوئے، اور پچاس ہاتھی بھی پکڑ لئے گئے، رمل کے راجہ کی تو کمر ہی ٹوٹ گئی۔
راجہ داہر نے عرب کے ان پناہ گزین مسلمانوں کو جو انعامات دیے ان کے علاوہ انہیں مکران کی سرحد پر خاصا وسیع علاقہ دے دیا ،جہاں یہ عرب آباد ہوگئے ۔
اس وقت بلال بن عثمان اور اس کے چار ساتھی محل کے خاص اصطبل کی ملازمت میں پانچ سال گزار چکے تھے، مائیں رانی کی نظر کرم بلال پر ضرورت سے بھی زیادہ تھی، وہ رسمی طور پر اپنے سگے بھائی کی بیوی تھی لیکن اس کے درپردہ مراسم بلال کے ساتھ تھے۔
وہ جب شکار کے لیے جاتی تھی تو ان پانچ عربوں کو ساتھ لے جاتی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پھر وقت گزرتا گیا اور داہر کے راجہ کی سرحدیں پھیلتی چلی گئیں، پھیلتے پھیلتے سرحد ملتان تک جاپہنچی سیستان اور کچھ علاقہ مکران کا بھی اس کی سرحدوں میں آگیا۔ اور جنوب میں مالوہ اور گجرات کا تھیاواڑ کے علاقے بھی راجہ داہر کے زیرنگیں ہوگئے۔
مائیں رانی بڑھاپے میں داخل ہوگئی ،بلال بن عثمان بھی بوڑھا ہونے لگا تھا ،وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے۔
راجہ داہر کی حکمرانی تو وسیع ہوگئی لیکن اس کا ذہن تنگ ہو گیا، اس نے رعایا پر ظلم و تشدد شروع کردیا، اس وقت داہر کے ملک میں بدھ مت کے پیروکار زیادہ تھے داہر خود برہمن تھا بدھ مت کے پیروکار جاٹ تھے ،ان کی الگ تھلگ قوم تھی، داہر نے ان بدھو کا جینا حرام کر دیا ،ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرنے لگا۔
عرب کی اسلامی حکومت کے ساتھ بھی اس نے دشمنی پیدا کر لی تھی، جب حجاج بن یوسف عراق کا حاکم تھا اس وقت راجہ داہر کی مجرمانہ اور معاندانہ کارروائیاں تیز ہو گئی تھیں، عرب سے جو باغی ادھر آئے تھے داہر انہیں اپنے ہاں پناہ دیتا اور انہیں اسلامی حکومت کے خلاف بھڑکاتا رہتا تھا ۔
حجاج بن یوسف کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی، حجاج آدھی سلطنت کا حاکم تھا اور وہ ظالمانہ حد تک سخت گیر تھا، اس کے ڈر سے کئی باغی عراق سے بھاگ کر سندھ میں آگئے تھے اور راجہ داہر نے انہیں نہ صرف پناہ دی تھی بلکہ انہیں اسلامی حکومت کے خلاف زمین دوز تخریبی کارروائیوں کے لیے تیار کرتا رہتا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب حجاج بن یوسف کا بھتیجا محمد بن قاسم فارس کا حاکم گورنر تھا، اور اس کا دارالسلطنت شیراز تھا ،اس کی عمر سترہ سال تھی لیکن ذہنی لحاظ سے فہم و فراست اور تدبر کے لحاظ سے وہ تجربہ کار اور منجھے ہوئے ادھیڑ عمر آدمی سے زیادہ ذہین تھا، یہ ماں اور حجاج کی تعلیم و تربیت کا کرشمہ تھا۔ عسکری لحاظ سے وہ منجھا ہوا سپہ سالار تھا۔
فارس کے کرد باغی جنگجو تھے، فارس کا شہنشاہ بھی ان کی باغیانہ سرگرمیوں کے آگے بے بس ہوگیا تھا، محمد بن قاسم نے فن حرب و ضرب کی مہارت اور تدبر سے کردوں کو ایسی لگام ڈالی کہ کرد اس کے اشاروں پر ناچ چنے لگے تھے۔
اس سے پہلے محمد بن قاسم نے فارس کے ان علاقوں کو فتح کیا تھا جو ابھی سلطنت اسلامیہ میں شامل نہیں ہوئے تھے، اس وقت شیراز کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی یہ معمولی سی ایک چھاؤنی تھی محمد بن قاسم نے تھوڑے سے عرصے میں کچھ علاقے فتح کیے پھر کردوں کے بے حد خطرناک فتنے کو ختم کیا، اور شیراز کو دارالسلطنت قرار دے کر اسے شہر بنانا شروع کیا ،آج کے شیراز کی بنیاد محمد بن قاسم نے رکھی تھی اور اپنی زندگی میں ہی اسے بڑا اور ہر لحاظ سے اہم شہر بنادیا تھا۔
اس یتیم اور کمسن مجاہد نے ابھی نقطہ عروج تک پہنچنا تھا اس کا بڑا ہی سخت امتحان ابھی باقی تھا ،عروج کی پہلی سیڑھی پر اس کا قدم اس وقت کے خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس روز دیکھ رکھا تھا جس روز محمد بن قاسم نے سالانہ کھیلوں کے مقابلے میں خلیفہ کے بھائی سلیمان بن عبدالملک کو شکست دی تھی، سلیمان کو توقع تھی کہ اس کا بھائی خلیفہ ہے اور وہ اس کی عزت بچا لے گا اور اس پر محمد بن قاسم کی فتح تو محض کھیل قرار دے گا ۔لیکن خلیفہ نے محمد بن قاسم کی جیت میں اسکے ڈھکے چھپے جوہر دیکھ لیے تھے۔
اسی روز خلیفہ نے محمد بن قاسم کو اپنے پاس بلایا اور اس کے ساتھ باتیں کیں، خلیفہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ لڑکا غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے وہ اسی عمر میں سپہ سالاری کی سطح کے امور کو سمجھتا اور ان کا تجربہ کر سکتا ہے۔
ابن یوسف !،،،،،،خلیفہ نے حجاج بن یوسف سے کہا ۔۔۔خدا کی قسم یہ لڑکا عظیم سالار بنے گا، اور آنے والی نسلیں اس کے نقش قدم پر چلیں گی، اس جیسے انسان اپنی قوم کے لئے خدا کا بہت بڑا انعام ہوا کرتے ہیں، اسے لے جاؤ یوسف کے بیٹے اسے سالاری کے عہدے پر رکھ لو ۔
مؤرخوں نے اس دور کے وقائع نگاروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کا رنگ گلابی ساتھا، آنکھیں بڑی تھیں،اور ان میں جو چمک تھی وہ دوسروں کو مسحور کر لیتی تھیں، پیشانی چوڑی تھی، بازو سیڈول اور لمبے تھے ،جسم بھرا بھرا تھا ،اور آواز بھاری تھی جس میں رعب اور جلال تھا لیکن زبان شیریں تھی، چہرہ کھلا رہتا اور ہونٹوں پر تبسم تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>


Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی