تعارف سورہ یوسف


 تعارف  سورہ یوسف 


یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کروایا تھا کہ بنو اسرائیل کے لوگ جو فلسطین کے باشندے تھے، مصر میں جاکر کیوں آباد ہوئے ؟ ان لوگوں کا خیال تھا کہ آپ کے پاس چونکہ بنو اسرائیل کی تاریخ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس لیے آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے، اور اس طرح آپ کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ (معاذ اللہ) سچے نبی نہیں ہیں۔ اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ پوری سورة یوسف نازل فرما دی جس میں پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے۔ دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے، انہی کا دوسرا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کے بارہ صاحبزادے تھے، انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے۔ اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی بنیامین بھی شامل تھے۔ ان دونوں کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کر کے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ایک کنویں میں ڈال دیا، جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھا کر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا، شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے، لیکن اس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آرہی ہے، اس سردار کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا، اور انہیں نہ صرف جیل سے نکال کر باعزت بری کردیا، بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا، اور بعد میں حکومت کے سارے اختیارات انہی کو سونپ دیے۔ اس کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو فلسطین سے مصر بلوا لیا۔ اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔ سورة یوسف کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا پورا واقعہ ایک ہی تسلسل میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اور تقریبا پوری سورت اسی کے لیے وقف ہے، اور یہ واقعہ کسی اور سورت میں نہیں آیا۔ اس واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرما دی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ یہ بات ان پر بھی واضح تھی کہ اس واقعے کا علم ہونے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا، لہذا یہ تفصیل آپ کو وحی کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، ان کے پیش نظر اس واقعے میں آپ کے لیے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہی کو عزت، شوکت اور سربلندی عطا فرمائی، اور جن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایا تھا، ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں، لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے، اور حق غالب ہو کر رہے گا۔ اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لیے بہت سے سبق ہیں، اور شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی