تعارف سورة صٓ
اس سورت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے جو معتبر روایتوں میں بیان کیا گیا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابوطالب اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تھے، لیکن اپنی رشتہ داری کے حق کو نبھانے کے لئے آپ کی مدد بہت کرتے تھے، ایک مرتبہ قریش کے دوسرے سردار ابوطالب کے پاس وفد کی شکل میں آئے اور کہا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑدیں تو ہم انہیں ان کے اپنے دین پر عمل کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، حالانکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بتوں کو اس کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے کہ ان میں کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں، اور ان کو خدا ماننا گمراہی ہے، چنانچہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجلس میں بلاکر آپ ک سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو آپ نے ابو طالب سے فرمایا کہ چچا جان کیا میں انہیں اس چیز کی دعوت نہ دوں جس میں ان کی بہتری ہے، ابوطالب نے پوچھا وہ کیا چیز ہے، آپ نے فرمایا میں ان سے ایک ایسا کلمہ کہلانا چاہتا ہوں جس کے ذریعے سارا عرب ان کے آگے سرنگوں ہوجائے، اور یہ پورے عجم کے مالک ہوجائیں، اس کے بعد آپ نے کلمہ توحید پڑھا، یہ سن کر تمام لوگ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے، اور کہنے لگے کہ کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر ایک کو اختیار کرلیں، یہ تو بڑی عجیب بات ہے، اس موقع پر سورة صٓ کی آیات نازل ہوئیں، اس کے علاوہ اس سورت میں مختلف پیغمبروں کا بھی تذکرہ ہے جن میں حضرت داؤو اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے واقعات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔