تعارف سورة الاحزاب
یہ سورت حضور سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد چوتھے اور پانچویں سال کے درمیان نازل ہوئی ہے، اس کے پس منظر میں چار واقعات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں جن کا حوالہ اس سورت میں آیا ہے، ان چار واقعات کا مختصر تعارف درج ذیل ہے، تفصیلات انشاء اللہ متعلقہ آیتوں کی تشریح میں آگے آئیں گے۔ پہلا واقعہ جنگ احزاب کا ہے، جس کے نام پر اس سورت کا نام رکھا گیا ہے، بدر واحد کی ناکامیوں کے بعد قریش کے لوگوں نے عرب کے دوسرے قبائل کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اکسایا، اور ان کا ایک متحدہ محاذ بناکر مدینہ منورہ پر حملہ کیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان فارسی (رض) کے مشورے پر مدینہ منورہ کے دفاع کے لئے شہر کے گرد ایک حندق کھودی تاکہ دشمن اسے عبور کرکے شہر تک نہ پہنچ سکے، اسی لئے اس جنگ کو جنگ خندق بھی کہا جاتا ہے، اس جنگ کے اہم واقعات اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، اور اس موقع پر مسلمانوں کو جس شدید آزمائش سے گزرنا پڑا، اس کی تفصیل بھی بیان فرمائی گئی ہے۔ دوسرا اہم واقعہ جنگ قریظہ کا ہے، قریظہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ منورہ کے مضافات میں آباد تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے بعد ان سے امن کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کے دشمنوں کی مدد نہیں کریں گے، لیکن قریظہ کے یہودیوں نے معاہدے کی دوسری خلاف ورزیوں کے علاوہ جنگ احزاب کے نازک موقع پر خفیہ ساز باز کرکے پیچھے سے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپنا چاہا، اس لئے جنگ احزاب سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ فوراً قریظہ پر حملہ کرکے ان آستین کے سانپوں کا قلع قمع فرمائیں، چنانچہ آپ نے ان کا محاصرہ فرمایا، جس کے نتیجے میں ان کے بہت سے افراد قتل ہوئے اور بہت سے گرفتار، اس واقعے کی بھی تفصیل اس سورت میں آئی ہے۔ تیسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ اہل عرب جب کسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیتے تو اسے ہر معاملے میں سگے بیٹے کا درجہ دیتے تھے، یہاں تک کہ وہ میراث بھی پاتا تھا، اور اس کے منہ بولے باپ کے لئے جائز نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس کی بیوہ یا مطلقہ بیوی سے نکاح کرے، بلکہ اس کو بدترین معیوب عمل سمجھا جاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی، عرب کی یہ جاہلانہ رسمیں دلوں میں ایسا گھر کرگئی تھیں کہ ان کا خاتمہ صرف زبانی نصیحت سے نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی رسموں کا خاتمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے خود علی الاعلان ان رسموں کے خلاف عمل فرمایا تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ اگر اس کام میں ذرا بھی کوئی خرابی ہوتی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس بھی نہ جاتے، اس کی بہت سی مثالیں آپ کی سیرت طیبہ میں موجود ہیں، منہ بولے بیٹے کے بارے میں جو رسم تھی، اس کے سد باب کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنے ایک منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ (رض) کی مطلقہ بیوی حضرت زینب بنت جحش (رض) سے نکاح فرمائیں، واضح رہے کہ حضرت زینب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپی کی بیٹی تھیں، اور حضرت زید (رض) سے ان کا نکاح خود آپ نے کروایا تھا، اس لئے اگرچہ اب ان سے نکاح کرنا آپ کے لئے صبر آزما عمل تھا ؛ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور دینی مصلحت کے آگے سر جھکادیا، اور ان سے نکاح کرلیا، اسی نکاح کے ولیمے میں حجاب (پردے) کے احکام پر مشتمل آیات نازل ہوئیں جو اس سورت کا حصہ ہیں۔ چوتھا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات نے اگرچہ ہر طرح کے سرد گرم حالات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھر پور ساتھ دیا، لیکن جب آپ کے پاس مختلف فتوحات کے نتیجے میں مالی طور پر وسعت ہوئی تو انہوں نے اپنے نفقے میں اضافے کا مطالبہ کردیا، یہ مطالبہ عام حالات میں کسی بھی طرح کوئی ناجائز مطالبہ نہیں تھا لیکن پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا شرف رکھنے والی ان مقدس خواتین کا مقام بلند اس قسم کے مطالبات سے بالاتر تھا۔ اس لئے اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی زیب وزینت چاہتی ہیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں اعزاز واکرام کے ساتھ علیحدہ کرنے کو تیار ہیں، اور اگر وہ پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کی ساتھی ہیں اور آخرت کے انعامات کی طلب گار ہیں تو پھر اس قسم کے مطالبے ان کو زیب نہیں دیتے۔ چونکہ حضرت زینب (رض) سے نکاح کے واقعے پر کفار اور منافقین نے آپ کے خلاف اعتراضات کئے تھے، اس لئے اسی سورت میں حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام بلند بتایا گیا ہے، اور آپ کی تعظیم و تکریم اور اطاعت کا حکم دے کر یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ آپ جیسی عظیم شخصیت پر نادانوں کے یہ اعتراضات آپ کے مقام بلند میں ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتے، اس کے علاوہ ازواج مطہرات (رض) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل اور اس سے متعلق بعض تفصیلات بھی اس سورت میں بیان ہوئی ہیں۔