⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴تیسری قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو چار روز بعد حجاج بن یوسف طائف سے واپس آگیا، اس کی سواری محل میں داخل ہوئی تو لبنیٰ دوڑتی ہوئی باہر نکلی ،حجاج گھوڑا گاڑی سے اترا تو لبنیٰ اس کے گلے لگ گئی، باپ نے بیٹی کو اپنے سینے کے ساتھ چپکا لیا، لبنیٰ کا منہ گھوڑا گاڑی کی طرف تھا اس سے ایک دراز قد گھٹے ہوئے جسم کا نوجوان اترا ،اس کا چہرہ مردانہ حسن کا شاہکار تھا اور اس چہرے پر وقار تھا ۔
لبنیٰ نے اپنے باپ کے گرد بازو بڑی سختی سے لپیٹ رکھے تھے اس کے باوجود ڈھیلے پڑ گئے اور اس کی نظریں اس نوجوان پر جم گئی۔
آگے آؤ محمد!،،،،،، حجاج نے اس نوجوان سے کہا۔۔۔ یہ ہماری بیٹی لبنیٰ ہے، اور دیکھو بیٹی یہ تمہارا چچا زاد ہے،،،، محمد بن قاسم،،،،، تم نے اسے پہلی بار دیکھا ہے، یہ میرے بھائی کی یاد گار ہے کچھ عرصہ ہمارے ساتھ رہے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم اپنے چچا حجاج بن یوسف کے محل میں رہنے لگا ،لبنیٰ اسے دیکھتی رہتی اور کبھی ایک آدھ بات کرلیتی، اس نے شرم و حجاب کا دامن نہ چھوڑا، ایک شام محمد بن قاسم باغ میں ٹہل رہا تھا اسے باغ کا ایک گوشہ اچھا لگا ،دو درخت تھے جن پر گھنی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں، یہ پھولدار بیلیں تھی بہار کا موسم تھا پھول کھلے ہوئے تھے، بیلوں نے چھت سے بنا رکھی تھی ۔
محمد بن قاسم کو یہ جگہ بڑی اچھی لگی وہ اس کے اندر جاکر بیٹھ گیا، لبنیٰ نے اسے دیکھ لیا اور وہ بھی ٹہلتی ٹہلتی وہاں پہنچ گئی۔
چھپ کر کیوں بیٹھ گئے ہو محمد!،،،،، لبنیٰ نے اس سے پوچھا۔
پھولوں کی یہ چھت اور پھولوں کی دیوار اچھی لگی تو بیٹھ گیا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔
میں بھی بیٹھ جاؤ ؟،،،،،، لبنیٰ نے پوچھا۔
نہیں !،،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔
کیوں؟
اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔۔چچا نے یا کسی اور نے دیکھ لیا تو ٹھیک نہیں ہوگا ،میں تمہارے ساتھ چھپ کر نہیں بیٹھونگا۔
چھپ کر تو میں بھی نہیں بیٹھنا چاہتی ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اور سوچ میں پڑگئی۔
وقت دیکھو۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ شام تاریک ہوگئی ہے ایسے وقت نوجوان لڑکے اور لڑکی کا تنہائی میں بیٹھنا مناسب نہیں ،کیا تم میری طرح ویسے ہی ادھر آ گئی ہو یا مجھے دیکھ کر آئی ہو۔
دیکھ تو ہر روز ہی لیتی ہوں تمہیں ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اکیلے دل گھبرا رہا تھا ،،،ایک بات بتاؤ گے، کیا تمہیں میں اچھی نہیں لگتی یا میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا؟
تمہارا یہاں آنا اچھا نہیں لگا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں تمہیں صاف بات بتا دیتا ہوں کہ تم مجھے اچھی لگتی ہو، تمہارے دل میں جو ہے وہ مجھے تمہاری آنکھوں میں اور تمہاری مسکراہٹ میں نظر آ رہا ہے، میرے دل میں بھی شاید یہی ہے۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اوٹ سے باہر آ گیا کہنے لگا آؤ میرے ساتھ چلو تاکہ کوئی دیکھ لے تو یہ نہ کہے کہ ہم چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
محمد!،،،،،، لبنیٰ نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔۔۔ تم اب کیا کرو گے؟
ارادوں کی تکمیل۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میری جو تربیت ہوئی ہے وہ مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی۔
کیا تم سالار بننا چاہتے ہو؟،،،، لبنیٰ نے پوچھا۔
میں کوئی رتبہ اور کوئی عہدہ نہیں چاہتا۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میرے ذہن میں میری آنکھوں کے سامنے ایک راستہ ہے اس پر کچھ لوگوں کے نقوش پا ہیں، راستہ کوئی بھی ہو اس سے ہزاروں لاکھوں لوگ گزرتے ہیں اور جو بھی گزرتا ہے وہ اپنے نقوش پا اس راستے پر چھوڑ جاتا ہے، گزرنے والے ایک دوسرے کے قدموں کے نشان مٹاتے چلے جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے قدموں کے نشان مٹی ہی نہیں سکتے، بھولے بھٹکے مسافر انہیں کے نقوش پا کو دیکھ کر منزل کو پہنچا کرتے ہیں ،میں بھی انہی کے نقوش پا کو دیکھ رہا ہوں۔
کون ہے وہ؟،،،، لبنیٰ نے پوچھا۔
خالد بن ولید ہے۔۔۔ محمد بن قاسم نے جواب دیا ۔۔۔سعد بن ابی وقاص ہیں، ابو بکر اور عمر ہیں، ایسے اور بھی کچھ نام ہیں میں ان کی روایات کو آگے بڑھانے کا عزم لئے ہوئے ہوں، میں سلطنت اسلامیہ کی سرحدیں اور دور تک لے جانے کا ارادہ کیے ہوئے ہوں، صرف سالار بن جانے کی خواہش نہیں میں اللہ کا سپاہی بننا چاہتا ہوں۔
لبنیٰ اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی اور وہ محمد بن قاسم کی ذات میں کھو گئی تھی۔ محمد بن قاسم کے بولنے کا انداز ایسا نہیں تھا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو، ان کے انداز میں عزم تھا۔
،،،،،، اور لبنیٰ،،،، وہ کہہ رہا تھا۔۔۔ میں اپنی ماں کے خواب کی تعبیر ہوں ،مگر تعبیر ابھی مکمل نہیں ہوئی مجھے وہ روشن ستارہ بننا ہے جو ماں نے خواب میں دیکھا تھا، وہ چلتے چلتے محل کے ایک برآمدے میں پہنچ گئے، محمد بن قاسم خاموش ہو گیا ۔
جاؤ لبنیٰ!،،،، محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔میں اکیلا اندر جاؤں گا۔
لبنیٰ اس کے آگے کھڑی ہو گئی اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا مجھے شاید تیرا ہی انتظار تھا محمد !،،،،لبنیٰ نے جذباتی اور روندھی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔جی چاہتا ہے تیری ہمسفر بن جاؤں،،،، قبول کرو گے؟
اگر اللہ کو منظور ہوا تو۔۔۔محمدبن قاسم نے کہا اور وہاں سے چل دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بہار کے دن تھے ان دنوں دارالخلافے میں مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے ان کھیلوں میں شہسواری، نیزہ بازی ، تیغ زنی، تیراندازی، اور کشتی خاص طور پر شامل تھی۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں فوج زیادہ تر جنگ و جدل میں مصروف رہی تھی جیسا کہ بتایا جاچکا ہے ،عبدالملک نے باغیوں کا خاتمہ کردیا تھا اس لیے اب اس کے بیٹے ولید بن عبدالملک کے دور میں امن و امان تھا فوج فارغ تھی اس لیے خلیفہ نے فوج میں یہ سرگرمی پیداکر دی تھی کہ ہر سال دارلخلافہ میں جنگی نوعیت کے کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے، یہ مقابلے اس قدر سخت ہوتے تھے کہ ان میں کوئی مر بھی جاتا تو مارنے والے سے باز پرس نہیں ہوتی تھی۔
ایک روز خلیفہ کا قاصد بصرہ میں حجاج بن یوسف کے لیے پیغام لایا کہ حجاج سالانہ کھیلوں میں شرکت کے لئے فوراً آئے۔ کھیلوں کے علاوہ سلطنت کے کچھ بحث طلب امور بھی تھے۔ حجاج بن یوسف خلیفہ کے اس بلاوے پر بہت خوش ہوا، خوشی کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو خلیفہ سے متعارف کرانا چاہتا تھا ،یہ تو وہ کسی بھی وقت کرا سکتا تھا لیکن سالانہ کھیلوں کے مقابلوں کا موقع اچھا تھا۔ وہ محمد بن قاسم کو میدان میں اتار کر خلیفہ کو اور فوج کے سالاروں کو دکھا سکتا تھا کہ اسکا بھتیجا اسی عمر میں اپنے آپ میں کیسے کیسے جوہر پیدا کرچکا ہے۔
محمد!،،،،، اس نے محمد بن قاسم سے کہا۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ تیغ زنی ،شہسواری اور بغیر ہتھیار لڑائی میں تمہیں کتنی کچھ مہارت حاصل ہوئی ہے، یہ موقع اچھا ہے میں تمہیں اس مقابلے میں شامل کروں تو مجھے شرمسار تو نہیں ہونا پڑے گا ۔
ہارجیت اللہ کے اختیار میں ہے چچا جان !،،،،محمد بن قاسم نے کہا۔۔۔ میں ہار نہیں مانو گا میدان میں ضرور اترونگا ۔
چلنے کی تیاری کرو۔۔۔ حجاج نے کہا۔
میں بھی چلوگی۔۔۔ لبنیٰ نے کہا ۔۔۔آپ مجھے کبھی بھی مقابلہ دکھانے نہیں لے گئے۔ حجاج بن یوسف اکلوتی بیٹی کو مایوس نہیں کرسکتا تھا اسے بھی اس نے ساتھ لے لیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج بن یوسف محمد بن قاسم اور لبنیٰ کے ساتھ دارالخلافہ پہنچا اس نے محمد بن قاسم کو خلیفہ کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ یہ کون ہے۔ خدا کی قسم ابن قاسم !،،،،خلیفہ نے کہا۔۔۔ تیرے باپ کو ہمارا خاندان کبھی نہیں بھلا سکتا ،اس نے ہماری خلافت کی آبرو پر قربانی دی تھی، وہ بہادر تھا ،وفادار تھا ،ہم امید رکھیں گے کہ تو اپنے باپ کے نقش قدم پر چلے گا۔
ابن یوسف!،،،،، خلیفہ نے حجاج سے کہا۔۔۔ اسے اپنے بھتیجے کو کسی کے مقابلے میں اتارو گے۔
اسی لیے تو اسے ساتھ لایا ہوں امیر المومنین!،،،، حجاج نے کہا ۔۔۔میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ کسی قابل ہوا ہے یا نہیں۔
اگر ہوا تو ہم اسے اس کے باپ کی جگہ دے دیں گے۔۔۔ خلیفہ نے کہا ۔
حجاج بن یوسف حاکم اعلی تھا اس کا عہدہ اور اس کے اختیارات آج کے گورنر سے زیادہ تھے اس عہدے کے مطابق خلیفہ نے اسے اپنے محل میں ٹھہرایا ،محمد بن قاسم کو بھی محل میں ہی جگہ دی گئی، اور لبنیٰ کو بیگامات میں بھیج دیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسی محل میں خلیفہ کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبدالملک رہتا تھا ، لبنیٰ کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اس نے اپنی خادمہ سے کہا کہ لبنیٰ کو بلا لائے۔ خادمہ نے آکر بتایا کہ لبنیٰ حجاج بن یوسف کے بھتیجے کے کمرے میں ہے۔
وہ جہاں کہیں ہے اسے لے آؤ۔۔۔سلیمان نے کہا۔۔۔ اسے کہو سلیمان تمہیں یاد کر رہا ہے۔
خادمہ چلی گئی اور جواب لائی کہ وہ ابھی نہیں آئے گی۔
کہاں تھی وہ؟،،،،، سلمان نے پوچھا ۔۔۔کیا کر رہی تھی۔
حاکم اعلی کے بھتیجے کے پاس بیٹھی ہے۔۔۔ خادمہ نے جواب دیا۔۔۔ اس کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہے۔
حجاج کے بھتیجے نے بھی کچھ کہا ہو گا۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ پھر اس کمرے میں نہ آنا۔۔۔ خادمہ نے کہا۔ سلیمان غصے سے لال پیلا ہونے لگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسی شام کا واقعہ ہے لبنیٰ محل کے باغ کے ایک گوشے میں چلی گئی وہاں رنگا رنگ پھول تھے وہ باغ کا بہت ہی خوبصورت حصہ تھا ،لبنیٰ کو اچھا لگا تھا اس لیے وہاں چلی گئی تھی اسے وہاں ٹہلتے ہوئے ابھی تھوڑا سا وقت ہی گزرا تھا کہ پیچھے سے کسی نے آ کر دونوں ہاتھ اس کی آنکھوں پر رکھ دئیے، ہاتھ مردانہ تھے لبنیٰ نے ہستے ہوئے ان ہاتھوں پر ہاتھ پھیرے ،چلو پہچان لیا لبنیٰ نے کہا ۔۔۔محمد۔
اس کی آنکھوں سے دونوں ہاتھ نیچے کو سرک گئے پھر یہ ہاتھ پیچھے ہٹ گئے ۔
لبنیٰ نے گھوم کے دیکھا۔
اوہ سلیمان!،،،،، لبنیٰ نے کہا۔۔۔ مجھے امید تھی تم آؤ گے۔
تمہیں امید تھی کہ ابن قاسم آنے والا ہے۔۔۔ سلیمان نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔تمہارے منہ سے اسی کا نام نکلا ہے۔
کیا اس کا نام لینا گناہ ہے۔۔۔ لبنیٰ نے کہا۔ لیکن کسی کو دھوکے میں رکھنا گناہ کبیرہ ہے۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔ مجھے دھوکے میں نہ رکھو لبنیٰ!،،،، تمہیں میرے اور ابن قاسم کے درمیان فیصلہ کرنا ہوگا ،فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا میں نے خلیفہ بننا ہے، اور ابن قاسم میرا ملازم ہو گا ،میں اسے سالار سے سپاہی بنا سکتا ہوں ،اسے بھکاری بنا سکتا ہوں ،کیا دیکھا ہے تم نے اس میں جو مجھ میں نہیں۔
اسکی محبت میں دھونس نہیں۔۔۔ لبنیٰ نے کہا۔۔۔ میں اسے اس وقت بھی چاہوں گی جب وہ سالار ہوگا، اور جب وہ سپاہی ہو گا تو میں اسے پہلے سے زیادہ چاہو گی ،اور جب تم اسے بھکاری بنا دو گے تو میں اسے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے دوں گی، میری محبت عہدوں اور رتبوں کی پابند نہیں ۔
لبنیٰ وہاں سے چل پڑی سلیمان اس کے پیچھے لپکا اور اس کا بازو پکڑ لیا، اب وہ محبت کی بھیک مانگنے لگا ،لبنیٰ کو بچپن کی محبت یاد دلانے لگا ۔لبنیٰ وہاں رکنا نہیں چاہتی تھی اور سلیمان اسے جانے نہیں دے رہا تھا لپک لپک کر اسے پکڑتا تھا ۔
سلیمان !،،،،،،ایک بھاری بھرکم سی آواز آئی۔
سلیمان اور لبنیٰ نے ادھر دیکھا پھولوں کے پیچھے حجاج بن یوسف کھڑا تھا ۔
اچھا ہوا کہ میں نے خود دیکھا ہے۔۔۔ حجاج نے کہا۔۔۔ اور میں نے اپنے کانوں سنا جو تم نے کہا اور جو میری بیٹی نے کہا، میرے عزیز جوانی اندھی ہوتی ہے میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا صرف یہ کہوں گا کہ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے سکتا ،یہ فیصلہ میرا ہوگا میری بیٹی کا نہیں، تم جانتے ہو تمہاری عمر کا میرا اپنا بھتیجا ہے وہ میرے بھائی کی نشانی ہے "محمد بن قاسم" میری بیٹی اس کی بیوی بنے گی۔
لبنیٰ سر جھکائے کھڑی تھی حجاج نے اسے اپنے ساتھ لیا اور چلا گیا ۔
سلیمان وہیں کھڑا انہیں دیکھتا رہا اس کے چہرے پر جو تاثر آ گیا تھا وہ بتا رہا تھا کہ اس نوجوان کا خون ابل رہا ہے اور وہ سوچ رہا ہے کہ اس لڑکی کو کس طرح حاصل کرے اور حجاج اور محمد بن قاسم کو نیچا دکھائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو دنوں بعد یوں لگتا تھا جیسے تمام تر عرب کے لوگ اس شہر میں اکٹھے ہوگئے ہیں باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے میدانوں میں خیمے کھڑے کر رکھے تھے، جدھر نگاہ جاتی انسان گھوڑے اور اونٹ نظر آتے تھے، شہر کی گلیوں اور بازاروں میں چلنے کا راستہ نہیں ملتا تھا ،بہت ہی وسیع و عریض میدان تھا انسانوں اور گھوڑوں اور اونٹوں کا یہ سمندر اس میدان کے اردگرد سمٹ آیا تھا، ایک طرف ایک لمبا چبوترا بنا ہوا تھا اس پر شامیانے لگے ہوئے تھے ان کے نیچے کرسیاں رکھی تھیں سب سے آگے ایک شاہانہ کرسی تھی جس پر خلیفہ ولید بن عبدالملک بیٹھا تھا ،اس کے دائیں اور بائیں اس کی بیگمات بیٹھی تھیں، ان کے ساتھ حجاج بن یوسف بیٹھا تھا اس کے ساتھ اس کی بیٹی لبنیٰ بیٹھی تھی ،باقی کرسیوں پر سالار اور شہری انتظامیہ کے حاکم بیٹھے تھے ان میں مختلف قبیلوں کے سردار بھی تھے ،ہزارہا تماشائی میدان کے ارد گرد زمین پر بیٹھے یا کھڑے تھے، اونٹوں اور گھوڑوں پر بھی آدمی بیٹھے ہوئے تھے، خلیفہ کے اشارے پر سالانہ مقابلوں کاسلسلہ شروع ہو گیا فوج کے دستوں کے آدمی باری باری آتے اپنے مد مقابل کو للکارتے اور اس طرح تیغ زنی، شہسواری وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے ۔
تلواروں سے لڑنے والوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں اور بھالے بھی، زیادہ تر بھالے چمڑے کے بنے ہوئےتھے ، تیغ زنی میں کئی آدمی بری طرح زخمی ہوئے۔
شہسواری کے مقابلے بھی دلچسپ تھے ہر سوار اپنے کرتب دکھاتا گزر جاتا تھا ،پھر سواروں کی لڑائی کے مقابلے ہوئے۔
محمد بن قاسم نہ چبوترے پر کرسیوں پر بیٹھے ہوئے مہمانوں میں تھا نہ دوسرے تماشائیوں میں، سلیمان بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا، تماشائیوں کا داد و تحسین کا شور اتنا زیادہ تھا کہ اپنی آواز بھی نہیں سنائی دیتی تھی، میدان میں دوڑتے گھوڑے اور اونٹ اتنی گرد اڑا رہے تھے کہ اس میں وہ چھپ جاتے تھے۔
میدان خالی کرو۔۔۔ ایک اعلان سنائی دیا ۔۔۔میدان میں کوئی نہ رہے ۔۔۔یہ اعلان بار بار ہوا تو میدان خالی ہوگیا گرد کم ہوتے ہوتے ختم ہو گئی۔
ایک طرف سے ایک گھوڑا نکلا اس پر مخمل کی چادر پڑی ہوئی تھی جو گھوڑے کی گردن سے دم تک گئی ہوئی تھی اور دائیں بائیں رکابوں سے ذرا نیچے تک لٹک رہی تھی، اس کا رنگ گہرا سبز تھا یہ جنگی گھوڑا تھا جس کے قدموں تلے زمین ہلتی محسوس ہوتی تھی۔
اس کی پیٹھ پر ایک نوجوان سوار بیٹھا تھا اس کے سر پر لوہے کی خود تھی ،اس کے ہاتھ میں برچھی تھی، لیکن اس کے آگے انی نہیں تھی انی کی جگہ گولا سا بنا ہوا تھا جس پر چمڑا چڑھا ہوا تھا ،سواری کی کمر سے تلوار لٹک رہی تھی، گھوڑا میدان میں ایک چکر میں پھرا۔
اس کا سوار شاہی خاندان کا لگتا تھا۔
کیا طائف کا کوئی سوار میرے مقابلے میں آنے کی جرات کرے گا؟،،،،، سوار نے بلند آواز میں للکار کر کہا۔۔۔ یہ گھوڑسوار خلیفہ کا چھوٹا بھائی سلیمان بن عبدالملک تھا ،اس نے طائف کا نام خاص طور پر لیا تھا اس نے دراصل محمد بن قاسم کو للکارا تھا ،جو طائف کا رہنے والا تھا، تماشائیوں میں سے ایک گھوڑا نکلا یہ گھوڑا بھی اعلیٰ نسل کا جنگی گھوڑا تھا اور اس کا سوار بھی نوجوان تھا اس کے ہاتھ میں برچھی تھی اور کمر سے تلوار لٹک رہی تھی۔
آ ابن عبدالملک!،،،،، سوار للکارا ۔۔۔طائف کے قاسم بن یوسف کا بیٹا تیرے مقابلے میں آیا ہے، دونوں دور جاکر آمنے سامنے ہوئے اور ایک دوسرے کی طرف سر پٹ دوڑے دونوں نے گولوں والی پرچھی ایک دوسرے کی طرف آگے کر لی، برچھی مارکر مدمقابل کو گھوڑے سے گرانا تھا، قریب آکر سلیمان نے برچھی ماری محمد بن قاسم وار بچا لے گیا، دور جا کر گھوڑے پیچھے کو موڑے اور ایک دوسرے کی طرف دوڑے تماشائیوں پر سناٹا طاری تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان سواروں میں ایک امیرالمومنین کا بھائی ہے، دوسرے کو ابھی عام لوگ نہیں جانتے تھے۔
اب محمد بن قاسم نے رکابوں میں کھڑے ہوکر برچھی ماری سلیمان نے بچنے کی کوشش کی لیکن برچھی اس کے پیٹ پر لگی اور وہ گھوڑے سے گرنے لگا اس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی لیکن سنبھل نہ سکا اور گھوڑے سے کود گیا ،برچھی سے وہ زخمی نہیں ہوا تھا کیونکہ برچھی کے آگے چمڑے کا گولا تھا یہ مقابلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا ابھی تلواروں کی لڑائی باقی تھی، محمد بن قاسم گھوڑے سے اتر آیا اور تلوار نکال لی ادھر سے سلیمان تلوار نیام سے نکال کر آیا ،قریب آ کر دونوں کی تلوار ٹکرانے لگیں ،دونوں اس طرح پینترے بدلتے اور ایک دوسرے کے وار تلواروں پر روکتے تھے کہ یہ مقابلہ ہار جیت کے بغیر ختم ہوتا نظر آتا تھا ۔
ابن قاسم !،،،،،،سلیمان نے محمد بن قاسم سے کہا ۔۔۔اگر تو گر پڑا یا تیری تلوار گر پڑی تو میں تلوار تیرے سینے میں اتار دوں گا۔
سلیمان رقابت کی آگ میں جل رہا تھا کھیل کھیل میں وہ محمد بن قاسم کو قتل کرنے پر تلا ہوا تھا ۔
محمد بن قاسم نے کوئی جواب نہ دیا۔
اچانک محمد بن قاسم نے سلیمان پر بڑی تیزی سے وار کرنے شروع کردیے سلیمان کی گھبراہٹ صاف نظر آرہی تھی وہ اب وار صرف روک رہا تھا۔
محمد بن قاسم نے اسے وار کرنے کی مہلت نہیں دے رہا تھا، اس کا ایک وار ایسا پڑا کہ سلیمان نے تلوار پر روک تو لیا لیکن اس کے ہاتھ سےتلوار چھوٹ کر دور جا پڑی ،وہ اپنی طرف کی طرف لپکا لیکن محمدبن قاسم نے اسے تلوارنہ اٹھانے دی، سلیمان خالی ہاتھ تھا۔
محمد بن قاسم نے ایک دو وار کئے تو سلیمان پیچھے ہٹتے گرپڑا ،محمد بن قاسم نے اپنا ایک پاؤں اس کے سینے پر رکھ کر تلوار کی نوک اس کی شہ رگ پر رکھ دی۔
ہاتھ روک لے محمد!،،،،، حجاج نے گرج کر کہا۔
میں تجھے زندہ رہنے دیتا ہوں۔۔۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔۔۔بنی ثقیف کی قسم تو پھر کبھی طائف کی غیرت کو نہیں للکارے گا۔
میں زندہ رہا تو تیرے جیسا بدنصیب کوئی نہ ہوگا ۔۔۔سلیمان نے اٹھ کر کہا ۔
سلیمان بن عبدالملک کے یہ الفاظ محض کھوکھلی دھمکی نہیں تھے، یہ اس کا عہد تھا اور اس عہد نے ہندوستان کی تاریخ بدل ڈالی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>