⚔️ محمد بن قاسم 🗡️فاتح سندھ 🌴پہلی قسط 🕌
✍🏻تحریر: اسلم راہیؔ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عیسوی 630 ،8ہجری، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا تھا آپ حنین اور اوطاس کے مقام پر خونریز معرکہ لڑ کر طائف پہنچے تھے، طائف شہر کو محاصرے میں لینے سے کچھ پہلے خالد بن ولید شدید زخمی ہوگئے تھے، اس قدر شدید زخمی کے ان کے زندہ رہنے کی امید ماند پڑ گئی تھی، خالد زخمی ہو کر گھوڑے سے گرے تھے اور اپنے اور دشمن کے دوڑتے گھوڑے سے خالد کے اوپر سے گذر گئے تھے، خالد زندہ کیسے رہتے!
یہ حق و باطل کا وہ معرکہ تھا جس میں علی ابوبکر عمر اور عباس رضی اللہ تعالی عنہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مجاہدین اسلام کا مقابلہ جس کی قیادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں تھی طائف کے مشہور جنگجو قبیلہ ثقیف اور طائف کے گردونواح میں آباد قبیلہ ہوازن سے تھا، میدان جنگ میں ان دونوں قبیلوں کا سپہ سالار مالک بن عوف تھا، جس کی عمر 30 سال کے لگ بھگ تھی، سپہ سالاری کے لحاظ سے تیس سال عمر لڑکپن کی عمر سمجھی جاتی ہے لیکن مالک بن عوف اتنا ذہین آدمی تھا کہ وہ اسی عمر میں تجربے کار اور منجھا ہوا سپہ سالار بن گیا تھا، اس نے حنین اور اوطاس کے معرکوں میں مسلمانوں کو شکست کے کنارے تک پہنچا دیا تھا، مجاہدین کے لشکر کے ایک دو دستوں نے پسپائی اختیار کر لی تھی۔
خالد بن ولید موت و حیات کی کشمکش میں پڑے تھے جسم خون سے خالی ہو رہا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جا کے دیکٍھا تو آپﷺ نے خالد کے زخموں پر پھونک ماری خالد نے آنکھیں کھولیں پھر اٹھ کھڑے ہوئے زخموں کے باوجود خالد آخر تک اس جنگ میں شریک ہوئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس جنگ کی اگلی اور آخری کڑی طائف کا محاصرہ تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مجاہدین نے بے جگری سے جوابی حملے کیے تو ثقیف اور ہوازن تاب نہ لاسکے اور پسپا ہوگئے، ان کا مرکز طائف تھا جہاں جاکر وہ قلعہ بند ہو گئے، وہ پسپا تو ہو گئے تھے مگر ان کے حوصلے نہ ٹوٹے، مالک بن عوف نے اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خوف سے پسپا نہیں ہوا بلکہ وہ مسلمانوں کو اپنی مرضی کے میدان میں لڑائے گا۔
اٹھارہ روز محاصرہ جاری رہا مسلمانوں نے بڑھ بڑھ کر قلعے پر ہلے بولے اور دشمن کے تیر اندازوں کے تیروں سے زخمی اور شہید ہوتے رہے ،آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء سے مشورہ طلب کیا، ابوبکر اور عمر نے مشورہ پیش کیا کہ محاصرہ اٹھا کر واپسی کا راستہ اختیار کیا جائے، مگر جوشیلے اور جذباتی مسلمانوں نے اس مشورے کے خلاف احتجاج کیا وہ قلعہ سر کرنے پر تلے ہوئے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک اور حملہ کرنے کی اجازت دے دی مگر مجاہدین آگے بڑھے تو دیواروں کے اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگی، آگے جانا ناممکن ہوگیا بہت سے مجاہدین زخمی ہوگئے۔
آخر محاصرہ اٹھا لیا گیا۔
مسلمانوں نے ابھی اپنا پڑاؤ وہاں سے سمیٹا نہیں تھا، زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ان میں بیشتر شدید زخمی تھے جو سفر کے قابل نہیں تھے 20 فروری کے روز محاصرہ اٹھایا گیا اور 26 فروری کے روز مجاہدین کا لشکر جعرانہ پہنچا اور پڑاؤ کیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین کو کچھ آرام دینا چاہتے تھے ،شدید زخمیوں کو مرہم پٹی اور مکمل آرام کی ضرورت تھی۔
مسلمان ناکام لوٹ رہے تھے انہیں نہ صرف یہ کہ ناکامی ہوئی تھی بلکہ بہت سے مسلمان شہید ہو گئے، بہت سے ایسے زخمی ہوئے کہ عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے اور زخمیوں کی تعداد تو بے شمار تھی ،طائف کا شہر روز اول کی طرح کھڑا تھا اور شہر پناہ مسلمانوں کا مذاق اڑا رہی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پھر ایک معجزہ ہوا مسلمان ابھی جعرانہ کے پڑاؤ میں ہی تھے کہ ان کے دشمن قبیلے ہوازن کے چند ایک سرکردہ آدمی مسلمانوں کے پڑاؤ میں آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی استدعا کی کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا گیا اور چند ایک مجاہدین جنگی تلواریں اور برچھیاں لیے پاس کھڑے رہے کیونکہ ان آدمیوں کا کچھ اعتبار نہ تھا ،غیر مسلم قبائل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنتے ہی رہتے تھے۔
قبیلہ ہوازن پر یہ افتاد آپڑی تھی کہ طائف کے محاصرے سے پہلے ایک لڑائی میں انہیں پسپا ہونا پڑا تھا اور ان کا بہت سا مال اسباب عورتیں اور بچے مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے تھے، اس وقت کے رواج کے مطابق یہ سب مال غنیمت تھا جو ہوازن واپس نہیں لے سکتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ کوئی آدمی جنگ کے بعد اسلام قبول کر لے تو بھی اسے یہ حق دیا جائے گا کہ وہ اپنا مال واپس لے لے۔
اے محمد!،،،،، ہوازن کے اس وفد کے سرکردہ آدمی نے کہا ۔۔۔ہم نے اپنے پورے قبیلے کے ساتھ تجھے اللہ کا بھیجا ہوا رسول مان لیا ہے، ہمارا پورا قبیلہ تیرے مذہب میں داخل ہوچکا ہے ۔
خدا کی قسم ۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔۔۔ تم نے فلاح کی راہ پائی ہے اور یہی صراط مستقیم ہے۔
اے محمد کہ تو اللہ کا رسول ہے ۔۔۔وفد کے قائد نے پوچھا۔۔۔کیا ہمیں ہماری عورتیں اور ہمارے بچے اور ہمارے مال و اموال واپس نہیں کرے گا۔
ہم سے لڑ کر اور ہمارے آدمی قتل اور زخمی کرکے جو تو نے کھویا ہے اس پر تمہارا کوئی حق نہیں۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔۔۔ لیکن میں اس اللہ کے نام پر جسے تم نے وحدہ لاشریک اور معبود مان لیا ہے۔ تمہارا دل نہیں توڑوں گا ۔کیا تمہیں اپنے مال و اموال عزیز ہے یا عورتیں اور بچے؟
ہمیں ہماری عورتیں اور بچے دے دے۔۔۔ وفد نے کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیاضی کا مظاہرہ کیا اور حکم دیا کے قبیلہ ہوازن کو ان کی عورتیں اور ان کے بچے واپس کر دیے جائیں، اہل ہوازن کو توقع نہیں تھی کہ ان کی عورتیں اور بچے انہیں مل جائیں گے، اور پورے کا پورا قبیلہ ہوازن مسلمان ہو گیا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس کے دو تین روز بعد ایک اجنبی مسلمانوں کے پڑاؤ میں داخل ہوا اس نے سر اور چہرے پر جو کپڑے لپیٹ رکھا تھا اس میں سے اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں، اسے روکا گیا تو اس نے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتا ہے۔
کیا تو طائف سے نہیں آیا؟،،،، ایک مسلمان نے اس سے پوچھا۔
میں طائف کی طرف سے آیا ہوں ۔۔۔اجنبی نے کہا۔
یہ مسلمان ان چند ایک مجاہدین میں سے تھا جو گدڑیوں اور شتربانوں کے بھیس میں طائف کے اردگرد گھومتے پھرتے رہتے تھے۔
خطرہ تھا کہ طائف سے اہل ثقیف نکل کر مسلمانوں کے پڑاؤ پر بے خبری میں حملہ کردیں ۔
اس مجاہد نے اس آدمی کو طائف کے ایک دروازے سے نکلتے دیکھا پھر اسے مسلمانوں کی خیمہ گاہ کی طرف جاتے دیکھا تو اس کے پیچھے چل پڑا اس کی نظر میں یہ آدمی مشکوک تھا ۔
اور میں نے تجھے طائف کے دروازے سے نکلتے دیکھا ہے ۔۔۔مجاہد نے کہا ۔۔۔خدا کی قسم تو اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
میں جس ارادے سے آیا ہوں وہ میں پورا کرکے ہی جاؤں گا۔۔۔ اجنبی نے کہا ۔۔۔کیا تم مجھے رسول اللہ تک نہیں پہنچاؤ گے؟
لیکن اپنا چہرہ تو کیوں نہیں دیکھاتا ؟
اجنبی نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا۔
خدا کی قسم!،،،، مجاہد نے کہا۔۔۔ تو مالک بن عوف ہے ہم تجھے نہیں روک سکتے ۔ دو تین مجاہدین اس کے ساتھ ہو لئے اور اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے تک پہنچا دیا گیا۔
بن عوف!،،،، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔۔۔ کیا تو صلح کا پیغام لایا ہے یا کسی اور ارادے سے آیا ہے؟
میں تیرے مذہب میں داخل ہونے کے لیے آیا ہوں۔۔۔ مالک بن عوف نے کہا۔
اور طائف کے مشہور و معروف اور جنگجو قبیلہ ثقیف کے سردار مالک بن عوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسلام قبول کر لیا۔
مؤرخ اس معاملے میں خاموش ہیں کہ مالک بن عوف نے اسلام قبول کیوں کیا تھا، اس پر کوئی جبر نہ تھا اس نے تو مسلمانوں کا محاصرہ ناکام کردیا اور انہیں واپس چلے جانے پر مجبور کر دیا تھا ،اسے مسلمان ہونے کی کیا ضرورت تھی ،شاید وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سلوک سے متاثر ہوا تھا جو آپ نے ہوازن کے وفد کے ساتھ کیا تھا۔ بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ثقیف کے سردار مالک بن عوف نے اسلام قبول کر لیا اور وہ کئی جنگوں میں شریک ہوا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
طائف شہر آج بھی موجود ہے تاریخ میں اس کی اہمیت اتنی سی ہے کہ آج سے چودہ سو دن پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر کا محاصرہ کیا تھا اور اہل طائف نے ایسی بے جگری سے مقابلہ کیا تھا کہ مسلمانوں کو محاصرہ اٹھا کر واپس آنا پڑا تھا، لیکن اللہ تبارک وتعالی نے چونسٹھ برس بعد اس شہر کو وہ سعادت بخشی کہ طائف تاریخ اسلام کا ایک سنگ میل بن گیا، مالک بن عوف کا قبول اسلام اس سعادت کا پیش خیمہ تھا۔
694عیسوی کا واقعہ ہے طائف کی ایک عورت کے بطن میں ایک بچے کے آثار نمودار ہوئے، اس کا خاوند فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا وہ کچھ دنوں کے لیے گھر آیا تو بیوی نے اسے بتایا کہ وہ امید سے ہے۔
میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس سے پریشان ہوں۔۔۔ اس عورت نے اپنے خاوند سے کہا۔۔۔میں دیکھتی ہوں کہ میرا گھر اچانک تاریک ہو گیا ہے، ایسی تاریکی کے اپنا آپ بھی دکھائی نہیں دیتا، دل خوف اور گھبراہٹ سے ڈوب رہا ہے، دل کہتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے، کیا ہوگا پتا نہیں چلتا میں گھر میں اکیلی کسی کو پکارنا چاہتی ہوں تو منہ سے آواز نہیں نکلتی، بھاگ کے باہر جانا چاہتی ہو تو قدم نہیں اٹھتے ،سوچتی ہوں کیا کروں تو کچھ سوچا نہیں جاتا،،،،،،،،
اللہ کو یاد کرتی ہوں آواز تو نہیں نکلتی لیکن دل سے دعا نکلتی ہے، پھر دور اوپر آسمان پر ایک ستارہ نظر آتا ہے جو پہلے تو مدھم تھا پھر روشن ہو جاتا ہے یہی ایک روشنی ہے جو گھپ تاریکی میں نظر آتی ہے، امید کی کرن کی طرح ستارہ روشن ہوتا جاتا ہے اور ستارہ نیچے کو آ رہا ہے، تاریکی کم ہوتی جاتی ہے آخر ستارہ روشنی کے ایک گولے کی شکل میں ہمارے صحن میں اتر آتا ہے، اور روشنی ہمارے سارے گھر میں پھیل جاتی ہے، یہ روشنی زمین کی روشنی نہیں لگتی آسمان کا نور لگتی ہے، دل سے خوف اتر جاتا ہے روح کو سکون ملتا ہے اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
خواب برا تو نہیں۔۔۔۔ اس عورت کے خاوند نے کہا۔
مگر یہ تاریکی کیسی تھی۔۔۔ عورت نے پوچھا۔۔۔ اور کہا۔۔۔ تاریکی یاد آتی ہے تو دل گھبرانے لگتا ہے، کیا تم کسی ایسے عالم کو یا کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتے جو خوابوں کی تعبیر بتا سکتا ہو۔
لوح تقدیر کا لکھا ہوا کوئی مٹا نہیں سکتا۔۔۔ خاوند نے کہا۔۔ تعبیر اچھی نہ ہوئی تو اسے ٹال سکے گی۔
شاید اچھی ہو۔۔۔ بیوی نے کہا۔۔۔ پوچھ تو لو۔
بیوی نے ایسی ضد کی کہ خاوند طائف کے ایک بزرگ اسحاق بن موسی کے پاس گیا اور اپنی بیوی کا خواب بیان کیا ،اسحاق بن موسی علم نجوم اور خوابوں کے تعبیر کے علم کا عالم تھا، اس نے خواب سنا اور اپنے خیال میں کھو گیا اس نے اس آدمی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پھیلایا اور اس کی لکیر غور سے دیکھنے لگا وہ افسردہ سا ہو گیا اور اس نے اس آدمی کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
بولو ابن موسی!،،،،،،ہونے والے کے بچے کے باپ نے کہا۔۔۔ تعبیر بری ہے تو بھی بتادے۔
تعبیر بری نہیں!،،،،،، اسحاق بن موسی نے کہا۔۔۔ تیری بیوی کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا وہ روشن ستارے کی مانند ہوگا جسے ساری دنیا دیکھے گی وہ اللہ کے نور کو دور دور تک پھیلائے گا ،صدیوں بعد آنے والی نسلیں بھی اسے یاد کریں گے اور تجھے لوگ اس کے نام سے پہچانے گے اس کے حکم سے کمان سے نکلے ہوئے تیر بہت دور پہنچیں گے،،،،،اسحاق بن موسی چپ ہو گیا۔
وہ کچھ دیر چپ رہا وہ اس طرح بولتے بولتے چپ ہو گیا جیسے کوئی بات اس نے اپنے دل میں رکھ لی ہو۔
خدا کی قسم ابن اسحاق!،،،،، ہونے والے بچے کے باپ نے کہا ،،،،تیری خاموشی بے معنی نہیں ہے، بری خبر سننے کے لیے بھی تیار ہوں مجھے وسوسوں میں نہ رکھ، تیرے علم نے جو دیکھا ہے وہ بتا دے ۔
پھر سن لے۔۔۔ موسی نے کہا ۔۔۔ستارہ جو تیرے گھر میں آرہا ہے وہ ان ستاروں میں سے ہے جو جلدی ٹوٹ جاتے ہیں اور آسمان کی وسعتوں میں گم ہوجاتے ہیں، مگر اس کا جسم گم ہوگا اس کا نام زندہ رہے گا ،اور اس کے ٹوٹ جانے سے تیرے گھر میں تاریکی نہیں ہوگی، وہ نہیں ہوگا تو بھی لوگ کہیں گے کہ وہ ہے۔
میں اس کی پرورش ایسی کرونگا کہ وہ اسلام کے آسمان کا روشن ستارہ بنے۔۔۔ بچے کے باپ نے کہا۔۔۔
یہ بھی سن لے۔۔۔ اسحاق بن موسی نے کہا۔۔۔ اس کی پرورش تو نہیں کرے گا اس کی ماں کرے گی۔
میں کیوں نہیں کرونگا؟،،،، خواب دیکھنے والی عورت کے خاوند نے پوچھا ۔۔۔میں کہاں چلا جاؤں گا۔
میں جو بتا سکتا تھا بتادیاہے۔۔۔ اسحاق ابن موسی نے کہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ آدمی تعبیر سن کر اٹھ آیا اور اپنی بیوی کو تعبیر بتائی، بیوی خوش تو بہت ہوئی لیکن اس خیال سے مغموم ہو گئی کہ جس بیٹے کو وہ جنم دے گی اس بیٹے کی عمر تھوڑی ہو گی۔
بچے کی پیدائش میں کچھ دن باقی تھے کہ باپ کو جنگ پر بھیج دیا گیا اور وہ دشمن کے ہاتھوں مارا گیا، اسحاق بن موسی کی یہ پیشن گوئی پوری ہوگئی کہ بچے کی پرورش باپ نہیں کرے گا ما کرے گی، بعد میں اسحاق بن موسی نے کہا تھا کہ خواب میں گھر میں جو تاریکی دیکھی گئی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ موت اس گھر کو تاریخ کرے گی ،پھر آسمان سے ایک ستارہ اتر کر اس گھر کو روشن کرے گا۔
باپ کی وفات طائف سے دور ہوئی اس کے چند روز بعد بچّہ پیدا ہوا ،وہ لڑکا تھا ،بچے تو خوبصورت ہی ہوا کرتے ہیں یہ بچہ بھی خوبصورت تھا، لیکن اس کی چوڑی پیشانی اور آنکھوں کو جس نے بھی دیکھا اس نے کہا یہ عام بچوں جیسا نہیں
اس باپ کا نام جو اپنے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو گیا تھا قاسم بن یوسف تھا، بچے کا نام محمد رکھا گیا جو محمد بن قاسم کہلایا، اور جو تاریخ اسلام کا ایک روشن ستارہ بنا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قاسم بن یوسف اور حجاج بن یوسف دو بھائی تھے ،اس وقت خلیفہ عبد الملک بن مروان تھا۔ دونوں بھائی بڑے جرات مند اور فنِ حرب و ضرب کے ماہر تھے، فوج میں دونوں اعلی عہدوں پر فائز تھے، یہ اس دور کا ذکر ہے جب مسلمان آپس میں پھٹ چکے تھے ،بھائی بھائی کا دشمن ہو چکا تھا ،یہاں تک کہ خلافت کے بھی دو حصے ہوگئے تھے، خلافت شام اور مصر تک محدود تھی ،عبداللہ بن زبیر نے عراق اور حجاز میں اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی تھی، اور اس نے اموی خلافت کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھا۔
عبداللہ بن زبیر خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نامور نواسا تھا ۔ اس نے یزید بن امیر معاویہ کی بیعت سے بھی انکار کیا تھا ،اور حجاز اور عراق میں مسلمانوں کو جمع کرکے متوازی حکومت کر لی تھی ، یزید کے بیٹے معاویہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا تو بنو امیہ کی باقاعدہ خلافت کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ہی خانوادہ رسول اور خصوصا بنی فاطمہ رضی اللہ عنہ پر ظلم و ستم کے ایک دور کا آغاز ہو گیا ، عبداللہ بن زبیر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بڑی بہن اسماء کے فرزند تھے، ایک پہاڑ کے طرح اس ظلم و ستم کے آگے آ گئے۔
امویوں نے عبداللہ بن زبیر کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے پہلے عراق پر فوج کشی کی اور پھر حجاز مقدس پر حملہ کیا، دونوں حملوں میں اموی فوج کی کمان حجاج بن یوسف کے ہاتھ میں تھی، عبداللہ بن زبیر کو حصار سے نکالنے کے لئے حجاج بن یوسف نے خانہ کعبہ پر منجیقوں سے سنگ باری بھی کرائی جس سے بیت اللہ کی عمارت کو نقصان پہنچا ،آخر ایک خونریز معرکے کے بعد عبداللہ بن زبیر نے اپنی جان اپنے مقاصد کے خاطر قربان کردی۔ حجاج بن یوسف جو ظلم و ستم کے مقابلے میں اس دور میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کی حکومت کو بدامنی سے محفوظ رکھنے کے لیے اختلاف رائے رکھنے والوں اور خلافت کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو عبرت ناک سزائیں دیا کرتا تھا، اس نے عبداللہ بن زبیر کو عبرت کی مثال بنانے کے لئے ان کی لاش کی بے حرمتی کی، اور لاش کے سارے جوڑ الگ الگ کرکے ان کے مردہ وجود کو چوراہے پر لٹکا دیا، جو کئی دن تک لٹکا رہا، اور حجاج بن یوسف کے خوف سے لوگوں نے ان کو نہ اتارا۔
عبداللہ کی والدہ اسماء بنت ابوبکر جو اس وقت ضعیف تھی اور نابینا بھی، لاٹھی ٹیکتی ہوئی اس چوراہے پر پہنچیں جہاں ان کے فرزند کی لاش لٹک رہی تھی، انہوں نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے لاش کو ٹٹولا اور پھر عربی کا وہ شعر پڑھا جس کا ترجمہ ہے۔
یہ کون شہسوار ہے جو ابھی تک گھوڑے سے نہیں اترا۔
عبداللہ بن زبیر کے بعد حجاز اموی خلافت کے زیر نگیں آ گیا، اور حجاج بن یوسف کو اس کا گورنر مقرر کیا گیا ،اس کے گورنر بنتے ہی صوبے میں امن و امان قائم ہو گیا ،ادھر عراق میں خارجیوں نے شور بپا کر رکھی تھی خلیفہ نے ان کی سرکوبی کے لیے بھی حجاج کو ہی مامور کیا ایک طویل جنگ کے بعد حجاج کو فتح نصیب ہوئی۔
حجاج کو اس جنگ میں یہ نقصان اٹھانا پڑا کے اس کا عزیز بھائی جو ان جنگوں میں اس کا دست راست بھی تھا خارجیوں کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا ،اور اسے اپنے گھر میں طلوع ہونے والے اس روشن ستارے کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا ،جس نے بعد میں اپنے چچا حجاج کے ظلم و ستم کی داستانوں کو لوگوں کے ذہنوں سے محو کردیا ،اور شجاعت اور دلیری کی ایسی مثال پیش کی کہ بے دین دشمنوں نے اسے پوجنا شروع کردیا ۔
محمد بن قاسم حجاج بن یوسف ثقفی کا بھتیجا اور قاسم بن یوسف کا نور نظر تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
cxxx{}::::::::::::جاری ہے:::::::::::::::>