⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴دوسری قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محمد بن قاسم جب پیدا ہوا تو خوشیوں پر غم کے بادل چھائے ہوئے تھے ،نومولود کا باپ اس خوشی میں شریک نہیں تھا بچے کی ماں اور سب غمگین تھے کہ بچہ یتیم پیدا ہوا تھا۔ حجاج بن یوسف کو اطلاع ملی تو وہ فوراً پہنچا اسے بچہ دکھایا گیا وہ بچے کو ہاتھوں پر اٹھائے اندر گیا۔
اس بچے کا باپ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔۔۔ حجاج نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہا۔۔۔ لیکن اسے یتیم نہ سمجھنا میں زندہ ہوں سمجھ لے کے اس کا باپ زندہ ہے، تو جانتی ہے قاسم مجھے کتنا پیارا تھا اس نے مجھے تیرا خواب اور اسحاق بن موسی کی پیشن گوئی بتائی تھی، اسے طائف کا نہیں سرزمین عرب کا روشن ستارہ بننا ہے، اپنے آپ کو بیوہ اور بے آسرا نہ سمجھنا ،اس بچے کے دادا کے خون کی قسم جو اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے میں اس کی تعلیم و تربیت ایسی کرونگا کہ صدیوں بعد آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی یہ زندہ رہے گا ۔
حجاج بن یوسف کے یہ الفاظ رسمی یا جذباتی نہیں تھے اس نے بچے کی تعلیم و تربیت کا شاہانہ انتظام کیا تھا، اس کے لئے منتخب اتالیق رکھے تھے ،بچپن سے ہی بچے کو جنگی تربیت دی جانے لگی تھی ،اس کے کھلونے چھوٹی چھوٹی تلواریں اور برچھیاں اور کمانیں تھیں، جو اس کی عمر کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی گئی تربیت میں گھوڑ سواری خاص طور پر شامل تھی۔
بچہ باپ کی جو کمی محسوس کررہا تھا وہ ماں پوری کرتی تھی لیکن وہ اسے اپنے ساتھ چپکاتی نہیں تھی بلکہ پیار پیار میں اسے مرد بناتی تھی ،حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہہ رکھا تھا کہ اپنے بھائی کے بچے کو معمولی سپاہی نہیں بلکہ سالار بنائے گا ،اور سالار بھی ایسا جو صرف فوج کی کمان نہیں کرے گا بلکہ حکومت کرے گا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج بن یوسف غیر معمولی ذہانت کا مالک تھا اور اپنا حکم منوانے کے لئے ظلم و تشدد پر بھی اتر آتا تھا، یہی اوصاف کی بدولت اسے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے پہلے حجاز کا پھر حجاز، عراق ،بلوچستان اور مکران کا حاکم اعلیٰ (گورنر) بنا دیا تھا، خلیفہ کو حجاج کے ان اوصاف کا علم ایک واقعے سے ہوا تھا۔
واقعہ یوں ہوا تھا کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان کی فوج میں نظم و نسق کی کمی تھی اس فوج میں خرابی یہ تھی کہ اسے کوچ کے لئے حکم ملتا تو کوچ کی تیاری میں ہی بہت سا وقت ضائع کر دیتی تھی، اسے معلوم تھا کہ اسلامی فوج میں یہ خوبی ہوا کرتی تھی کہ اس کا کوچ ایسا برق رفتار ہوتا تھا کہ دشمن حیران رہ جاتا تھا اور بے خبری میں مارا جاتا تھا، خلیفہ عبدالملک کا وزیر روح بن عنباع تھا۔
روح بن رنباع!،،،،، ایک روز خلیفہ نے وزیر سے کہا۔
کیا میری فوج میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو اس میں نظم و نسق پیدا کرکے اسے چاک و چوبند بنادے۔
ایک آدمی پر میری نظر ہے امیرالمومنین !،،،،روح بن رنباع نے کہا۔
اسے آزما کر دیکھ لیتے ہیں کون ہے وہ ؟
اس کا نام حجاج بن یوسف ہے امیرالمومنین!،، روح بن رنباع نے کہا۔۔۔۔ طائف کے جنگجو خاندان کا فرد ہے وہ فوج میں ہے لیکن اس کا کوئی عہدہ نہیں، دوسروں سے مختلف اور عقل والا معلوم ہوتا ہے ۔
اسے میرے پاس بھیج دو ۔۔۔خلیفہ نے حکم دیا۔
حکم کی تعمیل ہوئی حجاج بن یوسف خلیفہ کے سامنے جا کھڑا ہوا ،ڈیل ڈول اور چہرے سے حجاج نے خلیفہ کو متاثر کر لیا۔
ابن یوسف !،،،،،خلیفہ نے حجاج سے کہا۔۔۔ اگر میرے ایک حکم کی تعمیل کرا سکو تو بہت بڑا عہدہ دوں گا۔
حکم امیرالمومنین!،،،،،، حجاج بن یوسف نے کہا۔۔۔۔فوج اس طرح تیار رہے کہ میں گھوڑے پر سوار ہو کر کسی طرف کوچ کے لیے نکلوں تو فوج گھوڑوں پر سوار ہو کر میرے پیچھے چل پڑے، خلیفہ نے کہا مجھے انتظار نہ کرنا پڑے، ہم کوچ سے تھوڑی دیر پہلے تمہیں بتائیں گے۔
اسی روز یا اس سے اگلے روز خلیفہ نے اچانک حجاج کو بلا کر حکم دے دیا کہ اس کی سواری تھوڑی دیر میں نکل رہی ہے، اور فلاں فلاں دستہ گھوڑوں پر سوار ہو کر اس کے ساتھ جائے گا ،وزیر روح بن رنباع بھی اپنے محافظ دستے کے ساتھ میرے ساتھ آئے ،خلیفہ نے کہا۔
یہ غالبا حجاج کا امتحان تھا فوج خیموں میں تھی حجاج بن یوسف مطلوبہ دستوں کے خیموں میں گیا اور اعلان کیا کہ امیرالمومنین کی سواری نکل رہی ہے اور دستے جنگی تیاری میں گھوڑوں پر سوار ہو جائیں ،حجاج نے دیکھا کہ وزیر اپنے خیمے میں موجود ہی نہیں، وہ تین کمانڈر بھی اپنے خیموں میں نہیں تھے، سپاہی گپ شپ لگا رہے تھے بعض کھانا پکا رہے تھے، انہوں نے جیسے اعلان سنا ہی نہ ہو ،حجاج چلاتا رہا تھا۔
اوئے حجاج !،،،،،،ایک سپاہی نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔۔۔ کیوں گلا پھاڑ رہے ہو ادھر آؤ کھانا کھا لو۔
حجاج نے کہیں سے ایک ہنٹر لے لیا اور کھانے پر مدعو کرنے والے سپاہی کو ہنٹر مارنے شروع کر دیے، پھر اس نے جس سپاہی کو بیٹھے دیکھا اسے دو تین ہنٹر مارے، وہ کہتا جاتا تھا میں امیرالمومنین کا حکم سنا رہا ہوں۔ اس نے پھر بھی سپاہیوں میں سستی دیکھی تو اس نے دو تین خیموں کو آگ لگادی ان میں ایک خیمہ وزیر کا تھا، کسی نے وزیر کو جہاں کہیں وہ تھا جا کر بتایا کہ اس کا خیمہ جل رہا ہے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مطلوبہ دستے بروقت تیار ہو کر گھوڑوں پر سوار ہو گئے خلیفہ کی سواری نکلی تو سوار دستے اس کی قیادت میں چلنے کو تیار تھے۔ وہ بہت خوش ہوا مگر وزیر روح بن رنباع خلیفہ کے آگے جا کھڑا ہوا۔
امیرالمومنین!،،،،، وزیر نے خلیفہ سے شکایت کی۔۔۔ حجاج بن یوسف نے میرا خیمہ اور دو اور خیمے جلا دیے، اور اس نے تین چار سپاہیوں کو کوڑے مارے ہیں ،اس کا کوئی عہدہ نہیں اور مجھے یقین ہے کہ امیرالمومنین نے اسے حکم نہیں دیا ہوگا ۔
خلیفہ نے حجاج کو بلوایا ۔
کیا یہ صحیح ہے کہ تو نے خیموں کو آگ لگائی ہے۔۔۔ خلیفہ نے پوچھا ۔
امیرالمومنین!،،،، حجاج نے جواب دیا۔۔۔ مجھ غلام کو ایسی جرات نہیں ہو سکتی کہ خیموں کو آگ لگا دوں، میں نے کسی کا خیمہ نہیں جلایا۔
کیا تو نے سپاہیوں کو کوڑے مارے ہیں؟،،،، خلیفہ نے پوچھا۔
نہیں امیرالمومنین !،،،،،حجاج نے جواب دیا۔۔۔ میں نے کسی کو کوڑے نہیں مارے۔
خلیفہ کو جلے ہوئے خیمے دکھائے گئے پھر انہیں ان سپاہیوں کی پیٹھ ننگی کر کے دکھائی گئی جنہیں حجاج نے کوڑے مارے تھے۔
ابن یوسف !،،،،خلیفہ نے حجاج سے پوچھا۔۔۔ تو نے نہیں تو کس نے یہ خیمے جلائے ہیں، کس نے سپاہیوں کو کوڑے مارے ہیں ؟
آپ نے امیرالمؤمنین !،،،،،،حجاج نے کہا۔۔۔ آپ نے جلائے ہیں ،اور کوڑے بھی آپ نے،،،،،،،،، خاموش!،،،،،، خلیفہ نے گرج کر کہا۔۔۔ تو پاگل معلوم ہوتا ہے۔
امیرالمومنین!،،،،، حجاج نے کہا ۔۔۔جو کچھ ہوا آپ کے حکم پر ہوا ،آپ فوج میں تیزی اور مستعدی چاہتے تھے یہی ایک طریقہ تھا جس سے میں آپ کا حکم منوا سکتا تھا ،میرا ہاتھ آپ کا ہاتھ تھا، میرے ہاتھ میں کوڑا آپ کا تھا، میرا خیمے کو جلانے والی آگ آپ کی آگ تھی ،میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔
خدا کی قسم!،،،،، خلیفہ عبدالملک نے پرجوش لہجے میں کہا ۔۔۔مجھے اسی آدمی کی ضرورت تھی۔ خلیفہ نے حجاج بن یوسف کو اعلی عہدہ دے دیا یہ حجاج کے ظلم و تشدد کی ابتدا تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تھا حجاج بن یوسف اور یہ تھی اس کی ذہانت اور اس کا کردار ،اور یہ تھا حجاج بن یوسف جس نے اپنے بھائی قاسم بن یوسف کے بیٹے محمد بن قاسم کی تعلیم و تربیت اپنے ذمے لے رکھی تھی اور بچے کو ایک خاص سانچے میں ڈھال رہا تھا۔
755 عیسوی میں خلیفہ عبد الملک بن مروان فوت ہو گیا تو اس کا بڑا بیٹا ولید بن عبدالملک مسند خلافت پر بیٹھا، وہ اپنے باپ جیسا ذہین اور مدبر نہیں تھا، یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ اس کے باپ نے بغاوتوں اور سرکشی کو دبا دیا تھا، خارجیوں کا گلا بھی گھونٹ دیا گیا تھا، اس کے علاوہ فوج میں قتیبہ بن مسلم، موسیٰ بن نصیر ،اور مسلم بن عبدالملک جیسے نڈر اور منجھے ہوئے سالار موجود تھے۔
نئے خلیفہ کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ اسے حجاج بن یوسف جیسا جابر اور دانشمند مشیر حاصل تھا، جو بہترین منظم اور تجربے کار سالار بھی تھا ،اور وہ تمام تر مشرقی علاقوں کا گورنر تھا ،حجاج نے خلیفہ ولید بن عبدالملک کی کمزوریوں کو بھانپ لیا تھا، اس نے خلیفہ کی کمزور رگوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس پر چھا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک بار حجاج طائف گیا وہ ایک عرصے بعد طائف گیا تھا، محمد بن قاسم کی ماں کو اطلاع ملی تو وہ حجاج سے ملنے اس کے گھر گئی۔
تو خود ہی کیوں چلی آئی ہے۔۔۔ حجاج نے اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کو دیکھ کر کہا۔۔۔ کیا تو یہ سمجھتی تھی کہ میں تیرے گھر نہیں آؤں گا، اور تجھ سے نہیں کہوں گا کہ میرے بھائی کی امانت مجھے دکھا، کہاں ہے محمد میں نے اسے دیکھنے خود آنا تھا۔
اللہ میرے بھائی کو اپنی رحمت میں رکھے۔۔۔ محمد بن قاسم کی ماں نے کہا ۔۔۔میں نے اسے نیا گھوڑا لے دیا ہے پہلے وہ بھلے مانس سے گھوڑے کی سواری کرتا رہا ہے ،اب جو گھوڑا اسے لے دیا ہے کوئی شہسوار ہی اس پر سواری کر سکتا ہے ،محمد جوان ہو گیا ہے اسے اب جنگی گھوڑے کی سواری کرنی چاہیے ،وہ گھوڑا لے کے نکل گیا ہے، اللہ کرے گھوڑا اس کے قابو میں رہے، بڑا زبردست گھوڑا ہے۔
اللہ کرے وہ گرے ۔۔۔حجاج نے کہا ۔۔۔اسے گر کر اٹھنے کی تربیت ملنی چاہیے، شہسوار گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں گھوڑے کے قدموں تلے آکر بنا کرتے ہیں، اور میری بہن وہ گر کر واپس آیا تو اسے سینے سے نہ لگانا اس کا خون بہ رہا ہو تو اپنی اوڑھنی پھاڑ کر اس کے زخموں پر نہ باندھنا، اس پر ممتا کا تاثر طاری نہ کر دینا ،اسے اپنا خون دیکھنے دینا اور اسے بتانا کے یہ خون کس کا ہے ،میں تیرے گھر آ رہا ہوں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کچھ دیر بعد حجاج بن یوسف ادھر جا رہا تھا محمد بن قاسم کی ماں کو اطلاع ملی تو وہ اس کے استقبال کے لیے باہر آگئی۔
حجاج اس کے مرحوم خاوند کا بڑا بھائی ہی نہ تھا بلکہ آدھی سلطنت کا حاکم اعلیٰ تھا، وہ محمد بن قاسم کے شاہانہ مکان میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ اسے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دیے اس نے ادھر دیکھا ایک سوار گھوڑا دوڑاتا آ رہا تھا، حجاج اسے دیکھنے کو رک گیا ،محمد بن قاسم کی ماں اس کے پاس کھڑی تھی۔
سوار ان کے قریب سے گزر گیا اس نے گھوڑے کی رفتار کم نہ کی اس نے حجاج کی طرف دیکھا ہی نہیں ،حجاج کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار آگئے ،صاف پتہ چلتا تھا کہ سوار کے اس طرح قریب سے گزر جانے کو اس نے بدتہذیبی سمجھا تھا ،وہ قبیلہ ثقیف کا سرکردہ فرد تھا طائف کے لوگ اس کی بہت عزت کرتے تھے۔
معلوم ہوتا ہے میرے قبیلے کے بیٹے مجھے بھول گئے ہیں۔۔۔ حجاج نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہا۔۔۔ یہ لڑکا مجھے مرغوب کرنے کے لئے میرے پاس سے گزر گیا ہے، تم جانتی ہو گی یہ کس کا بیٹا ہے۔
اپنا ہی بیٹا ہے۔۔۔ محمد بن قاسم کی ماں نے کہا۔۔۔ محمد ہے۔
نہیں!،،،، حجاج نے حیرت سے کہا ۔۔۔ہمارا بیٹا اتنا بڑا نہیں ہو سکتا محمد کو تو میں چھوٹا سا چھوڑ کر گیا تھا۔
کچھ دور جاکر محمد بن قاسم نے گوڑا موڑا اور واپس اسی رفتار سے آیا گھوڑا اتنا تیز تھا کہ اس نے اب پھر آگے نکل جانا تھا ،لیکن حجاج اور اپنی ماں کے قریب آکر محمد بن قاسم نے گھوڑا روک لیا ،وہ گھوڑے سے کودا اور حجاج کی طرف دوڑا، حجاج نے اسے گلے لگا لیا۔
گھوڑا اچھا ہے۔۔۔ حجاج بن یوسف نے کہا۔۔۔ اور سوار اس سے زیادہ اچھا ہے۔
میں نے آپ کو دکھانے کے لئے پہلے گھوڑا نہیں روکا تھا۔ محمد بن قاسم نے کہا ۔
خدا کی قسم !،،،،،حجاج نے کہا۔۔۔ میں نے تمہیں پہچانا ہی نہیں تھا ۔
وہ اندر چلے گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب تیرا بیٹا جوان ہو گیا ہے۔۔۔ حجاج نے محمد بن قاسم کی ماں سے کہا۔۔۔ اسے میں اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔
محمد بن قاسم کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ،محمد بن قاسم کی عمر ابھی سولہ سال نہیں ہوئی تھی، ماں کی نظروں میں وہ ابھی بچہ تھا، لیکن ذہن اور جسم کے لحاظ سے وہ جوان ہو گیا تھا ۔
عزیز بہن!،،،،، حجاج نے کہا تجھے یہ امانت قوم کے حوالے کرنی ہی پڑے گی، محمد تیرا نہیں اسلام کا بیٹا ہے ،اسے اپنے باپ کی جگہ لینی ہے، اسے اور زیادہ اوپر اٹھنا ہے، اسے عالم اسلام کا چمکتا ہوا ستارہ بننا ہے۔
میں بھی ایسے ہی خواب دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ماں نے کہا۔۔۔ میں نے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کررکھا ہے جس روز میرا لخت جگر مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے گا۔
میں اسے اپنے ساتھ بصرہ لے جاؤں گا اس کی عسکری تربیت اور دوسری تعلیم مکمل ہو چکی ہے، اسے اب عملی زندگی میں ڈالنا ہے اور اسے امراء کی محفلوں میں لے جانا ہے، اور اسے جنگی مشقوں میں شامل کرنا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حجاج کا صدر مقام بصرہ تھا، اس کا مکان ایک محل تھا اور یہ بادشاہوں کے محلات جیسا تھا ۔ حجاج کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام لبنیٰ تھا، حجاج جب طائف گیا تو لبنیٰ بصرہ میں رہی، وہ کمسن تھی رات کو اس کے کمرے کی ایک بند کھڑکی پر باہر سے ہلکی سی دستک ہوئی، لبنیٰ اس دستک کے انتظار میں تھی، وہ سو گئی تھی لیکن اس ہلکی سی دستک پر بھی اس کی آنکھ کھل گئی۔
اس نے کھڑکی کھولی اور باہر کو جھکی اس نے کھڑکی میں سے نکلنے کے لئے پاؤں کھڑکی میں رکھے باہر سے دو مردانہ ہاتھ آگے بڑھے، لبنیٰ نے اپنے حسین جسم کا بوجھ ان ہاتھوں پر ڈال دیا اور ان ہاتھوں نے اسے اٹھا کر باہر کھڑا کردیا ،پھر ان ہاتھوں نے اسے سمیٹ کر بازوؤں میں جکڑ لیا ۔
یہاں سے چلے چلو۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔دروازہ اندر سے بند ہے،،،،،،،کھڑکی بند کر دو سلیمان !
سلیمان نے کھڑکی کے کواڑ بند کردیئے اور دونوں محل کے باغ میں چلے گئے سلیمان اس وقت کے خلیفہ ولید بن عبدالملک کا چھوٹا بھائی تھا اس کی عمر سولہ سترہ سال تھی، لبنیٰ کی عمر بھی اتنی ہی تھی دونوں ایک ہی مدرسے میں پڑھتے رہے تھے، بچپن میں ہی لبنیٰ سلیمان کے دل میں گھر کرگئی تھی۔ جوانی میں داخل ہوتے تو اس کی ملاقاتوں پر پابندی عائد ہوگئی ،دونوں شاہی خاندان کے تھے، انھیں ایسا کوئی ڈر نہ تھا کہ وہ بد نام ہو جائیں گے، روایت ایسی تھیں جو انہیں کھلے بندوں ملنے سے روکتی تھی ،اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لبنیٰ اپنے باپ حجاج سے ڈرتی تھی، وہ طبیعت کا بہت سخت۔
ہم اس طرح کب تک ملتے رہیں گے قمر!،،،،، سلیمان نے لبنیٰ سے کہا۔۔۔ وہ لبنیٰ کو پیار سے قمر کہاکرتاتھا ۔۔۔میں بھائی سے کہہ دوں کہ ہماری شادی کرادے۔
تمہارے بھائی تو شاید مان لیں گے ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میرے ابا مانیں گے یا نہیں۔
کیا وہ امیر المومنین کے بھائی کو اپنی بیٹی دینے سے انکار کر دیں گے۔۔۔ سلیمان نے پوچھا ۔
کیا تم انہیں جانتے نہیں۔۔۔ لبنیٰ نے کہا ۔۔۔وہ اپنے فیصلے خود کیا کرتے ہیں ، انہوں نے خلیفہ کا رعب کبھی قبول نہیں کیا۔
اگر انہوں نے تمہارے لئے کوئی اور آدمی منتخب کرلیا تو کیا کروں گی؟
اس کے حکم کی تعمیل کروں گی۔۔۔ لبنیٰ نے کہا ۔
کیا تمہیں افسوس نہیں ہوگا کہ تم امیرالمومنین کے بھائی کی بیوی نہ بن سکی۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔۔ تم جو فخر میری بیوی بن کر کر سکو گی وہ کسی اور سے نہیں حاصل ہوگا ۔
سلیمان !،،،،،،لبنان نے کہا۔۔۔ ہم بچپن میں ایک دوسرے کو چاہتے تھے اس وقت تم امیرالمومنین کے بیٹے تھے لیکن میں نے تمہیں اس لئے نہیں چاہا تھا کہ تم شہزادے ہو، تم میرے دل کو اچھے لگے تھے اگر تم گڈرئیے کے بیٹے ہوئے تو بھی میں تمہیں شہزادہ سمجھتی، اس وقت تم نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ میں کس کی بیٹی ہوں ۔
یہ تو میں آج بھی نہیں سوچ رہا کہ تم حاکم اعلیٰ کی بیٹی ہو۔۔۔سلیمان نے کہا۔
لیکن تم یہ ضرور سوچ رہے ہوں کہ تم امیر المومنین کے بھائی ہو ۔۔۔لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اور تمہاری اس حیثیت کی وجہ سے مجھے تم پر فخر کرنا چاہیے، یہ سن لو سلیمان میں اس آدمی پر فخر کرو گی جس کے دل میں میری محبت ہوگی، اور جو یہ نہیں دیکھے گا کہ اس کے باپ کا رتبہ کیا ہے ،اور میں کس باپ کی بیٹی ہوں۔
آج تم کیسی باتیں کر رہی ہو میری قمر۔۔۔ سلیمان نے اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر کہا ۔۔۔اتنی پیاری رات،،،،،،،
میں تم سے بھاگ نہیں رہی سلیمان!،،،، لبنیٰ نے کہا۔۔۔ اگر مجھے تم سے محبت نہ ہو تو اس طرح رات کو باہر نہ آ جایا کرو ں جس طرح آتی ہوں، کمرے کا دروازہ اندر سے بند ہے اور میں کھڑکی سے باہر نکل آتی ہوں، میں تمہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اب بچی نہیں رہی ،اور،،،،، اور سلیمان میں شاید بیان نہیں کر سکتی کہ میں کیا محسوس کررہی ہوں۔ مجھے بیوی بننا ہے اور تم جانتے ہو ہماری روایت کیا ہے۔
ہماری روایت یہ ہے کہ محبت ہو تو ہم شادی کر لیتے ہیں۔۔۔ سلیمان نے کہا۔۔۔ اور جو خلیفہ ہوتا ہے وہ ایک سے زیادہ بیویاں،،،،،
میں ان روایات کی بات نہیں کر رہی۔۔۔ لبنیٰ نے کہا۔۔۔ میں اسلام کی عسکری روایت کی بات کر رہی ہوں ،میں ان مجاہدین کی روایت کی بات کر رہی ہوں جنہوں نے فارس اور روم جیسی جنگی قوتوں کو ریزہ ریزہ کرکے سلطنت اسلامیہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا ،اب دیکھ لو ہم آپس میں پھٹ گئے ہیں، کہیں بغاوت ہوئی کہیں یورش ہوتی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رومیوں کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے ،کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے رومیوں کے ساتھ دوستی کا جو معاہدہ کیا ہے وہ کتنی کثیر رقم دے کر کیا ہے، ہم نے نقد قیمت ادا کر کے اپنے دشمن سے امن خریدا ہے ،ہم نے دراصل یہ معاہدہ کر کے دشمن پر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ اپنی زمین کے اور اپنے دین کے دفاع کے قابل نہیں رہے۔
اوہ میری قمر!،،،،،، سلیمان نے بے تاب ہو کر کہا۔۔۔ تم اس رومان پُررات کا اور میرے ارمان کا خون کر رہی ہو، تم جو اس چاندنی سے زیادہ حسین ہوں ایسی روکھی پھیکی اور بے مزہ باتیں کر کے اپنے حسن اور میری محبت پر کالی گھٹا کے سائے ڈال رہی ہو، تم کیا سمجھتی ہو کہ جو باتیں تم نے کہی ہے وہ مجھے معلوم نہیں، اور کیا تم نہیں جانتیں کہ اپنے بھائی کی وفات کے بعد میں نے مسند خلافت پر بیٹھنا ہے ۔
میں جا رہی ہو ۔۔۔لبنیٰ اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی مجھے اب جانا چاہیے ماں کو پتہ چل گیا تو،،،،،
وہ اپنے کمرے میں سو رہی ہے۔۔۔ سلیمان نے کہا ۔۔۔۔کیا ہو گیا تجھے قمر تو نے پہلے کبھی ایسے نہیں کیا تھا۔
وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ،لبنیٰ چل پڑی سلیمان اس کے پیچھے آیا ۔
کیا تم میری محبت کو ٹھوکرا کر جا رہی ہو؟
سلیمان نے پوچھا۔
نہیں سلیمان !،،،،،لبنیٰ نے روک کر کہا۔۔۔ میں نے تمہاری محبت کو نہیں ٹھکرایا، تم نے شادی کی بات کی ہے مجھے کچھ سوچنے دو،،،،، کچھ سوچنے دو سلیمان!،،،، وہ اپنے کمرے کی کھڑکی تک آئی اور کھڑکی کھول کر کمرے میں چلی گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>