تعارف سورہ القصص
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت میں ہے کہ یہ سورت سورة نمل (سورت نمبر ٢٧) کے بعد نازل ہوئی تھی، اور مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری سورت ہے جو مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے نازل ہوئی، کیونکہ اس کی آیت نمبر ٨٥ اس وقت نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کی غرض سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ سورت کا مرکزی موضوع حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی دعوت کی سچائی کو ثابت کرنا ہے۔ سورت کی پہلی ٤٣ آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ابتدائی زندگی کی وہ تفصیلات بیان فرمائی گئی ہیں جو کسی اور سورت میں بیان نہیں ہوئیں۔ اس واقعے کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد آیات ٤٤ تا ٤٧ میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ان واقعات کو اتنی تفصیل سے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اس کے باوجود جب آپ یہ واقعات بیان فرما رہے ہیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ کفار مکہ کی طرف سے آپ کی نبوت اور رسالت پر جو اعتراضات کیے جاتے تھے، ان کا شافی جواب بھی اس سورت میں دیا گیا ہے، اور آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ ضد پر اڑے ہوئے ہیں، ان کے طرز عمل کی کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔ پھر کفار مکہ جن جھوٹے خداؤں پر ایمان رکھتے تھے، ان کی تردید کی گئی ہے۔ قریش کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت پر غرور کی وجہ سے بھی آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔ ان کی عبرت کے لیے آیات ٧٦ تا ٨٢ میں قارون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند شخص تھا، لیکن اس کی دولت اسے تباہی سے نہ بچا سکی جو غرور اور ضد کے نتیجے میں اس پر آکر رہی۔ سورت کے آخر میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگرچہ اس وقت آپ بےسروسامانی کی حالت میں مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو فاتح کی حیثیت سے دوبارہ مکہ مکرمہ واپس آنے کا موقع عنایت فرمائے گا۔ یہ سورت مکی ہے اور اس میں اٹھاسی آیتیں اور نو رکوع ہیں