تعارف سورہ الحجر
اس سورت کی آیت نمبر ٩٤ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی، کیونکہ اس آیت میں پہلی بار آپ کو کھل کر اسلام کی عام تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ سورت کے شروع میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے، اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا جب وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اسلام لے آتے۔ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی ( معاذ اللہ) مجنون کہتے، اور کبھی کاہن قرار دیتے تھے۔ ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہانت کی حقیقت آیت نمبر ١٧ اور ١٨ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ان لوگوں کے کفر کی اصل وجہ ان کا تکبر تھا، اس لیے ابلیس کا واقعہ آیات نمبر ٢٦ تا ٤٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے تکبر نے کس طرح اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کیا۔ کفار کی عبرت کے لیے حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت صالح (علیہم السلام) کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کافروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے۔ ان کا فریضہ اتنا ہے کہ وہ موثر انداز میں تبلیغ کریں، جو وہ بہترین طریقے پر انجام دے رہے ہیں۔ نتائج کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے۔ سورت کا نام قوم ثمود کی بستیوں کے نام پر رکھا گیا ہے جو حجر کہلاتی تھیں، اور ان کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر ٨٠ میں آیا ہے۔