⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴پانچویں قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ایک سالار عثمان بن ابی عاص نے بمبئی کے قریب تھانہ بندرگاہ کے علاقے پر حملہ کیا تھا اس حملے کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں عرب کے جو تاجر اور جہازراں جاتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے ہندوستان کی کسی بندرگاہ پر قبضہ کیا جائے۔
یہ ہندوستان پر مسلمانوں کا پہلا حملہ تھا مگر یہ حملہ امیرالمومنین کے حکم کے بغیر کیا گیا تھا، حملہ کامیاب تھا لیکن اس بندرگاہ پر قبضہ نہ کیا گیا ،مورخ بلاذری لکھتا ہے کہ جب عثمان بن ابی عاص نے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ مدینہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑا سخت پیغام بھیجا انہوں نے لکھا۔
میرے ثقفی بھائی تیری یہ کاروائی بہت خطرناک تھی ، جو فوج اس حملے کے لئے لے گیا تھا وہ تو ایک کیڑے کی مانند تھی جسے تو نے لکڑی پر بٹھا کر سمندر میں ڈال دیا تھا اگر یہ فوج اتنی دور جاکر کسی مشکل میں پھنس جاتی تو خدا کی قسم میں تیرے قبیلہ ثقیف سے اتنے آدمی لے لیتا ۔
اس کے کچھ ہی دنوں بعد عثمان بن ابی عاص نے امیرالمومنین کی اجازت سے سندھ پر ایک اور حملہ کیا انہوں نے اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا ایک حصے کے سالار عثمان خود تھے اور انہوں نے دوسرے حصے کی کمان اپنے بھائی مغیرہ کو دی تھی، لشکر کا یہ حصہ بحری بیڑے میں گیا تھا اور سمندر کی طرف سے دیبل کے مقام پر حملہ کیا گیا تھا، عثمان نے خود ایک اور مقام پر حملہ کیا تھا جو برج کے نام سے مشہور ہے۔ اس وقت راجہ چچ سندھ کا حکمران تھا۔ دیبل کے حاکم چچ کا ایک بڑا دلیر جرنیل سامہ تھا۔ اس نے اپنی فوج کو قلعے سے باہر لاکر عثمان بن ابی عاص کے بھائی مغیرہ کا جم کر مقابلہ کیا، مغیرہ دشمن کی فوج کے قلب تک پہنچ گیا اور سامہ کو للکارا اس طرح دونوں فوجوں کے سالار آمنے سامنے ہوئے مغیرہ نے بسم اللہ اور فی سبیل اللہ کا نعرہ لگایا، اور سامہ پر حملہ کیا سامہ زخمی تو ہوا لیکن جو زخم مغیرہ نے کھائے وہ مہلک ثابت ہوئے اور مغیرہ شہید ہوگئے، فتح تو مسلمانوں کو ہی حاصل ہوئی لیکن یہ فتح خاصی مہنگی پڑی کچھ وجوہات کی بنا پر ان مقامات پر قبضہ نہ کیا گیا ہے۔
اس کے چھ سال بعد ایک اور سپہ سالار عبداللہ بن عامر بن ربیع نے ایران کو فتح کیا پھر وہ سیستان پر حملہ آور ہوئے جہاں کے حاکم مرزبان نے ہتھیار ڈال دیے، سیستان پر قبضہ مکمل ہوگیا تو سپہ سالار عبداللہ نے اپنے ایک اور سالار قلبی کو مکران پر حملے کے لئے بھیجا ،اس وقت مکران پر راجہ راسل کی حکمرانی تھی اس نے سندھ کے راجہ چچ سے مدد مانگی، چرچ نے راسل کی مدد کے لئے اپنی فوج بھیج دی اس طرح دشمن کی تعداد دگنی سے بھی بڑھ گئی اس کے باوجود مسلمانوں نے فتح پائی اور مکران کے ایک بڑے حصے پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
اس سے پہلے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں ان کے مقرر کیے ہوئے عراق کے حاکم ابو موسی اشعری نے اپنے ایک سالار ربیع بن زیاد حارثی کو فوج دے کر مکران پر حملہ کر آیا تھا، اور مکران تہ تیغ بھی ہو گیا تھا لیکن فوج کو واپس بلا لیا گیا۔
ابو موسی اشعری نے مکران کے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ الگ کر کے امیر المومنین کو بھیجا یہ مال غنیمت لے جانے والے ایک تجربے کار کماندر صحارعبدی تھے۔
اللہ تم سب کو یہ فتح مبارک کرے۔۔۔ امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا۔۔۔ تم سب پر اللہ کی رحمت ہو یہ بتا مکران کا علاقہ کیسا ہے؟،،،،، وہاں کے لوگ کیسے ہیں، اور وہاں کی زمین کیسی ہے؟ امیرالمومنین!،،،،، صحار نے کہا ۔۔۔خود پیاسی ہے، پھل نہیں، پھول بھی نہیں ،پھل ہے تو وہ کھانے کے قابل نہیں، وہاں کے لوگ لوٹ مار کے دلادہ، ایک دوسرے کو لوٹتے اور زندہ رہتے ہیں، زندہ رہنے کے لئے دوسروں کو قتل کرتے ہیں، اگر ہم نے وہاں تھوڑی فوج رکھی تو اسے لوٹ لیا جائے گا ،اور اگر زیادہ فوج رکھی تو بھوک اور پیاس سے مر جائے گی۔
تجھ پر اللہ مہربان ہو ۔۔۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ صحارعبدی کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔تو شاعری کررہا ہے وہاں کی صحیح حالات بیان کر۔
امیرالمومنین!،،،،، صحارعبدی نے کہا ۔۔۔جو دیکھا ہے وہ بیان کیا ہے، خدا کی قسم جو کوئی وہاں جائے گا یہی بتائے گا جو میں نے امیر المومنین کی خدمت میں بیان کیا ہے۔ صداقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
نہیں صحار!،،،،،،امیرالمومنین نے دوٹوک لہجے میں کہا۔۔۔ مجاہدین اسلام کو بھوکا اور پیاسا نہیں مارا جاسکتا ،قیصروکسریٰ سے ہتھیار ڈلوانے والے مجاہدین کی یہ توہین نہیں کی جاسکتی کہ وہ سو رہے ہوں تو ڈاکو انہیں لوٹ لیں، وہ بھوک اور پیاس سے سسک سسک کر جان دے دیں۔
امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ لشکر کو واپس بلا لیا جائے، کچھ حصے پر قبضہ رکھا گیا اور جو علاقہ حکم تغلبی نے فتح کیا تھا اسے چھوڑ دیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہندوستان کے مغربی علاقوں میں مسلمانوں کی پیشقدمی اور فتوحات مکران پر ہی ختم نہیں ہوجاتی، یہ تفصیلات خاصی طویل ہے بات چونکہ تاریخ اسلام کے عظیم اور سب سے کم عمر سالار محمد بن قاسم کی ہورہی ہے اس لئے ہم اس روئیداد کو سندھ تک ہی محدود رکھیں گے۔
عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے اس دور میں بھی ہندوستان کے مغربی علاقوں میں مسلمانوں کی پیشقدمی جاری رہی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی خلافت کا دور شروع ہوا جس میں مسلمان قلات تک پہنچے ،اس کے بعد علی کرم اللہ وجہہ الکریم بھی شہید ہوگئے اور خلافت بنو امیہ کے پاس چلی گئی۔
بنو امیہ کے دور میں بھی ہندوستان کے مغربی علاقوں میں مسلمان حاکم رہے لیکن پیچھے اس مرکز میں جہاں سے اسلام کی کرن پھوٹی اور دور دور تک پہنچی تھی ان میں دولت اور اقتدار کی ہوس پیدا ہو گئی اور خلافت ایک متنازع مسند بن گئی، اس ہوس نے ان مسلمانوں کو جنہوں نے اسلام کو کرہ ارض کے گوشے گوشے تک پہنچانا تھا خانہ جنگی میں الجھادیا ،نیک و بد کے، جھوٹے اور سچے کی ،حق اور باطل کی تمیز ختم ہوگئی، جنہوں نے حق کا پرچم بلند کیا انہیں باغی کہا گیا۔ ظلم و تشدد کا دور شروع ہوگیا جس نے ظلم و تشدد میں سب سے زیادہ نام پایا وہ محمد بن قاسم کا چچا حجاج بن یوسف تھا، اب اقتدار کے ان پجاریوں نے اسلام اور اللہ اکبر کے نعروں کو سیاست کا رنگ دے دیا۔
مسند خلافت پر جو معرکہ آرائی ہوئی ہم اس کی تفصیلات میں بھی نہیں جارہے مختصر بات یہ ہے کہ وہ وقت بھی آیا کہ خلافت دو حصوں میں بٹ گئی دارالخلافے دو ہو گئے یوں کہہ لیں کہ اسلام کا جگر دو حصوں میں کٹ گیا، پھر عبدالملک بن مروان کا دور خلافت شروع ہوا تو اس نے بغاوتوں اور خانہ جنگی کی کیفیت کو ختم کیا اور اموی حکومت کو مستحکم کیا، حجاج بن یوسف اسی دور میں حاکم بنا اور شہرت پائی۔
بغاوت کے دور میں تقریبا پانچ سو سرکردہ عرب راجہ داہر کے پاس پہنچے اور انہیں راجہ داہر نے پناہ دے کر مکران کے اس علاقے میں آباد کر دیا تھا جو اس کے قبضے میں تھا ،ان پناہ گزینوں میں اکثریت علافی خاندان کی تھی، یہ ایک مشہور جنگجو قبیلہ تھا۔
بلال بن عثمان اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ پناہ لینے ہی آیا تھا چونکہ وہ اجنبی تھے اس لئے بھٹکتے اور چھپتے پھر رہے تھے، انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس سندھ کے راجہ نے عرب کی خلافت کے ساتھ دشمنی پیدا کر لی تھی، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس نے خلافت کے باغیوں کو پناہ دے رکھی تھی، اور دوسری وجہ یہ کہ اس کے باپ چچ نے مسلمانوں کے خلاف مکرانیوں کو مدد دی تھی، اس وجہ سے بھی بلال بن عثمان ڈرتا تھا کہ راجہ داہر انہیں گرفتار کر کے قید خانے میں ڈال دے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مائیں رانی نے بلال کو دوسرے دن قلعے سے تھوڑی ہی دور ایک جگہ ملنے کو کہا تھا، دوسرے دن بلال چلنے لگا تو دوستوں نے اسے روک لیا، رات کو ہی وہ اس مسئلہ پر بحث و مباحثہ کرتے رہے تھے، اُس کے ساتھی کہتے تھے کہ رانی اسے دھوکے میں بلا کر گرفتار کروا دے گی، یہ شک بلال کے ذہن میں بھی تھا کیونکہ مائیں نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے جاسوس سمجھتی ہے، اس نے اپنے ساتھیوں کو یہ بات بتائی تھی اسی لئے ساتھی اسے جانے سے روکتے تھے، لیکن بلال یہ بھی محسوس کرتا تھا کہ مائیں اسے دھوکہ نہیں دے گی۔
اگر جانا ہی ہے تو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔۔۔ بلال کے ایک ساتھی نے کہا۔
تم کیا کرو گے؟،،،،، بلال نے پوچھا اور کہا۔۔۔ تم سب کو میرے ساتھ دیکھ کر وہ مجھے نہیں ملے گی، اور یہ بھی سوچو کہ اس کی نیت خراب ہوئی تو تم سب میرے ساتھ پکڑے جاؤ گے، بہتر ہے کہ مجھے خطرہ مول لینے دو ،اور تم یہیں ہی رہو، اس طرح یہ ہوگا کہ میں اکیلا پکڑا جاؤں گا ،اگر میں شام تک واپس نہ آیا تو سمجھ لینا کہ میں مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں، پھر تم یہاں سے نکل جانا۔ اس کے ساتھی نہ مانے آخر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بلال اکیلا جائے اور وہ گھوڑے پر جائے تاکہ خطرے کی صورت میں وہاں سے بھاگ سکے، انہوں نے یہ بھی طے کر لیا کہ اس کے چاروں ساتھی اس جگہ سے جہاں بلال سے رانی نے ملنا تھا کچھ دور چھپے رہیں گے، اور خطرے کی صورت میں بلال کی مدد کو پہنچیں گے، بلال بن عثمان اپنے گھوڑے پر سوار ہوا برچھی ہاتھ میں لی اور چل پڑا ۔
اس نے جہاں پہنچنا تھا وہ جگہ اڑھائی تین میل دور تھی، مائیں نے اسے راستہ بتا دیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بلال جب چٹانوں، ٹیلوں ،اور کھڈنالوں کے علاقے سے نکل کر آگے گیا تو اسے کچھ دور ایک ایسا سرسبز خطہ دکھائی دینے لگا جیسے صحرا میں نخلستان ہوتا ہے، وہاں ہرے بھرے درختوں کے جھنڈ تھے، ان میں چھوٹے چھوٹے درخت بھی تھے، اور اونچے بھی، ان کے نیچے اونچی گھاس بھی تھی ،اور خودرو پودے بھی تھے، ادھر سے بلال کا گھوڑا چلا جا رہا تھا، ادھر سے ایک گھوڑا دوڑا رہا تھا، سیاہ رنگ کے اس گھوڑے کی سج دھج بتاتی تھی کہ شاہی اصطبل کا گھوڑا ہے، بلال بن عثمان نے دور سے پہچان لیا کہ گھوڑے کا سوار کوئی آدمی نہیں عورت ہے، وہ رانی تھی بلال بن عثمان کوئی ایسا کچا آدمی نہیں تھا اس نے اپنے آپ پر مائیں رانی کے حسن اور اسکی جوانی کو سوار نہیں کیا تھا ،اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑا دوڑ پڑا لیکن گھوڑے کا رخ مائیں رانی کی طرف نہیں تھا بلکہ اس طرف تھا جہاں اس نے رانی سے ملنا تھا ،وہ رانی سے پہلے اس جگہ پہنچ گیا وہ جگہ بہت ہیں خوبصورت تھی اس کے اندر چھوٹی سی ایک جھیل بنی ہوئی تھی، اس کے اردگرد چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں اور ان پر اونچی گھاس اور جھاڑیوں جیسے سر سبز پودے تھے، ان میں اور ٹیکریوں کے پیچھے بیک وقت کئی آدمی چھپ سکتے تھے ،یہ جگہ خاصی وسیع تھی۔
بلال گھوڑا دوڑاتا ہوا اس تمام علاقے میں گھوم گیا وہ دیکھتا پھر رہا تھا کہ رانی کے آدمی چھپے ہوئے نہ ہوں، اس کے سامنے اپنی سلامتی تھی اسے درختوں پر چہچہاتے ہوئے پرندوں کے سوا کوئی جاندار نظر نہ آیا، یہ چند ایک گلہریاں تھی جو اس کے گھوڑے سے ڈر کر درختوں پر چڑھ گئیں ،وہ تمام جگہ گھوم پھر کر جھیل کے کنارے پر آیا تو ادھر سے مائیں رانی کا گھوڑا اس خوبصورت جگہ داخل ہوا ،وہ کود کر گھوڑے سے اتری اور بچوں کی طرح ہنستی ہوئی بلال کی طرف آئی، بلال گھوڑے سے اتر کر آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا ،مائیں نے قریب آکر بے ساختی سے بلال کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس ہاتھ کو چوم لیا، پھر اس نے اس ہاتھ کو اپنے کندھے پر رکھ لیا اور سرک کر بلال کے اتنے قریب ہوگئی کہ بلال کا بازو اس کے کندھے سے سرک کر اس کی پیٹھ تک پہنچ گیا، اس طرح مائیں بلال کے بازو میں خود ہی آ گئی، بلال نے اپنا بازو پیچھے کر لیا اور خود بھی ذرا پیچھے ہو گیا۔
کیوں ؟،،،،،،مائیں رانی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔ کیا تمہیں اچھا نہیں لگا، کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو کہ میں اس دیس کی رانی ہوں، تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے میں جانتی ہوں تم اپنے دیس کی رعایا میں سے نہیں، مجھے پتا چلا ہے کہ عرب سے بھاگ کر جتنے لوگ مکران میں آئے ہیں وہ سب سردار ہیں، یا سرداروں کے بیٹے ہیں، تم بھی اونچے طبقے کے آدمی معلوم ہوتے ہو۔
نہیں رانی!،،،،،، بلال نے کہا۔۔۔ میں ڈرتا نہیں میں حیران ہو رہا ہوں کہ ایک ملک کی رانی اکیلی قلعے سے اتنی دور آ گئی ہے کیا تمہارے محافظ بعد میں آئیں گے؟
نہیں!،،،،، مائیں نے جواب دیا۔۔۔ یہاں اور کوئی نہیں آئے گا ،میں ان رانیوں میں سے نہیں جو رعایا پر رعب ڈالنے کے لئے محافظوں کے پورے دستے کے ساتھ باہر نکلا کرتی ہیں۔
کیا راجہ نے تم پر اکیلے باہر نکلنے کی پابندی نہیں لگائی؟
نہیں!،،،،، مائیں نے جواب دیا۔۔۔ تمہیں حیران ہونا چاہیے کوئی رانی قلعے سے اتنی دور اکیلے نہیں جایا کرتی، لیکن میرا معاملہ کچھ اور ہے۔
وہ کیسے؟
یہ ابھی نہیں بتاؤنگی۔۔۔ مائیں نے جواب دیا۔۔۔ پہلے دیکھوں گی کہ تمہارا دل میری محبت کو قبول کرتا ہے یا نہیں، مجھے تمہاری محبت کھینچ لائی ہے، کیا تم مجھے محبت کے قابل نہیں سمجھتے؟
سمجھتا ہوں رانی!،،،،، بلال نے جواب دیا ۔۔۔لیکن میں اور بھی بہت کچھ سمجھتا ہوں ،تم نے میرے لیے بہت خوبصورت جال بچھایا ہے۔
میں نے سنا تھا کہ عرب کے لوگ ہمارے ملک کے لوگوں سے زیادہ عقلمند ہوتے ہیں۔۔۔ مائیں نے کہا۔۔۔ لیکن تم تو عقل سے بالکل ہی خالی ہو، کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہماری فوج پانچ آدمیوں کو پکڑ نہیں سکتی، تمہیں پکڑوانا ہوتا تو کیا رات کے وقت فوج کی تھوڑی سی نفری بھیج کر تمہیں تمہارے ساتھیوں سمیت نہیں پکڑا جاسکتا تھا۔
تم نے مجھے محبت کے قابل کیوں سمجھا ہے؟۔۔۔ بلال بن عثمان نے پوچھا ۔۔۔کیا تمہیں مجھ سے بہتر کوئی اپنے ملک کا آدمی نہیں ملا؟
میں رانی ہوں بلال !،،،،،مائیں نے کہا۔۔۔ ہو سکتا ہے تم سے زیادہ خوبصورت جوان میری محبت میں تڑپ رہے ہوں، لیکن وہ ایسی بات زبان پر نہیں لا سکتے، رانی کو رعایا دیوی سمجھتے ہیں، رانی کی لوگ پوجا کرتے ہیں، لیکن بلال آج ایک رانی ایک اجنبی کے پاس محبت کا پیغام لے کر آئی ہے، اجنبی بھی ایسا جو نہ جانے کون ہے اور کیا ہے، مجھے تو یقین سا ہو چلا ہے کہ ہم دونوں پچھلے جنم میں اکٹھے رہے ہیں ہم دونوں ایک تھے۔
میرا مذہب نہیں مانتا کہ انسان مر کر پھر دنیا میں آجاتا ہے۔۔۔ بلال نے کہا۔
محبت میں مذہب کو نہ لاؤ بلال!،،،، مائیں نے کہا۔۔۔ تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھو میرا دل توڑ کے نہ جانا، اس نے بلال کو اپنے پاس بٹھا لیا، بلال میں وہ مردانہ حسن و جلال تھا کہ ہندوستان کی ایک رانی اس پر فریفتہ ہو جاتی، اور مائیں رانی کے حسن و جمال میں وہ جادو تھا کہ عرب کا ایک جوان آدمی اس کا گرویدہ ہو جاتا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جب بلال اور رانی اس روح پرور سبززار سے نکلے تو سورج بہت دور آگے نکل گیا تھا۔ درختوں کے سائے لمبے ہو گئے تھے ،بلال کے ساتھی دور ایک جگہ چھپے ہوئے تھے وہ اس جگہ کو دیکھتے رہے تھے جہاں بلال غائب ہو گیا تھا ،انھیں توقع تھی کہ قلعے سے فوج کے کچھ آدمی آئیں گے اور اس جگہ کو گھیرے میں لے کر بلال کو قتل کر جائیں گے، یا اسے پکڑ کر لے جائیں گے، لیکن کوئی بھی نہ آیا ۔
بلال واپس ان کے پاس آیا تو اس پر خمار سا طاری تھا، اس کے بولنے کا انداز ایسا تھا جیسے نشے میں ہو ،اس کے ساتھی اس سے کچھ اور پوچھتے تھے اور وہ کچھ اور جواب دیتا تھا، وہ رانی کی رومانی باتیں سناتا تھا، ساتھیوں نے اسے برا بھلا کہا تو وہ ذرا ہوش میں آیا۔
خدا کی قسم!،،،،، اس نے کہا۔۔۔ مائیں نے تم سب کا انتظام کردیا ہے، رانی ہمیں قلعے میں رکھ لے گی، وہ کل پھر آئے گی۔
دوسرے دن بلال بن عثمان پھر اس جگہ مائیں رانی کے پاس بیٹھا ہوا تھا، دونوں کے والہانہ پن کا یہ عالم تھا جیسے ایک دوسرے میں تحلیل ہو جانے کی کوشش کر رہے ہوں۔
وہ درخت کی شاخ پر بیٹھے کبوتر اور کبوتری لگتے تھے جو پیار اور محبت میں مگن ہوتی ہیں۔
کیا اب بھی تم مجھ پر شک کرتے ہو؟،،،،،، مائیں نے بلال سے پوچھا۔۔۔۔ اپنے دل سے پوچھو کیا میں تمہیں پکڑا دوں گی ۔
یہ شک تو نہیں رہا کہ تم مجھے پکڑوا دوں گی۔۔۔ بلال نے کہا۔۔۔ لیکن مجھے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ تم اپنے خاوند کو دھوکا کیوں دے رہی ہو، وہ اتنا بڑا راجہ ہے اور سنا ہے وہ تندرست اور توانا ہے، اور وہ بد صورت بھی نہیں، اور وہ بوڑھا بھی نہیں، پھر تم اسے محبت کے قابل کیوں نہیں سمجھتی؟
مجھے اس کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ میں اسے اپنی زندگی بھی دے دوں۔۔۔ مائیں نے کہا ۔۔۔اسے کانٹا چبھ جائے تو میں اس طرح تڑپ اٹھتی ہوں جیسے یہ کاٹا میرے دل میں اتر گیا ہے، وہ چپ ہو گئی کچھ دیر بعد بولی، تم مانو گے نہیں میں تمہیں ایک عجیب بات بتانے لگی ہوں، راجہ داہر میرا خاوند ہے لیکن میں اس کی سگی بہن ہوں۔
بلال نے چونک کر مائیں کو دیکھا ،مائیں نے بات ہی ایسی کہ دی تھی جسے سچ مانا ہی نہیں جاسکتا تھا۔
میں سچ کہہ رہی ہوں بلال!،،،،، مائیں نے کہا۔۔۔ میں راجہ داہر کی بہن ہوں اور وہ میرا خاوند ہے، ہماری شادی اسی طرح ہوئی ہے جس طرح ہندوؤں کی شادی ہو اکرتی ہے۔ ہماری شادی پنڈت نے کرائی تھی، ہم مذہبی طور پر خاوند اور بیوی ہیں، لیکن جسمانی طور پر بھائی بہن ہیں، ہم بے اولاد مر جائیں گے، راجہ داہر مر جائے گا تو میں اس کی لاش کے ساتھ چتا میں زندہ جل جاؤں گی۔
لیکن یہ شادی ہوئی کیسے؟،،،، بلال نے پوچھا۔۔۔ اس شادی کا مطلب کیا ہے؟
میں بتاتی ہوں۔۔۔ مائیں رانی نے کہا ۔۔۔اور اس نے بلال کو سنایا کہ بھائی نے اپنی سگی بہن کے ساتھ شادی کیوں کی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مائیں رانی نے اپنی شادی کا جو قصہ سنایا وہ ایک تاریخی واقعہ ہے، اس کی تفصیلات تاریخ معصومین اور چچ نامہ میں ملتی ہیں۔ داہر سندھ کا راجہ بنا تو اس نے اپنے ملک کا دورہ کیا، اپنے لوگوں سے ملا ،اور اپنی سرحدوں کا بھی جائزہ لیا ،اس کا یہ دورہ کئی مہینوں پر پھیلا ہوا تھا ،وہ جب واپس اپنی راجدھانی اروڑ آیا تو شہر کے تمام لوگ اس کے استقبال کے لئے راستے کے دونوں طرف کھڑے تھے ،انہوں نے اپنے راجہ پر پھول برسائے اور اس کے راستے میں پھولوں کی پتیاں بچھائیں۔
راجہ داہر نے اپنی راجدھانی کے لوگوں کی یہ فرمابرداری اور عقیدت مندی دیکھی تو اس نے اسی روز دربار عام منعقد کیا ،چند ایک سرکردہ افراد کو انعامات دیے اور لوگوں کو کھانا کھلایا، جب لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے تو وہ پنڈت اور وہ نجومی اسے تنہائی میں ملے ،اس کی مدح سرائی کی اور اسے دیوتا بنا دیا ۔
ہم نے مہاراج کا اور مہاراج کی بہن مائیں کے زائچے نکالے ہیں۔۔۔ ایک نجومی نے کہا ۔۔۔آنے والے کئی سالوں میں کوئی گڑبڑ نظر نہیں آئی، سوائے ایک خرابی کی۔
مائیں کے زائچے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مائیں کی شادی جس کسی کے بھی ساتھ ہو گی وہ سندھ کا راجا بنے گا۔
ہماری موت کے بعد۔۔۔ راجہ داہر نے پوچھا۔ نہیں مہاراج !،،،،،،نجومی نے کہا۔۔۔ وہ مہاراج کی زندگی میں ہی سندھ کا مالک بن بیٹھے گا۔
وہ کون ہوگا۔۔۔۔ راجہ داہر نے پوچھا ۔۔۔کہاں سے آئے گا؟
اندھیرا ہے مہاراج! ،،،،،،نجومی نے کہا،،،، قسمت جہاں اندھیرے میں چلی جائے وہاں جوتش اور نجوم کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، یہ نظر آتا ہے دوسرے نجومی نے کہا کہ مائیں کا خاوند کہیں باہر سے نہیں آئے گا، اور مائیں یہیں ہی رہے گی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ جو ہماری بہن کا خاوند ہوگا وہ ہمیں قتل کر دے گا۔۔۔ راجہ داہر نے پوچھا۔
بات صاف نہیں مہاراج!،،،،،،، نجومی نے کہا۔۔۔ یہ بالکل صاف ہے کہ مائیں کی شادی جس کسی کے ساتھ بھی ہوئی وہ سندھ کا راجہ ہوگا ۔
ہم نے اپنا فرض سمجھا ہے کہ مہاراج کو آنے والے وقت کے خطروں سے آگاہ کردیں۔۔۔ بڑے پنڈت نے کہا۔۔۔ مہاراج کچھ بندوبست کرلیں۔
راجہ داہر نے نجومیوں اور پنڈتوں سے یہ اگلوانے کی بہت کوشش کی کہ اس کی بہن کی شادی کے بعد اس کا انجام کیا ہو گا، لیکن نجومی اور پنڈت اس سے زیادہ کچھ بھی نہ بتا سکے جو وہ بتا چکے تھے، وہ پریشان ہو گیا ہندو نجومیوں اور پنڈتوں کی پیشن گوئیوں کو سو فیصد سچ مانا کرتے تھے، راجہ داہر تو کٹا برہمن تھا وہ نجومیوں کے نکالے ہوئے زائچے کو نظر انداز کرنے کی جرات ہی نہیں کرسکتا۔
نجومی اور پنڈت چلے گئے اور راجہ داہر کا سکون بھی ان کے ساتھ ہی چلا گیا، رات کو جب اس نے محسوس کیا کہ اسے نیند نہیں آئے گی تو اس نے اپنے وزیر کو بلایا ،اس کے وزیر کا نام بدہیمن تھا تاریخ میں لکھا ہے کہ راجہ داہر کو بدہیمن کی عقل و دانش پر مکمل بھروسہ تھا، وزیر جب اس کے پاس آیا تو اس نے بدہیمن کو نجومیوں کا نکالا ہوا زائچہ سنایا ۔
سوچو اور بتاؤ میں کیا کروں؟،،،،،، راجہ داہر نے اسے کہا۔۔۔ میری بہن کی شادی ہونے والی ہے کیا میں خود ہی اپنا اتنا بڑا ملک اپنے بہنوئی کے حوالے کر دوں، اس سے یہ ہوگا کہ میں زندہ رہوں گا، پھر میں کیا کروں گا؟ مہاراج!،،،،،، وزیر بدہیمن نے کہا ۔۔۔راجہ کا اپنی رعایا سے اپنی فوج سے اور اپنے ملک سے جدا ہو جانا اچھا نہیں ہوتا ،پانچ چیزیں ایسی ہیں جو پانچ چیزوں سے جدا ہو جائیں تو ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی ،بادشاہ تخت سے، وزیر وزارت سے ،پیر اپنے مرید سے، دانت منہ سے، بچہ ماں کی چھاتیوں سے، غور کریں مہاراج میں کیسے مشورہ دے دوں کہ آپ تخت سے دستبردار ہوجائے۔
میں پوچھ رہا ہوں میں کیا کروں۔۔۔ راجہ داہر نے پوچھا ۔
مہاراج وہ کریں جو آج تک کسی نے نہیں کیا بدھیمن نے کہا ۔۔۔اپنی بہن کے ساتھ خود شادی کرلیں، اور اسے رانی بنالیں، لیکن رشتہ خاوند اور بیوی کا ہوتے ہوئے بہن کو بہن سمجھیں بیوی نہ سمجھیں، ورنہ یہ بڑا پاپ ہوگا، شادی سے فائدہ یہ ہوگا کہ مہاراج کا کوئی بہنوئی نہیں ہوگا ،تو تخت و تاج کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
میرے دانشمند وزیر!،،،،،، راجہ داہر نے کہا۔۔۔ تمہارا مشورہ بہت قیمتی ہے، اس کے سوا کوئی اور علاج بھی نہیں لیکن لوگ بدنام کرینگے، طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔ مہاراج!،،،،،، بدہیمن نے کہا۔۔۔۔ تھوڑے عرصے کا واقعہ ہے ایک آدمی نے ایک بھیڑ کی پشم میں مٹی رکھی اور کھاد ڈالی اور اوپر سے تھوڑا سا پانی چھڑک کر اس میں رائی ڈال دی اس پر وہ پانی چڑھتا رہا کچھ دنوں بعد رائی پھوٹ آئی، بھیڑ کا مالک بھیڑ کو بازاروں میں لے جانے لگا، میں نے بھی یہ بھیڑ دیکھی تھی بھیڑ کو دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا ،پھر یوں ہوا مہاراج آٹھ دن بھیڑ کو دیکھ دیکھ کر لوگوں کی دلچسپی کم ہوگئی اور دیکھنے والوں کا ہجوم ختم ہوگیا ،تھوڑے دن اور گزرے تو لوگوں نے بھیڑ کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا ،بھیڑ ان کے سامنے سے گزر جاتی تھی تو کوئی اسے دیکھتا ہی نہیں تھا ،مہاراج کو سمجھنا چاہیے کہ لوگ کچھ دن باتیں کریں گے پھر چپ ہوجائیں گے، اور مہاراج یہ بھی سوچیں کہ کس کی ہمت ہے جو آپ کے سامنے آ کر بات کرے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>