تعارف سورہ النحل
اس سورت کا بنیادی موضوع اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا مفصل بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ اسی لیے اس سورت کو سورة النعم (نعمتوں کی سورت) بھی کہا جاتا ہے۔ عرب کے مشرکین عام طور سے یہ مانتے تھے کہ ان میں سے بیشتر نعمتیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں وہ بت بھی شریک ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا تذکرہ فرما کر انہیں توحید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ایمان نہ لانے کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ یہ سورت جس زمانے میں نازل ہوئی، اس وقت بہت سے مسلمان کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے تھے۔ آیت نمبر ٤١ و ٤٢ میں ان کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے مصائب و آلام کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اور انہیں دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا عطا ہوگا، اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا اجر وثواب ہے، بشرطیکہ وہ صبر سے کام لیں، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ سورت کے آخری حصے میں اسلامی شریعت کے کچھ اہم احکام بھی بیان فرمائے گئے ہیں جو ایک مسلمان کے طرز عمل کی بنیاد ہونے چاہیئں۔ نحل عربی میں شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر ٦٨ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے شہد کی مکھی کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کے حکم سے پہاڑوں اور جنگلوں میں اپنے چھتے بناتی اور شہد پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے سورت کا نام نحل رکھا گیا ہے۔